Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قرآن اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم اللہ تعالیٰ اپنے زبردست احسان اور عظیم الشان نعمت کو بیان فرما رہا ہے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعام کی ہے یعنی آپ پر نہ کتاب نازل فرمائی جس میں کہیں سے بھی کسی وقت باطل کی آمیزش ناممکن ہے ۔ اگر وہ چاہے تو اس وحی کو سلب بھی کر سکتا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آخر زمانے میں ایک سرخ ہوا چلے گی شام کی طرف سے یہ اٹھے گی اس وقت قرآں کے ورقوں میں سے اور حافظوں کے دلوں میں سے قرآن سلب ہو جائے گا ۔ ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ پھر اپنا فضل و کرم اور احسان بیان کر کے فرماتا ہے کہ اس قرآن کریم کی بزرگی ایک یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے سے عاجز ہے ۔ کسی کے بس میں اس جیسا کلام نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بےمثل بےنظیر بےشریک ہے اسی طرح اس کا کلام مثال سے نظیر سے اپنے جیسے سے پاک ہے ۔ ابن اسحاق نے وارد کیا ہے کہ یہودی آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم بھی اسی جیسا کلام بنا لاتے ہیں پس یہ آیت اتری لیکن ہمیں اس کے ماننے میں تامل ہے اس لئے کہ یہ سورت مکی ہے اور اس کا کل بیان قریشوں سے ہے وہی مخاطب ہیں اور یہود کے ساتھ مکے میں آپ کا اجتماع نہیں ہوا مدینے میں ان سے میل ہوا واللہ اعلم ۔ ہم نے اس پاک کتاب میں ہر قسم کی دلیلیں بیان فرما کر حق کو واضح کر دیا ہے اور ہر بات کو شرح و بسط سے بیان فرما دیا ہے باوجود اس کے بھی اکثر لوگ حق کی مخالفت کر رہے ہیں اور حق کو دھکے دے رہے ہیں اور اللہ کی ناشکری میں لگے ہوئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

86۔ 1 یعنی وحی کے ذریعے سے جو تھوڑا بہت علم دیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے بھی سلب کرلے یعنی دل سے محو کر دے یا کتاب سے ہی مٹا دے۔ 86۔ 2 جو دوبارہ اس وحی کو آپ کی طرف لوٹا دے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] وحی کے بتدریج نزول میں آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے : اس آیت کا تعلق دراصل سابقہ مضمون سے ہے جو کفار مکہ نے سمجھوتہ کی ایک شکل یہ پیش کی تھی کہ اگر آپ ان آیات کی تلاوت چھوڑ دیں جن میں ہمارے معبودوں کی توہین ہوتی ہے تو ہم آپ کے مطیع بن جائیں گے۔ اس آیت میں دراصل وحی الٰہی کی اہمیت مذکور ہوئی ہے کہ اس وحی الٰہی کی ہی تو برکت ہے کہ دن بدن دعوت اسلام پھیلتی جارہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ آپ کو اور صحابہ کو صبر اور ثابت قدمی میسر آرہی ہے۔ اگر ہم اس نازل کردہ وحی میں سے کچھ حصہ آپ کو بھلا دیں تو آپ کو اللہ کی مدد اور نصرت جو پہنچ رہی ہے وہ منقطع ہوسکتی ہے اور اندریں صورت تمہیں سنبھالا دینے والی کوئی طاقت نہ ہوگی۔ یہ تو آپ پر اللہ کی بہت مہربانی ہے کہ آپ پر وحی اس انداز اور اس تدریج کے ساتھ حالات کے مطابق نازل ہو رہی ہے جس سے اسلام کی سربلندی کے لیے اسباب از خود پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ پر حاشیہ نمبر ٢٧ ملاحظہ فرمائیے)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْهَبَنَّ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک اور قدرت کا بیان فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو جو کچھ آپ کی طرف وحی کیا ہے سب لے جائیں، نہ آپ کے سینے میں رہے، نہ آپ کے کسی صحابی یا امتی کے سینے میں، نہ کسی کاغذ یا دوسری چیز میں، پھر اسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے مقابلے میں آپ کو کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔ ۙاِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ : لیکن یہ تیرے رب کی رحمت ہے کہ وہ اسے لے نہیں گیا، بلکہ اسے تیرے پاس ہی رہنے دیا ہے۔ یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔ معلوم ہوا قرآن قیامت تک باقی رہے گا، کوئی شخص اس کے تمام اوراق ختم کرکے بھی اسے ختم نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کا اصل ٹھکانا اہل علم کے سینے ہیں (دیکھیے عنکبوت : ٤٩) اور رب کا وعدہ بھی ہے کہ وہ اسے نہیں لے جائے گا، بلکہ اس کی حفاظت کرے گا، فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) [ الحجر : ٩ ] ” بیشک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بیشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔ “- اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا : یہاں فضل کبیر اور دوسری جگہ فضل عظیم فرمایا : (وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا) [ النساء : ١١٣ ] ” اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ کا فضل تجھ پر ہمیشہ سے (عظیم) بہت بڑا ہے۔ “ اس فضل کبیر و عظیم میں سے چند یہ ہیں کہ آپ پر کتاب و حکمت نازل فرمائی، اسے آپ کے اور آپ کی امت کے پاس قیامت تک کے لیے باقی رکھا، آپ کو اولاد آدم کا سردار بنایا، تمام لوگوں کے لیے رسول اور آخری نبی بنایا، تمام نبیوں کی امامت اور معراج کا شرف بخشا، شفاعت کبریٰ اور مقام محمود عطا فرمایا۔ جس فضل کو اللہ تعالیٰ عظیم و کبیر فرمائے اسے کوئی کیسے شمار کرسکتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْهَبَنَّ پچھلی آیت میں روح کے سوال پر بقدر ضرورت جواب دے کر روح کی حقیقت دریافت کرنے کی کوشش سے کہ کہہ کر روک دیا گیا تھا کہ انسان کا علم کتنا ہی زیادہ ہوجائے مگر حقائق الاشیاء کی ہمہ گیری کے اعتبار سے کم ہی رہتا ہے اس لئے غیر ضروری مباحث اور تحقیقات میں الجھنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے آیت وَلَىِٕنْ شِـئْنَا میں اس طرف اشارہ ہے کی انسان کو جس قدر بھی علم ملا ہے وہ بھی اس کی ذاتی جاگیر نہیں اللہ تعالیٰ چاہیں تو اس کو بھی سلب کرسکتے ہیں اس لئے اس کو چاہئے کہ موجودہ علم پر اللہ کا شکر ادا کرے اور فضول ولا یعنی تحقیقات میں وقت ضائع نہ کرے خصوصا جبکہ مقصود و تحقیق کرنا بھی نہ ہو بلکہ دوسرے کا امتحان لینا یا اس کو خفیف کرنا مقصود ہو اگر اس نے ایسا کیا تو کچھ بعید نہیں کہ اس کج روی کے نتیجہ میں جتنا علم حاصل ہے وہ سب سلب ہوجائے اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر اصل سنانا امت کو مقصود ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم بھی ان کے اختیار میں نہیں تو دوسروں کا کیا کہنا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَيْنَا وَكِيْلًا 86؀ۙ- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٦) اور اگر ہم چاہیں تو جس قدر بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) آپ پر وحی بھیجی ہے اور آپ نے اس کو محفوظ کیا ہے سب سلب کرلیں۔- پھر آپ کو ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی اور اس چیز کو روکنے والا بھی نہ ملے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani