Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جادو اور شعر کبھی شیاطین کا نام لے کر شیطانی کام سے بھی لوگ کرتے ہیں کبھی دواؤں وغیرہ کے ذریعہ سے بھی جادو کیا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ بعض بیان جادو ہیں دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ بطور تعریف کے آپ نے فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بطور مذمت کے یہ ارشاد ہوا ہو کہ وہ اپنی غلط بات اس طرح بیان کرتا ہے کہ سچ معلوم ہوتی ہے جیسے ایک اور حدیث میں ہے کہ کبھی میرے پاس تم مقدمہ لے کر آتے ہو تو ایک اپنی چرب زبانی سے اپنے غلط دعویٰ کو صحیح ثابت کر دیتا ہے وزیر ابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیر رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب الاشراف علی مذاہب الاشراف میں سحر کے باپ میں کہا ہے کہ اجماع ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے لیکن ابو حنیفہ اس کے قائل نہیں جادو کے سیکھنے والے اور اسے استعمال میں لانے والے کو امام ابو حنیفہ امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تو کافر بتاتے ہیں امام ابو حنیفہ کے بعض شاگردوں کا قول ہے کہ اگر جادو کو بچاؤ کے لئے سیکھے تو کافر نہیں ہوتا ہاں جو اس کا اعتقاد رکھے اور نفع دینے والا سمجھے ۔ وہ کافر ہے ۔ اور اسی طرح جو یہ خیال کرتا ہے کہ شیاطین یہ کام کرتے ہیں اور اتنی قدرت رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہے ۔ امام شافعی فرماتے ہیں جادوگر سے دریافت کیا جائے اگر وہ بابل والوں کا سا عقیدہ رکھتا ہو اور سات سیارہ ستاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا جانتا ہو تو کافر ہے اور اگر یہ نہ ہو تو بھی اگر جادو کو جائز جانتا ہو تو بھی کافر ہے امام مالک اور امام احمد کا قول یہ بھی ہے کہ جادوگر نے جب جادو کیا اور جادو کو استعمال میں لایا وہیں اسے قتل کر دیا جائے امام شافعی اور امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اس کا قتل بوجہ حد کے ہے مگر امام شافعی کا بیان ہے کہ بوجہ قصاص کے ہے امام مالک امام ابو حنفیہ اور ایک مشہور قول میں امام احمد کا فرمان ہے کہ جادوگر سے توبہ بھی نہ کرائی جائے اس کی توبہ سے اس پر سے حد نہیں ہٹے گی اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہو گی ۔ امام احمد کا ہی صحیح قول ہے ۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ اہل کتاب کا جادوگر بھی امام ابو حنیفہ کے نزدیک قتل کر دیا جائے گا لیکن تینوں اور اماموں کا مذہب اس کے برخلاف ہے لبید ین اعصم یہودی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور آپ نے اس کے قتل کرنے کو نہیں فرمایا اگر کوئی مسلمان عورت جادوگرنی ہو تو اس کے بارے میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ قید کر دی جائے اور تینوں کہتے ہیں اسے بھی مرد کی طرح قتل کر دیا جائے واللہ اعلم حضرت زہری کا قول ہے کہ مسلمان جادوگر قتل کر دیا جائے اور مشرک قتل نہ کیا جائے ۔ امام مالک فرماتے ہیں اگر ذمی کے جادو سے کوئی مر جائے تو ذمی کو بھی مار ڈالنا چاہئے یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ پہلے تو اسے کہا جائے کہ توبہ کر اگر وہ کر لے اور اسلام قبول کرے تو خیر ورنہ قتل کر دیا ائے اور یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ اگرچہ اسلام قبول کر لے تاہم قتل کر دیا جائے اس جادوگر کو جس کے جادو میں شرکیہ الفاظ ہوں اسے چاروں امام کافر کہتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے فلاتکفر امام مالک فرماتے ہیں جب اس پر غلبہ پا لیا جائے پھر وہ توبہ کرے تو توبہ قبول نہیں ہو گی جس طرح زندیق کی توبہ قبول نہیں ہو گی ہاں اس سے پہلے اگر توبہ کر لے تو قبول ہو گی اگر اس کے جادو سے کوئی مر گیا پھر تو بہر صورت مارا جائے گا امام شافعی فرماتے ہیں اگر وہ کہے کہ میں نے اس پر جادو مار ڈالنے کے لئے نہیں کیا تو قتل کی خطا کی دیت ( جرمانہ ) لے لیا جائے ۔ جادوگر سے اس کے جادو کو اتروانے کی حضرت سعید بن مسیب نے اجازت دی ہے جیسے صحیح بخاری شریف میں ہے عامر شعبی بھی اس میں کوئی حرج نہیں بتلاتے لیکن خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اسے مکروہ بتاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہا آپ کیوں جادو کو افشاء نہیں کرتے؟ تو آپ نے فرمایا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی اور میں لوگوں پر برائی افشاء کرنے سے ڈرتا ہوں ۔ حضرت وہب فرماتے ہیں بیری کے سات پتے لے کر سل بٹے پر کوٹ لئے جائیں اور پانی ملا لیا جائے پھر آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کر دیا جائے اور جس پر جادو کیا گیا ہے اسے تین گھونٹ پلا دیا جائے اور باقی پانی سے غسل کر دیا جائے انشاء اللہ جادو کا اثر جاتا رہے گا یہ عمل خصوصیت سے اس شخص کے لئے بہت ہی اچھا ہے جو اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہو جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے سب سے اعلیٰ چیز آیت ( قل اعوذ برب الناس ) اور آیت ( قل اعوذب برب الفلق ) کی سورتیں ہیں حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 اللہ تعالیٰ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سی آیات بیّنات عطا کی ہیں، جن کو دیکھ کر یہود کو بھی ایمان لے آنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں خود ان کی کتاب تورات میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف کا ذکر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد موجود ہے، لیکن انہوں نے پہلے بھی کسی عہد کی کب پرواہ کی ہے جو اس عہد کی وہ کریں گے ؟ عہد شکنی ان کے گروہ کی ہمیشہ عادت رہی ہے۔ حتٰی کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بھی اس طرح پس پشت ڈال دیا، جیسے وہ اسے جانتے ہی نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٧] یہود کا آیات کو پس پشت ڈال دینا :۔ یہاں دوبارہ یہود کے اس کردار پر گرفت کی گئی ہے کہ تورات میں مذکور نشانیوں کے مطابق یہود نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری طرح پہچان تو لیا۔ مگر ایمان لانے سے انکار کرنے کے بعد انہوں نے اس کتاب کے ان حصوں کو یوں فراموش کردیا جیسے وہ انہیں کبھی جانتے ہی نہ تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

3 یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ تمام اوصاف موجود تھے جو تورات اور دوسری آسمانی کتب ” لِّمَا مَعَھُمْ “ میں نبی آخر الزمان کے مذکور تھے۔ اس اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تورات اور ان کے پاس موجود دوسری آسمانی کتب ” لِّمَا مَعَھُمْ “ کے پوری طرح مصداق تھے، مگر یہود کی بدنصیبی کہ جب آپ ان کے پاس آئے تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا کر تورات کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا، گویا انھیں اپنی کتاب کا بھی پتا نہیں۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ نَبَذَ فَرِيْـقٌ مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ۝ ٠ ۤۙ كِتٰبَ اللہِ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِھِمْ كَاَنَّھُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ١٠١ ۡ- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - وراء - ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی:- وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] ،- ( و ر ی ) واریت - الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ - ظهر - الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل :- وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10]- ( ظ ھ ر ) الظھر - کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠١) اور جس وقت ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایسا رسول آتا ہے جو ان صفات واوصاف کا مالک ہوتا ہے جن ان کی کتاب میں تذکرہ ہے تو یہ اہل کتاب توریت کو اپنے پس پشت ڈال دیتے ہیں اور توریت میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفات اور آپ کے اوصاف کا ذکر ہے، ان پر ایمان نہیں لاتے اور نہ کسی کے سامنے ان کو بیان کرتے ہیں۔ ان جاہل یہودیوں نے تمام انبیاکرام کی کتابوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (وَلَمَّا جَآءَ ‘ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ) (مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ ) (نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ق کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوْرِہِمْ ) (کَاَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) ۔ - علماء یہود نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی پیشین گوئیاں چھپانے کی خاطر خود تورات کو پس پشت ڈال دیا اور بالکل انجانے سے ہو کر رہ گئے۔ ان کے عوام پوچھتے ہوں گے کہ کیا یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر تم کیا کرتے تھے ؟ لیکن یہ جواب میں کہتے کہ یقین سے نہیں کہہ سکتے ‘ ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو انہوں نے ایسا رویہ اپنا لیا جیسے انہیں کچھ علم نہیں ہے۔- اب ایک اور حقیقت نوٹ کیجیے۔ جب کسی مسلمان امت میں دین کی اصل حقیقت اور اصل تعلیمات سے بعد پیدا ہوتا ہے تو لوگوں کا رجحان جادو ‘ ٹونے ‘ ٹوٹکے ‘ تعویذ اور عملیات وغیرہ کی طرف ہوجاتا ہے۔ اللہ کی کتاب تو ہدایت کا سرچشمہ بن کر اتری تھی ‘ لیکن یہ اس کو اپنی دنیوی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بناتے ہیں۔ چناچہ دشمن کو زیر کرنے اور محبوب کو قدموں میں گرانے کے لیے عملیات قرآنی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ دھندے ہمارے ہاں بھی خوب چل رہے ہیں اور شاید سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار یہی ہے ‘ جس میں نہ تو کوئی محنت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سرمایہ کاری کی۔ بنی اسرائیل کا بھی یہی حال تھا کہ وہ دین کی اصل حقیقت کو چھوڑ کر جادو کے پیچھے چل پڑے تھے۔ فرمایا :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani