Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 آواز سے مراد پرفریب دعوت یا گانے، موسیقی اور لہو و لعب کے دیگر آلات ہیں، جن کے ذریعے سے شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ 64۔ 2 ان لشکروں سے مراد، انسانوں اور جنوں کے وہ سوار اور پیادے لشکر ہیں جو شیطان کے چیلے اور اس کے پیروکار ہیں اور شیطان ہی کی طرح انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں، یا مراد ہے ہر ممکن ذرائع جو شیطان گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ 64۔ 3 مال میں شیطان کے شامل ہونے کا مطلب حرام ذریعے سے مال کمانا اور حرام طریقے سے خرچ کرنا ہے اور اسی طرح مویشیوں کو بتوں کے ناموں پر وقف کردینا مثلًا بحیرہ، سائبہ وغیرہ اور اولاد میں شرکت کا مطلب، زنا کاری، عبدالات، عبدالعزیٰ وغیرہ نام رکھنا، غیر اسلامی طریقے سے ان کی تربیت کرنا کہ برے اخلاق و کردار کے حامل ہوں، ان کو تنگ دستی کے خوف سے ہلاک یا زندہ درگور کردینا، اولاد کو مجوسی، یہودی و نصرانی وغیرہ بنانا اور بغیر مسنون دعا پڑھے بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ وغیرہ ہے۔ ان تمام صورتوں میں شیطان کی شرکت ہوجاتی ہے۔ 64۔ 4 کہ کوئی جنت و دوزخ نہیں ہے، یا مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے وغیرہ۔ 64۔ 5 غُروُر (فریب) کا مطلب ہوتا ہے غلط کام کو اس طرح مزین کرکے دکھانا کہ وہ اچھا اور درست لگے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] شیطان کی آواز سے مراد :۔ شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ پکار ہے جو اسے اللہ کی نافرمانی پر اکساتی ہو اور یہ آواز عموماً شیطانوں کے چیلوں چانٹوں ہی سے آتی ہے پھر اس شیطانی آواز میں ہر قسم کا گالی گلوچ، لڑائی جھگڑا، گانابجانا، موسیقی، راگ رنگ اور مزامیر طرب و نشاط کی محفلیں سب کچھ آتا ہے جو اللہ کی یاد سے انسان کو غافل بنائے رکھتی ہیں اور اس کی اصل فطرت پر پردہ ڈالے رکھتی ہیں۔- [٨١] یعنی تجھے اس بات کی بھی اجازت ہے کہ ڈاکوؤں کی طرح اپنی پوری جمعیت کے ساتھ۔ خواہ وہ انسانوں سے تعلق رکھتی ہو یا جنوں اور شیطانوں سے، اولاد آدم پر پوری شان و شوکت کے ساتھ حملہ آور ہو اور ان میں جس قدر تباہی اور گمراہی مچاسکتا ہے مچالے۔- [٨٢] شیطان کی مال واولاد میں شرکت کی صورتیں :۔ یعنی مال کمانے کے جتنے ناجائز ذرائع انسان اختیار کرتا ہے وہ سب شیطانی انگیخت اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کرتا ہے۔ اور حرام خور انسان شیطان کے مشورے ایسے قبول کرتا ہے جیسے شیطان بھی اس کے کام کاج میں شریک ہے۔ پھر شیطان تو انسان کو یہ راہ دکھا کر الگ ہوجاتا ہے اور سارا گناہ کا بار بنی آدم پر پڑجاتا ہے۔- اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے مشرکین مکہ اپنے اموال کھیتی اور چوپایوں میں سے اللہ کا حصہ الگ نکالتے تھے اور اپنے بتوں کا الگ۔ اسی طرح جو مال بھی بتوں کے چڑھاوے، قربانی یا غیر اللہ کی نذر و نیاز کے طور پر دیا جاتا ہے وہ سب بنی آدم کے اموال میں شیطان کی شراکت ہے۔- اور اولاد میں شراکت یہ ہے کہ اولاد تو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور اس کا نام پیراں دتہ، غوث بخش، عبدالنبی، میراں بخش، یا اسی قسم کے دوسرے شرکیہ نام رکھ کر اولاد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا جائے یا اولاد کے لیے اللہ کے سوا دوسروں کے در پر جائے اور ان کے ہاں قربانیاں اور نذر و نیاز دے۔