Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 اس میں مشرکین کے لئے تہدید و وعید ہے اور اس کا وہی مفہوم ہے جو سورة ہود کی آیت 121۔ 122 کا ہے۔ وقل للذین لا یومنون اعملوا علی مکانتکم انا عملون۔ شاکلۃ کے معنی نیت دین طریقے اور مزاج و طبیعت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس میں کافر کے لیے ذم اور مومن کے لیے مدح کا پہلو ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ایسا عمل کرتا ہے جو اس کے اخلاق و کردار پر مبنی ہوتا ہے جو اس کی عادت و طبیعت ہوتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٥] شاکلہ کا مفہوم :۔ شاکلۃ کے معنی طور طریقہ، ڈھب، ڈھنگ، یعنی ہر انسان اپنی افتاد طبع کے مطابق کام کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص صدقہ علانیہ دیتا ہے اور اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور دوسرا صدقہ پوشیدہ طور پر دیتا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ نمائش نہ ہو۔ اب دیکھئے نیت دونوں کی بخیر ہے لیکن طریقہ اور انداز فکر الگ الگ ہے۔ یا مثلاً رسول اللہ رات کو نکلے اور دیکھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نماز میں آہستہ آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پوچھا اتنا آہستہ کیوں پڑھتے ہو ؟ عرض کیا، اس لیے کہ میرا رب بہرا نہیں ہے کہ چلا کر پڑھوں۔ آگے گئے تو دیکھا کہ سیدنا عمر بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پوچھا اتنی بلند آواز سے کیوں پڑ رہے ہو ؟ عرض کیا سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں تو آپ نے دونوں کی تحسین فرمائی۔ اس واقعہ میں عمل ایک ہی ہے نیت بھی دونوں کی بخیر ہے۔ لیکن سوچ کا انداز الگ الگ ہے۔ یہی شاکلۃ کا مفہوم ہے۔ اسی لحاظ سے بعض علماء نے اس لفظ سے مراد ہی نیت لی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِهٖ : ” شَاکِلَۃٌ“ وہ طریقہ جو کسی کا ہم شکل اور حسب حال ہو، یعنی ہر شخص اپنے اس طریقہ پر عمل کرتا ہے جو ہدایت یا گمراہی میں سے اس کے مطابق اور حسب حال ہوتا ہے، کوئی نیک ہے، کوئی بد اور کوئی بین بین، سب ایک طریقے پر نہیں، نہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے موافق ہے، کیونکہ پھر امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ دیکھیے سورة ہود (١١٨، ١١٩) ۔- فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِيْلًا : یعنی ہر شخص اسی طریقے پر خوش ہے جس پر چل رہا ہے، جیسا کہ فرمایا : (كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ ) [ المؤمنون : ٥٣ ] ” ہر گروہ کے لوگ اسی پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔ “ اور ہر شخص اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحیح راستے پر سمجھتا ہے، مگر سب سے زیادہ صحیح راستے پر چلنے والوں کا علم صرف تیرے رب کو ہے جو قیامت کے درمیان اپنے بندوں کے تمام اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ دیکھیے سورة زمر (٤٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِهٖ لفظ شَاكِلَتِهٖ کی تفسیر میں ائمہ سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں طبیعت عادت جبلت نیت طریقہ وغیرہ اور حاصل سب کا یہ ہے کہ ہر انسان کی اپنے ماحول اور عادات اور رسم و رواج کے اعتبار سے ایک عادت اور طبعیت ثانیہ بن جاتی ہے اس کا عمل اسی کے تابع رہتا ہے (قرطبی) اس میں انسان کو اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ برے ماحول بری صحبت اور بری عادتوں سے پرہیز کرے نیک لوگوں کی صحبت اور اچھی عادات کا خوگر بنے (جصاص) کیونکہ اپنے ماحول اور صحبت اور رسم و رواج سے انسان کی ایک طبیعت بن جاتی ہے اس کا ہر عمل اسی کے تابع چلتا ہے۔