Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ابلیس کی قدیمی دشمنی ابلیس کی قدیمی عداوت سے انسان کو اگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ باپ حضرت آدم علیہ السلام کا کھلا دشمن تھا ، اس کی اولاد برابر اسی طرح تمہاری دشمن ہے ، سجدے کا حکم سن کر سب فرشتوں نے تو سر جھکا دیا لیکن اس نے تکبر جتایا ، اسے حقیر سمجھا اور صاف انکار کر دیا کہ ناممکن ہے کہ میرا سر کسی مٹی سے بنے ہوئے کے سامنے جھکے ، میں اس سے کہیں افضل ہوں ، میں آگ ہوں یہ خاک ہے ۔ پھر اس کی ڈھٹائی دیکھیے کہ اللہ جل و علی کے دربار میں گستاخانہ لہجے سے کہتا ہے کہ اچھا اسے اگر تو نے مجھ پر فضیلت دی تو کیا ہوا میں بھی اس کی اولاد کو برباد کر کے ہی چھوڑوں گا ، سب کو اپنا تابعدار بنا لوں گا اور بہکا دوں گا ، بس تھوڑے سے میرے پھندے سے چھوٹ جائیں گے باقی سب کو غارت کر دوں گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧوَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ ۔۔ : مہائمی (رض) نے فرمایا کہ اس آیت میں اشارہ ہے کہ گزشتہ آیت میں مذکور کفار کی سرکشی کی اصل وجہ شیطان کی پیروی ہے، کیونکہ وہ بھی تکبر اور سرکشی ہی کی وجہ سے راندۂ درگاہ ہوا تھا، اس لیے آگے اس کے آدم (علیہ السلام) کو بہکانے کا ذکر فرمایا۔- فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۔۔ : اس سجدے کی حقیقت اور ابلیس کے بہتر ہونے کے دعوے کے متعلق دیکھیے سورة بقرہ (٣٤) ، سورة اعراف (١١) اور اس کے بعد کی آیات۔ ” طِیْنَاً “ اصل میں ” مِنْ طِیْنٍ “ تھا، ” مِنْ “ حذف ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (وہ وقت یاد رکھنے کے قابل ہے) جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا اور) کہا کہ کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جس کو آپ نے مٹی سے بنایا ہے (اس پر مردود ہوگیا اس وقت) کہنے لگا کہ اس شخص کو جو آپ نے مجھ پر فوقیت دی ہے (اسی بناء پر اس کو سجدہ کرنے کا مجھے حکم دیا ہے) تو بھلا بتلائیے تو (اس میں کیا فضیلت ہے جس کی وجہ سے میں مردود ہوا) اگر آپ نے (میری درخواست کے مطابق) مجھ کو قیامت کے زمانے تک (موت سے) مہلت دے دیتو میں (بھی) بجز قدر قلیل لوگوں کو (جو مخلصین ہوں گے باقی) اس کی تمام اولاد کو اپنے قابو میں کرلوں گا (یعنی گمراہ کر دوں گا) ارشاد ہوا جا (جو تجھ سے ہو سکے کرلے) جو شخص (ان میں سے تیرے ساتھ ہو لے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے پوری سزاء اور ان میں سے جس پر تیرا قابو چلے اپنی چیخ پکار سے (یعنی اغوا اور وسوسہ سے) اس کا قدم (راہ راست سے) اکھاڑ دینا اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لانا (کہ تیرا سارا لشکر مل کر گمراہ کرنے میں خوب زور لگاوے) اور ان کے مال اور اولاد میں اپنا ساجھا کرلینا (یعنی مال و اولاد کو گمراہی کا ذریعہ بنادینا جیسا کہ اس کا مشاہدہ ہوا) اور ان سے (جھوٹے جھوٹے) وعدے کرنا (کہ قیامت میں گناہ پر مواخذہ نہ ہوگا اور یہ سب باتیں شیطان کو بطور زجر و تنبیہ کے کہی گئی ہیں) اور شیطان ان لوگوں سے بالکل جھوٹے وعدے کرتا ہے (یہ بطور جملہ معترضہ کے تھا آگے پھر شیطان کو خطاب ہے) میرے خاص بندوں پر تیرا قابو نہ چلے گا اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا قابو مخلصین پر کیونکر چلے کہ) آپ کا رب (ان کا) کار ساز کافی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِيْنًا 61۝ۚ- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- بلس - الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] ، وقال تعالی:- أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» .- ( ب ل س )- الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦١) وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ ہم نے ان فرشتوں سے بھی کہا جو کہ زمین پر تھے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ تحیت کرو، ابلیس کہنے لگا کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جس کو آپ نے مٹی سے بنایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِيْنًا)- حضرت آدم اور ابلیس کا یہ قصہ یہاں چوتھی مرتبہ بیان ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ رکوع ٤ ‘ سورة الاعراف رکوع ٢ اور سورة الحجر رکوع ٣ میں اس قصے کا ذکر ہوچکا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :74 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ آیات ۳۰ تا ۳۹ ، النساء آیات ١١۷ ۔ ١۲١ ، الاعراف آیات ١١ ۔ ۲۵ ، الحجر آیات ۲٦ ۔ ٤۲ ، اور ابراہیم آیت ۲۲ ۔ اس سلسلہ کلام میں یہ قصہ دراصل یہ بات ذہن نشین کرنے کے لیے بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے مقابلے میں ان کافروں کا یہ تمرد ، اور تنبیہات سے ان کی یہ بے اعتنائی ، اور کجروی پر ان کا یہ اصرار ٹھیک ٹھیک اس شیطان کی پیروی ہے جو ازل سے انسان کا دشمن ہے ، اور اس روش کو اختیار کر کے درحقیقت یہ لوگ اس جال میں پھنس رہے ہیں جس میں اولاد آدم کو پھانس کر تباہ کر دینے کے لیے شیطان نے آغاز تاریخ انسانی میں چلینج کیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani