Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 بندوں کی نسبت اپنی طرف کی، بطور شرف اور اعزاز کے ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے خاص بندوں کو شیطان بہکانے میں ناکام رہتا ہے۔ 65۔ 2 یعنی جو صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بن جاتا ہے، اسی پر اعتماد اور توکل کرتا ہے تو اللہ بھی اس کا دوست اور کار ساز بن جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٤] شیطان کا داؤکن پر چلتا ہے ؟:۔ شیطان کا داؤ صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو ضعیف الاعتقاد اور پہلے ہی شیطانی عمل پر لیبک کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور جن کے لیے حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے کئی دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ ایک دروازے سے مقصد حل نہ ہو تو دوسرے دروازے پر چلے جاتے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو محض ظاہری اسباب پر تکیہ کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگ فوراً شیطان کی چالوں میں پھنس جاتے ہیں۔ مگر جو لوگ صرف ایک اللہ پر نظر رکھتے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ان پر شیطان کا داؤ کارگر نہیں ہوسکتا۔- [٨٥] یعنی جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں تو اللہ بھی ان کے کام ایسے حیرت انگیز طریقوں سے سنوارتا اور سیدھے کردیتا ہے جن کا انسان کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان خود بھی اللہ کی ایسی غیبی امداد پر حیران رہ جاتا ہے اور از راہ تشکر اللہ سے اس کی محبت اور اس پر بھروسہ پہلے سے بڑھ جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ ۭ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اس سلسلۂ کلام کو سچے ایمان والوں کے اطمینان کے لیے اس بات پر ختم کیا کہ میرے خاص بندوں پر تو غالب نہیں آسکے گا، کیونکہ انھوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے سپرد کردیا ہے اور رب تعالیٰ بہت کافی وکیل ہے۔ مزید دیکھیے سورة حجر (٤٢، ٤٣) اور سورة نحل (٩٨ تا ١٠٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا 65؀- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٥) میرے ان بندوں پر جو تجھ سے محفوظ ہیں تیرا بالکل قابو اور بس نہیں چلے گا اور آپ کے رب نے جو وعدے فرمائے ہیں وہ ان کا ذمہ دار اور کافی کار ساز ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ)- تم انسانوں کو بہکانے اور پھسلانے کے لیے جو کچھ کرسکتے ہو کرلو ان کے دلوں میں وسوسے ڈالو ان سے جھوٹے سچے وعدے کرو اور انہیں سبز باغ دکھاؤ۔ یہ تمام حربے تو تم استعمال کرسکتے ہو لیکن تمہیں یہ اختیار ہرگز نہیں ہوگا کہ تم میرے کسی بندے کو اس کی مرضی کے خلاف گمراہی کے راستے پر لے جاؤ۔- (وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا)- وہ بندے جو شیطان سے بچنا چاہیں گے اللہ ان کی مدد کرے گا اور جس کسی کا مدد گار اور کارساز اللہ ہو اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی وہی اس کے لیے کافی ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :80 اس کے دو مطلب ہیں ، اور دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ میرے بندوں ، یعنی انسانوں پر تجھے یہ اقتدار حاصل نہ ہوگا کہ تو انہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے ۔ تو فقط بہکانے اور پھسلانے اور غلط مشورے دینے اور جھوٹے وعدے کرنے کا مجاز کیا جاتا ہے ۔ مگر تیری بات کو قبول کرنا یا نہ کرنا ان بندوں کا اپنا کام ہوگا ۔ تیرا ایسا تسلط ان پر نہ ہوگا کہ وہ تیری راہ پر جانا چا ہیں یا نہ چاہیں ، بہرحال تو ہاتھ پکڑ کر ان کو گھسیٹ لے جائے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میرے خاص بندوں ، یعنی صالحین پر تیرا بس نہ چلے گا ۔ کمزور اور ضعیف الارادہ لوگ تو ضرور تیرے وعدوں سے دھوکا کھائیں گے ، مگر جو لوگ میری بندگی پر ثابت قدم ہوں ، وہ تیرے قابو میں نہ آسکیں گے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :81 یعنی جو لوگ اللہ پر اعتماد کریں ، اور جن کا بھروسہ اسی کی رہنمائی اور توفیق اور مدد پر ہو ، ان کا بھروسہ ہرگز غلط ثابت نہ ہوگا ۔ انہیں کسی اور سہارے کی ضرورت نہ ہوگی ۔ اللہ ان کی ہدایت کے لیے بھی کافی ہوگا اور ان کی دست گیری و اعانت کے لیے بھی ۔ البتہ جن کا بھروسہ اپنی طاقت پر ہو ، یا اللہ کے سوا کسی اور پر ہو ، وہ اس آزمائش سے بخیریت نہ گزر سکیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

38: ’’میرے بندوں‘‘ سے مراد وہ مخلص بندے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی فرماں برداری کی فکر رکھتے ہیں۔