باپ کی ابراہیم علیہ السلام کو دھمکی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس طرح سمجھانے پر ان کے باپ نے جو جہالت کا جواب دیا وہ بیان ہو رہا ہے کہ اس نے کہا ابراہیم تو میرے معبودوں سے بیزار ہے ، ان کی عبادت سے تجھے انکار ہے اچھا سن رکھ اگر تو اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا ، انہیں برا کہتا رہا ، ان کی عیب جوئی اور انہیں گالیاں دینے سے نہ رکا تو میں تجھے سنگسار کر دونگا ۔ مجھے تو تکلیف نہ دے نہ مجھ سے کچھ کہہ ۔ یہی بہتر ہے کہ تو سلامتی کے ساتھ مجھ سے الگ ہو جائے ورنہ میں تجھے سزا دوں گا ۔ مجھ سے تو تو اب ہمیشہ کے لئے گیا گزرا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اچھا خوش رہو میری طرف سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی کیونکہ آپ میرے والد ہیں بلکہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو نیک توفیق دے اور آپ کے گناہ بخشے ۔ مومنوں کا یہی شیویہ ہوتا ہے کہ وہ جاہلوں سے بھڑتے نہیں جیسے کہ قرآن میں ہے ( وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا 63 ) 25- الفرقان:63 ) جاہلوں سے جب ان کا خطاب ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ سلام ۔ اور آیت میں ہے لغو باتوں سے وہ منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ تمہارے اعمال تمہارے ساتھ تم پر سلام ہو ۔ ہم جاہلوں کے درپے نہیں ہوتے ۔ پھر فرمایا کہ میرا رب میرے ساتھ بہت مہربان ہے اسی کی مہربانی ہے کہ مجھے ایمان واخلاص کی ہدایت کی ۔ مجھے اس سے اپنی دعا کی قبولیت کی امید ہے اسی وعدے کے مطابق آپ ان کے لئے بخشش طلب کرتے رہے ۔ شام کی ہجرت کے بعد بھی مسجد حرام بنانے کے بعد بھی آپ کے ہاں اولاد ہوجانے کے بعد بھی آپ کہتے رہے کہ اے اللہ مجھے میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان والوں کو حساب کے قائم ہونے کے دن بخش دے ۔ آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ مشرکوں کے لئے استغفار نہ کرو ۔ آپ ہی کی اقتدا میں پہلے پہل مسلمان بھی ابتداء اسلام کے زمانے میں اپنے قرابت دار مشرکوں کے لئے طلب بخشش کی دعائیں کرتے رہے ۔ آخر آیت نازل ہوئی کہ بیشک ابراہیم علیہ السلام قابل اتباع ہیں لیکن اس باب میں ان کا فعل اس قابل نہیں اور آیت میں فرمایا ( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ١١٣ ) 9- التوبہ:113 ) ، یعنی نبی کو اور ایمانداروں کو مشرکوں کے لئے استغفار نہ کرنا چاہئے الخ ۔ اور فرمایا کہ ابراہیم کا یہ استغفار صرف اس بنا پر تھا کہ آپ اپنے والد سے اس کا وعدہ کر چکے تھے لیکن جب آپ پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ اس سے بری ہوگئے ۔ ابراہیم تو بڑے ہی اللہ دوست اور علم والے تھے ۔ پھر فرماتے ہیں کہ میں تم سب سے اور تمہارے ان تمام معبودوں سے الگ ہوں ، میں صرف اللہ واحد کا عابد ہوں ، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا میں فقط اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں اپنی دعاؤں میں محروم نہ رہوں گا ۔ واقعہ بھی یہی ہے اور یہاں پر لفظ عسی یقین کے معنوں میں ہے اس لئے کہ آپ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سید الانبیاء ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔
46۔ 1 دراز مدت، ایک عرصہ۔ دوسرے معنی اس کے صحیح وسالم کے کئے گئے ہیں۔ یعنی مجھے میرے حال پر چھوڑ دے، کہیں مجھ سے اپنے ہاتھ پیر نہ تڑوا لینا۔
[٤٣] باپ کا سیدنا ابراہیم کو گھر سے نکال دینا :۔ باپ آذر جو درباری مہنت، بت تراش اور بت فروش تھا، بھلا بیٹے کے کہنے پر اپنی معاش اور اپنے منصب سے کیسے دستبردار ہوسکتا تھا۔ آپ کی اس پندونصیحت کے جواب میں کہنے لگا۔ معلوم ہوتا ہے تم اپنے آبائی دین سے برگشتہ اور بدعقیدہ ہوچکے ہو۔ ایسی بےدین اولاد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ اگر تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو میں تمہیں سنگسار کردوں گا اور بہتر یہ ہے کہ تم فورا ً میری آنکھوں سے دور ہوجاؤ اور میرے گھر سے نکل جاؤ۔