- [٨٣] شیطان کے وعدے :۔ شیطان کے وعدوں اور ان وعدوں کی حقیقت کے لیے سورة ابراہیم کی آیت نمبر ٢٢ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَـطَعْتَ مِنْهُمْ ۔۔ : ” اسْتَفْزِزْ “ ” فَزٌّ“ سے مشتق ہے جس کا معنی ہلکا و خفیف ہے۔ ” رَجُلٌ فَزٌّ أَیْ خَفِیْفٌ“ ہلکا آدمی، یعنی تو جسے اپنی آواز سے ہلکا اور بےوقعت بنا سکے بنا لے۔ شاہ رفیع الدین (رح) نے ترجمہ کیا ہے ” اور بہکا جس کو بہکا سکے “ کیونکہ آدمی ہلکا اور بےقدر و قیمت ہو کر ہی بہکتا ہے۔ - بِصَوْتِكَ : شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ آواز ہے جو اللہ کی نافرمانی کی دعوت دے، اس میں گانا بجانا، بدکاری اور ہر برے کام کی دعوت اور ترغیب شامل ہے۔ - وَاَجْلِبْ عَلَيْهِم۔۔ : جلب کھینچ کر لانے کو کہتے ہیں اور اس شور کو بھی جس سے گھوڑے کو تیز دوڑانا مقصود ہو۔ ” خَیْلٌ“ گھوڑوں کی جماعت کو کہتے ہیں اور گھڑ سواروں کی جماعت کو بھی۔ ” رَجِلٌ“ ” رَاجِلٌ“ کی جمع ہے، پیادے۔ - وَشَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ : اموال میں شیطان کی شراکت یہ ہے کہ حرام طریقے سے کمایا جائے، یا حرام کاموں میں خرچ کیا جائے، مثلاً سود، رشوت، چوری ڈاکے اور دھوکے وغیرہ سے مال کمایا جائے اور اسے غیر اللہ کے نام پر یا بدکاری و بےحیائی اور نافرمانی کے کاموں میں خرچ کیا جائے۔ اولاد میں شراکت یہ ہے کہ شیطان انھیں دین حنیف کی تعلیمات کے خلاف پرورش دلانے میں کامیاب ہوجائے، ان کے لیے زنا اور اللہ کی نافرمانی کے مواقع میسر کر دے، انھیں اپنے سلف صالحین سے متنفر کر دے، میاں بیوی کی صحبت کے وقت دونوں کو شیطان سے بچانے کی دعا مانگنا فراموش کروا دے، تاکہ پیدا ہونے والی اولاد میں اس کا حصہ ہوجائے، یا ان کے نام ایسے رکھوا دے جن سے ظاہر ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور نے عطا کیے ہیں۔ مشرکین عرب اپنی اولاد کے نام عبد العزیٰ ، عبد شمس اور عبد وَدّ وغیرہ رکھتے تھے۔ ہمارے زمانے میں رسول بخش، حسین بخش، پیر بخش، غلام جیلانی اور پیراں دتہ وغیرہ مشرکانہ نام رکھے جاتے ہیں۔ مزید وہ آیات جن میں مذکور اشیاء میں شیطان کی مشارکت کا ذکر ہے وہ یہ ہیں سورة انعام ( ١٣٦، ١٣٨) اور سورة یونس (٥٤) ۔- وَعِدْهُمْ : یعنی انھیں جھوٹے وعدے دلا، مثلاً یہ کہ اگر شرک کرو گے تو یہ فائدہ ہوگا، سودی کاروبار سے یہ نفع ہوگا اور یہ کہ دنیا میں تمہیں مال و دولت ملی ہے، آخرت میں بھی ملے گی اور یہ کہ ابھی بہت وقت ہے عیش کرلو، پھر توبہ کرلینا وغیرہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کو پانچ حکم دیے ہیں : ” اذْهَبْ “ ” اسْتَفْزِزْ “ ” اَجْلِبْ “ ” شَارِكْهُمْ “ اور ” عِدْهُمْ “ یہ تمام احکام تہدید، یعنی ڈانٹنے کے لیے ہیں، جیسے فرمایا : (اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ ) [ حٰآ السجدۃ : ٤٠ ] ” جو چاہو کرو۔ “ یہ احکام تعمیل کے لیے نہیں ہیں، کیونکہ یہ سب گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ گناہ کا حکم نہیں دیتا۔ - وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا : یعنی شیطان کے سب وعدے محض دھوکا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مفہوم کئی اور مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١٢٠) ، حدید (١٤) اور ابراہیم (٢٢) اس سے پہلے شیطان کو مخاطب کر کے بات ہو رہی تھی، یہاں شیطان کو غائب کے صیغے سے ذکر کیا، یہ التفات شیطان کی تحقیر کے لیے ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری بات یہ کہی تھی کہ اگر قیامت زندگی ملنے کی میری درخواست منظور کرلی گئی تو میں آدم کی ساری اولاد کو بجز قدر قلیل کے گمراہ کر ڈالوں گا آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اس کا جواب دے دیا کہ میرے خاص بندے جو مخلص ہیں ان پر تو تیرا قابو نہ چلے گا چاہے تو اپنا سارا لاؤ لشکر لے آوے اور پورا زور خرچ کرے باقی غیر مخلص اگر وہ تیرے قابو میں آگئے تو ان کا بھی وہی حال ہوگا جو تیرا ہے کہ جہنم کے عذاب میں تم سب گرفتار ہو گے اس میں (آیت) اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ میں جو شیطانی لشکر کے سوار اور پیادوں کا ذکر ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقع میں بھی شیطان کے کچھ افراد سوار ہوں کچھ پیادے بلکہ یہ محاورہ پورے لشکر اور پوری طاقت استعمال کرنے کے لئے بولا جاتا ہے اور اگر واقع میں ایسا ہو کہ کچھ شیطان سوار ہوتے ہوں کچھ پیادہ تو اس میں بھی کوئی وجہ انکار نہیں اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جتنے افراد بھی کفر و معصیت کی حمایت کے لئے لڑنے کو چلتے ہیں وہ سوار اور پیادے سب شیطان ہی کا سوار اور پیادہ لشکر ہے رہا یہ معاملہ کہ شیطان کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ اولاد آدم کو بہکا کر گمراہ کرنے پر قادر ہوجائے گا جس کی بناء پر اس نے یہ دعوی کیا تو ممکن ہے کہ انسان کے اجزا ترکیبی کو دیکھ کر اس نے یہ سمجھ لیا ہو کہ اس کے اندر نفسانی خواہشات کا غلبہ ہوگا اس لئے بہکانے میں آجانا دشوار نہیں اور اس میں بھی کچھ بعد نہیں کہ یہ دعوی بھی محض جھوٹ ہی ہو۔- (آیت) وَشَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۔ لوگوں کے اموال اور اولاد میں شیطان کی شرکت کا مطلب حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بیان فرمایا کہ اموال میں جو مال ناجائز حرام طریقوں سے حاصل کیا جائے یا حرام کاموں میں خرچ کیا جائے یہی شیطان کی اس میں شرکت ہے اور اولاد میں شیطان کی شرکت اولاد حرام ہونے سے بھی ہوتی ہے اور اس سے بھی کہ اولاد کے نام مشرکانہ رکھے یا ان کی حفاظت کے لئے مشرکانہ رسوم ادا کرے یا ان کی پرورش کے لئے حرام ذرائع آمدنی اختیار کرے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَـطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَاَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۭ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا 64؀- فز - قال تعالی: وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء 64] ، أي : أزعج، وقال تعالی: فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء 103] ، أي : يزعجهم، وفَزَّنِي فلان، أي : أزعجني، والْفَزُّ : ولد البقرة، وسمّي بذلک لما تصوّر فيه من الخفّة، كما يسمّى عجلا لما تصوّر فيه من العجلة .- ( ف ز ز ) الا ستفزاز - ہلکا سمجھنا گھبرادینا اور جگہ سے ہٹا دینا قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء 64] اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ ۔ فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء 103] تو اس نے چاہا کہ انہیں گڑ بڑ اکر سر امین ( مصر میں سے نکال دے ۔ اور فزنی فلان کے معنی ہیں اس نے مجھے پریشان کر کے میری جگہ سے ہٹا دیا اور گائے کے بچہ کو فز کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں خفت یعنی سکی پائی جاتی ہے جس طرح کہ اس میں عجلت جلدی بازی کا تصور کر کے اسے عجل کہا جاتا ہے ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - صوت - الصَّوْتُ : هو الهواء المنضغط عن قرع جسمین، وذلک ضربان : صَوْتٌ مجرّدٌ عن تنفّس بشیء کالصَّوْتِ الممتدّ ، وتنفّس بِصَوْتٍ ما .- والمتنفّس ضربان - : غير اختیاريّ : كما يكون من الجمادات ومن الحیوانات، واختیاريّ : كما يكون من الإنسان، وذلک ضربان : ضرب بالید کصَوْتِ العود وما يجري مجراه، وضرب بالفم .- والذي بالفم ضربان : نطق وغیر نطق، وغیر النّطق کصَوْتِ النّاي، والنّطق منه إما مفرد من الکلام، وإمّا مركّب، كأحد الأنواع من الکلام . قال تعالی: وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] ، وقال : إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] ، لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات 2] ، و تخصیص الصَّوْتِ بالنّهي لکونه أعمّ من النّطق والکلام، ويجوز أنه خصّه لأنّ المکروه رفع الصَّوْتِ فوقه، لا رفع الکلام، ورجلٌ صَيِّتٌ: شدید الصَّوْتِ ، وصَائِتٌ: صائح، والصِّيتُ خُصَّ بالذّكر الحسن، وإن کان في الأصل انتشار الصَّوْتِ.- والإِنْصَاتُ :- هو الاستماع إليه مع ترک الکلام . قال تعالی: وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف 204] ، وقال : يقال للإجابة إِنْصَاتٌ ، ولیس ذلک بشیء، فإنّ الإجابة تکون بعد الإِنْصَاتِ ، وإن استعمل فيه فذلک حثّ علی الاستماع لتمکّن الإجابة .- ( ص و ت ) الصوات - ( آواز ) اس ہوا کو کہتے ہیں جو وہ جسموں کے ٹکرانے سے منضغظ یعنی دب جائے اس کی دو قسمیں ہیں ( 1 ) وہ صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت ممتد ( 2 ) وہ صورت جو تنفس کے ساتھ ملا ہوتا ہے پھر صورت متنفس دو قسم پر ہے ایک غیر اختیاری جیسا کہ جمادات حیوانات سے سرز د ہوتا ہے ۔ - دو م اختیاری - جیسا کہ انسان سے صادر ہوتا ہے جو صورت انسان سے صادر ہوتا ہے پھر دو قسم پر ہے ایک وہ جو ہاتھ کی حرکت سے پیدا ہو جیسے عود ( ستار ) اور اس قسم کی دوسری چیزوں کی آواز ۔ دوم وہ جو منہ سے نکلتا ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں ایک وہ جو نطق کے ساتھ ہو دوم وہ جو بغیر نطق کے ہو جیسے نے یعنی بانسری کی آواز پھر نطق کی دو صورتیں ہیں ایک مفرد دوم مرکب جو کہ انواع کلام میں سے کسی ایک نوع پر مشتمل ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] اور خدا کے سامنے آوازیں لسبت ہوجائیں گی تو تم آواز خفی کے سوا کوئی اور آواز نہ سنو گے إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] ان انکر الا ضوات لصوات الحمیر کیوں کہ سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات 2] اپنی آوازیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ نطق و کلام سے عام ہے اور ہوسکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق صوت یعنی محض آواز کے ساتھ ہو نہ کہ بلند آؤاز کے ساتھ کلام کرنے سے نیز اس کی وجہ تخصیص یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آنحضرت