Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آسانیاں ہی آسانیاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان بناتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی آسانی اور سہولت کے لئے اور ان کی تجارت و سفر کے لئے دریاؤں میں کشتیاں چلا دی ہیں ، اس کے فضل و کرم لطف و رحم کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ تم دور دراز ملکوں میں جا آ سکتے ہو اور خاص فضل یعنی اپنی روزیاں حاصل کر سکتے ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 یہ اس کا فضل اور رحمت ہی ہے کہ اس نے سمندر کو انسانوں کے تابع کردیا اور وہ اس پر کشتیاں اور جہاز چلا کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں آتے جاتے اور کاروبار کرتے ہیں، نیز اس نے ان چیزوں کی طرف رہنمائی بھی فرمائی جن میں بندوں کے لئے منافع اور مصالح ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ ۔۔ : ” أَزْجٰی یُزْجِیْ إِزْجَاءً “ کا معنی آہستہ آہستہ چلانا ہے۔ ” أَزْجٰی فُلاَنٌ الإِْبِلَ “ فلاں نے اونٹوں کو آہستہ آہستہ ہانکا۔ بادلوں کو آہستہ آہستہ چلانے کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ (دیکھیے نور : ٤٣) ” الْفُلْكَ “ واحد، جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے، بہت بڑی کشتی یعنی بحری جہاز۔ ” مِنْ فَضْلِهٖ “ قرآن مجید میں روزی کو اکثر فضل فرمایا ہے، کیونکہ دنیا میں جو بھی نعمتیں انسان کو میسر ہیں، یا آخرت میں عطا ہوں گی، وہ محض اللہ کا فضل ہیں، کسی کا اللہ پر کوئی حق واجب نہیں اور اگر کہیں بندوں کا حق کہا گیا ہے تو وہ بھی اللہ ہی کا فضل ہے کہ اس نے اسے اپنے ذمے لازم فرما لیا۔ - زمین کا تقریباً ستر فیصد حصہ سمندر ہے، اس میں انسان کے کھانے پینے اور استعمال کے لیے بےحساب رزق موجود ہے۔ سمندر کے پانی میں ہزاروں ٹن وزنی جہاز اٹھانے کی صلاحیت اور صرف ہوا کے ذریعے سے جہازوں کو سیکڑوں ہزاروں میل دھکیل کرلے جانا صرف اللہ تعالیٰ کے مسخر کرنے کی وجہ سے ہے۔ اب اس کا مزید فضل ہوا تو انجن ایجاد ہوگئے، جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے (وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) [ النحل : ٨ ] (اور وہ پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے) میں فرمایا ہے۔ اس میں مسلمانوں کو سمندر کے بیشمار منافع، مثلاً نہایت آسان اور کم خرچ ذریعے سے تعلیم، تجارت اور دوسرے مقاصد کے لیے سفر کی سہولت، گوشت، زینت کی اشیاء، معدنیات، گیس اور تیل وغیرہ حاصل کرنے کی ترغیب بھی ہے، جن سے کفار فائدہ اٹھا رہے ہیں، کیونکہ سمندروں پر ان کا غلبہ ہے اور ظاہر ہے تیس فیصد خشکی پر بھی وہی غالب ہوگا جو ستر فیصد سمندر پر غالب ہے اور امت مسلمہ بری و بحری جہاد چھوڑنے کی وجہ سے دین و دنیا دونوں میں پیچھے رہنے پر قانع ہوچکی ہے، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو نشانہ بازی، شہ سواری اور تیراکی سیکھنے کی بہت ترغیب دلائی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سلسلہ صحیحہ (١؍٦٢٥، ح : ٣١٥) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اسلام کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کرنا بیان فرمایا۔- اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِـيْمًا : سمندر میں جہازوں کو چلانے کی پہلی وجہ اللہ کے فضل کی تلاش بیان فرمائی، یہ دوسری وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ہمیشہ سے بیحد مہربان ہے۔ ہمیشہ کا مفہوم ” کَانَ “ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ طنطاوی کے الفاظ ہیں : ” وَلِأَنَّہُ سُبْحَانَہُ کَانَ أَزَلاً وَ أَبَدًا بِکُمْ دَاءِمُ الرَّحْمَۃِ وَالرَّأْفَۃِ “ ” کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کے ساتھ نرمی و رحمت کرنے والا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- سابقہ آیات میں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال تھا آیات مذکورہ میں یہی مضمون ایک خاص انداز سے بیان کیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی بیشمار عظیم الشان نعمتیں جو انسانوں پر ہر وقت مبذول ہیں ان کو بیان کر کے یہ بتلانا منظور ہے کہ ان تمام نعمتوں کا بخشنے والا بجز ایک حق تعالیٰ کے کوئی نہیں ہوسکتا اور سب نعمتیں اس کی ہیں تو اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا بڑی گمراہی ہے ارشاد فرمایا کہ) تمہارا رب ایسا (منعم) ہے کہ تمہارے (نفع کے) لئے کشتی کو دریا میں لے چلتا ہے تاکہ تم اسکے ذریعہ رزق تلاش کرو ( اس میں اشارہ ہے کہ بحری سفر تجارت کے لئے عموما بڑے نفع کا سبب ہوتا ہے) بیشک وہ تمہارے حال پر بڑا مہربان ہے اور جب تم کو دریا میں کوئی تکلیف پہونچتی ہے (مثلا دریا کی موج اور ہوا کے طوفان سے غرق ہونے کا خطرہ) تو بجز خدا کے اور جس جس کی تم عبادت کرتے تھے سب غائب ہوجاتے ہیں (کہ نہ تمہیں خود ہی اس وقت ان کا خیال آتا ہے نہ ان کو پکارتے ہو اور پکارو بھی تو ان سے کسی امداد کی ذرہ برابر توقع نہیں یہ خود عملی طور پر تمہاری طرف توحید کا اقرار اور شرک کا ابطلال ہے) پھر جب تم کو خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم پھر اس سے رخ پھیر لیتے ہو اور انسان ہے بڑا ناشکر (کہ اتنی جلدی اللہ کے انعام اور اپنی الحاح وزاری کو بھول جاتا ہے اور تم جو خشکی میں پہنچ کر اس سے اپنا رخ پھیر لیتے ہو) تو کیا تم اس بات سے بےفکر ہوگئے کہ خدا تعالیٰ پھر تم کو خشکی میں لا کر ہی زمین میں دھنسا دے (مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک دریا اور خشکی میں کوئی فرق نہیں وہ جیسے دریا میں غرق کرسکتا ہے ایسا ہی خشکی میں بھی زمین میں دھنسا کر غرق کرسکتا ہے) یا تم پر کوئی ایسی سخت ہوا بھیج دے جو کنکر پتھر برسانے لگے (جیسا کہ قوم عاد ایسے ہی ہوا کے طوفان سے ہلاک کی گئی تھی) پھر تم کسی کو اپنا کار ساز خدا کے سوا نہ پاؤ یا تم اس سے بےفکر ہوگئے کہ خدا تعالیٰ پھر تم کو دریا ہی میں دربارہ لیجاوے پھر تم پر ہوا کا طوفان بھیج دے پھر تم کو تمہارے کفر کے سبب غرق کر دے پھر اس بات پر (یعنی غرق کردینے پر) کوئی ہمارا پیچھا کرنے والا بھی تم کو نہ ملے (جو ہم سے تمہارا بدلہ لے سکے) اور ہم نے اولاد آدم کو (مخصوص صفات دے کر) عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں (جانوروں اور کشتیوں پر) سوار کیا اور پاکیزہ نفیس چیزیں ان کو عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِـيْمًا 66؀- زجا - التَّزْجِيَةُ : دَفْعُ الشّيء لينساق، كَتَزْجِيَةِ ردیء البعیر، وتَزْجِيَةِ الرّيح السّحاب، قال : يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] ، وقال : رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [ الإسراء 66] ، ومنه : رجل مُزْجًى، وأَزْجَيْتُ ردیء التّمر فَزَجَا، ومنه استعیر : زَجَا الخراج يَزْجُو، وخراج زَاجٍ ، وقول الشاعر : وحاجة غير مُزْجَاةٍ من الحاج أي : غير يسيرة، يمكن دفعها وسوقها لقلّة الاعتداد بها .