Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٠] مردہ مچھلی کا زندہ ہو کر دریا میں چھلانگ لگانا اور سمندر میں سوراخ بنانا :۔ جب وہ سنگھم پر پہنچ گئے تو موسیٰ ایک چٹان کے سایہ میں سو گئے اور ان کے خادم سیدنا یوشع بن نون جنہیں بعد میں نبوت بھی عطا ہوئی اور سیدنا موسیٰ کے خلیفہ بھی بنے۔ وہاں بیٹھے رہے۔ اسی دوران مچھلی میں حرکت پیدا ہوئی وہ تڑپی اور دریا میں چھلانگ لگادی پہلے تو سیدنا یوشع کو خیال آیا کہ سیدنا موسیٰ کو جگا کر انھیں مچھلی کے دریا میں جانے کی اطلاع کردوں۔ مگر جب وہ جاگے اور آگے سفر کرنے کو کہا تو یوشع مچھلی کی بات انھیں بتانا بھول گئے نہ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کو خیال آیا کہ وہ اپنی علامتی مچھلی کو دیکھ لیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الْبَحْرِ سَرَبًا : مچھلی پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی، معلوم ہوا وہ مچھلی مردہ تھی، پھر اگر اسے نمک لگا کر خشک نہ کیا جائے تو وہ شدید بدبو دار ہوجاتی ہے اور کیڑوں سے بھر جاتی ہے۔ معلوم ہوا اسے نمک لگا کر خشک کیا گیا تھا۔ اس مردہ مچھلی کا زندہ ہونا معجزہ تھا۔ - 3 پانی کو موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے پہاڑوں کی شکل دینا (شعراء : ٦٣) یا سرنگ کی، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اور معجزۂ ربانی۔ جس طرح پانی کے ایک قطرے (نطفہ) سے احسن تقویم میں انسان کی صورت گری اس خلاق علیم کی قدرت کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خضر (علیہ السلام) سے افضل ہونا موسیٰ (علیہ السلام) کی خاص تربیت اور ان کے معجزے :- (آیت) فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَهٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا قرآن و سنت کی تصریحات سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت میں بھی ایک خاص امتیاز حاصل ہے اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی کا خاص شرف ان کی مخصوص فضیلت ہے اور حضرت خضر (علیہ السلام) کی تو نبوت میں بھی اختلاف ہے اور نبوت کو تسلیم بھی کیا جائے تو مقام رسالت حاصل نہیں نہ ان کی کوئی کتاب ہے نہ کوئی خاص امت اس لئے بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) خضر (علیہ السلام) سے بدرجہا افضل ہیں لیکن حق تعالیٰ اپنے مقربین کی ادنیٰ سی کمی اور کوتاہی کی اصلاح فرماتے ہیں ان کی تربیت کے لئے ادنیٰ سی کوتاہی پر بھی سخت عتاب ہوتا ہے اس کا تدراک بھی ان سے اسی پیمانے پر کرایا جاتا ہے یہ سارا قصہ اسی خاص انداز تربیت کا مظہر ہے ان کی زبان سے یہ کلمہ نکل گیا تھا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں حق تعالیٰ کو یہ پسند نہ آیا تو ان کی تنبیہ کے لئے اپنے ایک ایسے بندے کا ان کو پتہ دیا گیا جن کے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک خاص علم تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس نہیں تھا اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کا علم ان کے علم سے درجہ میں بہت بڑھا ہوا تھا مگر بہرحال وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو حاصل نہ تھا ادھر موسیٰ (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے طلب علم کا ایسا جذبہ عطا فرمایا تھا کہ جب یہ معلوم ہوا کہ کہیں اور بھی علم ہے جو مجھے حاصل نہیں تو اس کے حاصل کرنے کے لئے طالب علمانہ سفر کے لئے تیار ہوگئے اور حق تعالیٰ ہی سے اس بندے (خضر علیہ السلام) کا پتہ پوچھا اب یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو خضر (علیہ السلام) سے موسیٰ (علیہ السلام) کی ملاقات یہیں آسانی سے کرا دیتے یا موسیٰ (علیہ السلام) ہی کو طالب علم بنا کر سفر کرانا تھا تو پتہ صاف بتادیا جاتا جہاں پہنچنے میں پریشانی نہ ہوتی مگر ہوا یہ کہ پتہ ایسا مبہم بتلایا گیا کہ جس جگہ پہنچ کر مری ہوئی مچھلی زندہ ہو کر گم ہوجائے اس جگہ وہ ہمارا بندہ ملے گا۔- صحیح بخاری کی حدیث سے اس مچھلی کے متعلق اتنا ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ ہی کی طرف سے یہ حکم ہوا تھا کہ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لیں اس سے زائد یہ کچھ معلوم نہیں کہ یہ مچھلی کھانے کے لئے ساتھ رکھنے کا حکم ہوا تھا یا کھانے سے علیحدہ دونوں احتمال ہیں اسی لئے سفر کے دونوں ساتھی دوران سفر اس میں سے کھاتے بھی رہے اس کا نصف حصہ کھایا جا چکا تھا اس کے بعد بطور معجزہ یہ بھونی ہوئی اور آدھی کھائی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر دریا میں چلی گئی۔- ابن عطیہ اور بعض دوسرے لوگوں نے یہ بھی بیان کیا کہ یہ مچھلی بطور معجزہ کے پھر دنیا میں باقی بھی رہی اور بہت دیکھنے والوں نے دیکھا بھی کہ اس کی صرف ایک کروٹ ہے اور دوسری کھائی ہوئی ہے ابن عطیہ نے خود بھی اپنا دیکھنا بیان کیا ہے (قرطبی)- اور بعض مفسرین نے کہا کہ ناشتہ کھانے کے علاوہ ایک علیحدہ زنبیل میں مچھلی رکھنے کا حکم ہوا تھا اس کے مطابق رکھ لی گئی تھی اس میں بھی اتنی بات تو متعین ہے کہ مچھلی مردہ تھی زندہ ہو کر دریا میں چلا جانا ایک معجزہ ہی تھا۔- بہرحال حضرت خضر (علیہ السلام) کا پتہ ایسا مبہم دیا گیا کہ آسانی سے جگہ متعین نہ ہو ظاہر یہ ہے کہ یہ بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ابتلا و امتحان ہی تھا اس پر مزید امتحان کی صورت یہ پیدا کی گئی کہ جب عین موقع پر یہ لوگ پہنچ گئے تو مچھلی کو بھول گئے آیت قرآنی میں یہ بھول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے رفیق دونوں کی طرف منسوب کی گئی ہے نَسِيَا حُوْتَهُمَا لیکن حدیث بخاری سے جو قصہ ثابت ہوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت مچھلی کے زندہ ہو کر دریا میں جانے کا وقت آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) سوئے ہوئے تھے صرف یوشع بن نون نے یہ واقعہ عجیبہ دیکھا اور ارادہ کیا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوجائیں تو ان کو بتلاؤں گا مگر بیداری کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر نسیان مسلط کردیا اور بھول گئے تو یہاں دونوں کی طرف بھولنے کی نسبت ایسی ہوگی جیسے قرآن میں يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤ ْلُؤ ُ وَالْمَرْجَان میں دریائے شیریں اور دریائے شور دونوں سے موتی اور مرجان نکلنے کا بیان آیا ہے حالانکہ موتی و مرجان صرف دریائے شور سے نکلتے ہیں مگر محاورات میں تغلیباً ایسا لکھنا ایک عام بات ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس جگہ سے آگے سفر کرنے کے وقت تو مچھلی کو ساتھ لینا دونوں ہی بزرگ بھولے ہوئے تھے اس لئے دونوں کی طرف نسیان منسوب کیا گیا۔- بہرحال یہ ایک دوسری آزمائش تھی کہ منزل مقصود پر پہنچ کر مچھلی کے زندہ ہو کر پانی میں گم ہوجانے سے حقیقت کھل جاتی ہے اور مقام متعین ہوجاتا ہے مگر ابھی اس طالب حق کا کچھ اور بھی امتحان لینا تھا اس لئے دونوں پر بھول مسلط ہوگئی اور پورے ایک دن اور ایک رات کا مزید سفر طے کرنے کے بعد بھوک اور تھکان کا احساس ہوا یہ تیسرا امتحان تھا کیونکہ عادۃً تھکان اور بھوک کا احساس اس سے پہلے ہوجانا چاہئے تھا وہیں مچھلی یاد آجاتی تو اتنی طویل سفر کی مزید تکلیف نہ ہوتی مگر اللہ تعالیٰ کو منظور یہی تھا کہ کچھ اور مشقت اٹھائے اتنا طویل سفر کرنے کے بعد بھوک پیاس کا احساس ہوا اور وہاں مچھلی یاد آئی اور یہ معلوم ہوا کہ ہم منزل مقصود سے بہت آگے آگئے اس لئے پھر اسی نشان قدم پر واپس لوٹے۔- مچھلی کے دریا میں چلے جانے کا ذکر پہلی مرتبہ تو سَرَبًا کے لفظ سے آیا ہے سرب کے معنی سرنگ کے ہیں جو پہاڑوں میں راستہ بنانے کے لئے کھودی جاتی ہے یا شہروں میں زمین دوز راستہ بنانے کے لئے کھودی جاتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ مچھلی جب دریا میں گئی تو جس طرف کو جاتی پانی میں ایک سرنگ سی بنتی چلی گئی کہ اس کے جانے کا راستہ پانی سے کھلا رہا جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہوا دوسری مرتبہ جب یوشع بن نون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اس واقعہ کا ذکر سفر طویل کے بعد کیا وہاں