کے آواز سے بلند آواز کرنے کی کراہت ظاہر کرنا مقصود ہو اور مطلق بلند آوازو الا آدمی رجل صائت چیخنے والا الصیت کے اصل منعی مشہور ہونے کے ہیں مگر استعمال میں اچھی شہرت کے ستاھ مخصوص ہوچکا ہے - الانصات - کے معنی چپ کر کے توجہ کے کسی کی بات سننا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف 204] اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو بعض نے کیا ہے کہ انصات کے معنی جواب دینا بھی آتے ہیں لیکن یہ آیت نہیں ہے کیونکہ جواب تو انصات یعنی بات سننے کے بعد ہوتا ہے اور اگر اس معنی میں استعمال بھی ہو تو آیت میں اس امر پر تر غیب ہو کی کہ کان لگا کر سنوتا کہ اسے قبول کرنے پر قوت حاصل ہو ۔- جلب - أصل الجَلْب : سوق الشیء . يقال : جَلَبْتُ جَلْباً ، قال الشاعر - وقد يجلب الشیء البعید الجوالب وأَجْلَبْتُ عليه : صحت عليه بقهر . قال اللہ عزّ وجل : وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ [ الإسراء 64] ، والجَلَب المنهي عنه في قوله - عليه السلام : «لا جَلَب» قيل : هو أن يجلب المصّدّق أغنام القوم عن مرعاها فيعدها، وقیل : هو أن يأتي أحد المتسابقین بمن يجلب علی فرسه، وهو أن يزجره ويصيح به ليكون هو السابق . والجُلْبَة : قشرة تعلو الجرح، وأجلب فيه، والجِلْبُ : سحابة رقیقة تشبه الجلبة .- والجَلابیب : القمص والخمر، الواحد : جِلْبَاب .- ( ج ل ب ) جلب - ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ہنکاتے اور چلاتے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ کبھی جواب دور کی چیز کو کھینچ کرلے آتا ہے ۔ اجنب ( افعال ) علیہ کسی پر چلا کر زبر دستی ( سے آگے بڑھانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ [ الإسراء 64] اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ ۔ اور حدیث لاجنب ( یعنی جلب جائز نہیں ہے ) کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں ، ایک یہ کہ مصدق یعنی زکوۃ جمع کرنے والا چراگاہ سے کہیں دور بیٹھ جائے اور وہاں جانوروں کو حاضر کرنے کا حکم دے اور گھڑ دوڑ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص دوڑ میں اپنے گھوڑے پر پہنچنے کے لئے ایک آدمی کو مقرر کرے تاکہ وہ آگے بڑھ جائے ۔ الجلبۃ ۔ پوست جراحی کہ خشک شدہ باشد ۔ الجلب ۔ پتلا سا بادل جو زخم کے پردہ کیطرح ہوتا ہے الجلا لیب اس کا واحد جلباب ہے جس کے معنی چادر یا قمیص کے ہیں ۔- خيل - والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) «1» ، فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» «2» يعني الأفراس . والأخيل :- الشّقراق «3» ، لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل،- ( خ ی ل )- الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - غرر - يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ- [ الانفطار 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ- [ آل عمران 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً- [ النساء 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا - [ الأنعام 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ- [ لقمان 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» .- والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل :- فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها .- ( غ ر ر )- غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شیطان کے وار سب پر کارگر نہیں ہوتے - قول باری ہے (واستفززمن استطعت منھم بصوتک اور تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھیلا سکتا ہے پھسلا لے) جسے یہ بات کہی جا رہی ہے یعنی شیطان کو یہ دھمکی ہے اور اسے خربدار کیا جا رہا ہے کہ اس کی کارستانیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے نیز یہ کہ وہ اس کی سزا ضرور پا کر رہ یگا اور اس سے ضرور اس کا اتنقا ملیا جائے گا۔ اس کی مثال کا یہ قول ہے ۔ ” تم اپنا پورا زور لگا لو پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارا کیا بنتا ہے۔ “ استفزز کے معنی استزل ، کے ہیں یعنی پھسلا دے۔ محاورہ میں استفزہ اور استنزلہ ہم معنی فعل ہیں۔- قول باری (بصوتک) کی تفسیر میں مجاہد سے مروی ہے کہ یہ غناء اور لہو یعنی گانا بجانا ہے۔ ان دونوں باتوں کی ممانعت ہے اور ان کا تعلق شیطان کی آواز سے ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ وہ آواز ہے جس کے ذریعے شیطان لوگوں کو معصیت کی طرف بلاتا ہے۔ ہر وہ آواز جس کے ذریعے فساد کی دعوت دی جائے شیطانی آواز ہوتی ہے۔- قول باری ہے (واحلب علیھم اور ان پر چڑھالا) اجلاب ہانکنے کو کہتے ہیں جس میں ہانکنے والے کا شور و غل شامل ہوتا ہے۔ جلبہ زبردست شور و غل کو کہتے ہیں۔- قول باری ہے (بخیلک و رجلک اپنے سوار اور پیادے) حضرت ابن عباس، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ جن و انس میں سے اللہ کی معصیت کی طرف جانے والا ہر سوار اور پیادہ شیطان کا سوار اور پیادہ ہتا ہے۔ رجل راجل کی جمع ہے جس طرح تجرتا جد کی اور رکب راکب کی جمع ہے۔- قول باری ہے (وشارکھم فی الاموال و الاولاد اور مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا) ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں ” ان چیزوں میں تو ان کا شریک بن جا، ان میں سے کچھ وہ چیزیں ہیں جن کی لوگوں کو طلب ان کی اپنی نفسانی خواہشات کی بنا پر ہوگی اور کچھ چیزوں کو وہ تیرے اکسانے کی بنا پر طلب کریں گے۔ “ مجاہد اور ضحاک کا قول ہے۔ ” اولاد میں ان کے ساتھ سا جھا لگا ، یعنی اولاد زنا “ ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مئو و وہ یعنی زندہ درگور کی جانے والی لڑکی مراد ہے۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو یہودی اور نصرانی ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عباس سے ایک روایت کے مطابق اس سے لوگوں کا عبدالحارث اور عبدشمس نام رکھنا مراد ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں جب ان تمام وجوہ کا احتمال ہے تو اسے ان تمام وجوہ پر محمو لکیا جائے اور یہ تمام معانی مراد ہوں گے۔ اس لئے کہ یہ تمام چیزیں وہ ہیں جن میں شیطان لوگوں کو اکسا کر اور ان کی دعوت دے کر اپنا حصہ ڈالتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٤) اور جا ان میں سے جس پر تیرا بس چلے، اپنی تبلیغ سے اس کے قدم پھسلا دینا یا یہ کہ امیر اور تمام گانوں کی آوازوں اور ہر قسم کی برائیوں سے ان کو گمراہ کردینا۔