Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شک و شبہ بیماری ہے بیماری سے مراد یہاں شک و شبہ ہے ۔ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود اور چند صحابہ سے یہی مروی ہے ۔ حضرت مجاہد عکرمہ ، حسن بصری ، ابو العالیہ ، ربیع بن انس ، قتادہ ، کا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت عکرمہ اور طاؤس نے اس کی تفسیر سے ریا اور ابن عباس سے اس کی تفسیر نفاق بھی مروی ہے ۔ زید بن اسلم فرماتے ہیں یہاں دینی بیماری مراد ہے نہ کہ جسمانی ۔ انہیں اسلام میں شک کی بیماری تھی اور ان کی ناپاکی میں اللہ تعالیٰ نے اور اضافہ کر دیا ۔ جیسے قرآن میں اس کا ذکر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ہے ۔ آیت ( فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ١٢٤؁ وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ ١٢٥؁ ) 9 ۔ التوبہ:125-124 ) یعنی ایمان والوں کے ایمان کو تقویت پہنچاتی اور وہ خوشیاں مناتے ہیں لیکن بیماری والوں کی ناپاکی اور پلیدی کو اور زیادہ کر دیتی ہے یعنی اس کی ابدی اور گمراہی بڑھ جاتی ہے ، یہ بدلہ بالکل ان کے عمل کے مطابق ہے ۔ یہ تفسیر ہی درست ہے ، ٹھیک اسی کے مثل یہ فرمان بھی ہے آیت ( وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ ) 47 ۔ محمد:17 ) یعنی ہدایت والوں کو ہدایت میں بڑھا دیتا ہے اور ان کو تقویٰ عطا فرماتا ہے ۔ آیت ( یکذبون کو یکذبون ) بھی قاریوں نے پڑھا ہے یہ دونوں خصلتیں ان میں تھیں جھٹلاتے بھی تھے اور جھوٹے بھی تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض منافقوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی قتل نہ کرنے کیوجہ وہی ہے جو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں یہ چرچے ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تو معلوم نہ ہو گا کہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفر کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا ہے ان کی نظریں تو صرف ظاہر داری پر ہوں گی جب ان میں یہ بات مشہور ہو جائے گی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام کے قبول کرنے سے رک نہ جائیں ۔ قرطبی فرماتے ہیں ہمارے علماء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ٹھیک اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت ( مولفتہ القلوب ) کو جن کے دل اسلام کی جانب مائل کئے جاتے تھے ۔ مال عطا فرمایا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ان کے اعتقاد بد ہیں ۔ حضرت امام مالک بھی منافقوں کو قتل نہ کرنے کی یہی وجہ بیان فرماتے ہیں جیسے محمد بن جہم ، قاضی اسماعیل اور ابہری نے نقل کیا ہے ۔ حضرت امام مالک سے بقول ابن ماجشون ایک وجہ یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ آپ کی امت کو معلوم ہو جائے کہ حاکم صرف اپنے علم کی بناء پر فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ قرطبی فرماتے ہیں گو علماء کا تمام مسائل میں اختلاف ہو لیکن اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ قاضی صرف اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کر سکتا ۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کو قتل کرنے سے رکنے کا سبب ان کا اپنی زبان سے اسلام کو ظاہر کرنا تھا گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا کہ ان کے دل اس کے الٹ ہے لیکن ظاہری کلمہ اس پہلی بات کی تردید کرتا تھا جس کی تائید میں بخاری مسلم وغیرہ کی یہ حدیث بھی پیش کی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ دیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال کی امان پا لیں گے اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ شریف کے کہتے ہی ظاہری احکام اسلام ان پر جاری ہو جائیں گے ۔ اب اگر ان کا عقیدہ بھی اس کے مطابق ہے تو آخرت والے دن نجات کا سبب ہو گا ورنہ وہاں کچھ بھی نفع نہ ہو گا لیکن دنیا میں تو مسلمانوں کے احرام ان پر جاری رہیں گے گو یہ لوگ یہاں مسلمانوں کی صفوں میں اور ان کی فہرست میں نظر آئیں گے لیکن آخرت میں عین پل صراط پر ان سے دور کر دئیے جائیں گے اور اندھیروں میں حیران و پریشان ہوتے ہوئے با آواز بلند مسلمانوں کو پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تھے تو سہی مگر تم فتنوں میں پڑ گئے اور انتظار میں ہی رہ گئے اور اپنی من مانی خواہشوں کے چکر میں پڑ گئے یہاں تک کہ حکم الٰہی آ پہنچا ۔ غرض دار آخرت میں بھی مسلمانوں کے پیچھے پڑے لپٹے رہیں گے لیکن بالآخر ان سے الگ کر دئیے جائیں گے اور ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا وہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر پڑیں لیکن سجدہ نہیں کر سکیں گے ۔ جیسے کہ احادیث میں مفصل بیان آ چکا ہے ۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ان کے قتل نہ کئے جانے کی یہ وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کی شرارتیں چل نہیں سکتی تھیں ۔ مسلمانوں کو باری تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ ان کی برائیوں سے محفوظ کر لیتا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر اللہ نہ کرے ایسے لوگ ہوں گے ان کا نفاق کھل جائے اور مسلمان بخوبی معلوم کرلیں تو وہ قتل کر دئیے جائیں گے ۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے کہ نفاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا لیکن آج کل وہ بےدینی اور زندیقیت ہے یہ بھی یاد رہے کہ زندیق جو لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہو اور وہ زندیق جو معلم نہ ہو ان دونوں میں فرق کیا جائے گا یا نہیں ؟ اور یہ ارتداد کئی کئی مرتبہ ہوا تب یہ حکم ہے یا صرف ایک مرتبہ ہونے پر ہی؟ پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اسلام لانا اور رجوع کرنا خود اس کی اپنی طرف سے ہو یا اس پر غلبہ پا لینے کے بعد بھی یہی حکم ہے؟ غرض اس باتوں میں اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیریں ۔ چودہ شخصوں کے نفاق کا تو آپ کو قطعی علم تھا ، یہ وہ بدباطن لوگ تھے جنہوں نے غزوہ تبوک میں مشورہ کر کے یہ امر طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دغابازی کریں اور آپ کے قتل کی پوری سازش کر چکے تھے طے ہوا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فلاں گھاٹی کے قریب پہنچیں تو آپ کی اونٹنی کو بدکا دیں اور بھڑک کر بھاگے گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں گر پڑیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی وقت وحی بھیج کر ان کی اس ناپاک سازش کا علم عطا کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضور حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر اس واقعہ کی خبر دی اور ان غداروں کے نام بھی بتلا دئیے پھر بھی آپ نے ان کے قتل کے احکام صادر نہ فرمائے ۔ ان کے سوا اور منافقوں کے ناموں کا آپ کو علم نہ تھا ۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے آیت ( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ ) 9 ۔ التوبہ:101 ) یعنی تمہارے آس پاس کے بعض اعرابی منافق ہیں اور بعض سرکش منافق مدینہ میں بھی ہیں تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں ۔ اور دوسری جگہ فرمایا آیت ( لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَةِ لَــنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَآ اِلَّا قَلِيْلًا ) 33 ۔ الاحزاب:60 ) اگرچہ منافق گندے دل والے اور فساد و تکبر والے اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ہم بھی انہیں نہ چھوڑیں گے اور مدینہ میں بہت کم باقی رہ سکیں گے بلکہ ان پر لعنت کی جائے گی جہاں پائے جائیں گے ، پکڑے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے ۔ ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم نہ تھا کہ کون کون ہے؟ ہاں ان کی مذموم خصلتیں جو بیان ہوئی تھیں یہ جس میں پائی جاتی تھیں اس پر نفاق صادق آتا تھا ۔ جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا آیت ( وَلَوْ نَشَاۗءُ لَاَرَيْنٰكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيْمٰهُمْ ) 47 ۔ محمد:30 ) یعنی اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں ان کو دکھا دیں لیکن تم ان کی نشانیوں اور ان کی دبی بچی زبان سے ہی انہیں پہچان لو گے ان منافقوں میں سب سے زیادہ مشہور عبداللہ بن ابی بن سلول تھا ۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی منافقانہ خصلتوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی بھی دی تھی باوجود اس کے جب وہ مر گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی اور اس کے دفن میں شرکت کی ۔ ٹھیک اسی طرح اور مسلمان صحابیوں کے ساتھ بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ذرا زور سے یاد دلایا تو آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا کہ لوگ چہ میگوئیاں کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابیوں کو مار ڈالا کرتے ہیں اور ایک صحیح روایت میں ہے استغفار کرنے یا نہ کرنے کا مجھے اختیار دیا گیا ۔ تو میں نے استغفار کو پسند کیا ۔ ایک اور روایت میں ہے اگر ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں بھی اس کی بخشش جانتا تو یقینا اس سے زیادہ مرتبہ استغفار کرتا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 بیماری سے مراد وہی کفر و نفاق کی بیماری ہے جس کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا منافقین کی علامات میں سے ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] مرض سے مراد نفاق، دین اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے حسد اور عناد ہے۔ پھر جوں جوں اسلام اور اہل اسلام کی شوکت بڑھتی گئی، ان کی بیماری میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔- [١٥] یہ جھوٹ ان کا وہی دعویٰ تھا جو وہ کہتے تھے کہ آیت (اٰمَنَّا باللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ ) ۝ۘ) (2 ۔ البقرة :8) جب کہ ان کے اعمال اور ان کی حرکات و سکنات اس دعویٰ کی مخالف سمت میں تھیں۔ اسی لیے انہیں دردناک عذاب ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا :- آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا ١٤٥؁ۙ ) 4 ۔ النسآء :145) بلاشبہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فِىْ قُلُوْبِهِمْ ) خبر مقدم ہے، جس سے حصر پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ترجمہ ” ان کے دلوں ہی میں “ کیا گیا ہے۔ - یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اللہ کو دھوکا دے جو عالم الغیب ہے اور مومنوں کو دھوکا دے جن سے زیادہ فراست والا کوئی ہو نہیں سکتا اور سمجھے کہ میں دھوکا دینے میں کامیاب ہوں۔ فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل ہی ایک ایسے مرض میں مبتلا ہیں، جس نے انھیں خود فریبی کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔ وہ مرض نفاق ہے جو کفر کو چھپانے کی کوشش کا نام ہے۔ اس بیماری سے بیشمار نفسیاتی بیماریاں مزید پیدا ہوتی اور بڑھتی چلی جاتی ہیں، مثلاً جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی، بد عہدی، بد زبانی جنھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافق کی نشانیاں قرار دیا ہے۔ اسی طرح فساد، خود پسندی، بےوقوفی، دو رخی جن کا ذکر آئندہ آیات میں ہے اور بہت سی دیگر بیماریاں مثلاً بزدلی، طمع، بخل، جہاد سے فرار وغیرہ جن کا ذکر سورة توبہ اور دیگر سورتوں میں ہے۔- بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ ) منافقین باطن میں کافر ہونے کی وجہ سے عذاب عظیم کے مستحق تھے، اب اسلام کے جھوٹے دعوے کی وجہ سے عذاب الیم یعنی دوہرے عذاب کے حق دار ٹھہرے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں فرمایا کہ ان کے دلوں میں بڑا مرض ہے سو اور بھی بڑھا دیا، اللہ نے ان کے مرض کو مرض اور بیماری اس کیفیت کو کہتے ہیں جس سے انسان اپنے اعتدال مناسب سے نکل جائے اور اس کے افعال میں خلل پیدا ہوجائے جس کا آخری نتیجہ ہلاکت اور موت ہوتا ہے ،- قرآن و حدیث کی اصطلاح میں ان نفسانی کیفیات کو بھی مرض کہا جاتا ہے جو نفس انسانی کے کمال میں خلل انداز ہوں اور جن کی وجہ سے انسان اپنے انسانی اعمال سے محروم ہوتا چلا جائے جس کا آخری نتیجہ روحانی موت و ہلاکت ہے،- حضرت جنید بغدادی نے فرمایا کہ دلوں کے امراض خواہشات نفسانی کے اتباع سے پیدا ہوتے ہیں جیسے بدن انسان کے امراض اخلاط انسان کی بےاعتدالی سے پیدا ہوتے ہیں اس آیت میں ان کے دلوں میں مخفی کفر کو مرض فرمایا گیا ہے جو روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے بڑا مرض ہے روحانی مرض ہونا تو ظاہر ہے کہ اوّل تو اپنے پیدا کرنے والے پالنے والے کی ناشکری اور اس کے احکام سے سرکشی جس کا نام کفر ہے یہ خود روح انسانی کے لئے سب سے بڑا مرض اور شرافت انسانی کے لئے بدترین داغ ہے دوسرے دنیا کی اغراض کی خاطر اس کو چھپاتے رہنا اور اپنی دل کی بات کو ظاہر کرنے کی بھی جرأت نہ ہونا یہ دوسری دنائت ہے جو روح کا بہت بڑا مرض ہے اور نفاق کا جسمانی مرض ہونا اس بناء پر ہے کہ منافق کے دل میں ہمیشہ یہ دغدغہ رہتا ہے کہ کہیں میرا اصلی حال نہ کھل جائے شب و روز اس کی فکر میں رہنا خود ایک جسمانی مرض ہے اس کے علاوہ اس مرض کا لازمی نتیجہ حسد ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کو دیکھ کر منافق کو جلن ہوگی مگر وہ مسکین اپنے دل کی سوزش کا اظہار بھی نہیں کرسکتا یہ اسباب ان کے جسمانی مرض بھی بن جاتے ہیں، - اور یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا مرض اور بھی بڑھادیا اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے جلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو یہ ترقی دینا ہے اور ہر وقت اس کے مشاہدات ہوتے رہتے ہیں اس لئے ان کا یہ مرض بڑہتا ہی رہتا ہے،- (٦) جھوٹ بولنے کا وبال :- آیات مذکورہ میں منافقین کے عذاب الیم کی وجہ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ یعنی ان کے جھوٹ بولنے کو قرار دیا ہے حالانکہ ان کے کفر ونفاق کا جرم سب سے بڑا تھا اور دوسرے جرائم مسلمانوں سے حسد ان کے خلاف سازشیں بھی بڑے جرائم تھے مگر عذاب الیم کا سبب ان کا جھوٹ بولنے کو قرار دیا اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے کی عادت ان کا اصلی جرم تھا اسی بری عادت نے ان کو کفر ونفاق تک پہنچا دیا تھا اس لئے جرم کی حیثیت اگرچہ کفر ونفاق کی بڑھی ہوئی ہے مگر ان سب خرابیوں کی جڑ اور بنیاد جھوٹ بولنا ہے اسی لئے قرآن کریم نے جھوٹ بولنے کو بت پرستی کے ساتھ جوڑ کر اس طرح ارشاد فرمایا ہے ،- فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (٣٠: ٢٢) یعنی بچو بت پرستی کی نجاست سے اور بچو جھوٹ بولنے سے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۝ ٠ ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۝ ٠ ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۝ ٠ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝ ١٠- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام :- «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین .- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دنیاوی سزائیں جرائم کے مطابق نہیں ہوتیں - منافقین کی مجرمانہ روش کفر کا کھلم کھلا اظہار کرنے والے کافروں کی مجرمانہ روش سے زیادہ سنگین تھی کیونکہ انہوں نے استہزاء اور دھوکہ وہی دونوں کو یک جا کرلیا تھا، جیسا کہ قول باری : یخادعون اللہ اور انما نحن مستھزون سے واضح ہے۔ یہ بات کفر میں زیادتی ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ : فی الدرک الاسفل من النار (جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے منافقین کی سزا اور آخرت میں عذاب کے استحقاق کی خبر دیتے ہوئے دنیا میں ان کے احکام اور شرک کا کھلم کھلا اظہار کرنے والوں کے احکام کے درمیان فرق رکھا ہے، یعنی ان کی طرف سے ایمان کے اظہار کی بنا پر ان سے قتل کا حکم رفع کردیا ہے اور وراثت وغیرہ کے اندر انہیں مسلمانوں جیسا قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دنیاوی سزائیں جرائم کی مقدار کے مطابق نہیں مقرر کی گئیں، بلکہ ان کی بنیاد ان مصالح پر رکھی گئی ہے جن کا علم اللہ کو ہے ۔ اور اسی علم کی بنیاد پر اللہ نے اپنے احکام جاری کئے ہیں، چناچہ اللہ نے محض زانی پر رجم کی سزا واجب کردی ہے اور توبہ کی بنا پر رجم کی یہ سزا زانی سے دور نہیں کی۔- آپ نہیں دیکھتے کہ ماعز کو رجم کرنے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق فرمایا : اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ یہ تو بہ ٹیکس اور چنگی وصول کرنے والا کرے تو اس کی بخشش ہوجائے۔- الغا مدیہ قبیلہ غامد سے تعلق رکھنے والی ایک عورت جس نے زنا کاری کا ارتکاب کیا تھا کو رجم کرنے کے بعد بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح ارشاد فرمایا تھا۔- کفر زنا سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ لیکن اگر ایک شخص کفر کرنے کے بعد توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہوجائے گی، چناچہ ارشاد باری ہے : قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ماسلف ) (آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے کفر کیا کہ اگر وہ باز آ جائیں تو ان کا سابقہ کفرکومعاف کردیا جائے گا۔ )- اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زنا کے قاذف کو اسی کوڑے لگانے کا حکم دیا، لیکن کفر کے قاذف پر کوئی حد اور سزا واجب نہیں کی، حالانکہ کفر زنا سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ شراب پینے والے پر حد واجب کردی، لیکن خون پینے والے اور مردار کھانے الے پر کوئی حد واجب نہیں کی۔- ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دنیاوی سزائیں جرائم کی مقدار کے مطابق مقرر نہیں کی گئیں۔ جب یہ بات عقل کے نزدیک جائز ہے کہ زنا، قذف اور سرقہ کے جرائم میں سرے سے کوئی حدواجب نہ کی جائے، بلکہ ایسے مجرموں کا معاملہ آخرت میں ملنے والی سزائوں پر مئوخر کردیا جائے تو عقلی طور پر یہ بھی جائز ہے کہ ان سزائوں کے مابین فرق رکھا جائے، یعنی بعض جرائم کی سزا بعض دوسرے جرائم کی نسبت زیادہ سخت رکھی جائے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ حدود کا اثبات قیاس کے ذریعے کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ان کے اثبات کا ذریعہ توقیف ، اشارع کی طرف سے راہنمائی) یا اجماع امت ہے، زیر بحث آیات میں اللہ سبحانہ نے منافقین کا احوال بیان کر کے انہیں ان کی حالت پر برقرار رہنے دیا اور ہمیں ان کے ساتھ قتال کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یہی چیز ہمارے درج بالا قول کی اصل اور بنیاد ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کی واجب کردہ حدود اور سزائوں کا نفاذ امام المسلمین، یعنی خلیفہ اور حاکم وقت نیز شرعی امور کے نگرانوں کا فعل ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو ان آلام و تکالیف کی ہے جو اللہ کی طرف سے مجرموں کو سزا کے طور پر دی جاتی ہیں۔- جب یہ بات ممکن ہے کہ ایک منافق کو دنیا کے اندر بیماری اور فقر و فاقہ کی صورت میں کوئی سزا نہ ملے، بلکہ اس کے برعکس اس کے لئے عیش و آرام کے ساتھ زندگی گزارنے کی چھوٹ ہو اور اس کے کفر و نفاق کی زسا کو آخرت پر مئوخر کردیا جائے، تو یہ بات بھی جائز ہے کہ اللہ ہمیں دنیا کے اندر منافق کو قتل کردینے اور اس کے کفر و نفاق کی سزا میں تجیل کرنے کے حکم کا پابند نہ کرے۔ - بعثت کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرہ سال مکہ میں گزارے اور اس دوران میں آپ مشرکین کو اللہ کی طرف بلاتے رہے اور اس کے پیغمبروں کی تصدیق کی دعوت دیتے رہے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین کے ساتھ قتال کرنے کا پابند نہیں کیا گیا، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ نرم ترین الفاظ اور لطیف ترین پیرائے میں انہیں دعوت اسلام دیں، چناچہ ارشاد ہوا : ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن صاے نبی، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو) نیز : واذا خاطبھم الجاھدن قالو اسلاماً (اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام) نیز : ادفع بالتیھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم و ما یکفا ھا الا الذین صبروا وما یلقاھا الا ذوحظ عظیم۔ (آپ بدی کو ایسی نیکی سے ٹال دیا کیجیے جو بہترین ہو تو پھر یہ ہوگا کہ جس شخص کی آپ سے عداوت ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرتے رہتے ہیں اور اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہوتا ہے) اسی طرح کی دیگر آیات جن میں بہترین انداز سے دین کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ - ہجرت کے بعد قتال کی فرضیت ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس مصلحت کا علم تھا جس کے تحت اس نے مکی زندگی میں قتال کا حکم نہیں دیا اور مدنی زندگی میں اس کا حکم دے دیا۔ چناچہ ہمارے بیان کردہ درج بالا اصول کی بنا پر یہ بات جائز ہوگئی کہ قتل و قتال کا حکم بعض قسم کے کافروں یعنی کھلم کھلا کفر کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ خاص ہوجائے اور اس حکم کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ نہ ہو جو ایمان کا اظہار کرتے اور کفر چھپائے رکھتے ہیں اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے منافق کا جرم دیگر مجرموں کے جرائم سے بڑھ کر ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠) ان کے دلوں میں شک، نفاق، نافرمانی اور اندھیرا ہے رب تعالیٰ ان کے شک نفاق نافرمانی اور اندھیرے میں اضافہ فرماتا ہے اور ان لوگوں کو آخرت میں ایسا تکلیف دہ عذاب ہوگا جس کی تکلیف ان کے دلوں میں ہوگی کیوں کہ وہ پوشیدہ اور خفیہ طریقہ پر اللہ کو جھٹلاتے تھے اور یہ منافقین یعنی عبداللہ بن ابی، جدی بن قیس اور معتب بن قشیر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ) یہ روگ اور بیماری کیا ہے ؟ ایک لفظ میں اس کو ” کردار کی کمزوری “ ( ) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ایک شخص وہ ہوتا ہے جو حق کو حق سمجھ کر قبول کرلیتا ہے اور پھر ” ہرچہ بادا باد “ (جو ہو سو ہو) کی کیفیت کے ساتھ اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار ہوجاتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو حق کو پہچان لینے کے باوجود ردّ کردیتا ہے۔ اسے ” کافر “ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایک شخص وہ بھی ہے جو حق کو حق پہچان کر آیا تو سہی ‘ لیکن کردار کی کمزوری کی وجہ سے اس کی قوت ارادی کمزور ہے۔ ایسے لوگ آخرت بھی چاہتے ہیں لیکن دنیا بھی ہاتھ سے دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں کا بھی کوئی نقصان نہ ہو اور آخرت کا بھی سارا بھلا ہمیں مل جائے۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے دلوں میں ایک روگ ہے۔ - (فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ج) - یہ اللہ کی سنت ہے۔ آپ حق پر چلنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ حق کا راستہ آپ پر آسان کر دے گا ‘ لیکن اگر آپ برائی کی طرف جانا چاہیں تو بڑی سے بڑی برائی آپ کے لیے ہلکی ہوتی چلی جائے گی۔ آپ خیال کریں گے کہ کوئی خاص بات نہیں ‘ جب یہ کرلیا تو اب یہ بھی کر گزرو۔ اور اگر کوئی بین بین لٹکنا چاہے تو اللہ اس کو اسی راہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ ٹھیک ہے ‘ وہ سمجھتے ہیں ہم کامیاب ہو رہے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو بھی دھوکہ دے لیا ‘ وہ ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں اور یہودیوں کو بھی دھوکہ دے لیا ‘ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھی ہیں۔ تو ان کا یہ سمجھنا کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں ‘ بالکل غلط ہے۔ حقیقت میں یہ کامیابی نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے وہ تباہ کن راستہ ان کے لیے آسان کردیا ہے جو انہوں نے خود منتخب کیا تھا۔ ان کے دلوں میں جو روگ موجود تھا اللہ نے اس میں اضافہ فرما دیا۔- ( وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا) - اوپر کفار کے لیے الفاظ آئے تھے : (وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) اور یہاں عَذَابٌ اَلِیْمٌ کا لفظ آیا ہے کہ ان کے لیے دردناک اور المناک عذاب ہے۔ - (بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :12 بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے ۔ اور اللہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا بلکہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

(١٢) یہ وہی بات ہے جو پیچھے آیت نمبر ٧ میں کہی گئی تھی۔ یعنی شروع میں انہوں نے اپنے اختیار سے اس گمراہی کو اپنایا اور اس پر اڑگئے، یہ ان کے دل کی بیماری تھی، پھر ان کی ضد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو اور بڑھادیا کہ اب انہیں واقعی ایمان لانے کی توفیق نہیں ہوگی۔