Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] یعنی ہمارے باپ سیدنا آدم (علیہ السلام) کا اصل مسکن تو جنت ہی تھا۔ لیکن اس کی وارث آدم کی صرف وہ اولاد ہوگی جس نے یہ دنیا کی زندگی اللہ سے ڈر کر گزاری ہوگی اور کفر و شرک سے بچتے رہے ہوں گے۔ وراثت تو دور کی بات ہے۔ اللہ کے نافرمانوں اور مشرکوں کو جنت میں داخل بھی نہ ہونے دیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ایسے لوگوں پر حرام کردیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ ۔۔ : یعنی جنت کا وارث وہ ہوگا جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور کفر و شرک اور گناہوں سے بہت بچنے والا ہو۔ اس آیت میں متقی لوگوں کو جنت کا وارث بنانے کا ذکر ہے۔ یہی بات سورة مومنون (١ تا ١٠) اور اعراف (٤٢، ٤٣) میں بیان کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہل جنت کس کے وارث بنیں گے ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ان کے باپ آدم کو جنت ملی تھی اور اولاد اپنے باپ کی جائداد کی وارث ہوتی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم دونوں میں بنی آدم کی جگہ بنائی ہے۔ اہل جہنم اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جنت میں اپنی جگہ سے محروم ہوجائیں گے تو اس کے وارث جنتی ہوں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُلُّ أَہْلِ الْجَنَّۃِ یَرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَوْلاَ أَنَّ اللّٰہَ ہَدَانِیْ فَیَکُوْنُ لَہُ شُکْرٌ، وَ کُلُّ أَہْلِ النَّارِ یَرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ لَوْلاَ أَنَّ اللّٰہَ ہَدَانِیْ فَیَکُوْنُ عَلَیْہِ حَسْرَۃٌ ) [ صحیح الجامع : ٤٥١٤۔ مسند أحمد : ٢؍٥١٢، ح : ١٠٦٦٣۔ مستدرک حاکم : ٢؍٤٣٦، ح : ٣٦٢٩، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” تمام اہل جنت آگ میں اپنا ٹھکانا دیکھیں گے تو کہیں گے، اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے مجھے ہدایت دی (تو میں یہاں ہوتا) ، تو وہ بہت شکر کرے گا اور تمام اہل نار جنت میں اپنی جگہ دیکھیں گے تو کہیں گے، اگر ایسا ہوتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہدایت دے دیتا (تو میں یہاں ہوتا) ، تو اس کے لیے بہت حسرت ہوگی۔ “ مگر اس جواب میں یہ خیال گزرتا ہے کہ جنتیوں کو صرف جہنمیوں والی جگہ بطور میراث ملے گی، حالانکہ جنت میں ان کا اپنا حصہ بھی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ ) [ آل عمران : ١٣٣ ] ”(یہ جنت) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ “ لہٰذا یہ معنی مرجوح ہے۔ اس لیے اکثر مفسرین نے ” نُوْرِثُ “ کا معنی یہ کیا ہے کہ ہم متقی لوگوں کو ہر طرح سے اس کا مالک بنادیں گے، وہ کبھی ان سے واپس نہ لی جائے گی، بلکہ وہ میراث کی طرح انھی کی ہوجائے گی، کیونکہ کسی چیز کی ملکیت حاصل ہونے کی سب سے پکی صورت میراث ہے، اس لیے کہ ملکیت حاصل ہونے کی دوسری تمام صورتوں میں ملکیت چھننے کی گنجائش ہوتی ہے، بیع ہو یا ہبہ یا غصب، اس کا مالک اسے واپس لے سکتا ہے، یا بدل سکتا ہے، مگر وارث کو یہ فکر نہیں ہوتی۔ یہ معنی بھی مضبوط ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ الْجَــــنَّۃُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا۝ ٦٣- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي :- أصله وبقيّته، قال الشاعر :- 461-- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ- «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً :- قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ- الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٣) اور یہ جنت ایسا مقام ہے کہ ہم اپنے بندوں میں سے ایسے لوگوں کو اس میں داخل کریں گے جو کفر وشرک سے بچنے والے ہوں گے اور اپنے پروردگار کی اطاعت کرنے والے ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani