Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

منافقت کی قسمیں ۔ دراصل نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو ۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی ۔ پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں ۔ اس کا بیان تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ کسی مناسب جگہ ہو گا ۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف ، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے ۔ نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بہ ظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کر دی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے ۔ ان میں سے صرف حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کر لی تھی ۔ غرض اس جماعت کے قیام کی ابتدا یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ ، بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا ۔ جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا ۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی ، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کر چکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی ۔ یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی ، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا ۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کر لینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی ، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ کے آس پاس قائم ہو گئی ۔ ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال ، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کر آئے تھے ۔ ( فرضی اللہ عنھم اجمعین ) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے ۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے ۔ ابو العالیہ ، حضرت حسن ، قتادہ ، سدی نے یہی بیان کیا ہے ۔ پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بد خصلتوں کا یہاں بیان فرمایا ۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آ جائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں ۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے ۔ یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا ۔ اسی طرح سورۃ منافقون میں بھی کہا گیا ہے کہ آیت ( اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ۘ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ ) 63 ۔ المنفقون:1 ) یعنی منافق تیرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لئے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیا ۔ اور سورۃ منافقون میں فرمایا آیت ( وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ ) 63 ۔ المنفقون:1 ) یعنی اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں اور یہاں بھی فرمایا آیت ( وما ھم بمومنین ) یعنی دراصل وہ ایماندار نہیں وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں ۔ جیسے کہ بعض مومنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) 58 ۔ المجادلہ:18 ) یعنی قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو کھڑا کرے گا تو جس طرح وہ یہاں ایمان والوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قسمیں کھائیں٠ گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کچھ ہیں ۔ خبردار یقیناً وہ جھوٹے ہیں ۔ یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں ۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں ۔ جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ) 4 ۔ النسآء:142 ) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ انہیں کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے ۔ بعض قاریوں نے یخدعون پڑھا ہے اور بعض یخادعون مگر دونوں قرأت وں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے ۔ ابن جریر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے؟ وہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خطرہ سے بچنا چاہتا ہے عربی زبان میں مخادع کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل ، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف اظہار کرتے تھے اس لئے انہیں دھوکہ باز کہا گیا ۔ ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لئے انتہائی برا عذاب اور غضب الٰہی ہو گا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہو گی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہو گا ۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہو گا ۔ ان کے کفر ، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہو گا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں ۔ ابن جریج اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں ، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جا گزریں نہیں ہوتا ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ ، دل میں کچھ ، عمل کچھ ، عقیدہ کچھ ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی ادھر ہو جاتی ہے کبھی ادھر ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 یہاں سے تیسرے گروہ یعنی منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے مگر وہ اہل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اور اہل ایمان کو مستقل فریب میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے آگاہ فرما دیتا تھا یوں اس فریب کا سارا نقصان خود انہی کو پہنچتا ہے کہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کرلی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اس سے پہلے پانچ آیات میں اہل ایمان اور دو آیات میں کھلے کافروں کے ذکر کے بعد منافقین کی خصلتوں کا ذکر تیرہ آیات میں فرمایا ہے، کیونکہ چھپا ہوا کفر زیادہ خطرناک اور اس کی پہچان بہت مشکل ہے۔ - مَا نافیہ کی تاکید باء کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” ہرگز “ کے ساتھ کیا گیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخری دن پر حالانکہ وہ بالکل ایمان والے نہیں (بلکہ) چالبازی نہیں کرتے بجز اپنی ذات کے اور وہ اس کا شعور نہیں رکھتے (یعنی اس چالبازی کا انجام بد خود اپنے ہی کو بھگتنا پڑے گا) ان کے دلوں میں بڑا مرض ہے سو اور بھی بڑھا دیا اللہ نے ان کا مرض (اس مرض میں ان کی بداعتقادی اور اسلام اور مسلمانوں کی ترقی دیکھ کر حسد میں جلنا اور ہر وقت اپنا کفر ظاہر ہوجانے کی فکر وخلجان سب داخل ہیں مسلمانوں کی ترقی سے ان کا مرض حسد اور بڑہنا واضح ہے) اور ان کے لئے سزائے دردناک ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے (یعنی ایمان کا جھوٹا دعویٰ کیا کرتے تھے) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ مت فساد کرو زمین میں تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح ہی کرنے والے ہیں ان کی دو رخی روش سے جب فتنے فساد واقع ہونے لگے اور کسی خیرخواہ نے فہمائش کی کہ ایسی کاروائی موجب فساد ہوا کرتی ہے اس کو چھوڑ دو تو اس کے جواب میں یہ اپنے آپ کو بجائے مفسد کے مصلح بتاتے ہیں یعنی اپنے فساد ہی کو اصلاح سمجھتے ہیں) یاد رکھو بیشک یہی لوگ مفسد ہیں لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے (یہ تو ان کی جہالت اور غباوت کا بیان ہے کہ اپنے عیب ہی کو ہنر سمجھتے ہیں آگے دوسری جہالت کا بیان کہ دوسروں کے ہنر کو یعنی ایمان خالص کو عیب اور حقیر سمجھتے ہیں) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی ایسا ہی ایمان لے آؤ جیسا ایمان لائے ہیں اور لوگ تو کہتے ہیں کہ کیا ہم ایمان لاویں گے جیسا ایمان لے آئے ہیں یہ بیوقوف یاد رکھو کہ بیشک یہی ہیں بیوقوف لیکن اس کا علم نہیں رکھتے ( یہ منافق ایسی کھلی ہوئی بات بظاہر غریب مسلمانوں کے سامنے کرلیتے ہوں گے جن سے ان کو کوئی اندیشہ نہ تھا ورنہ عام طور پر تو وہ اپنے کفر کو چھپاتے پھرتے ہیں ( اور جب ملتے ہیں وہ منافقین ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب خلوت میں پہنچتے ہیں اپنے شریر سرداروں کے پاس بیشک تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مسلمانوں سے صرف استہزا کیا کرتے ہیں (یعنی ہم مسلمانوں سے بطور تمسخر کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ورنہ ہم تو تمہارے ہم مشرب ہیں آگے ان کے استہزا کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی استہزاء کر رہے ہیں ان کے ساتھ اور ڈھیل دیتے چلے جاتے ہیں ان کو کہ وہ اپنی سرکشی میں حیران و سرگرداں ہو رہے ہیں (وہ اللہ کا استہزاء یہی ہے کہ ان کو مہلت دی جارہی ہے جب وہ خوب کفر میں کامل ہوجاویں اور جرم سنگین ہوجاوے اس وقت اچانک پکڑ لئے جاویں گے اس کو استہزاء کے عنوان سے تعبیر کردیا گیا) یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے گمراہی لے لی بجائے ہدایت کے تو نفع بخش نہ ہوئی ان کی یہ تجارت اور نہ یہ ٹھیک طریقہ پر چلے (یعنی ان کو تجارت کا سلیقہ نہ ہوا کہ ہدایت جیسی قیمتی چیز کے بدلہ میں گمراہی لے لی) ان کی حالت اس شخص کی حالت کے مشابہ ہے جس نے کہیں آگ جلائی ہو پھر جب روشن کردیا ہو اس آگ نے اس شخص کے گردا گرد کی سب چیزوں کو ایسی حالت میں سلب کرلیا ہو، اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی کو اور چھوڑ دیا ہو ان کو اندھیروں میں کہ کچھ دیکھتے بھالتے نہ ہوں (تو جس طرح یہ شخص اور اس کے ساتھی روشنی کے بعد اندھیرے میں رہ گئے اسی طرح منافقین حق واضح ہو کر سامنے آجانے کے بعد گمراہی کے اندھیرے میں جا پھنسے اور جس طرح آگ جلانے والوں کی آنکھ، کان، زبان، اندھیرے میں بیکار ہوگئے اسی طرح گمراہی کے اندھیرے میں پھنس کر ان کی یہ حالت ہوگئی کہ گویا وہ) بہرے ہیں گونگے ہیں، اندھے ہیں سو یہ اب رجوع نہ ہوں گے، (کہ ان کے حواس حق کو دیکھنے سننے سمجھنے کے قابل نہ رہی، یہ مثال تو ان منافقین کی تھی جو خوب دل کھول کر کفر پر جمے ہوئے ہیں کبھی ایمان کا دھیان بھی دل میں نہیں آتا، آگے منافقین کے اس گروہ کی مثال ہے جو فی الواقع تردد میں تھے کبھی کبھی اسلام کی حقانیت دیکھ کر اس کی طرف مائل ہونے لگتے پھر جب اغراض نفسانی کا غلبہ ہوتا تو یہ میلان بدل جاتا تھا) یا ان منافقوں کی ایسی مثال ہے جیسے آسمان کی طرف سے بارش ہو اس میں اندھیری بھی ہو اور رعد برق بھی ہو جو لوگ اس بارش میں چل رہے ہیں وہ ٹھونسے لیتے ہیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں کڑک کے سبب اندیشہ موت سے، اور اللہ تعالیٰ احاطہ میں لئے ہے کافروں کو برق کی یہ حالت ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ان کی بنیائی اس نے لے لی جہاں ذرا ان کو بجلی کی چمک ہوئی تو اس کی روشنی میں چلنا شروع کردیا، اور جب ان پر تاریکی ہوئی پھر کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور اگر اللہ تعالیٰ ارادہ کرتے تو ان کے کان اور آنکھ سب سلب کرلیتے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں (تو جس طرح یہ لوگ کبھی طوفان بادو باراں میں کبھی چلنے سے رہ جاتے ہیں کبھی موقع پاکر آگے چلنے لگتے ہیں یہی حال ان متردود منافقین کا ہے) - (٤) جھوٹ ایک گھناؤ نی چیز ہے :- یہاں منافقین کے قول اٰمَنَّا باللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِر میں غور کیجئے کہ یہ لوگ پرلے درجے کے کافر ہونے کے باوجود اپنی دانست میں جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ دعوٰی ایمان کے لئے صرف اللہ اور روز قیامت پر ایمان کا ذکر کرتے ہیں ایمان بالرسول کا ذکر اس لئے نہیں کرتے کہ جھوٹ نہ ہوجائے اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایسی گندی اور گھناؤ نی چیز ہے کہ کوئی شریف آدمی خواہ کافر، فاسق ہو جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتا،- یہ دوسری بات ہے کہ ان کا دعویٰ ایمان باللہ وبالیوم الآخر بھی قرآنی اصطلاح کے خلاف ہونے کی وجہ سے نتیجۃً جھوٹ ثابت ہوا،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 2 - وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ۝ ٨ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اللہ تعالیٰ نے منافقین کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ان کے متعلق خبر دی ہے کہ وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ ان کا عقیدہ ایمان کا نہیں ہوتا اور اپنے بھائی بندوں یعنی شیاطین کے سامنے کفر کا اظہار کرتے ہیں، چناچہ ارشاد ہے : ومن الناس من یقول امنا باللہ والیوم الاخروما ھم بمئومنین (اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں) نیز : یخادعون اللہ والذین امنوا (وہ اللہ اور اہل ایمان کو دھوکا دیتے ہیں) تاقول باری : واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا واذا خلوا الی شیاطینھم قالوا انا معکم انما نحن مستھزئون (اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لے آئے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہا رہ جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان لوگوں کے ساتھ محض مذاق کر رہے ہیں) اس آیت سے ایسے زندیق کی تو یہ تسلیم کرلینے پر استدلال کیا جاتا ہے جس کے افعال و اقوال سے اس کے چھپے ہوئے کفر کا پتہ چلا ہو ۔ لیکن پھر اس نے ایمان کا اظہار کیا ہو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے چھپے ہوئے کفر کی خبر دے کر انہیں قتل کردینے کا حکم نہیں دیا، بلکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا ظاہر قبول کرلینے کا امر فرمایا اور ان کا باطن، نیز ان کے عقیدے کی خرابی کا معاملہ جس کا علم اللہ کو تھا اللہ کے حوالے کردینے کا حکم دیا۔- یہ بات تو واضح ہے کہ زیر بحث آیات کا نزول قتال کی فرضیت کے بعد ہوا تھا کیونکہ یہ آیتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں اور مشرکین سے قتال کی فرضیت ہجرت کے بعد ہی ہوگئی تھی۔ ان آیات کے نظائر سورة برأت اور سورة محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نیز دیگر سورتوں میں موجود ہیں جہاں منافقین کا ذکر کر کے ان کا ظاہر قبول کرلینے اور انہیں ان تمام مشرکین کے احکام پر محمول نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن کے ساتھ ہمیں قتال کرنے کا حکم ملا ہے۔ جب ہم ان نظائر کی تفسیر پر پہنچیں گے تو وہاں ان کے احکام بھی بیان کریں گے اور زندیق (بےدین اور باطنی طور پر کافر ) کے بارے میں اہل علم کے اختلاف اور ان کے استدلال کا ذکر بھی کریں گے۔- ایک شخص کے ظاہر کو قبول کرلینے کی بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے واضح ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں، یعنی کلمہ توحید کا اقرار نہ کرلیں۔ جب وہ یہ کہہ دیں گے تو وہ مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے اموال محفوظ کرلیں گے۔ البتہ کسی حق کے بدلے ان کی جان اور مال پر گرفت ہو سکے گی اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ “ حضرت اسامہ ایک جنگ کے اندر کسی شخص پر نیزے سے حملہ آور ہوئے۔ اس شخص نے لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھا، لیکن اس کے باوجود حضرت اسامہ نے اسے قتل کر دای۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی اطلاع لمی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟ ‘ یعنی ایسے شخص کو اس کے ظاہر پر حمول کرنا چاہیے تھا اور اس کے باطن کو نظر انداز کردینا چاہیے تھا کہ باطن کا حال جاننے کے لئے ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری : ومن الناس من یقول امنا باللہ والیوم الاخر وما ھم بمئومنین۔ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اعتقاد کے بغیر اقرار کا نام ایمان نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اقرار بالا یمان کی خبر دے کر : وما ھم بمئومنین کے ذریعے ان سے ایمان کی علامت کی نفی کردی۔ مجاہد سے مروی ہے کہ سورة بقرہ کی ابتدا میں چار آیتیں اہل ایمان کی تعریف میں ہیں، دو آیتیں کافروں کے بارے میں ہیں اور تیرہ آیتیں منافقین کے متعلق ہیں۔ - نفاق ایک شرعی اسم ہے اور اسے ان لوگوں کی علامت قرار دیا گیا ہے جو ایمان کا اظہار کرتے اور کفر چھپائے رکھتے ہیں۔ اس اسم کے ساتھ منافقین کو اس بنا پر مخصوص کردیا گیا ہے تاکہ نفاق کے معنی اور اس کے حکم پر دلالت ہو سکے ۔ خواہ حقیقت کے اعتبار سے یہ مشرکین کیوں نہ ہوں اس لئے کہ یہ لوگ شرک کا کھلم کھلا اظہار کرنے والوں سے احکام کے اندر مختلف تھے۔ - لغت میں لفظ نفاق :” نا فقاء الیربوع (جنگلی چوہے کے پوشیدہ بلوں میں سے ایک بل) سے ماخوذ ہے جب شکاری جنگلی چوہے کو پکڑنا چاہتا ہے تو وہ ایک بل میں داخل ہو کر شکاری کو جل دے کر دوسرے بل سے نکل بھاگتا ہے ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨) یہ لوگ یہود میں سے کعب بن اشرف، حیی بن اخطب اور جدی بن اخطب ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مکہ مکرمہ کے مشرکین عتبہ، شیبہ، اور ولید مراد ہیں، یہ لوگ علانیہ اور ظاہری طور پر ایمان لاتے ہیں اور ہمارے ایمان باللہ اور بعث بعد الموت (مرنے کے بعد اٹھائے جانے) جس میں اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تصدیق کرتے ہیں، مگر قلبی طور پر وہ مومن نہیں اور اپنے ایمان لانے کے دعوے میں سچے نہیں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ) - یہاں ایک بات سمجھ لیجیے اکثر و بیشتر مفسرین نے اس تیسری قسم ( ) کے بارے میں یہی رائے قائم کی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے ‘ اگرچہ یہاں لفظ منافق یا لفظ نفاق نہیں آیا۔ لیکن مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اس کے بارے میں ایک رائے ظاہر کی ہے جو بڑی قیمتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ایک کردار کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے ‘ غور کرنے والے غور کرلیں ‘ دیکھ لیں کہ وہ کس پر چسپاں ہو رہا ہے۔ اور جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں تو ان میں شخصیات کی کردار نگاری کا یہ جو نقشہ کھینچا جا رہا ہے یہ بالفعل دو طبقات کے اوپر راست آ رہا تھا۔ ایک طبقہ علماء یہود کا تھا۔ وہ بھی کہتے تھے کہ ہم بھی اللہ کو مانتے ہیں ‘ آخرت کو بھی مانتے ہیں۔ (اسی لیے یہاں رسالت کا ذکر نہیں ہے۔ ) وہ کہتے تھے کہ اگر سوا لاکھ نبی آئے ہیں تو ان سوا لاکھ کو تو ہم مانتے ہیں ‘ بس ایک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم نے نہیں مانا اور ایک عیسیٰ ( علیہ السلام) کو نہیں مانا ‘ تو ہمیں بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یہاں جس انداز میں تذکرہ ہو رہا ہے اس سے ان کا کردار بھی جھلک رہا ہے اور روئے سخن بھی ان کی طرف جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے دسویں جماعت کے زمانے میں دہلی میں میں نے جوتوں کی ایک دکان پر دیکھا تھا کہ ایک بہت بڑا جوتا لٹکایا ہوا تھا اور ساتھ لکھا تھا : . یعنی جس کے پاؤں میں یہ ٹھیک ٹھیک آجائے وہ اسے مفت لے جائے تو یہاں بھی ایک کردار کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔ اب یہ کردار جس کے اوپر بھی فٹ بیٹھ جائے وہ اس کا مصداق شمار ہوگا۔ - جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ زیادہ تر مفسرینّ کی رائے تو یہی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے۔ لیکن یہ کردار بعینہٖ یہود کے علماء پر بھی منطبق ہو رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کر لیجیے کہ مدینہ منورہ میں نفاق کا پودا ‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ جو پروان چڑھا ہے وہ یہودی علماء کے زیراثر پروان چڑھا ہے۔ جیسے جنگل کے اندر بڑے بڑے درخت بھی ہوتے ہیں اور ان کے نیچے جھاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔ تو یہ نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ دراصل یہودی علماء کا جو بہت بڑا پودا تھا اس کے سائے میں پروان چڑھا ہے اور ان دونوں میں معنوی ربط بھی موجود ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

(١٠) سورت کے شروع میں مومنوں کے اوصاف اور ان کا انجام خیر بیان فرمایا گیا، پھر ان لوگوں کا ذکر ہوا جو کھلے کافر ہیں، اب یہاں سے ایک تیسرے گروہ کا بیان ہورہا ہے جسے منافق کہا جاتا ہے یہ لوگ ظاہر میں تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے مگر دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