Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

محسن کو چھوڑ کر دشمن سے دوستی بیان ہو رہا ہے کہ ابلیس تمہارا بلکہ تمہارے اصلی باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی قدیمی دشمن رہا ہے اپنے خالق مالک کو چھوڑ کر تمہیں اس کی بات نہ ماننی چاہئے اللہ کے احسان و اکرام اس کے لطف و کرم کو دیکھو کہ اسی نے تمہیں پیدا کیا پالا پوسا پھر اسے چھوڑ کر اس کے بلکہ اپنے بھی دشمن کو دوست بنانا کس قدر خطرناک غلطی ہے ؟ اس کی پوری تفسیر سورہ بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے تمام فرشتوں کو بطور ان کی تشریف ، تعظیم اور تکریم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ سب نے حکم برداری کی لیکن چونکہ ابلیس بد اصل تھا ، آگ سے پیدا شدہ تھا ، اس نے انکار کر دیا اور فاسق بن گیا ۔ فرشتوں کی پیدائش نورانی تھی ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ابلیس شعلے مارنے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جس کا بیان تمہارے سامنے کر دیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی اصلیت پر آ جاتی ہے اور وقت پر برتن میں جو ہو وہی ٹپکتا ہے ۔ گو ابلیس فرشتوں کے سے اعمال کر رہا تھا انہی کی مشابہت کرتا تھا اور اللہ کی رضا مندی میں دن رات مشغول تھا ، اسی لئے ان کے خطاب میں یہ بھی آ گیا لیکن یہ سنتے ہی وہ اپنی اصلیت پر آ گیا ، تکبر اس کی طبیعت میں سما گیا اور صاف انکار کر بیٹھا اس کی پیدائش ہی آگ سے تھی جیسے اس نے خود کہا کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے ۔ ابلیس کبھی بھی فرشتوں میں سے نہ تھا وہ جنات کی اصل ہے جیسے کہ حضرت آدم علیہ السلام انسان کی اصل ہیں ۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ جنات ایک قسم تھی فرشتوں کی تیز آگ کے شعلے سے تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابلیس شریف فرشتوں میں سے تھا اور بزرگ قبیلے کا تھا ، جنتوں کا داروغہ تھا ، آسمان دینا کا بادشاہ تھا ، زمین کا بھی سلطان تھا ، اس سے کچھ اس کے دل میں گھمنڈ آ گیا تھا کہ وہ تمام اہل آسمان سے شریف ہے ۔ وہ گھمنڈ ظاہر ہو گیا از روئے تکبر کے صاف انکا ردیا اور کافروں میں جا ملا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں وہ جن تھا یعنی جنت کا خازن تھا جیسے لوگوں کو شہروں کی طرف نسبت کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں مکی مدنی بصری کوفی ۔ یہ جنت کا خازن آسمان دنیا کے کاموں کا مدبر تھا یہاں کے فرشتوں کا رئیس تھا ۔ اس معصیت سے پہلے وہ ملائکہ میں داخل تھا لیکن زمین پر رہتا تھا ۔ سب فرشتوں سے زیادہ کوشش سے عبادت کرنے والا اور سب سے زیادہ علم والا تھا اسی وجہ سے پھول گیا تھا ۔ اس کے قبیلے کا نام جن تھا آسمان و زمین کے درمیان آمد و رفت رکھتا تھا ۔ رب کی نافرمانی سے غضب میں آ گیا اور شیطان رجیم بن گیا اور ملعون ہو گیا ۔ پس متکبر شخص سے توبہ کی امید نہیں ہو سکتی ہاں تکبر نہ ہو اور کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس سے ناامید نہ ہونا چاہئے کہتے ہیں کہ یہ تو جنت کے اندر کام کاج کرنے والوں میں تھا ۔ سلف کے اور بھی اس بارے میں بہت سے آثار مروی ہیں لیکن یہ اکثر بیشتر بنی اسرائیلی ہیں صرف اس لئے نقل کئے گئے ہیں کہ نگاہ سے گزر جائیں ۔ اللہ ہی کو ان کے اکثر کا صحیح حال معلوم ہے ۔ ہاں بنی اسرائیل کی روایتیں وہ تو قطعا قابل تردید ہیں جو ہمارے ہاں کے دلائل کے خلاف ہوں ۔ بات یہ ہے کہ ہمیں تو قرآن کافی وافی ہے ، ہمیں اگلی کتابوں کی باتوں کی کوئی ضرورت نہیں ، ہم ان سے محض بےنیاز ہیں ۔ اس لئے کہ وہ تبدیل ترمیم کمی بیشی سے خالی نہیں ، بہت سی بناوٹی چیزیں ان میں داخل ہو گئی ہیں اور ایسے لوگ ان میں نہیں پائے جاتے جو اعلیٰ درجہ کے حافظ ہوں کہ میل کچیل دور کر دیں ، کھرا کھوٹا پرکھ لیں ، زیادتی اور باطل کے ملانے والوں کی دال نہ گلنے دیں جیسے کہ اللہ رحمن نے اس امت میں اپنے فضل و کرم سے ایسے امام اور علماء اور سادات اور بزرگ اور متقی اور پاکباز اور حفاظ پیدا کئے ہیں جنہوں نے احادیث کو جمع کیا ، تحریر کیا ۔ صحیح ، حسن ، ضعیف ، منکر ، متروک ، موضوع سب کو الگ الگ کر دکھایا یا گھڑنے والوں ، بنانے والوں ، جھوٹ بولنے والوں کو چھانٹ کر الگ کھڑا کر دیا تاکہ ختم المرسلین العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک اور مبرک کلام محفوظ رہ سکے اور باطل سے بچ سکے اور کسی کا بس نہ چلے کہ آپ کے نام سے جھوٹ کو رواج دے لے اور باطل کو حق میں ملا دے ۔ پس ہماری دعا ہے کہ اس کل طبقہ پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و رضا مندی نازل فرمائے اور ان سب سے خوش رہے آمین آمین اللہ انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائے اور یقینا ان سے دوستی نہ کرو اور مجھے چھوڑ کر اس سے تعلق نہ جوڑو ۔ ظالموں کو بڑا برا بدلہ ملے گا ۔ یہ مقام بھی بالکل ایسا ہی ہے جیسے سورہ یاسین میں قیامت ، اس کی ہولناکیوں اور نیک و بد لوگوں کے نتیجوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ اے مجرموں تم آج کے دن الگ ہو جاؤ ، الخ ۔ اللہ کے سوا سب ہی بے اختیار ہیں جنہیں تم اللہ کے سوا اللہ بنائے ہوئے ہو وہ سب تم جیسے ہی میرے غلام ہیں ۔ کسی چیز کی ملکیت انہیں حاصل نہیں ۔ زمین و آسمان کی پیدائش میں میں نے انہیں شامل نہیں رکھا تھا بلکہ اس وقت وہ موجود بھی نہ تھے تمام چیزوں کو صرف میں نے ہی پیدا کیا ہے ۔ سب کی تدبیر صرف میرے ہی ہاتھ ہے ۔ میرا کوئی شریک ، وزیر ، مشیر ، نظیر ، نہیں ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا ( قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ 22؀ ) 34- سبأ:22 ) ، جن جن کو تم اپنے گمان میں کچھ سمجھ رہے ہو سب کو ہی سوا اللہ کے پکار کر دیکھ لو یاد رکھو انہیں آسمان و زمین میں کسی ایک ذرے کے برابر بھی اختیارات حاصل نہیں نہ ان کا ان میں کوئی ساجھا ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ۔ نہ ان میں سے کوئی شفاعت کر سکتا ہے ، جب تک اللہ کی اجازت نہ ہو جائے الخ مجھے یہ لائق نہیں نہ اس کی ضرورت کہ کسی کو خصوصا گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو اور مددگار بناؤں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ شیطان فرشتہ نہیں تھا، فرشتہ اگر ہوتا تو حکم الٰہی سے سرتابی کی اسے مجال ہی نہ ہوتی، کیونکہ فرشتوں کی صفت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ( لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ) 66 ۔ التحریم :6) ۔ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ اشکال رہتا ہے اگر وہ فرشتہ نہیں تھا تو پھر اللہ کے حکم کا وہ مخاطب ہی نہیں تھا کیونکہ اس کے مخاطب تو فرشتے تھے انھیں کو سجدے کا حکم دیا گیا تھا صاحب روح المعانی نے کہا ہے کہ وہ فرشتہ یقینا نہیں تھا لیکن وہ فرشتوں کے ساتھ ہی رہتا تھا اور ان ہی میں شمار ہوتا تھا اس لیے وہ بھی اسجدوا لادم کے حکم کا مخاطب تھا اور سجدہ آدم کے حکم کے ساتھ اس کا خطاب کیا جانا قطعی ہے ارشاد باری ہے۔ ما منعک الا تسجد اذ امرتک۔ جب میں نے تجھے حکم دے دیا تو پھر تو نے سجدہ کیوں نہ کیا۔ 50۔ 2 فِسْق کے معنی ہوتے ہیں نکلنا چوہا جب اپنے بل سے نکلتا ہے تو کہتے ہیں فَسَقَتِ الفَارَۃ مِنْ جُحرِھَا، شیطان بھی سجدہ تعظیم و تحیہ کا انکار کرکے رب کی اطاعت سے نکل گیا۔ 50۔ 3 یعنی کیا تمہارے لئے یہ صحیح ہے کہ تم ایسے شخص کو اور اسکی نسل کو دوست بناؤ جو تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کا دشمن، تمہارا دشمن اور تمہارے رب کا دشمن ہے اور اللہ کو چھوڑ کر اس شیطان کی اطاعت کرو ؟ 50۔ 4 ایک دوسرا ترجمہ اس کا یہ کیا گیا ہے ظالموں نے کیا ہی برا بدل اختیار کیا ہے یعنی اللہ کی اطاعت اور اسکی دوستی کو چھوڑ کر شیطان کی اطاعت اور اسکی دوستی جو اختیار کی ہے تو یہ بہت ہی برا بدل ہے جسے ان ظالموں نے اپنایا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٦] اعمال کا بلا کم وکاست اندراج :۔ نہ تو یہ ہوگا کہ ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو دے دی جائے نہ یہ کہ کسی کا جرم کم ہو اور اسے سزا دے دی جائے نہ یہ کہ کسی کو بےگناہ ہی دھر لیا جائے یعنی ظلم کی کوئی قسم وہاں روا نہیں رکھی جائے گی اعمال نامہ میں جو کچھ فرشتوں نے درج کیا ہوگا بعینہ اسی کے مطابق اسے بدلہ دیا جائے گا۔- [٤٧] فرشتوں کو سجدہ کا حکم ابلیس کا انکار حالانکہ وہ فرشتہ نہیں تھا :۔ وہ فرشتوں کی اصل سے نہیں تھا کیونکہ فرشتے فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار مخلوق ہے وہ اللہ کے حکم کی نہ نافرمانی کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں اللہ کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار صرف جنوں اور انسانوں کو دیا گیا ہے اس لیے احکام ہدایت جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں نازل فرمائے ہیں خواہ ان کا تعلق اوامر سے ہو یا نواہی سے صرف جنوں اور انسانوں سے ہی متعلق ہیں۔ ابلیس چونکہ جنوں کی نسل سے تعلق رکھتا تھا اور اللہ کا حکم ماننے یا نہ ماننے کا اختیار رکھتا تھا لہذا اس نے اپنے اس اختیار کو غلط طور پر استعمال کرتے ہوئے اللہ کا حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس کے انکار کی وجہ اس کا تکبر اور فخر و غرور تھا اور وہ آدم کو اپنے آپ سے حقیر سمجھتا تھا جبکہ اصل حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہ قصہ پہلے کئی مقامات پر گزر چکا ہے اور یہاں اس لیے ذکر کیا جارہا ہے کہ سرداران قریش نے بھی تکبر اور استکبار کی روش اختیار کر رکھی تھی اور بیکس مسلمانوں کو اپنے سے حقیر تر سمجھتے تھے حالانکہ یہاں بھی حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔- یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا یہ ابلیس کی بات کہاں سے چل نکلی تو اس کا جواب دو طرح سے دیا جاتا ہے ایک یہ کہ ابلیس اپنی کثرت عبادت گزاری کی بنا پر فرشتوں کی صفوں میں داخل ہوگیا تھا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آدم کی پیدائش سے پہلے دو ہی عقل والی مخلوق پیدا کی گئی تھیں۔ ایک فرشتے دوسرے جن۔ اور فرشتے بہرحال جنوں سے افضل مخلوق تھے پھر جب افضل مخلوق کو سیدنا آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو یہی حکم از خود بالواسطہ مفضول مخلوق یا جنوں کے لیے بھی تھا۔- [٤٨] اعتقاداً یا زبانی طور پر تو کوئی بھی شیطان کو اپنا دوست یا مطاع یا سرپرست کہنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ سب اس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ مگر عملاً جب انسان اللہ کی بتائی ہوئی راہ کے علی الرغم دوسری راہیں اختیار کرتا اور اس کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے تو یہ عملاً شیطان ہی کی پیروی ہوتی ہے کیونکہ نافرمانی اور سرکشی کی روش اسی نے اختیار کی تھی۔- [٤٩] یہاں ظالموں سے مراد شیطان یا ابلیس کے مطیع فرمان اور اس کے چیلے چانٹے ہیں اور اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے پروردگار کی اطاعت کرتے مگر ان ظالموں نے ان کے عوض اپنے ازلی دشمن کی پیروی کی روش اختیار کی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان ظالموں کو بہت برا بدلہ ملنے والا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا ۔۔ : اس سلسلۂ کلام میں آدم و ابلیس کا قصہ ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ کفار کو متنبہ کیا جائے کہ تم جس غرور و تکبر کی راہ پر چل رہے ہو اور فقراء مسلمین کو حقیر سمجھتے ہو یہ وہی راہ ہے جس پر تم سے پہلے شیطان نے قدم رکھا تھا، پھر دیکھ لو کہ اس کا انجام کیا ہوا ؟ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ ۭ : ” فَفَسَقَ “ میں فاء تعلیل یعنی وجہ بیان کرنے کے لیے ہے، جیسے کہتے ہیں : ” سَرَقَ فَقُطِعَتْ یَدُہُ “ ” اس نے چوری کی، تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ “ یعنی شیطان جنوں میں سے تھا، اس لیے اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ اگر فرشتوں سے ہوتا تو کبھی نافرمانی نہ کرتا، کیونکہ فرشتے نہ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں نہ اس کے حکم کے بغیر کوئی کام کرتے ہیں۔ دیکھیے انبیاء (٢٦ تا ٢٨) اور تحریم (٦) معلوم ہوا کہ ابلیس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اصل میں فرشتہ تھا، نام اس کا عزازیل تھا، یا جن تھا مگر کثرت عبادت کی وجہ سے فرشتوں کا استاد بن گیا، بالکل بےاصل بات ہے۔ رہا یہ سوال کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو تھا، جنوں کو تھا ہی نہیں تو اس کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٢) اور سورة بقرہ (٣٤) کی تفسیر۔- اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ ابلیس کی اولاد ہے، مگر ان کی نسل کیسے بڑھی اور کیسے بڑھتی ہے اس کے متعلق صحیح ذریعے سے ہمارے پاس کوئی علم نہیں۔- بِئْسَ للظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا : ” بِئْسَ “ کا فاعل ” ھُوَ “ ضمیر ہے، جو ابلیس کی طرف لوٹتی ہے، یعنی اللہ کے بدلے میں ابلیس کو دوست بنایا تو تم نے بہت برا بدل حاصل کیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جبکہ ہم نے ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے کہ وہ جنات میں سے تھا اس نے اپنے رب کے حکم سے عدول کیا، (کیونکہ نجات کا عنصر غالب جس سے وہ پیدا کئے گئے ہیں آگ ہے، اور عنصر نار کا مقتضا پابند نہ رہنا ہے، مگر اس اقتضائے عنصری کی وجہ سے ابلیس معذور نہ سمجھا جائے گا کیونکہ اس تقاضائے عنصری کو خدا کے خوف سے مغلوب کیا جاسکتا تھا) تو کیا پھر بھی تم اس کو اور اس کی زریت (اولاد اور توابع) کو دوست بناتے ہو مجھ کو چھوڑ کر ( یعنی میری اطاعت چھوڑ کر اس کے کہنے پر چلتے وہ) حالانکہ وہ (ابلیس اور اس کی جماعت) تمہارے دشمن ہیں (کہ ہر وقت تمہیں ضرر پہونچانے کی فکر میں رہتے ہیں) یہ (ابلیس اور اس کی زریت کی دوستی) ظالموں کے لئے بہت برا بدل ہے (بدل اس لئے کہا کہ دوست تو بنانا چاہئے تھا مجھے، لیکن انہوں نے میرے بدلے شیطان کو دوست بنا لیا، بلکہ دوست ہی نہیں اس کو خدائی کا شریک بھی مان لیا حالانکہ) میں نے ان کو نہ تو آسمان