Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بدقسمت لوگ یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی ڈرانا ۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96۝ۙ وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ 97؀ ) 10 ۔ یونس:96-97 ) یعنی جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں ۔ ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا آیت ( وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ ) 2 ۔ البقرۃ:145 ) یعنی ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے ۔ یعنی ان بد نصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی ۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر ، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے ۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی ۔ تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے ۔ تو صرف ڈرانے والا ہے ۔ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایمان دار ہو جائیں اور ہدایت قبول کرلیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں ۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بد قسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے ۔ پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس لئے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے؟ ابو العالیہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) 14 ۔ ابراہیم:28 ) لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کئے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے لا یومنون پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں ، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لایومنون خبر ہو اس لئے کہ تقدیر کلام آیت ( ان الذین کفروا لا یومنون ) ہے اور آیت ( سواء علیھم ) جملہ معترضہ ہو جائے گا واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شدید خواہش تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں اور اسی حساب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوشش فرماتے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ یہ وہ چند مخصوص لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی (جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ) ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ سے بیشمار لوگ مسلمان ہوئے حتٰی کہ پھر پورا جزیرہ عرب اسلام کے سایہ عاطفت میں آگیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(لَا يُؤْمِنُوْنَ ) اس سے مراد تمام کفار تو ہو نہیں سکتے، کیونکہ بیشمار کافر دعوت کے نتیجے میں ایمان لائے اور لا رہے ہیں۔ اس لیے یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو پچھلی آیات میں مذکور چھ چیزوں کا یا ان میں سے بعض کا انکار کردیتے ہیں اور ہٹ دھرمی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اگر یہ حق بھی ہو تو ہم اسے نہیں مانیں گے، جیسے بعض یہود مدینہ (بقرۃ : ١٤٦) اور ابو جہل اور اس کے ساتھی وغیرہ (انفال : ٣٢) ۔ جب کوئی طے کرلے کہ میں نے ماننا ہی نہیں تو اسے ایمان کیسے نصیب ہوسکتا ہے ؟ سوئے ہوئے کو جگایا جاتا ہے، جاگتے ہوئے مدہوش کو کون جگا سکتا ہے ؟ اس کے یہ معنی نہیں کہ ڈرانا بالکل فضول ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہر شخص تک پہنچانا فرض ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اللہ کے علم میں کون ایمان لانے والا ہے اور کس کی قسمت میں کفر پر اصرار ہے، ہمیں ہر حال میں ڈرانے پر ثواب ملے گا اور نہ ڈرانے پر باز پرس ہوگی۔ اس لیے فرمایا کہ ڈرانا نہ ڈرانا ان پر برابر ہے، یہ نہیں فرمایا کہ آپ پر برابر ہے، یہاں ہمزہ کا معنی ’ کیا ‘ نہیں ہوگا، بلکہ یہ برابری کا مفہوم ادا کر رہا ہے، اسے ’ ہمزہ تسویہ ‘ کہتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک جو لوگ کافر ہوچکے ہیں برابر ہے ان کے حق میں خواہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہ لاویں گے (یہ بات ان کافروں کے متعلق ہے جن کی نسبت خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوگا عام کافر مراد نہیں ان میں بہت سے لوگ بعد میں مسلمان ہوگئے) بند لگا دیا ہے اللہ نے انکے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اور ان کے لئے سزا بڑا ہے،- معارف و مسائل - خلاصہ مضمون مع ربط۔- سورة بقرہ کی پہلی آیتوں میں قرآن کریم کا کتاب ہدایت اور ہر شک وشبہ سے بالاتر ہونا بیان کرنے کے بعد ان خوش نصیب لوگوں کا ذکر تھا، جنہوں نے اس کتاب ہدایت سے پورا فائدہ اٹھایا جن کو قرآن کی اصطلاح میں مؤمنین اور متقین کا لقب دیا گیا ہے اور ان حضرات کی مخصوص صفات و علامات بھی بیان کی گئیں اس کے بعد پندرہ آیتوں میں ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اس ہدایت کو قبول نہیں کیا بلکہ انکار وعناد سے پیش آئے پھر ان لوگوں میں دو گروہ تھے ایک وہ جنہوں نے کھل کر انکار و مخالفت کا راستہ اختیار کیا جن کو قرآن کی اصطلاح میں کافر کہا گیا دوسرے وہ لوگ جو اپنی اخلاقی پستی اور دنیا کی ذلیل اغراض کی بنا پر یہ جرأت بھی نہ کرسکے کہ ضمیر کی آواز اور دلی عقیدے کو صاف طور پر ظاہر کردیتے بلکہ دھوکہ اور فریب کی راہ اختیار کی مسلمانوں سے یہ کہتے کہ ہم مسلمان ہیں، قرآن اور اس کی ہدایات کو مانتے ہیں تمہارے ساتھ ہیں اور دلوں میں ان کے کفر و انکار تھا کفار کی مجسلوں میں جاکر یہ کہتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور ان کے راز معلوم کرنے کے لئے ہم ان سے ملتے ہیں، - اس گروہ کا نام قرآن کی اصطلاح میں منافق ہے یہ پندرہ آیتیں ہیں جو قرآن کو نہ ماننے والوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں ان میں سے مذکورہ دو آیتوں میں کھلے کافروں کا ذکر ہے اور آگے تیرہ آیتوں میں منافقین کا ذکر اور ان کے متعلقہ حالات و علامات اور ان کا انجام مذکورہ ہے،- ان تمام آیات کی تفصیل پر یک جائی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم نے سورة بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں ایک طرف تو چشمہ ہدایت کا پتہ دے دیا کہ وہ قرآن ہے اور دوسری طرف تمام اقوام کو اسی ہدایت کے قبول یا انکار کے معیار سے دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک ہدایت یافتہ جن کو مؤمنین ومتقین کہا جاتا ہے دوسرے ہدایت سے انحراف و انکار کرنے والے جن کو کافر یا منافق کہا جاتا ہے، - پہلی قسم وہ ہے جن کا راستہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں طلب کیا گیا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جن کے راستہ سے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ میں پناہ مانگی گئی ہے،- قرآن کریم کی اس تعلیم سے ایک اصولی مسئلہ یہ بھی نکل آیا کہ اقوام عالم کے حصوں یا گروہوں میں ایسی تقسیم جو تقسیم جو اصول پر اثر انداز ہوسکے وہ صرف اصول ونظریات ہی کے اعتبار سے ہوسکتی ہے، نسب، وطن، زبان، رنگ اور جغرافیائی حالات ایسی چیزیں نہیں جن کے اشتراک یا اختلاف سے قوموں کے ٹکڑے کئے جاسکیں، قرآن کریم کا اس بارے میں واضح فیصلہ بھی سورة تغابن میں مذکور ہے،- خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ (٢: ٦٤) یعنی اللہ نے تم سب کو پیدا کیا، پھر کچھ لوگ تم میں سے مومن اور کچھ کافر ہوگئے،- مذکور الصدر دو آیتوں میں حق تعالیٰ نے ان کافروں کا ذکر فرمایا ہے جو اپنے کفر و انکار میں ضد اور عناد تک پہنچ گئے تھے اور اس ضد کی وجہ سے وہ کسی حق بات کو سننے اور روشن دلیل کو دیکھنے کے لئے بھی تیار نہ تھے، ایسے لوگوں کے بارے میں سُنّۃ اللہ یہی ہے کہ ان کو ایک سزا اسی جہان میں نقدیہ دی جاتی ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، کانوں، آنکھوں کو حق وصدق کے قبول کرنے سے بند کردیا جاتا ہے، ان کا حال حق وصدق کے بارے میں ایسا ہوجاتا ہے کہ گویا نہ ان کو سمجھنے کی عقل نہ دیکھنے کے لئے آنکھیں نہ سننے کے لئے کان۔ آیت میں ایسے لوگوں کا عذاب عظیم میں مبتلا ہونا ذکر کیا گیا ہے،- کفر کی تعریف :- کفر کے لفظی معنی چھپانے کے ہیں ناشکری کو بھی کفر اس لئے کہتے ہیں کہ محسن کے احسان کو چھپانا ہے اصطلاح شریعت میں جن چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے ان میں سے کسی چیز کے انکار کا نام کفر ہے مثلاً ایمان کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں اور اس کا ثبوت قطعی و یقینی ہے ان سب چیزوں کی دل سے تصدیق کرنا اور حق سمجھنا اس لئے جو شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان تعلیمات میں سے جن کا ثبوت یقینی اور قطعی ہے کسی ایک کو بھی حق نہ سمجھے اور اس کی تصدیق نہ کرے وہ کافر کہلائے گا،- اِنذار کے معنیٰ :- لفظ انداز ایسی خبر دینا جس سے خوف پیدا ہو جیسا کہ ابشار ایسی خبر دینے کو کہتے ہیں جس سے سرور پیدا ہو، اردو زبان میں اس کا ترجمہ ڈرانے سے کیا جاتا ہے مگر درحقیقت مطلقاً ڈرانے کو انذار نہیں کہتے بلکہ ڈرانا جو شفقت و رحمت کی بناء پر ہو جیسے اولاد کو آگ سے، سانپ بچھوّ اور درندوں سے ڈرایا جاتا ہے اسی لئے جو ڈاکو، چور ظالم، کسی انسان کو دھمکاتے ڈراتے ہیں اس کو انذار اور ان لوگوں کو نذیر نہیں کہا جاتا، انبیاء کو خصوصیت سے نذیر کا لقب دیا جاتا ہے کہ وہ ازراہ شفقت آئندہ آنے والے مصائب سے ڈراتے ہیں انبیاء کے لئے اس لفظ کو اختیار کرنے میں اس کی ہدایت ہے کہ مصلح مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ مخاطب کی خیرخواہی کیساتھ ہمدردی سے گفتگو کرے محض ایک کلمہ پہنچا دینا مقصد نہ ہو،- اس آیت میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ ضدی اور معاند کفار جو حقیقت کو پہچاننے کے باوجود کفر و انکار پر جمے ہوئے ہیں یا اپنے تکبر اور کج رائی کی بناء پر