Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ کا ایک بندہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ایک بندہ دو دریا ملنے کی جگہ ہے اس کے پاس وہ علم ہے جو تمہیں حاصل نہیں آپ نے اسی وقت ان سے ملاقات کرنے کی ٹھان لی اب اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں کہ میں تو پہنچے بغیر دم نہ لوں گا ۔ کہتے ہیں یہ دو سمندر ایک تو بحیرہ فارس مشرقی اور دوسرا بحیرہ روم مغربی ہے ۔ یہ جگہ طنجہ کے پاس مغرب کے شہروں کے آخر میں ہے واللہ اعلم ۔ تو فرماتے ہیں کہ گو مجھے قرنوں تک چلنا پڑے کوئی حرج نہیں ۔ کہتے ہیں کہ قیس کے لغت میں برس کو حقت کعتے ہیں ۔ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں ۔ حقب سے مراد اسی برس ہیں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ستر برس کہتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمانہ بتلاتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ملا تھا کہ اپنے ساتھ نمک چڑھی ہوئی ایک مچھلی لیں جہاں وہ گم ہو جائے وہیں ہمارا بندہ ملے گا ۔ یہ دونوں مچھلی کو ساتھ لئے چلے مجمع البحرین میں پہنچ گئے وہاں نہر حیات تھی وہیں دونوں لیٹ گئے اس نہر کے پانی کے چھینٹے مچھلی پر پڑے مچھلی ہلنے جلنے لگ گئی ۔ آپ کے ساتھ حضرت یوشع علیہ السلام کی زنبیل میں یہ مچھلی رکھی ہوئی تھی اور وہ سمندر کے کنارے تھا مچھلی نے سمندر کے اندر کود جانے کے لئے جست لگائی اور حضرت یوشع کی آنکھ کھل گئی مچھلی ان کے دیکھتے ہوئی پانی میں گئی اور پانی میں سیدھا سوراخ ہوتا چلا گیا پس جس طرح زمین میں سوراخ اور سرنگ بن جاتی ہے اسی طرح پانی میں جہاں سے وہ گئی سوراخ ہو گیا ، ادھر ادھر پانی کھڑا ہو گیا اور وہ سوراخ بالکل کھلا ہوا رہا ۔ پتھر کی طرح پانی میں چھید ہو گیا جہاں جس پانی کو لگتی ہوئی وہ مچھلی گئی وہاں کا وہ پانی پتھر جیسا ہو گیا اور وہ سوراخ بنتا چلا گیا ۔ محمد بن اسحقاق مرفوعا لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پانی اس طرح ابتداء دنیا سے نہیں جما سوائے اس مچھلی کے چلے جانے کی جگہ کے ارد گرد کے پانی کے یہ نشان مثل سوراخ زمین کے برابر موسیٰ علیہ السلام کے واپس پہنچنے تک باقی ہی رہے اس نشان کو دیکھتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی کی تلاش میں تو ہم تھے ۔ جب مچھلی کو بھول کر یہ دونوں آگے بڑھے ۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک کا کام دونوں ساتھیوں کی طرف منسوب ہوا ہے ۔ بھولنے والے صرف یوشع تھے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( یخرج منہما اللولو والمرجان ) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں ۔ حالانکہ دو قولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لولو اور مرجان صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں جب وہاں سے ایک مرحلہ اور طے کر گئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے ناشتہ طلب کیا اور سفر کی تکلیف بھی بیان کی یہ تکلیف مقصود سے آگے نکل آنے کے بعد ہوئی ۔ اس پر آپ کے ساتھی کو مچھلی کا چلا جانا یاد آیا اور کہا جس چٹان کے پاس ہم ٹھیرے تھے اس وقت میں مچھلی بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا بھی شیطان نے یاد سے ہٹا دیا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت ان اذکر لہ ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اس مچھلی نے تو عجیب و غریب طور پر پانی میں اپنی راہ پکڑی ۔ اسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لو اور سنو اسی جگہ کی تلاش میں ہم تھے تو وہ دونوں اپنے راستے پر اپنے نشانات قدم کے کھوج پر واپس لوٹے ۔ وہاں ہمارے بندون میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی رحمت اور اپنے پاس کا علم عطا فرما رکھا تھا ۔ یہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ حضرت نوف کا خیال ہے کہ خضر علیہ السلام سے ملنے والے موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا وہ دشمن رب جھوٹا ہے ہم سے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے سنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ کر رہے تھے جو آپ سے سوال ہو کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ۔ تو چونکہ آب نے اس کے جواب میں یہ نہ فرمایا کہ اللہ جانے اس لئے رب کو یہ کلمہ ناپسند آیا ، اسی وقت وحی آئی کہ ہاں مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا پھر پروردگار میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟ حکم ہوا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی رکھ لو اسے توشے دان میں ڈال لو جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں وہ مل جائیں گے ۔ تو آپ اپنے ساتھ اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو لے کر چلے پتھر کے پاس پہنچ کر اپنے سر اس پر رکھ کر دو گھڑی سو رہے ۔ مچھلی اس توشے دان میں تڑپی اور کود کر اس سے نکل گئی سمندر میں ایسی گئی جیسے کوئی سرنگ لگا کر زمین میں اتر گیا ہو پانی کا چلنا بہنا اللہ تعالیٰ نے موقوف کر دیا اور طاق کی طرح وہ سوراخ باقی رہ گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب جا گے تو آپ کے ساتھی یہ ذکر آپ سے بھول گئے اسی وقت وہاں سے چل پڑے دن پورا ہونے کے بعد رات بھر چلتے رہے ، صبح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اور بھوک محسوس ہوئی اللہ نے جہاں جانے کا حکم دیا تھا جب تک وہاں سے آگے نہ نکل گئے تھکان کا نام تک نہ تھا اب اپ نے ساتھی سے کھانا مانگا اور تکلیف بیان کی اس وقت آپ کے ساتھی نے فرمایا کہ پتھر کے پاس جب ہم نے آرام لیا تھا وہیں اسی وقت مچھلی تو میں بھول گیا اور اس کے ذکر کو بھی شیطان نے بھلا دیا اور اس مچھلی نے تو سمندر میں عجیب طور پر اپنی راہ نکال لی ۔ مچھلی کے لئے سرنگ بن گئی اور ان کے لیے حیرت کا باعث بن گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی کی تو تلاش تھی ، چنانچہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے دونوں واپس ہوئے اسی پتھر کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ آپ نے سلام کیا اس نے کہا تعجب ہے آپ کی سر زمین میں یہ سلام کہاں ؟ آپ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں انہوں نے پوچھا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ سکھائیں جو بھلائی آپ کو اللہ کی طرف سے سکھائی گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا موسیٰ علیہ السلام آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ اس لئے کہ مجھے جو علم ہے وہ آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ مجھے نہیں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جداگانہ علم عطا فرما رکھا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ میں صبر کروں گا اور آپ کے کسی فرمان کی نافرمانی نہ کروں گا ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اچھا اگر تم میرا ساتھ چاہتے ہو تو مجھ سے خود کسی بات کا سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں آپ تمہیں اس کی بابت خبردار کروں ۔ اتنی باتیں طے کر کے دونوں ساتھ چلے دریا کے کنارے ایک کشتی تھی ان سے اپنے ساتھ لے جانے کی بات چیت کرنے لگے انہوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ لئے دونوں کو سوار کر لیا کچھ ہی دور چلے ہوں گے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا دیکھا کہ خضر علیہ السلام چپ چاپ کشتی کے تختے کلہاڑے سے توڑ رہے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیا ؟ ان لوگوں نے تو ہمارے ساتھ احسان کیا بغیر کرایہ لئے کشتی میں سوار کیا اور آپ نے اس کے تختے توڑنے شروع کر دئیے جس سے تمام اہل کشتی ڈوب جائیں یہ تو بڑا ہی ناخوش گوار کام کرنے لگے ۔ اسی وقت حضرت خصر علیہ السلام نے فرمایا دیکھو میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام معذرت کرنے لگے کہ خطا ہو گئی بھولے سے پوچھ بیٹھا معاف فرمائیے اور سختی نہ کیئجے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں واقعی یہ پہلی غلطی بھول سے ہی تھی فرماتے ہیں کشتی کے ایک تختے پر ایک چڑیا آ بیٹھی اور سمندر میں چونچ ڈال کر پانی لے کر اڑ گئی ، اس وقت حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا میرے اور تیرے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہے جتنا پانی سے سمندر میں سے اس چڑیا کی چونچ نے کم کیا ہے ۔ اب کشتی کنارے لگی اور ساحل پر دونوں چلنے لگے جو حضرت خضر علیہ السلام کی نگاہ چند کھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی ان میں سے ایک بچے کا سر پکڑ کر حضرت خضر علیہ السلام نے اس طرح مروڑ دیا کہ اسی وقت اس کا دم نکل گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے اور فرمانے لگے بغیر کسی قتل کے اس بچے کو آپ نے ناحق مار ڈالا ؟ آپ نے بڑا ہی منکر کام کیا حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا دیکھو اسی کو میں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہاری ہماری نبھ نہیں سکتی اس وقت حضرت خضر علیہ السلام نے پہلے سے زیادہ سختی کی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب اگر میں کوئی سوال کر بیٹھوں تو بیشک آپ مجھے ابنے ساتھ نہ رکھنا یقینا اب آپ معذور ہو گئے ، چنانچہ پھر دونوں ہمراہ چلے ایک بستی والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کر دیا ، وہیں ایک دیوار دیکھی جو جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی ، اسی وقت حضرت خضر نے ہاتھ لگا کر اسے ٹھیک اور درست کر دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا خیال تو فرمائیے ہم یہاں آئے ان لوگوں سے کھانا طلب کیا انہوں نے نہ دیا مہمان نوازی کے خلاف کیا ان کا یہ کام تھا آپ ان سے اجرت لے سکتے تھے ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا یہ ہے مجھ میں اور تم میں جدائی اب میں تمہیں ان کاموں کی اصلیت بتلا دوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کاش کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تو ان دونوں کی اور بھی بہت سی باتیں ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں وکان ورائہم کے بدلے وکان امامہم ہے اور سفینۃ کے بعد صالحتہ کا لفظ بھی ہے اور واما الغلام کے بعد فکان کافرا کے لفظ بھی ہیں ۔ اور سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ اس پتھر کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام رک گئے وہیں ایک چشمہ تھا جس کا نام نہر حیات تھا اس کا پانی جس چیز کو لگ جاتا ہے وہ زندہ ہو جاتی تھی ۔ اس میں چڑیا کی چونچ کا پانی اس سمندر کے مقابلے میں ، الخ ۔ صحیح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ان کے پاس تھا آپ نے فرمایا کہ جس کو جو سوال کرنا ہو کر لے میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے کوفے میں ایک واعظ ہیں جن کا نام نوف ہے پھر پوری حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزری اس میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس خطبہ سے آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور دل نرم پڑ گئے تھے ، جب آپ جانے لگے تو ایک شخص آپ کے پاس پہنچا اور اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی طرف علم کو نہ لوٹایا اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نشان طلب کیا تو ارشاد ہوا کہ ایک مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو جس جگہ اس میں روح پڑ جائے وہیں پر آپ کی اس شخص سے ملاقات ہو گئی ۔ چنانچہ آپ نے مچھلی لی زنبیل میں رکھ لی اور اپنے ساتھی سے کہا آپ کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ جہاں مچھلی آپ کے پاس سے چلی جائے وہاں آپ مجھے خبر کر دینا انہوں نے کہا یہ تو بالکل آسان سی بات ہے ۔ ان کا نام یوشع بن نون تھا ۔ لفتہ سے یہی مراد ہے ۔ یہ دونوں بزرگ تر جگہ میں ایک درخت تلے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی تھی اور حضرت یوشع جاگ رہے تھے جو مچھلی کود گئی انہوں نے خیال کیا کہ جگانا تو ٹھیک نہیں جب آنکھ کھلے گی ذکر کر دوں گا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پانی میں جانے کے وقت جو سوراخ ہو گیا تھا اسے روای حدیث عمرو نے اپنے انگوٹھے اور اس کے پاس کی دونوں انگلیوں کا حلقہ کر کے دکھایا کہ اس طرح کا تھا جیسے پتھر میں ہوتا ہے ۔ واپسی پر حضرت خضر سمندر کے کنارے سبز گدی بچھائے ملے ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے اس کا ایک سرا تو دونوں پیروں کے نیچے رکھا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سر تلے تھا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلام پر آپ نے منہ کھولا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں توراۃ موجود ہے وحی آسمان سے آ رہی ہے کیا یہ بس نہیں ؟ اور میرا علم آپ کے لائق بھی نہیں اور نہ میں آپ کے علم کے قابل ہوں ۔ اس میں ہے کہ کشتی کا تختہ توڑ کر آپ نے ایک تانت سے باندھ دیا تھا ۔ پہلی دفعہ کا آپ کا سوال تو بھولے سے ہی تھا دوسری مربتہ کا بطور شرط کے تھا ہاں تیسری بار کا سوال قصدا علیحدگی کی وجہ سے تھا ۔ اس میں ہے کہ لڑکوں میں ایک لڑکا تھا کافر ہوشیار اسے حضرت خضر نے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا ایک قرأت میں زاکیتہ مسلمۃ بھی ہے ۔ ورائہم کی قرأت امامہم بھی ہے اس ظالم بادشاہ کا نام اس میں ہدو بن بدو ہے اور جس بچے کو قتل کیا گیا تھا اس کا نام جیسور تھا کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے بدلے ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خطبہ کر رہے تھے اور فرمایا کہ اللہ کو اور اس کے امر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ الخ یہ نوف کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کے لڑکے کا قول تھا کہ جس موسیٰ کا ان آیتوں میں ذکر ہے یہ موسیٰ بن میشا تھے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تیرے بندوں میں مجھ سے بڑا عالم کوئی ہو تو مجھے آگاہ فرما ، اس میں ہے کہ نمک چڑھی ہوئی مچھلی آپ نے اپنے ساتھ رکھی تھی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا تم یہاں کیوں آئے ؟ آپ کو تو ابھی بنی اسرائیل میں ہی مشغول کار رہنا ہے اس میں ہے کہ چھپی ہوئی باتیں حضرت خضر علیہ السلام کو معلوم کرائی جاتی تھیں تو آپنے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ٹھیر نہیں سکتے کیونکہ آپ تو ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور مجھے راز پر اطلاع ہوتی ہے ، چنانچہ شرط ہو گئی کہ گو آپ کیسا ہی خلاف دیکھیں لیکن لب نہ ہلائیں جب تک کہ حضرت خضر خود نہ بتلائیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ کشتی تمام کشتیوں سے مضبوط عمدہ اور اچھی تھی ، وہ بچہ ایک بےمثل بچہ تھا بڑا حسین بڑا ہوشیار بڑا ہی طرار حضرت خضر نے اسے پکڑ کر پتھر اس کا سر کچل کر اسے مار ڈالا ۔ حضرت موسیٰ خوف اللہ سے کانپ اٹھے کہ ننھا سا پیارا بےگناہ بچہ اس بےدردی سے بغیر کسی سبب کے حضرت خضر نے جان سے مار ڈالا ۔ دیوار گرتی ہوئی دیکھ کر ٹھہر گئے پہلے تو اسے باقاعدہ گرایا اور پھر بہ آرام چننے بیٹھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اکتا گئے کہ بیٹھے بٹھائے اچھا دھندا لے بیٹھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس دیوار کے نیچے کا خانہ صرف علم تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اور آپ کی قوم مصر پر غالب آ گئی اور یہاں آ کر وہ با آرام رہنے سہنے لگے تو حکم الہٰی ہوا کہ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلاؤ ۔ آپ خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کے احسانات بیان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ یہ نعمتیں عطا فرمائیں ، آل فرعون سے اس نے تمہیں نجات دی ، تمہارے دشمنوں کو غارت اور غرق کر دیا ، پھر تمہیں ان کی زمین کا مالک کر دیا ، تمہارے نبی سے باتیں کیں ، اسے اپنے لیے پسند فرما لیا ، اس پر اپنی محبت ڈال دی ، تمہاری تمام حاجتیں پوری کیں ، تمھارے نبی تمام زمین والوں سے افضل ہیں ، اس نے تمہیں تورات عطا فرمائی ۔ الغرض پورے زوروں سے اللہ کی بیشمار اور ان گنت نعمتیں انہیں یاد دلائیں اس پر ایک بنی اسرائیل نے کہا فی الواقع بات یہی ہے اے نبی اللہ کیا زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے بےساختہ فرمایا کہ نہیں ہے ۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا کہ ان سے کہو کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں اپنا علم کہاں کہاں رکھتا ہوں ؟ بیشک سمندر کے کنارے پر ایک شخص ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت خضر علیہ السلام ہیں پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ان کو میں دیکھ لوں وحی ہوئی کہ اچھا سمندر کے کنارے جاؤ وہاں تمہیں ایک مچھلی ملے گی اسے لے لو ، اپنے ساتھی کو سونپ دو ، پھر کنارے چل دو جہاں تو مچھلی کو بھول جائے اور وہ تجھ سے گم ہو جائے وہیں تو میرے اس نیک بندے کو پائے گا حضرت موسیٰ علیہ السلام جب چلتے چلتے تھک گئے تو اپنے ساتھ سے جو ان کا غلام تھا مچھلی کے بارے میں سوال کیا اس نے جواب دیا کہ جس پتھر کے پاس ہم ٹھہرے تھے وہیں میں مچھلی کو بھول گیا اور تجھ سے ذکر کرنا شیطان نے بالکل بھلا دیا میں نے دیکھا کہ مچھلی تو گویا سرنگ بناتی ہوئی دریا میں جا رہی ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اپنی لکڑی سے پانی کو چیرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لئے مچھلی جہاں سے گزرتی تھی اس کے دونوں طرف کا پانی پتھر بن جاتا تھا اس سے بھی اللہ کے نبی سخت متعجب ہوئے اب مچھلی ایک جزیرے میں آپ کو لے گئی الخ ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حر بن قیس میں اختلاف تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے یہ صاحب کون تھے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں بلا کر اپنا اختلاف بیان کیا ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی وہ حدیث بیان کی جو تقریبا اوپر گزر چکی ہے ۔ اس میں سائل کے سوال کے الفاظ یہ ہیں کہ کیا آپ اس شخص کا ہونا بھی جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم والا ہو ؟

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 نوجوان سے مراد حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔ 60۔ 2 اس مقام کی تعیین کسی یقینی ذریعہ سے نہیں ہوسکی تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد صحرائے سینا کا وہ جنوبی راستہ ہے جہاں خلیج عقبہ اور خلیج سویز دونوں آکر ملتے ہیں اور بحر احمر میں ضم ہوجاتے ہیں۔ دوسرے مقامات جن کا ذکر مفسرین نے کیا ہے ان پر سرے سے مجمع البحرین کی تعبیر ہی صادق نہیں آتی۔ 60۔ 3 حقب، کے ایک معنی 70 یا 80 سال اور دوسرے معنی غیر معین مدت کے ہیں یہاں یہی دوسرا معنی مراد ہے یعنی جب تک میں مجمع البحرین (جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں) نہیں پہنچ جاؤں گا، چلتا رہوں گا اور سفر جاری رکھوں گا، چاہے کتنا بھی عرصہ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سفر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ انہوں نے ایک موقع پر ایک سائل کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ جملہ پسند نہیں آیا اور وحی کے ذریعہ سے انھیں مطلع کیا کہ ہمارا ایک بندہ (خضر) ہے جو تجھ سے بڑا عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کہ یا اللہ اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں، وہیں ہمارا وہ بندہ بھی ہوگا۔ نیز فرمایا کہ مچھلی ساتھ لے جاؤ، جہاں مچھلی تمہاری ٹوکری (زنبیل) سے نکل کر غائب ہوجائے تو سمجھ لینا کہ یہی مقام ہے (بخاری، سورة کہف) چناچہ اس کے حکم کے مطابق انہوں نے ایک مچھلی لی اور سفر شروع کردیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٨] سیدنا موسیٰ کا اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم قرار دینا :۔ یہاں سے اب قصہ موسیٰ و خضر کا آغاز ہو رہا ہے جو قریش مکہ کا دوسرا سوال تھا۔ اس کی تشریح کے لیے بخاری شریف کی درجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ اللہ کی طرف سے اس کے بندہ (خضر) سے کسب فیض کا حکم :۔ سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کہا کہ نوف بکالی (کعب احبار کا بیٹا) کہتا ہے کہ جو موسیٰ خضر سے ملنے گئے تھے وہ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے۔ (بلکہ وہ موسیٰ بن افراثیم بن یوسف تھے) تو ابن عباس (رض) کہنے لگے : وہ اللہ کا دشمن جھوٹ بکتا ہے میں نے خود رسول اللہ سے سنا : آپ نے فرمایا ایک دفعہ موسیٰ نے کھڑے ہو کر خطبہ سنایا (سامعین میں سے) کسی نے پوچھا اس وقت لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے ؟ موسیٰ نے کہا میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انھیں یہ بات اللہ کے حوالہ کرنا چاہیے تھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی کی کہ دو دریاؤں کے سنگھم پر میرا ایک بندہ (خضر) ہے جو تم سے زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ نے عرض کی میں اسے کیسے مل سکتا ہوں ؟ فرمایا : اپنے ساتھ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہیں وہ بندہ ملے گا چناچہ موسیٰ نے ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لی اور وہ خود اور ان کا خادم یوشع بن نون سفر پر روانہ ہوئے تاآنکہ وہ (راستہ میں) ایک چٹان پر پہنچے، وہاں وہ اس چٹان پر اپنا سر رکھ کر سو گئے اس وقت وہ مچھلی زنبیل میں سے تڑپ کر نکلی اور دریا میں جاگری اور سرنگ کی طرح کا بنا ہوا رستہ چھوڑ گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس رستہ سے پانی کی روانی کو روک دیا اور وہ راستہ ایک طاق کی طرح دریا میں بنا رہ گیا۔ جب موسیٰ بیدار ہوئے تو ان کا خادم (جو یہ منظر دیکھ رہا تھا) انھیں اس واقعہ کی اطلاع دینا بھول گیا اور وہ پھر سفر پر چل کھڑے ہوئے وہ دن کا باقی حصہ اور رات بھی چلتے رہے۔- قصہ موسیٰ وخضر سے ملاقات اور ہمراہی شرط :۔ دوسرے دن صبح موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا کھانا لاؤ ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے رسول اللہ نے فرمایا کہ : موسیٰ کو تھکن اس وقت سے شروع ہوئی جب وہ اس مقام سے آگے بڑھ گئے جہاں تک جانے کا اللہ نے انھیں حکم دیا تھا یوشع نے موسیٰ کو جواب دیا : دیکھئے کل جب ہم نے چٹان کے پاس دم لیا تھا تو اس وقت مچھلی عجیب طرح کا راستہ بناتی ہوئی دریا میں چلی گئی تھی اور شیطان نے مجھے ایسا بھلایا کہ اس واقعہ کو آپ سے ذکر کرنا مجھے یاد ہی نہ رہا رسول اللہ نے فرمایا : مچھلی نے جو یہ سرنگ جیسا راستہ بنایا تھا وہ ان دونوں کے لیے بڑا باعث تعجب تھا ۔ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا : کہ وہی جگہ تو ہماری منزل مقصود تھی چناچہ وہ دونوں اپنے نقوش پا کو دیکھتے دیکھتے واپس اسی چٹان تک آگئے۔ وہاں انہوں نے ایک شخص کو کپڑا اوڑھے دیکھا تو موسیٰ نے اسے سلام کہا تو سیدنا خضر نے کہا تمہارے ملک میں سلام کہاں سے آیا ؟ موسیٰ نے کہا میں موسیٰ ہوں سیدنا خضر نے کہا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ موسیٰ نے جواب دیا ہاں، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ اللہ نے آپ کو بھلائی کی باتیں سکھائی ہیں ان میں سے کچھ مجھے بھی سکھادیں سیدنا خضر نے جواب دیا۔ موسیٰ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم میں سے ایک علم مجھے سکھایا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا لہذا تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے موسیٰ نے جواب دیا میں انشاء اللہ صبر کروں گا اور کسی معاملہ میں آپ سے اختلاف نہ کروں گا سیدنا خضر نے کہا اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو پھر مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا تاآنکہ میں خود ہی اس کی حقیقت آپ سے بیان نہ کردوں ۔- سیدنا خضر کا کشی کا تختہ اکھیڑنا اور سیدنا موسیٰ کا اعتراض :۔ (یہ معاہدہ طے پانے کے بعد) وہ دریا کے کنارے کنارے چل کھڑے ہوئے کہ ان کا گزر ایک کشتی پر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بھی سوار کرلو کشتی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر بغیر کرایہ ہی سوار کرلیا ابھی کشتی میں سوار ہوئے ہی تھے کہ سیدنا خضر نے اپنا بسولا لے کر اس کشتی کا ایک پھٹہ توڑ دیا اور اسے عیب دار بنادیا۔ موسیٰ کہنے لگے کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ لیے کشتی پر بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا کہ سب کشتی والوں کو ڈبو دو یہ تم نے کیا عجیب حرکت کی ؟ سیدنا خضر نے جواب دیا میں نے آپ کو کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے موسیٰ نے کہا : مجھ سے بھول ہوگئی آپ درگزر کیجئے اور میرا کام مجھ پر دشوار نہ بنائیے - موسی وخضر دونوں کے علم کے مقابلہ میں اللہ کے علم کی وسعت :۔ اور رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ بلاشبہ پہلا اعتراض موسیٰ (علیہ السلام) نے بھول کر کیا تھا۔ نیز آپ نے فرمایا اتنے میں ایک چڑیا آئی جس نے کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر دریا میں سے اپنی چونچ میں پانی لیا جسے دیکھ کر سیدنا خضر نے موسیٰ سے کہا : اللہ کے علم کے مقابلہ میں میرا علم اور آپ کا علم دونوں مل کر اتنے ہی ہیں جیسے اس چڑیا نے اس دریا میں سے چونچ سے پانی لیا ہے - خضر کا ایک نوجوان کو مارنا ڈالنا اور موسیٰ کا دوسرا اعتراض :۔ پھر وہ دونوں کشتی سے نکل آئے اور ساحل پر چلتے گئے راستہ میں سیدنا خضر نے ایک لڑکے کو دیکھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر کھیل رہا تھا۔ سیدنا خضر نے اس لڑکے کے سر کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر مروڑا جو دیا تو اسے مار ہی ڈالا۔ موسیٰ کہنے لگے، ارے بھائی آپ نے ایک پاکیزہ جان کو ناحق ہی مار ڈالا یہ تو آپ نے بہت برا کیا سیدنا خضر کہنے لگے میں نے آپ کو کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے ؟ آپ نے فرمایا اور یہ کام تو پہلے کام سے بھی سخت تر تھا۔ موسیٰ کہنے لگے اگر آئندہ بھی میں نے آپ پر کوئی اعتراض کیا تو بیشک مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا کیونکہ آپ کی طرف سے مجھ پر اتمام حجت ہوجائے گا۔- خضر کا دیوار مرمت کردینا اور موسیٰ کا تیسرا اعتراض :۔ پھر وہ دونوں چل کھڑے ہوئے تاآنکہ وہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کھانا طلب کیا لیکن انہوں نے انھیں کچھ بھی کھانے کو نہ دیا۔ اتفاق سے انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا ہی چاہتی تھی۔ سدنا خضر نے اس دیوار کو قائم کردیا۔ موسیٰ نے کہا : ان لوگوں نے نہ تو ہمیں کھانا دیا اور نہ ضیافت کی اگر آپ چاہتے تو ان سے آپ دیوار قائم کرنے کی مزدوری بھی لے سکتے تھے (جس سے ہم کھانا کھا سکتے) سیدنا خضر کہنے لگے بس اب جدائی کی گھڑی آن پہنچی اب میں آپ کو ان واقعات کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے رسول اللہ نے فرمایا کہ ہم تو چاہتے تھے کہ موسیٰ صبر کیے جاتے تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کے اور زیادہ حالات ہم سے بیان کرتا (بخاری۔ کتاب التفسیر سورة الکھف)- مذکورہ تین واقعات کی تاویل :۔ اس سے اگلی حدیث میں ان واقعات کی تاویل کا یوں ذکر ہے کہ سیدنا خضر نے موسیٰ سے کہا : کشتی کو عیب دار کرنے سے میری غرض یہ تھی کہ جب یہ کشتی اس ظالم بادشاہ کے سامنے جائے تو وہ اسے عیب دار سمجھ کر چھوڑ دے اور کشتی والے پھر سے اسے درست کرلیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ دوسرے واقعہ کی تاویل یہ ہے کہ اس لڑکے کے ماں باپ ایمان دار تھے اور لڑکے کی قسمت میں کفر لکھا تھا تو ہم ڈرے کہ کہیں یہ اپنے ماں باپ کو کفر اور سرکشی میں نہ پھنسا دے یعنی لڑکے کی محبت میں والدین بھی کفر میں مبتلا نہ ہوجائیں تو ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ اچھا اور پاکیزہ لڑکا عطا کرے اور اس کے ماں باپ اس سے بھی زیادہ اس لڑکے پر مہربان ہوں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ ترمذی، ابو اب التفسیر)- [٥٩] سیدنا موسیٰ کونسے دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچے ؟:۔ یہ واقعہ سیدنا موسیٰ کی زندگی کے کس دور میں پیش آیا اور وہ دو دریا کون سے تھے ؟ ان سوالات کے جوابات سے کتاب و سنت خاموش ہیں۔ سیدنا موسیٰ کے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کرلے جانے کے بعد اس قصہ اور اس طرح کے سفر کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ لہذا اغلب خیال یہ ہے کہ یہ واقعہ مصر ہی میں پیش آیا ہوگا اور مصر میں دریاؤں کا سنگھم ایک ہی ہے اور وہ ہے موجودہ شہر خرطوم جہاں دریائے نیل کی دو شاخیں بحرابیض اور بحر ازرق آپس میں ملتی ہیں چونکہ یہ سنگھم کا علاقہ بھی کوئی مخصوص مقام نہ تھا بلکہ میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ لہذا سیدنا موسیٰ کو بذریعہ وحی یہ ہدایت دی گئی تھی کہ ایک مچھلی تل کر اپنے توشہ دان میں رکھ لیں جس مقام پر جاکر یہ مچھلی زندہ ہو کر دریا کے پانی میں چھلانگ لگا دے بس وہی مقام ہے جہاں تمہاری ہمارے بندے سیدنا خضر سے ملاقات ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ ۔۔ : یہاں سے تیسرا قصہ شروع ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) خضر کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے گئے۔ اگرچہ یہ اپنی جگہ ایک مستقل قصہ ہے، تاہم اس میں اس بات کی تائید بھی ہے جو پہلے دونوں قصوں میں گزری۔ اوپر ذکر فرمایا کہ کافر اپنے مال و جاہ پر مغرور رہتے اور مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے کہ اگر ان کو اپنے پاس نہ بٹھاؤ تو ہم آپ کے پاس بیٹھیں۔ اس پر دو بھائیوں کا قصہ بیان فرمایا اور پھر دنیا کی مثال بیان فرمائی اور بتایا کہ ابلیس غرور کے سبب ہی ہلاک ہوا اور اب خضر اور موسیٰ ( علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا کہ دیکھو موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر اولو العزم پیغمبر اتنے زیادہ علم و عمل کے باوجود خضر (علیہ السلام) سے علم حاصل کرنے کے لیے گئے اور ان کے سامنے تواضع اختیار کرتے ہوئے ان کی ہر شرط قبول کی۔ (رازی و موضح)- ” لِفَتٰىهُ “ ” فَتًی “ کا معنی نوجوان ہے، خادم کو بھی ” فَتًی “ کہہ لیتے ہیں، کیونکہ بہتر خدمت نوجوان ہی کرسکتے ہیں۔ یہ یوشع بن نون تھے جو موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت محبت رکھتے تھے، ان کی خدمت کے لیے ان کے ساتھ رہتے تھے، موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے جانشین بنے اور انھی کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اگر خوش دلی سے خدمت کرے تو اس سے خدمت لی جاسکتی ہے۔ - مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ : ” بَحْرٌ“ کا لفظ عربی زبان میں نمکین پانی والے سمندر پر بھی بولا جاتا ہے اور میٹھے پانی والے دریا پر بھی۔ (قاموس) فارسی میں بھی دریا کا لفظ دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ دو بحر ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ مراد قصہ گوئی نہیں، نصیحت ہے اور وہ ان دو دریاؤں کی تعیین کے بغیر بھی پوری ہے۔ بعض مفسرین نے ان سے بحر فارس اور بحر روم مراد لیے ہیں، مگر یہ ملتے نہیں۔ بعض نے بحر ابیض اور بحر احمر مراد لیے ہیں۔ بعض نے افریقہ کے اور بعض نے اندلس کے دو دریا مراد لیے ہیں۔ بعض نے دجلہ و فرات مراد لیے ہیں، مگر مصر کو مدنظر رکھیں تو سوڈان کی طرف سے مصر میں آنے والے دریائے نیل میں ملنے والے کئی دریاؤں کے نیل کے ساتھ ملنے کی کوئی جگہ مراد ہوسکتی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے وہاں گم ہونے کی علامت کے ساتھ متعین فرمایا۔ اب اندازے سے ان جگہوں میں سے دو دریاؤں کے جمع ہونے کی کوئی ایک جگہ متعین کرنا ممکن نہیں اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ ” حُقُبًا “ ” حَقْبَۃٌ“ کی جمع ہے، لمبی مدت کو ” حَقْبَۃٌ“ کہتے ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بیان فرمائی ہے، قارئین اس پوری حدیث کو غور سے پڑھیں، آئندہ فوائد میں اس کا بار بار ذکر آئے گا۔ - 3 ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا : ” لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ “ انھوں نے فرمایا : ” میں ہوں۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ناراضگی کا اظہار فرمایا، کیونکہ انھوں نے یہ بات اللہ کے سپرد نہیں کی (کہ اللہ بہتر جانتا ہے) ۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میرا ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ ہے، وہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : ” اے میرے رب پھر میری اس سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ؟ “ فرمایا : ” اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے کسی مکتل (کھجور کے نرم پتوں کی بنی ہوئی ٹوکری) میں رکھ لو، تو جہاں مچھلی کو گم پاؤ، وہ وہیں ہوگا۔ “ تو انھوں نے ایک مچھلی لی، اسے ایک ٹوکری میں رکھا اور چل پڑے اور اپنے ساتھ اپنے جوان یوشع بن نون کو بھی لے لیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک خاص قسم کی چٹان کے پاس پہنچے تو دونوں لیٹ گئے اور سو گئے۔ مچھلی تڑپی اور دریا میں جا گری اور اس نے دریا میں اپنا راستہ سرنگ کی صورت میں بنا لیا اور اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کا بہاؤ روک دیا تو وہ اس پر طاق کی طرح ہوگیا۔ جب ( موسیٰ (علیہ السلام ) جاگے تو ان کا ساتھی انھیں مچھلی کے متعلق بتلانا بھول گیا، چناچہ وہ دونوں دن کا باقی حصہ اور رات بھر چلتے رہے۔ اگلا دن ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے جوان سے کہا : ” ہمارا دن کا کھانا لاؤ، ہمیں اپنے اس سفر میں بہت تھکاوٹ ہوئی ہے۔ “ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) فرمایا : ” موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی جب تک وہ اپنی اس جگہ سے آگے نہیں گزرے جس کا انھیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ “ تو ان کے جوان نے ان سے کہا : ” کیا آپ نے دیکھا کہ جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے اس کا ذکر کرنا شیطان ہی نے بھلایا ہے اور اس نے دریا میں اپنا عجیب راستہ بنا لیا۔ “ سو مچھلی کے لیے سرنگ بنی اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے جوان کو تعجب ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ” یہی تو ہم ڈھونڈ رہے تھے۔ “ چناچہ وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں کا پیچھا کرتے ہوئے واپس پلٹے، یہاں تک کہ اس چٹان تک آپہنچے، تو اس وقت (وہاں) ایک آدمی کپڑا اوڑھ کر لیٹا ہوا تھا۔ اسے موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کہا تو خضر نے کہا : ” اور تیری (اس) سرزمین میں سلام کیسا ؟ “ کہا : ” میں موسیٰ ہوں۔ “ اس نے کہا : ” بنی اسرائیل والے موسیٰ ؟ “ کہا : ” ہاں، میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ کو جو کچھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دیں۔ “ اس نے کہا : ” تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکے گا، اے موسیٰ میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہوں جسے تم نہیں جانتے اور تم اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہو جسے میں نہیں جانتا۔ “ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ” تم مجھے اگر اللہ نے چاہا تو صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں تمہارے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ “ تو خضر نے اس سے کہا : ” پھر اگر تو میرے پیچھے چلا ہے تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں مت پوچھنا، یہاں تک کہ میں تیرے لیے اس کا کچھ ذکر شروع کروں۔ “ چناچہ وہ دونوں چل پڑے، دریا کے کنارے پر جا رہے تھے کہ ایک کشتی گزری، انھوں نے ان سے بات کی کہ وہ انھیں سوار کرلیں۔ ان لوگوں نے خضر کو پہچان لیا، اس لیے انھوں نے ان کو کسی اجرت کے بغیر سوار کرلیا۔ جب وہ دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو اچانک ہی خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ تیشے کے ساتھ اکھیڑ دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا : ” ایسے لوگ جنھوں نے ہمیں اجرت کے بغیر سوار کرلیا، تم نے بڑھ کر ان کی کشتی کا تختہ اکھیڑ دیا، تاکہ اس میں سوار لوگوں کو غرق کر دو ، بلاشبہ یقیناً تو ایک بڑے کام کو آیا ہے۔ “ کہا : ” کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ یقیناً تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکے گا ؟ “ کہا : ” مجھے اس پر نہ پکڑ جو میں بھول گیا اور مجھے میرے معاملے میں کسی مشکل میں نہ پھنسا۔ “ (ابی بن کعب (رض) نے) کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ پہلی دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بھول ہوئی تھی۔ “ فرمایا : ” اور ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی، اس نے دریا میں ایک ٹھونکا مارا تو خضر نے اس سے کہا : ” میرا علم اور تیرا علم اللہ کے علم میں سے اتنا ہی ہے جتنا اس چڑیا نے اس دریا سے کم کیا ہے۔ “ پھر وہ دونوں کشتی سے نکلے، ابھی وہ کنارے پر چل ہی رہے تھے کہ خضر نے ایک لڑکا دیکھا جو لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، تو خضر نے اس کا سر پکڑا اور اسے اپنے ہاتھ سے اکھیڑ کر قتل کردیا۔ موسیٰ نے اس سے کہا : ” کیا تو نے ایک بےگناہ جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کردیا، بلاشبہ یقیناً تو ایک بہت برے کام کو آیا ہے۔ “ کہا : ” کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکے گا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اور یہ پہلی سے سخت (تنبیہ) تھی۔ “ کہا : ” اگر میں تجھ سے اس کے بعد کسی چیز کے متعلق پوچھوں تو مجھے ساتھ نہ رکھنا، یقیناً تو میری طرف سے پورے عذر کو پہنچ چکا ہے۔ “ پھر وہ دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے انکار کردیا کہ ان کی مہمان نوازی کریں، پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گرجائے۔ فرمایا، ایک طرف جھکی ہوئی تھی۔ تو خضر اٹھے اور اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ” ایسے لوگ جن کے پاس ہم آئے تو نہ انھوں نے ہمیں کھانا کھلایا اور نہ ہماری مہمان نوازی کی، اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔ “ (خضر نے) کہا : ” یہ میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے۔ “ اس کے بعد پورا واقعہ بیان فرمایا جو آیت (٧٨) سے آیت (٨٢) کے آخر تک ہے۔ ابن عباس (رض) پڑھا کرتے تھے : ” وَ أَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا وَکَانَ أَبَوَاہُ مُؤْمِنَیْنِ “ یعنی وہ لڑکا کافر تھا اور اس کے ماں باپ مومن تھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( و إذ قال موسیٰ لفتاہ لا أبرح۔۔ ) : ٤٧٢٥ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے (جن کا نام یوشع تھا رواہ البخاری) فرمایا کہ میں (اس سفر میں) برابر چلا جاؤں گا یہاں تک کہ اس موقع پر پہنچ جاؤں جہاں دو دریا آپس میں ملے ہیں یا یوں ہی زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا (اور وجہ اس سفر کی یہ ہوئی تھی کہ ایک بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل میں وعظ فرمایا تو کسی نے پوچھا کہ اس وقت آدمیوں میں سب سے بڑا عالم کون شخص ہے ؟ آپ نے فرمایا میں مطلب یہ تھا کہ ان علوم میں کہ جن کو قرب الی اللہ کی تحصیل میں دخل ہے میرے برابر کوئی نہیں اور یہ فرمانا صحیح تھا اس لئے کہ آپ نبی اولو العزم تھے آپ کے برابر دوسرے کو یہ علم نہیں تھا لیکن ظاہراً لفظ مطلق تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ آپ کو احتیاط فی الکلام کی تعلیم دی جائے غرض ارشاد ہوا کہ ہمارا بندہ مجمع البحرین میں تم سے زیادہ علم رکھتا ہے مطلب یہ تھا کہ بعض علوم میں وہ زیادہ ہے گو ان علوم کو قرب الہی میں دخل نہ ہو جیسا عنقریب واضح ہوگا لیکن اس بناء پر جواب میں مطلقاً تو اپنے کو اعلم کہنا نہ چاہئے تھا غرض موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ملنے کے مشتاق ہوئے اور پوچھا کہ ان تک پہنچنے کی کیا صورت ہے ؟ ارشاد ہوا کہ ایک بےجان مچھلی اپنے ساتھ لے کر سفر کرو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ہے۔- اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع کو ساتھ لیا اور یہ بات فرمائی) پس جب (چلتے چلتے) دونوں دریاؤں کے جمع ہونے کے موقع پر پہنچنے (وہاں کسی پتھر سے لگ کر سو رہے اور وہ مچھلی باذنہ تعالیٰ زندہ ہو کر دریا میں جا پڑی یوشع (علیہ السلام) نے بیدار ہو کر مچھلی کو نہ پایا ارادہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جاگیں گے تو اس کا ذکر کروں گا مگر ان کو مطلق یاد نہ رہا شاید اہل و عیال اور وطن وغیرہ کے خیالات کا ہجوم ہوا ہوگا جو ذکر کرنا بھول گئے ورنہ ایسی عجیب بات کا بھول جانا کم ہوتا ہے لیکن جو شخص ہر وقت معجزات دیکھتا رہتا ہو اس کے ذہن سے کسی ادنیٰ درجی کہ عجیب بات کا نکل جانا کسی خیال کے غلبہ سے عجب نہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی پوچھنے کا خیال نہ رہا، اس طرح سے) اس اپنی مچھلی کو دونوں بھول گئے اور مچھلی نے (اس کے قبل زندہ ہو کر) دریا میں اپنی راہ لی اور چل دی پھر جب دونوں (وہاں سے) آگے بڑھ گئے (اور دور نکل گئے) تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ ہمارا ناشتہ تو لاؤ ہم کو تو اس سفر (یعنی آج کی منزل) میں بڑی تکلیف پہنچی (اور اس کے قبل کی منزلوں میں نہیں تھکے تھے جس کی وجہ ظاہراً موقع مقصود سے آگے بڑھ آنا تھا) خادم نے کہا کہ لیجئے دیکھئے (عجیب بات ہوئی) جب ہم اس پتھر کے قریب ٹھہرے تھے (اور سوگئے تھے اس وقت اس مچھلی کا ایک قصہ ہوا اور میرا ارادہ آپ سے ذکر کرنے کا ہوا لیکن میں کسی دوسرے دھیان میں لگ گیا) سو میں اس مچھلی (کے تذکرہ) کو بھول گیا اور مجھ کو شیطان ہی نے بھلا دیا کہ میں اس کو ذکر کرتا اور (وہ قصہ یہ ہوا کہ) اس مچھلی نے (زندہ ہونے کے بعد) دریا میں عجیب طور پر اپنی راہ لی (ایک عجیب طور پر تو خود زندہ ہوجانا ہے دوسرا عجیب طور یہ کہ وہ مچھلی دریا میں جہاں کو گذری تھی وہاں کا پانی بطور خرق عادت کے اسی طرح سرنگ کے طور پر ہوگیا تھا غالباً پھر مل گیا ہوگا) موسیٰ (علیہ السلام) نے (یہ حکایت سن کر) فرمایا کہ یہ ہی وہ موقع ہے جس کی ہم کو تلاش تھی (وہاں ہی لوٹنا چاہئے) سو دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے الٹے لوٹے (غالباً وہ راستہ سڑک کا نہ ہوگا اس لئے نشان دیکھنے پڑھے) سو (وہاں پہنچ کر) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (یعنی خضر) کو پایا جن کو ہم نے اپنی خاص رحمت (یعنی مقبولیت) دی تھی (مقبولیت کے معنی میں ولایت اور نبوت دونوں کا احتمال ہے) اور ہم نے ان کو اپنے پاس سے (یعنی بلا واسطہ اسباب اکتساب) ایک خاص طور پر علم سکھلایا تھا (مراد اس سے علم اسرار کونیہ ہے جیسا واقعات آئندہ سے معلوم ہوگا اور اس علم کو حصول قرب الہی میں کچھ دخل نہیں جس علم کو قرب میں دخل ہے وہ علم اسرار الہیہ ہے جس میں موسیٰ (علیہ السلام) بڑھے ہوئے تھے غرض) موسیٰ (علیہ السلام) نے (ان کو سلام کیا اور ان سے) فرمایا کہ میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں (یعنی آپ مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دیجئے) اس شرط سے کہ جو علم مفید آپ کو (من جانب اللہ) سکھلایا گیا ہے اس میں سے آپ مجھ کو بھی سکھلا دیں ان بزرگ نے جواب دیا آپ سے میرے ساتھ رہ کر (میرے افعال پر) صبر نہ ہو سکے گا (یعنی آپ مجھ پر روک ٹوک کریں گے اور معلم پر تعلیم کے متعلق متعلم کی روک ٹوک کرنے سے مصاحبت مشکل ہے) اور (بھلا) ایسے امور پر (روک ٹوک کرنے سے) آپ کیسے صبر کریں گے جو آپ کے احاطہ واقفیت سے باہر ہیں (یعنی ظاہر میں وہ امور بوجہ منشاء معلوم نہ ہونے کے خلاف شرع نظر آئیں گے اور آپ خلاف شرع امور پر سکوت نہ کرسکیں گے) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (نہیں) انشاء اللہ آپ مجھ کو صابر (یعنی ضابط) پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کے خلاف حکم نہ کروں گا (یعنی مثلا اگر روک ٹوک سے منع کردیں گے میں روک ٹوک نہ کروں گا اسی طرح اور کسی بات میں بھی خلاف نہ کروں گا) ان بزرگ نے فرمایا کہ (اچھا) تو اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو (اتنا خیال رہے کہ) مجھ سے کسی بات کی نسبت کچھ پوچھنا نہیں جب تک کہ اس کے متعلق میں خود ہی ابتداً ذکر نہ کر دوں۔- معارف و مسائل :- (آیت) وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ اس واقعہ میں موسیٰ سے مراد مشہور پیغمبر موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) ہیں نوف بکالی نے جو دوسرے کسی موسیٰ کی طرف اس واقعہ کو منسوب کیا ہے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی طرف سے اس پر سخت رد منقول ہے۔- اور فتی کے لفظی معنی نوجوان کے ہیں جب یہ لفظ کسی خاص شخص کی طرف منسوب کرکے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا خادم مراد ہوتا ہے کیونکہ خدمت گار اکثر قوی جوان دیکھ کر رکھا جاتا ہے جو ہر کام انجام دے سکے اور نوکر و خادم کو جوان کے نام سے پکارنا اسلام کا حسن ادب ہے کہ نوکروں کو بھی غلام یا نوکر کہہ کر خطاب نہ کرو بلکہ اچھے لقب سے پکارو اس جگہ فتی کی نسبت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف ہے اس لئے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم اور روایات حدیث میں ہے کہ یہ خادم یوشع بن نون ابن افرائیم بن یوسف (علیہ السلام) تھے بعض روایات میں ہے کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بھانجے تھے مگر اس میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا صحیح روایات سے ان کا نام یوشع بن نون ہونا تو ثابت ہے باقی اوصاف و حالات کا ثبوت نہیں (قرطبی)- مجمع البحرین کے لفظی معنی ہر وہ جگہ ہے جہان دو دریا ملتے ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ ایسے مواقع دنیا میں بیشمار ہیں اس جگہ مجمع البحرین سے کونسی جگہ مراد ہے چونکہ قرآن و حدیث میں اس کو معین طور پر نہیں بتلایا اس لئے آثار و قرائن کے اعتبار سے مفسرین کے اقوال اس میں مختلف ہیں قتادہ نے فرمایا کہ بحر فارس و روم کے ملنے کی جگہ مراد ہے ابن عطیہ نے آذر بائیجان کے قریب ایک جگہ کو کہا ہے بعض نے بحر اردن اور بحر قلزم کے ملنے کی جگہ بتلائی ہے بعض نے کہا یہ مقام طنجہ میں واقع ہے ابی بن کعب (رض) سے منقول ہے کہ یہ افریقہ میں ہے سدی نے آرمینیہ میں بتلایا ہے بعض نے بحر اندلس جہاں بحر محیط سے ملتا ہے وہ موقع بتلایا ہے واللہ اعلم۔- بہرحال اتنی بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ مقام معین کرکے بتلا دیا تھا جس کی طرف ان کا سفر واقع ہوا ہے۔ (قرطبی)- قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) :- اس واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری و مسلم میں بروایت حضرت ابی بن کعب اس طرح آئی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے آپ سے یہ سوال کیا کہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں اپنے سے زیادہ علم والا کوئی تھا نہیں اس لئے) فرمایا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں (اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بارگاہ انبیاء (علیہم السلام) کو خاص تربیت دیتے ہیں اس لئے یہ بات پسند نہ آئی بلکہ ادب کا مقتضی یہ تھا کہ اس کو اللہ کے علم کے حوالے کرتے یعنی یہ کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ ساری مخلوق میں اعلم کون ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہوا موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی آئی کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین پر ہے وہ آپ سے زیادہ اعلم ہے ( موسیٰ (علیہ السلام) کو جب یہ معلوم ہوا تو اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ جب وہ مجھ سے زیادہ اعلم ہیں تو مجھے ان سے استفادہ کے لئے سفر کرنا چاہئے) اس لئے عرض کیا یا اللہ مجھے ان کا پتہ نشان بتلا دیا جائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف سفر کرو جس جگہ پہنچ کر یہ مچھلی گم ہوجائے پس وہی جگہ ہمارے اس بندے کے ملنے کی ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی اور چل دیئے۔- ان کے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون بھی تھے دوران سفر ایک پتھر کے پاس پہنچ کر اس پر سر رکھ کر لیٹ گئے یہاں اچانک یہ مچھلی حرکت میں آگئی اور زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی اور (مچھلی کے زندہ ہو کر دریا میں چلے جانے کے ساتھ ایک دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ) جس راستہ سے مچھلی دریا میں گئی اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کا جریان روک دیا اور اس جگہ پانی کے اندر ایک سرنگ جیسی ہوگئی (یوشع بن نون اس عجیب واقعہ کو دیکھ رہے تھے موسیٰ (علیہ السلام) سو گئے تھے) جب بیدار ہوئے تو یوشع بن نون مچھلی کا یہ عجیب معاملہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلانا بھول گئے اور اس جگہ سے پھر روانہ ہوگئے پورے ایک دن ایک رات کا مزید سفر کیا جب دوسرے روز کی صبح ہوگئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رفیق سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ کیونکہ اس سفر سے کافی تھکان ہوچکا ہے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ (بقضائے الہی) موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سے پہلے تھکان بھی محسوس نہیں ہوا یہاں تک کہ جس جگہ پہنچنا تھا اس سے آگے نکل آئے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ناشتہ طلب کیا تو یوشع بن نون کو مچھلی کا واقعہ یاد آیا اور اپنے بھول جانے کا عذر کیا کہ شیطان نے مجھے بھلا دیا تھا کہ اس وقت آپ کو اس واقعہ کی اطلاع نہ کی اور پھر بتلایا کہ وہ مردہ مچھلی تو زندہ ہو کر دریا میں ایک عجیب طریقہ سے چلی گئی اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہی تو ہمارا مقصد تھا (یعنی منزل مقصود وہی تھی جہاں مچھلی زندہ ہو کر گم ہوجائے)- چنانچہ اسی وقت روانہ ہوگئے اور ٹھیک اسی راستہ سے لوٹے جس پر پہلے چلے تھے تاکہ وہ جگہ مل جائے اب جو یہاں اس پتھر کے پاس پہنچنے تو دیکھا کہ اس پتھر کے پاس ایک شخص سر سے پاؤں تک چادر تانے ہوئے لیٹا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے (اسی حال میں) سلام کیا تو خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ اس (غیر آباد) جنگل میں سلام کہاں سے آگیا اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے سوال کیا کہ موسیٰ بنی اسرائیل ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں موسیٰ بنی اسرائیل ہوں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ خاص علم سکھلا دیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے۔- خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے اے موسیٰ میرے پاس ایک علم ہے جو اللہ نے مجھے دیا ہے وہ آپ کے پاس نہیں اور ایک علم آپ کو دیا ہے جو میں نہیں جانتا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی کام میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا۔- حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر آپ میرے ساتھ چلنے ہی کو تیار ہیں تو کسی معاملہ کے متعلق مجھ سے کچھ پوچھنا نہیں جب تک کہ میں خود آپ کو اس کی حقیقت نہ بتلاؤں۔- یہ کہہ کر دونوں حضرات دریا کے کنارے کنارے چلنے لگے اتفاقاً ایک کشتی آگئی تو کشتی والوں سے کشتی پر سوار ہونے کی بات چیت کی ان لوگوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو پہچان لیا اور ان سب لوگوں کو بغیر کسی کرایہ اور اجرت کے کشتی میں سوار کرلیا کشتی میں سوار ہوتے ہی خضر (علیہ السلام) نے ایک کلہاڑی کے ذریعہ کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) (سے نہ رہا گیا) کہنے لگے کہ ان لوگوں نے بغیر کسی معاوضہ کے ہمیں کشتی میں سوار کرلیا آپ نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ ان کی کشتی توڑ ڈالی کہ یہ سب غرق ہوجائیں یہ تو آپ نے بہت برا کام کیا۔- خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے عذر کیا کہ میں اپنا وعدہ بھول گیا تھا اس بھول پر آپ سخت گیری نہ کریں - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ واقعہ نقل کرکے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا اعتراض خضر (علیہ السلام) پر بھول سے ہوا تھا اور دوسرا بطور شرط کے ایک تیسرا قصداً (اسی اثناء میں) ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر اس نے دریا میں سے ایک چونچ بھر پانی لیا خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب کرکے کہا کہ میرا علم اور آپ کا علم دونوں مل کر بھی اللہ کے علم کے مقابلہ میں اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے جتنی اس چڑیا کی چونچ کے پانی کو اس سمندر کے ساتھ ہے۔- پھر کشتی سے اتر کر دریا کے ساحل پر چلنے لگے اچانک خضر (علیہ السلام) نے ایک لڑکے کو دیکھا کہ دوسرے لڑکوں میں کھیل رہا ہے خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس لڑکے کا سر اس کے بدن سے الگ کردیا لڑکا مر گیا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ نے ایک معصوم جان کو بغیر کسی جرم کے قتل کردیا یہ تو آپ نے بڑا ہی گناہ کیا خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا میں نے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے موسیٰ نے دیکھا کہ یہ معاملہ پہلے معاملہ سے زیادہ سخت ہے اس لئے کہا کہ اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو آپ مجھے اپنے ساتھ سے الگ کر دیجئے آپ میری طرف سے عذر کی حد پر پہنچ چکے ہیں۔- اس کے بعد پھر چلنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک گاؤں پر گذر ہوا انہوں نے گاؤں والوں سے درخواست کی کہ ہمیں اپنے یہاں مہمان رکھ لیجئے انہوں نے انکار کردیا اس بستی میں ان لوگوں نے ایک دیوار کو دیکھا کہ گرا چاہتی ہے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کھڑا کردیا موسیٰ (علیہ السلام) نے تعجب سے کہا کہ ہم نے ان لوگوں سے مہمانی چاہی تو انہوں نے انکار کردیا آپ نے اتنا بڑا کام کردیا اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت ان سے لے سکتے تھے خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ (آیت) ھٰذَا فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ (یعنی اب شرط پوری ہوچکی اس لئے ہماری اور آپ کی مفارقت کا وقت آگیا ہے) - اس کے بعد خضر (علیہ السلام) نے تینوں واقعات کی حقیقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلا کر کہا (آیت) ذٰلِكَ تَاْوِيْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا یعنی یہ ہے حقیقت ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہیں ہوسکا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ پورا واقعہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ جی چاہتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور کچھ صبر کرلیتے تو ان دونوں کی اور کچھ خبریں معلوم ہوجاتیں (انتہی)- صحیح بخاری و مسلم میں یہ طویل حدیث اس طرح آئی ہے جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا موسیٰ بنی اسرائیل اور نوجوان ساتھی کا نام یوشع بن نون ہونا اور جس بندے کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) کو مجمع البحرین کی طرف بھیجا گیا تھا ان کا نام خضر ہونا تصریحاً مذکور ہے آگے آیات قرآن کے ساتھ ان کے مفہوم اور تفسیر کو دیکھئے۔- سفر کے بعض آداب اور پیغمبرانہ عزم کا ایک نمونہ :- (آیت) لَآ اَبْرَحُ حَتّٰى اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا یہ جملہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رفیق سفر یوشع بن نون سے کہا جس کا مطلب اپنے سفر کا رخ اور منزل مقصود رفیق کو بتانا تھا اس میں بھی حسن ادب ہے کہ سفر کی ضروری باتوں سے اپنے رفیق اور خادم کو بھی باخبر کردینا چاہئے متکبر لوگ اپنے خادموں اور نوکروں کو نہ قابل خطاب سمجھتے ہیں نہ اپنے سفر کے متعلق ان کو کچھ بتاتے ہیں۔- حُقُبًا۔۔ حقبہ کی جمع ہے اہل لغت نے کہا کہ حقبہ اسی سال کی مدت ہے بعض نے اس سے زیادہ کو حقبہ قرار دیا صحیح یہ ہے کہ زمانہ دراز کو کہا جاتا ہے تحدید و تعیین کچھ نہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رفیق کو یہ بتلا دیا کہ مجھے مجمع البحرین کی اس جگہ پر پہنچنا ہے جہاں کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا ہے اور عزم یہ ہے کہ کتنا ہی زمانہ سفر میں گذر جائے جب تک اس منزل مقصود پر نہ پہنچوں سفر جاری رہے گا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں پیغمبرانہ عزم ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىہُ لَآ اَبْرَحُ حَتّٰٓي اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا۝ ٦٠- فتی - الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة .- قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30]- ( ف ت ی ) الفتیٰ- کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے :- تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے - بَرِحَ- وما بَرِحَ : ثبت في البراح، ومنه قوله عزّ وجلّ : لا أَبْرَحُ [ الكهف 60] ، وخصّ بالإثبات، کقولهم : لا أزال، لأنّ برح وزال اقتضیا معنی النفي، و «لا» للنفي، والنفیان يحصل من اجتماعهما إثبات، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه 91] - ( ب ر ح) البرح - ابرح ہے یہ لا ازال کی طرح معنی مثبت کے ساتھ مخصوص ہے ۔ کیونکہ برح اور زال میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، لا ، ، بھی نفی کے لئے ہوتا ہے اور نفی پر نفی آنے سے اثبات حاصل ہوجاتا ہے ایس بناء پر فرمایا : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه 91] - بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - مضی - المُضِيُّ والمَضَاءُ : النّفاذ، ويقال ذلک في الأعيان والأحداث . قال تعالی: وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ- [ الزخرف 8] ، فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال 38] .- ( م ض ی ) المضی - والمضاء کسی چیز کا گذر جانا اور چلے جانا یہ اعیان واحد اث دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف 8] اور اگلے لوگوں کی مثال گذر گئی ۔ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال 38] رو اگلے لوگوں کی سنت گذر چکی ہے ( وہی ان کے حق میں برقی جائے گی ۔- حقب - قوله تعالی: لابِثِينَ فِيها أَحْقاباً [ النبأ 23] ، قيل : جمع الحُقُب، أي : الدهر «3» .- قيل : والحِقْبَة ثمانون عاما، وجمعها حِقَب، والصحیح أنّ الحقبة مدّة من الزمان مبهمة، والاحتقاب : شدّ الحقیبة من خلف الراکب، وقیل : احتقبه واستحقبه، وحَقِبَ البعیر «4» : تعسّر عليه البول لوقوع حقبه في ثيله «5» ، والأحقب :- من حمر الوحش، وقیل : هو الدقیق الحقوین، وقیل : هو الأبيض الحقوین، والأنثی حقباء .- ( ح ق ب )- قرآن میں ہے :۔ لابِثِينَ فِيها أَحْقاباً [ النبأ 23] اس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے ۔ بعض نے کہا ہے کہ احقاب کا واحد حقب ہی جس کے معنی زمانہ کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقبۃ کا لفظ اسی سال کی مدت پر بولا جاتا ہے اس کی جمع حقب آتی ہے ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ مدت غیر معینہ پر بولا جاتا ہے ۔ الاحتقاب ( افتعال ) سوار کا اپنے پیچھے حقبیہ یعنی سامان سفر کا تھیلا باندھنا چناچہ کہا جاتا ہے ۔ احتقیہ واستحقۃ اس نے اسے پلان کے پیچھے باندھ لیا ۔ حقب البعیر شتر کے غلاف نرہ میں اس کے تنگ کے داخل ہونے کی وجہ سے پیشاب کا رک جانا یا تکلیف سے آنا ۔ الاحقب سرخ رنگ کا گورخر بعض نے کہا ہے کہ احقب اس گورخر کو کہتے ہیں جس کے دونوں پہلو باریک ہوں اور بعض نے کہا ہے کہ سفید پہلوؤں والے گور خر کو کہاجاتا ہے اس کا مونث حقباء ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٠ تا ٨٢) اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرماتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات آئی کہ روئے زمین پر میرے سے بڑا کوئی عالم نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) آپ سے بڑھ کر عابد اور عالم میرا ایک بندہ خضر (علیہ السلام) موجود ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا پروردگار میری ان سے ملاقات کروائیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک نمکین مچھلی اپنے زاد راہ کے طور پر لے کر سمندر کے کنارہ پر چل دو ، ایک چٹان کے پاس جہاں عین حیات ہے اس مقام پر جاکر مچھلی زندہ ہوجائے گی اور وہیں تمہیں خضر (علیہ السلام) ملیں گے، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ وقت یاد کرو جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع بن نون سے فرمایا یہ بنی اسرائیل کے شرفاء میں سے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت اور ان کی اتباع کیا کرتے تھے کہ میں مسلسل چلتا جاؤں گا یہاں تک کہ اس جگہ پر پہنچ جاؤں گا جہاں دو دریا شیریں اور نمکین، بحر فارس اور روم آپس میں ملتے ہیں، چناچہ جب چلتے چلتے دونوں دریاؤں کے جمع ہونے کے جگہ پر پہنچے اور کسی پتھر کے ساتھ لگ کر سو گئے اور اٹھنے کے بعد اس اپنی مچھلی کو دونوں بھول گئے مچھلی نے دریا میں اپنی ایک لکیر کی طرح راہ لی اور چل دی پھر جب دونوں اس پتھر سے آگے بڑھ گئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شاجردہ یعنی یوشع بن نون سے فرمایا ہمارا نانشتہ لاؤ ہمیں تو اس سفر میں بڑی تکلیف اور تھکان ہوئی ہے یوشع بن نون نے کہا موسیٰ (علیہ السلام) لیجیے دیکھیے جب ہم اس پتھر کے قریب ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا عجیب واقعہ ذکر کرنا ہی آپ سے بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے بھلا دیا مچھلی نے تو اس مقام پر دریا میں عجیب راہ لی۔- موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس موقع کی تو ہمیں تلاش تھی کیوں کہ خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کی اللہ کی طرف سے یہی نشانی بیان کی گئی تھی، سو دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے اور واپس ہوئے اور اس پتھر کے پاس خضر (علیہ السلام) کو پایا جن کو ہم نے نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا تھا اور ان کو علم اسرار کونیہ عطا کیا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) سے فرمایا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ جو علم مفید آپ کو اللہ کی جانب سے سکھلایا گیا ہے اس میں سے آپ مجھ کو بھی سکھلا دیں۔- انھوں نے جواب دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) آپ سے میرے ساتھ رہ کر میرے افعال پر صبر نہیں ہو سکے گا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں صبر کروں گا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) آپ بھلا ایسے امور پر صبر کریں گے جو آپ کے احاطہ علم سے باہر ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا انشاء اللہ آپ سے جو افعال ظہور پذیر ہوں گے آپ مجھے ان پر صابر پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کے حکم سے اختلاف نہیں کروں گا۔- خضر (علیہ السلام) نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی بات کی نسبت کچھ سوال نہ کرنا جب تک کہ میں اس کے متعلق خود ہی آپ سے ذکر نہ کروں، غرض کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) دونوں ایک طرف چل دیے، جب عبر کے قریب دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو خضر (علیہ السلام) نے کشتی کا ایک تختہ نکال دیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے فرمایا کشتی والوں کو غرق کرنے کے لیے ایسا کیا ہے یہ قوم کو بہت ہی مشکل میں ڈال دیا ہے، خضر (علیہ السلام) نے فرمایا، موسیٰ (علیہ السلام) کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ سے صبر نہ ہوسکے گا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ کے قول وقرار میں جو مجھ سے بھول چوک ہو اس پر گرفت نہ کیجیے اور نہ میرے معاملہ میں زیادہ سختی کیجیے، پھر دونوں کشتی سے اتر کر آگے چلے دو بستیوں کے درمیان ایک کمسن لڑکا ملا، خضر (علیہ السلام) نے اس کو مار ڈالا، موسیٰ (علیہ السلام) گھبرا کر کہنے لگے کہ آپ نے ایک بےگناہ معصوم بچے کو مار ڈالا اور وہ بھی کسی جان کے بدلے نہیں بیشک آپ نے یہ تو بڑی بےجا حرکت کی۔- حضر (علیہ السلام) نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ سے میری باتیں دیکھ کر صبر نہ ہو سکے گا۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اگر اس مرتبہ کے بعد میں آپ پر کسی بات کے متعلق دریافت کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے کیوں کہ اس کے بارے میں آپ میری طرف سے عذر کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، پھر دونوں آگے چلے، یہاں تک کہ جب انطاکیہ شہر پر سے گزر ہوا تو وہاں کے رہنے والوں سے کھانے کو مانگا، سو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کردیا، اتنے میں ان کو ایک جھکی ہوئی دیوار ملی جو گرنے والی تھی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کو سیدھا کردیا،- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بولے خضر (علیہ السلام) اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے کہ اس کا کھانا لے کر کھالیتے۔- حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا یہ وقت ہماری اور آپ کی علیحدگی کا ہے، باقی میں ان چیزوں کی حقیقت بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔- وہ کشتی جس کا میں نے تختہ نکالا تھا وہ چند غریب آدمیوں کی تھی کہ وہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو کرایہ پر دریا سے پار کرتے تھے سو میں نے اس لیے عیب ڈالا کیوں کہ ان کے آگے ظالم جلندی نامی بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا اور رہا وہ لڑکا اس کے والدین ایماندار اور اس بستی کے شرفاء میں سے تھے اور آپ کے پروردگار کو معلوم تھا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی وکفر اور جھوٹی قسموں سے اپنے والدین کو بڑے ہو کر تکلیف پہنچائے گا اس بنا پر میں نے اس کو مار ڈالا۔- سو ہمیں یہ منظور ہوا کہ بجائے اس کے ان کا پروردگار ان کو ایسی اولاد دے جو اس سے زیادہ نیکوکار اور زیادہ صلہ رحمی کرنے والی ہو۔- چناچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان والدین کو لڑکی عطا کی اور پھر اس لڑکی سے انبیاء کرام میں سے ایک نبی نے شادی فرمائی اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بنی پیدا فرمایا جس کے ذریعے سے بہت لوگوں کو ہدایت فرمائی، اور اس لڑکے کا نام جیسود تھا اور یہ کافر اور بڑا ڈاکو تھا اس واسطے خضر (علیہ السلام) نے بحکم خداوندی اس کو قتل کیا۔- اور جہاں تک دیوار کا تعلق ہے تو وہ احرم، صریم دو یتیم لڑکوں کی تھی جو انطاکیہ شہر میں رہتے تھے اس دیوار کے نیچے ایک سونے کی تختی تھی جس میں علم اور حکمت کی باتیں مکتوب تھیں اور اس میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی، بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ تعجب ہے ایسے شخص پر جو موت کے یقین کے بعد پھر کیسے خوش رہتا ہے اور تعجب ہے۔ ایسے شخص پر جو تقدیر پر یقین رکھنے کے بعد کی سے غمگین رہتا ہے اور تعجب کے قابل ہے وہ شخص جو دنیا کے زوال اور دنیا والوں کے تبدل احوال پر یقین کرتے ہوئے پھر کیسے اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کا باپ کاشح ایک امانت دار آدمی تھا سو آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں بالغ ہو کر اپنی اس تختی کو نکال لیں اور آپ کے پروردگار کی وحی کے مطابق میں نے ایسا کیا ہے اور ان میں سے کوئی کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا یہ حقیقت ہے ان باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

ان دو رکوعوں میں حضرت موسیٰ کے ایک سفر کا ذکر ہے۔ اس واقعہ کا ذکر احادیث میں بھی ملتا ہے اور قدیم اسرائیلی روایات میں بھی جن میں سے بہت سی روایات قرآن کے بیان سے مطابقت بھی رکھتی ہیں۔ بہرحال ان روایات سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ آپ فلاں جگہ جائیں وہاں پر آپ کو ہمارا ایک صاحب علم بندہ ملے گا آپ کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہ کر اس کے علم سے استفادہ کریں۔ ممکن ہے یہ حضرت موسیٰ کی نبوت کا ابتدائی زمانہ ہو اور اس طریقے سے آپ کی تربیت مقصود ہو جس طرح بعض روایات سے ثابت ہے کہ حضور کی تربیت کے لیے ایک فرشتہ تین سال تک مسلسل آپ کے ساتھ رہا۔ - اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس بندے کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں قطعی معلومات دستیاب نہیں۔ اس ضمن میں ایک رائے تو یہ ہے کہ وہ ایک فرشتہ تھے جبکہ ایک دوسری رائے کے مطابق وہ انسان ہی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت لمبی عمر دے رکھی ہے۔ یعنی جیسے جنوں میں سے ابلیس کو اللہ تعالیٰ نے طویل عمر عطا کر رکھی ہے ایسے ہی اس نے انسانوں میں سے اپنے ایک نیک اور برگزیدہ بندے کو بھی بہت طویل عمر سے نوازا ہے اور ان کا نام حضرت خضر ہے۔ (واللہ اعلم ) - روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو کسی وقت یہ خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید مجھے روئے زمین کے تمام انسانوں سے بڑ ھ کر علم عطا فرمایا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ (وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ) آپ کو ہدایت فرمائی کہ آپ فلاں جگہ ہمارے ایک بندۂ خاص سے ملاقات کریں اور کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہ کر اس سے علم و حکمت سیکھیں۔ اس حکم کی تعمیل میں آپ اپنے نوجوان ساتھی حضرت یوشع بن نون کو ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوگئے۔- آیت ٦٠ (وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ لَآ اَبْرَحُ حَتّٰى اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا)- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو بتایا گیا تھا کہ وہ شخص مجمع البحرین (دو دریاؤں کے سنگم) پر ملے گا۔ مجمع البحرین کے اس مقام کے بارے میں بھی مفسرین کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ بحیرۂ احمر ( ) کے شمالی کونے سے نکلنے والی دو کھاڑیوں (خلیج سویز اور خلیج عقبہ) کے مقام اتصال کو مجمع البحرین کہا گیا ہے ‘ جبکہ ایک دوسری رائے کے مطابق (اور یہ رائے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے) یہ مقام دریائے نیل پر واقع ہے۔ دریائے نیل دو دریاؤں یعنی النیل الازرق اور النیل الابیض سے مل کر بنا ہے۔ یہ دونوں دریا سوڈان کی طرف سے مصر میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک دریا کے پانی کا رنگ نیلا ہے جبکہ دوسرے کا سفید ہے ( پاکستان میں بھی اٹک کے مقام پر دریائے سندھ کے صاف پانی اور دریائے کابل کے گدلے پانی کا ملاپ ایسا ہی منظر پیش کرتا ہے) ۔ چناچہ اس رائے کے مطابق جس مقام پر یہ دونوں دریا مل کر ایک دریا (مصر کے دریائے نیل) کی شکل اختیار کرتے ہیں اس مقام کو مجمع البحرین کہا گیا ہے اور یہ مقام خرطوم کی سرحد کے آس پاس ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :57 اس مرحلے پر یہ قصہ سنانے سے مقصود کفار اور مومنین دونوں کو ایک اہم حقیقت پر متنبہ کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ظاہر بین نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ ہوتے دیکھتی ہے اس سے بالکل غلط نتائج اخذ کر لیتی ہے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی وہ مصلحتیں نہیں ہوتیں جنہیں ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے ۔ ظالموں کا پھلنا پھولنا اور بے گناہوں کا تکلیفوں میں مبتلا ہونا ۔ نافرمانوں پر انعامات کی بارش اور فرمانبرداروں پر مصائب کا ہجوم ، بدکاروں کا عیش اور نیکو کاروں کی خستہ حالی ، یہ وہ مناظر ہیں جو آئے دن انسانوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، اور محض اس لیے کہ لوگ ان کے کنَہ کو نہیں سمجھتے ، ان سے عام طور پر ذہنوں میں الجھنیں ، بلکہ غلط فہمیاں تک پیدا ہو جاتی ہیں ۔ کافر اور ظالم ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے ، کوئی اس کا راجہ نہیں ، اور ہے تو چوپٹ ہے ۔ یہاں جن کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات سخت آزمائشوں کے مواقع پر ان کے ایمان تک متزلزل ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کار خانہ مشیت کا پردہ اٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہاں شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے کیسے اور کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے ۔ حضرت موسیٰ کو یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا ؟ اس کی کوئی تصریح قرآن نے نہیں کی ہے ۔ حدیث میں عوفی کی ایک روایت ہمیں ضرور ملتی ہے جس میں وہ ابن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے مصر میں اپنی قوم کو آباد کیا تھا ۔ لیکن ابن عباس سے جو قوی تر روایات بخاری اور دوسری کتب حدیث میں منقول ہیں وہ اس بیان کی تائید نہیں کرتیں ، اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ کبھی مصر میں رہے تھے ۔ بلکہ قرآن اس کی تصریح کرتا ہے کہ مصر سے خروج کے بعد ان کا سارا زمانہ سینا اور تَیہ میں گزرا ۔ اس لیے یہ روایت تو قابل قبول نہیں ہے ۔ البتہ جب ہم خود اس قصے کی تفصیلات پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مشاہدات حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی نبوت کے ابتدائی دور میں کرائے گئے ہوں گے ، کیونکہ آغاز نبوت ہی میں انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی تعلیم و تربیت درکار ہوا کرتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان مشاہدات کی ضرورت اس زمانے میں پیش آئی ہوگی جبکہ بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آ رہا تھا جن سے مسلمان مکہ معظمہ میں دو چار تھے ۔ ان دو وجوہ سے ہمارا قیاس یہ ہے ( والعلم عند اللہ ) کہ اس واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جبکہ مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا اور سرداران قریش کی طرح فرعون اور اس کے درباری بھی عذاب میں تاخیر دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اوپر کوئی نہیں ہے جو اس سے باز پرس کرنے والا ہو ، اور مکے کے مظلوم مسلمانوں کی طرح مصر کے مظلوم مسلمان بھی بے چین ہو ہو کر پوچھ رہے تھے کہ خدایا ان ظالموں پر انعامات کی اور ہم پر مصائب کی یہ بارش کب تک ؟ حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ یہ پکار اٹھے تھے کہ رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَونَ وَ مَلَاَہ زِیْنَۃً وَّ اَمْوَالاً فِی الْحَیٰوۃِ الدُّ نْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ اے پروردگار ، تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں بڑی شان و شوکت اور مال و دولت دے رکھی ہے ، اے پروردگار ، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ دنیا کو تیرے راستے سے بھٹکا دیں ؟ ( تفہیم القرآن ، ج 2 ص 308 ) ۔ اگر ہمارا یہ قیاس درست ہو تو پھر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالباً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریائے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرالابیض اور البحر الْاَزْرَق آ کر ملتی ہیں ( ملاحظہ ہو نقشہ نمبر 1 صفحہ 34 ) حضرت موسیٰ نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے ان میں اس ایک مقام کے سوا اور کوئی مجمع البحرین نہیں پایا جاتا ۔ بائیبل اس واقعے کے باب میں بالکل خاموش ہے ۔ البتہ تَلْمُود میں اس کا ذکر موجود ہے ، مگر وہ اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بجائے ربی یہوحا نان بن لادی کی طرف منسوب کرتی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس کے ساتھ پیش آیا تھا جو دنیا سے زندہ اٹھائے جانے کے بعد فرشتوں میں شامل کر لیے گئے ہیں اور دنیا کے انتظام پر مامور ہیں ۔ ( . 313 .16 ) ممکن ہے کہ خروج سے پہلے کے بہت سے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے ہاں اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رہا ہو اور صدیوں بعد انہوں نے قصے کی کڑیاں کہیں سے کہیں لے جا کر جوڑ دی ہوں ۔ تلمود کی اسی روایت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ قرآن میں اس مقام پر موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ہیں ۔ لیکن نہ تو تلمود کی ہر روایت لازماً صحیح تاریخ قرار دی جا سکتی ہے ، نہ ہمارے لیے یہ گمان کرنے کی کوئی معقول وجہ ہے کہ قرآن میں کسی اور مجہول الحال موسیٰ کا ذکر اس طریقہ سے کیا گیا ہو گا ، اور پھر جب کہ معتبر احادیث میں حضرت اُبَیّ بن کعب کی یہ روایت موجود ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قصے کی تشریح فرماتے ہوئے موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ پیغمبر بنی اسرائیل کو بتایا ہے تو کسی مسلمان کے لیے تلمود کا بیان لائق التفات نہیں رہتا ۔ مستشرقین مغرب نے اپنے معمول کے مطابق قرآن مجید کے اس قصے کے بھی مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے ، اور تین قصوں پر انگلی رکھ دی ہے کہ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے نقل کر کے یہ قصہ بنا لیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے ۔ ایک داستان گل گامیش ، دوسرے سکندر نامۂسریانی ، اور تیسرے وہ یہودی روایت جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔ لیکن یہ بد طینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں اس میں پہلے اپنی جگہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ قرآن کو بہرحال منزل من اللہ تو نہیں ماننا ہے ، اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے اس میں پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں مقامات سے چرائے ہوئے مضامین اور معلومات ہیں ۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر اور اس تحقیق پر ۔ ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہو جائے اگر کوئی طالب علم ان سے صرف چار باتوں کا جواب طلب کرے : اول یہ کہ آپ کے پاس وہ کیا دلیل ہے جس کی بنا پر آپ دو چار قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے ماخوذ ہے ؟ دوسرے یہ کہ مختلف زبانوں کی جتنی کتابیں آپ لوگوں نے قرآن مجید کے قصوں اور دوسرے بیانات کی ماخذ قرار دی ہیں اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو اچھے خاصے ایک کتب خانے کہ فہرست بن جائے ۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکے میں اس وقت موجود تھا اور مختلف زبانوں کے مترجمین بیٹھے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مواد فراہم کر رہے تھے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کا سارا انحصار ان دو تین سفروں پر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر کیے تھے ، تو سوال یہ ہے کہ آخر ان تجارتی سفروں میں آنحضرت کتنے کتب خانے نقل یا حفظ کر لائے تھے ؟ اور اعلان معقول وجہ ہے ؟ تیسرے یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی ، سب آپ ہی لوگوں کی طرح اس تلاش میں تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آنحضرت کے معاصرین کو اس سرقے کا پتا نہ لگنے کی کیا وجہ ہے ؟ انہیں تو بار بار تحدّی کی جا رہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے ، وحی کے سوا اس کا کوئی ماخذ نہیں ہے ، اگر تم اسے بشر کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے ۔ اس چیلنج نے آنحضرت کے معاصر دشمنان اسلام کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشان دہی نہ کر سکے جس سے قرآن کے ماخوذ ہونے کا کوئی معقول آدمی یقین تو درکنار ، شک ہی کر سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ معاصرین اس سراغ رسانی میں ناکام کیوں ہوئے اور ہزار بارہ سو برس کے بعد آج معاندین کو اس میں کیسے کامیابی نصیب ہو رہی ہے ؟ آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا امکان تو بہرحال ہے نا کہ قرآن منزل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایات سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں ۔ اس امکان کو کس معقول دلیل کی بنا پر بالکل ہی خارج از بحث کر دیا گیا اور کیوں صرف اسی ایک امکان کو بنائے بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہو جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے ؟ کیا مذہبی تعصب اور عناد کے سوا اس ترجیح کی کوئی دوسری وجہ بیان کی جا سکتی ہے ؟ ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے علم کے نام سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ در حقیقت کسی سنجیدہ طالب علم کے لیے قابل التفات نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: یہاں سے آیت نمبر 82 تک اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ واقعہ بیان فرمایا ہے جو حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا۔ حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعے کی تفصیل ایک طویل حدیث میں بیان فرمائی ہے جو صحیح بخاری میں کئی سندوں سے منقول ہے۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کسی نے یہ سوال کیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے؟ چونکہ ہر پیغمبر اپنے وقت میں دین کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں یہی فرما دیا ہے کہ میں ہی سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ ہدایت دی گئی کہ اس سوال کا صحیح جواب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو علم کے کچھ ایسے گوشوں سے روشناس کرائیں جو ان کی واقفیت کے دائرے سے باہر تھے۔ چنانچہ انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس جائیں۔ ان کو پتہ یہ بتایا گیا کہ جہاں دو دریا ملتے ہیں۔ وہاں تک سفر کریں، اور اپنے ساتھ ایک مچھلی لے جائیں۔ ایک موقع ایسا آئے گا کہ وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔ بس اسی جگہ انہیں احضرت خضر (علیہ السلام) مل جائیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے نوجوان شاگرد حضرت یوشع (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر اس سفر پر روانہ ہوئے۔ جو بعد میں خود پیغمبر بننے والے تھے۔ آگے کا واقعہ خود قراان کریم میں آرہا ہے۔ البتہ یہاں اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو یہ سفر کرایا گیا۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ادب سکھانا تھا کہ اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم کہنا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ علم تو ایک ناپید اکنار سمندر ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسا علم کس کے پاس زیادہ ہے۔ اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خود آنکھوں سے اس بات کی ایک جھلک دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور علم سے اس کائنات کا نظام کس طرح چلا رہا ہے۔ اس کائنات میں بہت سے ایسے واقعات روز مرہ انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں جن کا مقصد اس کی سمجھ میں نہیں آتا، حالانکہ کوئی واقعہ تو اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی حکمت کے بغیر نہیں ہوتا۔ انسان کی نظر چونکہ محدود ہے، اس لیے وہ اس حکمت کو بسا اوقات نہیں سمجھتا، لیکن جس قادر مطلق کے ہاتھ میں پوری کائنات کی باگ ڈور ہے، وہی جانتا ہے کہ کس وقت کیا واقعہ پیش آنا چاہئے۔ اس بات کی مزید وضاحت ان شاء اللہ اسی واقعے کے آخر میں آئے گی (دیکھئے ذیل میں حاشیہ نمبر 41)