و زمین کے پیدا کرنے کے وقت ( اپنی مدد یا مشورے کے لئے بلایا) اور میں ایسا (عاجز) نہ تھا کہ (کسی کو بالخصوص) گمراہ کرنے والوں (یعنی شیاطین کو) اپنا (دوست و) بازو بناتا (یعنی مدد کی ضرورت تو اس کو ہوتی ہے جو خود قادر نہ ہو) اور (تم یہاں ان کو شریک خدائی سمجھتے ہو، قیامت میں حقیقت معلوم ہوگی) اس دن کو یاد کرو کہ حق تعالیٰ (مشرکین سے) فرمائے گا کہ جن کو تم ہمارا شریک سمجھا کرتے تھے ان کو (اپنی امداد کے لئے) پکارو تو وہ پکاریں گے تو وہ ان کو جواب ہی نہ دیں گے اور ہم ان کے درمیان میں ایک آڑ کردیں گے (جس سے بالکل ہی مایوسی ہوجائے ورنہ بغیر آڑ کے بھی ان کا مدد کرنا ممکن نہ تھا) اور مجرم لوگ دوزخ کو دیکھیں گے پھر یقین کریں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں، اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں ( کی ہدایت) کے واسطے ہر قسم کے عمدہ مضامین طرح طرح سے بیان فرمائے ہیں، اور (اس پر بھی منکر) آدمی جھگڑنے میں سب سے بڑھ کر ہے (جنات اور حیوانات میں اگرچہ شعور و ادراک ہے مگر وہ ایسا جدال اور جھگڑا نہیں کرتے) اور لوگوں کو بعد اس کے کہ ہدایت پہنچ چکی، ( جس کا تقاضا تھا کہ ایمان لے آتے) ایمان لانے سے اور اپنے پروردگار سے (کفر و معصیت سے) مغفرت ماننے سے اور کوئی امر مانع نہیں بجز اس کے کہ ان کو اس کا انتظار ہو کہ اگلے لوگوں کا سا معاملہ (ہلاکت اور عذاب کا) ان کو بھی پیش آجائے یا یہ کہ عذاب ان کے روبرو آکھڑا ہو، (مطلب یہ ہے کہ ان سے حالات سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ عذاب ہی کا انتظار ہے ورنہ اور سب حجتیں تو تمام ہو چکیں) اور رسولوں کو تو صرف بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا کرتے ہیں (جس کے لئے معجزات وغیرہ کے ذریعہ کافی دلائل ان کے ساتھ کر دئیے جانے ہیں، اس سے زائد ان سے کوئی فرمائش کرنا جہالت ہے) اور کافر لوگ ناحق کی باتیں پکڑ پکڑ کر جھگڑے نکالتے ہیں، جا کہ اس کے ذریعہ حق بات کو بچلا دیں اور انھوں نے میری آیتوں کو اور جس (عذاب) سے ان کو ڈرایا گیا تھا اس کو دل لگی بنا رکھا ہے، اور اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جس کو اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جاوے پھر وہ اس سے رو گردانی کرے اور جو کچھ اپنے ہاتھوں (گناہ) سمیٹ رہا ہے اس (کے نتیجہ) کو بھول جائے، ہم نے اس (حق بات) کے سمجھنے سے ان کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں (اور اس کے سننے سے) ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے اور (اس وجہ سے ان کا حال یہ ہے کہ) اگر آپ ان کو راہ راست کی طرف بلائیں تو ہرگز بھی راہ پر نہ آئیں (کیونکہ کانوں سے دعوت حق سنتے نہیں، دلوں سے سمجھتے نہیں، اس لئے آپ غم نہ کریں) اور (تاخیر عذاب کی وجہ سے جو ان کو یہ خیال ہو رہا ہے کہ عذاب آئے گا ہی نہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) آپ کا رب بڑا مغفرت کرنے والا بڑا رحمت والا ہے (اس لئے مہلت دے رکھی ہے کہ آپ ان کو ہوش آجائے اور ایمان لے آئیں تو ان کی مغفرت کردی جائے ورنہ ان کے اعمال تو ایسے ہیں کہ) اگر ان سے ان کے اعمال پر داروگیر کرنے لگتا تو ان پر فورا ہی عذاب واقع کردیتا (مگر ایسا نہیں کرتا) ان کے (عذاب کے) واسطے ایک معین وقت (ٹھہرا رکھا) ہے (یعنی روز قیامت) کہ اس سے اس طرف (یعنی پہلے) کوئی پناہ کی جگہ نہیں پاسکتے (یعنی اس وقت کے آنے سے پہلے کسی پناہ کی جگہ میں جا چھپیں اور اس سے محفوظ رہیں) اور (یہی قاعدہ پہلے کفار کے ساتھ برتا گیا چنانچہ) یہ بستیاں (جن کے قصے مشہور و مذکور ہیں) جب انہوں نے (یعنی ان کے بسنے والوں نے) شرارت کی تو ہم نے ان کو ہلاک کردیا اور ہم نے ان کے ہلاک ہونے کے لئے وقت معین کیا تھا (اسی طرح ان موجودہ لوگوں کے لئے بھی وقت معین ہے) ۔- معارف و مسائل :- ابلیس کی اولاد اور ذریت بھی ہے :- وَذُرِّيَّتَهٗٓ اس لفظ سے سمجھا جاتا ہے کہ شیطان کی اولاد وذریت ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ ذریت سے مراد معین و مددگار ہیں یہ ضروری نہیں کہ شیطان کی صلبی اولاد بھی ہو مگر ایک صحیح حدیث جس کو حمیدی نے کتاب الجمع بین الصحیحین میں حضرت سلمان فارسی سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ نصیحت فرمائی کہ تم ان لوگوں میں سے نہ بنو جو سب سے پہلے بازار میں داخل ہوجاتے ہیں یا وہ لوگ جو سب سے آخر میں بازار سے نکلتے ہیں کیونکہ بازار ایسی جگہ ہے جہاں شیطان نے انڈے بچے دے رکھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کی ذریت اس کے انڈوں سے پھیلتی ہے قرطبی نے یہ روایت نقل کرنے بعد فرمایا کہ شیطان کے مددگار اور لشکر ہونا تو قطعی دلائل سے ثابت ہے اولاد صلبی ہونے کے متعلق بھی ایک صحیح حدیث اوپر گذر چکی ہے واللہ اوعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝ ٠ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ۝ ٠ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّيَّتَہٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَہُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ۝ ٠ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا۝ ٥٠- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- بلس - الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] ، وقال تعالی:- أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» .- ( ب ل س )- الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ - جِنّ ( شیطان)- والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح «4» : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة :- أخيار : وهم الملائكة .- وأشرار : وهم الشیاطین .- وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] .- والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- الجن - جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٠) اور جب ہم نے ان فرشتوں کو بھی حکم دیا جو کہ زمین پر تھے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ تحیت کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جو کہ سردار تھا اور جنات میں سے تھا اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور اپنے پروردگار کی اطاعت سے سرکشی کی اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔- کیا تم پھر بھی شیطان کی اور اس کے چیلوں کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ پرستش کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں، مشرکین نے اطاعت کے لیے میرے علاوہ برا بدل اختیار کیا ہے۔- یا یہ کہ عبادت خداوندی کے بدلہ میں شیطان کی عبادت کو اختیار کرلیا یا یہ کہ ولایت خداوندی کے عوض شیطان کو ولی اور دوست بنالیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ )- یہاں سورة بنی اسرائیل اور سورة الکہف کی مشابہت کے سلسلے میں یہ اہم بات نوٹ کیجئے کہ سورة الکہف کے ساتویں رکوع کی پہلی آیت کے الفاظ بعینہٖ وہی ہیں جو سورة بنی اسرائیل کے ساتویں رکوع کی پہلی آیت کے ہیں۔ حضرت آدم اور ابلیس کا یہ قصہ قرآن میں سات مقامات پر بیان ہوا ہے۔ باقی چھ مقامات پر تو اس کا ذکر نہیں مگر یہاں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ ابلیس جنات میں سے تھا : - (كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ )- یہاں پر ” فَ “ علت کو ظاہر کر رہا ہے کہ چونکہ وہ جنات میں سے تھا اس لیے نافرمانی کا مرتکب ہوا۔ ورنہ فرشتے کبھی اپنے رب کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے : (لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ) ( التحریم) ” وہ (فرشتے) اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے وہ جو بھی حکم انہیں دے اور وہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ “ - (اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ )- اے اولاد آدم ذرا سوچو تم مجھے چھوڑ کر اس ابلیس کو اپنا ولی اور کارساز بناتے ہو جس نے یوں میری نافرمانی کی تھی۔ تمہارا خالق اور مالک میں ہوں میں نے تمہیں اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کیا میں نے فرشتوں کو تمہارے سامنے سرنگوں کیا تمہیں خلافت ارضی سے نوازا اور تم ہو کہ میرے مقابلے میں ابلیس اور اس کی صلبی و معنوی اولاد سے دوستیاں گانٹھتے پھرتے ہو جبکہ فی الواقع وہ تمہارے دشمن ہیں۔- (بِئْسَ للظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا)- اللہ کو چھوڑ کر اپنے دشمن شیطان اور اس کے چیلوں کی رفاقت اختیار کر کے ان ظالموں نے اپنے لیے کس قدر برا بدل اختیار کر رکھا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :47 اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود گمراہ انسانوں کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رحیم و شفیق پروردگار اور خیر خواہ پیغمبروں کو چھوڑ کر اپنے اس ازلی دشمن کے پھندے میں پھنس رہے ہیں جو اول روز آفرینش سے ان کے خلاف حسد رکھتا ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :48 یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا ، اس لیے اطاعت سے باہر ہو جانا اس کے لیے ممکن ہوا ۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فطرۃً مطیع فرمان ہیں : لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرْوْنَ ( التحریم ٦ ) اللہ جو حکم بھی ان کو دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے وَھُم لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ رَبُّھُمْ مِنْ فَوْقِہمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ( النحل ۵۰ ) وہ سرکشی نہیں کرتے ، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت ، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے ۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی ۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموماً لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر ، آیت ۲۷ ۔ اور الجِن ، آیات ۱۳ ۔ ۱۵ ) ۔ رہا یہ سوال کہ جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرز بیان کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جائیں جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں ۔ چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں ۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ۔ ( لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

29: تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 31 تا 36 اور ان آیات کے حواشی 30: یعنی اللہ تعالیٰ کے بدلے ان ظالموں نے کتنا برا رکھوالا چنا ہے۔