کسی حق بات کو سننے اور روشن دلائل کو دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کی اصلاح اور ایمان کے متعلق جو آپ کوشش کرتے ہیں ان کے لئے مؤ ثر ثابت نہ ہوگی بلکہ آپ کا کوشش کرنا اور نہ کرنا ان کے حق میں برابر ہے،- اس کی وجہ اگلی آیت میں یہ بتلائی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے سوچنے سمجھنے کے جتنے راستے تھے وہ سب بند ہیں اس لئے ان سے اصلاح کی توقع رکھنا درد سر ہے،- کسی چیز پر مہر اس لئے لگائی جاتی ہے کہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہوسکے، ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے کا یہی مطلب ہے کہ ان میں قبول حق کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی،- ان کی اس حالت کو دلوں اور کانوں پر مہر کرنے سے تعبیر فرمایا ہے مگر آنکھوں کے لئے مہر کے بجائے پردہ پڑنے کا ذکر کیا گیا، اس میں حکمت یہ ہے کہ دلوں میں آنے والا کوئی مضمون یا کوئی فکر و خیال کسی ایک سمت سے نہیں آسکتی ہے ان کی بندش جب ہی ہوسکتی ہے جب ان پر مہر کردی جائے بخلاف آنکھوں کے کہ ان کا ادراک صرف ایک سمت یعنی سامنے سے ہوسکتا ہے اور جب سامنے پردہ پڑجائے تو آنکھوں کا ادراک ختم ہوجاتا ہے (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٦- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کاشتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

٦) جو لوگ کفر پر پکے ہوچکے ان کو بھلائی کی بات کرتا اور انکو قرآن پاک کے ذریعے ڈرانا نہ ڈرانا ایک جیسا ہے وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، اور یہ بھی تفسیر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے، لیکن اللہ نے انہیں ارادے کی آزادی دے کر تمام حجت کردی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) - ” اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا “ سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اپنے کفر پر اڑ گئے۔ اس کو ہم تاویل عام میں نہیں لے سکتے۔ اس لیے کہ اس صورت میں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص نے کسی بھی وقت کفر کیا اب وہ ہدایت پر آہی نہیں سکتا یہاں یہ بات مراد نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مغالطہ کی بنا پر یا عدم توجہی کی بنا پر کفر میں ہے ‘ حق اس پر واضح نہیں ہوا ہے تو انذار وتبشیر سے اسے فائدہ ہوجائے گا۔ آپ اسے وعظ و نصیحت کریں تو وہ اس کا اثر قبول کرے گا۔ لیکن جو لوگ حق کو حق سمجھنے اور پہچاننے کے باوجود محض ضد ‘ ہٹ دھرمی اور تعصبّ کی وجہ سے یا تکبرّ اور حسد کی وجہ سے کفر پر اڑے رہے تو ان کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے برابر ہے خواہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں سمجھائیں یا نہ سمجھائیں ‘ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ‘ انذار فرمائیں یا نہ فرمائیں ‘ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اس لیے کہ سوتے کو تو جگایا جاسکتا ہے ‘ جاگتے کو آپ کیسے جگائیں گے ؟ یہ گویا مکہ کے سرداروں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ ان کے دل اور دماغ گواہی دے چکے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور قرآن ان پر اتمام حجت کرچکا ہے اور وہ مان چکے ہیں کہ قرآن کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے ‘ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکمل معجزہ ہے ‘ اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :9 یعنی وہ چھ کی چھ شرطیں ، جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے ، پوری نہ کیں ، اور ان سب کو ، یا ان میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

۷) یہاں اُن کافروں کا ذکر ہورہا ہے جنہوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ چاہے کتنے واضح اور روشن دلائل ان کے سامنے آجائیں، وہ کبھی آنحضرتﷺ کی دعوت پر ایمان نہیں لائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اﷲ عنہما) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ’’’کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کفر پر اڑگئے ہیں۔ ’’ترجمے میں‘‘ کفر اپنا لیا ہے‘‘ کے الفاظ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ (۸) ’’ڈرانا‘‘ انذار کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم نے انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کو بکثرت ’’ڈرانے‘‘ سے تعبیرفرمایا ہے۔ کیونکہ انبیائے کرام علیہم السلام لوگوں کو کفر اور بداعمالیوں کے بُرے انجام سے ڈراتے ہیں۔ لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ چاہے ان کو دعوت دیں یا نہ دیں، ان کے سامنے دلائل پیش کریں، یا نہ کریں، چونکہ انہوںنے تہیہ کر رکھا ہے کہ کوئی بات ماننی نہیں ہے، اس لئے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