- ( ز ج و ) التزجیۃ - کے معنی کسی چیز کو دفع کرنے کے ہیں تاکہ چل پڑے مثلا پچھلے سوار کا اونٹ کو چلانا یا ہوا ۔ کا بادلوں کو چلانا ۔ قرآن میں ہے : يُزْجِي سَحاباً [ النور 43]( اللہ ہی ) بادلوں کو ہنکاتا ہے رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [ الإسراء 66] جو تمہارے لئے ( سمندروں میں ) جہازوں کو چلاتا ہے ۔ اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ رجل مزجی ہنکایا ہوا آدمی یعنی کمزور اور ذلیل آدمی ۔ ازجیت ردی التمر میں نے ردی کھجوروں کو دور پھینک دیا اور زجا لازم ) ازجی ٰ کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہاجاتا ہے ۔ رجا الخزاج ( ن ) خراج کا سہولت سے جمع ہوجاتا ۔ اور ، ، خراج زاج ، ، اس خراچ کو کہتے ہیں جو معمولی ہونے کی وجہ سے سہولت سے جمع ہوجائے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ (203) وجاجۃ غیر مزجاۃ عن الحاج اور حاجت مندوں کی بعض حاجتیں معمولی نہیں ہوتیں کہ انہیں پورا کیا جاسکے ۔- فلك - الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر .- قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22]- ( ف ل ک ) الفلک - کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ - ابتغاء - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے - پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٦) وہ ایسا غنی ہے کہ تمہارے نفع کے لیے کشتیوں کو چلاتا ہے تاکہ تم اس کے رزق کی یا یہ کہ اس کے علم کی تلاش کرو اور وہ عذاب کے مؤخر کرنے یا یہ کہ تم میں سے جو توبہ کرے اس کے حال پر بہت مہربان ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :82 اوپر کے سلسلہ بیان سے اس کا تعلق سمجھنے کے لیے اس رکوع کے ابتدائی مضمون پر پھر ایک نگاہ ڈال لی جائے ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابلیس اول روز آفرنیش سے اولاد آدم کے پیچھے پڑا ہوا ہے تا کہ اس کو آرزؤوں اور تمناؤں اور جھوٹے وعدوں کے دام میں پھانس کر راہ راست سے ہٹا لے جائے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ اس بزرگی کا مستحق نہی ہے جو اسے خدا نے عطا کی ہے ۔ اس خطرے سے اگر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی بندگی پر ثابت قدم رہے اور ہدایت و اعانت کے لیے اسی کی طرف رجوع کرے اور اسی کو اپنا وکیل ( مدار توکل ) بنائے ۔ اس کے سوا دوسری جو راہ بھی انسان اختیار کرے گا ، شیطان کے پھندوں سے نہ بچ سکے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تقریر سے یہ بات خود بخود نکل آئی کہ جو لوگ توحید کی دعوت کو رد کر رہے ہیں اور شرک پر اصرار کیے جاتے ہیں وہ دراصل آپ ہی اپنی تباہی کے درپے ہیں ۔ اسی مناسبت سے یہاں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال کیا جا رہا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :83 یعنی ان معاشی اور تمدنی اور علمی و ذہنی فوائد سے متمتع ہونے کی کوشش کرو جو بحری سفروں سے حاصل ہوتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani