Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بخاری وغیرہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے کھیتوں میں جا رہے تھے آپ کے ہاتھ میں لکڑی تھی میں آپ کے ہمراہ تھا ۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ کو دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ آؤ ان سے روح کی بابت سوال کریں ۔ کوئی کہنے لگا اچھا ، کسی نے کہا مت پوچھو ۔ کوئی کہنے لگے تمہیں اس سے کیا نتیجہ کوئی کہنے لگا شاید کوئی جواب ایسا دیں جو تمہارے خلاف ہو ۔ جانے دو نہ پوچھو ۔ آخر وہ آئے اور حضرت سے سوال کیا اور آپ اپنی لکڑی پر ٹیک لگا کر ٹھہر گئے میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے خاموش کھڑا رہ گیا اس کے بعد آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ پوری سورت مکی ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مکے کی اتری ہوئی آیت سے ہی اس موقعہ پر مدینے کے یہودیوں کو جواب دینے کی وحی ہوئی ہو یا یہ کہ دوبارہ یہی آیت نازل ہوئی ہو ۔ مسند احمد کی روایت سے بھی اس آیت کا مکے میں اترنا ہی معلوم ہوتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کوئی مشکل سوال بتاؤ کہ ہم ان سے پوچھیں انہوں نے سوال سجھایا ۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سرکش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے تورات ہمیں ملی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اسے بہت سی بھلائی مل گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ آیت ( قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا ١٠٩؁ ) 18- الكهف:109 ) یعنی اگر تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور اس سے کلمات الہٰی لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ روشنائی سب خشک ہو جائے گی اور اللہ کے کلمات باقی رہ جائیں گے تو پھر تم اس کی مدد میں ایسے ہی اور بھی لاؤ ۔ عکرمہ نے یہودیوں کے سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27؀ ) 31- لقمان:27 ) ، کا بیان فرمایا ہے یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمین اور روئے زمین کے سمندروں کی روشنائی اور ان کے ساتھ ہی ساتھ ایسے ہی اور سمندر بھی ہوں جب بھی اللہ کے علم کے مقابلہ میں بہت تھوڑی چیز ہے ۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ عیہ نے ذکر کیا ہے کہ مکے میں یہ آیت اتری کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو مدینے کے علماء یہود آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے سنا ہے آپ یوں کہتے ہیں کہ تمہیں تو بہت ہی کم عطا فرمایا گیا ہے اس سے مراد آپ کی قوم ہے یا ہم ؟ آپ نے فرمایا تم بھی اور وہ بھی ۔ انہوں نے کہا سنو خود قرآن میں پڑھتے ہو کہ ہم کو توراۃ ملی ہے اور یہ بھی قرآن میں ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم الہٰی کے مقابلے میں یہ بھی کم ہے ۔ ہاں بیشک تمہیں اللہ نے اتنا علم دے رکھا ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہیں بہت کچھ نفع ملے اور یہ آیت اتری ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27؀ ) 31- لقمان:27 ) ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا کہ اسی جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے ؟ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے چونکہ اس بارے میں کوئی آیت وحی آپ پر نہیں اتری تھی آپنے انہیں کچھ نہ فرمایا اسی وقت آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہ آیت اتری یہ سن کر یہودیوں نے کہا آپ کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ نے فرمایا جبرائیل اللہ کی طرف سے یہ فرمان لائے وہ کہنے لگے وہ تو ہمارا دشمن ہے اس پر آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97؀ ) 2- البقرة:97 ) نازل ہوئی یعنی جبرائیل کے دشمن کا دشمن اللہ ہے اور ایسا شخص کافر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں روح سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد ایک ایسا عظیم الشان فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس سے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک لقمہ بنانے کو کہا جائے تو وہ بنا لے ۔ اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اے اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار منہ ہیں اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر زبان پر ستر ہزار لغت ہیں وہ ان تمام زبانوں سے ہر بولی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے ۔ اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اور فرشتوں کے ساتھ اللہ کی عبادت میں قیامت تک اڑتا رہتا ہے ۔ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ سہیلی کی روایت میں تو ہے کہ اس کے ایک لاکھ سر ہیں ۔ اور ہر سر میں ایک لاکھ منہ ہیں اور ہر منہ میں ایک لاکھ زبانیں ہیں جن سے مختلف بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے ۔ یہ بھی کہا گاہے کہ مراد اس سے فرشتوں کی وہ جماعت ہے جو انسانی صورت پر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں کہ اور فرشتوں کو تو وہ دیکھتے ہیں لیکن اور فرشتے انہیں نہیں دیکھتے پس وہ فرشتوں کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے لئے یہ فرشتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ انہیں جواب دے کہ روح امر ربی ہے یعنی اس کی شان سے ہے اس کا علم صرف اسی کو ہے تم میں سے کسی کو نہیں تمہیں جو علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس وہ بہت ہی کم ہے مخلوق کو صرف وہی معلوم ہے جو اس نے انہیں معلوم کرایا ہے ۔ خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آ رہا ہے کہ جب یہ دونوں بزرگ کشتی پر سوار ہو رہے تھے اس وقت ایک چڑیا کشتی کے تختے پر بیٹھ کر اپنی چونچ پانی میں ڈبو کر اڑ گئی تو جناب خضر نے فرمایا اے موسیٰ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا اور اتنا ہی ہے جتنا یہ چڑیا اس سمندر سے لے اڑی ۔ ( او کما قال ) بقول سہیلی بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کا سوال ضد کرنے اور نہ ماننے کے طور پر تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب ہو گیا ۔ مراد یہ ہے کہ روح شریعت الہٰی میں سے ہے تمہیں اس میں نہ جانا چاہے تم جان رہے ہو کہ اس کے پہچاننے کی کوئی طبعی اور علمی راہ نہیں بلکہ وہ شریعت کی جہت سے ہے پس تم شریعت کو قبول کر لو لیکن ہمیں تو یہ طریقہ خطرے سے خالی نظر نہیں آتا واللہ اعلم ۔ پھر سہیلی نے اختلاف علماء بیان کیا ہے کہ روح نفس ہی ہے یا اس کے سوا ۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے روح جسم میں مثل ہوا کے جاری ہے اور نہایت لطیف چیز ہے جیسے کہ درختوں کی رگوں میں پانی چڑھتا ہے اور فرشتہ جو روح ماں کے پیٹ میں بچے میں پھونکتا ہے وہ جسم کے ساتھ ملتے ہی نفس بن جاتی ہے اور جسم کی مدد سے وہ اچھی بری صفتیں اپنے اندر حاصل کر لیتی ہے یا تو ذکر اللہ کے ساتھ مطمئن ہونے والی ہو جاتی ہے یا برائیوں کا حکم کرنے والی بن جاتی ہے مثلا پانی درخت کی حیات ہے اس کے درخت سے ملنے کے باعث وہ ایک خاص بات اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے مثلا انگور پیدا ہوئے پھر ان کا پانی نکالا گیا یا شراب بنائی گئی پس وہ اصلی پانی اب جس صورت میں آیا اسے اصلی پانی نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح اب جسم کے اتصال کے بعد روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جا سکتا اسی طرح اسے نفس اس سے اور اس کے بدن کے ساتھ کے اتصال سے مرکب ہے ۔ پس روح نفس ہے لیکن ایک وجہ سے نہ کہ تمام وجوہ سے ۔ بات تو یہ دل کو لگتی ہے لیکن حقیقت کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ لوگوں نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑی بڑی مستقل کتابیں اس پر لکھی ہیں ۔ اس مضمون پر بہترین کتاب حافظ ابن مندہ کی کتاب الروح ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 روح وہ لطیف شے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری (صحیح بخاری) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا علم، اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے، اور یہ روح، جس کے بارے میں تم سے پوچھ رہے ہو، اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر (حکم) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٦] روح سے مراد وحی الہی ہے :۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے :- سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نبی اکرم کے ساتھ ایک کھیت میں جارہا تھا۔ آپ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے اس پیغمبر سے پوچھو کہ روح کیا چیز ہے کسی نے کہا، کیوں ایسی کیا ضرورت ہے ؟ اور کسی نے کہا، ممکن ہے وہ تمہیں کوئی ایسی بات کہہ دے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ آخر یہ یہی طے ہوا کہ پوچھو تو سہی۔ چناچہ انہوں نے آپ سے پوچھا، روح کیا چیز ہے ؟ آپ (تھوڑی دیر) خاموش رہے اور انھیں کچھ جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی آنے لگی ہے اور اپنی جگہ کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھی۔ (وَیَسْئَلُوْنَکَ ۔۔ قلیلا تک (بخاری، کتاب التفسیر۔ نیز کتاب العلم۔ باب وما اوتیتم من العلم الاقلیلا)- اور ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں یہود یہ کہتے تھے کہ ہمیں بہت علم دیا گیا ہے۔ ہمیں تورات دی گئی اور جسے تورات مل گئی تو اسے بہت بھلائی مل گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ ) تا آخر ( سورة کہف کی آیت نمبر ١٠٩) (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سورة تو مکی ہے اور یہود مدینہ میں رہتے تھے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مکی سورتوں میں متعدد آیات مدنی بھی موجود ہیں جنہیں مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے مکی سورتوں میں مناسب مقام پر رکھا گیا ہے اور ہر سورت کے درمیان آیات کی ترتیب بھی توقیفی ہے یعنی یہ ترتیب بھی وحی الٰہی کے مطابق ہے نیز بعض کتب سیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال دراصل قریش مکہ نے یہود کے کہنے پر کیا تھا مگر بخاری کی روایت کے واضح الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے۔ وہی توجیہ درست ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔- روح اور نفس کا فرق :۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ روح سے مراد کیا ہے ؟ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر روح کو وحی الٰہی کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ روح کے ساتھ امر کا لفظ بھی موجود ہے جیسے یہاں موجود ہے۔ یا مثلاً فرمایا : ( یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ بالرُوْحِ مِنْ اَمْرِہِ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ ) (١٦: ٢) نیز فرمایا : (یُلْقِیْ الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ ) (٤٠: ١٥) نیز فرمایا : (وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا) (٤٢ : ٥٢) لہذا یہاں بھی روح سے مراد وحی الٰہی ہی ہے یا وحی لانے والا فرشتہ اور اس فرشتہ یعنی جبریل کو روح الامین بھی کہا گیا ہے۔ اور سیاق وسباق سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے اس آیت سے پہلے کی آیت میں بھی وحی الٰہی کا ذکر ہے اور بعد والی آیت میں بھی بالفاظ دیگر یہود کا دراصل سوال یہ تھا کہ وحی الٰہی کی کیفیت کیا ہے اور حصول قرآن کا اصل ماخذ کیا ہے اور وحی لانے والے کی ماہیت کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب انھیں یہ دیا گیا کہ تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ اتنا قلیل ہے کہ ان حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ بعض علماء نے یہاں روح سے مراد جان لی ہے۔ جو ہر جاندار کے جسم میں موجود ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ ہوتا ہے اور اس کے نکلنے سے مرجاتا ہے۔ اس مراد سے انکار بھی مشکل ہے۔ کیونکہ انسان خواہ کتنے فلسفے بکھیرے اس روح کی حقیقت کو بھی جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔ علاوہ ازیں جس طرح انسان کی اخلاقی اور روحانی زندگی کا دار و مدار وحی الٰہی پر ہے اسی طرح جسمانی زندگی کا دار و مدار روح پر ہے تاہم ربط مضمون کے لحاظ سے پہلی توجیہ ہی بہتر ہے کیونکہ اس کی تائید بہت سی دوسری آیات سے بھی ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت کے وقت فرشتے جو روح نکالنے آتے ہیں۔ اس کے لیے قرآن نے روح کی بجائے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے فرمایا اخرجوا انفسکم (٦: ٩٣) اور بعض یہ کہتے ہیں کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧوَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۔۔ : عبداللہ بن مسعود (رض) کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعض یہود کے روح سے متعلق سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ دیکھیے بخاری، العلم، باب قول اللہ تعالیٰ : ( وما أوتیتم من العلم إلا قلیلا ) : ١٢٥۔ مسلم : ٢٧٩٤ ] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے، مگر یہ سورت مکی ہے اور ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ قریش نے یہود سے کہا : ( أَعْطُوْنَا شَیْءًا نَسْأَلُ عَنْہُ ہٰذَا الرَّجُلَ ، فَقَالُوْا سَلُوْہُ عَنِ الرُّوْحِ ، فَسَأَلُوْہُ ، فَنَزَلَتْ : (ۧوَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ) [ الإسراء : ٨٥] قَالُوْا أُوْتِیْنَا عِلْمًا کَثِیْرًا، أُوْتِیْنَا التَّوْرَاۃَ ، وَمَنْ أُوْتِيَ التَّوْرَاۃَ فَقَدْ أُوْتِيَ خَیْرًا کَثِیْرًا، قَالَ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : (قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ ) [ الکھف : ١٠٩] ) ” ہمیں کوئی چیز دو جس کے متعلق ہم اس آدمی سے سوال کریں ؟ “ تو انھوں نے کہا : ” اس سے روح کے متعلق پوچھو۔ “ چناچہ انھوں نے آپ سے پوچھا تو یہ آیت اتری : (ۧوَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ) انھوں نے کہا : ” ہمیں تو کثیر علم عطا کیا گیا ہے، کیونکہ ہمیں تورات دی گئی ہے اور جسے تورات دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی۔ “ ابن عباس نے فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : (قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ ) [ مسند أحمد : ١؍٢٥٥، ح : ٢٣١٣، وصححہ الألبانی ] ابن کثیر (رض) نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ یہ آیت پہلے مکہ میں اتری ہو (کیونکہ یہ سورت مکی ہے) پھر دوبارہ مدینہ میں اتری ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدینہ میں جب یہودیوں نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی ہو کہ آپ یہ آیت پڑھ کر سنائیں۔ - روح کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے، مثلاً وحی (مومن : ١٥) ، قوت و ثابت قدمی (مجادلہ : ٢٢) جبریل (علیہ السلام) (شعراء : ١٩٣) ، قرآن (شوریٰ : ٥٢) اور مسیح (علیہ السلام) (نساء : ١٧١) زیر تفسیر آیت میں روح سے مراد وہ چیز ہے جس سے بدن کو زندگی حاصل ہوتی ہے، ہر شخص اس کا مشاہدہ کرتا ہے، کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ فرمایا ان سے کہہ دیجیے روح میرے رب کے حکم سے ہے، یعنی اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آپڑی، وہ جی اٹھا جب نکل گئی وہ مرگیا۔ اس کے علاوہ روح کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ اس میں نکتہ یہ بھی ہے کہ جب آدمی اللہ کے حکم سے پیدا ہونے والی اس مخلوق کی حقیقت نہیں جانتا، جو خود اس میں رہتی ہے تو وہ خالق کی حقیقت کیسے جان سکتا ہے ؟- وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا : اس مفہوم کی طرف سورة کہف (١٠٩) اور لقمان (٢٧) میں بھی اشارہ ہے۔ - اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو صرف وہ باتیں بتائی ہیں جن کی انھیں ضرورت ہے اور جو انسانی عقل و فکر میں آسکتی ہیں، اگرچہ انسانی فکر کے سوچنے پر کوئی پابندی نہیں، مگر اسے اپنی حدود میں رہنا لازم ہے۔ انسان نے ایسی ایسی ایجادات کیں جو بیان سے باہر ہیں مگر وہ اس راز (روح) کی حقیقت کو پانے سے عاجز رہا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز اور غیب کی چیز ہے، جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے ؟ کیسے آئی ؟ اور کس طرح جاتی ہے ؟ کہاں سے آئی اور کہاں جاتی ہے ؟ مخلوق کو صرف اتنا معلوم ہے جتنا اس علیم وخبیر نے بتایا ہے، اس سے آگے سب بےبس ہیں اور سب کا علم اللہ کے مقابلے میں اتنا ہے جتنا سمندر میں سے پرندے کی چونچ میں آنے والا پانی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور یہ لوگ آپ سے (امتحانا) روح (کی حقیقت) کو پوچھتے ہیں آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ روح (کے متعلق بس اتنا اجمالا سمجھ لو کہ وہ ایک چیز ہے جو) میرے رب کے سے بنی ہے اور (باقی اس کی مفصل حقیقت سو) تم کو بہت تھوڑا علم (بقدر تمہاری فہم اور ضرورت کے) دیا گیا ہے (اور روح کی حقیقت کا معلوم کرنا کوئی ضرورت کی چیز نہیں اور نہ اس کی حقیقت عام طور پر سمجھ میں آسکتی ہے اس لئے قرآن اس کی حقیقت کو بیان نہیں کرتا)- اور اگر ہم چاہیں تو جس قدر آپ پر ہم نے وحی بھیجی ہے (اور اس کے ذریعہ آپ کو علم دیا ہے) سب سلب کرلیں پھر اس (وحی) کے (واپس لانے کے لئے) آپ کو ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی بھی نہ ملے گا مگر (یہ) آپ کے رب ہی کی رحمت ہے (کہ ایسا نہیں کیا) بیشک آپ پر اس کا بڑا فضل ہے (مطلب یہ ہے کہ انسان کو روح وغیرہ ہر چیز کی حقیقت کا تو کیا علم ہوتا اس کو جو تھوڑا سا علم بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے وہ بھی اس کی کوئی جاگیر نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو دینے کے بعد بھی سلب کرسکتا ہے مگر وہ اپنی رحمت سے ایسا کرتا نہیں وجہ یہ ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے) آپ فرما دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات کے لئے جمع ہوجاویں کہ ایسا قرآن بنا لاویں تب بھی وہ ایسا نہ کرسکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جاوے (یعنی ان میں سے ہر ایک الگ الگ کوشش کر کے تو کیا کامیاب ہوتا سب کے سب ایک دوسرے کی مدد سے کام کر کے بھی قرآن کا مثل نہیں بنا سکتے) اور ہم نے لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اس قرآن میں ہر قسم کے عمدہ مضمون طرح طرح سے بیان کیے ہیں پھر بھی اکثر لوگ بےانکار کئے نہ رہے۔- معارف و مسائل :- آیات صدر میں پہلی آیت میں کفار کی طرف سے روح کے متعلق ایک سوال اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب مذکور ہے لفظ روح لغات و محاورات میں نیز قرآن کریم میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے معروف و مشہور معنی تو وہی ہیں جو عام طور پر اس لفظ سے سمجھے جاتے ہیں یعنی جان جس سے حیات اور زندگی قائم ہے قرآن کریم میں یہ لفظ جبرئیل امین کے لئے بھی استعمال ہوا ہے نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے بھی کئی آیات میں استعمال ہوا ہے اور خود قرآن کریم اور وحی کو بھی روح کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے (آیت) اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا روح سے مراد کیا ہے :- اس لئے یہاں پہلی بات غور طلب یہ ہے کہ سوال کرنے والوں نے روح کا سوال کس معنی کے لحاظ سے کیا تھا بعض حضرات مفسرین نے سیاق وسباق کی رعایت سے یہ سوال وحی اور قرآن یا وحی لانے والے فرشتے جبرئیل کے متعلق قرار دیا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ میں قرآن کا ذکر تھا اور بعد کی آیات میں پھر قرآن ہی کا ذکر ہے اس کے مناسب اس کو سمجھا کہ اس سوال میں بھی روح سے مراد وحی و قرآن یا جبرئیل ہی ہیں اور مطلب سوال کا یہ ہوگا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے کون لاتا ہے قرآن کریم نے اس کے جواب میں اس پر اکتفا کیا کہ اللہ کے حکم سے وحی آتی ہے تفصیلات اور کیفیات جن کا سوال تھا وہ نہیں بتلائیں۔- لیکن احادیث صحیحہ مرفوعہ میں جو اس آیت کا شان نزول بتلایا گیا ہے وہ تقریبا اس میں صریح ہے کہ سوال کرنے والوں نے روح حیوانی کا سوال کیا تھا اور مقصد سوال کا روح کی حقیقت معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا چیز ہے بدن انسانی میں کس طرح آتی جاتی ہے اور کس طرح اس سے حیوان اور انسان زندہ ہوجاتا ہے صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ میں ایک روز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ کے غیر آباد حصے میں چل رہا تھا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک میں ایک چھڑی کھجور کی شاخ کی تھی آپ کا گذر چند یہودیوں پر ہوا یہ لوگ آپس میں کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آ رہے ہیں ان سے روح کے متعلق سوال کرو دوسروں نے منع کیا مگر سوال کرنے والوں نے سوال کر ہی ڈالا یہ سوال سن کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکڑی پر ٹیک لگا کر خاموش کھڑے ہوگئے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ پر وحی نازل ہونے والی ہے کچھ وقفہ کے بعد وحی نازل ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ یہاں ظاہر ہے کہ قرآن یا وحی کو روح کہنا یہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح تھی ان لوگوں کے سوال کو اس پر محمول کرنا بہت بعید ہے البتہ روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہی ہے اسی لئے جمہور مفسرین ابن کثیر ابن جریر قرطبی بحر محیط روح المعانی سبھی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اسی لئے جمہور مفسرین ابن کثیر ابن جریر قرطبی بحر محیط روح المعانی سبھی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی کی حقیقت سے تھا رہا یہ معاملہ کی سیاق وسباق میں ذکر قرآن کا چلا آیا ہے درمیان میں روح کا سوال جواب بےجوڑ ہے تو اس کا جواب واضح ہے کہ اس سے پہلی آیات میں کفار و مشرکین کی مخالفت اور معاندانہ سوالات کا ذکر آیا ہے جن سے منظور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دربارہ رسالت امتحان کرنا تھا یہ سوال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اس لئے بےجوڑ نہیں خصوصا شان نزول کے متعلق ایک دوسری حدیث صحیح منقول ہے اس میں یہ بات زیادہ وضاحت سے آگئی ہے کہ سوال کرنے والوں کا مطلب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا امتحان لینا تھا۔- چنانچہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ (قریش مکہ جو جا بےجا سوالات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے رہتے تھے ان کو خیال پیدا ہوا کہ یہود تو علم والے ہیں ان کو پچھلی کتابوں کا بھی علم ہے ان سے کچھ سوالات حاصل کئے جاویں جن کے ذریعہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان لیا جائے اس لئے قریش نے یہود سے دریافت کرنے کے لئے اپنے آدمی بھیجے انہوں نے کہا کہ تم ان سے روح کے متعلق سوال کرو (ابن کثیر) اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ہی سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہود نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے سوال میں یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں یہ بتلائیں کہ روح پر عذاب کس طرح ہوتا ہے اس وقت تک رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس بارے میں کوئی بات نازل نہ ہوئی تھی اس لئے اس وقت آپ نے فوری جواب نہیں دیا پھر جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ (ابن کثیر ملحضا)- واقعہ سوال مکہ میں پیش آیا یا مدینہ میں :- اس سے پہلے ایک بات اور قابل نظر ہے کہ شان نزول کے متعلق جو دو حدیثیں ابن مسعود و ابن عباس کی اوپر نقل کی گئیں ہیں ان میں سے ابن مسعود (رض) کی روایت کے مطابق یہ واقعہ سوال مدینہ میں پیش آیا اور اسی لئے بعض مفسرین نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے کہ اگرچہ اکثر حصہ سورة بنی اسرائیل کا مکی ہے اور ابن عباس کی روایت کا تعلق مکہ مکرمہ کے واقعہ سے ہے اس کے مطابق یہ آیت بھی پوری سورت کی طرح مکی باقی رہتی ہے اسی لئے ابن کثیر نے اسی احتمال کو راجح قرار دیا ہے اور ابن مسعود (رض) کی روایت کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول مدینہ میں دوسری مرتبہ ہوا ہو جیسا کہ بہت سی آیات قرآن کا نزول مکرر سب علماء کے نزدیک مسلم ہے اور تفسیر مظہری نے ابن مسعود (رض) کی روایت کو راجح قرار دے کر واقعہ مدینہ کا اور آیت کو مدنی قرار دیا ہے جس کی دو وجہ بتلائیں ایک یہ کہ یہ روایت صحیحین میں ہے اور سند اس کی روایت ابن عباس (رض) سے زیادہ قوی ہے دوسرے یہ کہ اس میں خود صاحب واقعہ ابن مسعود (رض) اپنا واقعہ بیان کر رہے بخلاف روایت ابن عباس (رض) کے کہ اس میں ظاہر یہی ہے کہ ابن عباس (رض) نے یہ بات کسی سے سنی ہوگی ،- سوال مذکور کا جواب :- قرآن کریم نے یہ دیا ہے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ اس جواب کی تشریح میں حضرات مفسرین کے کلمات اور تعبیرات مختلف ہیں ان میں سب سے زیادہ اقرب اور واضح وہ ہے جو تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس جواب میں جتنی بات کا بتلانا ضروری تھا اور جو عام لوگوں کی سمجھ میں آنے کے قابل ہے صرف وہ بتلادی گئی اور روح کی مکمل حقیقت جس کا سوال تھا اس کو اس لئے نہیں بتلایا کہ وہ عوام کی سمجھ سے باہر بھی تھی اور ان کی کوئی ضرورت اس کے سمجھنے پر موقوف بھی نہ تھی یہاں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان کے جواب میں یہ فرما دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے یعنی وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں جو مادہ کے تطورات اور توالد و تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہیں بلکہ وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کے حکم کن سے پیدا ہونے والی چیز ہے اس جواب نے یہ تو واضح کردیا کہ روح کو عام مادیات پر قیاس کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور انسان کے لئے اتنا ہی علم روح کے متعلق کافی ہے اس سے زائد علم کے ساتھ اس کا کوئی دینی یا دینوی کام اٹکا ہوا نہیں اس لئے وہ حصہ سوال فضول اور لایعنی قرار دے کر اس کا جواب نہیں دیا گیا خصوصا جبکہ اس کی حقیقت کا سمجھنا عوام کے لئے تو کیا بڑے بڑے حکماء وعقلاء کے لئے بھی آسان نہیں۔- ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سائل کی دینی مصلحت کی رعایت لازم ہے :- امام جصاص نے اس جواب سے یہ مسئلہ نکالا کہ مفتی اور عالم کے ذمہ یہ ضروری نہیں کہ سائل کے ہر سوال اور اس کی ہر شق کا جواب ضرور دے بلکہ دینی مصالح پر نظر رکھ کر جواب دینا چاہئے جو جواب مخاطب کے فہم سے بالاتر ہو یا اس کے غلط فہمی میں پڑجانے کا خطرہ ہو تو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے اسی طرح بےضرورت یا لایعنی سوالات کا جواب بھی نہیں دینا چاہئے البتہ جس شخص کو کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس کے متعلق اس کو کچھ عمل کرنا لازم ہے اور خود وہ عالم نہیں تو مفتی اور عالم کو اپنے علم کے مطابق اس کا جواب دینا ضروری ہے (جصاص) امام بخاری نے کتاب العلم میں اس مسئلے کا ایک مستقل ترجمۃ الباب رکھ کر بتلایا ہے کی جس سوال کے جواب سے مغالطہ میں پڑنے کا خطرہ ہو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے۔- روح کی حقیقت کا علم کسی کو ہوسکتا ہے یا نہیں :- قرآن کریم نے اس سوال کا جواب مخاطب کی ضرورت اور فہم کے مطابق دے دیاحقیقت روح کو بیان نہیں فرمایا مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ روح کی حقیقت کو کوئی انسان سمجھ ہی نہیں سکتا اور یہ کہ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کی حقیقت معلوم نہیں تھی صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت نہ اس کی نفی کرتی ہے نہ اثبات اگر کسی نبی و رسول کو وحی کے ذریعہ یا کسی ولی کو کشف والہام کے ذریعہ اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو اس آیت کے خلاف نہیں بلکہ عقل و فلسفہ کی رو سے بھی اس پر کوئی بحث و تحقیق کی جائے تو اس کو فضول اور لایعنی تو کہا جائے گا مگر ناجائز نہیں کہا جاسکتا اسی لئے بہت سے علماء متقدمین و متاخرین نے روح کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں آخری دور میں ہمارے استاد محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک مختصر سے رسالے میں اس مسئلے کو بہترین انداز سے لکھا ہے اور اس میں جس قدر حقیقت سمجھنا عام انسان کے لئے ممکن ہے وہ سمجھا دی ہے جس پر ایک تعلیم یافتہ انسان قناعت کرسکتا ہے اور شبہات و اشکالات سے بچ سکتا ہے۔- فائدہ :- امام بغوی نے اس جگہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک مفصل روایت اس طرح نقل فرمائی ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جبکہ مکہ کے قریشی سرداروں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے اندر پیدا ہوئے اور جوان ہوئے ان کی امانت و دیانت اور سچائی میں کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا اور کبھی ان کے متعلق جھوٹ بولنے کی تہمت بھی کسی نے نہیں لگائی اور اس کے باوجود اب جو دعویٰ نبوت کا وہ کر رہے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتا اس لئے ایسا کرو کہ اپنا ایک وفد مدینہ طیبہ کے علماء یہود کے پاس بھیج کر ان سے ان کے بارے میں تحقیقات کرو چناچہ قریش کا ایک وفد مدینہ علماء یہود کے پاس مدینہ پہنچا علماء یہود نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم تمہیں تین چیزیں بتلاتے ہیں تم ان سے ان تینوں کا سوال کرو اگر انہوں نے تینوں کا جواب دے دیاتو وہ نبی نہیں اس طرح تینوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا تو بھی نبی نہیں اور اگر دو کا جواب دیا تیسری چیز کا جواب نہ دیا تو سمجھ لو کہ وہ نبی ہیں وہ تین سوال یہ بتلائے کہ ایک تو ان سے ان لوگوں کا حال پوچھو جو قدیم زمانے میں شرک سے بچنے کے لئے کسی غار میں چھپ گئے تھے کیونکہ ان کا واقعہ عجیب ہے دوسرے اس شخص کا حال پوچھو جس نے زمین کے مشرق و مغرب کا سفر طے کیا کہ اس کا کیا واقعہ ہے تیسرے روح کے متعلق دریافت کرو۔ - یہ وفد واپس آیا اور تینوں سوال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کردیئے آپ نے فرمایا کہ میں اس کا جواب تمہیں کل دوں گا مگر اس پر انشاء اللہ نہیں کہا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز تک وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا بارہ پندرہ سے لے کر چالیس دن تک کی مختلف روایات ہیں جن میں سلسلہ وحی بند رہا قریش مکہ کو طعن وتشنیع کا موقع ملا کہ کل جواب دینے کو کہا تھا آج اتنے دن ہوگئے جواب نہیں ملا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی پریشانی ہوئی پھر حضرت جبرائیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے (آیت) وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا جس میں آپ کو یہ تلقین کی گئی کہ آئندہ کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہہ کر کیا جائے اور اس کے بعد روح کے متعلق یہ آیت سنائی جو اوپر مذکور ہوئی اور غار میں چھپنے والوں کے متعلق اصحاب کہف کا واقعہ اور مشرق سے مغرب تک سفر کرنے والے ذوالقرنین کا واقعہ جو سورة کہف میں آنے والا ہے اس کی آیات نازل ہوئیں جن میں اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ جواب میں بیان فرمایا گیا اور روح کے متعلق جس حقیقت کا سوال تھا اس کا جواب نہیں دیا گیا (جس سے یہود کی بتلائی ہوئی علامت صدق نبوت کی ظاہر ہوگئی اس واقعہ کو ترمذی نے بھی مختصرا بیان کیا ہے (مظہری)- سورة حجر کی آیت نمبر ٢٩ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ کے تحت روح اور نفس وغیرہ کی حقیقت کے متعلق ایک تحقیق بحوالہ تفسیر مظہری پہلے گذر چکی ہے جس میں روح کی اقسام اور ہر ایک کی حقیقت کو کافی حد تک واضح کردیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا 85؀- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- روح - الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر 53]- ( رو ح )- الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

روح کی کیفیت - قول باری ہے (ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی۔ یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں کہو ” یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے۔ “ لوگوں نے کس روح کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) تھے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ تھا جس کے ستر ہزار چہرے ہیں اور ہر چہرے میں ستر ہزار زبانیں ہیں جن سے وہ اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے جاندار کی روح مراد ہے۔ کلام سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ یہود کے ایک گروہ نے روح کے متعلق سوال کیا تھا۔ جاندار کی روح اس جسم لطیف کا نام ہے جو حیوانی ڈھانچہ رکھتا ہے اور اس کے ہر جز میں زندگی ہوتی ہے۔ تاہم اس کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہر جاندار ایک روح سے البتہ بعض جاندار ایسے ہیں کہ ان میں روح غالب ہوتی ہے اور بعض میں بدن غالب ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس لئے کہ مصلحت اسی میں تھی کہ انہیں ان کی عقل و فہم کی اس دلالت کے حوالے کردیا جائے جو روح کے متعلق ان کے ادراک میں موجود تھی تاکہ انہیں اپنی عقل و فہمسے کام لے کر نتائج اخذ کرنے اور فوائد معلوم کرنے کی مہارت پیدا ہوجائے۔ یہود کی کتاب میں ایک روایت تھی کہ اگر وہ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روح کے متعلق سوال کا جواب دے دیں تو پیغمبر نہیں ہوں گے اس لئے اللہ نے ان کے اس سوال کا جواب نہیں دیا تاکہ یہ صورت ان کی کتاب میں مذکورہ بات کے مطابق ہوجائے۔- روح کا اطلاق کئی چیزوں پر ہوتا ہے، قرآن کو روح کہا گیا ہے چناچہ ارشاد ہے صوکذلک اوحینا الیک روحاً من امرنا اور اسی طرح ہم نے آپ کے پاس وحی یعنی اپنا حکم بھیجا) قرآن کو روح کا نام دیا گیا اس میں اسے جاندار کی روح کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کی وجہ سے ایک جاندار زندہ رہتا ہے۔ اسی طرح حضرت جبرئیل امین اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اسی تشبیہ کی بنا پر روح کہا گیا ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ قول باری اقل الروح من امر ربی ) کا مفہوم یہ ہے کہ روح ایک ایسا امر ہے جس کا علم میرے رب کو ہے۔- قول باری ہے (وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے) یعنی تمہیں اس علم سے بہت کم حصہ ملا ہے جو منصوص طریقے سے لوگوں کے لئے بیان کردیا گیا ہے، تمہیں صرف اتنا ہی حصہ دیا گیا ہے جس سے تمہارا کام چل جائے۔ رہ گیا روح کا معاملہ تو اس کا تعلق اس علم سے ہے جسے نصاً بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ مصلحت کی خاطر اسے بیان کے بغیر رہنے دیا گیا ہے۔ آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کوئی سائل کسی مسئلے کے متعلق کوئی سوال پوچھے تو اس مصلحت کی خاطر کہ وہ مسئلہ معلوم کرنے کے لئے اپنی سوچ اور تدبر سے کام لے کر مسئلے کا خود ہی اسخراج کرے، اسے جواب نہ دینا جائز ہے۔ بشرطیکہ سائل میں غور و فکر اور استخراج کی اہلیت موجود ہو۔ لیکن اگر سائل پیش آمدہ کسی مسئلے کا حکم معلوم کرنے کے لئے فتویٰ پوچھے اور وہ صاحب نظر نہ ہو تو اس صورت میں اس کے حکم کا علم رکھنے والے عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں اللہ کے حکم سے اسے آگا ہ کرے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ آپ سے روح کی حقیقت کو پوچھتے ہیں، اہل مکہ یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے روح کے متعلق آپ سے دریافت کیا تھا، آپ فرما دیجیے کہ وہ میرے پروردگار کے عجائبات میں سے یا یہ اس کے علم اور حکم سے بنی ہے اور علوم خدا وندی میں سے تمہیں بہت تھوڑ اعلم دیا گیا ہے۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ ویسئلونک عن الروح “۔ (الخ)- امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ منورہ میں جارہا تھا۔ آپ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک دیے ہوئے تھے، آپ کا گزر کچھ یہودیوں کے پاس سے ہوا وہ آپس میں کہنے لگے کہ ان سے کچھ پوچھو، چناچہ وہ بولے کہ ہم سے روح کے بارے میں بیان کیجیے، آپ یہ سن کر کچھ دیر کھڑے ہوئے اور اپنا سر مبارک اوپر کو اٹھایا میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے یہاں تک کہ وحی بند ہوگئی تو آپ نے ان سے فرمایا (آیت) ” الروح من امر بن وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “۔ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتاؤ، جو ہم اس شخص یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھیں یہودیوں نے کہا کہ آپ روح کے بارے میں دریافت کرو، چناچہ قریش نے آپ سے دریافت کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی اور یہ لوگ آپ سے روح کو پوچھتے ہیں آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے، حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں میں متعدد نزول کی توجیہہ سے مطابقت پیدا کی جائے گی یہی قول حافظ ابن حجر عسقلانیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس توقع میں کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں اور مزید تفصیل بتادے، اس لیے سکوت اختیار فرمایا ہو ورنہ تو پھر صحیح بخاری کی روایت زیادہ صحیح ہے۔- امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ صیح بخاری کی روایت کو اس حیثیت سے بھی ترجیح حاصل ہے کہ اس روایت کے راوی واقعہ کے وقت موجود ہیں، برخلاف حضرت ابن عباس (رض) کے وہ واقعہ کے وقت موجود نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا)- روح کے بارے میں یہ سوال ان تین سوالات میں سے تھا جو ایک مرتبہ مدینہ کے یہودیوں نے قریش مکہ کے ذریعے رسول اللہ سے پوچھ بھیجے تھے۔ ان میں سے ایک سوال اصحاب کہف کے بارے میں تھا اور دوسرا ذوالقرنین کے بارے میں۔ ان دونوں سوالات کے تفصیلی جوابات سورة الکہف میں دیے گئے ہیں مگر روح کے متعلق سوال کا انتہائی مختصر جواب اس سورت میں دیا گیا ہے ۔- اس بارے میں یہاں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے اور عالم امر چونکہ عالم غیب ہے اس لیے اس کے بارے میں تم لوگ کچھ نہیں جان سکتے۔ انسان کے علم کا ذریعہ اس کے حواس ہیں اور اپنے ان حواس کے ذریعے وہ صرف عالم خلق کی چیزوں کے بارے میں جان سکتا ہے عالم غیب (عالم امر) تک اس کا علم رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ چناچہ عالم غیب کی باتوں کو اسے ویسے ہی ماننا ہوگا جیسے قرآن اور رسول کے ذریعے سے بتائی گئی ہوں۔ اسی کا نام ایمان بالغیب ہے جس کا ذکر قرآن مجید کے آغاز میں ہی کردیا گیا ہے : (الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ) (البقرۃ) قبل ازیں سورة الاعراف کی آیت ٥٤ اور سورة النحل کی آیت ٤٠ کی تشریح کے ضمن میں عالم خلق اور عالم امر کے بارے میں تفصیلی بحث کی جاچکی ہے۔ وہاں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ فرشتوں انسانی ارواح اور وحی کا تعلق عالم امر سے ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :103 عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے ، یعنی لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے ، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے ، اس لیے کہ یہ معنی صرف اس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جبکہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفرد جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے ۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو روح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرین قرآن کے ظالم اور کافر نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے ، اور جہاں بعد کی آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الہی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آگیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے؟ ربط عبارت کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد وحی یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہو سکتا ہے ۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ قرآن تم کہاں سے لاتے ہو؟ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تم سے یہ لوگ روح ، یعنی ماخذ قرآن ، یا ذریعہ حصول قرآن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ۔ انہیں بتا دو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کمزور بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعہ سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شہبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے ۔ یہ تفسیر صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ماسبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے ، بلکہ خود قرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ ( آیت ١۵ ) ۔ وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے کو چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے تا کہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کرے“ ۔ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الاْیْمَانُ ( آیت ۵۲ ) ۔ اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی ۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے ۔ سلف میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہ ، قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس قول کو قتادہ کے حوالہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے ، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے ۔ اور صاحب روح المعانی حسن اور قتادہ رحمہما اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں اور سوال دراصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

49: صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان لینے کے لئے یہ سوال کیا تھا کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اور جواب میں اتنی ہی بات بیان فرمائی گئی ہے جو انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے، اور وہ یہ کہ روح کی پیدائش براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی ہے، انسان کے جسم اور دوسری مخلوقات میں تو یہ بات مشاہدے میں آجاتی ہے کہ ان کی پیدائش میں کچھ ظاہری اسباب کا دخل ہوتا ہے، مثلاً نر اور مادہ کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے، لیکن روح ایسی چیز ہے جس کی تخلیق کا کوئی عمل انسان کے مشاہدے میں نہیں آتا، یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آتی ہے، اس سے زیادہ روح کی حقیقت کو سمجھنا عقل کے بس میں نہیں ہے۔ اس لئے فرمادیا گیا ہے کہ تمہیں بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے اور بہت سی چیزیں تمہاری سمجھ سے باہر ہیں۔