اظہار قدرت و اختیار رب العالمین لوگوں کو ڈرا رہا ہے کہ جو تری میں تمہیں ڈبو سکتا تھا ، وہ خشکی میں دھنسانے کی قدرت بھی رکھتا ہے پھر وہاں تو صرف اسی کو پکارنا اور یہاں اس کے ساتھ اوروں کو شریک کرنا یہ کس قدر ناانصافی ہے ؟ وہ تو تم پر پتھروں کی بارش بھی برسا کر ہلاک کر سکتا ہے جیسے لوطیوں پر ہوئی تھے ۔ جس کا بیان خود قرآن میں کئی جگہ ہے ۔ سورہ تبارک میں فرمایا کہ کیا تمہیں اس اللہ کا ڈر نہیں جو آسمانوں میں ہے کہ کہیں وہ تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے کہ یکایک زمین جنبش کرنے لگے ۔ کیا تمہیں آسمانوں والے اللہ کا خوف نہیں کہ کہیں وہ تم پر پتھر نہ برسا دے پھر جان لو کہ ڈرانے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس وقت تم نہ اپنا مددگار پاؤ گے ، نہ دستگیر ، نہ وکیل نہ کار ساز ، نہ نگہبان ، نہ پاسبان ۔
68۔ 1 یعنی سمندر سے نکلنے کے بعد تم جو اللہ کو بھول جاتے ہو تو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ خشکی میں بھی تمہاری گرفت کرسکتا ہے، تمہیں وہ زمین میں دھنسا سکتا ہے یا پتھروں کی بارش کر کے تمہیں ہلاک کرسکتا ہے، جس طرح بعض گزشتہ قوموں کو اس نے اس طرح ہلاک کیا۔
اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ ۔۔ : ” خَسْفٌ“ کا معنی زمین میں دھنسا دینا ہے۔ ” جَانِبَ الْبَرِّ “ خشکی کا کنارا، یہ اس لیے فرمایا کہ زمین میں پانی کا کنارا خشکی اور خشکی کا کنارا پانی ہے۔ ” حَاصِبًا “ سنگریزے اڑانے والی آندھی، یا وہ بادل جس سے اولے برسیں۔ ” قَاصِفًا “ ” ضَرَبَ “ سے اسم فاعل ہے، درختوں، کشتیوں اور ہر چیز کو توڑ دینے والی آندھی۔ ” تَبِيْعًا “ قرض یا انتقام کا مطالبہ کرنے والا جو پیچھا نہ چھوڑے۔ - ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی نادانی اور کم عقلی بیان فرمائی ہے کہ تم جب خشکی پر پہنچ جاتے ہو تو اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت سے بےخوف ہو کر دوبارہ کفر و شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو، کیا تمہیں اس بات کا کوئی خوف نہیں آ رہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ پانی میں ڈبو سکتا ہے تو خشک زمین میں بھی دھنسا سکتا ہے ؟ اس کا حکم ہو تو پانی کی طرح زمین تمہیں نگل لے، یا وہ پتھر اڑا کر لانے والی تند و تیز آندھی بھیج کر تمہیں ہلاک کر دے، پھر تمہیں کوئی مددگار نہیں ملے گا۔ یا تمہیں یہ بھی خوف نہیں رہا کہ تمہیں اللہ کی طرف سے پھر کبھی سمندری سفر پیش آجائے اور وہ تمہاری ناشکری کی سزا کے لیے ہر چیز کو توڑ دینے والی طوفانی ہوا کے ذریعے سے تمہیں غرق کر دے ؟ پھر تمہیں کوئی ایسی ہستی نہیں ملے گی جو اللہ تعالیٰ سے انتقام کا مطالبہ اور پیچھا کرے۔ معلوم ہوا کہ انسان کو کسی آزمائش سے نجات کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور دوبارہ گرفت سے بےپروا ہرگز نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ سراسر خسارے کی بات ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ ) [ الأعراف : ٩٩ ] ” پھر کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بےخوف ہوگئے ہیں، تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے بےخوف نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ “ ان آیات میں مذکور معنی اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر واضح فرمایا ہے، دیکھیے سبا (٩) ، انعام (٦٥) اور سورة ملک (١٦، ١٧) ” ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَيْنَا بِهٖ تَبِيْعًا “ کی ہم معنی آیت سورة شمس (١٤، ١٥) میں دیکھیے۔
اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِيْلًا 68ۙ- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) امانت - ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔- وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - خسف - الخُسُوف للقمر، والکسوف للشمس «1» ، وقال بعضهم : الکسوف فيهما إذا زال بعض ضوئهما، والخسوف : إذا ذهب كلّه . ويقال خَسَفَهُ اللہ وخسف هو، قال تعالی: فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] ، وقال : لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] ، وفي الحدیث : «إنّ الشّمس والقمر آيتان من آيات اللہ لا يُخْسَفَانِ لموت أحد ولا لحیاته» «2» ، وعین خَاسِفَة : إذا غابت حدقتها، فمنقول من خسف القمر، وبئر مَخْسُوفَة : إذا غاب ماؤها ونزف، منقول من خسف اللہ القمر . وتصوّر من خسف القمر مهانة تلحقه، فاستعیر الخسف للذّلّ ، فقیل : تحمّل فلان خسفا .- ( خ س ف ) الخسوف - کا لفظ چاند کے بےنور ہونے اور کسوف کا لفظ سورج کے بےنور ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ خسوف قدر ہے بےنور ہونے کو کہاجاتا ہے اور کسوف پوری طرح بےنور ہوجانے کو کہتے ہیں ، عام اس سے کہ وہ سورج ہو یا چاند کہاجاتا ہے خسفہ اللہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسادیا ( متعدی ) خسف ھو ( لازمی ) زمین میں دھنس جانا ۔ قرآن میں ہے :۔ فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ۔ لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ۔ حدیث میں ہے ( ا اا) ان الشمس والقمر ایتان من ایات اللہ لایخسفان لموت احد ولا لحیاتہ کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت پاپیدائش کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے ۔ اور عین خاسفہ ( اندر دھنسی ہوئی آنکھ ) کا محاورہ خسف القمر سے منقول ہے بئر مخسوفۃ وہ کنواں جس کا پانی غائب ہوگیا ہو اور چاند گہن لگنے سے چونکہ ماند پڑجاتا ہے اس لیے بطور استعارہ خسیف بمعنی ذلت ورسوائی بھی آجاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ تحمل فلان خسفا ۔ فلاں شخص ذلیل ہوگیا ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔
(٦٨) مکہ والو تو کیا تم اس بات سے مطمئن بیٹھے ہو کہ وہ تمہیں قارون کی طرح خشکی کی طرف لا کر دھنسا دے یا تم پر قوم لوط (علیہ السلام) کی طرح پتھر برسا دیے جائیں پھر تم کسی کو اپنا مددگار نہ پاؤ۔
آیت ٦٨ (اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ )- جب تم جان بچا کر سمند رسے خشکی پر آتے ہو تو پھر اللہ کی نا شکری کرتے ہوئے اس سے منہ موڑ لیتے۔ کیا تمہیں اس بات سے خوف نہیں آتا کہ اگر اللہ چاہے تو تمہیں خشک زمین ہی کے اندر دھنسا دے ؟ کیا خشکی پر لوگوں کو موت نہیں آتی ؟ - آسودۂ ساحل توُ ہے مگر شاید یہ تجھے معلوم نہیں - ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں خاموش بھی طوفاں ہوتے ہیں - (اَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِيْلًا)- تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ چاہے تو سنگریزوں والی خوفناک آندھی سے بھی تمہیں ہلاک کرسکتا ہے۔