Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مقصد معراج اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول علیہ السلام کو تبلیغ دین کی رغبت دلا رہا ہے اور آپ کے بچاؤ کی ذمہ داری لے رہا ہے کہ سب لوگ اسی کی قدرت تلے ہیں ، وہ سب پر غالب ہے ، سب اس کے ماتحت ہیں ، وہ ان سب سے تجھے بچاتا رہے گا ۔ جو ہم نے تجھے دکھایا وہ لوگوں کے لیے ایک صریح آزمائش ہے ۔ یہ دکھانا معراج والی رات تھا ، جو آپ کی آنکھوں نے دیکھا ۔ نفرتی درخت سے مراد زقوم کا درخت ہے ۔ بہت سے تابعین اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا ، مشاہدہ تھا جو شب معراج میں کرایا گیا تھا ۔ معراج کی حدیثیں بہت پوری تفصیل کے ساتھ اس سورت کے شروع میں بیان ہو چکی ہیں ۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ معراج کے واقعہ کو سن کے بہت سے مسلمان مرتد ہو گئے اور حق سے پھر گئے کیونکہ ان کی عقل میں یہ نہ آیا تو اپنی جہالت سے اسے جھوٹا جانا اور دین کو چھوڑ کر بیٹھے ۔ ان کے برخلاف کامل ایمان والے اپنے یقین میں اور بڑھ گئے اور ان کے ایمان اور مضبوط ہو گئے ۔ ثابت قدمی اور استقلال میں زیادہ ہو گئے ۔ پس اس واقعہ کو لوگوں کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خبر دی اور قرآن میں آیت اتری کہ دزخیوں کو زقوم کا درخت کھلایا جائے گا اور آپ نے اسے دیکھا بھی تو کافروں نے اسے سچ نہ مانا اور ابو جہل ملعون مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا لاؤ کجھور اور مکھن لاؤ اور اس کا زقوم کرو یعنی دونوں کو ملا دو اور خب شوق سے کھاؤ بس یہی زقوم ہے ، پھر اس خوراک سے گھبرانے کے کیا معنی ؟ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بنو امیہ ہیں لیکن یہ قول بالکل ضعیف اور غریب ہے ۔ پہلے قول کے قائل وہ تمام مفسر ہیں جو اس آیت کو معراج کے بارے میں مانتے ہیں ۔ جیسے ابن عباس مسروق ، ابو مالک ، حسن بصری وغیرہ ۔ سہل بن سعید کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں قبیلے والوں کو اپنے منبر پر بندروں کی طرح ناچتے ہوئے دیکھا اور آپ کو اس سے بہت رنج ہوا پھر انتقال تک آپ پوری ہنسی سے ہنستے ہوئے نہیں دکھائی دئے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ ( ابن جریر ) لیکن یہ سند بالکل ضعیف ہے ۔ محمد بن حسن بن زبالہ متروک ہے اور ان کے استاد بھی بالکل ضعیف ہیں ۔ خود امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا پسندید قول بھی یہی ہے کہ مراد اس سے شب معراج ہے اور شجرۃالزقوم ہے کیونکہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے ۔ ہم کافروں کو اپنے عذابوں وغیرہ سے ڈرا رہے ہیں لیکن وہ اپنی ضد ، تکبر ، ہٹ دھرمی اور بے ایمانی میں اور بڑھ رہے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 یعنی لوگ اللہ کے غلبہ و تصرف میں ہیں اور جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ جو وہ چاہیں گے، یا مراد اہل مکہ ہیں کہ وہ اللہ کے زیر اقتدار ہیں، آپ بےخوفی سے تبلیغ رسالت کیجئے، وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ یا جنگ بدر اور فتح مکہ کے موقع پر جس طرح اللہ نے کفار مکہ کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا، اس کو واضح کیا جارہا ہے۔ 60۔ 2 صحابہ وتابعین نے اس رویا کی تفسیر عینی رویت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے، جو بہت سے کمزور لوگوں کے لئے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہوگئے۔ اور درخت سے مراد (تھوہر) کا درخت ہے، جس کا مشاہدہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج، جہنم میں کیا۔ اَ لْمَلْعُونَۃَسے مراد، کھانے والوں پر یعنی جہنمیوں پر لعنت۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے کہ۔ ان شجرۃ الزقوم۔ طعام الاثیم۔ زقوم کا درخت، گناہ گاروں کا کھانا ہے 60۔ 3 یعنی کافروں کے دلوں میں جو خبث وعناد ہے، اس کی وجہ سے، نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے، ان کی سرکشی و طغیانی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٥] اس سے مراد سورة بروج کی آیت نمبر ١٩ اور ٢٠ ہیں، یعنی کافر تو آپ کو اور اس دعوت قرآن کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ اللہ انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور سورة بروج اس سورة بنی اسرائیل سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ یہ کفار مکہ اپنی معاندانہ سرگرمیوں میں جتنی بھی کوشش چاہے کرلیں۔ یہ ایک حد سے آگے نہ جاسکیں گے اور ان کی ان کوششوں کے علی الرغم دعوت اسلام پھیل کر رہے گی۔- [٧٦] کافر حسی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے :۔ واقعہ معراج ایک خرق عادت واقعہ اور معجزہ تھا۔ کفار نے اس معجزہ کا اتنا مذاق اڑایا کہ بعض ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی شک میں پڑگئے۔ پھر کافر جنہوں نے پہلے بیت المقدس دیکھا ہوا تھا وہ آپ سے سوالات پوچھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے سامنے سے سب پردے ہٹادیئے اور آپ ان کافروں کے تمام سوالوں کے جوابات دیتے گئے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ کسی حسی معجزہ کے طالب کفار ایمان لے آتے۔ لیکن وہ ان کے لیے آزمائش بن گیا جس میں یہ ناکام ہوئے اور پہلے سے بھی زیادہ سرکشی کی راہ اختیار کرنے لگے۔- [٧٧] ملعون درخت اور معراج دونوں سے کفار مکہ کی آزمائش :۔ اسی طرح سورة صافات میں ایک اور خرق عادت بات کی اطلاع دی گئی تھی جو یہ تھی کہ جہنم کی تہہ سے تھوہر کا درخت اگے گا۔ یہی اہل جہنم کا کھانا ہوگا جس کے علاوہ انھیں کوئی کھانے کی چیز نہ ملے گی (٣٧: ٦٢ تا ٦٦) اس بات پر بھی کافروں نے بہت لے دے کی کہ آگ میں بھلا یہ درخت کیسے اگ سکتا ہے ؟ یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے کہ اپنی عقل کے پیمانے سے اسے ناپنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ آگ میں درخت یا پودے تو درکنار جاندار بھی پیدا ہوتے اور زندہ رہتے ہیں۔ آگ کا کیڑا سمندری آگ ہی سے پیدا ہوتا اور اسی میں زندہ رہتا ہے۔ پھر کئی پودے ایسے بھی ہیں جن سے آگ نکلتی ہے۔ یہ تو اس دنیا کا حال ہے اور اخروی عالم اور دوزخ کی کیفیت جب ہم پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے اور نہ کوئی چیز تجربہ میں آسکتی ہے تو انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟ انکار تو اس صورت میں معقول ہوسکتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی باقی سب قدرتوں کو پوری طرح سمجھ چکا ہو اور بس یہی ایک بات باقی رہ گئی ہو۔ انسان کا علم تو اتنا ناقص ہے کہ وہ اپنے جسم کے اندر کی چیزوں کی کیفیت بھی نہیں سمجھ سکتا تو پھر دوسرے عجائبات سے انکار کرنے یا ان کا مذاق اڑانے کا کیا حق ہے یہ دوسری بات تھی جو ان کفار کی سرکشی بڑھانے کا سبب بن گئی تھی۔ اور یہ درخت ملعون اس لحاظ سے ہے کہ اس میں غذائیت تو نام کو نہیں ہوتی۔ کانٹے بڑے سخت اور تیز ہوتے ہیں جو اہل دوزخ کی اذیت میں مزید اضافہ ہی کریں گے۔- واقعہ معراج کی طرح، تھوہر کے درخت کی آگ میں پیدائش بھی کافروں کے لیے فتنہ بن گئی تھی۔ اور واقعہ معراج کے فتنہ بننے سے بھی یہ بات از خود ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا، روحانی یا کشفی نہیں تھا کیونکہ خواب میں تو ہر انسان ایسے یا اس سے عجیب تر واقعات دیکھ سکتا ہے لیکن کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاط بالنَّاسِ : لوگوں سے مراد کفار مکہ ہیں اور ان کا احاطہ کرلینے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنا پورا زور لگانے کے باوجود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور نہ آپ کی دعوت کو پھیلنے سے روک سکے۔ اس سے مقصود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوصلہ دلانا ہے کہ آپ بےخوف و خطر اپنی دعوت پیش کرتے رہیے، ان لوگوں کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کیجیے، یہ آپ کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ سب پوری طرح ہماری گرفت میں ہیں۔ ۭ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ : ” اَلرُّویَا “ ” رَأَی یَرَی “ (ف) کا مصدر ہے، آیت میں مذکور ” لاتی ارینک “ سے مراد زمین اور آسمانوں کی وہ عجیب و غریب چیزیں ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسراء و معراج کی رات اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ نے اسراء و معراج کی رات جو کچھ دیکھا ہم نے اسے لوگوں کے لیے فتنہ اور آزمائش ہی بنایا، تاکہ آزمائش ہوجائے کہ کون قوی ایمان والا اور سلیم القلب ہے اور کون ضعیف ایمان والا اور مریض القلب۔ سو مضبوط ایمان والوں کو اسے ماننے میں کوئی تردد نہیں ہوا، چناچہ وہ امتحان میں کامیاب ہوگئے اور کمزور ایمان والے اور ایمان سے محروم لوگ کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی رات میں مکہ سے بیت المقدس اور ساتوں آسمانوں کے عجائبات دیکھ کر واپس بھی آجائیں ؟ یہ ناممکن ہے۔ سو وہ امتحان میں ناکام ہوگئے۔ - ” اَلرُّویَا “ کا لفظ اکثر خواب میں دیکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی آنکھوں سے دیکھنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں بیداری میں آنکھوں سے دیکھنا مراد ہے اور اس کی دلیل خود یہ آیت ہے۔ کیونکہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے کہ میں نے یہ سب کچھ خواب میں دیکھا ہے تو نہ کسی کو تعجب ہوتا اور نہ کوئی فتنہ و امتحان ہوتا، کیونکہ خواب میں ہر شخص کو ناممکن و محال چیزیں دکھائی دے سکتی ہیں۔ امتحان یہی تھا کہ صرف مضبوط اہل ایمان تسلیم کرسکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو یہ سب کچھ رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں دکھانے پر قادر ہے۔ ابن عباس (رض) نے تصریح فرمائی : ( ھِيَ رُؤْیَا عَیْنٍ أُرِیَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ أُسْرِيَ بِہِ إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ) [ بخاری، المناقب، باب المعراج۔۔ : ٣٨٨٨ ] ” یہ آنکھوں سے دیکھا ہوا منظر تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس رات دکھایا گیا جب آپ کو راتوں رات بیت المقدس لے جایا گیا۔ “ - وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ : ابن عباس (رض) کی روایت جو اس سے پہلے فائدے میں بیان ہوئی اس میں انھوں نے اس کی تفسیر زقوم کے درخت سے کی ہے۔ قرآن مجید میں ” شَجَرَتَ الزَّقُّوْم “ کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے، سورة صافات (٦٢ تا ٦٦) اور سورة دخان (٤٣ تا ٤٦) میں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر لوگوں کے لیے آزمائش کے طور پر کیا گیا، کیونکہ ایمان سے محروم لوگ مان ہی نہیں سکتے کہ بھڑکتی ہوئی آگ کی تہ میں کوئی درخت اگ سکتا ہے، اس کے برعکس اہل ایمان کو اسے ماننے میں کوئی تردد نہیں ہوتا، کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، جبریل امین اور رب العالمین کبھی غلط بیانی نہیں کرتے اور آگ میں درخت پیدا کرنا، یا ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ کو ٹھنڈی اور سلامتی والی بنادینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ یہاں زقوم کو شجرۂ ملعونہ کہا گیا ہے، اس کا معنی شجرۂ مذمومہ ہے، یعنی قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔ - وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ ۔۔ : یعنی ہم کفار کو مختلف طریقوں سے ڈراتے ہیں، مگر اس سے انھیں بہت بڑی سرکشی میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- (آیت) وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ (یعنی شب معراج میں جو تماشا ہم نے آپ کو دکھلایا تھا وہ لوگوں کے لئے ایک فتنہ تھا) لفظ فتنہ عربی زبان میں بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے اس کے ایک معنی وہ ہیں جو خلاصہ تفسیر میں لئے گئے یعنی گمراہی۔ ایک معنی آزمائش کے بھی آتے ہیں ایک معنی کسی ہنگامہ و فساد کے برپا ہونے کے بھی آتے ہیں یہاں ان سب معانی کا احتمال ہے حضرت عائشہ (رض) اور معاویہ (رض) اور حسن اور مجاہد وغیرہ ائمہ تفسیر نے اس جگہ فتنہ سے مراد یہی آخری معنی لئے ہیں اور فرمایا کہ یہ فتنہ ارتداد کا تھا کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر جانے اور صبح سے پہلے واپس آنے کا ذکر کیا تو بہت سے نومسلم لوگ جن میں ایمان راسخ نہ ہوا تھا اس کلام کی تکذیب کر کے مرتد ہوگئے (قرطبی) - اسی واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ لفظ رءیا عربی زبان میں اگرچہ خواب کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن اس جگہ مراد خواب کا قصہ نہیں کیونکہ ایسا ہوتا تو لوگوں کے مرتد ہوجانے کی کوئی وجہ نہیں تھی خواب تو ہر شخص ایسے دیکھ سکتا ہے بلکہ اس جگہ مراد رءیا سے ایک واقعہ عجیبہ کا بحالت بیداری دکھلانا ہے آیت مذکورہ کی تفسیر میں بعض حضرات نے اس کو واقعہ معراج کے سوا دوسرے واقعات پر بھی محمول کیا ہے مگر مجموعی اعتبار سے یہاں منطبق نہیں ہوتے اس لئے جمہور نے واقعہ معراج ہی کو اس آیت کا محمل قرار دیا ہے (کما فصلہ القرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ۭ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 60۝ۧ- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اس رئویا سے کیا مراد ہے۔- قول باری ہے (وما جعلنا الرویا التی اریناک الا فتنۃ للناس اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے اس کو ہم نے ان لوگوں کے لئے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا) حضرت ابن عباس سے سعید بن جبیر کی روایت کے مطابق ، نیز قتادہ حسن، ابراہیم، مجاہد اور ضحاک سے مروی ہے کہ یہ رئویا بیت المقدس تک رات کے سفر یعنی سفر معراج کے علاوہ ہے۔ جب آپ نے مشرکین سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے آپ کو جھٹلایا ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس رئویا سے مراد ہے کہ آپ کو یہ دکھلایا گیا تھا کہ آپ بہت جلد مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔ - شجرئہ ملعونہ کیا ہے - قول باری ہے (والشجرۃ الملعونتہ فی القران۔ اور اس درخت کو (ان لوگوں کے لئے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا) جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے) حضرت ابن عباس، حسن بصری، سدی، ابراہیم نخعی ، سعید بن جبیر، مجاہد، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ اس سے زقوم کا درخت ماد ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے (ان شجرۃ الزقوم طعام الاثیم بیشک زقوم کا درخت گنہگاروں کی خوراک ہے) قول باری (الملعونۃ) سے مراد سے کھانا قابل لعنت ہے۔ یہ درخت ان مشرکین کے لئے فتنہ اس لئے بن گیا تھا کہ ابوجہل نے یہ اعتراض کیا تھا کہ آگ تو درختوں کو جلا ڈالتی ہے پھر جہنم کی آگ میں یہ درخت کیسے اگا ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٠) اور آپ وہ وقت یاد کیجیے، جب کہ ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کا رب تمام مکہ والوں سے بخوبی واقف ہے کہ کون ان میں سے ایمان لایا اور کون ایمان نہیں لائے گا۔- اور ہم نے واقعہ معراج میں جو تماشا حالت بیداری میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھا دیا تھا، اور شجرۃ زقوم جس کی قرآن کریم میں مذمت کی گئی ہے، ان دونوں چیزوں کو ان مکہ والوں کے لیے موجب گمراہی کردیا۔- اور ہم ان کو شجرۃ زقوم سے جو کہ طعام کفار ہے ڈراتے رہتے ہیں مگر اس وعید سے ان کی بڑی سرکشی بڑھی چلی جاتی ہے۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ واذ قلنا لک ان ربک احاط بالناس “۔ (الخ)- ابویعلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ام ہانی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب رات کے وقت معراج کرائی گئی تو آپ نے صبح کو معراج کا واقعہ کفار کی ایک جماعت کے سامنے بیان کیا تو وہ مذاق اڑانے لگے اور آپ سے نشانیاں پوچھنے لگے چناچہ آپ نے ان سے بیت المقدس کی کیفیت بیان کی اور عیر پہاڑ کا واقعہ بیان کیا، اس پر ولید بن مغیرہ نے کہا نعوذ باللہ یہ جادوگر ہیں، تب اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم نے جو تماشہ آپ کو دکھایا تھا اور جس درخت کا قرآن کریم میں مذمت کی گئی ہے ہم نے تو ان دونوں چیزوں کو ان لوگوں کے لیے موجب گمراہی کردیا اور ابن منذر نے حسن (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔- اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت حسین بن علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو متفکر تھے تو آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ آپ کیوں فکر فرما رہے ہیں یہ معراج کا واقعہ جو آپ کو دکھایا گیا یہ تو ان کے لیے موجب گمراہی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، نیز ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سہل بن سعد (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔- اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حدیث عمرو بن العاص اور حدیث یعلی بن مرہ اور مرسل سعید بن المسیب سے اسی طرح روایت کیا ہے مگر ان سب کی سندیں ضعیف ہیں۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ والشجرۃ الملعونۃ فی القرآن “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اور امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب بعث میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شجرۃ زقوم کا ذکر فرمایا تو اس سے قریش کا یہ قبیلہ ڈرا تو ابوجہل بدبخت کہنے لگا کہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ شجر و زقوم جس سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں ڈرا رہے ہیں کیا ہے، قریش نے کہا نہیں، ابوجہل نے کہا کہ وہ ثرید پر مکھن لگا ہوا ہے کہ جس سے ہم اپنے پیٹ بھریں گے اور اس کو چبا چبا کر کھائیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاط بالنَّاسِ )- قرآن حکیم کی بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ‘ مثلاً : (وَّاللّٰہُ مِنْ وَّرَآءِہِمْ مُّحِیْطٌ ) (البروج) ” اور اللہ ان کا ہر طرف سے احاطہ کیے ہوئے ہے “۔ یہ لوگ جب ایسی آیات سنتے ہیں تو ڈرنے کی بجائے فضول بحث پر اتر آتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ کہاں ہے اللہ ؟ ہمارا احاطہ کیوں کر ہوا ہے ؟- اگر فلسفیانہ پہلو سے دیکھا جائے تو اس آیت میں ” حقیقت و ماہیت وجود “ کے موضوع سے متعلق اشارہ پایا جاتا ہے جو فلسفے کا مشکل ترین مسئلہ ہے اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا نہیں ہے یعنی ایک وجود خالق کا ہے وہ ہر جگہ ہر آن موجود ہے اور ایک وجود مخلوق یعنی اس کائنات کا ہے۔ اب خالق و مخلوق کے مابین ربط کیا ہے ؟ اس سلسلے میں کچھ لوگ ” ہمہ اوست “ ( ) کے قائل ہوگئے۔ ان کے خیال کے مطابق یہ کائنات ہی خدا ہے خدا نے ہی کائنات کا روپ دھار لیا ہے جیسے خدا خود ہی انسانوں کا روپ دھار کر ” اوتار “ کی صورت میں زمین پر آجاتا ہے۔ یہ بہت بڑا کفر اور شرک ہے۔ دوسری طرف اگر یہ سمجھیں کہ اللہ کا وجود اس کائنات میں نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کا وجود کہیں الگ ہے اور وہ نعوذ باللہ کہیں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیں بس اس قدر سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کا وجودمطلق ( ) ہے۔ وہ حدود وقیود زمان و مکان کسی سمت یا جہت کے تصور سے ماوراء وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے۔ - (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ )- یہاں پر لفظ ” رؤیا “ خواب کے معنی میں نہیں آیا بلکہ اس سے رُؤیت بصری مراد ہے۔ انسان اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھتا ہے اس پر بھی ” رؤیا “ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شب معراج میں حضور کو جو مشاہدات کرائے تھے اور جو نشانیاں آپ کو دکھائی تھیں ان کی تفصیل جب کفار مکہ نے سنی تو یہ معاملہ ان کے لیے ایک فتنہ بن گیا۔ وہ نہ صرف خود اس کے منکر ہوئے ‘ بلکہ اس کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر انہوں نے پوری شد و مد سے یہ پرچار شروع کردیا کہ محمد پر جنون کے اثرات ہوچکے ہیں (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) ۔ اس زمانے میں جب مکہ سے بیت المقدس پہنچنے میں پندرہ دن لگتے تھے یہ دعویٰ انتہائی ناقابل یقین معلوم ہوتا تھا کہ کوئی شخص راتوں رات نہ صرف بیت المقدس سے ہو آیا ہے بلکہ آسمانوں کی سیر بھی کر آیا ہے۔ چناچہ انہوں نے موقع غنیمت سمجھ کر اس موضوع کو خوب اچھالا اور مسلمانوں سے بڑھ چڑھ کر بحث مباحثے کیے۔ اس طرح نہ صرف یہ بات کفار کے لیے فتنہ بن گئی بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی ایک آزمائش قرار پائی۔ - جب یہی ناقابل یقین بات ان لوگوں نے حضرت ابوبکر سے کی اور آپ سے تبصرہ چاہا تو آپ نے بلا توقف جواب دیا کہ اگر واقعی حضور نے ایسا فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے کیونکہ جب میں یہ مانتا ہوں کہ آپ کے پاس آسمانوں سے ہر روز فرشتہ آتا ہے تو مجھے آپ کا یہ دعویٰ تسلیم کرنے میں آخر کیونکر تامل ہوگا کہ آپ راتوں رات آسمانوں کی سیر کر آئے ہیں اسی بلا تامل تصدیق کی بنا پر اس دن سے حضرت ابوبکر کا لقب ” صدیق اکبر “ قرار پایا۔ - (وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ )- اسی طرح جب قرآن میں زقوم کے درخت کا ذکر آیا اور اس کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ اس درخت کی جڑیں جہنم کی تہہ میں ہوں گی ( الصافات : ٦٤) اور وہاں سے یہ جہنم کی آگ میں پروان چڑھے گا تو یہ بات بھی ان لوگوں کے لیے فتنے کا باعث بن گئی۔ بجائے اس کے کہ وہ لوگ اسے اللہ کی قدرت سمجھ کر تسلیم کرلیتے الٹے اس بات پر تمسخر اور استہزا کرنے لگے کہ آگ کے اندر بھلا درخت کیسے پیدا ہوسکتے ہیں ؟ انہیں کیا معلوم کہ یہ اس عالم کی بات ہے جس کے طبعی قوانین اس دنیا کے طبعی قوانین سے مختلف ہوں گے اور جہنم کی آگ کی نوعیت اور کیفیت بھی ہماری دنیا کی آگ سے مختلف ہوگی۔- (وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا)- قرآن میں یہ سب باتیں انہیں خبردار کرنے کے لیے نازل ہوئی ہیں مگر یہ ان لوگوں کی بد بختی ہے کہ اللہ کی آیات سن کر ڈرنے اور ایمان لانے کی بجائے وہ مزید سرکش ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی سرکشی میں روز بروز مزید اضافہ ہوتاجا رہا ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :70 یعنی تمہاری دعوت پیغمبرانہ کے ابتدائی دور میں ہی ، جبکہ قریش کے ان کافروں نے تمہاری مخالفت و مزاحمت شروع کی تھی ، ہم نے صاف صاف یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے ، یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیں ، یہ کسی طرح تیری دعوت کا راستہ نہ روک سکیں گے ، اور یہ کام جو تونے اپنے ہاتھ میں لیا ہے ، ان کی ہر مزاحمت کے باوجود ہو کر رہے گا ۔ اب اگر ان لوگوں کو معجزہ دیکھ کر ہی خبردار ہونا ہے ، تو انہیں یہ معجزہ دکھایا جا چکا ہے کہ جو کچھ ابتدا میں کہہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہا ، ان کی کوئی مخالفت بھی دعوت اسلامی کو پھیلنے سے نہ روک سکی ، اور یہ تیرا بال تک بھیگا نہ کر سکے ۔ ان کے پاس آنکھیں ہوں تو یہ اس امر واقعہ کو دیکھ کر خود سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کی اس دعوت کے پیچھے اللہ کا ہاتھ کام کر رہا ہے ۔ یہ بات کہ اللہ نے مخالفین کو گھیرے میں لے رکھا ہے ، اور نبی کی دعوت اللہ کی حفاظت میں ہے ، مکے کے ابتدائی دور کی سورتوں میں متعدد جگہ ارشاد ہوا ہے ۔ مثلاً سورہ بروج میں فرمایا: بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا فِیْ تَکْذِیْبٍ وَّاللہُ مِنْ وَّرَآءِھِمْ مُّحِیطٌ ( مگر یہ کافر جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں ، اور اللہ نے ان کو ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے ) ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :71 اشارہ ہے معراج کی طرف ۔ اس کے لیے یہاں لفظ ”رؤیا“ جو استعمال ہوا ہے یہ ”خواب“ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ آنکھوں دیکھنے کے معنی میں ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ محض خواب ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خواب ہی کی حیثیت سے کفار کے سامنے بیان کیا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان کے لیے فتنہ بن جاتا ۔ خواب ایک اسے ایک عجیب دیکھا جاتا ہے ، اور لوگوں سے بیان بھی کیا جاتا ہے ، مگر وہ کسی کے لیے بھی ایسے اچنھبے کی چیز نہیں ہوتا کہ لوگ اس کی وجہ سے خواب دیکھنے والے کا مذاق اڑائیں اور اس پر جھوٹے دعوے یا جنون کا الزام لگانے لگیں ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :72 یعنی زقوم ، جس کے متعلق قرآن میں خبر دی گئی ہے کہ وہ دوزخ کی تہ میں پیدا ہوگا اور دوزخیوں کو اسے کھانا پڑے گا اس پر لعنت کرنے سے مراد اس کا اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے ۔ یعنی وہ اللہ کی رحمت کا نشان نہیں ہے کہ اسے اپنی مہربانی کی وجہ سے اللہ نے لوگوں کی غذا کے لیے پیدا فرمایا ہو ، بلکہ وہ اللہ کی لعنت کا نشان ہے جسے ملعون لوگوں کے لیے اس نے پیدا کیا ہے تا کہ وہ بھوک سے تڑپ کر اس پر منہ ماریں اور مزید تکلیف اٹھائیں ۔ سورہ دخان ( آیات ٤۳ ۔ ٤٦ ) میں اس درخت کی جو تشریح کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ دوذخی جب اس کو کھائیں گے تو وہ ان کے پیٹ میں ایسی آگ لگائے گا جیسے ان کے پیٹ میں پانی کھول رہا ہو ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :73 یعنی ہم نے ان کی بھلائی کے لیے تم کو معراج کے مشاہدات کرائے ، تاکہ تم جیسے صادق و امین انسان کے ذریعہ سے ان لوگوں کو حقیقت نفس الامری کا علم حاصل ہو اور یہ متنبہ ہو کر راہ راست پر آجائیں ، مگر ان لوگوں نے الٹا اس پر تمہارا مذاق اڑایا ہم نے تمہارے ذریعہ سے ان کو خبردار کیا کہ یہاں کی حرام خوریاں آخرکار تمہں زقوم کے نوالے کھلوا کر رہیں گی ، مگر انہوں نے اس پر ایک ٹھٹھا لگایا اور کہنے لگے ، ذرا اس شخص کو دیکھو ، ایک طرف کہتا ہے کہ دوزخ میں بلا کی آگ بھڑک رہی ہوگی ، اور دوسری طرف خبر دیتا ہے کہ وہاں درخت اگیں گے

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

32: یعنی اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتادیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ یہ ہٹ دھرم لوگ کسی صورت میں ایمان نہیں لائیں گے۔ چنانچہ ان کی ہٹ دھرمی کی دو مثالیں دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو معراج کے موقع پر جو نظارہ دِکھایا، وہ آپ کے پیغمبر ہونے کی کھلی ہوئی دلیل تھی۔ کافروں نے آپ سے بیت المقدس کے بارے میں مختلف سوالات کئے، اور آپ نے سب کے ٹھیک ٹھیک جوابات دے دئیے، جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ واقعی آپ نے راتوں رات یہ سفر کیا ہے۔ لیکن اتنی کھلی ہوئی بات سامنے آجانے کے بعد بھی یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہے۔ دوسری مثال یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے فرمایا تھا کہ زَقوم کا درخت دوزخیوں کی غذا ہوگی، اور یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ درخت جہنم ہی میں پیدا ہوتا ہے، اس پر کافروں نے ایمان لانے کے بجائے مذاق اُڑانا شروع کیا کہ بھلا آگ میں درخت کیسے پیدا ہوسکتا ہے، اور یہ نہ سوچا کہ جس ذات نے آگ پیدا کی ہے، اگر وہ اسی آگ میں کوئی درخت بھی پیدا کردے جس کی خاصیت عام درختوں سے مختلف ہو تو بھلا اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ 33: یعنی اُس سے ہدایت حاصل کرنے کے بجائے یہ اور گمراہی میں پڑگئے، جس کی تفصیل اُوپر کے حاشیہ میں گذری۔