وہ نوشتہ جو لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے وہ حکم جو جاری کر دیا گیا ہے اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ گنہگاروں کی بستیاں یقینا ویران کر دی جائیں گی یا ان کے گناہوں کی وجہ سے تباہی کے قریب ہو جائیں گی اس میں ہماری جانب سے کوئی ظلم نہ ہو گا بلکہ انکے اپنے کرتوت کا خمیازہ ہو گا ، رب کی آیتوں اور اسکے رسولوں سے سرکشی کرنے کا پھل ہو گا ۔
58۔ 1 کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات طے شدہ ہے، جو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے کہ ہم کافروں کی ہر بستی کو یا تو موت کے ذریعے سے ہلاک کردیں گے اور بستی سے مراد، بستی کے باشندگان ہیں اور ہلاکت کی وجہ ان کا کفر و شرک اور ظلم و طغیان ہے۔ علاوہ ازیں یہ ہلاکت قیامت سے قبل وقوع پذیر ہوگی، ورنہ قیامت کے دن تو بلا تفریق ہر بستی ہی شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گی۔
[٧٢] قیامت سے پہلے سب بستیوں کی تباہی :۔ یعنی کچھ بستیاں تو ایسی ہیں جو عذاب میں ماخوذ ہو کر تباہ کی جاچکی ہیں اور قیامت سے پہلے باقی موجود سب بستیوں کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے اور چونکہ قیامت آنے سے پہلے نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائے گا اور قیامت شرار الناس پر قائم ہوگی لہذا قیامت کو یہ نظام کائنات درہم برہم کرنے سے پیشتر ایسی شریر بستیوں کو پہلے ہی عذاب سے ہلاک کردیا جائے گا۔
وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا ۔۔ : ابن کثیر (رض) اور کئی مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں شروع سے لکھ دیا ہے کہ ہر بستی جو ظلم پر اتر آئے، قیامت سے پہلے یا تو ہم اسے ہلاک کردینے والے ہیں کہ اس کے تمام رہنے والوں کو تباہ و برباد کردیں، یا انھیں سخت عذاب دینے والے ہیں، باہمی قتل و غارت کے ساتھ، یا دشمن کے حملے سے، یا جس مصیبت سے ہم چاہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ اقوام کا ذکر فرمایا، سورة طلاق میں ہے : (وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِيْدًا ۙ وَّعَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا ) [ الطلاق : ٨، ٩ ] ” اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا محاسبہ کیا، بہت سخت محاسبہ اور انھیں ایسی سزا دی جو دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔ تو انھوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام خسارہ تھا۔ “ سورة ہود میں ہے : (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) [ ھود : ١٠٢ ] ” اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے، جب وہ بستیوں کو اس حال میں پکڑتا ہے کہ وہ ظالم ہوتی ہیں، بلاشبہ اس کی پکڑ بڑی دردناک، نہایت سخت ہے۔ “ - دوسرے مفسرین نے اس کی تفسیر اور طرح سے کی ہے، ان میں صاحب روح المعانی بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں ” وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ “ (جو بھی بستی ہے) سے مراد ظاہر ہے کہ عام ہے، کیونکہ ” اِنْ “ نافیہ ہے اور ” مِنْ “ تمام بستیوں کو شامل کرنے کے لیے ہے، خواہ مومنوں کی ہوں یا کفار کی اور مطلب یہ ہے کہ بستیوں میں سے جو بھی بستی ہے ہم قیامت سے پہلے اسے یا تو اس کے رہنے والوں کی طبعی موت کے ساتھ ویران کردینے والے ہیں، یا اسے قتل اور مختلف مصائب کے ساتھ سخت عذاب دینے والے ہیں، نیکوں کے لیے ہلاکت اور بروں کے لیے عذاب۔ - پہلی تفسیر زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد کفار اور ظالموں کی بستیاں ہیں، کیونکہ بہت سی آیات اس کی تائید کرتی ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَمَا كُنَّا مُهْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ ) [ القصص : ٥٩ ] ” اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں مگر اس صورت میں کہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں۔ “ اور فرمایا : (ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ ) [ الأنعام : ١٣١ ] ” یہ اس لیے کہ بیشک تیرا رب کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں، جبکہ اس کے رہنے والے بیخبر ہوں۔ “ اور فرمایا : (وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ ) [ ھود : ١١٧ ] ” اور تیرا رب ایسا نہ تھا کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کر دے، اس حال میں کہ اس کے رہنے والے اصلاح کرنے والے ہوں۔ “ آیت سے مقصود کفار اور ظالموں کو ان کے انجام بد سے ڈرانا ہے کہ خواہ تم کتنے ہی امن سے رہتے ہو مگر ایک نہ ایک دن تم پر ہماری گرفت ضرور آنے والی ہے۔ آیت میں ان نشانیوں کی طرف بھی اشارہ ہے جو قیامت سے پہلے رونما ہونے والی ہیں۔
وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا 58- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - كتب) حكم)- قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] ، - ( ک ت ب ) الکتب ۔- اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے - اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔ - سطر - السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر :- 233-- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5]- ( س ط ر ) السطر - والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔
(٥٨) کوئی بستی ایسی نہیں جس کے رہنے والوں کو ہم ہلاک نہ کردیں یا ان کو تلوار اور دیگر بیماریوں کا سخت ترین عذاب نہ دیں ان کی ہلاکت اور ان پر عذاب کا نازل ہونا لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔
آیت ٥٨ (وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا )- یہ اشارہ ہے اس بہت بڑی تباہی کی طرف جو قیامت سے پہلے اس دنیا پر آنے والی ہے۔ سورة الکہف کی دوسری آیت میں اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : (لِیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ ) ۔ سورة بنی اسرائیل اور سورة الکہف کا آپس میں چونکہ زوجیت کا تعلق ہے اس لیے یہ مضمون ان دونوں آیات کو ملا کر پڑھنے سے واضح ہوتا ہے۔ احادیث میں الملحمۃ العُظمٰی کے نام سے ایک بہت بڑی جنگ کی پیشین گوئی کی گئی ہے جو قیامت سے پہلے دنیا میں برپا ہوگی۔ آیت زیر نظر میں اسی تباہی کا ذکر ہے جس سے روئے زمین پر موجود کوئی بستی محفوظ نہیں رہے گی۔ سورة الکہف میں زیادہ صراحت کے ساتھ اس کا تذکرہ آئے گا۔ - اس وقت دنیا میں ایٹمی جنگ چھڑنے کا امکان ہر وقت موجود ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی وقت ایسا سانحہ رونما ہوجاتا ہے تو ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے دنیا پر جو تباہی آئے گی اس کو تصور میں لانا بھی مشکل ہے۔ ان حالات میں الملحمۃ العُظمٰی کے بارے میں پیشین گوئیاں آج مجسم صورت میں سامنے کھڑی نظر آتی ہیں۔- (كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا)- یعنی یہ طے شدہ امور میں سے ہے۔ ایک وقت معین پر یہ سب کچھ ہو کر رہنا ہے۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :66 یعنی بقائے دوام کسی کو بھی حاصل نہیں ہے ۔ ہر بستی کو یا تو طبعی موت مرنا ہے ، یا خدا کے عذاب سے ہلاک ہونا ہے ۔ تم کہاں اس غلط فہمی میں پڑ گئے کہ ہماری یہ بستیاں ہمیشہ کھڑی رہیں گی؟
30: یعنی اگر کافروں پر ابھی جلدی سے کوئی عذاب نہیں آرہا ہے تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیشہ کے لئے عذاب سے بچ گئے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ یا تو ان پر کوئی سخت عذاب دنیا ہی میں آجائے گا، ورنہ قیامت سے پہلے پہلے سبھی کو ہلاک ہونا ہے، اور پھر آخرت میں ان کافروں کو دائمی عذاب ہو کر رہے گا۔