- اور ان پر اپنے سوار مشرکین اور پیادہ مشرکین چڑھا لانا اور ان کے خلاف مشرکین کے لشکر سے مدد حاصل کرنا اور ان کو اموال حرام اور اولاد حرام میں گرفتار کردینا اور ان سے وعدے کرنا کہ جنت اور دوزخ کچھ نہیں اور شیطان ان لوگوں سے بالکل جھوٹے وعدے کرتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَـطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ )- عربی میں بکری کے ایسے نوزائیدہ بچے کو فزّ کہتے ہیں جو ابھی ٹھیک سے چلنے کے قابل نہ ہو اور کھڑا ہونے کی کوشش میں اس کی ٹانگیں لڑ کھڑاتی ہوں۔ اس مناسبت سے یہ لفظ محاورۃً اس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جس کی ٹانگیں کسی معاملے میں لڑ کھڑا جائیں قدم ڈگمگا جائیں اور ہمت جواب دے دے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :76 اصل میں لفظ ” استفزاز“ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی استحفاف کے ہیں ۔ یعنی کسی کو ہلکا اور کمزور پا کر اسے بہا لے جانا ، یا اس کے قدم پھسلا دینا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :77 اس فقرے میں شیطان کو اس ڈاکو سے تشبیہ دی گئی ہے جو کسی بستی پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لائے اور ان کو اشارہ کرتا جائے کہ ادھر لوٹو ، ادھر چھاپہ مارو ، اور وہاں غارتگری کرو ۔ شیطان کے سواروں اور پیادوں سے مراد وہ سب جن اور انسان ہیں جو بے شمار مختلف شکلوں اور حیثیتوں میں ابلیس کے مشن کی خدمت کر رہے ہیں ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :78 یہ ایک بڑا ہی معنی خیز فقرہ ہے جس میں شیطان اور اس کے پیروؤں کے باہمی تعلق کی پوری تصویر کھینچ دی گئی ہے ۔ جو شخص مال کمانے اور اس کو خرچ کرنے میں شیطان کے اشاروں پر چلتا ہے ، اس کے ساتھ گویا شیطان مفت کا شریک بنا ہوا ہے ۔ محنت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ، جرم اور گناہ اور غلط کاری کے برے نتائج میں وہ حصہ دار نہیں ، مگر اس کے اشاروں پر یہ بیوقوف اس طرح چل رہا ہے جیسے اس کے کاروبار میں وہ برابر کا شریک ، بلکہ شریک غالب ہے ۔ اسی طرح اولاد تو آدمی کی اپنی ہوتی ہے ، اور اسے پالنے پوسنے میں سارے پاپڑ آدمی خود بیلتا ہے ، مگر شیطان کے اشاروں پر وہ اس اولاد کو گمراہی اور بداخلاقی کی تربیت اس طرح دیتا ہے ، گویا اس اولاد کا تنہا وہی باپ نہیں ہے بلکہ شیطان بھی باپ ہونے میں اس کا شریک ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :79 یعنی ان کو غلط امیدیں دلا ۔ ان کو جھوٹی توقعات کےچکر میں ڈال ۔ ان کو سبز باغ دکھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: آواز سے بہکانے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دلوں میں گناہ کے وسوسے پیدا کرے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد گانے بجانے کی آواز ہے جو انسان کو گناہ میں مبتلا کرتی ہے۔ 36: شیطان کو دشمن کی فوج سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح ایک فوج میں ساروں کے بھی دستے ہوتے ہیں اور پیدل چلنے والے دستے بھی، اسی طرح شیطان اپنی ایک فوج رکھتا ہے جس میں شریر جنات اور انسان شامل ہیں، یہ سب مل کر انسانوں کو بہکانے میں شیطان کی مدد کرتے ہیں۔ 37: اس میں اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مال اور اولاد کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف حاصل کرتایا انہیں ناجائز کاموں میں استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے مال اور اولاد میں شیطان کا حصہ لگالیا ہے۔