Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جبرائیل علیہ السلام کی آمد میں تاخیر کیوں؟ صحیح بخاری شریف میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا آپ جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ اس کے جواب پر یہ آیت اتری ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں تاخیر ہوگئی جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے پھر آپ یہ آیت لے کر نازل ہوئے ۔ روایت ہے کہ بارہ دن یا اس سے کچھ کم تک نہیں آئے تھے جب آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟ مشرکین تو کچھ اور ہی اڑانے لگے تھے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس گو یہ یہ آیت سورہ والضحی کی آیت جیسی ہے ۔ کہتے ہیں کہ چالیس دن تک ملاقات نہ ہوئی تھی جب ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا میرا شوق تو بہت ہی بےچین کئے ہوئے تھا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اس سے کسی قدر زیادہ شوق خود مجھے آپ کی ملاقات کا تھا لیکن میں اللہ کے حکم کا مامور اور پابند ہوں وہاں سے جب بھیجا جاؤں تب ہی آسکتا ہوں ورنہ نہیں اسی وقت یہ وحی نازل ہوئی ۔ لیکن یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنے میں دیر لگائی پھر جب آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رک جانے کی وجہ دریافت کی آپ نے جواب دیا کہ جب لوگ ناخن نہ کتروائیں ، انگلیاں اور پوریاں صاف نہ رکھیں ، مونچھیں پست نہ کرائیں ، مسواک نہ کریں تو ہم کیسے آسکتے ہیں ؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا مجلس درست اور ٹھیک ٹھاک کر لو آج وہ فرشتہ آرہا ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نہیں آیا ۔ ہمارے آگے پیچھے کی تمام چیزیں اسی اللہ کی ہیں یعنی دنیا اور آخرت اور اس کے درمیان کی یعنی دونوں نفخوں کے درمیان کی چیزیں بھی اسی کی تملیک کی ہیں ۔ آنے والے امور آخرت اور گزر چکے ہوئے امور دنیا اور دنیا آخرت کے درمیان کے امور سب اسی کے قبضے میں ہیں ۔ تیرا رب بھولنے والا نہیں اس نے آپ کو اپنی یاد سے فرماموش نہیں کیا ۔ نہ اس کی یہ صفت ۔ جیسے فرمان ( وَالضُّحٰى Ǻ۝ۙ ) 93- الضحى:1 ) قسم ہے چاشت کے وقت کی اور رات کی جب وہ ڈھانپ لے نہ تو تیرا رب تجھ سے دستبردار ہے نہ ناخوش ۔ ابن ابی حاتم میں ہے آپ فرماتے ہیں جو کچھ اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جو حرام کر دیا حرام ہے اور جس سے خاموش رہا وہ عافیت ہے تم اللہ کی عافیت کو قبول کر لو ، اللہ کسی چیز کا بھولنے والا نہیں پھر آپ نے یہی جملہ تلاوت فرمایا ۔ آسمان وزمین اور ساری مخلوق کا خالق مالک مدبر متصرف وہی ہے ۔ کوئی نہیں جو اس کے کسی حکم کو ٹال سکے ۔ تو اسی کی عبادتیں کئے چلا جا اور اسی پر جما رہ اس کے مثیل شبیہ ہم نام پلہ کوئی نہیں ۔ وہ بابرکت ہے وہ بلندیوں والا ہے اس کے نام میں تمام خوبیاں ہیں جل جلالہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ جبرائیل (علیہ السلام) سے زیادہ اور جلدی جلدی ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی جس پر یہ آیت اتری (صحیح بخاری) ، تفسیر سورة مریم)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٠] فرشتوں کا نزول اللہ کے حکم کے تحت :۔ اس آیت کے شان نزول اور تفسیر کے لئے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے :- (١) سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے جبریل سے پوچھا : تم ہمارے پاس جیسے آیا کرتے ہو اس سے زیادہ دفعہ کیوں نہیں آتے ؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ 64؀ۚ ) 19 ۔ مریم :64) (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر)- (٢) اللہ سے کوئی بات بھولی ہوئی نہیں :۔ سیدنا ابو درداء کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو چیز اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردی وہ حلال ہے اور جو حرام کی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت اختیار کیا وہ معاف ہے۔ لہذا تم اللہ کی دی ہوئی معافی قبول کرو۔ کیونکہ اللہ بھولنے والا نہیں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : (وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا 64؀ۚ ) 19 ۔ مریم :64) (المستدرک للحاکم، سندہ صحیح ج ٢ ص ٣٧٥)- (٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے کچھ فرائض مقرر کئے ہیں انھیں ضائع نہ کرو اور کچھ چیزوں سے روکا ہے، ان کی اہانت نہ کرو اور کچھ چیزوں سے تم سے درگزر کیا ہے، بھول کی بنا پر نہیں لہذا تم ان میں چھان پھٹک نہ کرو۔ (دارقطنی، بحوالہ الموافقات للشاطبی مترجم ج ١ ص ٢١٩)- ہوا یہ تھا کہ ایک دفعہ آپ اور صحابہ کو اللہ کی طرف سے حالات کے مطابق احکام و ہدایت کی شدید ضرورت تھی۔ پھر جب کافی دیر بعد جبریل (علیہ السلام) متعلقہ ہدایات و احکام لے کر آئے تو بعد میں آپ نے جبریل (علیہ السلام) سے ضمناً یہ بات بھی کہہ دی۔ جس کے جواب میں جبریل (علیہ السلام) نے یہ وضاحت فرما دی کہ ہم کوئی بااختیار شخصیت نہیں ہیں بلکہ اللہ کے حکم کے بندے ہیں جب ہمیں حکم ملے تب ہی آسکتے ہیں اور آپ کا پروردگار سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ بھولنے والا نہیں، بلکہ اس دیر میں بھی اس کی مصلحتیں مضمر ہوتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ : ” نَنْزِلُ “ کے بجائے ” نَتَنَزَّلُ “ اس لیے فرمایا کہ باب تفعّل میں ٹھہر ٹھہر کر کام کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ ہم وقفے وقفے سے، ٹھہر ٹھہر کر تیرے رب ہی کے حکم سے اترتے ہیں۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ( قَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِیْلَ : مَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَزُوْرَنَا أَکْثَرَ مِمَّا تَزُوْرَنَا فَنَزَلَتْ : (وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ۚ لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْــنَا وَمَا خَلْفَنَا ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( وما نتنزل إلا بأمر ربک۔۔ ) : ٤٧٣١ ]” ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) سے کہا : ” آپ ہماری ملاقات کے لیے جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ “ تو یہ آیت اتری : (وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ نے یہ کلام سکھایا جبریل (علیہ السلام) کو کہ جواب میں یوں کہو۔ سو یہ کلام ہے اللہ کا جبریل کی طرف سے، جیسا کہ ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ ہم کو سکھایا۔- لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْــنَا ۔۔ : یعنی صرف یہی نہیں کہ ہم اپنی مرضی سے اترنے کا اختیار نہیں رکھتے، بلکہ ہم اپنی مرضی سے کسی کام کا اختیار بھی نہیں رکھتے، کیونکہ جو کچھ ہمارے آگے ہے، یا ہمارے پیچھے ہے، یا اس کے درمیان ہے، یعنی دائیں اور بائیں ہے، چاروں جہتوں کی ہر چیز کا مالک صرف اللہ ہے۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان کے مابین اشیاء کا رب بھی وہی ہے۔ اس میں اوپر نیچے کی جہتیں اور ان کے درمیان کی ہر چیز بھی آگئی، اس کے علاوہ جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اس میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے بھی آگئے، یعنی جس ہستی کا قبضہ، ملکیت اور ربوبیت اتنی مستحکم اور وسیع ہے کہ زمان و مکان میں سے کوئی چیز اس سے باہر نہیں، تو اس کی مرضی کے بغیر زمین پر اترنا تو کجا ہم کوئی حرکت بھی نہیں کرسکتے۔ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا : ” نَسِـيًّا “ ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر مبالغہ ہے، بہت بھولنے والا۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ بہت بھولنے والا تو نہیں مگر کم بھولتا ہے، بلکہ اس طرح مبالغے کا لفظ آئے تو مبالغے کی نفی مراد نہیں ہوتی بلکہ نفی میں مبالغہ مراد ہوتا ہے، اس لیے معنی یہ ہوگا کہ تیرا رب کبھی کسی طرح بھولنے والا نہیں۔ کبھی کا مفہوم ” کَانَ “ سے واضح ہو رہا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْد) دیکھیے سورة آل عمران (١٨٢) اور انفال (٥١) کی تفسیر۔ یہاں رب تعالیٰ سے بھولنے کی نفی کا مطلب یہ ہے کہ جبریل (علیہ السلام) اگر دیر سے اتریں تو یہ مطلب نہیں کہ آپ کے رب نے آپ کو بھلا دیا ہے، جیسا کہ یہ مشرکین باتیں بنا رہے ہیں، وہاں بھولنے کا تو کسی طرح سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی حکمت کا تقاضا جبریل (علیہ السلام) کا اجازت کے ساتھ وقفے سے آنا ہی ہے۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورة ضحی کی تفسیر۔ ابودرداء (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا أَحَلَّ اللّٰہُ فِيْ کِتَابِہِ فَھُوَ حَلاَلٌ وَمَا حَرَّمَ فَھُوَ حَرَامٌ وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَہُوَ عَافِیَۃٌ فَاقْبَلُوٓا مِنَ اللّٰہِ الْعَافِیَۃَ فَإِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُنْ نَسِیًّا، ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ : (ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٣٧٥، ح : ٣٤١٩ و سندہ حسن (حکمت بن بشیر) ]” اللہ نے جو کچھ اپنی کتاب میں حلال کیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کیا وہ حرام ہے اور جس سے خاموشی اختیار فرمائی وہ معاف ہے، کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کوئی چیز بھول جائے۔ “ پھر یہ آیت پڑھی : (ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا ) ۔ “ - ” وَاصْطَبِرْ “ ” صَبَرَ یَصْبُرُ “ سے باب افتعال کا فعل امر ہے۔ ” تاء “ کو ” طاء “ کردیا اور حرف زیادہ ہونے سے معنی زیادہ ہوگیا، خوب صابر رہ، یعنی اس کی بندگی کرتے رہیے اور اس راہ میں جو مصائب و مشکلات پیش آئیں ان کا پورے صبر کے ساتھ مقابلہ کیجیے، اگر ہماری طرف سے کبھی یاد فرمائی یا مدد یا تسلی دینے میں کچھ تاخیر ہوجائے تو گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔- هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا : وہ دو شخص جن کا نام ایک ہو، ایک دوسرے کے ” سَمِيٌّ“ (ہم نام) کہلاتے ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ کے جتنے نام ہیں سب اس کی صفت ہیں، یعنی کوئی ہے اس کی صفت کا ؟ “ (موضح) یہاں ” سمیا “ کا معنی ” نظیر “ اور ” مثیل “ ہے۔ گویا اس آیت اور دوسری آیت : (لَیْسَ کَمِثْلِهٖ شَیْءٌ) [ الشوریٰ : ١١ ] کا معنی ایک ہی ہے، یعنی جب اس جیسا آپ کسی کو نہیں سمجھتے تو پھر اس کے سوا چارہ کیا ہے کہ اس کے راستے پر چلتے رہیے۔- ” وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ “ کے ربط کے لیے دیکھیے سورة قیامہ کی آیت (١٦) : (لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - شان نزول :- صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) سے یہ آرزو ظاہر فرمائی کہ ذرا زیادہ آیا کرو، اس پر آیت نازم ہوئی اور (ہم آپ کی درخواست کا جبرئیل (علیہ السلام) کی طرف سے جواب دیتے ہیں سنئے وہ یہ ہے کہ) ہم (یعنی فرشتے) بدون آپ کے رب کے حکم کے وقتاً فوقتاً نہیں آسکتے اسی کی (ملک) ہیں ہمارے آگے کی سب چیزیں (مکان ہو یا زمان، مکانی ہو یا زمانی) اور (اسی طرح) ہمارے پیچھے کی سب چیزیں اور جو چیزیں ان کے درمیان میں ہیں (آگے کا مکان تو جو منہ کے سامنے ہو اور پیچھے کا جو پشت کی طرف ہو اور مابین ذلک جو زمانہ حال ہو) اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں (چنانچہ یہ سب امور آپ کو پہلے سے معلوم ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم تکویناً و تشریعاً مسخر امر ہیں اپنی رائے سے ایک مکان سے دوسرے مکان میں یا جب ہم چاہیں کہیں آجا نہیں سکتے لیکن جب ہمارا بھیجنا مصلحت ہوتا ہے تو حق تعالیٰ بھیج دیتے ہیں یہ احتمال نہیں کہ شاید کسی مصلحت کے وقت بھول جاتے ہوں) وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان سب چیزوں کا جو ان دونوں کے درمیان میں ہیں سو ( جب ایسا حاکم ومالک ہے تو اے مخاطب) تو اس کی عبادت (اور اطاعت) کیا کر اور (ایک آدھ بار نہیں بلکہ) اس کی عبادت پر قائم رہ (اور اگر اس کی عبادت نہ کرے گا تو کیا دوسرے کی عبادت کرے گا) بھلا تو کسی کو اس کا ہم صفت جانتا ہے (یعنی کوئی اس کا ہم صفت نہیں لائق عبادت بھی کوئی نہیں، پس اسی کی عبادت کرنا ضروری ہوا) اور انسان (منکر آخرت) یوں کہتا ہے کہ میں جب مرجاؤں گا تو کیا پھر زندہ کر کے قبر سے نکالا جاؤں گا (اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ) کیا (یہ) انسان اسی بات کو نہیں سمجھتا کہ ہم اس کو اس کے قبل (عدم سے) وجود میں لاچکے ہیں، اور یہ (اس وقت) کچھ بھی نہ تھا (جب ایسی حالت سے حیات کی طرف لانا آسان ہے تو دوبارہ حیات دینا تو بدرجہ اولیٰ آسان ہے) سو قسم ہے آپ کے رب کی ہم ان کو (قیامت میں زندہ کر کے موقف حشر میں) جمع کریں گے اور (ان کے ساتھ) شیاطین کو بھی (جو دنیا میں ان کے ساتھ رہ کر بہکاتے سکھاتے تھے جیسا دوسری آیت میں ہے قال قَرِيْنُهٗ رَبَّنَا مَآ اَطْغَيْتُهٗ ) پھر ان (سب) کو دوزخ کے ارد گرد اس حالت سے حاضر کریں گے کہ (مارے ہیبت کے) گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے پھر (ان کفار کے) ہر گروہ میں سے (جیسے یہود و نصارٰی و مجوس بت پرست) ان لوگوں کو جدا کریں گے جو ان میں سب سے زیادہ اللہ سے سرکشی کیا کرتے تھے (تاکہ ایسوں کو اوروں سے پہلے دوزخ میں داخل کریں) پھر (یہ نہیں کہ اس جدا کرنے میں ہم کو کسی تحقیقات کی ضرورت پڑے کیونکہ) ہم (خود) ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں جو دوزخ میں جانے کے زیادہ (یعنی اول) مستحق ہیں (پس اپنے علم سے ایسوں کو الگ کر کے اول ان کو پھر دوسرے کفار کو دوزخ میں داخل کریں گے اور یہ ترتیب صرف اولیت میں ہے، اور آخریت نہ ہونے میں تو سب مساوی ہیں اور جہنم کا وجود ایسا یقینی ہے کہ اس کا معائنہ سب مومن و کافر کو کرایا جائے گا گو صورت اور غرض معائنہ کی مختلف ہوگی کفار کو بطور دخول کے اور تعذیب ابدی کے واسطے اور مؤمنین کو بطور عبور پل صراط اور زیادت شکر اور فرح کے واسطے کہ اس کو دیکھ کر جو جنت میں پہنچیں گے تو اور زیادہ شکر کریں گے اور خوش ہوں گے) اور (بعض گنہگاروں کو سزائے محدود کے لئے جو کہ درحقیقت تطہیر ہے اسی عموم معائنہ کی خبر دی جاتی ہے کہ) تم میں سے کوئی بھی نہیں جس کا اس پر گزر نہ ہو (کسی کا دخولاً اور کسی کا عبوراً ) یہ (وعدہ کے موافق) آپ کے رب کے اعتبار سے (بطور) لازم (مؤ کد کے) ہے جو (ضرور) پورا ہو کر رہے گا پھر (اس جہنم پر عبور سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس میں مومن و کافر برابر ہیں بلکہ) ہم ان لوگوں کو نجات دے دیں گے جو خدا سے ڈر ( کر ایمان لائے) تھے، (خواہ اول ہی دفعہ میں نجات ہوجاوے جیسے مؤمنین کاملین کو اور خواہ بعد کسی قدر تکلیف کے جیسے کہ مؤمنین ناقصین کو) اور ظالموں کو (یعنی کافروں کو) اس میں (ہمیشہ کے لئے) ایسی حالت میں رہنے دیں گے کہ (مارے رنج و غم کے) گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ۝ ٠ۚ لَہٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْــنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ ۝ ٠ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا۝ ٦٤ۚ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٤) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آسمان سے وقتا فوقتا سوائے آپ کے رب کے حکم کے نہیں آسکتے، قریش نے جب آپ سے روح، ذوالقرنین اور اصحاب کہف کے بارے میں دریافت کیا تھا اور وحی اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں کے لیے روک لی تھی تو جب جبریل امین وحی لے کر آئے تب آپ نے ان سے تاخیر کی وجہ دریافت کی اس وقت انہوں نے یہ جواب دیا امور آخرت اور امور دنیا اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہوگا وہ سب چیزیں اسی کی ملکیت میں داخل ہیں اور جب سے آپ کے رب نے وحی کا سلسلہ شروع کیا ہے، آپ کا پروردگار آپ کو بھولنے والا نہیں۔- شان نزول : ( آیت) ” وما نتنزل الا بامر ربک “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبریل امین سے درخواست کی کہ آپ ہماری ملاقات کے لیے جلدی جلدی کیوں نہیں آتے ذرا جلدی جلدی آیا کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم سوائے آپ کے رب کے حکم کے وقتا فوقتا نہیں آسکتے، اور ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جبریل امین (علیہ السلام) چالیس دن تک تشریف نہیں لائے بقیہ روایت حسب سابق ہے اور ابن مردویہرحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین سے دریافت کیا کہ کون ساقطعہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ عزیز ہے اور کون سا اس کی نظر میں زیادہ مرغوب ہے جبرئیل امین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیے بغیر میں کچھ نہیں جانتا چناچہ جبریل دوبارہ تشریف لائے مگر دیر سے آئے اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم نے آنے میں دیر کی جس کی وجہ سے مجھے یہ خیال ہوا کہ مجھ سے کچھ ناراضگی ہے اس پر جبریل امین (علیہ السلام) نے فرمایا ہم سوائے آپ کے رب کے حکم کے وقتا فوقتا نہیں آسکتے۔ اور ابن اسحاق (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ قریش نے جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف کے بارے میں پوچھا تو پندرہ راتوں تک اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں کوئی وحی نہیں بھیجی، جب جبریل امین (علیہ السلام) آئے تو آپ نے ان سے فرمایا دیر سے آئے، اس پر انہوں نے یہ فرمایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ ج) ” - یہاں سے ایک بہت اہم مضمون کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ بات اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کے ساتھ جو والہانہ محبت تھی ‘ جو عشق تھا ‘ اس کا جو شغف اور شوق تھا ‘ اس کی بنا پر وحی میں وقفہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہت شاق گزرتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش ہوتی تھی کہ وحی جلد از جلد آتی رہے تاکہ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے وجودُِ پر نور کو مزید منور کرتے رہیں۔ اس حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل ( علیہ السلام) سے شکوہ کیا کہ آپ کی آمد وقفے وقفے سے ہوتی ہے ‘ ہم انتظار کرتے رہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس شکوہ کا یہاں جبرائیل کی طرف سے جواب دیا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اپنی مرضی سے نازل نہیں ہوتے ‘ ہم تو آپ کے رب کے حکم کے پابند ہیں۔ اس کا اذن ہوتا ہے تو ہم نازل ہوتے ہیں۔- (لَہٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِکَ ج) ” - ان الفاظ میں بہت گہرائی ہے۔ آگے اور پیچھے کے درمیان میں کون ہے ؟ وہی جو یہاں متکلم ہیں ‘ یعنی خود جبرائیل مراد یہ کہ میں بالکلیہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہوں اور فرشتے کی یہی شان ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے احکام سے ِ سرمو سرتابی نہیں کرتے ‘ جیسا کہ سورة التحریم میں فرمایا گیا ہے : (لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ) ” وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جس کا وہ انہیں حکم دے ‘ اور وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ “- (وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا ) ” - اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کے رب کی اجازت اور مشیت سے وحی لے کر نازل ہوتے ہیں۔ اس میں جو تاخیر ہوتی ہے وہ کسی نسیان کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی مرضی اور حکمت سے ہوتی ہے۔ سورة الفرقان میں اس حکمت کی وضاحت ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے : (کَذٰلِکَج لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا ) ” اسی طرح (ہم نے اسے نازل کیا) تاکہ مضبوط کردیں اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل اور (اسی لیے) ہم نے اسے پڑھ کر سنایا ہے تھوڑا تھوڑا کر کے “۔ اور سورة بنی اسرائیل میں یہ مضمون یوں بیان ہوا ہے : (وَقُرْاٰناً فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلاً ) ” اور قرآن کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے (کر کے نازل) کیا ہے ‘ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے لوگوں کو پڑھ کر سنائیں ٹھہر ٹھہر کر ‘ اور ہم نے اس کو اتارا ہے تھوڑا تھوڑا کر کے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :39 یہ پورا پیراگراف ایک جملہ معترضہ جو ایک سلسلہ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلہ کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے ۔ انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ سورہ بڑی دیر کے بعد ایسے زمانے میں نازل ہوئی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ بڑے اضطراب انگیز حالات سے گزر رہے ہیں ۔ حضور کو اور آپ کے صحابیوں کو ہر وقت وحی کا انتظار ہے تاکہ اس سے رہنمائی بھی ملے اور تسلی بھی حاصل ہو ۔ جوں جوں وحی آنے میں دیر ہو رہی ہے اضطراب بڑھتا جاتا ہے ۔ اس حالت میں جبریل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں تشریف لاتے ہیں ۔ پہلے وہ فرمان سناتے ہیں جو موقع کی ضرورت کے لحاظ سے فوراً درکار تھا ۔ پھر آگے بڑھنے سے پہلے اللہ تعالی کے اشارے سے یہ چند کلمات اپنی طرف سے کہتے ہیں جن میں اتنی دیر تک اپنے حاضر نہ ہونے کی معذرت بھی ہے ، اللہ تعالی کی طرف سے حرف تسلی بھی ، اور ساتھ ساتھ صبر و ضبط کی تلقین بھی ۔ یہ صرف کلام کی اندرونی شہادت ہی نہیں ہے بلکہ متعدد روایات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں جنہیں ابن جریر ، ابن کثیر اور صاحب روح المعانی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

31: صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تھا، اس پر بعض کفار نے آپ کا مذاق بھی بنایا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو (معاذاللہ) چھوڑدیا ہے، چنانچہ جب جبرئیل علیہ السلام آئے تو آپ نے اُن سے فرمایا کہ آپ جلدی جلدی ہمارے پاس کیوں نہیں آتے ؟ اِس پر اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا جواب نقل فرمایا ہے کہ ہمارا اُتر کر آنا ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہوتا ہے، ساری کائنات کی مصلحتیں وہی جانتا ہے، کیونکہ آسمان، زمین اور اُن کی درمیانی مخلوقات سب اسی کے قبضے میں ہیں، اور کسی وقت دیر ہوتی ہے تو کسی حکمت کی وجہ سے ہوتی ہے، جسے اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے، اور دیر کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ (معاذاللہ) وہ وحی نازل کرنا بھول گیا ہے۔