Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عجیب و غریب مانگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کافروں نے آپ سے کہا کہ حضرت آپ کے پہلے کے انبیاء میں سے بعض کے تابع ہوا تھی ، بعض مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ، وغیرہ ۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ پر ایمان لائیں تو آپ اس صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیئجے ، ہم آپ کی سچائی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپ پر وحی آئی کہ اگر آپ کی بھی یہی خواہش ہو تو میں اس پہاڑ کو ابھی سونے کا بنا دیتا ہوں ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو اب انہیں مہلت نہ ملے گی ، فی الفور عذاب آ جائے گا اور تباہ کر دئے جائیں گے ۔ اور اگر آپ کو انہیں تاخیر دینے اور سوچنے کا موقع دینا منظور ہے تو میں ایسا کروں ۔ آپ نے فرمایا اے اللہ میں انہیں باقی رکھنے میں ہی خوش ہوں ۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ باقی کی اور پہاڑیاں یہاں سے کھسک جائیں تاکہ ہم یہاں کھیتی باڑی کر سکیں ۔ الخ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے دعا مانگی ، جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو صبح کو ہی یہ پہاڑ سونے کا ہو جائے لیکن اگر پھر بھی ان میں سے کوئی ایمان نہ لایا تو اسے وہ سزا ہو گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو اور اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان پر توبہ اور رحمت کے دروازے کھلے چھوڑوں ۔ آپ نے دوسری شق اختیار کی ۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ آیت ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26- الشعراء:214 ) جب اتری تو تعمیل ارشاد کے لئے جبل ابی قبیس پر چڑھ گئے اور فرمانے لگے اے بنی عبد مناف میں تمہیں ڈرانے والا ہوں ۔ قیش یہ آواز سنتے ہی جمع ہو گئے پھر کہنے لگے سنئے آپ نبوت کے مدعی ہیں ۔ سلیمان نبی علیہ السلام کے تابع ہوا تھی ، موسیٰ نبی علیہ السلام کے تابع دریا ہو گیا تھا ، عیسیٰ نبی علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ۔ تو بھی نبی ہے اللہ سے کہہ کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹوا کر زمین قابل زراعت بنا دے تاکہ ہم کھیتی باڑی کریں ۔ یہ نہیں تو ہمارے مردوں کی زندگی کی دعا اللہ سے کر کہ ہم اور وہ مل کر بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں ۔ یہ بھی نہیں تو اس پہاڑ کو سونے کا بنوا دے کہ ہم جاڑے اور گرمیوں کے سفر سے نجات پائیں اسی وقت آپ پر وحی اترنی شروع ہو گئی اس کے خاتمے پر آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا تھا مجھے اس کے ہو جانے میں اور اس بات میں کہ دروازہ رحمت میں چلے جاؤ ، اختیار دیا گیا کہ ایمان اسلام کے بعد تم رحمت الہٰی سمیٹ لو یا تم یہ نشانات دیکھ لو لیکن پھر نہ مانو تو گمراہ ہو جاؤ اور رحمت کے دروازے تم پر بند ہو جائیں تو میں تو ڈر گیا اور میں نے در رحمت کا کھلا ہونا ہی پسند کیا ۔ کیونکہ دوسری صورت میں تمہارے ایمان نہ لانے پر تم پر وہ عذاب اترتے جو تم سے پہلے کسی پر نہ اترے ہوں اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ اور آیت ( وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى 31 ؀ۧ ) 13- الرعد:31 ) ، نازل ہوئی یعنی آیتوں کے بھیجنے اور منہ مانگے معجزوں کے دکھانے سے ہم عاجز تو نہیں بلکہ یہ ہم پر بہت آسان ہے جو تیری قوم چاہتی ہے ، ہم انہیں دکھا دیتے لیکن اس صورت میں ان کے نہ ماننے پر پھر ہمارے عذاب نہ رکتے ۔ اگلوں کو دیکھ لو کہ اسی میں برباد ہوئے ۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں ہے کہ میں تم پر دستر خوان اتار رہا ہوں لیکن اس کے بعد جو کفر کرے گا اسے ایسی سزا دی جائے گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو ۔ ثمودیوں کو دیکھو کہ انہوں نے ایک خاص پتھر میں اسے اونٹنی کا نکلنا طلب کیا ۔ حضرت صالح علیہ السلام کی دعا پر وہ نکلی لیکن وہ نہ مانے بلکہ اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، رسول کو جھٹلاتے رہے ، جس پر انہیں تین دن کی مہلت ملی اور آخر غارت کر دئے گئے ۔ ان کی یہ اونٹنی بھی اللہ کی وحدانیت کی ایک نشانی تھی اور اس کے رسول کی صداقت کی علامت تھی ۔ لیکن ان لوگوں نے پھر بھی کفر کیا ، اس کا پانی بند کیا بالاخر اسے قتل کر دیا ، جس کی پاداش میں سب مار ڈالے گئے اور الله زبردست کی پکڑ میں آ گئے ، آیتیں صرف دھمکانے کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کرلیں ۔ مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں کوفے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالى چاہتا ہے کہ تم اس کی جانب جھکو ، تمہیں فورا اس کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مدینہ شریف میں کئی بار جھٹکے محسوس ہوئے تو آپ نے فرمایا واللہ تم نے ضرور کوئی نئی بات کی ہے ، دیکھو اگر اب ایسا ہوا تو میں تمہیں سخت سزائیں دونگا ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا سورج چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان میں کسی کی موت و حیات سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے بندوں کو خوفزدہ کر دیتا ہے ، جب تم یہ دیکھو تو ذکر اللہ دعا اور استغفار کی طرف جھک پڑو ۔ اے امت محمد واللہ اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں کہ اس کے لونڈی غلام زنا کاری کریں ۔ اے امت محمد واللہ جو میں جانتا ہوں ، اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے زیادہ روتے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 یہ آیت اس وقت اتری جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کوہ صفا کو سونے کا بنادیا جائے یا مکہ کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیئے جائیں تاکہ وہاں کاشت کاری ممکن ہو سکے، جس پر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کے ذریعے سے پیغام بھیجا کہ ان کے مطالبات ہم پورے کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو پھر ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ پھر انھیں مہلت دی جائے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس بات کو پسند فرمایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تاکہ یہ ہلاکت سے بچ جائیں، اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی مضمون بیان فرمایا کہ ان کی خواہش کے مطابق نشانیاں اتار دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ہم اس سے گریز اس لئے کر رہے ہیں کہ پہلی قوموں نے بھی اپنی خواہش کے مطابق نشانیاں مانگیں جو انھیں دکھا دی گئیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تکذیب کی اور ایمان نہ لائے، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک کردی گئیں۔ 59۔ 2 قوم ثمود کا بطور مثال تذکرہ کیا کیونکہ ان کی خواہش پر پتھر کی چٹان سے اونٹنی ظاہر کر کے دکھائی گئی تھی، لیکن ان ظالموں نے، ایمان لانے کی بجائے، اس اونٹنی ہی کو مار ڈالا، جس پر تین دن کے بعد ان پر عذاب آگیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٣] یعنی جب ضدی اور ہٹ دھرم لوگ کوئی حسی معجزہ یا اپنا فرمائشی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے تو اس صورت میں ان پر عذاب الٰہی کا نزول لازم ہوجاتا ہے۔ مگر چونکہ ہم مکہ کے رہنے والوں کو ایسے عذاب سے ہلاک نہیں کرنا چاہتے۔ اور ان کے زندہ رہنے اور رکھنے میں بہت سی حکمتیں مضمر ہیں لہذا انھیں ان کا فرمائشی معجزہ نہ دینے میں ہی مصلحت اور ان کی عافیت ہے۔- [٧٤] معجزہ دکھانے کا مقصد محض خوف دلانا ہوتا ہے :۔ قوم ثمود کے حالات ان کے سامنے ہیں۔ انہوں نے فرمائشی اور حسی معجزہ طلب کیا تھا۔ یہ معجزہ دیکھنے کے باوجود وہ ایمان نہ لائے۔ تو اس کے نتیجہ میں انھیں تباہ کردیا گیا۔ حالانکہ فرمائشی معجزہ کو پورا کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ پر زبردست دلیل ہے۔ پھر ایسا معجزہ دیکھ کر بھی جو ایمان نہ لائے اور اس کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا نہ ہو تو ایسے لوگوں کا علاج یہی ہے کہ انھیں کسی دردناک عذاب سے تباہ کر ڈالا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر، جو آخری امت ہے، اپنے خاص فضل اور رحمت کا ذکر فرمایا ہے۔ اہل مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی چیزیں نشانی کے طور پر دکھانے کا مطالبہ کیا (دیکھیے بنی اسرائیل : ٩٠ تا ٩٣) مگر اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سنت رہی ہے کہ نشانی دکھانے کے بعد اگر کوئی قوم ایمان نہ لائے تو اسے عذاب کے ساتھ نیست و نابود کردیا جاتا ہے، جیسا کہ قوم ثمود کے مطالبے پر بطور نشانی اونٹنی دی گئی، انھوں نے اس پر ظلم کیا تو ” صَیْحَۃٌ“ (چیخ) اور ” رَجْفَۃٌ“ (زلزلے) سے تمام کفار ہلاک کردیے گئے۔ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی نشانی نہیں دی، تاکہ اس امت کے لیے ایمان لانے کی مہلت باقی رہے۔ اگر موجودہ کفار ایمان نہ لائیں تو ان کی اولاد میں سے لوگ ایمان لاسکیں۔ ہماری امت کو عطا ہونے والی نشانی میں دو وصف ہیں، جو پہلے کسی نبی کی نشانی میں نہیں تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة عنکبوت (٥٠، ٥١) ۔- وَمَا نُرْسِلُ بالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا : یعنی عذاب سے ڈرانے کے لیے، کیونکہ اگر وہ نہیں ڈریں گے تو ان پر عذاب نازل ہوجائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور ہم کو خاص (فرمائشی) معجزات کے بھیجنے سے صرف یہی بات مانع ہے کہ پہلے لوگ ان (کے ہم جنس فرمائشی معجزات) کی تکذیب کرچکے ہیں (اور مزاج و طبائع سب کافروں کے ملتے جلتے ہیں تو ظاہر یہ ہے کہ یہ بھی تکذیب کریں گے) اور (نمونے کے طور پر ایک قصہ بھی سن لو کہ) ہم نے قوم ثمود کو (ان کی فرمائش کے مطابق حضرت صالح (علیہ السلام) کے معجزہ کے طور پر) اونٹنی دی تھی (جو عجیب طور پر پیدا ہوئی اور) جو کہ (معجزہ ہونے کے سبب فی نفسہ) بصیرت کا ذریعہ تھی سو ان لوگوں نے (اس سے بصیرت حاصل نہ کی بلکہ) اس کے ساتھ ظلم کیا (کہ اس کو قتل کر ڈالا تو ظاہر یہ ہے کہ اگر موجودہ لوگوں کے فرمائشی معجزے دکھلائے گئے تو یہ بھی ایسا ہی کریں گے) اور ہم ایسے معجزات کو صرف (اس بات سے) ڈرانے کے لئے بھیجا کرتے ہیں (کہ اگر یہ فرمائشی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لاؤ گے تو فورا ہلاک کر دئے جاؤ گے اور ہوتا یہی رہا ہے کہ جن لوگوں کو فرمائشی معجزات دکھلائے گئے وہ ایمان تو لائے نہیں یہی معاملہ ان کی ہلاکت اور عذاب عام کا سبب بن گیا اور حکمت الہیہ کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ لوگ ابھی ہلاک نہ کئے جاویں اس لئے ان کے فرمائشی معجزات نہیں دکھلائے جاتے اس کی تائید اس واقعہ سے ہوتی ہے جو ان لوگوں کو پہلے پیش آ چکا ہے جس کا ذکر یہ ہے کہ) آپ وہ وقت یاد کرلیجئے جبکہ ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کا رب (اپنے علم سے) تمام لوگوں (کے احوال ظاہری و باطنہ موجودہ و مستقبلہ) کو محیط ہے (اور احوال مستقبلہ میں ان کا ایمان نہ لانا بھی اللہ کو معلوم ہے جس کی ایک دلیل انہیں کا یہ واقعہ کہ ہم نے (واقعہ معراج میں) جو تماشا (بحالت بیداری) آپ کو دکھلایا تھا اور جس درخت کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے (یعنی زقوم جو طعام کفار ہے) ہم نے ان دونوں چیزوں کو ان لوگوں کے لئے موجب گمراہی کردیا (یعنی ان لوگوں نے ان دونوں امر کو سن کر تکذیب کی۔ معراج کی تکذیب تو اس بناء پر کی کہ ایک رات کی قلیل مدت میں ملک شام جانا اور پھر آسمان پر جانا ان کے نزدیک ممکن نہ تھا اور شجرہ زقوم کی تکذیب اس بناء پر کی کہ اس کو دوزخ کے اندر بتلایا جاتا ہے آگ میں کوئی درخت کیسے رہ سکتا ہے اگر ہو بھی تو جل جائے گا حالانکہ نہ ایک رات میں اتنا طویل سفر طے کرنا عقلا محال ہے نہ آسمان پر جانا ممکن ہے اور آگ کے اندر درخت کا وجود ان کی سمجھ میں نہ آیا حالانکہ کوئی محال بات نہیں کہ کسی درخت کا مزاج ہی اللہ تعالیٰ ایسا بنادیں کہ وہ پانی کے بجائے آگ سے پرورش پائے پھر فرمایا) اور ہم ان لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی بڑی سرکشی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے (شجرہ زقوم کے انکار کے ساتھ یہ لوگ استہزاء بھی کرتے تھے جس کا بیان مع زائد تحقیق کے سورة صٰفٰت میں آوے گا)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ۭ وَاٰتَيْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا ۭ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا 59؀- منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معیم محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانعک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔- مبصرۃ - بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] أي : جعلناها عبرة لهم،- الباصرۃ - کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩) اور ہمیں خاص فرمایشی معجزات بھیجنے سے یہی امر مانع ہوا کہ پہلے لوگ ان معجزات کو جھٹلا چکے ہیں اور اس جھٹلانے پر ہم نے انکو ہلاک کردیا ہے تو اسی طرح اگر یہ تکذیب کریں گے تو یہ بھی ہلاک کردیے جائیں گے۔- اور ہم نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو انکی نبوت پر معجزہ کے طور پر ان کی قوم کی فرمایش پر ایک اونٹنی دی تھی جو کہ عجیب طور پر پیدا ہوئی تھی سو ان لوگوں نے اس کی تکذیب کی اور اس کے پیر کاٹ ڈالے اور ہم ایسے معجزات کو صرف عذاب سے ڈرانے کے لیے بھیجا کرتے ہیں یعنی اگر یہ اس پر ایمان نہ لائیں تو ہم ان سب کو ہلاک کردیں گے۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ وما منعنآ ان نرسل “۔ (الخ)- امام حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہنے ابن عباس (رض) سے روایت نق کی ہے کہ مکہ والوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ ان کے لیے صفا پہاڑی کو سونے کا کردیا جائے اور ان سے پہاڑوں کو دور کردیا جائے تاکہ یہ کھیتی باڑی کرسکیں تو آپ سے کہا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو ان کے اس سوال کا جواب ان سے ٹال دیں اور اگر آپ چاہیں تو ان کی اس درخواست کو پورا کردیا جائے گا، آپ نے فرمایا نہیں بلکہ میں ان کی اس درخواست کو ٹال دیتا ہوں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی ہمیں خاص معجزات بھیجنے سے صرف یہ امر مانع ہوا کہ پہلے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں۔- نیز طبرانی اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی حضرت زبیر (رض) سے اسی طرح مگر اس سے مفصل روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ )- اللہ تعالیٰ نے حسی معجزات دکھانے صرف اس لیے بند کردیے ہیں کہ سابقہ قوموں کے لوگ ایسے معجزات کو دیکھ کر بھی کفر پر ڈٹے رہے اور ایمان نہ لائے۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورة الانعام اور اس کے بعد نازل ہونے والی مکی سورتوں میں تسلسل سے دہرایا جا رہا ہے ۔- (وَاٰتَيْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا)- قوم ثمود کو ان کے مطالبے پر اونٹنی کا بصیرت افروز معجزہ دکھایا گیا مگر انہوں نے اس واضح معجزے کو دیکھ لینے کے بعد بھی حضرت صالح پر ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی ہی کو مار ڈالا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ کو مٹی سے زندہ پرندے بنانے اور ” قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ “ کہہ کر مردوں کو زندہ کرنے تک کے معجزات دیے گئے ‘ مگر کیا انہیں دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے ؟- (وَمَا نُرْسِلُ بالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا)- نشانیاں یا معجزے بھیجنے کا مقصد تو لوگوں کو خبردار کرنا ہوتا ہے سو یہ مقصد قرآن کی آیات بخوبی پورا کر رہی ہیں۔ اس کے بعد اب اور کون سی نشانیوں کی ضرورت باقی ہے ؟ اگلی آیت میں یہی بات تین مثالوں سے مزید واضح کی گئی ہے کہ یہ لوگ کس طرح قرآن کی آیات کے ساتھ بحث برائے بحث اور انکار کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور یہ کہ اللہ نے حسی معجزات دکھانا کیوں بند کردیے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :67 یعنی محسوس معجزات جو دلیل نبوت کی حیثیت سے پیش کیے جائیں ، جن کا مطالبہ کفار قریش بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :68 مدعا یہ ہے کہ ایسا معجزہ دیکھ لینے کے بعد جب لوگ اس کی تکذیب کرتے ہیں ، تو پھر لا محالہ ان پر نزول عذاب واجب ہو جاتا ہے ، اور پھر ایسی قوم کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ۔ پچھلی تا ریخ اس بات کی شاہد ہے کہ متعدد قوموں نے صریح معجزے دیکھ لینے کے بعد بھی ان کو جھٹلایا اور پھر تباہ کر دی گئیں ۔ اب یہ سراسر اللہ کی رحمت ہے کہ وہ ایسا کوئی معجزہ نہیں بھیج رہا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمہیں سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے مہلت دے رہا ہے ۔ مگر تم ایسے بیوقوف لوگ ہو کہ معجزے کا مطالبہ کر کر کے ثمود کے سے انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :69 یعنی معجزے دکھانے سے مقصود تماشا دکھانا تو کبھی نہیں رہا ہے ۔ اس سے مقصود تو ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگ انہیں دیکھ کر خبردار ہو جائیں ، انہیں معلوم ہو جائے کہ نبی کی پشت پر قادر مطلق کی بے پناہ طاقت ہے ، اور وہ جان لیں کہ اس کی نافرمانی کا انجام کیا ہو سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

31: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعدد معجزات دیکھنے کے باوجود مشرکین آپ سے نت نئے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ یہ ان مطالبات کا جواب ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کافروں کو کوئی فرمائشی معجزہ دِکھادیا جاتا ہے، اور وہ اُس کے باوجود ایمان نہیں لاتے، تو اُنہیں عذاب سے ہلاک کردیاجاتا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ قومِ ثمود کے مطالبے پر پہاڑ سے اُونٹنی نکال دی تھی، مگر وہ پھر بھی نہ مانے اس لئے عذاب کا شکار ہوئے، اﷲ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ یہ مشرکینِ عرب بھی اپنا فرمائشی معجزہ دیکھنے کے باوجود اُسی طرح پیغمبر کو جھٹلاتے رہیں گے جس طرح پچھلی قوموں نے جھٹلایا تھا، چونکہ ابھی ان کو ہلاک کرنا اﷲ تعالیٰ کی حکمت کو منظور نہیں ہے، اس لئے فرمائشی معجزات نہیں دِکھائے جارہے ہیں۔