Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جہنم میں دخول یا ورود ؟ مسند امام احمد بن حنبل کی ایک قریب حدیث میں ہے ابو سمیہ فرماتے ہیں جس ورود کا اس آیت میں ذکر ہے اس بارے میں اختلاف ہوا کوئی کہتا تھا مومن اس میں داخل نہ ہوں گے ، کوئی کہتا تھا داخل تو ہوں گے لیکن پھر بہ سبب اپنے تقوے کے نجات پا جائیں گے ۔ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مل کر اس بات کو دریافت کیا تو آپ نے فرمایا وارد تو سب ہوں گے ۔ اور روایت میں ہے کہ داخل تو سب ہوں کے ہر ایک نیک بھی اور ہر ایک بد بھی لیکن مومنوں پر وہ آگ ٹھنڈی اور سلامتی بن جائے گی جیسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پر تھی یہاں تک کہ اس ٹھنڈک کی شکایت خود آگ کرنے لگے گی پھر ان متقی لوگوں کا وہاں سے چھٹکارا ہوجائے گا ۔ خالد بن معدان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے کہیں گے اللہ نے تو فرمایا تھا کہ ہر ایک جہنم پروارد ہونے والا ہے اور ہمارا ورود تو ہوا ہی نہیں تو ان سے فرمایا جائے گا کہ تم وہیں سے گزر کر تو آرہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وقت آگ کو ٹھنڈی کر دیا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار اپنی بیوی صاحبہ کے گھٹنے پر سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ رونے لگے ۔ آپ کی اہلیہ صاحبہ بھی رونے لگیں تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کیوں روئیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو روتا دیکھ کر ۔ آپ نے فرمایا مجھے تو آیت ( وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا 71؀ۚ ) 19-مريم:71 ) ، یاد آگئی اور رونا آگیا ۔ مجھے کیا معلوم کہ میں نجات پاؤں گا نہیں ؟ اس وقت آپ بیمار تھے ۔ حضرت ابو میسرہ رحمۃ اللہ علیہ جب رات کو اپنے بستر پر سونے کیلئے جاتے تو رونے لگتے اور زبان سے بےساختہ نکل جاتا کہ کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوتا ۔ ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا کہ آخر اس رونے دھونے کی وجہ کیا ہے ؟ تو فرمایا یہی آیت ہے ۔ یہ تو ثابت ہے کہ وہاں جانا ہوگا اور یہ نہیں معلوم کہ نجات بھی ہوگی یا نہیں ؟ ایک بزرگ شخص نے اپنے بھائی سے فرمایا کہ آپ کو یہ تو معلوم ہے کہ ہمیں جہنم پر سے گزرنا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں یقینا معلوم ہے ۔ پھر پوچھا کیا یہ بھی جانتے ہو کہ وہاں سے پار ہوجاؤ گے ؟ انہوں نے فرمایا اس کا کوئی علم نہیں پھر فرمایا ہمارے لئے ہنسی خوشی کیسی؟ یہ سن کر اس وقت سے لے کر موت کی گھڑی تک ان کے ہونٹوں پر ہنسی نہیں ائی ۔ نافع بن ارزق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس بارے میں اختلاف تھا کہ یہاں ورود سے مراد داخل ہونا ہے تو آپ نے دلیل میں آیت قرآن ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀ ) 21- الأنبياء:98 ) پیش کر کے فرمایا دیکھو یہاں ورود سے مراد داخل ہونا ہے یا نہیں ؟ پھر آپ نے دوسری آیت تلاوت فرمائی ( يَـقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ ۭ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ 98؀ ) 11-ھود:98 ) اور فرمایا بتاؤ فرعون اپنی قوم کو جہنم میں لے جائے گا یا نہیں ؟ پس اب غور کرو کہ ہم اس میں داخل تو ضرور ہوں گے اب نکلیں گے بھی یا نہیں ؟ غالبا تجھے تو اللہ نہ نکالے گا اس لئے کہ تو اس کا منکر ہے یہ سن کر نافع کھسیانہ ہو کر ہنس دیا ۔ یہ نافع خارجی تھا اس کی کنیت ابو راشد تھی ۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سمجھاتے ہوئے آیت ( وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا 86؀ۘ ) 19-مريم:86 ) بھی پڑھی تھی ۔ اور یہ بھی فرمایا تھا کہ پہلے بزرگ لوگوں کی ایک دعا یہ بھی تھی کہ اللہم اخرجنی من النار سالمنا وادخلنی الجنۃ غانما اے اللہ مجھے جہنم سے صحیح سالم نکال لے اور جنت میں ہنسی خوشی پہنچا دے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابو داؤد طیالسی میں یہ بھی مروی ہے کہ اس کے مخاطب کفار ہیں ۔ عکرمہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں یہ ظالم لوگ ہیں اسی طرح ہم اس آیت کو پڑھتے تھے ۔ یہ بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نیک بد سب وارد ہوں گے ۔ دیکھو فرعون اور اس کی قوم کے لئے اور گہنگاروں کے لئے بھی ورود کا لفظ دخول کے معنی میں خود قرآن کریم کی دو آیتوں میں وارد ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وارد تو سب ہوں گے پھر گزر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پل صراط سے سب کو گزرنا ہوگا یہی آگ کے پاس کھڑا ہونا ہے اب بعض تو بجلی کی طرح گزر جائیں گے ، بعض ہوا کی طرح ، بعض پرندوں کی طرح ، بعض تیز رفتار گھوڑوں کی طرح ، بعض تیز رفتار اونٹوں کی طرح ، بعض تیز چال والے پیدل انسان کی طرح یہاں تک کہ سب سے آخر جو مسلمان اس سے پار ہوگا یہ وہ ہوگا جس کے صرف پیر کے انگوٹھے پرنورہوگا گرتا پڑتا نجات پائے گا ۔ پل صراط پھسلنی چیز ہے جس پر ببول جیسے اور گو گھرو جیسے کانٹے ہیں دونوں طرف فرشتوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں جہنم کے ٹکٹ ہوں گے جن سے پکڑ پکڑ کر لوگوں کو جہنم میں دھکیل دیں گے الخ ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوگا ۔ پہلا گروہ تو بجلی کی طرح آن کی آن میں پار ہوجائے گا ، دوسرا گروہ ہوا کی طرح جائے گا ، تیسرا تیز رفتار گھوڑوں کی طرح ، چوتھا تیز رفتار جانور کی طرح ۔ فرشتے ہر طرف سے دعائیں کر رہے ہونگے کہ اسے اللہ سلامت رکھ الہٰی بچا لے بخاری ومسلم کی بہت سی مرفوع احادیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جہنم اپنی پیٹھ پر تمام لوگوں کو جما لے گی ۔ جب سب نیک وبد جمع ہوجائیں گے تو حکم باری ہوگا کہ اپنے والوں کو تو پکڑ لے اور جنتیوں کو چھوڑ دے ۔ اب جہنم سب برے لوگوں کا نوالہ کر جائے گی ۔ وہ برے لوگوں کو اس طرح جانتی پہچانتی ہے جس طرح تم اپنی اولاد کو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ مومن صاف بچ جائیں گے ۔ سنو جہنم کے داروغوں کے قد ایک سو سال کی راہ کے ہیں ان میں سے ہر ایک کے پاس گرز ہیں ایک مارتے ہیں تو سات لاکھ آدمیوں کا چورا ہو جاتا ہے ۔ مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اپنے رب کی ذات پاک سے امید ہے کہ بدر اور حدیبیہ کے جہاد میں جو ایمان دار شریک تھے ان میں سے ایک بھی دوزخ میں نہ جائے گا یہ سن کر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا یہ کیسے ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک اس پر وارد ہونے والا ہے ، تو آپ نے اس کے بعد کی دوسری آیت پڑھ دی کہ متقی لوگ اس سے نجات پاجائیں گے اور ظالم لوگ اسی میں رہ جائیں گے ۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ جس کے تین بچے فوت ہوگئے ہوں اسے آگ نہ چھوئے گی مگر صرف قسم پوری ہونے کے طور پر ۔ اس سے مراد یہی آیت ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بخار چڑھا ہوا تھا جس کی عیادت کے لئے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ تشریف لے چلے آپ نے فرمایا کہ جناب باری عزوجل کا فرمان ہے کہ یہ بخار بھی ایک آگ ہے میں اپنے مومن بندوں کو اس میں اس لئے مبتلا کرتا ہوں کہ یہ جہنم کی آگ کا بدلہ ہوجائے ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی فرمایا کر پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سورہ قل ہواللہ احد دس مرتبہ پڑھ لے اس کے لئے جنت میں ایک محل تعمیر ہوتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پھر تو ہم بہت سے محل بنا لیں گے آپ نے جواب دیا اللہ کے پاس کوئی کمی نہیں وہ بہتر سے بہتر اور بہت سے بہت دینے والا ہے ۔ اور جو شخص اللہ کی راہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھ لے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحوں میں لکھ لے گا ۔ فی الواقع ان کا ساتھ بہترین ساتھیوں کا ساتھ ہے ۔ اور جو شخص کسی تنخواہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی خوشی کے لئے مسلمان لشکروں کی ، ان کی پشت کی طرف سے حفاظت کرنے کے لئے پہرہ دے وہ اپنی آنکھ سے بھی جہنم کی آگ کو نہ دیکھے گا مگر صرف قسم پوری کرنے کے لئے ، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے تم میں سے ہر ایک اس پر وارد ہونے والا ہے ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بھی سات سو گنا زیادہ اجر رکھتا ہے اور روایت میں ہے سات ہزار گنا ۔ ابو داؤد میں ہے کہ نماز روزہ اور ذکر اللہ ، اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا درجہ رکھتے ہیں ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس آیت سے گزرنا ہے ۔ عبدالرحمن کہتے ہیں مسلمان تو پل صراط سے گزر جائیں گے اور مشرک جہنم میں جائیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دن بہت سے مرد عورت اس پرسے پھسل جائیں گے ۔ پل صراط پر جانے کے بعد پرہیزگار تو پار ہوجائیں گے ، ہاں کافر گنہگار اپنے اپنے اعمال کے مطابق نجات پائیں گے ۔ جیسے عمل ہوں گے اتنی دیر وہاں لگ جائے گی ۔ پھر نجات یافتہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی سفارش کریں گے ۔ ملائیکہ شفاعت کریں گے اور انبیاء بھی ۔ پھر بہت سے لوگ تو جہنم میں سے اس حالت میں سے نکلیں گے کہ آگ انہیں کھا چکی ہوگی مگر چہرے کی سجدہ کی جگہ بچی ہوئی ہو گی ۔ پھر اپنے اپنے باقی ایمان کے حساب سے دوزخ سے نکالے جائیں گے ۔ جن کے دلوں میں بقدر دینار کے ایمان ہوگا وہ اول نکلیں گے ، پھر اس سے کم والے ، یہاں تک کہ رائی کے دانے کے برابر ایمان والے ، پھر اس سے کم والے ، پھر اس سے بھی کمی والے ، پھر وہ جس نے اپنی پوری عمر میں لا الہ الا اللہ کہہ دیا ہو گو کچھ بھی نیکی نہ کی ہو پھر تو جہنم میں وہی رہ جائیں گے جن پر ہمیشہ اور دوام لکھا جا چکاہے ۔ یہ تمام خلاصہ ہے ان احادیث کا جو صحت کے ساتھ آچکی ہیں ۔ پس پل صراط پر جانے کے بعد نیک لوگ پار ہوجائیں گے اور بد لوگ کٹ کٹ کر جہنم میں گر پڑیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] پل صراط سے ہر ایک کو گزرنا ہے :۔ یعنی ہر شخص کو خواہ وہ مسلم ہو، کافر، نیک ہو یا بد ایک دفعہ ضرور جہنم کے کنارے لا کھڑا کیا جائے گا اور یہ اللہ کی طرف سے ایسی طے شدہ بات ہے جس کا کبھی خلاف نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- (١) سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : سب لوگ دوزخ پر پہنچیں گے پھر اپنے اپنے اعمال لے لحاظ سے واپس ہوں گے۔ پہلا گروہ تو بجلی کی چمک کی طرح نکل جائے گا، دوسرا ہوا کی طرح، تیسرا گھڑ سوار کی طرح، چوتھا اونٹ کی طرح، پانچواں دوڑنے والے کی طرح اور چھٹا جیسے آدمی پیدل چلتا ہو (ترمذی، ابو اب التفسیر)- (٢) اور سیدنا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ یہ پل صراط کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ ایک پل ہے جسے جہنم کی پشت پر رکھیں گے۔ یہ پل پہلوان کے گرنے کا مقام ہے۔ اس پر سنسیاں ہیں۔ آنکڑے ہیں، چوڑے چوڑے کانٹے ہیں، ان کا سرخم دار سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوگا جو نجد کے ملک میں ہوتے ہیں۔ مسلمان اس پر سے پلک جھپکنے کی طرح، بجلی کی طرح، آندھی کی طرح، تیز گھوڑوں کی طرح اور سانڈنیوں کی طرح گزر جائیں گے۔ بعض صحیح و سلامت وہاں سے بچ کر نکل جائیں گے اور کچھ زخمی ہو کر اور چھل چھلا کر اور بعض دوزخ میں گرپڑیں گے۔ آخری شخص جو پل صراط سے پار ہوگا اسے کھینچ کھینچ کر پار کریں گے۔ پھر جو لوگ خود نجات پاجائیں گے وہ ان دوزخ میں گرے ہوئے مسلمانوں کے لئے اللہ سے مطالبہ اور تقاضا کرنے لگیں گے حتیٰ کہ جس کے دل میں رائی بھر بھی ایمان ہوگا اللہ اسے دوزخ سے نکال لے گا۔ بشرطیکہ اس نے اللہ سے شرک نہ کیا ہو۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22؀ۙ ) 75 ۔ القیامة :22) ۔۔ طویل حدیث سے اقتباس)- ورود سے مراد دخول نہیں :۔ بعض روایات میں وارد کے معنی دخول لئے گئے ہیں یعنی ہر شخص کو کم از کم ایک دفعہ ضرور جہنم میں داخل ہونا ہوگا۔ یہ بات درست نہیں۔ ایک تو ایسی روایات سندا ً ناقابل اعتماد ہیں۔ دوسرے خود قرآن کریم اور بہت سی صحیح احادیث کے خلاف ہیں اور تیسرے لغوی لحاظ سے بھی یہ مفہوم غلط ہے۔ ورود کا معنی کسی جگہ پر جا پہنچنا ہے۔ اس میں داخل ہونا نہیں۔ (اسی سورة کا حاشیہ نمبر ٧٧ ملاحظہ فرمائیے)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۔۔ : لغت کے اعتبار سے ” وارد ہونے “ کے معنی ” داخل ہونا “ اور ” اوپر سے گزرنا “ دونوں ہوسکتے ہیں، اس لیے ترجمہ ” وارد ہونے والا “ ہی کردیا ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں ” وارد ہونے “ سے مراد جسر (پل) سے گزرنا ہے، جسے بعض احادیث میں ” صراط “ بھی کہا گیا ہے۔ عام لوگوں نے فارسی اور عربی کو جمع کرکے اس کا نام ” پل صراط “ رکھ لیا ہے۔ یہ پل چونکہ جہنم کے اوپر رکھا جائے گا، اس لیے یہ جہنم پر سے گزرنا ہی ہے۔ متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ ہر نیک و بد اور ہر کافر و مومن کو اس پل پر سے گزرنا پڑے گا۔ جن مفسرین نے اس کے معنی ” داخل ہونا “ کیے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حدیث کے مطابق ” تَحِلَّۃَ الْقَسْمِ “ یعنی قسم پوری کرنے کے لیے ہر مومن و کافر ایک مرتبہ جہنم میں داخل ہوگا، مگر مومنوں پر وہ آگ ٹھنڈی اور باعث رحمت بنادی جائے گی۔ مگر پہلا معنی راجح ہے، اگر کسی حدیث میں لفظ ” دخول “ (داخل ہونا) آیا ہے تو صراط والی حدیث کے مطابق اس سے مراد بھی گزرنا ہے۔ اس معنی سے کتاب و سنت کے دلائل کے درمیان تطبیق ہوجاتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا، یعنی کوئی انسان مومن یا کافر ایسا نہ رہے گا جس کا ورود جہنم پر نہ ہو ورود سے مراد دخول نہیں بلکہ عبور ہے جیسا کہ ابن مسعود کی ایک روایت میں لفظ مرور بھی آیا ہے۔ اور اگر دخول مراد لیا جاوے تو مومنین متقین کا دخول اس طرح ہوگا کہ جہنم ان کے لئے برد وسلام بن جائے گی ان کو اس کی کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی جیسا کہ حضرت ابو سمیہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی نیک آدمی یا فاجر آدمی باقی نہ رہے گا جو ابتداء جہنم میں داخل نہ ہو مگر اس وقت مومنین متقین کے لئے جہنم برد وسلام بن جائے گی جیسے ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے نار نمرود برد وسلام بنادی گئی تھی۔ اس کے بعد مومنین کے یہاں سے نجات دے کر جنت میں لے جایا جائے گا یہی معنے آیت کے اس اگلے جملے کے ہیں ثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا یہ مضمون حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے اور قرآن کریم میں جو لفظ ورود کا آیا ہے اگر اس کے معنے دخول کے بھی لئے جاویں تو دخول بطور عبور کے مراد ہوگا اس لئے کوئی تضاد نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُہَا۝ ٠ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْـمًا مَّقْضِيًّا۝ ٧١ۚ- ورد - الوُرُودُ أصله : قصد الماء، ثمّ يستعمل في غيره . يقال : وَرَدْتُ الماءَ أَرِدُ وُرُوداً ، فأنا وَارِدٌ ، والماءُ مَوْرُودٌ ، وقد أَوْرَدْتُ الإبلَ الماءَ. قال تعالی: وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] والوِرْدُ : الماءُ المرشّحُ للوُرُودِ ، والوِرْدُ : خلافُ الصّدر،- ( ور د ) الورود - ۔ یہ اصلی میں وردت الماء ( ض ) کا مصدر ہے جس کے معنی پانی کا قصد کرنے کے ہے ۔ پھر ہر جگہ کا قصد کرنے پر بولا جاتا ہے اور پانی پر پہنچنے والے کو ورود اور پانی کو مردود کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] قرآن میں ہے : ۔ اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے الوادر اس پانی کو کہتے ہیں جو وادر ہونے کے لئے تیار کیا گیا ہو - حتم - الحَتْم : القضاء المقدّر، والحاتم : الغراب الذي يحتّم بالفراق فيما زعموا .- ( ح ت م ) الحتم کے معنی قضاء مقدر کے ہیں ۔ الحاتم کا لاکوہ جو اہل عرب کے خیال کے مطابق کائیں کائیں کرکے جدائی ڈال دیتا ہے ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧١) اور انبیاء کرام ومرسلین کے علاوہ تم میں سے کوئی بھی نہیں جس کا دوزخ پر سے گزر نہ ہو (خواہ داخل ہوں یا اس کو یاد کریں) یہ فیصلہ لازم تاکید کیا ہوا ہے جو ضرور ہو کر رہے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُہَاج کانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ) ” - اس آیت کا جو مفہوم عام طور پر سمجھا گیا ہے مجھے اس سے اتفاق ہے اور وہ یہ ہے کہ نوع انسانی کے تمام افراد کو جہنم کے اوپر ” پل صراط “ پر سے گزرنا ہوگا۔ گویا یہ وہی ” الصراط “ ہوگا جسے ” صراط مستقیم “ کہا گیا ہے ‘ جس پر گامزن ہونے کے ہم دعوے دار ہیں۔ یہی صراط مستقیم قیامت کے دن ” پل صراط “ بن جائے گا۔ اہل جنت اس روشنی میں چلتے ہوئے جو انہیں عطا کی جائے گی بڑی سرعت اور آسانی کے ساتھ پل صراط کو پار کر کے جنت میں داخل ہوجائیں گے ‘ جبکہ اہل جہنم اندھیرے میں ٹھوکریں کھا کھا کر نیچے آگ میں گرتے جائیں گے۔ یہ مضمون سورة الحدید اور سورة التحریم کے مطالعے کے دوران زیادہ وضاحت سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آیت زیر نظر کے مطابق ہر انسان کو اس طریقے سے جہنم پر سے گزرنا ہوگا۔ اہل جنت کو اس پر سے گزارنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے جہنم کا مشاہدہ کرلیں اور انہیں اندازہ ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کی مغفرت کر کے انہیں کس ہولناک انجام سے بچایا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :44 وارد ہونے کے معنی روایات میں داخل ہونے کے بیان کیے گئے ہیں ، مگر ان میں سے کسی کی سند بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی ۔ اور پھر یہ بات قرآن مجید اور ان کثیر تعداد صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں مومنین صالحین کے دوزخ میں جانے کی قطعی نفی کی گئی ہے ۔ مزید برآں لغت میں بھی درود کے معنی دخول کے نہیں ہیں ۔ اس لیئے اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ جہنم پر گزر تو سب کا ہو گا مگر ، جیسا کہ بعد والی آیت بتا رہی ہے ، پرہیزگار لوگ اس سے بچا لیئے جائیں گے اور ظالم اس میں جھونک دیئے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: اس سے مراد پل صراط ہے جو دوزخ ہی پر بنا ہوا ہے، اور اس پل پر سے ہر شخص کو گذرنا ہوگا، چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، نیک ہو یا بد عمل، پھر جیسے اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ نیک لوگ تو اس پل سے اس طرح گذر جائیں گے کہ انہیں دوزخ کی ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہوگی۔ اور کافر اور بد عمل لوگوں کو دوزخ میں گرا دیا جائے گا۔ پھر جن کے دلوں میں ایمان ہوگا۔ انہیں تو اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور جن کے دلوں میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔ وہ دوزخ میں پڑے رہیں گے۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ۔ اور نیک لوگوں کو دوزخ سے گذارنے کی حکمت یہ بھی ہے کہ جہنم کا ہولناک نظارہ دیکھنے کے بعد جنت کی قدر و قیمت یقینا زیادہ ہوگی۔