72۔ 1 اس کی تفسیر صحیح حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم کے اوپر پل بنایا جائے گا جس میں ہر مومن و کافر کو گزرنا ہوگا۔ مومن تو اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بدیر گزر جائیں گے، کچھ تو پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور کچھ ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح اور کچھ عمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں کی طرح گزر جائیں گے یوں کچھ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی تاہم پل عبور کرلیں گے کچھ جہنم میں گرپڑیں گے جنہیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا۔ لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے اور سب جہنم میں گرپڑیں گے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے وفات پا گئے ہوں، اسے آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم حلال کرنے کے لئے (البخاری) یہ قسم وہی ہے جسے اس آیت میں حَتْمًا مَّقْضِیًّا (قطعی طے شدہ امر) یعنی اس کا در جہنم میں صرف پل پر گزرنے کی حد تک ہی ہوگا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر وایسر التفاسیر)
ۚثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا ۔۔ : یعنی پھر ہم پرہیزگاروں کو جہنم سے بچا لیں گے (صراط سے سلامت گزار کر یا صراط سے جہنم میں گرنے کے بعد) اور کافروں کو ہمیشہ کے لیے اسی میں گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔ انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین اور عام مسلمان جہنم کے اوپر صراط سے اپنے اعمال کے مطابق تیزی سے یا گرتے پڑتے گزر جائیں گے اور کافر اور زیادہ گناہ گار مسلمان پل پر سے جہنم میں گرپڑیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو سزا پوری ہونے کے بعد یا شفاعت سے یا محض اپنے فضل سے جہنم سے نکال لے گا اور صرف کافر و مشرک ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ اس کی دلیل ابوسعید خدری (رض) کی حدیث ہے، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخرت میں رب تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر فرمایا، اس میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ثُمَّ یُؤْتی بالْجَسْرِ فَیُجْعَلُ بَیْنَ ظَھْرَيْ جَھَنَّمَ ، قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا الْجَسْرُ ؟ قالَ مَدْحَضَۃٌ مَزِلَّۃٌ عَلَیْہِ خَطَاطِیْفُ وَکَلاَلِیْبُ ، وَحَسَکَۃٌ مُفَلْطَحَۃٌ لَھَا شَوْکَۃٌ عَقِیْفَۃٌ تَکُوْنُ بِنَجْدٍ ، یُقَالُ لَھَا السَّعْدَانُ ، الْمُؤْمِنُ عَلَیْھَا کَالطَّرْفِ وَکَالْبَرْقِ وَکَالرِّیْحِ وَکَأَجَاوِیْدِ الْخَیْلِ وَالرِّکَابِ ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ، وَنَاجٍ مَخْدُوْشٌ، وَمَکْدُوْسٌ فِيْ نَارِ جَھَنَّمَ ، حَتّٰی یَمُرَّ آخِرُھُمْ یُسْحَبُ سَحْبًا، فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِيْ مُنَاشَدَۃً فِي الْحَقِّ ، قَدْ تَبَیَّنَ لَکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِ یَوْمَءِذٍ لِلْجَبَّارِ ، وَ إِذَا رَأَوْا أَنَّھُمْ قَدْ نَجَوْا فِيْ إِخْوَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا إِخْوَانُنَا کَانُوْا یُصَلُّوْنَ مَعَنَا وَیَصُوْمُوْنَ مَعَنَا وَیَعْمَلُوْنَ مَعَنَا، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالَی : اذْھَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالَ دِیْنَارٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجُوْہُ ۔۔ فَیَشْفَعُ النَّبِیُّوْنَ وَالْمَلَاءِکَۃُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ فَیَقُوْلُ الْجَبَّارُ بَقِیَتْ شَفَاعَتِيْ ، فَیَقْبِضُ قَبْضَۃً مِنَ النَّارِ فَیُخْرِجُ أَقْوَامًا قَدِ امْتُحِشُوْا ) [ بخاری، التوحید، باب : ( وجوہ یومئذ ناضرۃ۔۔ ) : ٧٤٣٩، عن أبي سعید الخدري (رض)] ” پھر حسر (پل) کو لایا جائے گا اور اسے جہنم کے درمیان رکھ دیا جائے گا۔ “ ہم نے کہا : ” یا رسول اللہ اور وہ حسر (پل) کیا چیز ہے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” وہ بہت پھسلانے والا ہے، اس پر کنڈے اور آنکڑے ہیں اور بہت چوڑے گوگھرو (ایک کانٹا جو سہ گوشہ ہوتا ہے) ، جن میں مڑے ہوئے کانٹے ہیں، جو نجد میں ہوتے ہیں، انھیں سعدان کہتے ہیں، مومن اس پر سے نگاہ کی طرح اور بجلی کی طرح اور آندھی کی طرح اور بہترین گھڑ سواروں اور اونٹ کے سواروں کی طرح گزر جائیں گے، پھر کوئی صحیح سلامت بچ کر نکلنے والا ہوگا، کوئی زخمی ہو کر بچ نکلنے والا، کوئی جہنم کی آگ میں گرا دیا جانے والا، یہاں تک کہ ان کا آخری شخص گھسٹتا ہوا گزر جائے گا۔ تو تم مجھ سے اس حق کا، جو بالکل واضح ہوچکا ہو، اس سے زیادہ مطالبہ کرنے والے نہیں جس قدر مومن اپنے بھائیوں کے بارے میں اس دن جبار (اللہ تعالیٰ ) سے مطالبہ کرے گا اور اس وقت جب وہ دیکھیں گے کہ وہ بچ نکلے ہیں، کہیں گے، اے ہمارے رب ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ عمل کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جاؤ اور جسے پاؤ کہ اس کے دل میں دینار کے برابر ایمان ہے اسے نکال لو ۔۔ (لمبی حدیث ہے جس میں نصف دینار کے برابر ایمان والوں کو، پھر ذرہ برابر ایمان والوں کو آگ سے نکالنے کا ذکر ہے) چناچہ انبیاء، فرشتے اور مومن شفاعت کریں گے، پھر جبار فرمائے گا، میری شفاعت باقی رہ گئی تو وہ آگ میں سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو نکالے گا جو کوئلہ ہوچکے ہوں گے۔ “
ثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِـمِيْنَ فِيْہَا جِثِيًّا ٧٢- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - جثی - جَثَا علی رکبتيه يَجْثُو جُثُوّاً وجِثِيّاً فهو جَاثٍ ، نحو : عتا يعتو عتوّا وعتيّا، وجمعه : جُثِيّ نحو : باک وبكيّ ، وقوله عزّ وجل : وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيها جِثِيًّا [ مریم 72] ، يصح أن يكون جمعا نحو : بكي، وأن يكون مصدرا موصوفا به، والجاثية في قوله عزّ وجل : وَتَرى كُلَّ أُمَّةٍ جاثِيَةً [ الجاثية 28] فموضوع موضع الجمع، کقولک : جماعة قائمة وقاعدة .- ( ج ث و ) جثا - ( ن ) جثوا وجثیا ۔ الرجل گھٹنوں کے بل بیٹھنا یہ عتا ( ن) عتوا وعتیا کی طرح ( باب نصر سے آتا ہے ) جاث ( صیغہ صفت ) ج جثی جیسے باک وبلی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الِمِينَ فِيها جِثِيًّا [ مریم 72] اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پرا ہوا چھوڑ دیں گے ۔ میں جثیا جاث کی جمع بھی ہوسکتی ہے اور مصدر بمعنی اسم فاعل بھی اور آیت کریمہ : ۔ وَتَرى كُلَّ أُمَّةٍ جاثِيَةً [ الجاثية 28] اور تم ہر ایک فرقے کو دیکھو گے کہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوگا میں ، ، جاثیۃ جمع کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
(٧٢) پھر ہم ان لوگوں کو جو کفر وشرک اور برائیوں سے بچنے والے تھے نجات دے دیں گے اور تمام مشرکین کو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہنے دیں گے۔
آیت ٧٢ (ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْہَا جِثِیًّا ) ” - یعنی اہل ایمان اور اہل تقویُٰ پل پر سے گزرتے جائیں گے اور مجرم لوگ نیچے جہنم میں گرتے جائیں گے۔