قَالَ اَ رَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِــهَـتِيْ يٰٓاِبْرٰهِيْمُ : ” رَغِبَ فِیْہِ “ کا معنی رغبت کرنا اور ” رَغِبَ عَنْہُ “ کا معنی بےرغبتی کرنا ہوتا ہے۔ والد نے جواب میں بیٹے کی بات کا انکار کرتے ہوئے ہمزہ استفہام سے بات شروع کی کہ ” کیا بےرغبتی کرنے والا ہے تو میرے معبودوں سے اے ابراہیم ؟ “ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک بتوں سے بےرغبتی زیادہ قابل گرفت تھی، اس لیے ” رَاغِبٌ“ کا ذکر خبر ہونے کے باوجود پہلے کیا، رہا بیٹا تو شرک سے منع کرنے کی وجہ سے اسے ” اَنْتَ “ کے ساتھ مبتدا ہونے کے باوجود بعد میں مخاطب کیا اور ابراہیم کا نام ایسا قابل نفرت ٹھہرا کہ اسے سب سے آخر میں لیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھیے کہ وہ ہر بات ” يٰٓاَبَتِ “ سے شروع کرتے ہیں، ادھر مشرک باپ کی خصوصی مہربانی دیکھیے کہ اس نے مخاطب کیا بھی تو آخر میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقیدے کی بنا پر پیدا ہونے والی دوستی اور دشمنی نسب کی وجہ سے پیدا ہونے والی دوستی اور دشمنی سے زیادہ قوی ہوتی ہے۔- لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَـــنَّكَ ۔۔ :” تَنْتَهِ “ اصل میں ” تَنْتَھِیْ “ تھا، ” لَمْ “ کی وجہ سے یاء گرگئی۔ ” مَلِيًّا “ کا معنی ہے صحیح سالم اور ایک دوسرا معنی ہے لمبی مدت۔ اگر تو بتوں کی تردید اور نفرت سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا، یعنی پتھر مار مار کر ختم کر دوں گا۔ تو مجھے چھوڑ کر صحیح سلامت نکل جا، ایسا نہ ہو کہ مجھ سے اپنی ہڈیاں تڑوا بیٹھے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ لمبی مدت تک مجھے چھوڑ کر نکل جا کہ میں تمہاری شکل نہ دیکھوں۔- 3 اس واقعہ میں ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی کا سامان موجود ہے، کیونکہ آپ کو بھی اپنے اقارب کی طرف سے ایسے ہی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح حق کے ہر داعی کے لیے بھی تسلی ہے کہ اعلان حق پر اسے اپنے قریب ترین عزیزوں کی طرف سے شدید مخالفت کے سامنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ خصوصاً جب کفار دلیل کے سامنے لاجواب ہوجاتے ہیں تو پھر ان کا غیظ و غضب حد سے گزر جاتا ہے، جیسے یہاں ابراہیم (علیہ السلام) سے لاجواب ہو کر باپ نے سنگسار کرنے کی دھمکی دے کر گھر سے نکال دیا۔ بتوں کو توڑنے کے بعد ان کے پروہت لاجواب ہوئے تو انھوں نے کہا : (حَرِّقُـوْهُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِهَتَكُمْ ) [ الأنبیاء : ٦٨ ] ” اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو۔ “ لوط (علیہ السلام) کی قوم لاجواب ہوئی تو کہا : (اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ) [ الأعراف : ٨٢ ] ” انھیں اپنی بستی سے نکال دو ۔ “ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے لاجواب ہو کر کہا : (لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَ ) [ الشعراء : ١١٦ ] ” اے نوح یقیناً اگر تو باز نہ آیا تو ہر صورت سنگسار کیے گئے لوگوں میں سے ہوجائے گا۔ “ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل کے سامنے بےبس ہونے پر کہا تھا : (لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــهًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ ) [ الشعراء : ٢٩ ] ” یقیناً اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے ضرور ہی قید کیے ہوئے لوگوں میں شامل کر دوں گا۔ “ کفار کی ان تمام دھمکیوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ( علیہ السلام) کے دلائل ذکر فرمائے ہیں جو قابل دید ہیں اور ان کے جواب میں کفار کی بےبسی بالکل واضح ہے۔ ہمارے پیارے پیغمبر کے سامنے بھی جب کفار کی کوئی پیش نہ گئی تو انھوں نے آپ کو قتل، قید یا جلا وطن کرنے کی سازش کی، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : (وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ) [ الأنفال : ٣٠ ] ” اور جب وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، تیرے خلاف خفیہ تدبیریں کر رہے تھے، تاکہ تجھے قید کردیں، یا تجھے قتل کردیں، یا تجھے نکال دیں۔ “
قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِــہَـتِيْ يٰٓــاِبْرٰہِيْمُ ٠ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَاہْجُرْنِيْ مَلِيًّا ٤٦- رغب - أصل الرَّغْبَةِ : السّعة في الشیء، يقال : رَغُبَ الشیء : اتّسع «3» ، وحوض رَغِيبٌ ، وفلان رَغِيبُ الجوف، وفرس رَغِيبُ العدو . والرَّغْبَةُ والرَّغَبُ والرَّغْبَى: السّعة في الإرادة قال تعالی:- وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ، فإذا قيل : رَغِبَ فيه وإليه يقتضي الحرص عليه، قال تعالی: إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة 59] ، وإذا قيل : رَغِبَ عنه اقتضی صرف الرّغبة عنه والزّهد فيه، نحو قوله تعالی: وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة 130] ، أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم 46] ، والرَّغِيبَةُ : العطاء الکثير، إمّا لکونه مَرْغُوباً فيه، فتکون مشتقّة من الرّغبة، وإمّا لسعته، فتکون مشتقّة من الرّغبة بالأصل، قال الشاعر يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمن - ( ر غ ب ) الرغبتہ - اس کے اصل معنی کسی چیز میں وسعت کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رغب الشیءُ کسی چیز کا وسیع ہونا اور حوض رغیب کشادہ حوض کو کہتے ہیں ۔ عام محاورہ ہے ۔ فلان رغبت الجوف فلاں پیٹو ہے فرس رغیب العدو تیز رفتار اور کشادہ قدم گھوڑا الرغبۃ والرغب والرغبیٰ ارادہ اور خواہش کی وسعت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] اور وہ ہم کو ( ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے ) خوف سے پکارتے ہیں ۔ اور رغب فیہ والیہ کے معنی کسی چیز پر رغبت اور حرص کرنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة 59] ہم تو اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں ۔ لیکن رغب عن کے معنی کسی چیز سے بےرغبتی کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة 130] اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم 46] اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھرا ہوا ہے ۔ اور رغیبۃ کے معنی بہت بڑے عطیہ کے ہیں ( ج رغائب ) یہ رغبت سے مشتق ہے یا تو اس لئے کہ وہ مرغوب فیہ ہوتی ہے اور یا اصل معنی یعنی وسعت کے لحاظ سے عطیہ کو رغبہ کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ( الکامل ) يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمنعوہ جسے چاہتا ہے بڑے بڑے عطا یا بخشا اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- رجم - الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال :- وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم - «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا - [ مریم 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ- [ الملک 5] - ( ر ج م ) الرجام - ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔ - هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معی 4 تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے - ملي - الْإِمْلَاءُ : الإمداد، ومنه قيل للمدّة الطویلة مَلَاوَةٌ من الدّهر، ومَلِيٌّ من الدّهر، قال تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] وتملّيت دهراً : أبقیت، وتملّيت الثَّوبَ : تمتّعت به طویلا، وتملَّى بکذا : تمتّع به بملاوة من الدّهر، ومَلَاكَ اللهُ غير مهموز : عمّرك، ويقال : عشت مليّا .- أي : طویلا، والملا مقصور : المفازة الممتدّة والمَلَوَانِ قيل : اللیل والنهار، وحقیقة ذلک تكرّرهما وامتدادهما، بدلالة أنهما أضيفا إليهما في قول الشاعر - نهار ولیل دائم ملواهما ... علی كلّ حال المرء يختلفان فلو کانا اللیل والنهار لما أضيفا إليهما . قال تعالی: وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف 183] أي : أمهلهم، وقوله :- الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد 25] أي : أمهل، ومن قرأ : أملي لهم «3» فمن قولهم : أَمْلَيْتُ الکتابَ أُمْلِيهِ إملاءً. قال تعالی: أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران 178] . وأصل أملیت : أمللت، فقلب تخفیفا قال تعالی: فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] ، وفي موضع آخر : فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة 282] .- ( م ل ی ) الا ملاء - کے معنی امداد یعنی ڈھیل دینے کے ہیں اسی سے ملا وۃ من الدھر یا ملی من الدھر کا محاورہ ہے جس کے معنی عرصہ دراز کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ تملیت الثوب میں نے اس کپڑا سے بہت فائدہ اٹھایا ۔ تملیٰ بکذا اس نے فلاں چیز سے عرصہ تک فائدہ اٹھا یا ۔ ملاک اللہ ( بغیر ہمزہ ) اللہ تیری عمر دراز کرے ۔ چناچہ اسی سے غشت ملیا کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں تم عرصہ دراز تک جیتے رہو ۔ الملا ( اسم مقصود ) وسیع ریگستان ۔ بعض نے کہا ہے کہ الملوان کے معنی ہیں لیل ونہار مگر اصل میں یہ لفظ رات دن کے تکرار اور ان کے امتداد پر بولا جاتا ہے ۔ کیونکہ لیل ونہار کی طرف اس کی اضافت ہوتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 413 ) مھار ولیل دائم ملوا ھما علیٰ کل جال المرء یختلفان رات دن کا تکرار ہمیشہ رہتا ہے اور ہر حالت میں یہ مختلف ہوتے رہتے ہیں ۔ اگر ملوان کا اصل لیل ونہار ہوات تو ان کی ضمیر کی طرف مضاف ہو کر استعمال نہ ہوتا اور آیت کریمہ : ۔ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف 183] اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں ۔ میری تدبیر ( بڑی ) مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی ( بڑی مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی مہلت دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران 178] کہ ہم ان کو مہلے دیئے جاتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد 25] طول ( عمر کا وعدہ دیا ۔ میں املا کے معنی امھل یعنی مہلت دینے کے ہیں ۔ ایک قراءت میں املا لھم ہے جو املیت الکتاب املیہ املاء سے مشتق ہے اور اس کے معنی تحریر لکھوانے اور املا کروانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور وہ صبح شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اصل میں املیت املک ( مضاف ) ہے دوسرے لام کو تخفیف کے لئے یا سے تبدیل کرلیا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة 282] تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے ۔
ملیاً کے معانی - قول باری ہے (واھجرنی ملیاً ۔ بس تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے الگ ہوجا) حسن، مجاہد ، سعید بن جبیہ اور سدی سے مروی ہے کہ (ملیا) کے معنی ایک طویل عرصے کے ہیں۔ حضرت ابن عباس، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ ” تو میری سزا سے اپنے آپ کو بچا کر صحیح سالم چلا جا۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ عربوں کے اس محاورے سے ماخوذ ہے۔” فلاں ملی بھذا الامر (فلاں شخص اس معاملے میں بڑا باکمال ہے اور اس کے ساتھ ہی چمٹا رہتا ہے۔
(٤٦) ان کے باپ آزر نے جواب دیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کیا تم میرے معبودوں کی عبادت سے منکر ہوگئے ہو اگر تم اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو میں تمہیں قید کر دوں گا یا یہ کہ مار ڈالوں گا اور جب تک میں زندہ ہوں تم مجھ سے علیحدہ رہو یا یہ کہ مجھ سے اس قسم کی گفتگومت کرو یا یہ کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے کنارا کش ہوجاؤ۔
آیت ٤٦ (قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یٰٓاِبْرٰہِیْمُ ج) ” - ایک طرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا لجاجت بھرا طرز تخاطب تھا تو دوسری طرف جواب میں باپ کا یہ فرعونی انداز بھی ملاحظہ ہو - (لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِیْ مَلِیًّا ) ” - تمہاری یہ باتیں میری برداشت سے باہر ہیں ‘ لہٰذا تم فوری طور پر میری نگاہوں سے دور ہوجاؤ