[١٣] وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر وہ اللہ اور مومنوں سے دغا بازی کرنا چاہیں بھی تو ایسا کر نہیں سکتے۔ کیونکہ اللہ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے اور ان ارادوں اور حرکات سے مسلمانوں کو اپنے رسول کے ذریعے مطلع کردیتا ہے۔ اس طرح ان کی دغا بازی کا وبال انہیں پر پڑے گا اور وہی ذلیل و رسوا ہوں گے۔
يُخٰدِعُوْنَ باب مفاعلہ سے ہے جس میں مشارکت پائی جاتی ہے، اس لیے ترجمہ ” دھوکا بازی “ کیا گیا ہے، یعنی وہ دل میں کفر چھپاتے اور ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہیں، حالانکہ دھوکا ان کے ساتھ ہو رہا ہے کہ دنیا میں انھیں مسلمان قرار دیا گیا اور انھیں مسلمانوں والے حقوق اور فوائد حاصل رہے، مگر آخرت میں وہ آگ کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے، فرمایا : (اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ) [ النساء : ١٤٢ ] ” بیشک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے۔ “ اور انھیں اس خود فریبی کا شعور بھی نہیں۔
معارف و مسائل :- ربط آیات :- جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سورة بقرہ کے شروع میں قرآن کریم کا شک وشبہ سے بالاتر ہونا بیان کرنے کے بعد بیس آیتوں میں اس کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے اوّل پانچ آیتوں میں ماننے والوں کا تذکرہ متقین کے عنوان سے ہے، پھر دو آیتوں میں ایسے نہ ماننے والوں کا ذکر ہے جو کھلے طور پر قرآن کا معاندانہ انکار کرتے تھے، ان تیرہ آیتوں میں ایسے منکریں و کفار کا ذکر ہے جو ظاہر میں اپنے آپ کو مومن مسلمان کہتے تھے مگر حقیقت میں مومن نہ تھے ان لوگوں کا نام قرآن میں منافقین رکھا گیا ہے،- مذکورہ بالا آیات میں پہلی دو آیتوں میں منافقین کے متعلق فرمایا کہ لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر، حالانکہ وہ بالکل ایمان والے نہیں، بلکہ وہ چالبازی کرتے ہیں اللہ سے اور ان لوگوں سے جو ایمان لاچکے ہیں اور واقع میں کسی کے ساتھ بھی چالبازی نہیں کرتے بجز اپنی ذات کے اور وہ اس کا شعور نہیں رکھتے،- اس میں ان کے دعوی ایمان کو غلط اور جھوٹ قرار دیا گیا اور یہ کہ ان کا یہ دعویٰ محض فریب ہے، یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی فریب نہیں دے سکتا اور غالباً یہ لوگ بھی ایسا نہ سمجھتے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی چالبازی کو ایک حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ چالبازی قرار دے کر فرمایا گیا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ چالبازی کرتے ہیں (قرطبی عن الحسن) - اسی لئے اس کا نتیجہ یہ بتلایا گیا کہ یہ بیوقوف اپنے سوا اور کسی کے ساتھ چالبازی نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اللہ جل شانہ تو ہر دھوکہ و فریب سے بالاتر ہیں ہی ان کے رسول اور مؤمنین بھی اللہ کی وجہ سے ہر دھوکہ فریب سے محفوظ ہوجاتے ہیں کوئی نقصان ان کو نہیں پہنچتا البتہ ان کے دھوکہ، فریب کا وبال دنیا وآخرت میں خود انھیں پر پڑتا ہے،- (٥) انبیاء واولیا کے ساتھ برا سلوک کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ برائی کرنا ہے :- آیات مذکورہ میں منافقین کا ایک حال یہ بتلایا ہے يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کا قصد رکھتا ہو یا یہ سمجھنا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کو فریب دے سکتا ہے بلکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین کو دھوکہ دینے کے قصدے شنیع حرکتیں کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں اس کو اللہ کو دھوکہ دینا قرار دے کر یہ بتلا دیا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے کسی رسول یا ولی کے ساتھ کوئی برا معاملہ کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا معاملہ کرنے کے حکم میں ہے دوسری طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفعت شان کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا کہ آپ کی شان میں کوئی گُستاخی کرنا ایسا ہی جرم ہے جیسا اللہ جل شانہ کی شان میں گستاخی جرم ہے
يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ٠ ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ٩ ۭ- خدع - الخِدَاع : إنزال الغیر عمّا هو بصدده بأمر يبديه علی خلاف ما يخفيه، قال تعالی:- يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة 9] ، أي : يخادعون رسوله وأولیاء ه، ونسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معاملة الرّسول کمعاملته، ولذلک قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح 10] ، وجعل ذلک خدا عا تفظیعا لفعلهم، وتنبيها علی عظم الرّسول وعظم أولیائه . وقول أهل اللّغة : إنّ هذا علی حذف المضاف، وإقامة المضاف إليه مقامه، فيجب أن يعلم أنّ المقصود بمثله في الحذف لا يحصل لو أتي بالمضاف المحذوف لما ذکرنا من التّنبيه علی أمرین : أحدهما : فظاعة فعلهم فيما تحرّوه من الخدیعة، وأنّهم بمخادعتهم إيّاه يخادعون الله، والثاني : التّنبيه علی عظم المقصود بالخداع، وأنّ معاملته کمعاملة الله، كما نبّه عليه بقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح 10] ، وقوله تعالی:- وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء 142] ، قيل معناه : مجازيهم بالخداع، وقیل : علی وجه آخر مذکور في قوله تعالی: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران 54] وقیل : خَدَعَ الضَّبُّ أي :- استتر في جحره، واستعمال ذلک في الضّبّ أنه يعدّ عقربا تلدغ من يدخل يديه في جحره، حتی قيل : العقرب بوّاب الضّبّ وحاجبه ولاعتقاد الخدیعة فيه قيل : أَخْدَعُ من ضبّ و طریق خَادِع وخَيْدَع : مضلّ ، كأنه يخدع سالکه . والمَخْدَع : بيت في بيت، كأنّ بانيه جعله خادعا لمن رام تناول ما فيه، وخَدَعَ الریق : إذا قلّ متصوّرا منه هذا المعنی، والأَخْدَعَان تصوّر منهما الخداع لاستتارهما تارة، وظهورهما تارة، يقال : خَدَعْتُهُ : قطعت أَخْدَعَهُ ، وفي الحدیث : «بين يدي السّاعة سنون خَدَّاعَة» أي : محتالة لتلوّنها بالجدب مرّة، وبالخصب مرّة .- ( خ د ع ) الخداع کے معنی ہیں جو کچھ دل میں ہوا س کے خلاف ظاہر کرکے کسی کو اس چیز سے پھیرلینا جس کے علاوہ درپے ہوا اور آیت کریمہ :۔ يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة 9]( اپنے پندار میں ) خدا کو چکمہ دیتے ہیں ۔ میں اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے سے اس کے رسول اور اولیاء کو فریب دینا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرت کے ساتھ کوئی سا معاملہ کرنا گو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے ۔ اس بنا پر فرمایا :۔ إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح 10] جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں ۔ اور ان کے اس فعل کی شناخت اور آنحضرت اور صحابہ کرام کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے اسے خدا سے تعبیر کیا ہے ۔ اور بعض اہل لغت کا یہ کہنا کہ یہاں ( مضاف محذوف ہے اور اصل میں یخادعون رسول اللہ ہے ۔ پھر مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے ۔ تو اس کے متعلق یہ جان لینا ضروری ہے کہ مضاف محذوف کو ذکر کرنے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ ایک تو یہاں ان کی فریب کاریوں کی شناخت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور دوسرے یہ بتانا ہی کہ آنحضرت کے ساتھ معاملہ کرنا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ آیت إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح 10] میں بیان ہوچکا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء 142] اور وہ انہیں کو ۔ دھوکے میں ڈالنے والا ہے ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہیں ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دے گا اور بعض نے کہا ہے کہ مقابلہ اور مشاکلہ کے طور پر یہ کہا گیا ہے جیسا کہ آیت وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران 54] میں ہے ۔ خدع الضب گوہ کا اپنے بل میں داخل ہوجانا اور گوہ کے بل میں چھپ جانے کے لئے خدع کا استعمال اس بنا پر ہے کہ اس کی بل کے دروازے پر ہمیشہ ایک بچھو تیا ربیٹھا رہتا ہے ۔ جو بل میں ہاتھ ڈالنے والے کو ڈس دیتا ہے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے العقرب بواب الضب کو بچھو گوہ کا دربان ہے ۔ چونکہ اہل عرب کے ہان ضب کی مکاری ضرب المثل تھی اس لئے کہا گیا ہے ( مثل ) ھو اخدع من الضب کہ وہ ضب سے زیادہ مکار ہے طریق خادع وخیدع گمراہ کرنے والا راستہ گویا وہ مسافر کا دھوکا دیتا ہے ۔ الھذع بڑے کمرے کے اندر چھوٹا کمرہ ۔ گو یا اس بڑے کمرے سے چیز اٹھانے والے کو دھوکا دینے کے لئے بنایا ہے ۔ خدع الریق منہ میں تھوک کا خشک ہونا اس میں بھی دھوکے کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الاخدعان گردن کی دو رگیں کیونکہ وہ کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ ہو ہیں ۔ کہا جاتا ہے خدعتہ میں نے اس کی اخدع رگ کو کاٹ دیا ۔ حدیث میں ہے (107) بین یدی الساعۃ سنون خداعۃ کہ قیامت کے قریب دھو کا دینے والے سال ہوں گے کیونکہ وہ بھی خشک سالی اور خوشحالی سے رنگ بالتے ہوں گے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
قول باری : یخد عون اللہ والذین امنوا لغت کے اعتبار سے مجاز ہے۔ اس لئے خدیعہ کے اصل معنی اخفاء کے ہیں۔ منافق دوسروں کو دھوکا دینے کے لئے اشتراک ، یعنی شرک کو چھپائے رکھتا اور دھوکے اور ملمع کاری کے طور پر ایمان کا اظہار کرتا ہے لیکن اللہ کی نظروں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھی جاسکتی اور نہ ہی حقیقت میں اسے دھوکا دیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو خداع کی صفت بد سے موصوف کیا ہے ان کا معاملہ دو میں سے ایک حال سے خالی نہیں ہے۔ یا تو وہ اللہ کی معرفت رکھتے تھے اور یہ جانتے تھے کہ اپنے عقائد پر پردہ ڈال کر وہ اللہ کو کسی طرح دھوکا نہیں دے سکتے یا انہیں اس کی معرفت نہیں تھی۔ یہ بات ذرا بعید ہے کیونکہ یہ کہنا درست نہیں ہے معرفت کے بغیر دھوکا دہی کا قصد کیا جاسکتا ہے، تاہم اللہ تعالیٰ نے ان پر لفظ خداع کا اطلاق اس وجہ سے کیا ہے کہ انہوں نے دھوکا دینے والے شخص جیسا کردار ادا کیا تھا اور دھوکا دہی کا وبال خود ان پر آپڑا تھا۔ اس طرح گویا وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے تھے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دیتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر حذف کردیا گیا ہے جس طرح قول باری : ان الذین یوذون اللہ ورسولہ (جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں) میں مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے دوستوں کو ایذا دیتے ہیں۔- مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ مجاز پر مبنی ہوگی، حقیقت نہیں ہوگی اور اس کا استعمال صرف ایسے مقام پر جائز ہوگا جہاں اس پر دلیل چسپاں ہوجائے گی۔ ان منافقین نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف تقیہ کے طور پر دھوکا دینے کی کوشش کی تھی تاکہ ان سے تمام مشرکین کے احاکم ٹل جائیں جن کے تحت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور الہ ایمان کو انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا یہ بھی ممکن ہے کہ منافقین نے اہل ایمان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار اس بنا پر کیا تھا کہ ان کے ساتھ اسی طرح کے دوستانہ مراسم پیدا کرسکیں جس طرح کے مراسم مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رکھتے تھے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کے سامنے منافقین کے اظہار ایمان کا مقصد یہ ہو کہ مسلمان اپنے راز ان کے سامنے کھول دیں اور پھر وہ یہ راز مسلمانوں کے دشمنوں تک پہنچا دیں۔- اسی طرح قول باری : اللہ یستھزی بھم (اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے) بھی مجاز ہے۔ اس بارے میں کئی اور اقوال بھی ہیں۔ ایک قول کے مطابق یہ بات کلام کا مقابلہ اس جیسے کلام کے ساتھ کرنے کی جہت سے کہی گئی ہے، اگرچہ وہ اس کے ہم معنی نہیں ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا (اور برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے) یہاں دوسرا سیئہ حقیقت میں سیئہ نہیں ہے، بلکہ حسنہ، یعنی نیکی ہے، لیکن جب اس کے بالمقابل سیئہ کا ذکر ہو تو اس پر بھی سیئہ کا اسم جاری کردیا گیا : اسیطرح قول باری ہے : فمن اعتدی علیکم فاعتدواعلیہ بمثل ما اعتدی علکیم (جو شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تم بھی اس کے ساتھ اس جیسی زیادتی کے ساتھ پیش آئو) یہاں مذکورہ دوسری زیادتی حقیقت میں زیادتی نہیں۔ اسی طرح یہ قول باری ہے :- اور اگر تم سزا دو تو اتنی ہی سزا دو جتنی سزا تمہیں دی گئی ہے) یہاں مذکورہ پہلی سزا حقیقت میں سزا نہیں ہے، بلکہ ایک لفظ کے بالمقابل اس جیسا لفظ ذکر ہوا ہے اور الفاظ میں یکسانیت پیدا کی گئی ہے عرب کے لوگ کہتے ہیں : اجلزاء بالجزاء (ادلے کا بدلہ) حالانکہ پہلی جزا حقیقت میں جزا نہیں ہے، بلکہ بدلہ ہے۔ شاعر کا درج ذیل شعر بھی اسی کیفیت کا حامل ہے۔- الا لا یجھلن احد علینا فنجھل قوق جھل الجھاھلینا - (خبر دار ہمارے سامنے کوئی شخص اپنی جاہلانہ روش کا مظاہرہ نہ کرے ورنہ ہم اس کے جواب میں جاہلوں کی تمام جاہلانہ روشوں سے آگے نکل جائیں گے)- یہاں یہ بات واضح ہے کہ شاعر اپنی جاہلانہ روش کی تعریف نہیں کر رہا ہے، بلکہ عرف اور محاورے کے مطابق کلام میں الفاظ کے درمیان تقابل پیدا کر رہا ہے۔ ایک قول کے مطابق زیر بحث آیت میں اللہ تعالیٰ نے تشبیہ کے طور پر استہزاء کے لفظ کا اطلاق کیا ہے، وہ اس طرح کہ جب استہزاء کا وبال ان منافقین پر پڑنے والا اور انہیں لاحق ہونے والا تھا تو گویا اللہ نے ان کا مذاق بنادیا۔ ایک اور قول کے مطابق جب منافقین ک دنیا میں مہلت مل گئی اور مشرکین کی طرح انہیں سزا دے کر اور ان کی گردنیں ناپ کر ان کا دماغ درست نہیں کیا گیا، بلکہ سزا مئوخر کردی گئی، تو اس مہلت سے یہ دھوکا کھا گگئے اور ان کی حالت اس شخص جیسی ہوگئی جس کے ساتھ مذاق کیا گیا ہو۔
(٩) یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہیں اور دلی طور پر اس کے احکام کو جھٹلاتے ہیں، ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت میں اس قدر دلیر اور بہادر واقع ہوئے ہیں کہ وہ خود اس جھوٹے خیال میں مبتلا ہیں کہ الیعاذ باللہ وہ اللہ تعالیٰ اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام صحابہ کرام (رض) کو دھوکا دے رہے ہیں، مگر حقیقت میں وہ اپنے آپ کو ہی جھٹلا رہے ہیں کیوں کہ ان کو یہ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے دلوں کے راز بتا دیتا ہے۔
آیت ٩ (یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج - یُخٰدِعُوْنَباب مفاعلہ ہے۔ اس باب کا خاصہ ہے کہ اس میں ایک کشمکش اور کشاکش موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے اس کا ترجمہ کیا : ” وہ دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ “- (وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ ) - یہ بات یقینی ہے کہ اپنے آپ کو تو دھوکہ دے رہے ہیں ‘ لیکن یہ اللہ ‘ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور اہل ایمان کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ سورة النساء کی آیت ١٤٢ میں منافقین کے بارے میں یہی بات بڑے واضح انداز میں بایں الفاظ آئی ہے : (اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ج) ” یقیناً منافقین اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ حالانکہ اللہ ہی انہیں دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ “ - (وَمَا یَشْعُرُوْنَ ) - یہ بات بہت اچھی طرح نوٹ کر لیجیے کہ منافقین کی بھی اکثریت وہ تھی جنہیں اپنے نفاق کا شعور نہیں تھا۔ وہ اپنے تئیں خود کو مسلمان سمجھتے تھے۔ وہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہتے تھے کہ انہوں نے خواہ مخواہ اہل مکہ کے ساتھ لڑائی مول لے لی ہے ‘ اس کی کیا ضرورت ہے ؟ ہمیں امن کے ساتھ رہنا چاہیے اور امن و آشتی کے ماحول میں ان سے بات کرنی چاہیے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خیر خواہ ہیں ‘ ہم بھلی بات کہہ رہے ہیں ‘ جبکہ یہ بیوقوف لوگ ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ کس سے ٹکرا رہے ہیں ہاتھ میں اسلحہ نہیں ہے اور لڑائی کے لیے جا رہے ہیں۔ چناچہ یہ تو بیوقوف ہیں۔ اپنے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو بڑے مخلص ہیں۔ جان لیجیے کہ منافقین میں یقیناً بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جو اسلام میں داخل ہی دھوکہ دینے کی خاطر ہوتے تھے اور ان پر پہلے دن سے یہ واضح ہوتا تھا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں ‘ ہم نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اسلام کا محض لبادہ اوڑھا ہے۔ ایسے منافقین کا ذکر سورة آل عمران کی آیت ٧٢ میں آئے گا۔ لیکن اکثر و بیشتر منافقین دوسری طرح کے تھے ‘ جنہیں اپنے نفاق کا شعور حاصل نہیں تھا۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :11 یعنی وہ اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مُبتلا کر رہے ہیں کہ ان کی یہ منافقانہ روش ان کے لیے مفید ہوگی ، حالانکہ دراصل یہ ان کو دنیا میں بھی نقصان پہنچائے گی اور آخرت میں بھی ۔ دنیا میں ایک منافق چند روز کے لیے لوگوں کو دھوکا دے سکتا ہے مگر ہمیشہ اس کا دھوکا نہیں چل سکتا ۔ آخر کار اس کی منافقت کا راز فاش ہو کر رہتا ہے ۔ اور پھر معاشرے میں اس کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہتی ۔ رہی آخرت ، تو وہاں ایمان کا زبانی دعویٰ کوئی قیمت نہیں رکھتا اگر عمل اس کے خلاف ہو ۔
(١١) یعنی بظاہر تو وہ اللہ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ؛ کیونکہ اس دھوکے کا انجام خود ان کے حق میں برا ہوگا، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے وہ کفر کے دنیوی انجام سے بچ گئے، حالانکہ آخرت میں ان کو جو عذاب ہوگا وہ دنیا کے عذاب سے زیادہ سنگین ہے۔