واتَّخَذَ سَبِيْلَهٗ فِي الْبَحْرِڰ عَجَبًا کے الفاظ سے اس واقعہ کو بیان کیا ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پانی کے اندر سرنگ بنتے چلے جانا خود ایک واقعہ عجیبہ، خرق عادت تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِہِمَا نَسِيَا حُوْتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا۝ ٦١- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے - حوت - قال اللہ تعالی: نَسِيا حُوتَهُما[ الكهف 61] ، وقال تعالی: فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ [ الصافات 142] ، وهو السّمک العظیم، إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً- [ الأعراف 163] ، وقیل : حاوتني فلان، أي : راوغني مراوغة الحوت .- ( ح وت ) الحوت - بڑی مچھلی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ نَسِيا حُوتَهُما[ الكهف 61] تو اپنی مچھلی بھول گئے فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ [ الصافات 142] پھر مچھلی نے ان کو نگل لیا ۔ اس کی جمع حیتان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] اس وقت کے ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ اور مچھلی چونکہ رخ بدلتی رہتی ہے اس لئے کہا جاتا ہے حاوتنی فلان اس نے مجھے مچھلی کی طرح ہو کا دیا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- سرب - السَّرَبُ : الذّهاب في حدور، والسَّرَبُ : الْمَكَانُ الْمُنْحَدِرُ ، قال تعالی: فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف 61] ، يقال : سَرَبَ سَرَباً وسُرُوباً «2» ، نحو مرّ مرّا ومرورا، وانْسَرَبَ انْسِرَاباً كذلك، لکن سَرَبَ يقال علی تصوّر الفعل من فاعله، وانْسَرَبَ علی تصوّر الانفعال منه . وسَرَبَ الدّمع : سال، وانْسَرَبَتِ الحَيَّةُ إلى جُحْرِهَا، وسَرَبَ الماء من السّقاء، وماء سَرَبٌ ، وسَرِبٌ: متقطّر من سقائه، والسَّارِبُ : الذّاهب في سَرَبِهِ أيّ طریق کان، قال تعالی: وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد 10] ، والسَّرْبُ : جمع سَارِبٍ ، نحو : رکب وراکب، وتعورف في الإبل حتی قيل : زُعِرَتْ سَرْبُهُ ، أي : إبله . وهو آمن في سِرْبِهِ ، أي : في نفسه، وقیل : في أهله ونسائه، فجعل السِّرْبُ كناية، وقیل : اذهبي فلا أنده سِرْبَكِ «3» ، في الکناية عن الطّلاق، ومعناه : لا أردّ إبلک الذّاهبة في سربها، والسُّرْبَةُ : قطعة من الخیل نحو العشرة إلى العشرین . والْمَسْرَبَةُ : الشّعر المتدلّي من الصّدر، السَّرَابُ : اللامع في المفازة کالماء، وذلک لانسرابه في مرأى العین، وکان السّراب فيما لا حقیقة له کا لشّراب فيما له حقیقة، قال تعالی: كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً [ النور 39] ، وقال تعالی:- وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ فَكانَتْ سَراباً [ النبأ 20]- ( س ر ب ) السرب - ( مصدر ن ) اس کے اصل معنی نشیب کی طرف جانے کے ہیں اور ( اسم کے طور پر ) نشیبی جگہ کو بھی سرب کہہ دیتے ہیں قرآن میں ہے ؛فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف 61] تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنا لیا ۔ سرب ( ن ) سربا و سروبا ( جیسے مر مرا و مرورا ) اور انسرب ( انفعال ) کے ایک ہی معنی آتے ہیں لیکن سرب بالذات فاعل سے فعل صادر ہونے پر بولا جاتا ہے اور انسرب کبھی انفعالی معنی کے لحاظ سے بولا جاتا ہے یعنی وہ فعل جو دوسرے سے متاثر ہوکر کیا جائے ۔ سرب الدمع ( س) آنسو رواں ہونا ۔ انسرب الحیۃ الی حجرھا سانپ کا اپنے بل میں اتر جانا اسی طرح سرب ( س ) الماء من السقاء کے معنی مشکیزے سے پانی ٹپکنا کے ہیں اور وہ پانی جو مشکیزے سے ٹپک رہا ہو اسے ماء سرب و سرب کہتے ہیں ۔ السارب کسی راستہ پر ( اپنی مرضی سے ) چلا جانے والا ۔ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد 10] یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن ( کی روشنی ) میں کھلم کھلا چلے پھرے ۔ سارب کی جمع سرب آتی ہے ۔ جیسے رکب و راکب اور عرف میں اونٹوں کے گلہ کو سرب کہا جاتا ہے ۔ مثلا محاورہ ہے ۔ زعرت سربہ اس کے اونٹ ڈر کر متفرق ہوگئے ( یعنی بد حال ہوگیا ) اور ھو آمن فی سربہ ( وہ خوش حال ہے ) میں سرب کے معنی نفس کے ہیں اور بعض نے کنایتہ اہل و عیال مراد لیا ہے ۔ اسی سے کنایہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ اذهبي فلا أنده سِرْبَكِ : جاؤ تجھے طلاق ہے اور اصل معنی یہ ہے کہ تمہارے اونٹ جدھر جانا چاہیں آزادی سے چلے جائیں میں انہیں نہیں روکونگا ۔ السربۃ : دس سے کے لے کر بیس تک گھوڑوں کی جماعت کو سربۃ ، ، کہا جاتا ہے ۔ المسربۃ ( بضمہ را ) سینہ کے درمیان کے بال جو نیچے پیٹ تک ایک خط کی صورت میں جلے جاتے ہیں ۔ السراب ( شدت گرما میں دوپہر کے وقت ) بیابان میں جو پانی کی طرح چمکتی ہوئی ریت نظر آتی ہے اسے ، ، سراب ، ، کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بظاہر دیکھنے میں ایسے معلوم ہوتی ہے جیسے پانی بہہ رہا ہے پھر اس سے ہر بےحقیقت چیز کو تشبیہ کے طور پر سراب کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل جو چیز حقیقت رکھتی ہوا سے شراب کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً [ النور 39] جیسے میدان میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے ۔ وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ فَكانَتْ سَراباً [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب ہو کر رہ جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بھول ایک کی، اضافت دونوں کی طرف - قول باری ہے (نسیا حوتھما تو دونوں اپنی مچھلی سے غافل ہوگئے) نسیان تو یوشع بن نون کو لاحق ہوا تھا لیکن دونوں کی طرف اس کی اضافت کی گئی ہے اس کی مثال یہ محاورہ ہے ” نسی القوم زادھم “ (پورا گروہ اپنی زاد راہ بھول گیا) حالانکہ بھولنے والا ان میں سے ایک ہوتا ہے جس کے سپرد زاد راہ ہوتی ہے۔ یا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مالک بن الحویرث اور ان کے غمزاد کو حکم دیا تھا کہ ” جب تم دونوں سفر کروتو دونوں اذان اور اقامت کہنا اور تم میں سے ایک امامت کرائے گا۔ حالانکہ اذان و اقامت کا فریضہ ان میں سے ایک کو ادا کرنا ہوتا۔ یا جس طرح یہ قول باری ہے (یامعشر الجن والانس الم یا تکم رسل منکم اے گروہ جن وانس، کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے ؟ ) حالانکہ رسول صرف انسانوں میں سے آئے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَهٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا)- یہ بھنی ہوئی مچھلی تھی جس کو وہ کھانے کی غرض سے اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ اس مچھلی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانی بنایا گیا تھا اور انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ جس مقام پر یہ مچھلی زندہ ہو کر دریا میں چلی جائے گی اسی جگہ مطلوبہ شخصیت سے ان کی ملاقات ہوگی۔ چناچہ مجمع البحرین کے قریب پہنچ کر وہ مچھلی زندہ ہو کر ان کے توشہ دان سے باہر آئی اور اس نے سرنگ سی بنا کر دریا میں اپنی راہ لی۔ اس منظر کو حضرت یوشع بن نون نے دیکھا بھی مگر وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس کا تذکرہ کرنا بھول گئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک چٹان پر پہنچ کر کچھ دیر کے لیے سوگئے تھے۔ اسی دوران وہ مچھلی جو ایک زنبیل میں تھی، وہاں سے کھسک کر دریا میں جا گری، اور جس جگہ گری وہاں پانی میں سرنگ سی بن گئی جس میں جا کر مچھلی غائب ہوگئی۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) اس وقت جاگ رہے تھے۔ اور انہوں نے یہ عجیب واقعہ دیکھا، مگر چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سوئے ہوئے تھے، اس لیے ان کو جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ بعد میں جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جاگ کر آگے روانہ ہوئے تو حضرت یوشع (علیہ السلام) ان کو یہ بات بتانا بھول گئے۔ اور یاد اس وقت آیا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آگے چل کر ناشتہ مانگا