- امام جصاص نے اس جگہ شاکلہ کے ایک معنی ہم شکل کے بھی کئے ہیں اس معنی کے لحاظ سے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق آدمی سے مانوس ہوتا ہے نیک آدمی نیک سے اور شریر شریر سے مانوس ہوتا ہے اسی کے طریقہ پر چلتا ہے اور اس کی تطیر حق تعالیٰ کا یہ قول ہے۔- (آیت) اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ اور والطَّيِّبٰتُ للطَّيِّبِيْنَ یعنی خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کیلئے ہیں مراد یہ ہے کہ ہر ایک اپنے مزاج کے مطابق مرد و عورت سے مانوس ہوتا ہے اور حاصل مطلب اس کا بھی اس بات پر تنبیہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ خراب صحبت اور خراب عادت سے پرہیز کا اہتمام کرے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِهٖ ۭ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِيْلًا 84؀ۧ- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - شكل - الْمُشَاكَلَةُ في الهيئة والصّورة، والنّدّ في الجنسيّة، والشّبه في الكيفيّة، قال تعالی:- وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْواجٌ [ ص 58] ، أي : مثله في الهيئة وتعاطي الفعل، والشِّكْلُ قيل : هو الدّلّ ، وهو في الحقیقة الأنس الذي بين المتماثلین في الطّريقة، ومن هذا قيل : الناس أَشْكَالٌ وألّاف «3» ، وأصل الْمُشَاكَلَةُ من الشَّكْل . أي : تقييد الدّابّة، يقال شَكَلْتُ الدّابّةَ.- والشِّكَالُ : ما يقيّد به، ومنه استعیر : شَكَلْتُ الکتاب، کقوله : قيدته، ودابّة بها شِكَالٌ: إذا کان تحجیلها بإحدی رجليها وإحدی يديها كهيئة الشِّكَالِ ، وقوله : قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء 84] ، أي : علی سجيّته التي قيّدته، وذلک أنّ سلطان السّجيّة علی الإنسان قاهر حسبما بيّنت في الذّريعة إلى مکارم الشّريعة «1» ، وهذا کما قال صلّى اللہ عليه وسلم : «كلّ ميسّر لما خلق له» «2» .- والْأَشْكِلَةُ : الحاجة التي تقيّد الإنسان، والْإِشْكَالُ في الأمر استعارة، کالاشتباه من الشّبه .- ( ش ک ل ) المشاکلۃ - کے معنی شکل و صورت میں مشابہ ہونے کے ہیں اور شبہ کے معنی جنس میں شریک ہونے کے ہیں اور شبہ کے معنی کیفیت میں مماثلث کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْواجٌ [ ص 58] اور اس طرح کے اور بہت سے ( عذاب ہوں گے ) میں ہیئت اور تعاطی فعل کے لحاظ سے مماثلث مراد ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ شکل کے معنی دل یعنی عورت کے نازو انداز کے ہیں لیکن اصل میں اس نسبت کو کہتے ہیں دوہم مشرب وہم پیشہ شخصوں میں پائی جاتی ہے ۔ چناچہ اسی سے محاورہ ہے ۔ الناس اشکال والاف کہ لوگ باہم مشابہ اور الفت والے ہیں ۔ اصل میں مشاکلۃ شکل سے ہے اور شکلت الدابۃ کے معنی ہیں میں نے جانور کی ٹانگیں ( شکال سے ) باندھ دیں اور شکال اس رسی کو کہتے ہیں جس سے اس کی ٹانگیں باندھ دی جاتی ہیں پھر اس سے استعارہ کے طور پر فیدت الکتاب کی طرح شکلت الکتاب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کتاب کو اعراب لگانے کے ہیں ۔ دابۃ بھا شکال وہ جانور جس کے ایک اگلے اور ایک پچھلے پاؤں میں شکال یعنی پائے بند کی طرح سفیدی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء 84] کہو کہ ہر ایک اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ یعنی اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہے جو اسے پائے بند کئے ہوئے ہے کیونکہ فطرت انسان پر سلطان قاہر کی طرح غالب رہتی ہے جیسا کہ ہم اپنی کتاب الذریعۃ الٰی مکارم الشریعۃ میں بیان کرچکے ہیں ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے ( 199) «كلّ ميسّر لما خلق له» ( فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ) والْأَشْكِلَةُ حاجت جو انسان کو پابند کردے اور الاشکال کے معنی ( بطور استعارہ ) کسی کام کے پیچیدہ ہوجانے کے ہیں ۔ جیسا کہ اشتتباہ کا لفظ شبۃ سے مشتق ہے اور مجازا کسی امر کے مشتبہ ہونے پر بولاجاتا ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ہر ایک کا طریق عمل اپنا ہے - قول باری ہے (قل کل یعمل علی نشاکلتہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہہ دو کہ ” ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے “ ) مجاہد کا قہلے کہ ” اپنی طبیعت کے مطابق “ ایک قول ہے اپنی عادت پر جس سے وہ مانوس ہے۔ “ آیت میں ان لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے جو فساد کے عادی ہوگئے ہوں اور انہیں اس میں سکون ملتا ہو نیز وہ اس پر برقرار رہنا چاہتے ہوں۔ ایک قول کے مطابق ” ہر شخص اپنے اخلاق و کردار کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ (شاکلتہ ) سے مراد وہ طریقہ ہے جو ایک شخص کے مناسب اور لائق ہوتا ہے اور اس سے اس کی مشابہت ہوتی ہے۔ خیر صلاح کی مناسبت و مشکلات بھلے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے اور شر و فساد کی مناسبت شریر لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (الخبیثت للخبیثین) یعنی خبیث باتیں خبیث لوگ کرتے ہیں اور صوالطیبت للطیبین) پاکیزہ باتیں پاکیزہ لوگ کرتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا گزر لوگوں کے ایک گروہ کے پاس سے ہوا، انہوں نے آپ کو برے الفاظ سے خطاب کیا۔ آپ نے اچھے الفاظ میں اس کا جواب دیا، جب آپ سے اس پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے فرمایا :” ہر انسان ویہ کچھ خرچ کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٤) اے پیغمبر آپ کہہ دیجیے کہ ہر شخص اپنے طریقہ پر کام کرتا ہے سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے رستے پر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِهٖ )- ” شاکلہ “ سے مراد ہر انسان کی شخصیت کا مخصوص سانچہ ہے جیسے آپ کو کسی دھات سے کوئی شے بنانی ہے تو پہلے اس کا ایک سانچہ ( ) بناتے ہیں اور اس دھات کو پگھلا کر اس میں ڈال دیتے ہیں تو وہ دھات وہی مخصوص شکل اختیار کرلیتی ہے۔ انسانی شخصیت کے مخصوص سانچے کی تشکیل میں انسان کے موروثی اور اس کا خارجی ماحول بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا موروثی عوامل اور ماحولیاتی عوامل کے حاصل ضرب سے انسان کی شخصیت کا جو ہیولیٰ بنتا ہے وہی اس کا شاکلہ ہے۔ کسی شخص نے نیکی اور برائی کے لیے جو بھی محنت اور کوشش کرنی ہے وہ اپنے اس شاکلہ کے اندر رہ کر ہی کرنی ہے۔ گویا کسی انسان کا شاکلہ اس کے دائرہ عمل کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ وہ نہ تو ان حدود سے تجاوز کرسکتا ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر عمل کرنے کا وہ مکلف ہے۔ جیسے انگریزی میں کہا جاتا ہے : یعنی کسی نے موٹا ہونے کی جتنی بھی کوشش کرنی ہے اپنی کھال کے اندر رہ کر ہی کرنی ہے۔ وہ اپنی کھال سے باہر بہر حال نہیں نکل سکتا۔ چناچہ ہر شخص اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کرتا ہے اور اللہ کو خوب علم ہے کہ اس نے کس کو کس طرح کا شاکلہ دے رکھا ہے۔ اور وہ ہر شخص سے اس کے شاکلہ کی مناسبت سے ہی حساب لے گا۔ (اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو بیان القرآن ‘ جلد اول ‘ سورة البقرۃ تشریح آیت ٢٨٦۔ )- (فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِيْلًا)- اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ نے فرمایا : (اَلنَّاسُ مَعَادِنُ ) کہ انسان معدنیات کی طرح ہیں۔ معدنیات میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی خصوصیات ( ) ہوتی ہیں۔ سونے کی چاندی کی سے بالکل مختلف خصوصیات کی حامل ہے۔ اسی طرح ہر انسان کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کی خصوصیات سے خوب واقف ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani