Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 یعنی اس پر غلبہ حاصل کرلوں گا اور اسے جس طرح چاہوں گا، گمراہ کرلوں گا۔ البتہ تھوڑے سے لوگ میرے داؤ سے بچ جائیں گے۔ آدم (علیہ السلام) و ابلیس کا یہ قصہ اس سے قبل سورة بقرہ، اعراف اور حجر میں گزر چکا ہے۔ یہاں چوتھی مرتبہ اسے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں سورة کہف طٰہٰ اور سورة ص میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٨] قصہ آدم و ابلیس پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٣٠ تا ٣٩، سورة انعام آیت نمبر ١١ تا ٢٥، سورة الحجر آیت نمبر ٢٦ تا ٤٢ میں گذر چکا ہے۔ ان آیات کے حواشی بھی ملحوظ رکھے جائیں۔- [٧٩] ابلیس کا آدم پر قابو پانے کا دعوی :۔ احتنک الفرس بمعنی گھوڑے کے منہ میں رسی یا لگام دینا اور المحنک اس آدمی کو کہتے ہیں جسے زمانہ نے تجربہ کار بنادیا ہو (منجد) گویا احتنک کے معنی کسی پر عقل اور تجربہ سے قابو پانا ہے اور شیطان کا دعویٰ یہ تھا کہ آدم اچھی طرح میرا دیکھا بھالا ہے اور میں اس پر اور اس کی اولاد پر پوری طرح قابو پاسکتا ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۚقَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ ۔۔ : ” اَرَءَيْتَكَ “ اصل ” أَرَأَیْتَ “ ہی ہے، کاف حرف خطاب ہے، جو مخاطب کے مطابق بدلتا رہتا ہے، مثلاً مخاطب واحد مذکر ہو تو ” أَرَأَیْتَکَ “ ، تثنیہ مذکر ہو تو ” أَرَأَیْتَکُمَا “ اور جمع مذکر ہو تو ” أَرَأَیْتَکُمْ “ ، معنی سب کا یہی ہے کہ ” کیا تو نے دیکھا “ مگر مراد ہوتی ہے ” أَخْبِرْنِیْ “ یعنی ” مجھے بتا۔ “ ” لَاَحْتَنِكَنَّ “ یہ اصل میں ” حَنَکٌ“ سے مشتق ہے جس کا معنی جبڑا ہے۔ عرب کہتے ہیں ” حَنَکْتُ الْفَرَسَ أَحْنُکُہُ “ (باب ضرب و نصر) ” وَاحْتَنَکْتُہُ “ میں نے گھوڑے کے (نچلے) جبڑے میں رسی باندھی اور اسے اپنے پیچھے چلایا۔ مراد یہ ہے کہ میں اس کی اولاد کو لگام کی طرح جبڑے میں رسی باندھ کر اپنے پیچھے چلاؤں گا۔ مگر یہ لفظ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے : ” لَأَسْتَوْلِیَنَّ “ ” میں ضرور ان پر غالب ہوں گا “ اور ” لَأَسْتَأْصِلَنَّ “ جو ” اِسْتَأْصَلَتِ السَّنَۃُ أَمْوَالَھُمْ “ سے اخذ کیا گیا ہے، یعنی قحط نے ان کے اموال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، ہلاک کردیا۔ - 3 یعنی نہایت جرأت و تکبر سے اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ مجھے بتا کہ یہ شخص جسے تو نے مجھ پر عزت بخشی، یعنی جب بہتر میں ہوں تو تو نے اسے مجھ پر عزت کیوں بخشی ؟ اس میں آدم (علیہ السلام) پر حسد کا اظہار بھی ہے، اللہ کے فرمان کے مقابلے میں اپنے عقلی ڈھکوسلے قیاس سے تعمیل حکم کا انکار بھی اور تکبر و سرکشی کا اظہار بھی اور ان میں سے کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ کو گوارا نہیں۔ - لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۔۔ : اس کی تفصیل سورة اعراف کی آیات (١٤ تا ١٧) میں دیکھیں۔ ” اِلَّا قَلِيْلًا “ سے مراد اللہ کے مخلص بندے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- لَاَحْتَنِكَنَّ احتناک کے معنی ہیں کسی چیز کا استیصال اور فنا کردینا یا پوری طرح اس پر غالب آنا (قرطبی) وَاسْتَفْزِزْ استفزاز کے اصلی معنی قطع کرنے کے ہیں مراد اس جگہ حق سے قطع کردینا ہے بِصَوْتِكَ صوت بمعنے آواز معروف ہے اور شیطان کی آواز کیا ہے اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ گانے اور مزا میرا اور لہو و لعب کی آوازیں یہی شیطان کی آواز ہے جس سے وہ لوگوں کو حق سے قطع کرتا ہے (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ مزامیر موسیقی اور گانا بجانا حرام ہے (قرطبی)- ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کرنے کے وقت دو باتیں کہی تھیں اول یہ کہ آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے اور میں آگ کی مخلوق ہوں آپ نے مٹی کو آگ پر کیوں فوقیت اور فضیلت دے دییہ سوال امر الہی کے مقابلہ میں حکم کی حکمت