کثرت مال فریب زندگی ۔ اللہ کی صاف صریح آیتوں سے پروردگار کے دلیل وبرہان والے کلام سے کفار کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا وہ ان سے منہ موڑ لیتے ہیں دیدے پھیر لیتے ہیں اور اپنی ظاہری شان وشوکت سے انہیں مرعوب کرنا چاہتے ہیں ۔ کہتے ہیں بتاؤ کس کے مکانات پر تکلف ہیں اور کس کی بیٹھکیں سجی ہوئی اور بارونق ہیں ؟ پس ہم جو کہ مال ودولت ، شان وشوکت ، عزت وآبرو میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں ہم اللہ کے پیارے ہیں یا یہ جو کہ چھپے پھرتے ہیں ؟ کھانے پینے کو نہیں پاتے ، کہیں ارقم بن ابو ارقم کے گھر چھپتے ہیں ، کہیں اور ، ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کافروں نے کہا ( لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ۭ وَاِذْ لَمْ يَهْتَدُوْا بِهٖ فَسَيَقُوْلُوْنَ ھٰذَآ اِفْكٌ قَدِيْمٌ 11 ) 46- الأحقاف:11 ) اگر یہ دین بہتر ہوتا تو اسے پہلے ہم مانتے یا یہ ؟ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ ( انومن لک واتبعک الا رزلون ) تیرے ماننے والے تو سب غریب محتاج لوگ ہیں ہم تیرے تابعدار بن نہیں سکتے ۔ اور آیت میں ہے کہ اسی طرح انہیں دھوکہ لگ رہا ہے اور کہہ اٹھتے ہیں کہ کیا یہی وہ اللہ کے پیارے بندے ہیں جنہیں اللہ نے ہم پر فضیلت دی ہے ؟ پھر ان کے اس مغالطے کا جواب دیا کہ ان سے پہلے ان سے بھی ظاہر داری میں بڑھے ہوئے اور مالداری میں آگے نکلے ہوئے لوگ تھے لیکن ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ہم نے انہیں تہس نہس کر دیا ۔ ان کی مجلسیں ، ان کے مکانات ان کی قوتیں ، ان کی مالداریاں ان سے سوا تھیں ۔ شان وشوکت میں ، ٹیپ ٹاپ میں ، تکلفات میں ، امارت میں اور شرافت میں ان سے کہیں زیادہ تھے ۔ ان کے تکبر اور عناد کی وجہ سے ہم نے ان کا بھس اڑا دیا ۔ غارت اور برباد کر دیا ۔ فرعونیوں کو دیکھ لو انکے باغات انکی نہریں انکی کھیتاں انکے شاندار مکانات اور عالیشان محلات اب تک موجود ہیں اور وہ غارت کر دیے گئے مچھلیوں کا لقمہ بن گئے ۔ مقام سے مراد مسکین اور نعمیتں ہیں ، ندی سے مراد مجلسیں اور بیٹھکیں ہیں ۔ عرب میں بیٹھکوں اور لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں کو نادی اور ندی کہتے ہیں جیسے آیت ( فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ۭ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ 29 ) 29- العنكبوت:29 ) میں ہے یہی ان مشرکین کا قول تھا کہ ہم بہ اعتبار دنیا تم سے بہت بڑھے ہوئے ہیں لباس میں مال میں متاع میں صورت شکل میں ہم تم سے افضل ہیں ۔
73۔ 1 یعنی قرآنی دعوت کا مقابلہ یہ کفار مکہ فقرا مسلمین اور اغنیائے قریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں، کہ مسلمانوں میں عمار، بلال، صہیب (رض) جیسے فقیر لوگ ہیں، انکا دار الشوریٰ دار ارقم ہے۔ جب کہ کافروں میں ابو جہل، نفر بن حارث، عتبہ، شیبہ وغیرہ جیسے رئیس اور ان کی عالی شان کوٹھیاں اور مکانات ہیں، ان کی اجتماع گاہ بہت عمدہ ہے۔
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ ۔۔ : ” مَّقَامًا “ جائے قیام، یعنی رہنے کی جگہ، گھر وغیرہ۔ ” نَدِيًّا “ ” نَدَوْتُ الْقَوْمَ أَنْدُوْھُمْ “ (میں نے قوم کو جمع کیا) سے ہے۔ ” اَلنَّادِیْ “ ” اَلنَّدِیُّ “ اور ” اَلْمُنْتَدَی “ کا معنی لوگوں کی مجلس، اکٹھے ہونے کی جگہ۔ کفار جب اللہ تعالیٰ کی واضح آیات سنتے اور ان کا حق ہونا اس قدر واضح ہوتا کہ وہ کسی صورت نہ ان کا جواب دے پاتے اور نہ غلط کہہ سکتے، تو اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کے لیے دنیوی لحاظ سے کمزور ایمان والوں سے کہتے کہ اپنی حالت اور ہماری حالت دیکھو کس کے رہنے کے مکانات بہتر اور کس کی مجلس زیادہ شان و شوکت والی اور سجی ہوئی ہے ؟ گویا انھوں نے دنیوی سازو سامان اور شان و شوکت کو اپنے حق پر ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ان پر راضی ہونے کی دلیل قرار دیا۔ قرآن مجید میں تمام انبیاء کے زمانے کے کفار کی یہی سوچ بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے سورة احقاف (١١) ، انعام (٥٣) ، سبا (٣٥) ، مومنون (٥٥، ٥٦) ، مریم (٧٧) ، کہف (٣٥، ٣٦) اور حم السجدہ (٥٠) ۔
خلاصہ تفسیر - اور جب ان منکر لوگوں کے سامنے ہماری (وہ) کھلی کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں (جن میں مومنین کا حق پر ہونا اور کفار کا باطل پر ہونا مذکور ہوتا ہے) تو یہ کافر لوگ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ (یہ بتلاؤ ہم) دونوں فریقوں میں (یعنی ہم میں اور تم میں دنیا میں) مکان کس کا زیادہ اچھا ہے اور محفل کس کی اچھی ہے (یعنی ظاہر ہے کہ خانگی اور مجلسی ساز و سامان اور اہل و اعوان میں ہم بڑھے ہوئے ہیں۔ یہ مقدمہ تو محسوس ہے اور دوسرا مقدمہ عرفی ہے کہ انعام و احسان اور عطاء نعمت اس شخص کے لئے ہوتا ہے جو دینے والے کے نزدیک محبوب اور پسند ہو، ان دونوں مقدموں سے ثابت ہوا کہ ہم اللہ کے محبوب و مقبول ہیں اور تم مغضوب و مخذول۔ آگے اللہ تعالیٰ ایک جواب الزامی اور ایک تحقیقی دیتے ہیں۔ پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں) اور (یہ نہیں دیکھتے کہ) ہم نے ان سے پہلے بہت سے ایسے ایسے گروہ (ہیبت ناک سزاؤں سے کہ بالیقین عذاب تھے) ہلاک کئے ہیں جو سامان اور نمود میں ان سے بھی (کہیں زیادہ) اچھے تھے (اس سے معلوم ہوا کہ مقدمہ ثانیہ غلط ہے بلکہ کسی حکمت اور مصلحت سے نعمت دنیویہ مبغوض و مردود کو بھی دی جاسکتی ہے، آگے دوسرا جواب ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجئے کہ جو لوگ گمراہی میں ہیں (یعنی تم) اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دیتا چلا جا رہا ہے (یعنی اس نعمت دنیوی میں یہ حکمت ہے کہ مہلت دے کر اتمام حجت کر دے جیسا دوسری آیت میں ہے اَوَ لَم نُعَمِّرکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فیہِ مَن تَذَ کَّرَ ، الخ اور یہ مہلت چند روزہ ہے) یہاں تک کہ جس چیز کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے جب اس کو دیکھ لیں گے خواہ عذاب کو (دنیا میں) خواہ قیامت کو (دوسرے عالم میں) سو (اس وقت) ان کو معلوم ہوجاوے گا کہ برا مکان کس کا ہے اور کمزور مددگار کس کے ہیں (یعنی دنیا میں جو اپنے اہل مجلس کو اپنا مددگار سمجھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں وہاں معلوم ہوگا کہ ان میں کتنا زور ہے کیونکہ وہاں تو کسی کا کوئی زور ہوگا ہی نہیں۔ اسی کو اضعف فرمایا تھا اور (مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ) اللہ تعالیٰ ہدایت والوں کو (دنیا میں تو) ہدایت بڑھاتا ہے (یعنی اصل سرمایہ یہ ہے کہ اگر اس کے ساتھ مال و دولت نہ ہو مضر نہیں) اور (آخرت میں ظاہر ہوگا کہ) جو نیک کام ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب میں بھی بہتر ہے اور انجام میں بھی بہتر ہیں (پس ان کو ثواب میں بڑی بڑی نعمتیں ملیں گی جن میں مکان اور باغات سب کچھ ہوں گے اور انجام ان اعمال کا ابدیت اور دوام ہے ان نعمتوں کا، پس کیفیةً وکمیةً مسلمانوں ہی کی حالت اخیرہ بہتر ہوگی اور اخیر ہی کا اعتبار بھی ہے) ۔- معارف و مسائل - خَيْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِيًّا، یہاں کفار نے مسلمانوں کو مغالطہ دینے کے لئے دو چیزیں پیش کیں۔ اول دنیا کا مال و دولت اور ساز و سامان دوسرے چشم خدم اور اپنا جتھہ اور جماعت کہ یہ بظاہر کفار کو بہ نسبت مسلمانوں کے زیادہ حاصل تھی اور یہی دو چیزیں ہیں جو انسان کے لئے نشہ کا کام کرتی ہیں اور ان کا فخر و غرور اچھے اچھے عقلمند ذہین لوگوں کو غلط راستوں پر ڈال دیتا ہے اور پچھلے دور کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور حکومت و سلطنت والوں کی عبرت خیز تاریخ سے غافل کر کے اپنے موجودہ حال کو اپنا ذاتی کمال اور دائمی راحت کا ذریعہ باور کرا دیتا ہے۔ بجز ان لوگوں کے جو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق دنیا کے مال و دولت اور عزت و جاہ کسی کو اپنا ذاتی کمال یا دائمی ساتھی نہ سمجھیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر زبان سے بھی ادا کریں اور اس کی دی ہوئی نعمت کو خرچ کرنے میں بھی اس کے احکام کی پابندی کریں اور اس کے فنا یا کم ہوجانے کے خطرہ سے بھی کسی وقت غافل نہ ہوں تو وہی اس شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ جیسے انبیاء (علیہم السلام) میں، حضرت سلیمان اور داؤد (علیہما السلام) اور صحابہ کرام میں بہت سے اغنیاء صحابہ اور اسی طرح امت میں لاکھوں اولیاء، صلحاء جن کو حق تعالیٰ نے دنیا کا مال و دولت بھی خوب عطا فرمایا اور دین کی دولت اور اپنا خوف بھی بےانتہاء۔- کفار کے اس مغالطہ کو قرآن حکیم نے اس طرح دور فرمایا کہ دنیا کی چند روزہ نعمت و دولت نہ اللہ کے نزدیک مقبول ہونے کی علامت ہو سکتی ہے نہ دنیا ہی میں وہ کسی ذاتی کمال کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ بہت سے بےعقل جاہلوں کو دنیا میں یہ چیزیں عقلاء اور دانشمندوں سے زیادہ مل جاتی ہیں۔ پچھلی تاریخ اٹھا کر دیکھو تو یہ حقیقت کھل جائے گی کہ ایسی ایسی بلکہ ان سے بھی زیادہ کتنی دولتوں اور شوکتوں کے ڈھیر زمین پر ہوتے دیکھے گئے ہیں۔- رہا حشم و خدم اور دوست و احباب کی کثرت سو اس کی حقیقت بھی اول تو دنیا ہی میں ظاہر ہوجاتی ہے کہ آڑے وقت میں کوئی کام نہیں آتا۔ پھر اگر دنیا میں وہ برابر خدمت کرتے بھی رہے تو وہ کَے دن کی، اس کے بعد محشر کے میدان میں ان کا کوئی ساتھی ہوگا ؟
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا ٠ۙ اَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِيًّا ٧٣- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔
(٧٣) اور جب نضر اور اس کے ساتھیوں کے سامنے ہمارے اوامرو نواہی کے بیان میں واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو یہ کافر ان لوگوں سے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے ہیں یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ ہم میں اور تم میں مکان کس کا زیادہ اچھا ہے اور محفل کس کی اچھی ہے۔
آیت ٧٣ (وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓالا اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِیًّا ” - کفار مکہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے تضحیک و استہزاء کے انداز میں سوال کرتے تھے کہ ذرا دیکھو تو سہی مجلسی شان و شوکت اور معاشرتی مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ہم دونوں گروہوں میں سے کون ساگروہ بہتر ہے۔ ایک طرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند فقراء و مساکین کو لے کر بیٹھے ہیں تو دوسری طرف ابو جہل اور ولید بن مغیرہ کی چوپالوں میں امراء و رؤساء کی چہل پہل ہے۔ ان دونوں گروہوں کی حیثیت و اہمیت کا بھلا آپس میں کیا تقابل اور موازنہ کہاں فرش خاک پر بیٹھے بلال ‘ ّ خباب ‘ ابو فکیہہ ‘ عمار اور یاسر (رض) جیسے ُ مفلس و قلاش اور غلام ‘ اور کہاں شاہانہ محفلوں میں سرداران قریش کی سج دھج اور شان و شوکت یہ وہی انداز ہے جو سورة الکہف میں دو افراد کے مکالمے کے دوران دیکھنے میں آتا ہے۔ وہاں بھی ایک دولت مند متکبر شخص نے اللہ کے بندے کو مخاطب کر کے بڑے طمطراق سے کہا تھا : (اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا ) ” میں تم سے بہت زیادہ ہوں مال میں اور بہت بڑھا ہوا ہوں نفری میں “
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :45 یعنی ان کا استدلال یہ تھا کہ دیکھ لو ، دنیا میں کون اللہ کے فضل اور اس کی نعمتوں سے نواز جا رہا ہے ۔ کس کے گھر زیادہ شاندار ہیں؟ کس کا معیار زندگی زیادہ بلند ہے ؟ کس کی محفلیں زیادہ ٹھاٹھ سے جمتی ہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہمیں میسر ہے اور تم اس سے محروم ہو تو خود سوچ لو کہ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم باطل پر ہوتے اور یوں مزے اڑاتے اور تم حق پر ہوتے اور اس طرح خستہ و در ماندہ رہتے ؟ مزید تشریح کے لیئے ملاحظہ ہو تفہیم القران ، جلد سوم ، حواشی 38 ، 37 ۔