51۔ 1 یعنی آسمان اور زمین کی پیدائش اور اس کی تدبیر میں، بلکہ خود شیاطین کی پیدائش میں ہم نے ان سے یا ان میں سے کسی ایک سے کوئی مدد حاصل نہیں کی، یہ تو اسوقت موجود بھی نہ تھے۔ پھر تم اس شیطان اور اس کے نسل کی پوجا یا ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو ؟ اور میری عبادت و اطاعت سے تمہیں گریز کیوں ہے ؟ جب کہ یہ مخلوق ہیں اور میں ان سب کا خالق ہوں۔ 51۔ 2 اور بفرض محال اگر میں کسی کو مددگار بناتا بھی تو ان کو کیسے بناتا، جبکہ یہ میرے بندوں کو گمراہ کرکے میری جنت اور میری رضا سے روکتے ہیں۔
[٥٠] یعنی جب میں نے زمین و آسمان پیدا کیے تھے تو اس وقت میں نے نہ تمہارے معبودوں سے کوئی مشورہ لیا تھا نہ اس وقت موجود تھے بلکہ ان کو پیدا ہی بڑی مدت بعد کیا گیا تھا۔ پھر جب انھیں پیدا کیا تو اس وقت بھی ان سے یہ مشورہ نہیں لیا تھا کہ تمہیں کس طرح کا بنایا جائے۔ پھر یہ میرے شریک کیسے بن گئے ؟ اور اگر بالفرض محال میں نے کسی کو اپنا مددگار بنانا بھی ہوتا تو ان بدبختوں کو بناتا جو لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ؟
مَآ اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل جو قرآن میں بیان فرمائی ہے اور بار بار بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق میں ہوں، میرے سوا کوئی مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتا تو پھر میری بندگی اور دوستی چھوڑ کر مخلوق کی بندگی اور دوستی کیوں ؟ مثلاً دیکھیے سورة نحل (١٧) ، رعد (١٦) ، لقمان (١١) ، فاطر (٤٠) اور احقاف (٤) وغیرہ۔ اس آیت میں فرمایا کہ جب میں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تو ان شیاطین کا کوئی وجود نہ تھا کہ وہ ان کے بنانے میں میرے شریک ہوتے اور نہ میں نے انھیں ان کی اپنی پیدائش میں شریک کیا۔ مطلب یہ کہ یہ خود میرے پیدا کردہ ہیں، پھر یہ میرے شریک اور تمہاری بندگی اور اطاعت کے مستحق کیسے بن گئے ؟ اور مخلوق خالق کی ہمسر کیسے بن گئی ؟- وَمَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّيْنَ عَضُدًا : یعنی نہ میں نے کسی بھی مخلوق سے پیدا کرنے میں کوئی مشورہ یا مدد لی اور نہ میں کبھی اس طرح کے شریروں اور نافرمانوں کو، جن کا کام دوسروں کو گمراہ کرنا اور شرارت پھیلانا ہے، اپنا بازو، یعنی مددگار بنانے والا تھا۔ میں نے کسی کی بھی مدد یا مشورے کے بغیر اپنی مرضی کے مطابق ساری مخلوق پیدا کی۔ گویا ” الْمُضِلِّيْنَ “ پر الف لام عہد کا ہے، مراد شیطان اور اس کی اولاد ہے۔ اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورة سبا (٢٢، ٢٣) ۔
مَآ اَشْہَدْتُّہُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَا خَلْقَ اَنْفُسِہِمْ ٠۠ وَمَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّيْنَ عَضُدًا ٥١- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- عضد - العَضُد : ما بين المرفق إلى الکتف، وعَضَدْتُهُ : أصبت عضده، وعنه استعیر : عَضَدْتُ الشّجر بالمِعْضَد، وجمل عاضد : يأخذ عضد النّاقة فيتنوّخها، ويقال : عَضَدْتُهُ : أخذت عضده وقوّيته، ويستعار العضد للمعین کالید قال تعالی: وَما كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُداً [ الكهف 51] . ورجل أَعْضَدُ : دقیق العضد، وعَضِدٌ: مشتک من العضد، وهو داء يناله في عضده، ومُعَضَّدٌ: موسوم في عضده ويقال لسمته عِضَادٌ ، والمِعْضَد : دملجة، وأَعْضَاد الحوض : جو انبه تشبيها بالعضد .- ( ع ض د ) العضد - ( بازو ) ہاتھ کا کہنی سے لیگر کندھے تک کا حصہ عضدتہ میں نے اس کے بازو پر مارا اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے : ۔ عضدت الشجر بالمعضد میں نے اہنسیا سے درخت کو کاٹا جمل عاضد نر شتر جو مادہ کے بازو کو پکڑ کر جفتی کرنے کے لئے اسے بٹھا لیتا ہے اور عضدتہ کے معنی کسی کا باز ۔ وپکڑنے اور اسے سہارا دینے کے ہیں اور ید کی طرح بطور استعارہ عضدہ کا لفظ بھی مدد گار کے معنی میں آجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُداً [ الكهف 51] اور میں ایسا نہیں تھا کہ گمراہ کرنیوالوں کو مددد گار بناتا ۔ رجل اعضد پتلے بازو کا آدمی جس کے بازو پر نشان ہوا ایسے نشان کو عضاد کہا جاتا ہے اور م (علیہ السلام) ضد کے معنی بازو بند کے ہیں ۔ اعضاد الحوض حوض کے جوانب ( میں جو پشتہ اس کی حفاظت کے لئے بنا دیا جاتا ہے جو اس کے لئے بازو کا کام دیتے ہیں ۔
(٥١) حالانکہ ان فرشتوں اور شیطان کو میں نے نہ تو آسمان و زمین کے پیدا کرنے کے وقت بلایا، یا یہ کہ نہ تو میں نے زمین و آسمان کی پیدایش کے وقت ان سے مدد طلب کی اور نہ خود ان ہی کے پیدا کرنے کے موقع پر ان سے مدد چاہی اور میں ایسا عاجز نہیں کہ ان کافروں اور ان یہود و نصاری اور ان بتوں کے پجاریوں کو اپنا دست وبازو بناتا۔
(وَمَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّيْنَ عَضُدًا)- یہ جو تم شیطان اور اس کے گروہ کو میرے برابر لا رہے ہو اور مجھے چھوڑ کر انہیں اپنا دوست بنا رہے ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ زمین و آسمان کی تخلیق اور خود اپنی تخلیق کے موقع کے گواہ نہیں ہیں۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :49 مطلب یہ ہے کہ یہ شیاطین آخر تمہاری طاعت و بندگی کے مستحق کیسے بن گئے ؟ بندگی کا مستحق تو صرف خالق ہی ہو سکتا ہے ۔ اور ان شیاطین کا حال یہ ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق میں شریک ہونا تو درکنار ، یہ تو خود مخلوق ہیں ۔
31: یعنی جن شیاطین کو ان کافروں نے اپنا سر پرست بنا رکھا ہے، ان کو میں نے تخلیق کائنات کا منظر دکھانے کے لیے یا ان سے مدد لینے کے لیے نہیں بلایا تھا کہ وہ تخلیق کے اسرار سے واقف ہوتے۔ لیکن کافروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہ شیاطین تمام حقائق کو جانتے ہیں، چنانچہ ان کے بہکائے میں آکر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کو یا جن کو وہ کہیں، خدائی کا شریک قرار دیتے ہیں۔