47۔ 1 یہ سلام دعایہ نہیں ہے جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کرتا ہے بلکہ ترک مخاطب کا اظہار ہے جیسے ( وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا) 25 ۔ الفرقان :63) جب بےعلم لوگ ان سے باتیں کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے اس میں اہل ایمان اور بندگان الٰہی کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔ 47۔ 2 یہ اس وقت کہا جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مشرک کے لئے مغفرت کی دعا کرنے کی ممانعت کا علم نہیں تھا، جب یہ علم ہوا تو آپ نے دعا کا سلسلہ موقوف کردیا (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ) 9 ۔ التوبہ :114)
قَالَ سَلٰمٌ عَلَيْكَ : ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے جاہل باپ کے اس سنگ دلانہ جواب کے مقابلے میں پھر انتہائی نرمی کا مظاہرہ کیا اور اسے ” سَلٰمٌ عَلَيْكَ “ کہا کہ آپ سلامت رہیں۔ جاہلوں کے جواب میں ہمیں بھی یہی کہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ دیکھیے سورة فرقان (٦٣) اور قصص (٥٥) جب کوئی ضد اور عناد پر تل جائے تو یہ رخصت ہونے اور ترک تعلق کا سلام ہے اور یہ جائز ہے، البتہ عام حالات میں کفار کو سلام میں پہل جائز نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا تَبْدَءُ وا الْیَھُوْدَ وَلا النَّصَارٰی بالسَّلَامِ ) [ مسلم، السلام، باب النھي عن ابتداء أھل الکتاب۔۔ : ٢١٦٧، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” یہود و نصاریٰ کو سلام میں پہل مت کرو۔ “ - سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ : ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وعدے کو نبھایا، دیکھیے سورة شعراء (٨٦) اور ابراہیم (٤١) مگر اب فوت شدہ مشرک دوستوں یا رشتہ داروں کے لیے استغفار جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة توبہ (١١٣) اور سورة ممتحنہ (٤) ۔ ۭاِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا : ” حَفِيًّا “ ” حَفِیَ حِفَاوَۃً “ (رَضِیَ ) سے ہے، کسی پر بہت مہربان ہونا، اس کے معاملات کی فکر رکھنا، اس کے متعلق کثرت سے پوچھتے رہنا۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٨٧) ” کَانَ “ سے ہمیشہ کا معنی واضح ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے مجھ پر بہت مہربان رہا ہے اور اس نے مجھے دعا قبول ہونے کی عادت ڈال دی ہے۔
سَلٰمٌ عَلَيْكَ ، یہاں لفظ سلام دو معنے کے لئے ہوسکتا ہے اول یہ کہ یہ سلام مقاطعہ ہو یعنی کسی سے قطع تعلق کرنے کا شریفانہ اور مہذب طریقہ یہ ہے کہ بات کا جواب دینے کے بجائے لفظ سلام کہہ کر علیحدہ ہوجائے جیسا کہ قرآن کریم نے اپنے مقبول و صالح بندوں کی صفت میں بیان فرمایا ہے : وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا، یعنی جب جاہل لوگ ان سے جاہلانہ خطاب کرتے ہیں تو یہ ان سے دو بدو ہونے کے بجائے لفظ سلام کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ باوجود مخالفت کے میں تمہیں کوئی گزند اور تکلیف نہ پہنچاؤں گا۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہاں سلام عرفی سلام ہی کے معنے میں ہو، اس میں فقہی اشکال یہ ہے کہ کسی کافر کو ابتداء سلام کرنا حدیث میں ممنوع ہے صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا تبداء وا الیھود والنصارٰی بالسلام (یعنی یہود و نصارٰی کو ابتداءً سلام نہ کرو) مگر اس کے بالمقابل بعض روایات حدیث میں ایک ایسے مجمع کو ابتدائی سلام کرنا خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے جس میں کفار و مشرکین اور مسلمان سب جمع تھے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم ہی میں حضرت اسامہ کی روایت سے ثابت ہے۔- اسی لئے فقہاء امت کا اس کے جواز و عدم جواز میں اختلاف ہوا۔ بعض صحابہ وتابعین اور امہ مجتہدین کے قول و عمل سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے بعض سے عدم جواز، جس کی تفصیل قرطبی نے احکام القرآن میں اسی آیت کے تحت بیان کی ہے۔ اور امام نخعی نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر تمہیں کسی کافر یہودی نصرانی سے ملنے کی کوئی دینی یا دنیوی ضرورت پیش آجائے تو اس کو ابتدائی سلام کرنے میں مضائقہ نہیں اور بےضرورت سلام کی ابتداء کرنے سے بچنا چاہئیے۔ اس میں مذکورہ دونوں حدیثوں کو تطبیق ہوجاتی ہے واللہ اعلم۔ (قرطبی)- سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ ، یہاں بھی یہ اشکال ہے کہ کسی کافر کے لئے استغفار کرنا شرعاً ممنوع و ناجائز ہے۔ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا تھا کہ واللہ لاستغفرن لک مالم انہ عنہ (یعنی بخدا میں آپ کے لئے اس وقت تک ضرور استغفار یعنی دعا مغفرت کرتا رہوں گا جب تک اللہ کی طرف سے مجھے منع نہ فرما دیا جائے) ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ (یعنی نبی اور ایمان والوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں) اس آیت کے نازل ہونے پر آپ نے چچا کے لئے استغفار کرنا چھوڑ دیا۔- جواب اشکال کا یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ سے وعدہ کرنا کہ آپ کے لئے استغفار کروں گا یہ ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہے اس کے بعد ممانعت کردی گئی سورة ممتحنہ میں حق تعالیٰ نے خود اس واقعہ کو بطور استشناء ذکر فرما کر اس کی اطلاع دے دی ہے (آیت) اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ اور اس سے زیادہ واضح سورة توبہ میں آیت مذکورہ (آیت) مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا کے بعد دوسری آیت میں فرمایا وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ جس سے معلوم ہوا کہ یہ استغفار اور اس کا وعدہ باپ کے کفر پر جمے رہنے اور خدا کا دشمن ثابت ہونے سے پہلے کا تھا جب یہ حقیقت واضح ہوگئی تو انہوں نے بھی براءت کا اعلان کردیا۔
قَالَ سَلٰمٌ عَلَيْكَ ٠ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ ٠ۭ اِنَّہٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا ٤٧- سلام - السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ- [ الشعراء 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها - [ البقرة 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی - __________- عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ- [ النور 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض .- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء - 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة - 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - حفی - الإحفاء في السؤال : التّترّع في الإلحاح في المطالبة، أو في البحث عن تعرّف الحال، وعلی الوجه الأول يقال : أَحْفَيْتُ السؤال، وأَحْفَيْتُ فلانا في السؤال، قال اللہ تعالی: إِنْ يَسْئَلْكُمُوها فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا [ محمد 37] ، وأصل ذلک من : أَحْفَيْتُ الدابة : جعلتها حافیا، أي : منسحج الحافر، والبعیر : جعلته منسحج الخفّ من المشي حتی يرقّ ، وقد حَفِيَ حَفاً وحَفْوَة، ومنه : أَحْفَيْتُ الشّارب : أخذته أخذا متناهيا، والحَفِيُّ : البرّ اللطیف في قوله عزّ وجلّ : إِنَّهُ كانَ بِي حَفِيًّا [ مریم 47] ، ويقال : حَفَيْتُ بفلان وتَحَفَّيْتُ به : إذا عنیت بإکرامه، والحَفِيّ : العالم بالشیء .- ( ح ف و ) الاحفاٰء - کے معنی کسی چیز کے مانگنے میں اصرار کرنے یا کسی کی حالت دریافت کرنے لئے بحث اور کاوش میں لگے رہنے کے ہیں پہلے معنی کے لحاظ سے احفیت السوال واحفیت فلانا فی السوال دونوں طرح کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ يَسْئَلْكُمُوها فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا [ محمد 37] اگر وہ تم سے مال طلب کرے اور تمہیں تنگ کرے تو تم بخل کرنے لگو ۔ اصل میں یہ احفیت الدابۃ ( اسے سادہ گردانیدم پائے ستور را ) سے ہے ۔ جس کے معنی گھوڑے یا اونٹ کو زیادہ چلا کر اس کے سم یا پاؤں کو گھسا ہوا کردینے کے ہیں اور حفی حفا وحفوۃ کے معنی زیادہ چلنے سے پاؤں گے چھل جانے کے ہیں ۔ اسی سے احفیت الشارب ( نیک برید بروت را) ہے جس کے مونچھوں کو اچھی طرح کاٹ کر صاف کردینے کے ہیں ۔ الحفی ۔ نکیو کار اور نہایت مہربان ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنَّهُ كانَ بِي حَفِيًّا [ مریم 47] بیشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے ۔ کہا جاتا ہے احفیت بفلان وتحفیت بہ میں نے اس کے اعزاز رکرام کے بجا لانے میں کوئی وقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ۔ الحفی ( ایضا) کسی چیز کا اچھی طرح جاننے والا ۔
(٤٧) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا سلامتی ہو آپ اب میں تمہارے لیے اپنے رب سے دعا کروں گا وہ میری باتوں سے کو خوب جانتا ہے، اگر اس کی مرضی ہوگی تو میری دعا قبول فرما لے گا۔
آیت ٤٧ (قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْکَج سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْط اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا ” - ابراہیم ( علیہ السلام) نے باپ کی طرف سے اتنے سخت جواب کے بعد بھی اپنا انداز تخاطب انتہائی مؤدبانہ رکھا ‘ اس سے بھی بڑھ کر آپ ( علیہ السلام) نے ان کے لیے اپنے مہربان رب سے دعا کرنے کا بھی ارادہ کیا۔ اسی طرح ایک مبلغ اور داعی کو بھی چاہیے کہ وہ مدِّمقابل کی طرف سے انتہائی سخت جملوں کے بعد بھی ترش انداز اختیار کرنے کے بجائے نرمی کو ہی اپنائے۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :27 ( الف ) تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، التوبہ ، حاشیہ ۱۱۲
23: عام حالات میں کافروں کو سلام کی ابتدا کرنا جائز نہیں ہے، لیکن جہاں کوئی دینی مصلحت داعی ہو تو اس نیت سے سلام کرنے کی گنجائش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اسلام کی توفیق دے کر سلامتی سے ہم کنار فرمائیں۔ 24: سورۃ توبہ (114:9) میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس وعدے کا حوالہ دیا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے یہ وعدہ اس وقت کیا تھا جب آپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے مقدر میں ایمان نہیں ہے چنانچہ جب یہ بات معلوم ہوگئی تو پھر آپ اس کے لیے دعا کرنے سے دست بردار ہوگئے۔