Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مصیبت ختم ہوتے ہی شرک اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ بندے مصیبت کے وقت تو خلوص کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف جھکتے ہیں اور اس سے دلی دعائیں کرنے لگتے ہیں اور جہاں وہ مصیبت اللہ تعالیٰ نے ٹال دی تو یہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔ فتح مکہ کے وقت جب کہ ابو جہل کا لڑکا عکرمہ حبشہ جانے کے ارادے سے بھاگا اور کشتی میں بیٹھ کر چلا اتفاقا کشتی طوفان میں پھنس گئی ، باد مخالف کے جھونکے اسے پتے کی طرح ہلانے لگے ، اس وقت کشتی میں جتنے کفار تھے ، سب ایک دوسرے سے کہنے لگے اس وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی کچھ کام نہیں آنے گا ۔ اسی کو پکارو ۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہ کام آ سکتا ہے ۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہی کام آ سکتا ہے ۔ اے اللہ میں نذر مانتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے اس آفت سے بچا لیا تو میں سیدھا جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا اور یقینا وہ مجھ پر مہربانی اور رحم و کرم فرمائیں گے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چنانچہ سمندر سے پار ہوتے ہی وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی خدمت میں حاصر ہوئے اور اسلام قبول کیا پھر تو اسلام کے پہلوان ثابت ہوئے رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔ پس فرماتا ہے کہ سمندر کی اس مصیبت کے وقت تو اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہو لیکن جاتے ہو لیکن پھر اس کے ہٹتے ہی اللہ کی توحید ہٹا دیتے ہو اور دوسروں سے التجائیں کرنے لگتے ہو ۔ انسان ہے ہی ایسا ناشکرا کہ نعمتوں کو بھلا بیٹھتا ہے بلکہ منکر ہو جاتا ہے ہاں جسے اللہ بچا لے اور توفیق خیر دے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 یہ مضموں پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٦] گرداب میں صرف اللہ کو پکارنا :۔ شیطانی اغوا کی کیفیت بیان کرنے کے بعد پھر سے توحید کے اثبات اور شرک کی تردید پر دلائل ذکر کیے جارہے ہیں۔ مشرکین مکہ کی عادت تھی کہ جب ان کی کشتی گرداب میں پھنس جاتی یا سمندر کے طوفانی تھپیڑے کشتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور کشتی والوں کو سب ظاہری اسباب ختم ہوتے نظر آنے لگتے تو اس وقت وہ صرف ایک اللہ کو پکارتے اور اپنے دوسرے سب معبودوں کو بھول جاتے تھے۔ اسی فطری داعیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور مختار کل ہونے کے ثبوت پر پیش فرمایا ہے اور باقی معبودوں کی تردید کی ہے مگر آج کا مشرک اس دور کے مشرکوں سے اپنے شرک میں پختہ تر نظر آتا ہے وہ اس آڑے وقت میں بھی یا بہاول الحق، بیڑا بنے دھک (یعنی اے بہاول الحق یہ کشتی پار لگا دو ) کا نعرہ لگاتا ہے۔ (قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ 30؀) 9 ۔ التوبہ :30) ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سورة یونس کے حاشیہ نمبر ٣٤ میں ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ۔۔ : زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ نبوت کے کفار کی بت پرستی کے باوجود ان کی فطرت میں رکھی گئی توحید کا ذکر بطور دلیل ہو رہا ہے کہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو پہاڑوں جیسی موجوں میں جہاز گھر جاتا ہے اور موت صاف نظر آنے لگتی ہے تو تم اپنے تمام خداؤں، داتاؤں، مشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کو بھول کر اپنی فطرت میں رکھی ہوئی توحید کی وجہ سے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہو، پھر جب وہ تمہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو منہ پھیر لیتے ہو، جیسے اپنے رب سے تمہاری کوئی آشنائی ہی نہ تھی اور پھر اپنے خود ساختہ خداؤں کو پکارنے لگتے ہو اور انھی کا احسان ماننے لگتے ہو۔ کس قدر احسان ناشناسی اور ناشکری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مشرک انسان ہمیشہ سے بیحد ناشکرا رہا ہے۔ ” اَلْاِنْسَان “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے اس سے مراد کفار ہیں، کیونکہ مومن شکر گزار ہوتے ہیں، اگرچہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْر) [ سبا : ١٣ ] ” اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔ “ کفار کا یہ رویہ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یونس (٢٢، ٢٣) ، عنکبوت (٦٥) ، لقمان (٣٢) اور زمر (٨) یہ تو زمانۂ جاہلیت کے ان لوگوں کا حال تھا جو مشرک تھے اور اللہ اور رسول نے انھیں مشرک قرار دیا، حالانکہ وہ سخت مصیبت میں صرف اللہ کو پکارتے تھے، مگر ہمارے زمانے کے بعض مسلمان کہلانے والوں کا کمال یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت میں بھی اللہ کے ساتھ یا اللہ کے علاوہ دوسروں کو مدد کے لیے پکارنا نہیں بھولتے، پھر بھی نہ ان کی توحید میں کوئی خلل آتا ہے، نہ اسلام کا کچھ بگڑتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا 67؀- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ میا 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧) اور جس وقت دریا میں تمہیں کوئی تکلیف یا غرق ہونے کا ڈر ہوتا ہے تو جن بتوں کو تم پوجتے ہو، سب کو چھوڑ دیتے ہو ان میں سے کسی سے بھی نجات کی درخواست نہیں کرتے، سوائے خدائے وحدہ لاشریک کے اسی کے سامنے نجات کی درخواست کرتے ہو۔- پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو پھر شکر خداوندی اور توحید خداوندی سے پھرجاتے ہو، واقعی کافر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا بڑا ناشکرا ہے

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ )- جب کشتی طوفان میں گھر جاتی ہے اور موت سامنے نظر آنے لگتی ہے تو :- (ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ )- اس وقت تمہیں اپنے ان معبودوں میں سے کوئی بھی یاد نہیں رہتا جنہیں تم عام حالات میں اپنا مددگار سمجھتے ہو۔ اس آڑے وقت میں تم صرف اللہ ہی کو مدد کے لیے پکارتے ہو۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آچکا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :84 یعنی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہاری اصلی فطرت ایک خدا کے سوا کسی رب کو نہیں جانتی ، اور تمہارے اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ شعور موجود ہے کہ نفع و نقصان کے حقیقی اختیارات کا مالک بس وہی ایک ہے ۔ ورنہ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ جو اصل وقت دستگیری کا ہے اس وقت تم کو ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا دستگیر نہیں سوجھتا ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani