مہر کیوں لگا دی گئی؟ حضرت سدی فرماتے ہیں ختم سے مراد طبع ہے یعنی مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں ، نہ سمجھ سکتے ہیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ بس یہی طبع اور ختم یعنی مہر ہے ۔ دل اور کان کے لئے محاورہ میں مہر آتی ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قرآن میں ران کا لفظ ہے طبع کا لفظ ہے اور اقفال کا لفظ ہے ۔ ران طبع سے کم ہے اور طبع اقفال سے کم ہے ، اقفال سب سے زیادہ ہے ۔ حضرت مجاہد نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہو جاتا ہے ۔ اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہو گئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہو گئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہوگئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہو گئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں مہر لگ جاتا ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا ۔ اسے زین بھی کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیر لینا بیان کیا جا رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بےپرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں اس لئے کہ یہاں تو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ۔ زمحشری نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بےمعنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا ۔ ایک جگہ ارشاد ہے آیت ( فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ) 61 ۔ الصف:5 ) یعنی جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے اور فرمایا آیت ( وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:110 ) ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں ۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کر دیا ہے ۔ حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری ۔ اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے ۔ واللہ اعلم ۔ قرطبی فرماتے ہیں ۔ امت اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے ۔ فرمایا ہے آیت ( بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا ) 4 ۔ النسآء:155 ) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی ۔ حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے ۔ دعا میں ہے حدیث ( یا مقلب القلوب ثبت قلوبنا علی دینک ) یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے ، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے ۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی ( جو حق قبول نہیں کرتا ) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے ۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے ۔ امام ابن جریر کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آ چکا ہے کہ مومن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر وہ باز آ جائے توبہ کر لے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے ، یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے آیت ( كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) 83 ۔ المطففین:14 ) یعنی یقیناً ان کے دلوں پر ران ہے ، ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ( ترمذی ۔ نسائی ۔ ابن جریر ) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الٰہی لگ جاتی ہے جسے ختم اور طبع کہا جاتا ہے ۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی ۔ اسی مہر کا ذکر اس آیت آیت ( ختم اللہ ) الخ میں ہے ، وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جا سکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے ۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے ، نہ کفر جائے ۔ سمعھم پر پورا وقف ہے اور آیت ( علی ابصارھم غشاوۃ ) الگ پورا جملہ ہے ۔ ختم اور طبع دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور غشاوت یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے ۔ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔ قرآن میں ہے آیت ( فَاِنْ يَّشَاِ اللّٰهُ يَخْتِمْ عَلٰي قَلْبِكَ ۭ وَيَمْــحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ ) 42 ۔ الشوری:24 ) اور جگہ ہے آیت ( وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوۃ ان آیتوں میں دل اور کان پر ختم کا ذکر ہے اور آنکھ پر پردے کا بعض نے یہاں غشاوۃ زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل جعل مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے آیت ( وحورعین ) میں ۔ شروع سورت کی چار آیتوں میں مومنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا ۔ اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں ۔ اس لئے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورۃ برات اتری اور انہی کا ذکر سورۃ نور وغیرہ میں کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں ۔ پس فرمایا ۔
ف 1 یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ کفر و معصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہوچکی ہے اور ان کے کان حق کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح سے لاسکتے ہیں ؟ ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے آیا ہے اور آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے مغفرت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے اگر وہ توبہ کر کے گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف اور شفاف ہوجاتا ہے اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 14) 083:014 یعنی ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔
[١١] مہر کیسے کافروں کو لگتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ مہر صرف ان کافروں کے دلوں پر لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو خوب سمجھ لینے کے بعد محض اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ جیسے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : آیت (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14ۧ) 27 ۔ النمل :14) اور ان لوگوں نے ہٹ دھرمی اور تکبر کی بنا پر (ان حقائق کا) انکار کردیا جن پر ان کے دل یقین کرچکے تھے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا : آیت (كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ ١٠١۔ ) 7 ۔ الاعراف :101) جس بات کو پہلے ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔ رہے عام کافر تو ان میں سے کثیر تعداد مسلمان ہوتی ہی رہی ہے۔- [١٢] دل کا کام بات کو سمجھنا اور کان کا کام سننا ہے اور یہ دونوں اعضاء کسی مخصوص جانب کے پابند نہیں۔ لیکن آنکھ صرف سامنے سے ہی دیکھ سکتی ہے۔ لہٰذا دلوں اور کانوں پر تو مہر کا ذکر کیا گیا اور آنکھ پر صرف پردے کا۔ ایسے لوگ حقائق کو سمجھنے کے لیے کیا تیار ہوں گے جنہیں ان کا سننا اور دیکھنا بھی گوارا نہ ہو۔ کیونکہ کان اور آنکھ ہی تو دل کے دو بڑے دروازے ہیں جن سے دل کو ہر طرح کی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔- مہرکیوں اور کب لگتی ہے ؟ انسان کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں، کان اور دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ وہ ان اعضاء سے صرف اتنا ہی کام لے جتنا دوسرے حیوان لیتے ہیں اور جانوروں کی طرح صرف اپنے کھانے پینے اور دنیاوی مفادات پر ہی نظر رکھے۔ کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش کی دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ قوتیں عطا فرمائی ہیں۔ انسان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں جو انسان کی توجہ کو کائنات میں ہر سو اللہ تعالیٰ کی بکھری ہوئی نشانیوں کی طرف مبذول کرتی ہیں۔ تاکہ انسان ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ پھر اگر انسان کانوں سے قرآن کی آیات کو سننا تک گوارا نہ کرے اور کائنات میں بکھری ہوئی آیات کو آنکھوں سے دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرے تو اس کی ہدایت کی کوئی صورت باقی رہ جاتی ہے ؟ اور اس سے بھی بدتر صورت حال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات سن بھی لیتے ہیں اور ان کے دل انہیں سمجھ بھی لیتے ہیں، لیکن وہ اپنی چودھراہٹوں یا بعض دوسرے دنیوی مفادات کی خاطر حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، بلکہ الٹا مخالفت اور تعصب پر اتر آتے ہیں تو ایسے لوگوں کی آئندہ ہدایت پانے کی بھی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی اور اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے تعبیر فرمایا ہے اور اسی بات کی تائید درج ذیل مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ گناہ چھوڑ دے اور استغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر دوبارہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ دل پر چھا جاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 14) 83 ۔ المطففین :14) (ترمذی، ابو اب التفسیر) - مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں ؟ رہی یہ بات کہ اگر کافروں کے دلوں اور کانوں پر مہر ان کی اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے لگتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیوں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اللہ ہی کا قانون ہے کہ جن اعضاء یا جن قویٰ سے انسان کام لینا چھوڑ دیتا ہے یا ان کی فراہم کردہ معلومات کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو ان اعضاء اور قویٰ کی استعداد از خود زوال پذیر ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ مثلاً انسان اگر اپنے بازو سے کچھ مدت کوئی کام نہ لے اور اسے حرکت تک نہ دے تو وہ از خود شل ہوجائے گا، اس میں حرکت کرنے کی استعداد باقی ہی نہیں رہے گی اور یہ قانون بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف درست ہوئی۔ اگرچہ یہ انسان کے اپنے ہی شامت اعمال کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔
ان کے کفر اور اعمال بد کے نتیجے میں ان کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور قبول حق کی استعداد جو فطرتاً ہر شخص میں رکھی گئی ہے، ان سے چھن چکی ہے۔ یہ مہر اگرچہ اللہ تعالیٰ نے لگائی ہے، مگر اس کا باعث ان کا عمل ہے، فرمایا : (بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا) [ النساء : ١٥٥ ] ” بلکہ اللہ نے ان پر ان کے کفر کی وجہ سے مہر کردی۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے، پھر جب وہ باز آجائے استغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل چمک جاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو نکتہ بڑھا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے، یہی وہ زنگ ہے جو اللہ نے ذکر فرمایا ہے : (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْن) [ المطففین : ١٤ ]” ہرگز نہیں، بلکہ زنگ بن کر چھا گیا ہے ان کے دلوں پر جو وہ کماتے ہیں۔ “ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة ویل للمطففین ۔۔ : ٣٣٣٤، عن أبی ہریرۃ (رض) و حسنہ الألبانی ] ” غشاوۃ “ پر تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ” بھاری پردہ “ کیا گیا ہے۔
(١) گناہوں کی دنیوی سزا سلب توفیق :- ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ کفر اور ہر گناہ کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی مگر بعض گناہوں کی کچھ سزا دنیا میں بھی مل جاتی ہے پھر دنیا کی سزا بعض اوقات یہ شکل اختیار کرتی ہے کہ اصلاح حال کی توفیق سلب ہوجاتی ہے، انسان آخرت کے حساب و کتاب سے بےفکر ہو کر اپنی نافرمانیوں اور گناہوں میں بڑہتا چلا جاتا ہے اور اس کی برائی کا احساس بھی اس کے دل سے جاتا رہتا ہے ایسے حال کے متعلق بعض بزرگوں کا ارشاد ہے ان من جزاء السۃ السیۃ بعدھا وان من جزاء الحسنۃ الحسنۃ بعدھا یعنی گناہ کی ایک سزا یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو کھینچ لاتا ہے جس طرح نیکی کا نقد بدلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچ لاتی ہے،- اور ایک حدیث میں ہے کہ انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور جس طرح سفید کپڑے پر ایک سیاہ نقطہ انسان کو ناگوار نظر آتا ہے پہلے نقطہ گناہ سے بھی انسان پریشان ہوتا ہے لیکن اگر اس نے اس گناہ سے توبہ نہ کی اور دوسرا گناہ کرلیا تو ایک دوسرا نقطہ سیاہ لگ جاتا ہے، اور اسی طرح ہر گناہ پر سیاہ نقطے لگتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ سیاہی سارے قلب پر محیط ہوجاتی ہے، اور اب اس کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ وہ نہ کسی اچھی چیز کو اچھا سمجھ سکتا ہے نہ بری چیز کو برا غرض نیکی بدی کا امتیاز اس کے دل سے اٹھ جاتا ہے اور پھر فرمایا کہ اسی ظلمت وسیاہی کا نام قرآن کریم میں ران یا راین آیا ہے كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (مشکوٰۃ ازمسند احمد و ترمذی) اور ترمذی نے سند صحیح کے ساتھ بروایت ابوہریرہ نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرلے جو صاف ہوجاتا ہے (قرطبی) - (٢) نصیحت ناصح کے لئے ہر حال میں مفید ہے مخاطب قبول کرے یا نہ کرے :- اس آیت میں ازلی کافروں کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وعظ و نصیحت کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر قرار دئیے گئے ہیں مگر ان کے ساتھ علیہم کی قید لگا کر بتلا دیا کہ یہ برابری کفار کے حق میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں نہیں بلکہ ان کو تو تبلیغ وتعلیم اور اصلاح خلق کی کوشش کا ثواب بہرحال ملے گا اسی لئے پورے قرآن کریم کی کسی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے لوگوں کو بھی دعوت ایمان دینے سے روکا نہیں گیا اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دعوت دین اور اصلاح کا کام کرتا ہے خواہ مؤ ثر ہو یا نہ ہو اس کو بہرحال اپنے عمل کا ثواب ملتا ہے،- ایک شبہ کا جواب :- اس آیت کا مضمون وہی ہے جو سورة مطففین کی اس آیت کا ہے كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (١٤: ٨٣) یعنی ایسا نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے زنگ بیٹھ گیا ہے جس میں حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ ان بداعمالیاں اور سرکشی ہی ان کے دلوں کا زنگ بن گیا ہے اسی زنگ کو آیت مذکورہ میں مہر یا پردہ کے لفظوں سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے اس پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہی ان کے دلوں پر مہر کردی اور جو اس کو ماؤف کردیا ہے تو یہ اپنے کفر میں معذور ہوگئے پھر ان کو عذاب کیسا ؟ وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے شرارت وعناد کر کے باختیار خود اپنی استعداد برباد کرلی ہے اس لئے اس تباہی استعداد کے فاعل اور مسبب یہ خود ہیں البتہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے تمام افعال کے خالق ہونے کی حیثیت سے اس جگہ مہر کرنے کو اپنی طرف نسبت کر کے یہ بتلادیا کہ جب ان لوگوں نے قبول حق کی صلاحیت و استعداد کو اپنے اختیار سے تباہ کرنا چاہا تو سنت الٓیہ کے مطابق ہم نے وہ بد استعداد کی کیفیت ان کے قلوب اور حواس میں پیدا کردی۔
خَتَمَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰي سَمْعِہِمْ ٠ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ٠ ۡوَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ٧ ۧ- ختم - الخَتْمُ والطّبع يقال علی وجهين : مصدر خَتَمْتُ وطبعت، وهو تأثير الشیء کنقش الخاتم انتهيت إلى آخره، فقوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام 46] ، إشارة إلى ما أجری اللہ به العادة أنّ الإنسان إذا تناهى في اعتقاد باطل، أو ارتکاب محظور۔ ولا يكون منه تلفّت بوجه إلى الحقّ- يورثه ذلك هيئة تمرّنه علی استحسان المعاصي، وكأنما يختم بذلک علی قلبه، وعلی ذلك : أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل 108] ، وعلی هذا النّحو استعارة الإغفال في قوله عزّ وجلّ : وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف 28] ، واستعارة الكنّ في قوله تعالی: وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] ، واستعارة القساوة في قوله تعالی: وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] ، قال الجبّائيّ : يجعل اللہ ختما علی قلوب الکفّار، ليكون دلالة للملائكة علی كفرهم فلا يدعون لهم ولیس ذلک بشیء فإنّ هذه الکتابة إن کانت محسوسة فمن حقّها أن يدركها أصحاب التّشریح، وإن کانت معقولة غير محسوسة فالملائكة باطّلاعهم علی اعتقاداتهم مستغنية عن الاستدلال . وقال بعضهم : ختمه شهادته تعالیٰ عليه أنه لا يؤمن، وقوله تعالی: الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس 65] ، أي : نمنعهم من الکلام، وَخاتَمَ النَّبِيِّينَ- [ الأحزاب 40] ، لأنه خَتَمَ النّبوّة، أي : تمّمها بمجيئه . وقوله عزّ وجلّ : خِتامُهُ مِسْكٌ- [ المطففین 26] ، قيل : ما يختم به، أي : يطبع، وإنما معناه : منقطعه وخاتمة شربه، أي : سؤره في الطيّب مسك، وقول من قال يختم بالمسک «3» أي : يطبع، فلیس بشیء، لأنّ الشّراب يجب أن يطيّب في نفسه، فأمّا ختمه بالطّيب فلیس ممّا يفيده، ولا ينفعه طيب خاتمه ما لم يطب في نفسه .- ( خ ت م ) الختم والطبع ۔ کے لفظ دو طرح سے استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمت اور طبعت کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنی کسی چیز پر مہری کی طرح نشان لگانا کے ہیں اور کبھی اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جا تا ہے ۔ مجازا کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وتوق حاصل کرلینا اور اس کا محفوظ کرنا مراد ہوتا ہے جیسا کہ کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کردیا جاتا ہے ۔ کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية 23] اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی ۔ اور کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کرلینے سے کنایہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر نقش ہوجاتا ہے اور اسی سے ختمت القرآن کا محاورہ ہے ۔ یعنی قرآن ختم کرایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور آیت : ۔ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام 46]( ان کافروں سے ) کہو بھلا دیکھو تو اگر خدا تمہارے کان یا دو آنکھیں چجین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ۔ میں عادت الہیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان اعتقاد باطل بامحرمات کے ارتکاب میں حد کو پہنچ جاتا ہے اور کسی طرح حق کی طرف ( التفات نہیں کرنا تو اس کی ہیئت نفسانی کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ گناہوں کو اچھا سمجھنا اس کی خوبن جاتی ہے ۔ گویا اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے ۔ چناچہ اس ی معنی میں فرمایا : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل 108] یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر خدا نے مہر لگا رکھی ہے اسی طرح آیات کریمہ : ۔ وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف 28] اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے ۔۔۔ اس کا کہا نہ ماننا۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] اور ان کے دلوں سخت کردیا ۔ میں اعفال کن اور قساوۃ سے بھی علی الترتیب یہی معنی مراد ہیں ۔ جبائی کہتے ہیں کہ اللہ کے کفار کے دلوں پر مہر لگانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے دلوں پر ایسی علامت قائم کردیتے ہیں کہ فرشتے انکے کفر سے آگاہ ہوجاتے ہیں اور ان کے حق میں دعائے خیر نہیں کرتے ۔ لیکن یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ اگر یہ کتابت محسوس ہو تو اصحاب التشریح ( ) کو بھی اس کا ادراک ہونا ضروری ہے اور اگر سراسر عقلی اور غیر محسوس ہے تو ملائکہ ان کے عقائد باطلہ سے مطلع ہونے کے بعد اس قسم کی علامات سے بےنیاز ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مہر لگانے کے معنی ان کے ایمان نہ لانے کی شہادت دینے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس 65] آج ہم ان کے موہوں پر مہر لگادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کلام نہیں کرسکیں گے اور آیت میں آنحضرت کو خاتم النبین فرمانے کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت نے اپنی آمد سے سلسلہ نبوت کی مکمل کردیا ۔ ہے ( اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ) اور آیت کریمہ :۔ خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] جسکی مہر مسک کی ہوگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ختام کے معنی مایختم بہ کے ہیں یعنی وہ چیز جس سے مہر لگائی جائے مگر آیت کے معنی یہ ہیں کہ اس کا آخری لطف اور برین میں باقی ماندہ جھوٹ مسک کی طرح مہ کے گا اور بعض نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ اس پر کستوری کی مہر لگی ہوئی ہوگی مگر یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ شراب کو بذات خود لذت ہونا چاہیے اگر وہ بذات خود لذت لذیذ نہ ہو تو اس پر مسک کی مہر لگانا چنداں مفید نہیں ہوسکتا ، اور نہ ہی اس کی لذت میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مون ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
(٧) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کے کانوں اور آنکھوں پر پردہ ہے اور آخرت میں ان کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ان الذین کفروا “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے ابن اسحاق (رح) ، محمد بن ابی (رح) ، عکرمہ (رح) ، سعید بن جبیر (رح) ، حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کے فرمان (آیت) ” ان الذین کفروا “۔ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ دو آیات مدینہ منورہ کے یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اور ابن جریر ہی نے ربیع بن انس (رض) کے ذریعے سے روایت کیا ہے کہ (آیت) ” ان الذین کفرو “۔ سے (آیت) ” ولھم عذاب عظیم “۔ تک یہ دو آیات غزوہ احزاب کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٧ (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ ط) - ایسا کیوں ہوا ؟ ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر ابتدا ہی میں نہیں لگا دی گئی ‘ بلکہ جب انہوں نے حق کو پہچاننے کے بعدردّکر دیا تو اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی اور ان کی سماعت پر بھی۔ - (وَعَلٰی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌز - یہ مضمون سورة یٰسٓ کے شروع میں بہت شرح و بسط کے ساتھ دوبارہ آئے گا۔ - (وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) ‘ - یہ دوسرے گروہ کا تذکرہ ہوگیا۔ ایک رکوع (کل سات آیات) میں دو گروہوں کا ذکر سمیٹ لیا گیا۔ ایک وہ گروہ جس نے قرآن کریم کی دعوت سے صحیح صحیح استفادہ کیا ‘ ان میں طلب ہدایت کا مادہ موجود تھا ‘ ان کی فطرتیں سلیم تھیں ‘ ان کے سامنے دعوت آئی تو انہوں نے قبول کی اور قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ وہ گلستان محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گل سرسبد ہیں۔ وہ شجرۂ قرآنی کے نہایت مبارک اور مقدس پھل ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جس نے حق کو پہچان بھی لیا ‘ لیکن اپنے تعصبّ یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس کو ردّ کردیا۔ ان کا ذکر بھی بہت اختصار کے ساتھ آگیا۔ ان کا تفصیلی ذکر آپ کو مکی سورتوں میں ملے گا۔ اب آگے تیسرے گروہ کا ذکر آ رہا ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :10 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مُہر لگا دی تھی ، اس لیے انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے ان بنیادی امور کو رد کر دیا جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے ، اور اپنے لیے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دُوسرا راستہ پسند کر لیا ، تو اللہ نے ان کے دِلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ۔ اس مُہر لگنے کی کیفیت کا تجربہ ہر اس شخص کو ہوگا جسے کبھی تبلیغ کا اتفاق ہوا ہو ۔ جب کوئی شخص آپ کے پیش کردہ طریقے کو جانچنے کے بعد ایک دفعہ رد کر دیتا ہے ، تو اس کا ذہن کچھ اس طرح مخالف سمت میں چل پڑتا ہے کہ پھر آپ کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ، آپ کی دعوت کے لیے اس کے کان بہرے ، اور آپ کے طریقے کی خوبیوں کے لیے اس کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں ، اور صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقع اس کے دل پر مُہر لگی ہوئی ہے ۔
(٩) اس آیت میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی بڑی خطرناک چیز ہے، اگر کوئی شخص ناواقفیت یاغفلت وغیرہ کی وجہ سے کسی غلطی کا ارتکاب کرے تو اس کی اصلاح کی امید ہوسکتی ہے ؛ لیکن جو شخص غلطی پر اڑ جائے اور تہیہ کرلے کہ کسی بھی حالت میں بات نہیں ماننا ہے، تو اس کی ضد کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مہر لگادی جاتی ہے جس کے بعد اس سے حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس حالت سے محفوظ رکھے، لہذا اس پر شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب خود اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر مہر لگادی تو معذور ہوگئے اس لئے کہ یہ مہر لگانا خود انہی کی ضد اور تہیہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ حق بات نہیں ماننی۔