معلوم کرنے سے متعلق تھا جس کا کسی مامور کو حق نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کو تو طلب حکمت کا حق کیا ہوتا دنیا میں خود انسان اپنے نوکر کو اس کا حق نہیں دیتا کہ وہ کسی کام کو کہے تو خادم وہ کام کرنے کے بجے آقا سے پوچھے کہ اس کام میں کیا حکمت ہے اس لئے اس کا یہ سوال ناقابل جواب قرار دے کر یہاں اس کا جواب نہیں دیا گیا اس کے علاوہ جواب ظاہر یہی ہے کہ کسی چیز کو کسی دوسری چیز پر فوقیت دینے کا حق اسی ذات کو ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور پالا ہے وہ جس وقت جس چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دیدے وہی افضل ہوجاوے گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ ۡ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلًا 62؀- كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معیز یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے - أخر ( تاخیر)- والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر - حنك - الحَنَكُ : حنک الإنسان والدّابّة، وقیل لمنقار الغراب : حَنَكٌ ، لکونه کالحنک من الإنسان، وقیل : أسود مثل حنک الغراب، وحللک الغراب، فحنکه : منقاره، وحلکه : سوادّ ريشه، وقوله - تعالی: لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا - [ الإسراء 62] ، يجوز أن يكون من قولهم : حَنَكْتُ الدّابّة :- أصبت حنكها باللّجام والرّسن، فيكون نحو قولک : لألجمنّ فلانا ولأرسننّه «1» ، ويجوز أن يكون من قولهم احتنک الجراد الأرض، أي :- استولی بحنکه عليها، فأكلها واستأصلها، فيكون معناه : لأستولینّ عليهم استیلاء ه علی ذلك، وفلان حَنَّكَه الدّهر واحتنکه، کقولهم : نجّذه، وقرع سنّه، وافترّه «2» ، ونحو ذلک من الاستعارات في التّجربة «3» .- ( ح ن ک ) الحنک - کے معنی انسان یا جو پائے کے تالو کے ہیں اور کوے کی چونچ کو حنک کہاجاتا ہے کیونکہ یہ اسکے لئے بمنزلہ انسان کے تالو کے ہوتی ہے چناچہ کہاجاتا ہے ؛ اسود مثل حنک الغراب اوحلک الغراب ( وہ کوے کی چونچ یا س کے پروں کی طرح سیاہ ہے ) یہاں حنک کے معنی منقار اور حلک کے معنی پروں کی سیا ہی کے ہیں اور آیت کریمہ : لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا[ الإسراء 62] تو میں تھوڑے شخصوں کے سوا اس کی ( تمام ) اولاد کی جڑ کاٹنا رہوں گا (17 ۔ 62) میں یہ حنکت الدابۃ سے بھی مشتق ہوسکتا ہے جس کے معنی اس کے منہ میں لگادینے یا رسی باندھنے کے ہیں ۔ پس یہ لالجمن فلانا ولا رسننۃ کی طرح ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ احتنک الجراد الارض سے مشتق ہو جس کے معنی ٹڈی کے زمین کی روئیدگی کو صاف چٹ کردیتے کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ میں انہیں اس طرح تباہ وبرباد کرونگا جیسے ٹڈی زمین پر سے نبات صفاچٹ کردیتی ہے ۔ حنکۃ الدھر زمانہ نے اسے تجربہ کا بر بنا دیا ۔ جیسا کہ نجرہ قرع سنہ وافترہ وغیرہ استعارات تجربہ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں - ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢) کہنے لگا کہ ان کو جو مجھ پر سجدہ کرا کے فضیلت دی ہے تو اگر آپ نے میری درخواست کے مطابق مجھے مہلت دی ہے تو میں سوائے ان تھوڑے آدمیوں کے جو مجھ سے محفوظ ہیں، سب کو راہ حق سے پھسلاؤں گا اور گمراہ کروں گا اور اپنے قبضہ میں کرلوں گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :75 ”بیخ کنی کر ڈالوں“ ، یعنی ان کے قدم سلامتی کی راہ سے اکھاڑ پھینکوں ۔ ”احتناک“ کے اصل معنی کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے ہیں ۔ چونکہ انسان کا اصل مقام خلافت الہی ہے جس کا تقاضا اطاعت میں ثابت قدم رہنا ہے ، اس لیے اس مقام سے اس کا ہٹ جانا بالکل ایسا ہے جیسے کسی درخت کا بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جانا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: یعنی انہیں اس طرح اپنے قابو میں کرلوں گا جیسے گھوڑے وغیرہ کو جبڑوں میں لگام دے کر قابو میں کیا جاتا ہے۔