Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 یعنی ان یہودیوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے عہد کی کوئی پرواہ نہیں کی، البتہ شیطان کے پیچھے لگ کر نہ صرف جادو ٹونے پر عمل کرتے رہے، بلکہ یہ دعوی کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) (نعوذ باللہ) اللہ کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ایک جادوگر تھے اور جادو کے زور سے ہی حکومت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا حضرت سلیمان (علیہ السلام) جادو کا عمل نہیں کرتے تھے، کیونکہ جادو سحر تو کفر ہے، اس کفر کا ارتکاب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کیوں کر کرسکتے تھے ؟ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جادو گری کا سلسلہ بہت عام ہوگیا تھا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے سد باب کے لئے جادو کی کتابیں لے کر اپنی کرسی یا تخت کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ان شیاطین اور جادو گروں نے ان کتابوں کو نکال کر نہ صرف لوگوں کو دکھایا، بلکہ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قوت و اقتدار کا راز یہی جادو کا عمل تھا اور اسی بنا پر ان ظالموں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی کافر قرار دیا، جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے فرمائی (ابن کثیر وغیرہ) واللہ عالم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٨] اس آیت میں یہود کے ایک اور مکروہ کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ یہود پر جب اخلاقی اور مادی انحطاط کا دور آیا تو انہوں نے تورات اور اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اور جادو ٹونے، طلسمات، عملیات اور تعویذ گنڈوں کے پیچھے پڑگئے اور ایسی تدبیریں ڈھونڈھنے لگے جن سے مشقت اور جدوجہد کے بغیر محض پھونکوں اور منتروں سے سارے کام بن جایا کریں۔ چناچہ وہ جادو وغیرہ سیکھنے سکھانے میں مشغول ہوگئے۔ یہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے عہد حکومت کی بات ہے۔ انہیں جب یہود کے اس رجحان کا علم ہوا تو انہوں نے ایسے ساحروں سے ان کی سب کتابیں چھین کر داخل دفتر کردیں۔- یہود کا سیدنا سلیمان (علیہ السلام) پر جادو کا الزام :۔ اب سلیمان (علیہ السلام) کو جو معجزات عطا ہوئے تھے وہ حکمت الہی کے مطابق ایسے عطا ہوئے جو جادو اور جادوگروں کی دسترس سے باہر تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے تمام سرکش جنوں کو آپ کے لیے مسخر کردیا تھا اور سلیمان (علیہ السلام) ان جنوں سے سخت مشقت کا کام لیتے تھے۔ ہوائیں آپ کے لیے مسخر تھیں جو آن کی آن میں آپ کا تخت مہینوں کی مسافت پر پہنچا دیتی تھیں۔ پرندے بھی آپ کے مسخر تھے اور آپ ان سے بھی کام لیتے تھے۔ آپ پرندوں کی بولی سمجھتے تھے اور پرندے بھی آپ کی بات سمجھ جاتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ جب سلیمان فوت ہوئے تو ان شیطان یہودیوں نے کہا کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) تو یہ سب کچھ جادو کے زور پر کرتے تھے اور اس کی دلیل یہ پیش کی کہ سلیمان (علیہ السلام) کے دفتر میں جادو کی بیشمار کتابیں موجود ہیں۔ - جادو سیکھنا سکھانا کفر ہے :۔ گویا جو کام سلیمان (علیہ السلام) نے اس فتنہ کے سدباب کے لئے کیا تھا۔ ان یہودیوں نے اسی فتنہ کو ان کی سلطنت کی بنیاد قرار دے کر ان پر ایک مکروہ الزام عائد کردیا اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کفر کا کام سلیمان نے نہیں کیا تھا بلکہ ان شیطان لوگوں نے کیا تھا جو جادو سیکھتے سکھاتے تھے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جادو سیکھنا اور سکھانا کفر ہے۔- [١١٩] ہاروت اور ماروت کا قصہ اور جادو سیکھنے والوں کا ہجوم :۔ سلیمان (علیہ السلام) کے جادو کو روکنے کے لیے اس اقدام کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہود کی ایک دوسرے طریقہ سے آزمائش فرمائی اور وہ یہ تھی کہ بابل شہر میں (جہاں آج کل کوفہ ہے) دو فرشتوں ہاروت اور ماروت کو پیروں، فقیروں کے بھیس میں نازل فرمایا اور اس آزمائش سے مقصد یہ تھا کہ آیا ابھی تک یہود کے اذہان سے جادو اور ٹونے ٹوٹکے کی عقیدت اور محبت زائل ہوئی ہے یا نہیں۔ جب یہودیوں کو ان پیروں اور فقیروں کی بابل میں آمد کا علم ہوا تو فوراً ان کی طرف رجوع کرنے لگے۔ ان فرشتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ اگر تمہارے پاس کوئی شخص یہ ٹونے ٹوٹکے سیکھنے آئے تو پہلے اس کو اچھی طرح خبردار کردینا کہ یہ ایک کفر کا کام ہے اور ہم محض تمہارے امتحان کے لیے آئے ہیں۔ لہذا تم کفر کا ارتکاب مت کرو۔ پھر بھی اگر کوئی سیکھنے پر اصرار کرے تو اسے سکھادینا۔ چناچہ جو لوگ بھی ان کے پاس جادو سیکھنے آتے، فرشتے اسے پوری طرح متنبہ کردیتے، لیکن وہ اس کفر کے کام سے باز نہ آتے اور سیکھنے پر اصرار کرتے اور ایسے ٹونے ٹوٹکے سیکھنے والوں کے ان فرشتوں کے ہاں ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے رہتے تھے۔- [١٢٠] جادو کے ذریعہ میاں بیوی میں جدائی ڈالنا : طرفہ تماشہ یہ کہ ان سیکھنے والوں میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو ایسا عمل سیکھنا چاہتے تھے۔ جس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے اور پھر وہ بیوی اس سیکھنے والے پر عاشق ہوجائے اور میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دینا ہی سوسائٹی کا سب سے بڑا مفسدہ ہے۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ ابلیس سمندر میں اپنے تخت پر بیٹھا رہتا ہے اور اپنے چیلوں اور چانٹوں کو ملک میں فساد پیدا کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے روزانہ بھیجتا رہتا ہے۔ شام کو یہ سب اکٹھے ہو کر ابلیس کے حضور اپنے اپنے کارنامے بیان کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں فتنہ کھڑا کیا اور کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں شر بپا کیا مگر ابلیس انہیں کچھ اہمیت نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا، پھر ایک اور چیلا آ کر کہتا ہے کہ میں فلاں میاں بیوی میں جدائی ڈال کے آیا ہوں تو ابلیس خوش ہو کر اسے شاباش دیتا اور گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تھا کرنے کا کام جو اس نے سر انجام دیا ہے۔ (مسلم، کتاب صفۃ المنافقین، باب تحریش الشیطان و بعثۃ سرایاہ لفتنۃ الناس۔۔ الخ) اس حدیث کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس دور میں یہود میں اخلاقی انحطاط کس نچلے درجہ تک پہنچ چکا تھا کہ وہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کا عمل ہی نہیں سیکھتے تھے۔ ( جس سے ان کی ذات کو کچھ فائدہ نہ تھا) بلکہ اس کے آگے ایسا عمل اور جنتر منتر بھی سیکھتے تھے۔ جس سے وہ جدا شدہ بیوی اس منتر کروانے والے پر عاشق ہوجائے۔- [١٢١] اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔- ١۔ جادو کیوں کفر ہے ؟ جادو سے عموماً لوگوں کو نقصان پہنچانا ہی مقصود ہوتا ہے۔ کسی کے بھلے کے لیے کبھی کوئی جادو نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی کرواتا ہے۔ اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے وہ جادو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کے دشمن بن جاتے ہیں اور بہت سے لوگ اسی وجہ سے جادوگروں کے دشمن ہوتے ہیں اور جادوگر خود بھی ہمیشہ نامراد رہتا ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى 69؀) 20 ۔ طه :69) - ٢۔ یہ ضروری نہیں کہ جادو وغیرہ کا اثر ضرور ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہو تو اثر ہوگا ورنہ نہیں ہوتا۔- ٣۔ یہود کو پوری طرح علم تھا کہ یہ کفر کا کام ہے اور آخرت میں انہیں اس کی سزا مل کر رہے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری پر یہودیوں نے جاننے پہچاننے کے باوجود حسد اور عناد کی بنا پر آپ کی پیروی سے انکار کردیا۔ میدان میں وہ آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ حق پر ہونے کا عقیدہ و عمل ہی قوت کی بنیاد ہوتا ہے، جس سے ان کے ہاتھ خالی تھے۔ چناچہ وہ ہر اس قوم کی طرح جو عقیدے اور عمل کی قوت سے خالی ہوتی ہے، جادو ٹونے اور عملیات کے پیچھے پڑگئے اور ایسی تدبیریں ڈھونڈنے لگے جن سے کسی مشقت اور جدو جہد کے بغیر سارے کام بن جایا کریں۔ جب اور بس نہ چلا تو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا۔ یہ جادو کرنے والا لبید بن اعصم یہودی تھا، جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنگھی اور اس سے نکلنے والے بالوں پر، جو اس نے ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھے تھے، جادو کیا اور اسے ذی اروان نامی کنویں کی تہ میں ایک بڑے پتھر کے نیچے دبا دیا۔ اس کا اثر آپ پر یہ ہوا کہ آپ کو خیال ہوتا کہ آپ اپنے اہل کے پاس جاتے ہیں، مگر جا نہیں سکتے تھے۔ (گویا یہ ” مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ “ کی ایک صورت تھی) آپ نے بار بار اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کے ذریعے سے مطلع فرمایا اور آپ نے وہ سب کچھ نکال کر ختم کروا دیا اور کنواں بھی دفن کردیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا عطا فرما دی۔ [ بخاری، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( إن اللہ یأمر - بالعدل ۔۔ ) : ٦٠٦٣، ٥٧٦٣۔ مسلم، باب السحر : ٢١٨٩، عن عائشہ (رض) ] افسوس مسلمان بھی شرک و بدعت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جب ذلت و پستی کے گڑھے میں گرے تو ان کی اکثریت بھی جادو ٹونے اور سفلی علوم کے پیچھے پڑگئی۔ - وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ یہودیوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) (نعوذ باللہ) جادوگر تھے اور ان کی حکومت کا دار و مدار جادو پر تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی اور بتایا کہ جادو تو کفر ہے، سلیمان (علیہ السلام) صاحب معجزہ پیغمبر تھے، انھوں نے کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے ان کے عہد میں کفر کا یہ کام کیا کہ وہ خود بھی جادو کرتے اور لوگوں کو بھی جادو سکھاتے۔ یہود ایک تو اس علم سحر کے پیچھے لگ گئے اور ایک اس علم کے پیچھے لگ گئے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتارا گیا، جو سحر سے الگ ایک علم تھا اور جسے عمل میں لانا بعض اوقات کفر تھا۔ وہ فرشتے کسی کو بھی وہ علم نہیں سکھاتے تھے جب تک اسے اچھی طرح آگاہ نہ کردیتے کہ ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، لہٰذا تم اس عمل کو کفر کے لیے استعمال نہ کرنا، مگر یہود کی اخلاقی پستی کا یہ حال تھا کہ وہ ان سے وہ علم ضرور سیکھتے اور اس میں سے بھی وہ باتیں سیکھتے جو سراسر نقصان پہچانے والی ہیں اور جنھیں عمل میں لانا کفر ہے اور جن پر شیطان سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے، یعنی ایسے عملیات جن سے وہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے۔ فرشتوں کا آزمائش کے لیے بھیجا جانا کچھ تعجب کی بات نہیں۔ افسوس کہ مسلمان بھی جب پستی کا شکار ہوئے تو جادو کے پیچھے پڑگئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے قرآن کی آیات مثلاً : (وَاَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗء) وغیرہ کو بھائیوں کے درمیان اور میاں بیوی کے درمیان عداوت ڈالنے کے لیے عمل میں لانا شروع کردیا، حالانکہ یہودی جانتے تھے اور یہ مسلمان بھی جانتے ہیں کہ یہ فعل کفر ہے اور ایسا کرنے والے کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ - استاذ محمد عبدہ الفلاح لکھتے ہیں کہ اس مقام پر بعض مفسرین نے ہاروت و ماروت سے متعلق عجیب و غریب داستانیں نقل کردی ہیں، جن میں زہرہ نامی ایک عورت سے ان کا معاشقہ اور پھر زہرہ کے ستارہ بن جانے کا واقعہ بھی داخل ہے۔ علمائے محققین نے ان قصوں کو یہود کی افسانہ طرازی قرار دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) کہتے ہیں کہ بعض صحابہ اور تابعین سے اس قسم کی روایات منقول ہیں، مگر زیادہ سے زیادہ ہم ان کو نو مسلم یہودی عالم کعب الاحبار کا قول قرار دے سکتے ہیں۔ (ابن کثیر۔ البدایہ) حافظ منذری (الترغیب و الترہیب : ٢؍١٠٢) اور علامہ احمد شاکر مصری ( تعلیق مسند احمد : ٩؍٣٥) نے بھی اسی کی تائید کی ہے کہ یہ کعب احبار کا قول ہے۔- احسن البیان میں ہے کہ بعض مفسرین نے ”ۤوَمَآ اُنْزِلَ “ میں ” ما “ نا فیہ مراد لیا ہے اور ہاروت و ماروت پر کسی چیز کے اترنے کی نفی کی ہے، لیکن قرآن مجید کا سیاق اس کی تائید نہیں کرتا، اسی لیے ابن جریر وغیرہ نے اس کی تردید کی ہے۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (یہودی ایسے بےعقل ہیں کہ) انہوں نے (کتاب اللہ کا تو اتباع نہ کیا اور) ایسی چیز کا (یعنی سحر وجادو کا) اتباع (اختیار) کیا جس کا چرچا کیا کرتے تھے شیاطین (یعنی خبیث جن) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے (عہد) سلطنت میں اور (بعضے بیوقوف جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر گمان سحر رکھتے ہیں بالکل ہی لغو بات ہے کیونکہ سحر تو اعتقادا یا عملا کفر ہے اور) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے (نعوذ باللہ کبھی) کفر نہیں کیا (ہاں) شیاطین (یعنی خبیث جن بیشک) کفر (کی باتیں اور کام یعنی سحر) کیا کرتے تھے اور حالت یہ تھی کہ (خود تو کرتے ہی اور) آدمیوں کی بھی (اس) سحر کی تعلیم کیا کرتے تھے (سو وہی سحر متوارث چلا آرہا ہے اس کا اتباع یہ یہودی کرتے ہیں) اور اسی طرح اس (سحر) کا بھی (یہ لوگ اتباع کرتے ہیں) جو کہ ان دونوں فرشتوں پر (ایک خاص حکمت کے واسطے) نازل کیا گیا تھا (جو شہر) بابل میں (رہتے تھے) جن کا نام ہاروت وماروت تھا اور وہ دونوں (وہ سحر) کسی کو نہ بتلاتے جس تک جب تک (احتیاطا پہلے) یہ (نہ) کہہ دیتے کہ ہمارا وجود بھی (لوگوں کے لئے) ایک امتحان (خداوندی) ہے کہ (ہماری زبان سے سحر پر مطلع ہو کر کون پھنستا ہے اور کون بچتا ہے) سو تو (اس پر مطلع ہوکر) کہیں کافر مت بن جائیو (کہ اس میں پھنس جاؤ) سو بعضے لوگ ان دونوں (فرشتوں) سے اس قسم کا سحر سیکھ لیتے تھے جس کے ذریعہ سے (عمل کرکے) کسی مرد اور اس کی بیوی میں تفریق پیدا کردیتے تھے اور (اس سے کوئی وہم اور خوف میں نہ پھنس جاوے کہ جادوگر جو چاہے کرسکتا ہے کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ) یہ (ساحر) لوگ اس (سحر) کے ذریعے سے کسی کو (ذرہ برابر) بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر خدا ہی کے ( تقدیری) حکم سے اور (ایسا سحر حاصل کرکے بس) ایسی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جو (خود) ان کو (بوجہ گناہ کے) ضرر رساں ہیں اور (کسی معتدبہ درجہ میں) ان کو نافع نہیں ہیں ( تو یہودی بھی اتباع سحر سے بڑے ضرر میں ہوں گے) اور یہ (بات کچھ ہمارے ہی کہنے کی نہیں بلکہ) ضرور یہ (یہودی) کوئی اتنا جانتے ہیں کہ جو شخص اس (سحر) کو (کتاب اللہ کے عوض) اختیار کرے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ (باقی) نہیں اور بیشک بری ہے وہ چیز (یعنی جادو و کفر) جس میں وہ لوگ اپنی جان دے رہے ہیں کاش ان کو (اتنی) عقل ہوتی اور اگر وہ لوگ (بجائے اس کفر و بدعملی کے) ایمان اور تقوے ٰ (اختیار) کرتے تو خدا تعالیٰ کے یہاں کا معاوضہ (اس کفر وبد عملی سے ہزار درجے) بہتر تھا کاش اتنی عقل ہوتی، - معارف و مسائل :- آیت مذکورہ کی تفسیر اور شان نزول میں نقل کی ہوئی اسرائیلی روایات سے بہت سے لوگوں کو مختلف قسم کے شبہات پیش آتے ہیں ان شبہات کا حل سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے نہایت واضح اور سہل انداز میں فرمایا ہے اس جگہ اس کو بعینہ نقل کردینا کافی ہے وہ یہ ہے،- ١۔ یہ بیوقوف لوگ جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف جادو کی نسبت کرتے تھے، یہودی تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے درمیان آیت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی براءت بھی ظاہر فرمادی،- ان آیتوں میں یہودیوں کی برائی کرنا مقصود ہے کیونکہ ان میں جادو کا چرچا تھا ان آیتوں کے متعلق زہرہ کا ایک لمبا چوڑا قصہ بھی مشہور ہے جو کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں، جن علماء نے اس قصہ کو قواعد شرعیہ کے خلاف سمجھا ہے رد کردیا ہے اور جنہوں نے اس میں تاویل کو خلاف شرع نہیں سمجھا ہے رد نہیں کیا ہمیں یہاں فی الوقت اس کے صحیح یا غلط ہونے سے بحث نہیں البتہ اتنا ضرور ہے ان آیات کی تفسیر اس قصہ پر موقوف نہیں جیسے کہ ناظرین کو معارف و مسائل کے اس زیر عنوان مضمون سے اندازہ ہوجائے گا،- اور یہودی سب باتوں کے جاننے کے باوجود چونکہ عمل علم کے خلاف کرتے تھے اور تدبر سے کام نہ لیتے تھے اس لئے اول تو ان کے جاننے کی خبر دی اور پھر آخر میں یہ کہہ کر اس کی نفی بھی کردی کہ کاش ان کو علم وعقل ہوتی کیونکہ جس علم پر عمل اور تدبر نہ ہو وہ جہل کی مانند ہے،- ایک زمانے میں جس کی پوری تعیین میں کوئی محققانہ رائے اس وقت سامنے نہیں دنیا میں اور خصوصاً بابل میں جادو کا بہت چرچا تھا اور اس کے عجیب اثرات کو دیکھ کر جاہلوں کو اس کی حقیقت اور انبیاء کرام کے معجزات کی حقیقت میں اختلاط و اشتباہ ہونے لگا اور بعض لوگ جادوگروں کو مقدس اور قابل اتباع سمجھنے لگے اور بعض لوگ جادو کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے لگے جیسا موجودہ دور میں مسمریزم کے ساتھ لوگوں کا معاملہ ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے اس اشتباہ اور غلطی کے رفع کرنے کے لئے بابل میں دو فرشتے ہاروت وماروت نامی اس کام کے لئے بھیجے کہ لوگوں کو سحر کی حقیقت اور اس کے شعبوں سے مطلع کردیں تاکہ اشتباہ جاتا رہے، اور جادو پر عمل کرنے نیز جادوگروں کے اتباع کرنے سے اجتناب کرسکیں اور جس طرح انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کو معجزات و دلائل سے ثابت کردیا جاتا ہے اسی طرح ہاروت وماروت کے فرشتہ ہونے پر دلائل قائم کردئیے گئے تاکہ ان کے احکامات و ارشادات کی تعمیل و اطاعت ممکن ہو،- اور یہ کام انبیاء (علیہم السلام) سے اس لئے نہیں لیا گیا کہ اول تو انبیاء اور جادوگروں میں امتیاز وفصل کرنا مقصود تھا ایک حیثیت سے گویا انبیاء کرام ایک فریق کا درجہ رکھتے تھے اس لئے حکم فریقین کے علاوہ کوئی اور ثالث ہونا مناسب تھا،- دوسرے اس کام کی تکمیل بغیر جادو کے الفاظ کی نقل وحکایت کے عادۃ ہو نہ سکتی تھی، اگرچہ نقل کفر کفر نباشد کے عقلی ونقلی مسلمہ قاعدہ کے مطابق ایسا ہوسکتا تھا مگر چونکہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) مظہر ہدایت ہوتے تھے اس لئے ان سے یہ کام لینا مناسب نہ سمجھا گیا لہذا فرشتوں کو اس کام کے لئے تجویز کیا گیا کیونکہ کارخانہ تکوین میں جو خیر وشر سب پر مشتمل ہوتا ہے ان فرشتوں سے ایسے کام بھی لئے جاتے ہیں جو مجموعہ عالم کے اعتبار سے تو بوجہ مصالح عامہ خیر ہوں، لیکن لزوم مفسدہ کے سبب فی ذاتہ شر ہوں جیسے کسی ظالم و جابر یا موذی جانور وغیرہ کی نشوونما اور غور وپرداخت کہ تکوینی اعتبار سے تو درست و محمود ہے اور تشریعی لحاظ سے نادرست و مذموم بخلاف انبیاء (علیہم السلام) کے کہ ان سے خاص تشریعیات کا کام ہی لیا جاتا ہے جو خصوصاً و عموماً خیر ہی خیر ہوتا ہے اور گو کہ یہ نقل وحکایت مذکورہ غرض کے لحاظ سے ایک تشریعی کام ہی تھا لیکن پھر بھی بوجہ احتمال قریب اس امر کے کہ کہیں یہ نقل وحکایت بھی جادو پر عمل کا سبب نہ بن جائے جیسا کہ واقع میں ہوا تو حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اس کا سبب بواسطہ نقل بنانا بھی پسند نہیں کیا گیا،- البتہ کلیات شرعیہ سے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ بھی اس مقصود کی تکمیل کردی گئی ان کلیات کے جزئیات کے تفصیلات بوجہ احتمال فتنہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ بیان نہیں کی گئیں اس کی مثال ایسی ہے کہ مثلاً انبیاء نے یہ بھی بتایا ہے کہ رشوت لینا حرام ہے اور اس کی حقیقت بھی بتلادی لیکن یہ جزئیات نہیں بتلائے کہ ایک طریقہ رشوت کا یہ ہے کہ صاحب معاملہ سے یوں چال کرکے فلاں بات کہے وغیرہ وغیرہ، - کیونکہ اس طرح کی تفصیلات بیان کرنے سے تو لوگ اور ترکیبیں سیکھ سکتے ہیں یا مثلا اقسام سحر ہی میں مثال فرض کیجئے کہ قواعد کلیہ سے یہ بتلا دیا گیا ہے کہ دست غیب کا عمل جس میں تکیہ کے نیچے یا جیب میں رکھے ہوئے روپے مل جائیں ناجائز ہے لیکن یہ نہیں بتلایا کہ فلاں عمل پڑھنے سے اس طرح روپیہ ملنے لگتے ہیں، - حاصل کلام یہ کہ فرشتوں نے بابل میں آکر اپنا کام شروع کردیا کہ سحر کے اصول و فروع ظاہر کرکے لوگوں کو اس کے عمل بد سے بچنے کی اور ساحرین سے نفرت ودوری رکھنے کی تنبیہ اور تائید کی جیسے کوئی عالم دیکھے کہ جاہل لوگ اکثر نادانی سے کفریہ کلمات بک جاتے ہیں اس لئے وہ تقرراً یا تحریراً ان کلمات کو جو اس وقت شائع ہیں جمع کرکے عوام کو مطلع کردے کہ دیکھو یہ کلمات بچنے کے لائق ہیں ان سے احتیاط رکھنا،- جب فرشتوں نے کام شروع کیا تو وقتا فوقتا مختلف لوگوں کی آمد ورفت ان کے پاس شروع ہوئی اور وہ درخواست کرنے لگے کہ ہم کو بھی ان اصول و فروع سے مطلع کردیجئے تاکہ ناواقفی سے کسی اعتقادی یا عملی فساد میں مبتلا نہ ہوجائیں اس وقت فرشتوں نے بطور احتیاط و تبلیغ اور بنظر اصلاح یہ التزام کیا کہ اصول و فروع بتانے سے قبل یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ دیکھو ہمارے یہ بتانے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی آزمائش بھی مقصود ہے کہ دیکھیں ان چیزوں پر مطلع ہو کر کون شخص اپنے دین کی حفاظت و اصلاح کرتا ہے کہ شر سے آگاہ ہو کر اس سے بچے اور کون اپنا دین خراب کرتا ہے کہ اس شر پر مطلع ہو کر وہی شر خود اختیار کرلے جس کا انجام کفر ہے خواہ کفر عملی ہو یا اعتقادی دیکھو ہم تم کو نصیحت کئے دیتے ہیں کہ اچھی نیت سے اطلاع حاصل کرنا اور پھر اسی نیت پر ثابت قدم رہنا ایسا نہ ہو کہ ہم سے تو یہ کہہ کر سیکھ لو کہ میں بچنے کے لئے پوچھ رہا ہوں اور پھر اس کی خرابی میں خود ہی مبتلا ہوجاؤ اور ایمان برباد کرلو،- اب ظاہر ہے کہ وہ اس سے زیادہ خیر خواہی اور کیا کرسکتے تھے غرض جو کوئی ان سے اس طرح عہد و پیمان کرلیتا وہ اس کے رو برو جادو کے سب اصول و فروع بیان کردیتے تھے کیونکہ ان کا کام ہی یہ تھا اب اگر کوئی عہد شکنی کرکے اپنے ارادہ واختیار سے کافر وفاجر بنے وہ جانے چناچہ بعضے اس عہد پر قائم نہ رہے اور اس جادو کو مخلوق کی ایذا رسانی کا ذریعہ بنالیا جو فسق تو یقیناً ہے اور بعضے طریقے اس کے استعمال کے کفر بھی ہیں اس طرح سے فاجر کافر بن گئے،- اس ارشاد اصلاحی اور پھر مخاطب کے خلاف کرنے کی مثال اس طرح ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص کسی جامع معقول و منقول عالم باعمل کے پاس جائے کہ مجھ کو قدیم یا جدید فلسفہ پڑھا دیجئے تاکہ خود بھی ان شبہات سے محفوظ رہوں جو فلسفہ میں اسلام کے خلاف بیان کئے جاتے ہیں اور مخالفین کو بھی جواب دے سکوں اور اس عالم کو یہ احتمال ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ کو دھوکہ دے کر پڑھ لے اور پھر خود ہی خلاف شرع عقائد باطلہ کو تقویت دینے میں اس کو استعمال کرنے لگے اس احتمال کی وجہ سے اس کو نصیحت کرے کہ ایسا مت کرنا اور وہ وعدہ کرلے اور اس لئے اس کو پڑھا دیا جاوے لیکن وہ شخص فلسفہ کے خلاف اسلام نظریات و عقائد ہی کو صحیح سمجھنے لگے تو ظاہر ہے کہ اس کی اس حرکت سے اس معلم پر کوئی ملامت یا برائی عائد نہیں ہوسکتی اس طرح اس اطلاع سحر سے ان فرشتوں پر بھی نہ کسی شبہ کی گنجائش ہے نہ وسوسہ کی، - اور اس فرض کی تکمیل کے بعد غالباً وہ فرشتے آسمان پر بلا لئے گئے ہوں گے، واللہ اعلم بحقیقۃ الحال (بیان القرآن) - سحر کی حقیقت :- سحر بالکسر لغت میں ہر ایسے اثر کو کہتے ہیں جس کا سبب ظاہر نہ ہو (قاموس) خواہ وہ سبب معنوی ہو جیسے خاص خاص کلمات کا اثر یا غیر محسوس چیزوں کا ہو، جیسے جنات و شیاطین کا اثر یا مسمریزم میں قوت خیالیہ کا اثر یا محسوسات کا ہو مگر وہ محسوسات مخفی ہوں جیسے مقناطیس کی کشش لوہے کے لئے جبکہ مقناطیس نظروں سے پوشیدہ ہو، یا دواؤں کا اثر جبکہ وہ دوائیں مخفی ہوں یا نجوم وسیارات کا اثر،- اسی لئے جادو کی اقسام بہت ہیں مگر عرف عام میں عموماً جادو ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جن میں جنات و شیاطین کے عمل کا دخل ہو یا قوت خیالیہ مسمریزم کا یا کچھ الفاظ و کلمات کا کیونکہ یہ بات عقلاً بھی ثابت ہے اور تجربہ و مشاہدہ سے بھی اور قدیم وجدید فلاسفہ بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ حروف و کلمات میں بھی بالخاصہ کچھ تاثرات ہوتے ہیں کسی خاص حرف یا کلمہ کو کسی خاص تعداد میں پڑھنے یا لکھنے وغیرہ سے خاص خاص تاثرات کا مشاہدہ ہوتا ہے یا ایسے تاثرات جو کسی انسانی بالوں یا ناخنوں وغیرہ اعضاء یا اس کے استعمالی کپڑوں کے ساتھ کچھ دوسری چیزیں شامل کرکے پیدا کی جاتی ہیں جن کو عرف عام میں ٹونہ ٹوٹکا کہا جاتا ہے اور جادو میں شامل سمجھا جاتا ہے، - اور اصطلاح قرآن وسنت میں سحر ہر ایسے امر عجیب کو کہا جاتا ہے جس میں شیاطین کی مدح کی گئی ہو یا کواکب ونجوم کی عبادت اختیار کی گئی ہو جس سے شیطان خوش ہوتا ہے ،- کبھی ایسے اعمال اختیار کئے جاتے ہیں جو شیطان کو پسند ہیں مثلاً کسی کو ناحق قتل کرکے اس کا خون استعمال کرنا یا جنابت ونجاست کی حالت میں رہنا طہارت سے اجتناب کرنا وغیرہ، - جس طرح اللہ تعالیٰ کے پاک فرشتوں کی مدد، ان اقوال و افعال سے حاصل کی جاتی ہے جن کو فرشتے پسند کرتے ہیں مثلا تقویٰ ، طہارت، اور پاکیزگی، بدبو اور نجاست سے اجتناب، ذکر اللہ اور اعمال خیر،- اسی طرح شیاطین کی امداد ایسے اقوال و افعال سے حاصل ہوتی ہے جو شیطان کو پسند ہیں اسی لئے سحر صرف ایسے کاموں کے عادی ہوں عورتیں بھی ایام حیض میں یہ کام کرتی ہیں تو مؤ ثر ہوتا ہے باقی شعبدے اور ٹوٹکے یا ہاتھ چالاکی کے کام یا مسمریزم وغیرہ ان کو مجازاً سحر کہہ دیا جاتا ہے (روح المعانی) - سحر کے اقسام :- امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ سحر کی مختلف قسمیں ہیں ایک قسم تو محض نظر بندی اور تحنیل ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت واقعیہ نہیں جیسے بعض شعبدہ باز اپنی ہاتھ چالاکی سے ایسے کام کرلیتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظریں اس کو دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں یا قوت خیالیہ مسمریزم وغیرہ کے ذریعہ کسی کے دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے کہ وہ ایک چیز کو آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے مگر اس کی کوئی حقیقت واقعیہ نہیں ہوتی کبھی یہ کام شیاطین کے اثر سے بھی ہوسکتا ہے کہ مسحور کی آنکھوں اور دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے جس سے وہ ایک غیر واقعی چیز کو حقیقت سمجھنے لگے قرآن مجید میں فرعونی ساحروں کے جس سحر کا ذکر ہے وہ پہلی قسم کا سحر تھا جیسا کہ ارشاد ہے :- سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ (١١٦: ٧) انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔- اور ارشاد ہے :- فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِىَ حَيَّةٌ تَسْعٰي (٦٦: ٢٠) ان کے سحر سے موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں یہ آنے لگا کہ یہ رسیوں کے سانپ دوڑ رہے ہیں، - اس میں یخیل کے لفظ سے یہ بتلا دیا گیا کہ یہ رسیاں اور لاٹھیاں جو ساحروں نے ڈالی تھیں نہ درحقیقت سانپ بنی اور نہ انہوں نے کوئی حرکت کی بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت متخیلہ متاثر ہو کر ان کو دوڑنے والے سانپ سمجھنے لگی،- دوسری قسم اس طرح کی تخییل اور نظر بندی ہے جو بعض اوقات شیاطین کے اثر سے ہوتی ہے جو قرآن کریم کے اس ارشاد سے معلوم ہوئی :- هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ تَنَزَّلُ عَلٰي كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِـيْمٍ (٢٢٢: ٢٢١: ٢٦) میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ کن لوگوں پر شیطان اترتے ہیں ہر بہتان باندھنے والے گناہگار پر اترتے ہیں، - نیز دوسری جگہ ارشاد ہے :- وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ (١٠٢: ٢) یعنی شیاطین نے کفر اختیار کیا لوگوں کو جادو سکھانے لگے،- تیسری قسم یہ ہے کہ سحر کے ذریعے ایک شے کی حقیقت ہی بدل جائے جیسے کسی انسان یا جاندار کو پتھر یا کوئی جانور بنادیں امام راغب اصفہانی ابوبکر جصاص وغیرہ حضرات نے اس سے انکار کیا ہے کہ سحر کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت بدل جائے بلکہ سحر کا اثر صرف تخییل اور نظر بندی ہی تک ہوسکتا ہے معتزلہ کا بھی یہی قول ہے مگر جمہور علماء کی تحقیق یہ ہے کہ انقلاب اعیان میں نہ کوئی عقلی امتناع ہے نہ شرعی، مثلاً کوئی جسم پتھر بن جائے یا ایک نوع سے دوسری نوع کی طرف منقلب ہوجائے،- اور فلاسفہ کا جو یہ قول مشہور ہے کہ انقلاب حقائق ممکن نہیں ان کی مراد حقائق سے محال ممکن واجب کی حقیقتیں ہیں کہ ان میں انقلاب عقلاً ممکن نہیں کہ کوئی محال ممکن بن جائے یا کوئی ممکن محال بن جائے۔ اور قرآن عزیز میں فرعونی ساحروں کے سحر کو جو تخییل قرار دیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر سحر تخییل ہی ہو اس سے زائد اور کچھ نہ ہو اور بعض حضرات نے سحر کے ذریعہ انقلاب حقیقت کے جواز پر حضرت کعب احبار کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو مؤ طاء امام مالک میں بروایت قعقاع بن حکیم منقول ہے،- لولا کلمات اقولہن لجعلتنی الیہود حمارا اگر یہ چند کلمات نہ ہوتے جن کو میں پابندی سے پڑہتا ہوں تو یہودی مجھے گدھا بنا دیتے،- گدھا بنا دینے کا لفظ مجازی طور پر بیوقوف بنانے کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے مگر بلاضرورت حقیقت کو چھوڑ کر مجاز مراد لینا صحیح نہیں اس لئے حقیقی اور ظاہری مفہوم اس کا یہی ہے کہ اگر میں یہ کلمات روزانہ پابندی سے نہ پڑہتا تو یہودی جادوگر مجھے گدھا بنادیتے،- اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ سحر کے ذریعے انسان کو گدھا بنا دینے کا امکان ہے دوسرے یہ کہ جو کلمات وہ پڑھا کرتے تھے ان کی تاثیر یہ ہے کہ کوئی جادو اثر نہیں کرتا حضرت کعب احبار سے جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ کلمات کیا تھے جو آپ نے یہ کلمات بتلائے - اعوذ بوجہ اللہ العظیم الذی لیس شیءٌ اعظم منہ وبکلمات اللہ التامات التی لا یج اور زھن بر ولا فاجر وباسماء اللہ الحسنیٰ کلہا ما علمت منہا وما لم اعلم من شر ما خلق وبرأ وذرأ (اخرجہ فی المؤ طاء باب التعوذ عند النوم :- میں اللہ کی عظیم کی پناہ پکڑتا ہوں جس سے بڑا کوئی نہیں اور پناہ پکڑتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کی جن سے کوئی نیک وبد انسان آگے نہیں نکل سکتا اور پناہ پکڑتا ہوں اللہ کے تمام اسماء حسنیٰ کی جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا ہر اس چیز کے شر سے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور وجود دیا اور پھیلایا ہے - خلاصہ یہ ہے کہ سحر کی یہ تینوں قسمیں ممکن الوقوع ہیں، - سحر اور معجزے میں فرق :- جس طرح انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات یا اولیاء کرام کی کرامات سے ایسے واقعات مشاہدے میں آتے ہیں جو عادۃ نہیں ہوسکتے اسی لئے ان کو خرق عادت کہا جاتا ہے بظاہر سحر اور جادو بھی ایسے ہی آثار مشاہدے میں آتے ہیں اس لئے بعض جاہلوں کو ان دونوں میں التباس بھی ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ جادوگروں کی تعظیم و تکریم کرنے لگتے ہیں اس لئے دونوں کا فرق بیان کرنا ضروری ہے،- سو یہ فرق ایک تو اصل حقیقت کے اعتبار سے ہے اور ایک ظاہری آثار کے اعتبار سے حقیقت کا فرق تو یہ ہے کہ سحر اور جادو سے جو چیزیں مشاہدے میں آتی ہیں یہ دائرہ اسباب سے الگ کوئی چیز نہیں فرق صرف اسباب کے ظہور وخفاء کا ہے جہاں اسباب ظاہر ہوتے ہیں وہ آثار ان اسباب کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں اور کوئی تعجب کی چیز نہیں سمجھی جاتی لیکن جہاں اسباب مخفی ہوں تو وہ تعجب کی چیز ہوتی ہے اور عوام اسباب کے نہ جاننے کی وجہ سے اس کو خرق عادت سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ درحقیقت تمام عادی امور کی طرح کسی جن شیطان کے اثر سے ہوتی ہے ایک مشرق بعید سے آج کا لکھا ہوا اچانک سامنے آکر گرگیا تو دیکھنے والے اس کو خرق عادت کہیں گے حالانکہ جنات و شیاطین کو ایسے اعمال و افعال کی قوت دی گئی ہے ان کا ذریعہ معلوم ہو تو پھر کوئی خرق عادت نہیں رہتا خلاصہ یہ ہے کہ سحر سے ظاہر ہونے والے تمام آثار اسباب طبعیہ کے ماتحت ہوتے ہیں مگر اسباب کے مخفی ہونے کے سبب لوگوں کو مغالطہ خرق عادت کا ہوجاتا ہے بخلاف معجزہ کے کہ وہ بلا واسطہ فعل حق تعالیٰ کا ہوتا ہے اس میں اسباب طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے نمرود کی آگ کو حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈی ہوجائے مگر ٹھنڈک بھی اتنی نہ ہو جس سے تکلیف پہنچے بلکہ جس سے سلامتی ہو اس حکم الہی سے آگ ٹھنڈی ہوگئی، - آج بھی بعض لوگ بدن پر کچھ دوائیں استعمال کرکے آگ کے اندر چلے جاتے ہیں وہ معجزہ نہیں بلکہ دواؤں کا اثر ہے دوائیں مخفی ہونے سے لوگوں کو دھوکا خرق عادت کا ہوجاتا ہے، یہ بات کہ معجزہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے خود قرآن عزیز کی تصریح سے ثابت ہے ارشاد فرمایا، وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (١٧: ٨) کنکریوں کی مٹھی جو آپ نے پھینکی درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی ہے،- مراد یہ ہے کہ ایک مٹھی خاک اور کنکر کی سارے مجمع کی آنکھوں تک پہنچ جانا اس میں آپ کے عمل کو کوئی دخل نہیں یہ خالص حق تعالیٰ کا فعل ہے یہ معجزہ غزوہ بدر میں پیش آیا تھا کہ آپ نے ایک مٹھی خاک اور سنگریزوں کی کفار کے لشکر پر پھینکی (جوسب کی آنکھوں میں پڑگئی، ) - معجزہ اور سحر کی حقیقتوں کا یہ فرق کہ معجزہ بلاواسطہ اسباب طبعیہ کے براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اور جادو و اسباب طبعیہ مخفیہ کا اثر ہوتا ہے حقیقت سمجھنے کے لئے تو کافی وافی ہے مگر یہاں ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ عوام الناس اس فرق کو کیسے پہچانیں کیونکہ ظاہری صورت دونوں کی ایک سی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ عوام کے پہچاننے کے لئے حق تعالیٰ نے کئی فرق ظاہر کردئیے ہیں۔- اول یہ کہ معجزہ یا کرامت ایسے حضرات سے ظاہر ہوتی ہے جن کا تقویٰ طہارت و پاکیزگی اخلاق و اعمال کا سب مشاہدہ کرتے ہیں اس کے برعکس جادو کا اثر صرف ایسے لوگوں سے ظہور پذیر ہوتا ہے جو گندے ناپاک اللہ کے نام سے اور اس کی عبادت سے دور رہتے ہیں یہ چیز ہر انسان آنکھوں سے دیکھ کر معجزہ اور سحر میں فرق پہچان سکتا ہے،- دوسرے یہ کہ عادۃ اللہ یہ بھی جاری ہے کہ جو شخص معجزے اور نبوت کا دعویٰ کرکے کوئی جادو کرنا چاہے اس کا جادو نہیں چلتا ہاں نبوت کے دعوے کے بغیر کرے تو چل جاتا ہے، - کیا انبیاء پر بھی جادو کا اثر ہوسکتا ہے ؟- جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے وجہ وہی ہے جو اوپر بتلائی گئی کہ سحر درحقیقت اسباب طبعیہ ہی کا اثر ہوتا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اسباب طبعیہ کے اثرات سے متاثر ہوتے ہیں یہ تأثر شان نبوت کے خلاف نہیں جیسے ان کا بھوک پیاس سے متاثر ہونا بیماری میں مبتلا ہونا اور شفاء پانا ظاہری اسباب سے سب جانتے ہیں اسی طرح جادو کے باطنی اسباب سے بھی انبیاء (علیہم السلام) متأثر ہوسکتے ہیں اور تأثر شان نبوت کے منافی نہیں، - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہودیوں کا سحر کرنا اور اس کی وجہ سے آپ پر بعض آثار کا ظاہر ہونا اور بذریعہ وحی اس جادو کا پتہ لگنا اور اس کا ازالہ کرنا احادیث صحیحہ میں ثابت ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سحر سے متاثر ہونا خود قرآن میں مذکور ہے آیات، يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي اور، فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى- (٦٧، ٦٦: ٢٠) موسیٰ (علیہ السلام) پر خوف طاری ہونا اسی جادو ہی کا اثر تھا،- سحر کے احکام شرعیہ :- جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے قرآن و حدیث کی اصطلاح میں سحر صرف ایسے عمل کو کہا گیا ہے جس میں کفر و شرک اور فسق و فجور اختیار کرکے جنات و شیاطین کو راضی کیا گیا ہو اور ان سے مدد لی گئی ہو ان کی امداد سے کچھ عجیب واقعات ظاہر ہوگئے ہوں سحر بابل جس کا قرآن میں ذکر ہے وہ یہی تھا (جصاص) اور اسی سحر کو قرآن میں کفر قرار دیا ہے ابو منصور نے فرمایا کہ صحیح یہی ہے کہ مطلقاً سحر کی سب اقسام کفر نہیں بلکہ صرف وہ سحر کفر ہے جس میں ایمان کے خلاف اقوال و اعمال اختیار کئے گئے ہوں (روح المعانی) - اور یہ ظاہر ہے کہ شیاطین پر لعنت کرنے اور ان سے عداوت و مخالفت کرنے کے احکام قرآن و حدیث میں بار بار آئے ہیں اس کے خلاف ان سے دوستی اور ان کو راضی کرنے کی فکر خود ہی ایک گناہ ہے پھر وہ راضی جب ہی ہوتے ہیں جب انسان کفر و شرک میں مبتلا ہو جس سے ایمان ہی سلب ہوجائے یا کم از کم فسق و فجور میں مبتلا ہو اور اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی مرضیات کے خلاف گندہ اور نجس رہے یہ مزید گناہ ہے اور اگر جادو کے ذریعے کسی کو ناحق نقصان پہنچایا تو یہ اور گناہ ہے،- غرض اصطلاح قرآن وسنت میں جس کو سحر کہا گیا ہے وہ کفر اعتقادی یا کم از کم کفر عملی سے خالی نہیں ہوتا اگر شیاطین کو راضی کرنے کے کچھ اقوال یا اعمال کفر و شرک کے اختیار کئے تو کفر حقیقی اعتقادی ہوگا اور اگر کفر و شرک کے اقوال و افعال سے بچ بھی گیا مگر دوسرے گناہوں کا ارتکاب کیا تو کفر عملی سے خالی نہ رہا قرآن عزیز کی آیات مذکورہ میں جو سحر کو کفر کہا گیا ہے وہ اسی اعتبار سے ہے کہ یہ سحر کفر حقیقی اعتقادی یا کفر عملی سے خالی نہیں ہوتا،- خلاصہ یہ ہے کہ جس سحر میں کوئی عمل کفر اختیار کیا گیا ہو جیسے شیاطین سے استغاثہ واستمداد یا کواکب کی تاثیر کو مستقل ماننا یا سحر کو معجزہ قرار دے کر اپنی نبوت کا دعویٰ کرنا وغیرہ تو یہ سحر باجماع کفر ہے اور جس میں یہ افعال کفر نہ ہوں مگر معاصی کا ارتکاب ہو وہ گناہ کبیرہ ہے۔- مسئلہ : جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ کفر اعتقادی یا عملی سے خالی نہیں تو اس کا سیکھنا اور سکھانا بھی حرام ہوا اس پر عمل کرنا بھی حرام ہوا البتہ اگر مسلمانوں سے دفع ضرر کیلئے بقدر ضرورت سیکھا جائے تو بعض فقہاء نے اجازت دی ہے (شامی عالمگیری) - مسئلہ : تعویذ گنڈے وغیرہ جو عامل کرتے ہیں ان میں بھی اگر جنات و شیاطین سے استمداد ہو تو بحکم سحر ہیں اور حرام ہے۔- مسئلہ : قرآن وسنت کے اصطلاحی سحر بابل کے علاوہ باقی قسمیں سحر کی ان میں بھی اگر کفر و شرک کا ارتکاب کیا جائے تو وہ بھی حرام ہے۔- مسئلہ : اور خالی مباح اور جائز امور سے کام لیا جاتا ہو تو اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اس کو کسی ناجائز مقصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔- مسئلہ : اگر قرآن و حدیث کے کلمات ہی سے کام لیا جائے مگر ناجائز مقصد کے لئے استعمال کریں تو وہ بھی جائز نہیں مثلاً کسی کو ناحق ضرر پہنچانے کے لئے کوئی تعویذ کیا جائے یاو ظیفہ پڑھا جائے اگرچہ وظیفہ اسماء الہیہ یا آیات قرآنیہ ہی کا ہو وہ بھی حرام ہے (فتاویٰ قاضی خاں وشامی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ۝ ٠ ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ۝ ٠ ۤ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ۝ ٠ ۭ وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَكْفُرْ۝ ٠ ۭ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ۝ ٠ ۭ وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ۝ ٠ ۭ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۝ ٠ ۣۭ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ۝ ٠ ۭ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۝ ١٠٢- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- هرت - قال تعالی: وَما أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ هارُوتَ وَمارُوتَ [ البقرة 102] قيل : هما الملکان . وقال بعض المفسّرين : هما اسما شيطانین من الإنس أو الجنّ ، وجعلهما نصبا بدلا من قوله تعالی: وَلكِنَّ الشَّياطِينَ بدل البعض من الکلّ کقولک : القوم قالوا إنّ كذا زيد وعمرو . والْهَرْتُ : سعة الشِّدْق، يقال : فرس هَرِيتُ الشِّدْق، وأصله من : هَرِتَ ثوبه : إذا مزّقه، ويقال : الْهَرِيتُ : المرأة المفضاة .- ( ھ ر ت ) آیت کریمہ ؛ وَما أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ هارُوتَ وَمارُوتَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو شہر بابل میں دو فرشتوں ( یعنی ہاروت ماروت پر اتری تھیں ۔ کی تفسیر میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ہاروت ماروت دو فرشتوں کے نام ہیں اور بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ انسانون یا جنوں میں سے دو شیطانوں کے نام ہیں اور یہ سے بدل البعض ہونے کی بناء پر منصؤب ہے جیسا کہ القوم قالوا کذا زیدا وعمر میں زید اور عمر وقوم سے بدل البعض ہونے کی بنا پر مرفوع ہیں ۔ لغت میں الھرت کے معنی منہ کی باچھوں کا کشادہ ہونا کے ہیں اور اسی سے فرس ھریت الشدق کا محاورہ ہے یعنی وہ گھوڑا جس کی باچھیں وسیع ہوں اور اصل میں یہ لفظ ھرت ( ص ن ) ثوبہ سے مشتق ہے جس کے معنی کپڑا اپھاڑنے کے ہیں اور جس عورت کی شر مگاہ کژت جماع سے کشادہ ہوگئی ہوا سے الھر یت کہا جاتا ہے ۔ - (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ساحر کا حکم - قول باری ہے : واتبعوا ماتتلوا الشیطین علی ملک سلمین، وما کفر سلیمن ولکن الشیطین کفروا ( اور ان چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین سلیمان کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا۔ کفر کے مرتکب تو شیاطین تھے) تا آخر آیت - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہاں سحر، یعنی جادو کی حققیت پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کیونکہ بہت سے اہل علم کی نظروں سے بھی یہ بات پوشیدہ ہے، عوام الناس کا تو پوچھنا ہی کیا، اس کے بعد ہم معانی اور احکام کے سلسلے میں مذکورہ بالا آیت کے مقتضاد کو سامنے رکھ کر جادو کا حکم بیان کریں گے۔- اہل لغت کے قول کے مطابق سحر ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بہت لطیف ہو اور جس کا سبب نظروں س ے مخفی ہو، عربی زبان میں حرف سین کے زبر کے ساتھ لفظ سحر کا اطلاق غذا پر ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اس میں خفا ہوتا ہے اور غذا کی نالیاں بہت باریک ہوتی ہیں۔ بعید کا شعر ہے۔- ارانا موضعین لا مرغیب ونسحر بالطعام والشراب - (میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کسی غیبی امر کے لئے رکھا گیا ہے اور طعام و شراب کے ذریعے ہمیں غذا مہیا کی جا رہی ہے۔ )- اس شعر کی تشریح دو طرح سے کی گئی ہے۔ ایک کا مفہوم تو وہی ہے جس کا ذکر ترجمے میں کردیا گیا ہے۔ دوسری کا مفہوم یہ ہے کہ ہمیں اس طرح بہلایا اور دھوکے میں رکھا جا رہا ہے جس طرح سحر زدہ اور فریب خوردہ شخص کو رکھا جاتا ہے۔ بہرحال اس شعر کا مفہوم جو بھی ہو اس کے معنی خفا کے ہوں گے۔- ایک اور شاعر نے کہا ہے :- فان تسئلینا فیم نحن فاننا عصا فیرمن ھذا ار نام المسحر - (اے محبوبہ اگر تو ہم سے پوچھے کہ ہم کس حال میں ہیں، تو سن، ہم غذا خور انسانوں سے تعلق رکھنے والی چڑیا ہیں)- اس شعر میں بھی معنی کے اعتبار سے پہلے شعر کی طرح دو احتمال ہیں۔ علاوہ ازیں یہ احتمال بھی ہے کہ شاعر نے لفظ (المسحر) سے دو سحر، یعنی پھیپھڑے والا مراد لیا ہو۔ سحر پھیپھڑے نیز حلقوم سے متصل جگہ کو کہتے ہیں۔ یہ بات بھی خفاء کی طرف راجع ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے پھیپھڑے اور حلقوم کے درمیان وفات پائی۔- قول باری : انما انت من المسحرین کا مفہوم ہے کہ ” تمہارا تعلق تو اس مخلوق سے ہے جو کھاتی اور پیتی ہے “ اس مفہوم پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے : وما انت الا بشر مثلنا تم تو ہمارے ہی جیسے بشر ہو۔ نیز : مالھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق (اس رسول کو کیا ہوگیا کہ کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے) یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ بھی ہماری طرح پھیپھڑے والا ہے۔ “ چناچہ یہ اور ان جیسے مقامات کے لئے سحر کے لفظ کا اطلاق اس بنا پر ہوتا ہے کہ جسم کے یہ حصے بہت ہی لطیف اور کمزور ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انسانی جسم کا قوم اور ٹھہرائو ان ہی اعضاء پر ہے اس لئے جو بھی اس صفت کا حام لہو گا وہ ضعیف اور سہارے کا محتاج ہوگا۔ لغت میں سحر کے یہی معنی ہیں۔ پھر اس لفظ کو ہر ایسی بات کا مفہوم ادا کرنے کے لئے منتقل کردیا گیا جس کا سبب مخفی ہو اور اس کا تخیل اس کی حقیقت سے ہٹ کر کیا گیا ہو اور اس کی حیثیث ملمع کاری اور خدا ع یعنی فریب وہی جیسی ہو۔ جب اس لفظ کا اطلاق کسی قید کے بغیر ہو تو اس کے فاعل کے ذم، یعنی مذمت کا مفہوم ادا ہوتا ہے اسے مقید صورت میں قابل ستائش کا موں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔” بعض بیان جادو جیسے اثر کا حامل ہوتا ہے۔ “ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے ابراہیم الحرانی نے ، ان سے سلمیان بن حرب نے ۔ ان سے حماد بن زید نے محمد بن الزبیر سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں زبرقان بن بدر، عمرو بن الاہتم اور قیس بن عاصم حاضر ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو سے فرمایا :” مجھے زبرقان کے بارے میں بتلائو۔ “ انہوں نے جواب دیا : زبرقان کی مجلس میں اس کی بات مانی جاتی ہے۔ بحث و تمحیص میں وہ بڑا زبردست ہے اور اپنے ماوراء کا محافظ ہے۔ “ یہ بات زبرقان تک پہنچی تو اس نے کہا : ” خدا کی قسم، اسے معلوم ہے کہ میں اس سے افضل ہوں۔ “ یہ سن کر عمرو نے کہا : اس کی سرشت میں درشتی ہے، اس کا حوض تنگ ہے۔ اس کا باپ احمق ہے اور اس کا ماموں کمینہ ہے، اللہ کے رسول لیں اپنے دونوں بیانات میں سچا ہوں، اس نے جب مجھے رضای کردیا تو میں نے اپنی معلومات کے مطابق اس کی اچھی باتیں بیان کردیں اور جب مجھے ناراض کردیا تو میں نے اس کی وہ تمام بری باتیں کہہ سنائیں جو مجھے معلوم تھیں۔ “ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بعض بیان جادو جیسے اثر کا حامل ہوتا ہے۔ “- ابراہیم الحرانی نے روایت بیان کی کہ ان سے مصعب بن عبداللہ نے، ان سے مالک بن انس نے زید بن اسلم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے سنا کہ دو شخص آئے اور پھر ان میں سے ایک نے خطبہ دیا اور لوگ اس کا خطبہ سن کر بہت متاثر ہوئے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بعض بیان میں جادو ہوتا ہے۔ “ ا سی طرح محمد بن بکر نے روایت بیان کی کہ ان سے ابو دائود نے، ان سے محمد بن یحییٰ بن فارس نے، ان سے سعید بن محمد نے، ان سے ابوتمیلہ نے، ان سے ابو جعفر النحوی عبداللہ بن ثابت نے، ان سے ضحر بن عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے، اور انہوں نے اپنے والد حضرت بریدہ سے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایت ہوئے سنا تھا کہ بعض بیان میں جادو ہوتا ہے۔ بعض علم میں جہالت ، بعض شعر میں حکمت اور بعض قول عیال ہوتا ہے۔ “ صعصعہ بن صوحان نے کہا کہ ” اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد :” بعض بیان میں جادو ہوتا ہے۔ “ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص پر کسی کا حق واجب الادا ہوتا ہے۔ لکین وہ اپنے دلائل حقدار سے بڑھ کر مئوثر انداز میں پیش کرکے سننے والوں کو اپنے بیان سے مسحور کردیتا ہے اور اس کے نتیجے میں حق دار کا حق ہتھیا لیتا ہے۔ دوسرے فقرے :” بعض علم میں جہالت ہوتی ہے۔ “ کا مفہوم یہ ہے کہ علم کا دعویدار کوئی شخص ایک چیز کے متعلق یہ ظاہر کرت ا ہے کہ اسے اس کا علم ہے، حالانکہ وہ اس کے بارے میں جاہل ہوتا ہے۔ تیسرے فقرے :” بعض شعر میں حکمت ہوتی ہے۔ “ کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اشیاء ایسی امثال و فصائح پر مشتمل ہوتے ہیں جن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد :” بعض قول عیال ہوتا ہے۔ “ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کسی ایسے شخص سے گفتگو کرے جس سے اس گفتگو کا کوئی تعلق نہ ہو اور نہ ہی اسے اس کا ارادہ ہو۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض انداز بیان کو جادو قرار دیا اس لئے کہ جادو بیان شخص کو قلات ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو ایک مبنی پر بحق بات کو جس میں خفا کا پہلو ہو اپنی جادو بیانی سے واضح کر کے اس سے خفا کا پردہ ہٹا دے۔ یہی وہ جائز سحر بیانی تھی جس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن الاہستم کو برقرار رنے دیا اور اس سے ناراض نہیں ہوئے۔- روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس آ کر بڑے بلیغ انداز میں گفتگو کی جسے سن کر انہوں نے فرمایا :” بخدا یہی حلال سحر ہے۔ “ یہ اگر چاہے تو اپنی جادو بیانی سے ایک مبنی پر باطل بات کو حق کی صورت دے کر سامعین کو فریب دے جائے۔ اگر سحر کا نفطہ علی الاطلاق مذکورہ ہو تیہ ہر ایسی بات کے لئے اسم ہوگا جس میں ملمع کاری کی گئی ہو اور جو مبنی برباطل ہو اور اس میں کوئی حقیقت نہ ہو اور نہ ہی اسے ثبات حاصل ہو۔- ارشاد باری ہے : سحروا عین الناس (انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا) یعنی فرعن کے جادوگروں نے لوگوں کے سامنے ایسی فنکاری کا مظاہرہ کیا کہ انہیں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپوں کی طرح دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اگٓے ارشاد ہوا : یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی (ان کے جادو کے زور سے موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں یہ رسیاں اور لاٹھیاں دوڑتی نظر آنے لگیں)- یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ ناظرین نے جس کیفیت کو مذکورہ رسیوں اور لاٹھیوں کی حرکت سمجھا تھا وہ حقیقت میں حرکت نہ تھی، بلکہ ان کے تخیل کی کار فرمائی تھی۔ ایک قول کے مطابق مذکورہ لاٹھیاں اندر سے کھوکھلی تھیں اور ان میں پارہ بھر دیا گیا تھا۔ اسی طرح رسیاں چمڑے کی بنی ہوئی تھیں اور ان میں پارہ بھرا ہوا تھا۔ مقابلے سے پہلے جادوگروں نے ان رسیوں اور لاٹھیوں کے ڈالنے کی جگہوں کے نیچے نالیاں بنا ک ران میں انگارے رکھ دیئے تھے پھر جب مذکورہ رسیاں اور لاٹھیاں ان پر پھینکی گئیں تو پارہ گرم ہوگیا اور اس نے انہیں متحرک کردیا، کیونکہ پارہ کی خاصیت ہے کہ گرم ہو کر حرکت کرنا شروع کردیتا ہے۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ جادگروں کا کارنامہ محض فن کاری تھی اور حقیقت سے اس کا دور کا تعلق نہیں تھا۔- عرب ملمع شدہ زیورات کو مسحور کا نام دیتے ہیں اس لئے کہ ایسے زیورات دیکھنے والوں کی نظروں میں چکا چوند پیدا کر کے انہیں مسحور کردیتے ہیں۔- خلاصہ بحث یہ ہے کہ حق بات کی وضاحت کے لئے جادو بیانی تو حلال ہے لکین جس جادو بیانی سے باطل کو حق کی صورت میں پیش کرنے اور اس پر ملع کاری کا قصد کیا جائے اور ناظرین و سامعین کو دھوکا دیا جائے وہ قابل مذمت ہے۔- یہاں اگر یہ کہا جائے کہ سحر کا موضع اگر ملمع کا ری اور اخفا ہے تو پھر مبنی برحق بات کی وضاحت کرنے والی اور اس کا پتہ بتانے والی صورت کو سحر کا نام دینا کس طرح جائز ہوگا جبکہ جادو بیان شخص اپنی جادو بیانی سے مخفی بات کو ظاہر کردیتا ہے اور اس کے ذریعے ظاہر بات کے اخفاء کا نیز اسے غیر حقیقی صورت میں ظاہر کرنے کا قصد نہیں کرتا - اس کا جواب یہ ہے کہ اسے سحر کا نام اس حیثیت سے دیا جاتا ہے کہ سامع کا اغلب ظن یہ ہوتا ہے کہ اگر اس پر معنی کا درود ناپسندیدہ اور غیر واضح الفاظ کے ذریعے ہوگا تو اس کی طرف سے اسے قبولیت حاصل نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ اس کی طرف دھیان دے گا لیکن اگر وہ مذکورہ معنی کو پسندیدہ اور شیریں عبارت کے تحت سنے گا جس میں کوئی فساد اور اوپر اپن نہ ہو اسے پیش کرنے والا اسے اپنے حسن بیان اور عمدہ انداز سے پیش کرے جس سے ایک غبی اور حسن بیان سے عاری شخص عاجز ہو تو وہ اس کی طرف دھیان دے گا اور اسے سن کر قبول بھی کرے گا اس بنا پر متکلم کی طرف سے اس قسم کے حسن بیان کے ذریعے سا معین کے دلوں کو پانی طرف مائل کرنے کا نام جادو رکھا گیا جس طرح جادوگر اپنی ملمع کاری کے ذریعے حاضرین کے دلوں کو پانی فنکاری کی طرف مائل کرلیتا ہے۔ اسی جہت سے بیان کا سحر کا نام دیا گیا ہے۔ اس جہت سے اسے سحر کا نام نہیں دیا جاتا جس کا گمان معترض نے کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انداز بیان کو جادو کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ جادو بیانی کی قدرت رکھنے والا شخص بعض دفعہ اپنے زور بیان سے ایک حسین چیز کو قبیح اور ایک قبیح کو حسین بنا دیتا ہے۔ اس بنا پر اسے جادو کا نام دیا گیا ہے جس طرح ایک ملمع کی ہوئی نیز غیر حقیقی بات کو سحر کہا جاتا ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سحر کے اسم کا انداز بیان پر اطلاق مجازاً ہوتا ہے حقیقتہً نہیں ہوتا اس کی حقیقت تو وہ ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کردیا ہے۔ اس بنا پر اطلاق کے وقت یہ اسم ہر اس ملع کی ہوئی بات کو شامل ہوتا ہے جس سے دھوکا دہی اور تلبیس مقصود ہوتی ہے، نیز ایسی بات کا اظہار مطلوب ہوتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہ ہو اور نہ اسے کوئی ثبات حاصل ہو۔- ہم نے گزشتہ سطور میں لغت کے اعتبار سے سحر کے لفظ کی اصلیت اور اطلاق و تقیید کی صورتوں میں اس کا حکم بیان کردیا ہے۔ اب ہم اس کا متعارف معنی، نیز وہ اقسام باین کریں گے جن پر یہ اسم مشتمل ہے اور اس کے ساتھ سحر کو اپنانے والے گروہوں میں سے ہر گروہ کے مقاصد اور اغراض کا بھی ذکر کریں گے۔- ہم اللہ کی توفیق سے کہتے ہیں کہ سحر کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو اہل بابل کا سحر تھا جن کا ذکر اللہ سبحانہ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے : یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت وماروت (وہ لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے اور وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر نازل کی گئی تھی) اہل باطل صائبین تھے اور یہ سات ستاروں کی پرستش کرتے اور انہیں اپنا الہ قرار دیتے اور یہ عقیدہ رکھتے کہ کائنات میں پیش آنے والے تمام واقعات ان ستاروں کے افعال و حرکات کے نتائج ہیں۔ یہ لوگ آج کل فرق معطلہ کہلاتے ہیں۔ یہ صانع واحد اللہ کے قائل نہیں ہیں جس نے اپنی قدرت سے ستاروں اور جرام عالم کو پیدا کیا ہے۔- یہی وہ لوگ تھے جن کی طرف اللہ کے اپنے خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ نے انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کا مقابلہ ایسے دلائل سے کیا جن کے ذریعے آپ ان پر غالب آئے اور ایسی حجت قائم کردی جس کا توڑ ان کے لئے ممکن نہیں ہوا۔ انہوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو آپ کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کا ذریعہ بنایا۔ اس کے بعد اللہ نے آپ کو شام کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا۔ ایک روایت کے مطابق اہل یا جل اور عرقا و شام اور مصر کے باشندے شہنشاہ بیورا سپ کی رعایا تھے جسے عرب کے لوگ ضحاک کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ دنیا رند کے علاقہ کے بادشاہ فریدوں نے ضحاک کی سلطنت کے لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکایا۔ خفیہ طور پر ان سے خط و کتابت کر کے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا اور طویل جنگوں کے بعد ضحاک کی سلطنت اس سے چھین لی اور اسے قید کردیا۔- جاہل عوام، خصوصاً عورتیں خیال کرتی ہیں کہ فریدوں نے بیورا سپ کو دنیاوند کے ایک اونچے پہاڑ پر قید کردیا تھا اور وہ وہاں ابھی تک مقید اور زندہ ہے، نیز یہ کہ جادوگر اس کے پاس وہاں جاتے اور اس سے جادو سیکھتے ہیں، ان کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ بیوراسپ جلد ہی قید سے نکل کر پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرلے گا۔ نیز بیوراسپ ہی وہ دجال ہے جس کی خبر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہے اور ہمیں اس کے متعلق تحذیر فرمائی ہے۔ میرے خیال میں ان لوگوں نے یہ باتیں مجوسیوں سے اخذ کی ہیں۔- فریدوں کے غلبے کے بعد بابل کی مملکت ایرانیوں کے ہاتھ آ گئی۔ پھ را ن کے بعض حکمران بابل کے علاقے میں منتقل ہوگئے اور اسے اپنا وطن بنا لای۔ یہ لوگ ستارہ پرست نہیں تھے، بلکہ موحد تھے، اور اللہ کی ذات کا اقرار کرتے تھے، تاہم اس کے ساتھ یہ لوگ عناصر اربعہ یعنی آگ، پانی مٹی اور ہوا کو بڑی اہمیت دیتے تھے کیونکہ ان عناصر سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور جانداروں کی زندگی کا سہارا بھی یہی عناصر ہیں۔ ان لوگوں نے مجوسیت شہنشاہ گشتاسب کے زمانے میں اختیار کی جب زردشت نے گشتاسب کو مجوسیت کی دعوت دی اور اس نے یہ مذہب قبول کرلیا، تاہم اس نے چند شرائط اور باتوں کے ساتھ یہ مذہب قبول کیا۔ یہاں ان شرائط کا ذکر طوالت کا باعث ہوگا، ہماری غرض تو صرف یہ بتانا ہے کہ بابل کے جادوگروں کا طریق کار کیا تھا۔- جب اس ملک پر ایرانیوں کا قبضہ ہوگیا تو انہوں نے جادوگروں کو قتل کرنے اور ان کا نام و نشان مٹا دینے کا فیصلہ کیا اور مجوسیت کا عقیدہ اختیار کرلیا اور ان کا دین یہی رہا حتی کہ ان کی حکومت ختم ہوگئی۔- اہل بابل پر ایرانیوں کے غلبے سے پہلے ان کے علوم، شعبدہ بازیوں، مکاریوں اور ستاروں کے متعلق امور و احکام پر مشتمل تھے، یہ لوگ ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں ان لوگوں نے سات ستاروں کے ناموں پر بنایا تھا۔ انہوں نے ہر ستارے کا ایک ہیکل تعمیر کیا تھا جس میں اس ستارے کا بت رکھا ہوا تھا۔ وہ اپنے عقیدے کے مطابق خیر یا شر کی طلب میں مخصوص ستارے اور اس کے ہیکل کا تقرب حاصل کرتے اور اسے رضای کرنے کے لئے مخصوص افعال سر انجام دیتے تھے، مثلاً جو شخص خیر اور صلاح کا طلبگار ہوتا وہ مشتری ستارے کے ہیکل میں رکھے ہوئے بت کے پاس جا کر دھونی رماتا، گنڈے بناتا اور منتر پڑھ کر ان پر پھونکتا اور جو شخص اپنے مخالف کے لئے جنگ، تباہ کاری، موت اور شرو فساد کا طالب ہوتا وہ زحل ستارے کے ہیکل میں رکھے ہوئے بت کے پاس جا کر مخصوص طریقے سے پوجا پاٹ کرتا۔ جو شخص بجلی گرنے، آگ لگنے اور طاعون کی بیماری پھیلنے کا طلبگار ہوتا وہ مریخ ستارے کے ہیکل میں رکھے ہوئے بت کے پاس جا کر جانوروں کے خون کا نذرانہ پیش کرتا۔- پوجا پاٹ اور جھاڑ پھونک کی یہ تمام رسمیں نبطی زبان میں ادا کی جاتیں، اسی کے ذریعے مذکورہ کواکب کی تعظیم و تکریم کا اظہار ہوتا اور پھر ان سے مرادیں مانگی جاتیں جو خیر و شر، محبت و عداوت اور آبادی و بربادی پر مشتمل ہوتیں، اور پھر مذکورہ بت ان کی یہ مرادیں پوری کردیتے، جانوروں کا چڑھاوا چڑھا کر اور جھاڑ پھونک کر کے نیز گنڈے اور منتروں کی رسمیں بجا لا کر وہ یہ سمجھتے کہ اب وہ دوسروں کو ہاتھ لگائے بغیر ان پر برے یا بھلے اثرات پید اکر سکتے ہیں۔- ان کا عقیدہ تھا کہ اس مقصد کے لئے انہوں نے بت کے سامنے جو نذرانے پی شکئے ہیں بس وہی کافی ہیں۔ ان کا ایک عام جادو گر اس زعم میں مبتلا ہوتا کہ وہ انسان کو گدھا یا کتا بنا سکتا ہے اور پھر جب چاہے اسے اس کی اصل صورت میں واپس لاسکتا ہے ۔ کسی جادوگر کا دعویٰ یہ ہتا کہ وہ انڈے یا جھاڑو دیا مٹکے پر سوار ہو کر ہوا میں عراق سے ہندوستان یا جس سر زمین تک چاہے پرواز کرسکتا ہے اور اسی رات واپس آسکتا ہے۔ عوام الناس اس بنا پر ان تمام باتوں پر یقین رکھتے تھے کہ وہ کواکب پرستی میں مبتلا تھے۔ جس کام میں بھی کواکب کی تعظیم کا پہلو ہوتا اسے وہ بطور عقیدہ قبول کرلیتے اور ان کی اس ضعیف الاعتقادی سے فائدہ اٹھا کر جادوگر مختلف جیلوں اور شعبدہ بازیوں کے ذریعے ان کے ذہنوں میں جادو کے مئوثر ہونے کا تصور پختہ کردیتے اور انہیں بتاتے کہ جادو کے ذریعے صرف وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا اور اثرات پید اکر سکتا ہے جو ان کے اقوال کی صحت پر پختہ یقین رکھتا ہو اور ان کے دعوئوں کی تصدیق کرتا ہے۔- ان کے بادشاہوں کو جادوگروں کے اس طر ز عمل پر کوئی اعتراض نہ ہوتا، بلکہ ان کے ہاں ان جادوگروں کو سب سے اونچا مرتبہ حاصل ہوتا کیونکہ عوام الناس کے دلوں میں ان کی تعظیم اور ان کا اجلال ہوتا۔ اس زمانے میں بادشاہ خود ان تمام باتوں پر یقین رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ یہ بادشاہتیں ختم ہوگئیں۔- فرعون کے زمانے میں جادوگری سیکھنے، شعبدہ بازی کا مظاہرہ کرنے اور استھانوں پر نذرانے کے طور پر پیش کئے جانے والے جانوروں کو جلا ڈالنے میں لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور دیگر معجزات دے کر فرعون کی طرف مبعوث کیا تھا جنہیں دیکھ کر تمام جادوگر یہ جان گئے تھے کہ ان کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اللہ کے سوا کسی کو ان کی قدرت حاصل نہیں ہے۔- جب یہ بادشاہتیں ختم ہوگئیں اور ایسے افرا کو بادشاہتیں ملیں جو توحید کے قائل تھے اور جادوگروں کو قتل کر کے اللہ کا تقرب حاصل کرتے تھے تو یہ جادوگر زیر زمین چلے گئے اور اپنے خفیہ ٹھکانوں میں بیٹھ کر جاہل عوام کو اپنے پاس بلانے اور انہیں گمراہ کرنے لگے جیسا کہ آج کل بھی بہت سے لوگ کالے علم کے دعوے دار ہیں اور عورتوں اور ناپختہ ذہن افراد کو اپنے دام تزویر میں پھنسا لیتے ہیں۔- یہ جادوگر جن لوگوں کا کام بنا دیتے انہیں اپنے عقیدے کی تصدیق اور اس کی صحت کا اعتراف کرنے کی دعوت دیتے ہیں جبکہ ان عقائد کی تصدیق کرنے والا کئی وجوہ سے کافر ہوجاتا ہے۔ ایک وجہ تو یہ کہ وہ کواکب کی تعظیم اور انہیں الہ کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ کواکب نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں، تیسری وجہ یہ اعتقاد کہ جادوگر بھی ابنیاء (علیہم السلام) کے لائے ہوئے معجزات جیسے معجزات دکھا سکتے ہیں۔- اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے بابل میں ان لوگوں کی طرف دو فرشتے بھیجے جو ان کے سامنے جادوگروں کے دعوئوں کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے، ان کا بطلان کرتے اور ان کی ملع سازی نیز فن کاری کا پول کھولتے اور انہیں جادوگروں کے جھاڑ پھونک اور ان کے منتروں اور گنڈوں کے مہمل ہونے سے آگاہ کرتے اور بتاتے کہ یہ سرا سر شرک اور کفر ہے، وہ لوگوں کو جادو گروں کے ان حیلوں اور شعبدوں سے بھی آگاہ کرتے جن کے ذریعے وہ عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے تھے۔ قرآن کے الفاظ ہیں : انما نحن فتنۃ فلا تکفر (دیکھو، ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، تو کفر میں مبتلا نہ ہو۔ )- یہ تھی سحر بابل کی اصلیت، وہ لوگ جادوگری اور شعبدہ بازی کے وہ تمام طریقے استعمال کرتے تھے جن کا ہم ذیل میں تذکرہ کریں گے۔ وہ ان طریقوں پر فن کاری کا لبادہ چڑھا کر عوام الناس کے سامنے پیش کرتے اور انہیں ستاروں کا معتقد بنا دیتے۔- ان کی جادوگری کی بہت سی اقسام ایسی تھیں جن میں زیادہ تر تخیل کی کار فرمائی تھی جن کا ظاہر ان کے حقائق کے خلاف ہوتا۔ بعض صورتیں تو ایسی تھیں جن سے لوگ عرف اور عادت کے تحت واقف تھے اور بعض ایسی تھیں جن میں خفاء اور باریکی ہوتی اور ان کی حقیقت اور باطنی معنی سیصرف وہی لوگ واقف ہوتے ہیں جو ان کی معرفت حاصل کرلیتے۔ اس لئے کہ ہر علم لازمی طور پر ایسے امور پر مشتمل ہوتا ہے جن میں بعض جلی اور ظاہر ہوتے ہیں اور بعض خفی اور غامض جلی اور ظاہر امر کو تو عقل رکھنے والا جو شخص بھی دیکھتا یا سنتا ہے سمجھ جاتا ہے، لیکن خفی اور غامض معاملے کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس کا اہل ہو، اس کی معرفت کے در پے ہو اور سا کے متعلق بحث و تمحیص کی تکلیف برداشت کرے۔ مثلاً کشتی میں سوار انسان دریا میں کشتی کی روانی کے دوران کنارے پر واقع درختوں اور عمارتوں کو اپنے ساتھ رواں تصور کتر ا ہے (فی زمانہ ریل گاڑی اور کار میں سوار انسان کا تخیل بھی کچھ اسی طرح کا وہتا ہے۔ مترجم) اسی طرح آسمان پر شمالی رخ میں واقع چاند گزرنے والے بادل کی نسبت سے جنوبی رخ میں چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ نیز اگر لٹو کے سرے پر کوئی سیاہ نشان ہو اور پھر یہ لٹو گھومنے لگے تو مذکورہ نشان اس لٹو کو چاروں طرف سے گھیر لینے والے طوق کی طرح نظر آئے گا۔ یہی بات چکی میں بھی نظر آتی ہے، بشرطیکہ چکی تیز رفتاری سے چل رہی ہو۔ ایک اور مثال پیالی میں موجو دپانی کے اندر پڑا ہوا انگور کا دانہ جسامت میں شفتا لو اور آلو بخارے کے دانے جیسا نظر آتا ہے۔ اگر کسی لکڑی کے سرے پر اگنارہ ہو اور پھر سا کو کوئی گھمائے تو مذکورہ انگارہ اس لکڑی کو چاروں طرف سے گھیر لینے والے طلاق کی طرح نظر آئے گا۔ کہر کے اندر ایک کوتاہ قد شخص ایک بڑے ہیولے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اور زمین سے اٹھنے والے بخارات سورج کی ٹکیہ کو طلوع کے وقت بہت بڑے آگ کے گولے کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں، لیکن جب سورج کی ٹکیہ ان بخارات سے اوپر اٹھ جاتی ہے، تو اس کی جسامت چھوٹی نظر آتی ہے ۔ اگر آپ انگوٹھی کو اپنی آنکھوں کے قریب لے جائیں تو اس کا حلقہ کنگن کے حلقے کی طرح بڑا نظر آئے گا۔ ملاح کا چپوپانی میں چلنے کے دوران میں ٹوٹا ہوا یا مڑا وہا نظر آتا ہے۔ غرض یہ کہ اس کے نظائر بہت زیادہ ہیں اور ان کا تعلق ان اشیاء سے ہے جو ہماری قوت متخیلہ کے اندر اپنے حقائق سے ہٹ کر ظاہر ہوتے ہیں۔- عوام الناس ایسی اشیاء کو اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن بعض اشیا لطیف ہونے کی بنا پر صرف ان لوگوں کے علم میں آتی ہیں جو انہیں جانتا چاہتے ہوں اور انہیں غور اور توجہ سے دیکھیں، مثلاً سحارہ (ایک قسم کے کھلونے) سے نکلنے والی دھاری کبھی سرخ نظر آتی ہے، کبھی زرد اور کبھی سایہ۔ ایک لطیف اور دقیق صورت وہ ہے جس کا تماشا شعبدہ باز لوگوں ک اکثر دکھاتے رہتے ہیں۔ اور ان کی قوت متخیلہ اسے اس کی حقیقت سے ہٹ کر دیکھتی ہے۔ مثلاً شعبدہ باز لوگوں کو دکھاتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں ایک چڑیا ہے جسے وہ ذبح کردیتا ہے، پھر یوں نظر آتا ہے کہ گویا وہ چڑیا اس کے ہاتھ سے اڑ گئی ہے۔ یہ سارا کمال شعبدہ باز کے ہاتھ کی صفائی کا ہوتا ہے۔ اڑ جانے والی چڑیا ذبح شدہ چڑیا کے علاوہ ہوتی ہے۔ اس کے پاس دو چڑیاں ہوتی ہیں، وہ ایک کو چھپائے رکھتا ہے اور دوسری کو ظاہر کرتا ہے اور پھر اپنے ہاتھ کی صفائی سے ذبح شدہ کو چھپا کر زندہ چڑیا اڑا دیتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ شعبدہ بازیہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے ایک انسان کو ذبح کردیا ہے یا اس نے اپنے پاس رکھی ہوئی تلوار نگل لی ہے ۔ وہ اسے اپنے پیٹ میں داخل کرلیتا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اسی قسم کا تماشا پتلیاں نچانے والے بھی دکھاتے ہیں۔ پیتل یا کسی اور دھات کی بنی ہوئی یہ پتلیاں تماشہ دکھانے والے کی انگلیوں کے اشارے پر حرکت کرتی ہیں۔ یوں نظر آت ا ہے کہ وہ گھڑ سوار ایک دوسرے سے بوسہ پیکار ہیں۔ پھ رایک سوار دوسرے کو قتل کردیتا ہے اور اپنا کرتب دکھا کر چلا جاتا ہے یا مثلاً پیتل کا بنا ہوا ایک گھڑ سوار اپنے ہاتھ میں بگل لئے ہوئے ہے اور جب دن کی ایک گھڑی گزر جاتی ہے تو وہ بگل بجاتا ہے۔- مئورخ کلبی نے ذکر کیا ہے کہ فوج کا ایک سپاہی شکار کی غضر سے شام کے نواحی علاقے میں چلا گیا، اس کے ساتھ ایک شکاری کتا اور غلام تھا، اسے ایک لومڑی نظر آئی اور اس نے اپنا کتا اس پر چھوڑ دیا۔ لومڑی ٹیلے میں بنے ہوئے ایک سوراخ میں داخل ہوگئی اور کتا بھی اس کے پیچھے سوراخ کے اندر چلا گیا، لیکن وہاں سے باہر نہیں آیا۔ یہ دیکھ کر شکاری نے اپنے غلام کو سوراخ میں داخل ہونے کے لئے کہا اور خود انتظار کرتا رہا۔ لیکن غلام باہر نہیں آیا۔ اس پر وہ خود اس سوراخ میں داخل ہونے کی تیاری کرنے لگا۔ اتنے میں ایک شخص اس کے پاس سے گزرا۔ شکاری نے اسے تمام واقعہ سنا دیا۔ اس نے شکاری کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر سوراخ میں داخل ہوگیا۔ دونوں ایک طویل سرنگ پر جا پہنچے اور اس میں چلتے ہوئے ایک کوٹھڑی کے قریب آ گئے جس میں اترنے کے لئے دوزینے تھے۔ وہ شخص شکاری کو لے کر پہلے زینے پر جا کھڑا وہا۔ اس نے شکاری کو دکھایا کہ اس کا کتا، غلام اور لومڑی تنیوں مردہ پڑے ہیں اور کوٹھڑی کے درمیان ایک شخص برہنہ تلوار ہاتھ میں لئے کھڑا ہے۔ اس نے شکاری کو مسلح شخص کے بارے میں بتایا کہ اگر سو آدمی بھی کوٹھری میں داخل ہوں تو یہ شخص ان سب کو قتل کر دے۔ شکاری کے استفسار پر رہبر نے اسے یہ بھی بتایا کہ عمارت کی تعمیر اس ڈھنگ سے کی گئی ہے کہ جب کوئی شخص دوسرے زینے پر قدم رکھ کر کوٹھڑی میں اترنا چاہے تو مسلح شخص جو درحقیقت ایک مشینی یعنی مصنوعی انسان ہے آگے بڑھ کر اسے تلوار مار دے گا۔ اس لئے تمہیں ہرگز کوٹھری میں اترنا نہیں چاہیے۔ اس پر شکاری نے اس سے پوچھا کہ اب کیا تدبیر کرنی چاہیے ؟ تو اس نے کہا کہ ” تمہیں اس مسلح مشینی انسان کے پیچھے سے سرنگ کھودنی چاہیے جس کے ذریعے تم اس کے پاس ہپنچ جائو جب تم اس کے پاس دوسری طرف سے جائو گے تو اس مشینی انسان میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوگی۔ “ چناچہ شکاری نے کچھ مزدور اور کاریگر حاصل کئے اور انہوں نے ٹیلے کے پیچھچے سے ایک سرگن نکال دی اور اس کے ذریعے شکاری مسلح شخص تک پہنچ گیا۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ یہ پیتل کا بنا ہوا ایک ڈھانچہ ہے جسے ہتھیار پہنا کر ہاتھ میں ایک تلوار دے دی گئی ہے ، شکاری نے اس مشینی انسان کو اکھاڑ دیا۔ اسے کوٹھڑی میں ایک دروازہ نظر آیا۔ جسے کھولنے پر ایک قبر نظر آئی۔ یہ کسی بادشاہ کی قبر تھی اور اس میں تابوت کے اندر بادشاہ کی لاش محفوظ تھی۔- اسی طرح کی بہت سی اور بھی مثالیں ہیں۔ نیز وہ مجسمے ہیں جو اہل روم اور اہل ہند بناتے تھے۔ یہ مجسمہ سازی اس قدر کمال کی ہوتی ہے کہ دیکھنے والا اصل انسان اور اس کے مجسمے کے درمیان فرق نہیں کرسکتا جس شخص کو پہلے سے معلوم نہ ہو کہ یہ مجسمہ ہے اسے اس کے اصلی انسان ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا۔ مجسمہ ساز ایک انسان کا ہنستا ہوا یا روتا ہوا مجسمہ بنا سکتا ہے، بلکہ وہ شرمندگی، سرور اور شماتت کی ہنسی کے اندر بھی فرق رکھتا ہے۔ ان کے اندر دراصل تخیلی امور کی لطافت، باریکی اور ان کے مخفی پہلوئوں کی عکاسی ہوتی ہے۔- اس سے پہلے شعبدہ بازی کے جن پہلوئوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس کے پہلو ہیں۔ فرعون کے جادوگروں کی جادوگری اسی قسم کی تھی جن کا ذکر ہم نے لاٹھیوں اور رسیوں کے سلسلے میں ان جادوگروں کے اختیار کردہ حیلوں اور تدبیروں کے سلسلے میں کیا ہے۔ زمانہ قدیم کے اہل بابل کے مذاہب اور ان کی جادوگری نیز شعبدہ بازی کے بارے میں جو کچھ ہم نے سابقہ اوراق میں بیان کیا ہے ان میں سے بعض باتیں تو ہم نے ان لوگوں سے سنی ہیں جو ان کی معلومات رکھتے ہیں اور بعض باتیں ہم نے کتابوں میں پڑھی ہیں اور ان کا کچھ حصہ ہم نے نبطی زبان سے عربی زبان میں منتقل کردیا ہے۔ ان میں سے ایک ان جادوگروں کی جادوگری، اس کی اصناف اور طریقوں کے بارے میں ہے۔ یہ تمام باتیں اس ایک اصول پر مبنی ہیں جن کا ذکر ہم نے پچھلی سطور میں کیا ہے یعنی کواکب کے لئے نذرانے پیش کرنا، ان کی عظمت ظاہر کرنا اور دیگر خرافات جادو کی ایک اور قسم بھی ہے جسے لوگ جنات اور شیاطین کی گفتگو کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنتا اور شیاطین جھاڑ پھونک اور گنڈوں کے ذریعے ان کے تابع ہوجاتے ہیں۔ اور وہ ان سے جو کام لینا چاہیں لے لیتے ہیں۔ جنات سے کام لینے سے پہلے انہیں چندامور سر انجام دین اہوتا ہے اور ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جنہیں وہ اس مقصد کے لئے تیار کرتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے کاہنوں کا معاملہ بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا تھا۔ حلاج کی اکثر خرق عادات باتیں بھی اسی قسم کے منتروں پر مبنی تھیں۔ اگر زیر نظر کتاب تفصیلات کی متحمل ہوتی تو ہم یہ باتیں تفصیل سے بیان کردیتے جن کی روشنی میں حلاج اور اسی قسم کے دیگر افراد کی بہت سی خرق عادت باتوں کی حقیقت سے لوگ واقف ہوجاتے۔- منت پڑھنے والوں اور گنڈے کرنے والوں کا کاروبار عوام الناس کے لئے ایک بڑ فتنے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ لوگ عوام الناس کے سامنے یہ ظاہر کرتے کہ جنات ان کی اطاعت ان منتروں کی وجہ سے کرتے ہیں جو اللہ کے نام پر مشتمل ہیں۔ اور پھر ان جنات کے ذریعے وہ ہر سوال کا جواب حاصل کر لیت ییہں اور جس شخص کے پیچھے چاہیں ان جنات کو لگا دیتے ہیں۔ عوام الناس ان کی یہ باتیں سچ سمجھ لیتے ہیں کیونکہ وہ ان کے اس دعوے سے دھوکا کھا جاتے ہیں کہ جنتا ان کی اطاعت اللہ کے ان ناموں کی بنا پر کرتے ہیں جن کی بنا پر وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اطاعت کرتے تھے۔- ان دھوکے کے بازوں کا دعویٰ یہ بھی ہوتا ہے کہ جنات انہیں مخفی باتوں کی خبر دیتے اور ہونے والی چوریوں سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ خلیفہ المعتضد باللہ اپنے جاہ و جلال اپنی زود فہمی اور عقل و دانش کے باوجود ایسے لوگوں کے پھندے میں پھنس گیا تھا اور ان کے ہاتھوں دھوکا کھا گیا تھا۔ اس کا ذکر مورخین نے کیا ہے۔ وہ یہ کہ المعتضد باللہ جس محل کے اندر اپنی بیگمات اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ رہتا تھا وہاں ایک شخص ہاتھ میں تلوار لئے مختلف اوقات میں نمودار ہوتا تھا۔ اس کی آمد زیادہ تر ظہر کے وقت ہوتی تھی۔ جب اس شخص کی تلاش ہوتی تو وہ غائب ہوجاتا اور قابو میں نہ آتا۔ خلیفہ نے خود اپنی آنکھوں سے اسے کئی بار دیکھا تھا۔ چناچہ وہ بڑا پریشان ہوا اور اسی پریشانی میں اس نے جادو ٹونے کرنے والوں کو بلوا لیا۔ یہ لوگ آ گئے اور اپنے ساتھ بہت سے مردوں اور عورتوں کو بھی لے آئے اور کہا کہ ان میں کچھ دیوانے ہیں اور کچھ صحیح الدماغ خلیفہ نے ان میں سے ایک شخص کو منت رپڑھ کر عمل شروع کرنے کا حکم دیا۔ اس نے اپنے ایک آدمی پر جس کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ وہ صحیح الدماغ ہے عمل کرنا شروع کیا، چناچہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص پاگل ہوگیا۔ ان لوگوں نے خلیفہ سے کہا کہ یہ شخص اس کام میں بڑا ماہر ہے۔ ایک صحیح الدماغ شخص کو مخبوط الحواس بنانے میں جنات پوری طرح اس کی تابعداری کرتے ہیں حالانکہ اس کے عمل کا یہ اثر صرف اس کے ساتھ اس گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا کہ وہ جب اس پر عمل کرے تو وہ اپنے حواس کھو کر دیوانہ بن جائے۔ اس نے اپنی یہی کاریگری خلیفہ پر بھی چلا دی ، خلیفہ کو یہ بات بہت بری لگی۔ اس کی طبیعت میں نفرت پیدا ہوگئی، تاہم اس نے ان لوگوں سے اس شخص کے متعلق دریافت کیا جو اس کے محل میں تھا۔ ان لوگوں نے اس کے متعلق بہت سی خرق عادات باتوں کا ذکر کیا جو اس کے دل کو لگیں، لیکن اصل مقصد کے سلسلے میں کوئی بات معلوم نہ ہوسکی۔ خلیفہ نے انہیں واپس جانے کا حکم دیا۔ اور ان میں سے ہر ایک کو پانچ پانچ سو درہم دیئے۔ دوسری طرف اس نے ہر ممکن حد تک احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں، اور محل کی چار دیواری کو اس طرح مضبوط کرنے کا حکم جاری کیا کہ کس یکے لئے اسے پھاندکر احاطے میں آنا ممکن نہ رہے۔ اس چار دیواری کے اوپر برج بھی بنا دیئے گئے تاکہ چور کمندوں کے ذریعے احاطے میں اترنے کی تدبیر نہ کرسکیں۔- اس کے بعد مذکورہ شخص کبھی کبھار نمودار ہوتا۔ چار دیواری پر بنے ہوئے یہ برج میں نے بھی قصر ثریا کی چار دیواری پر دیکھے تھے۔ یہ قصر المعتضد نے بنوایا تھا۔ میں نے اپنے ایک دوست سے جو خلیفہ کا حاجب رہ چکا تھا مذکورہ شخص کے متعلق دریافت کیا کہ آیا اسے اس بارے میں کچھ علم ہے ؟ اس نے جواب میں کہا کہ مذکورہ شخص کی حقیقت المقتدر باللہ کے زمانے میں واضح ہوگئی تھی درحقیقت مذکورہ شخص ایک سفید فام خادمہ تھا، اس کا نام یقق تھا اور اسے حرم سرا کی ایک لونڈی سے عشق تھا۔ اس نے اس لونڈی سے ملنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ مختلف رنگ کی داڑھیاں تیار کی تھیں۔ جب وہ ان میں سے کوئی داڑھی لگا لیتا تو دیکھنے والے کو اس کی اصلی داڑھی ہونے میں کوئی شک نہ ہوتا۔ وہ داڑھی لگا کر اپنے ہاتھ میں تلوار یا کوئی اور ہتھیار لے کر محل کے اندر ایسی جگہ نمودار ہوجاتا جہاں اسے المعتضد باللہ دیکھ سکتا۔ جب اس کا پیچھا کیا جاتا تو وہ محل کے باغ میں واقع درختوں یا محل کی گزرگاہوں یا غلام گردشوں میں چلا جاتا اور پیچھا کرنے والوں کی نظروں سے غائب ہوجاتا تو اپنی مصنوعی داڑھی اتار کر چھپا لیتا۔ ہتھیار اس کے ہاتھ میں بحالہ باقی رہتا اور اب وہ پیچھا کرنے والے خادموں میں سے ایک نظر آتا کسی کو اس پر شک نہ گزرتا، بلکہ دوسرے خادم اس سے پوچھتے کہ آیا اس نے محل کے اس حصے میں کسی کو دیکھا ہے ؟ وہ اس کا جواب نفی میں دیتا۔ جب مذکورہ شخص کے نمودار ہونے کی شخص مذکورہ اپنی محبوبہ سے دوچار باتیں کرلیتا۔ اس کا مقصد صرف اس لونڈی کو دیکھ لینا اور اس سے باتیں کرلینا ہوتا۔ اس کا یہ سلسلہ المقتدر باللہ کے زمانے تک جاری رہا۔ پھر وہ طرطوس شہر چلا گیا اور مرتے تک وہیں مقیم رہا۔ اس کی موت کے بعد مذکورہ لونڈی نے اس کے متعلق تمام باتیں بتادیں اور اس طرح اس کی حید گری کا لوگوں کو علم ہوگیا۔- ذرا غور کیجیے ایک خادم نے خفیہ طور پر ایسی حیلہ گری کی کہ کسی کو اس بات کا علم نہ ہوسکا باوجودیکہ خلیفہ المعتضد باللہ نے اس معاملے کی طرف پوری توجہ دی۔ حالانکہ حیلہ گری اور شعبدہ بازی اس کا پیش ہنہ ھا، پھر ایسے لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہوسکتا ہے جنہوں نے حیلہ گری کو اپنا پیشہ اپنا ذریعہ معاش بنا رکھا ہو۔- جادو کی ایک قسم اور بھی ہے اور وہ ہے لوگوں کے درمیان خفیہ طریقوں سے فساد پیدا کرنا اور انہیں آپس میں لڑانا کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے خاوند اور اس کی بیوی کو آپس میں لڑانا چاہا تو وہ پہلے بیوی کے پاس گئی اور اس سے کہا کہ تمہارے شوہر پر جادو کردیا گیا ہے اور اب تم سے اسے چھین لیا جائے گا، تاہم تمہاری خاطر میں اس پر جادو چلائوں گی حتی کہ وہ تمہارے سوا کسی اور کو نہ دیکھے گا اور نہ ہی اسے چاہے گا لیکن تمہیں اس مقصد کے لئے استرے کے ذریعے اس کے حلق سے تین بال اس وقت اتارنے ہوں گے جب وہ سو رہا ہو۔ تم یہ بال مجھے دے دینا اور اس کے بعد میرے جادو کا عمل مکمل ہوجائے گا۔” نادان بیوی اس عورت کی باتوں میں آ گئی۔ اس کے بعد وہ عورت شوہر کے پاس گئی اور اس سے کہا : تمہارے بیوی نے کسی اور سے مراسم پیدا کر لئے ہیں۔ مجھے اس کی باتوں سے جب اس منصوبے کا پتہ چلا تو تمہارے جان کے بارے میں خطرہ پیدا ہوگیا ۔ اس لئے تم میری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے چوکس رہو اور دھوکے میں نہ آئو کیونکہ اس نے استرے سے تمہارا گلا کاٹنے کا پروگرام بنایا ہے۔ شوہر نے عورت کی باتیں سن کر ان پر یقین کرلیا اور اس رات جھوٹ موٹھ آنکھیں بند کر کے لیٹا رہا۔ بیوی نے جب یہ سمجھ لیا کہ وہ سو گیا ہے تو استرا لے کر حلق سے بال اتارنے کے لئے اس پر جھکی۔ شوہر نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور بیوی کو تیز استرے کے ساتھ اپنے اوپر جھکی ہوئی دیکھ کر اسے یقین ہوگیا کہ وہ اسے قتل کر ناچاہتی تھی۔ چناچہ اس نے اسی استرے سے اپنی بیوی کا گلا کاٹ دیا اور پھ رقصاص میں خود بھی قتل ہوگیا۔- جادو کی ایک اور صورت بھی ہے وہ یہ کہ جادوگر بعض حیلوں سے ایک شخص کو ایسی دوائیاں کھلا دیتا ہے جو اس کے ذہن کو کند اور اس کی عقل کو ناکامہ بنا دیتی ہیں خاص قسم کی دھونی دے کر بھی اس پر یہ اثر پیدا کردیتا ہے۔ اور پھر و ہ اپنے اس معمول سے ایسے کام کراتا ہے کہ اگر اس کی عقل ٹھکانے ہوتی تو وہ ہرگز یہ کام نہ کرتا جب اس کی یہ حالت ہوجاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سحر زدہ ہے۔- یہاں ہم ایک ایسی حقیقت بیان کریں گے جس سے واضح ہوجائے گا کہ شعبدہ بازوں کی یہ تمام کارگزاریاں بےحقیقت ہیں اور محض جعلسازی اور چالبازی پر مبنی ہیں ۔ وہ یہ کہ اگر جادو اور منتروں کے ذریعے عملیات کرنے والے نفع و نقصان پہنچانے کے ان طریقوں پر قدرت رکھتے جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، نیز ان کے لئے ہوا میں اڑنا ، غیب کی باتیں بتانا، دور دراز کے ممالک کی خبر لانا، اسرار سے پردے ہٹانا ، چوریاں معلوم کرلینا اور لوگوں کو ان طریقوں کے سوا جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، دیگر طریقوں سے نقصان پہنچانا ممکن ہوتا تو یہ لوگ حکومتیں الٹا دینے، زمین میں مدفون خزانوں کو نکال لینے اور بادشاہوں کو قتل کر کے ان کی سلطنتوں پر قبضہ کرلینے پر قادر ہوتے اور ایسا کرنے میں انہیں کسی وقت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا، اور نہ ہی انہیں کوئی نقصان پہنچتا بلکہ وہ جسے چاہتے نقصان پہنچا دیتے۔ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلت نہ اٹھاتے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے، بلکہ ان کی حلات دوسرے لوگوں کے مقابلے میں پتلی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں سیب ڑھ کر لالچی اور حیلہ گر ہوتے ہیں۔ اپنی تمام فنکاری کے باوجود ان پر دوسروں کی بہ نسبت بدحالی زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ انہیں کسی چیز کی قدرت حاصل نہیں ہوتی اور ان کے تمام دعوے باطل اور جھوٹے ہیں۔ بس جاہل عوام ان جادوگروں اور منتر سازوں کے دعوئوں کی تصدیق اور ان کو تسلیم نہ کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ اس بارے میں من گھڑت اور جعلی حدیثیں بھی روایت کرتے اور ان کی صحت پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ مثلاً ان کی روایت کردہ ایک حدیث کے مطابق ایک عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس آ کر کہنے لگی کہ وہ جادوگرنی ہے اور پوچھا کہ اس کے لئے توبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہے ؟ حضرت عائشہ نے اس سے سوال کیا کہ وہ جادوگرنی کس طرح بنی ؟ اس نے جواب میں کہا کہ :” میں جادو کا علم سیکھنے کے لئے بابل کے اس مقام پر گئی تھی جہاں ہاروت اور ماروت رہتے تھے، ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ :” اللہ کی لونڈی، دنیا کے فائدے کے بدلے آخرت کا عذاب نہ لے۔ “ لیکن میں نے ان کی یہ بات قبول نہ کی۔ اس پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ” راکھ کے فلاں ڈھیر پر جا کر پیشاب کر دو ۔ “ یہ سن کر میں راکھ کے ڈھیر کے پاس چلی گئی ، لیکن میں نے اپنے دل میں سوچ لیا کہ میں پیشاب نہیں کروں گی، اور واپس آ کر میں نے ان سے کہا کہ میں نے پیشاب کردیا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کیا دیکھا ؟ میں نے جواب میں کہا کہ کچھ نہیں دیکھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ دراصل تم نے پیشا ہی نہیں کیا اس لئے جائو اور جا کر راکھ پر پیشاب کرو۔ چناچہ میں نے وہاں جا کر پیشاب کیا تو کیا دیکھتی ہوں کہ میری فرج سے ایک مسلح سوار برآمد ہو کر آسمان کی طرف چلا گیا۔ میں نے واپس آ کر انہیں یہ بات بتائی۔ انہوں نے کہا کہ ” یہ تمہارا ایمان تھا جو تم سے جدا ہوگیا اور اب تمہیں جادوگری اچھی طرح آ گئی ہے۔ “ میں نے ان سے پوچھا کہ ” وہ کیسے ؟ “ انہوں نے جواب دیا کہ جب تم کسی چیز کا تصور اپنے دل میں بٹھا لو گی تو وہ چیز موجود ہوجائے گی، چناچہ میں نے گندم کے ایک دانے کا تصور کیا تو دیکھا کہ یہ دانہ میرے پاس موجود ہے، میں نے دانے سے کہا ” آگ آئو ؟ “ اور فوراً ہی اس دانے سے ایک خوشہ نکل آیا، میں نے کہا :” آٹے کی صورت میں پس کر روٹی بن جائو “ اور دانہ ان مرحلوں سے گزر کر روٹی بن گیا ۔ “ اس کے بعد میں اپنے دل میں جس چیز کا تصور کرتی ہوں وہ چیز موجود ہوجاتی ہے۔ “ یہ سن کر حضرت عائشہ نے اس سے فرمایا کہ تمہارے لئے توبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔- جاہل قصہ گو اور جعلی راویان حدیث عوام الناس کے سامنے اس قسم کی من گھڑت کہانیاں بیان کرتے ہیں اور وہ انہیں حدیث سمجھ کر آگے بیان کرتے ہیں اور اس طرح یہ کہانیاں لوگوں میں عام ہوجاتی ہیں۔ ابن ہبیرہ کی جادوگرنی کا واقعہ سن لیجیے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی گورنری کے زمانے میں ایک جادوگرنی کو پکڑ لیا جس نے جادوگرنی ہونے کا اعتراف کرلیا۔ ابن ہبیرہ نے فقہاء سے اس کے متعلق مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے اسے قتل کردینے کا فتویٰ دیا۔ ابن ہبیرہ نے کہا ” میں اسے ڈبو کر ماروں گا۔ “ پھر اس نے آٹا پینے والی چکی کا ایک پاٹ لے کر جادو گرنی کے پائوں سے باندھ دیا اور دریائے فرات میں اسے پھینک دیا لکین جادوگرنی چکی کے پٹ کے ساتھ پانی پر کھڑی رہی اور موجوں کے ساتھ اوپر نیچے ہوتی رہی۔ ابن ہبیرہ کے آدمی ڈر گئے کہ کہیں یہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے۔ یہ دیکھ کر ابن ہبیرہ نے اعلان کیا کہ جو شخص اس جادوگرنی کو پکڑے گا اسے اتنا انعام ملے گا ایک جادوگر نے کہا کہ ” مجھے شیشے کا ایک پیالہ کچھ پانی ڈال کر لا دو ۔ “ وہ اس پیالے میں بیٹھ کرچکی کے پاٹ تک گیا اور پیالہ مار کر پتھر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور اس کے نتیجے میں جادوگرنی ڈوب کر مرگئی۔- عوام الناس اس قسم کے گھٹیا اور من گھڑت قصوں کو سچ تسلیم کرلیتے ہیں۔ حالانکہ جو شخص اس قسم کے واقعات کی سچائی تسلیم کرے گا وہ نبوت کی معرفت سے بےبہرہ ہوگا اور ابنیاء (علیہم السلام) کو جادوگر قرار دینے کے شیطانی چکر سے بچ نہیں سکے گا۔ فرمان الٰہی ہے : ولا یفلح الساحر حیث اتی (جادو گر جہاں بھی چلا جائے کامیاب نہیں ہوسکتا)- اس سے بڑھ کر بھیانک اور گھنائونی بات یہ ہے کہ لوگوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی جادو کا اثر ہوگیا تھا حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بارے میں فرمایا :” مجھے خیال ہوتا ہے کہ میں نے فلاں بات کہی ہے اور فلاں کام کیا ہے، حالانکہ میں نے وہ بات نہ تو کہی ہے اور نہ ہی وہ کام کیا ہے۔ “ نیز یہ کہ ایک یہودی عورت نے کھجور کے کھوکھلے گابھے میں کنگھی اور پرانے کپڑوں کا ٹکڑا رکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا اور پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے آ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کھجور کے کھوکھلے گابھے کے ذریع جادو کیا گیا ہے اور یہ گابھا ایک کنوئیں میں پتھر کے نیچے دبایا گیا ہے۔ پھر اسے وہاں سے نکالا گیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جادو کی کیفیت زائل ہوگئی۔ حالانکہ قول باری : وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلاً مسحوراً ) اور ظالموں نے کہا کہ تم تو ایک سحر زدہ انسان کی پیروی کرتے ہو)- درج بالا قسم کی روایتیں ملحدین نے احمق لوگوں پر ذہنی طور سے غلبہ حاصل کرنے اور انہیں انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات کے ابطال اور ان میں کیڑے نکالنے کی طرف مائل کرنے کے لئے ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کے لئے وضع کی ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات اور جادوگروں کی جادوگری میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ سب کی بنیاد ایک ہے۔ ہمیں تو ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو ایک طرف انبیاء (علیہم السلام) کی تصدیق اور ان کے معجزات کا اثبات کرتے ہیں اور دوسری طرف جادوگروں کے افعال کو بھی سچ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ قول باری موجود ہے کہ : ولا یفلح الساحر حیث اتی (جادو گر جہاں بھی چلا جائے کامیاب نہیں ہوسکتا) ان لوگوں نے ایسے شخص یعنی جادوگر کی تصدیق کی جس کی تکذیب اللہ نے کی ہے اور اس کی من گھڑت باتوں کو صاف صاف لفظوں میں غلط بتایا ہے۔- جہاں تک یہودی عورت کا واقعہ ہے تو عین ممکن ہے کہ جہالت کی بنا پر یہ سوچتے ہوئے اس نے یہ حرکت کی ہو کہ اس کی اس حرکت کا اثر انسانی اجسام پر ہوسکتا ہے اور یہ سوچ کر اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نشانہ بنایا ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے خفیہ ارادے سے آگاہ کر کے اس کی اس جاہلانہ حرکت کو ظاہر کردیا ہو کہ یہ بات بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل بن جائے نہ یہ کہ مذکورہ عورت کی اس حرکت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچا تھا اور ذہنی طور پر آپ کے اندر اختلاط پیدا ہوگیا تھا۔ اس روایت کے تمام راویوں نے اس ذہنی پراگندگی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ تو روایت کے اندر زید کے الفاظ ہیں اور ان الفاظ کی کوئی اصل نہیں ہے۔- انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات اور جادو کے درمیان فرق - انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات اور جادوگروں کے مذکورہ تخیلات کے درمیان فرق یہ ہے کہ معجزات حقائق پر مبنی ہوتے اور ان کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے اور ان پر جس قدر غور کیا جائے اسی قدر ان کی صحت کے بارے میں بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ اگر ساری مخلوق ان معجزات کے بالمقابل کوئی چیزیں پیش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے تو بھی وہ نکام رہے گی۔ جبکہ جادوگروں کی خرق عادات اور تخیلاتی امور محض شعبدہ بازی اور چابکدستی پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کے ذریعے وہ لوگوں کے سامنے ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اگر ان چیزوں کے بارے میں غور و فکر سے کام لیا جائے اور چھان بین کی جائے تو ان کا غیر حقیقی ہونا ثابت ہوجائے گا ۔ اگر کوئی شخص یہ چیزیں سیکھنا چاہے تو وہ اسی طرح کے کرتب دکھا سکتا ہے اور کرتب دکھانے والوں کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سحر کے معنی اور اس کی حقیقت کے بارے میں گزشتہ سطور میں جو کچھ بیان کردیا ہے اس سے قارئین کو سحر کی مجموعی حقیقت اور اس کے طریق کار کے بارے میں واقفیت حاصل ہوجائے گی۔ اگر یہاں ہم ان حیلہ سازیوں کا احاطہ کرنا چاہیں تو بات طویل ہوجائے گی اور ہمیں ایک نئی کتاب لکھنے کی ضرورت پیش آئے گی، ہماری غرض تو صرف سحر کا معنی اور اس کا حکم بیان کرنا ہے۔ اس لئے ہم یہاں جادو کے متعلق فقہاء کے قول نقل کریں گے اور اس کا وہ حکم بیان کریں گے جسے زیر بحث آیت مضمن ہے، نیز جادوگری کا دعویٰ کرنے والے کو لاحق ہونے والی ان سزائوں کا تذکرہ کریں گے جو انہیں ان کے گناہوں اور ان کے پیدا کردہ فساد کے مطابق ملنی چاہئیں۔ واللہ اعلم بالصواب - ساحر کے متعلق فقہاء کا اختلاف - عبدالباقی نے حدیث بیان کی، انہیں عثمان بن عمر الضبی نے، انہیں عبدالرحمٰن بن رجاء نے ، انہیں اسرائیل نے ابو اسحاق سے، انہوں نے ہبیرہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ سے کہ انہوں نے فرمایا :” جو شخص کسی کا ہن یا کسی عراف (نجومی) یا کسی جادوگر کے پاس جا کر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو گویا اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی (کتاب یا شریعت کے ساتھ کفر کیا۔ “ عبداللہ نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت بیان کی کہ حضرت حفضہ کی ایک لونڈی نے ان پر جادو کیا اور لوگوں نے اس جادو کو پا لیا اور خود لونڈی نے بھی اس کا اعتراف کرلیا۔ حضرت حفضہ نے عبدالرحمٰن بن زید کو اسے قتل کردینے کا حکم دیا اور انہوںں نے اسے قتل کردیا۔ یہ بات امیر المومنین حضرت عثمان کو پہنچ گئی۔ آپ نے اسے ناپسند کیا۔ پھ رحضرت ابن عمر حضرت عثمان کے پاس گئے اور انہیں لونڈی کے متعلق تمام بات بتادی۔ حضرت عثما ننے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار صرف اس بنا پر کیا تھا کہ لونڈی کو ان کی اجازت کے بغیر قتل کردیا گیا تھا۔- ابن عیینہ نے عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بجار کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ :” میں جزی بن معاویہ کا کاتب یعنی منشی تھا۔ ان کے پاس حضرت عمر کا مراسلہ آیا جس میں تحریر تھا کہ ہر جادوگر اور جادوگرنی کو قتل کر دو ۔ چناچہ ہم نے تین جادوگر نیوں کو قتل کردیا۔- ابو عاصم نے اشعث سے اور انہوں نے حسن بصری سے روایت بیان کی کہ انہوں نے فرمایا :” جادوگر کو قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ “- المثنیٰ بن الصباح نے عمرو بن شعیب سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک جادوگر کو پکڑا کر اسے سینے تک دفن کردیا اور پھر اسے اسی طرح رہنے دیا حتیٰ کہ وہ مرگیا۔- سفیان عمرو سے اور انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے روایت بیان کی کہ فیس بن سعد مصر کے حاکم تھے۔ ان کے سرکاری راز افشاء ہونے شروع ہوگئے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ میرے راز کون افشاء کرتا ہے ؟ لوگوں نے کہا یہاں ایک جادوگر رہتا ہے ، چناچہ انہوں نے اسے بلوایا۔ اس نے بتایا کہ آپ جب خط کھولتے ہیں تو مجھے اس کا مضمون معلوم ہوجاتا ہے، البتہ جب تک یہ خط سربمہر ہوتا ہے مجھے اس کے مضمون کا علم نہیں ہوتا۔ یہ سن کر انہوں نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا۔- ابو اسحاق الشیبانی نے جامع بن شداد سے اور انہوں نے اسود بن ہلال سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : یہ نجومی لوگ عجوم کے کاہن ہیں۔ جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس کی باتوں کا یقین کرے گا وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ شریعت سے بری ہوجائے گی۔- ابن المبارک نے حسن سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت جندب بن سفیان الجلبی نے ایک جادو گر کو قتل کردیا تھا۔ اسی طرح یونس نے زہری سے روایت بیان کی ہے کہ مسلمان جادوگر کو قتل کردیا جائے گا لیکن اہل کتاب جادوگر کو قتل نہیں کیا جائے گا، اس لئے کہ ایک یہودی شخص ابن اعصم نے اور خیبر کی ایک یہودی عورت زینب نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ حضرت عمرو بن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ جادوگر کو قتل کردیا جائے گا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا سلف ساحر کے قتل کے وجوب پر متفق ہیں اور ان میں سے بعض حضرات نے ساحر کے کفر کی تصریح کردی ہے۔ ساحر کے بارے میں حکم کے متعلق فقہائے امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ابن شجاع نے حسن بن زیاد سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر ساحر کے بارے میں پہت چل جائے کہ وہ ساحر ہے تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ جب وہ یہ اقرار کرے گا کہ وہ جادو گر ہے تو اس کا خون حلال ہوجائے گا۔ اگر دو گواہ اس کے خلاف گواہی دیں کہ وہ جادو گر ہے اور اس کی کیفیت اس طرح بیان کردیں جس سے معلوم ہوجائے کہ وہ جادوگر ہے تو اسے قتل کردیا جائے گا اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ اس بات کا اعتراف کرلے کہ وہ جادو کیا کرتا تھا۔ لیکن کافی عرصہ ہوا وہ یہ کام چھوڑ چکا ہے، تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر اس کے خلاف یہ گواہی دیجائے کہ وہ کبھی جادوگر تھا اور کافی عرصہ ہوا کہ اس نے یہ کام ترک کردیا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ اگر گواہ یہ گواہی دیں کہ وہ ابھی تک جادو کرت ا ہے اور وہ خود اس بات کا اعتراف کرے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ اسی طرح اگر مسلمان غلام اور ذمی غلام اور آزاد ذمی یہ اقرار کرلیں کہ وہ جادوگر ہیں تو ان کا خون حلال ہوجائے گا اور انہیں قتل کردیا جائے گا۔ ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی غلام یا ذمی کے خلاف گواہی دی جائے کہ وہ جادوگر ہے اور گواہ اس کی کیفیت اس طرح بیان کریں جس سے اس کے جادوگر ہونے کا علم ہوجائے تو اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور اسے قتل کردیا جائے گا۔ اگر غلام یا ذمی یہ اقرار کرے کہ وہ کبھی جادوگر تھا لین اب کافی عرصے سے اس نے یہ دھندا چھوڑ رکھا ہے، تو اس کی یہ بات قبول کرلی جائے گی۔ اسی طرح اگر اس کے خلاف یہ گواہی دی جائے کہ وہ کبھی جادوگری کرتا تھا، لیکن یہ گواہی نہ دی جائے کہ وہ اب بھی جادوگر ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔- اگر عورت کے خلاف لوگ گواہی دیں کہ وہ جادوگرنی ہے یا وہ خود اس کا اعتراف کرلے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے قید میں ڈال دیا جائے گا اور اس کی پٹانی کی جائے گی حتیٰ کہ لوگوں کو یہ یقین آ جائے کہ اس نے یہ دھندا چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح لونڈی یا ذمی عورت کے خلاف اگر لوگ گواہی دیں کہ وہ جادوگرنی ہے یا وہ خود اس کا اعتراف کرے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ محبوب رکھا جائے گا، یہاں تک کہ اس کے بارے میں یہ علم ہوجائے کہ اس نے جادوگری ترک کردی ہے۔- درج بالا اقوال تمام کے تمام امام ابوحنیفہ کے اقوال ہیں۔ ابن شجاع نے کہا ہے کہ جادوگر اور جادوگرنی کے بارے میں حکم دہی ہے جو مرتد اور مرتدہ کے بارے میں ہے۔ اگر جادوگر آ کر جادوگری کا اعتراف کرے یا اس کے خلاف گواہی دی جائے کہ اس نے جادو کا عمل کیا ہے تو اس کی یہ بات ارتداد کے ثبات کے بمنزلہ ہوگی۔ محمد بن شجاع نے ابو علی الرازی سے روایت بیان کی ہے کہ : میں نے امام ابو یوسف سے ساحر کے بارے میں امام ابوحنیفہ کے قول کے متعلق دریافت کیا کہ اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی یہ بات تو مرتد کے حکم کی طرح نہیں ہے۔ “ یعنی امام صاحب نے دونوں کے حکم میں فرق رکھا ہے ، اس کی کیا وجہ ہے ؟ امام ابو یوسف نے جواب دیا کہ جادوگر اپنے کفر کے ساتھ فساد فی الارض کی سعی کو بھی شام لکر لیتا ہے اور فساد کے لئے سعی کرنے والا اگر کسی کو قتل کرے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ “- میں نے امام ابویوسف سے پھر پوچھا :” جادوگر کے جرم کا بدلہ کیا ہے ؟ “ انہوں نے جواب دیا کہ ” جادوگر کے عمل کا بدلہ اسی طرح لیا جائے گا جس طرح یہودیوں کے اس عمل کا بدلہ لیا گیا تھا جس کا مظاہرہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا تھا اور سج کے بارے میں روایتیں وارد ہوئی ہیں اگر وہ قتل کا ارتکاب کرے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اگر قتل کا ارتکاب نہیں کرے گا تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ لبیدین العاصم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا کیونکہ اس نے اپنے فعل سے قتل کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام ابویوسف نے جو کچھ کہا ہے اس میں دراصل اس سحر کے معنی بیان نہیں ہوئے جس کا فاعل قتل کا مستحق ہوتا ہے اور امام ابو یوس ف کے بارے میں یہ گمان جائز نہیں ہے کہ جادو کے متعلق ان کا وہی اعتقاد ہے جو عوام الناس کا ہے کہ جادوگر ہاتھ لگائے یا کوئی دوا پلائے بغیر مسحور کو ضرر پہنچا دیتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہودیوں کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا عمل اس نوعیت کا حامل ہو کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوراک کے ذریعے قتل کرنے کا ارادہ کیا ہو اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے مذموم ارادے کی اطلاع دے دی ہو جس طرح زینب یہودن کے بکری کے زہرملے گوشت کے ذریعے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا اور بکری نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دے دی تھی اور آپ نے فرمایا تھا کہ : یہ بکری مجھے بتارہی ہے کہ اس میں زہر ملا دیا گیا ہے۔ “- ابو مصعب نے امام مالک سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مسلمان اگر جادو کا عمل کرے تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ اس لئے کہ مسلمان اگر باطنی طور پر مرتد ہوجائے تو اس کی طرف سے اظہار سالام کی بنا پر اس کی توبہ کا پتہ نہیں چل سکے گا۔ - اسماعیل بن اسحق نے کہا ہے کہ اہل کتاب کا جادوگر امام مالک کے نزدیک قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ اگر وہ مسلمان کو نقصان پہنچائے گا تو نقض عہد کی بنا پر قتل کردیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے اگر ساحر یہ کہے کہ میں جادو کا عمل کرتا ہوں تاکہ قتل کا ارتکاب کروں، لیکن کبھی کامیاب ہوجاتا ہوں اور کبھی ناکام اور یہ شخص میرے عمل کے نتیجے میں مرگیا ہے، تو ایسی صورت میں دیت لازم ہوگی اور اگ روہ کہے کہ ” یہ میرا معمول ہے اور میں نے اسے عمداً قتل کیا ہے۔ “ تو ایسی صورت میں اس یقصاص میں قتل کر دای جائے گا۔ اگر وہ کہے کہ میرے عمل سے میرا معمول بیمار پڑگیا تھا، مرا نہیں تھا “ تو ایسی صورت میں متوفی کے اولیا سے قسم لی جائے گی کہ وہ اسی عمل سے مرگیا تھا اور پھر دیت لازم ہوجائے گی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی نے ساحر کو اس کے سحر کی بنا پر کافر قرار نہیں دیا، بلکہ دوسرے محرموں کی طرح اسے صرف ایک جانی یعنی مجرم قرار دیا۔ ہم نے گزشتہ سطور میں سلف کے جو اقوال نقل کئے ہیں وہ اس امر کے موجب ہیں کہ جب جادوگر پر ساحری کا دھبہ لگ جائے تو وہ قتل کا مستحق ہوجائے گا۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حضرات سلف ساحر کو کافر سمجھتے تھے اور اس بارے میں امام شافعی کا قول ان حضرات کے اقوال کے دائرے سے خارج ہے۔ ان حضرات میں سے کوئی بھی یہ رائے نہیں رکھتا کہ اگر جادو گر اپنے جادو کے عمل سے کسی کو قتل کر دے تو وہ واجب القتل ہوگا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ سطور میں سحر کے معانی اور اس کی قسمیں بیان کردی ہیں۔ ہمارے بیان کے مطابق سحر کی پہلی قسم وہ ہے جس پر قدیم اہل بابل عمل پیرا تھے۔ اس سحر کے بارے میں صائبین کے مذاہب بھی ہم نے بیان کردیئے ہیں۔ اسی سحر کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول میں کیا ہے : وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت وماروت (وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی) اس سے یہی معلوم ہتوا ہے کہ اس سحر کا قائل، اس کا عامل اور اسے سچے سمجھنے والا کافر ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی اس بارے میں یہی قول ہے اور میرے نزدیک اس کی توبہ بھی قابل تسلیم نہیں ہے۔- درج بالا آیت سے جادوگری کی یہی قسم مراد ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کی روایت عبدالباقی بن قانع نے کی ہے، انہیں مطیر نے، انہیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے ۔ انہیں یحییٰ بن سعید القطان عبداللہ بن الاخنس سے، انہیں الولید بن عبداللہ نے یوسف بن مالک سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے سنا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جس شخص نے نجوم سے کسی علم کا اقتباس کیا اس نے سحر کے ایک شعبے کا اقتباس کیا۔ یہ حدیث دو معنوں پر دلالت کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ آیت سے وہ سحر مراد ہے جس کی نسبت اس کے عامل ستاروں کی طرف کرتے تھے یہی وہ سحر ہے جس کا ذکر ہم نے اہل بابل اور صائبین کی جادوگری کے سلسلے میں کیا ہے۔ اس لئے کہ جادو کی جن دیگر اقسام کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کا ستاروں سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ خود ان اقسام پر عمل پیرا جادوگروں کا کہنا بھی یہی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ مذموم سحر کے لفظ کا اطلاق جادو کی اسی قسم کو شامل ہے اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حضرات سلف کے نزدیک جادو کی یہی قسم متعارف تھی اور وہ صورت بھی جس پر عمل پیرا جادوگر خوق عادات کا دعویٰ کرتے تھے اگرچہ وہ اسے ستاروں کی حرکات کے ساتھ متعلق نہیں کرتے تھے۔- جادو کی دیگر اقسام جن کا ہم نے ذکر کیا ہے حضرات سلف کے نزدیک متعارف نہیں تھیں۔ بس یہی وہ قسم تھی جس پر عمل پیرا جادوگر کا قتل جائز سمجھا جاتا تھا۔ نیز یہ کہ حضرات سلف نے ادویات کے ذریعے ، چغل خوری، لاگئی بجھائی اور گنڈوں کے ذریعے جادو کا عمل کرنے والے جادوگر کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا تھا اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سحر کی مذکورہ بالا قسموں پر عمل پیرا جادوگر واجب القتل نہیں ہیں۔ بشرطیکہ وہ اپنے جادو کے عمل میں کسی ایسی بات کا دعویٰ نہ کریں جسے وجود میں لانا عام لوگوں کے لئے ممکن نہ ہو۔ یہ بات اس مر پر دلالت کرتی ہے کہ سلف کی طرف سے جادوگر کو واجب القتل قرار دینا صرف اس جادوگر کے لئے تھا جو اپنے جادو کے ذریعے ایسے خرق عادت کا دعویٰ کرتا اور اس کا یہ دعویٰ انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات سے مشابہ لگتا ۔- یہ بات دو صورتوں کی طرف منقسم ہوتی ہے ۔ پہلی صورت تو وہ ہے جس کا ذکر ہم نے اہل بابل کے سحر کے سلسلے میں ابتدا میں کیا ہے اور دوسری صورت وہ ہے جس کا دعویٰ منت ر پڑھنے والے نیز شعبدہ باز کرتے ہیں کہ شیاطین اور جنات ان کے تابع ہیں۔ یہ دونوں گروہ کافر ہیں۔ پہلا گروہ تو اس بناء پر کافر ہے کہ اس کی جادوگری میں کواکب کی تعظیم اور انہیں الہ قرار دینے کا پہلو موجود ہے۔ دوسرا گروہ اگر چہ اللہ اور سا کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قائل ہے لکین اس گروہ نے چونکہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ جنات ان لوگوں کو غیب کی باتیں بتاتے ہیں نیز انہیں ہوا میں اڑنے، پانی پر چلنے اور دیگر جانداروں کی شکلیں بدلنے کی قدرت حاصل ہے یا اسی طرح کے دیگر کرتب وہ دکھا سکتے ہیں اور اس جہت سے وہ انبیاء (علیہم السلام) کی نشانیوں کو بھی اپنے کرتبوں جیسا بتاتے ہیں۔ ایسے اشخاص دراصل انبیاء (علیہم السلام) کی صداقت کو جانتے ہی نہیں اور نہ اسے تسلیم ہی کرتے ہیں۔ یہ جھوٹے شعبدہ ابز اور اٹکل چلانے الے انبیاء علیہم ا لسلام کی صداقت کا انکار کرنے کی وجہ سے کفر کی زد میں آنے سے بچ نہیں سکتے۔- صحابہ کرام جس جادوگر کو اس کا حال معلوم کئے بغیر اور اس کی جادوگری کے طریقوں کے بارے میں تفتیش کئے بغیر واجب القتل قرار دیتے تھے اس کا ذکر اس قول باری میں آیا ہے۔ یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت وماروت (وہ لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے اور پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر نازل کی گئی تھی) - پس یہی وہ جادوگر ہے جس کا ذکر ہم نے جادو کی اقسام پر بحث کے آغاز میں کیا تھا۔ قدیم اہل بابل میں اسی قسم کی جادوگری کا چرچا تھا۔ شاید اس کے ساتھ جادوگری کی وہ یدگر اقسام بھی رائج ہوں جن کا ذکر ہم نے گزشتہ سطور میں کیا ہے۔ اور ان پر کاربند جادوگر غیب کی خبریں بتانے اور جانداروں کی شکلیں بدل ڈالنے میں بابل کے جادوگروں کے طریقے پر چلتے ہوں۔ عرب کے کاہنوں اور جوتشیوں کو بھی کفر کا اسم شامل ہے کیونکہ ان کی طرف سے بھی مذکورہ بالا دعوے کئے گئے تھے اور وہ بھی نعوذ باللہ انبیاء (علیہم السلام) کی برابری کے دعویدار تھے۔- حضرت سلف کے نزدیک سحر خواہ جس معنی پر محمول ہو ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ جادوگر اس وقت واجب القتل ہوگا جب اس کے ہاتھوں سے کسی کو جانی نقصان پہنچ جائے، بلکہ ان حضرات کے نزدیک جادوگر جادو کے عمل کا اعتقاد رکھنے کی بنا پر واجب القتل قرار پاتا تھا اور یہ بات نظر انداز کردی جاتی تھی کہ آیا اس کے ہاتھ سے کسی کو جانی نقصان پہنچا ہے یا نہیں رہ گئے وہ لوگ جو منتر پڑھ کر، ہاتھ کی صفائی دکھا کر، عقل کو کند کردینے والی دوائیاں یا جان لیوا زہر پلا کر نیز چغلخوری اور لگائی بجھائی کر کے لوگوں کو آپس میں لڑا کر جادو کا کرتب دکھاتے ہیں تو اگر وہ یہ اعتراف کریں کہ یہ سب ان کے حیلے ہیں، جادو نہیں ہے تو ان پر کفر کا حکم عائد نہیں کیا جائے گا، بلکہ انہیں مناسب طریقے سے اس کام سے روکا جائے گا اور ان کی تادیب کی جائے گی۔ - (بقیہ حصہ تفسیر، اگلی آیت میں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٢) شیطانوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت و ریاست ختم کرنے کے لیے جو چالیس روز تک جادو منتر کیا تھا، اس پر ان لوگوں نے عمل کیا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کسی قسم کا کوئی جادومنتر نہیں لکھا تھا، شیاطین تھا (ابوالعالیہ کے قول کے مطابق اور صحیح قول یہ ہے) کہ یہ شیاطین اس جادو کی بھی تعلیم دیتے تھے جو ان دونوں فرشتوں کو بطور الہام کے آتا تھا، یہ دونوں فرشتے کسی کو جادو نہیں سکھاتے تھے یہاں تک کہ پہلے اس سے کہہ نہ دیتے تھے کہ ہم اس چیز سے لوگوں کی آزمایش کرتے ہیں تاکہ ہم پر عذاب خداوندی کی سختی نہ ہو لہٰذا تو اسے نہ سیکھ اور نہ اس پر عمل کر، مگر یہ لوگ بغیر ان کی تعلیم کے ایسی چیز حاصل کرتے تھے جس کے ذریعے خاوند اور بیوی ایک دوسرے سے بیزار ہوجائیں اور یہ لوگ جادو اور اس کی تفریق کرانے سے اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور مشیت کے بغیر کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، اور شیاطین و یہودی اور جادوگر ایک دوسرے کو اس قسم کا جادو سکھاتے تھے جو آخرت کے لیے نقصان کا باعث بنے اور دنیا وآخرت میں اس سے کسی قسم کا فائدہ نہ حاصل ہو، ان فرشتوں نے ایک قول کے مطابق ان یہودیوں نے اپنی کتابوں میں یا ان شیاطین نے یہ بات روز روشن کی طرح جان لی تھی کہ جو شخص جادو منتر کرے گا اس کے لیے جنت میں کسی قسم کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور یہ بہت ہی بری چیز ہے جس کو یہودیوں نے اپنے لیے اچھا سمجھا ہے لیکن یہ اس کو نہیں سجھ رہے یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ یہ اپنی کتابوں میں اس کی برائی سے واقف ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” واتبعو ما تتلوالشیطین “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے شہر بن خوشب سے روایت کیا ہے کہ یہودی کہتے تھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھو حق بات کو باطل باتوں کے ساتھ ملانے میں ، (سلیمان علیہ السلام) کا ذکر انبیاء کرام کے ساتھ کرتے ہیں کیا وہ جادوگر نہیں تھے جو ہوا پر سوار رہتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے توریت کی باتوں میں سے کسی زمانہ کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اور یہودی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی چیز کے بارے میں کہیں پوچھا کرتے تھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اس کے بارے میں جو کچھ ان یہودیوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا وحی نازل فرما دیتا تھا، جب یہودیوں نے یہ دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ یہ تو (یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو باتیں ہمارے پاس نازل شدہ ہیں ان سے بہت زیادہ جاننے والے ہیں لہٰذا ان سے جادو کے متعلق سوالات و اعتراضات کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی۔ (آیت) ” واتبوما تتلوالشیطین (الخ) ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ ج) - اللہ تعالیٰ نے ّ جنات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا۔ اس وقت چونکہ ان کا انسانوں کے ساتھ زیادہ میل جول رہتا تھا ‘ لہٰذا یہ انسانوں کو جادو وغیرہ سکھاتے رہتے تھے۔- (وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا) - ( یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ ق) ۔ - جادو کفر ہے ‘ لیکن آپ کو آج بھی نقش سلیمانی کی اصطلاح سننے کو ملے گی۔ اس طرح بعض مسلمان بھی ان چیزوں کو حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی طرف منسوب کر رہے ہیں اور وہ ظلم اب بھی جاری ہے۔ - (وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ط) ۔ - بابل ( ) عراق کا پرانا نام تھا۔ یروشلم پر حملہ کرنے والا بخت نصر ( ) بھی یہیں کا بادشاہ تھا اور نمرود بھی بابل ہی کا بادشاہ تھا۔ نمرود عراق کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا ‘ جس کی جمع نماردۃ ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دور حکومت میں جنات اور انسانوں کا باہم میل جول ہونے کی وجہ سے جنات لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی آخری آزمائش کے لیے دو فرشتوں کو زمین پر اتارا جو انسانی شکل و صورت میں لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ وہ خود ہی یہ واضح کردیتے تھے کہ دیکھو جادو کفر ہے ‘ ہم سے نہ سیکھو۔ لیکن اس کے باوجود لوگ سیکھتے تھے۔ گویا ان پر اتمام حجت ہوگیا کہ اب ان کے اندر خباثت پورے طریقے سے گھر کرچکی ہے۔ - (وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ ) - (حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ ط) (فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖط۔ - شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا اور لوگوں کے گھروں میں فساد ڈالنا ‘ اس طرح کے کام اب بھی بعض عورتیں بڑی سرگرمی سے سرانجام دیتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے تعویذ ‘ گنڈے ‘ دھاگے اور نہ جانے کیا کچھ ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ - (وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط) ۔ - ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ بندۂ مؤمن کو یہ یقین ہو کہ اللہ کے اذن کے بغیر نہ کوئی چیز فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی نقصان۔ چاہے کوئی دوا ہو وہ بھی باذن رب کام کرے گی ورنہ نہیں۔ جو کوئی بھی اسباب طبیعیہ ہیں ان کے اثرات تبھی ظاہر ہوں گے اگر اللہ چاہے گا ‘ اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ جادو کا اثر بھی اگر ہوگا تو اللہ کے اذن سے ہوگا۔ چناچہ بندۂ مؤمن کو اللہ کے بھروسے پر ڈٹے رہنا چاہیے اور مصائب و مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ - (وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ ط) (وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰٹہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ ط) ۔ - (وَلَبِءْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ ط) ( لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :104 شیاطین سے مراد شیاطینِ جِنّ اور شیاطینِ اِنس دونوں ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ جب بنی اسرائیل پر اخلاقی و مادّی انحطاط کا دَور آیا اور غلامی ، جہالت ، نَکبَت و اِفلاس اور ذِلَّت و پستی نے ان کے اندر کوئی بلند حوصلگی و اُولوا العزمی نہ چھوڑی ، تو ان کی توجہّات جادُو ٹونے اور طلسمات و ”عملیات“ اور تعویذ گنڈوں کی طرف مبذول ہونے لگیں ۔ وہ تو ایسی تدبیریں ڈھونڈنے لگے ، جن سے کسی مشَقّت اور جدّوجہد کے بغیر محض پُھونکوں اور منتروں کے زور پر سارے کام بن جایا کریں ۔ اس وقت شیاطین نے ان کو بہکانا شروع کیا کہ سلیمان ؑ کی عظیم الشان سلطنت اور ان کی حیرت انگیز طاقتیں تو سب کچھ چند نقوش اور منتروں کا نتیجہ تھیں ، اور وہ ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں ۔ چنانچہ یہ لوگ نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر ان چیزوں پر ٹوٹ پڑے اور پھر نہ کتاب اللہ سے ان کو کوئی دلچسپی رہی اور نہ کسی داعی حق کی آواز انہوں نے سُن کردی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :105 اس آیت کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں ، مگر جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں بنی اسرائیل کی پُوری قوم بابل میں قیدی اور غلام بنی ہوئی تھی ، اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو انسانی شکل میں ان کی آزمائش کے لیے بھیجا ہوگا ۔ جس طرح قوم لُوط کے پاس فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں گئے تھے ، اسی طرح ان اسرائیلیوں کے پاس وہ پیروں اور فقیروں کی شکل میں گئے ہوں گے ۔ وہاں ایک طرف انہوں نے بازارِ ساحری میں اپنی دکان لگائی ہوگی اور دُوسری طرف وہ اتمامِ حُجَّت کے لیے ہر ایک کو خبردار بھی کردیتے ہوں گے کہ دیکھو ، ہم تمہارے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں ، تم اپنی عاقبت خراب نہ کرو ۔ مگر اس کے باوجود لوگ ان کے پیش کردہ عملیات اور نقوش اور تعویزات پر ٹوٹے پڑتے ہوں گے ۔ فرشتوں کے انسانی شکل میں آکر کام کرنے پر کسی کو حیرت نہ ہو ۔ وہ سلطنتِ الٰہی کے کار پرداز ہیں ۔ اپنے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں جس وقت جو صُورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے اختیار کرسکتے ہیں ۔ ہمیں کیا خبر کہ اس وقت بھی ہمارے گردوپیش کتنے فرشتے انسانی شکل میں آکر کام کرجاتے ہوں گے ۔ رہا فرشتوں کا ایک ایسی چیز سِکھانا جو بجائے خود بری تھی ، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے پولیس کے بے وردی سپاہی کسی رشوت خوار حاکم کو نشان زدہ سِکّے اور نوٹ لے جاکر رشوت کے طور پر دیتے ہیں تاکہ اسے عین حالتِ ارتکابِ جُرم میں پکڑیں اور اس کے لیے بے گناہی کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :106 مطلب یہ ہے کہ اس منڈی میں سب سے زیادہ جس چیز کی مانگ تھی وہ یہ تھی کہ کوئی ایسا عمل یا تعویذ مِل جائے جس سے ایک آدمی دُوسرے کی بیوی کو اس سے توڑ کر اپنے اوپر عاشق کر لے ۔ یہ اخلاقی زوال کا وہ انتہائی درجہ تھا ، جس میں وہ لوگ مبتلا ہو چکے تھے ۔ پست اخلاقی کا اس سے زیادہ نیچا مرتبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کے افراد کا سب سے زیادہ دلچسپ مشغلہ پرائی عورتوں سے آنکھ لڑانا ہو جائے اور کسی منکوحہ عورت کو اس کے شوہر سے توڑ کر اپنا کر لینے کو وہ اپنی سب سے بڑی فتح سمجھنے لگیں ۔ ازدواجی تعلق در حقیقت انسانی تمدّن کی جڑ ہے ۔ عورت اور مرد کے تعلق کی درستی پر پورے انسانی تمدّن کی درستی کا اور اس کی خرابی پر پورے انسانی تمدّن کی خرابی کا مدار ہے ۔ لہٰذا وہ شخص بدترین مُفْسِد ہے جو اس درخت کی جڑ پر تیشہ چلاتا ہو جس کے قیام پر خود اس کا اور پوری سوسائٹی کا قیام منحصر ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابلیس اپنے مرکز سے زمین کے ہر گوشے میں اپنے ایجنٹ روانہ کرتا ہے ۔ پھر وہ ایجنٹ واپس آکر اپنی اپنی کارروائیاں سُناتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے : میں نے فلاں شر کھڑا کیا ۔ مگر ابلیس ہر ایک سے کہتا جاتا ہے کہ تو نے کچھ نہ کیا ۔ پھر ایک آتا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ میں ایک عورت اور اس کے شوہر میں جُدائی ڈال آیا ہوں ۔ یہ سُن کر ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو کام کر کے آیا ہے ۔ اس حدیث پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش کو جو فرشتے بھیجے گئے تھے ، انہیں کیوں حکم دیا گیا کہ عورت اور مرد کے درمیان جدائی ڈالنے کا ”عمل“ ان کے سامنے پیش کریں ۔ دراصل یہی ایک ایسا پیمانہ تھا جس سے ان کے اخلاقی زوال کو ٹھیک ٹھیک ناپا جا سکتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

66: ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کی ایک اور بدعملی کی طرف اشارہ فرمایا ہے، اور وہ یہ کہ جادو ٹونے کے پیچھے لگنا شرعاً ناجائز تھا، بالخصوص اگر جادو میں شرکیہ کلمات منتر کے طور پر پڑھے جائیں توایسا جادو کفر کے مرادف ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں کچھ شیاطین نے، جن میں انسان اور جنات دونوں شامل ہوسکتے ہیں، بعض یہودیوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کا سارا راز جادو میں مضمر ہے، اور اگر جادو سیکھ لوگے توتمہیں بھی حیرت انگیز اِقتدار نصیب ہوگا۔ چنانچہ یہ لوگ جادو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے میں لگ گئے، حالانکہ جادو پر عمل کرنا نہ صرف ناجائز تھا، بلکہ اس کی بعض قسمیں کفر تک پہنچتی تھیں۔ دوسرا غضب یہودیوں نے یہ کیا کہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام کو جادو گر قرار دے کر ان کے بارے میں یہ مشہور کردیا کہ انہوں نے آخری عمر میں بتوں کو پوجنا شروع کردیا تھا۔ ان کے بارے میں یہ جھوٹی داستانیں انہوں نے اپنی مقدس کتابوں میں شامل کردیں جو آج تک بائبل میں درج چلی آتی ہیں۔ چنانچہ بائبل کی کتاب سلاطین اول ۱۱۔ ۱ تا ۱۲ میں ان کے معاذ اللہ مرتد ہونے کا بیان آج بھی موجود ہے۔ قرآنِ کریم نے اس آیت میں حضرت سلیمان علیہ السلام پر اس ناپاک بہتان کی تردید فرمائی ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جن لوگوں نے قرآنِ کریم پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں سے ماخوذ ہے، وہ کتنا غلط الزام ہے۔ یہاں قرآنِ کریم صریح الفاظ میں یہود ونصاریٰ کی کتابوں کی تردید کررہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ یہ خود معلوم کرسکتے کہ یہودیوں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ اس بات کا علم آپ کو وحی کے سوا کسی اور راستے سے نہیں ہوسکتا تھا۔ لہٰذا یہ آیت بذات خود آپ کے صاحب وحی رسول ہونے کی واضح دلیل ہے کہ آپ نے نہ صرف یہ بتلایا کہ یہودیوں کی کتابوں میں حضرت سلیمان علیہ السلام پر کیا بہتان لگایا گیا ہے، بلکہ اس قدر جم کر اس کی تردید فرمائی ہے۔ 67: بابل عراق کا مشہورشہرتھا۔ ایک زمانے میں وہاں جادو کا بڑا چرچا ہوگیا تھا، اور یہودی بھی اس ناجائز کام میں بُری طرح ملوث ہوگئے تھے۔ انبیائے کرام اور دوسرے نیک لوگ انہیں جادو سے منع کرتے تو وہ بات نہ مانتے تھے۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ تھی کہ لوگوں نے جادوگروں کے شعبدوں کو معجزے سمجھ کر انہیں اپنا دِینی مقتدا بنالیا تھا۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے دو فرشتے جن کا نام ہاروت اورماروت تھا دُنیا میں انسانی شکل میں بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو جادو کی حقیقت سے آگاہ کریں، اور یہ بتائیں کہ خدائی معجزات سے ان کا کوء تعلق نہیں ہے۔ معجزہ براہِ راست اﷲ تعالیٰ کا فعل ہے جس میں کسی ظاہری سبب کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جادو کے ذریعے جو کوئی شعبدہ دکھایا جاتا ہے وہ اسی عالمِ اسباب کا ایک حصہ ہے۔ یہ بات واضح کرنے کے لئے ان فرشتوں کو جادو کے محتلف طریقے بھی بتانے پڑتے تھے، تاکہ یہ دکھایا جاسکے کہ کس طرح وہ سبب اور مسبب کے رشتے سے منسلک ہیں، لیکن جب وہ ان طریقوں کی تشریح کرتے توساتھ ساتھ لوگوں کو متنبہ بھی کردیتے تھے کہ یاد رکھو یہ طریقے ہم اس لئے نہیں بتارہے ہیں کہ تم ان پر عمل شروع کردو، بلکہ اس لئے بتارہے ہیں کہ تم پر جادو اور معجزے کا فرق واضح ہو، اور تم جادو سے پرہیز کرو۔ اس لحاظ سے ہمارا وجود تمہارے لئے ایک امتحان ہے کہ ہماری باتوں کو سمجھ کر تم جادو سے پرہیز کرتے ہویا ہم سے جادو کے طریقے سیکھ کر ان پر عمل شروع کردیتے ہو۔ یہ کام انبیا کے بجائے فرشتوں سے بظاہر اس بنا پر لیا گیا کہ جادو کے فارمولے بتانا، خواہ وہ صحیح مقصد سے کیوں نہ ہو، انبیائے کرام کو زیب نہیں دیتا تھا۔ اس کے برعکس فرشتے چونکہ غیر مکلف ہوتے ہیں، اس لئے ان سے بہت سے تکوینی کام لئے جاسکتے ہیں بہر حال نافرمان لوگوں نے ان فرشتوں کی طرف سے کہی ہوئی باتوں کو تونظر انداز کردیا، اور ان کے بتائے ہوئے فارمولوں کو جادو کرنے میں استعمال کیا اور وہ بھی ایسے گھناونے مقاصد کے لئے جو ویسے بھی حرام تھے، مثلا میاں بیوی میں پھوٹ ڈال کر نوبت طلاق تک پہنچادینا۔ 68: یہاں سے جملہ معترضہ کے طور پر ایک اور اُصولی غلطی پر متنبہ کیا جارہا ہے، اور وہ یہ کہ جادو پر ایمان رکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ جادو میں بذاتِ خود ایسی تاثیر موجود ہے جس سے مطلوبہ نتیجہ خود بخود اللہ کے حکم کے بغیر بھی برآمد ہوجاتا ہے، گویا اللہ چاہے یا نہ چاہے، وہ نتیجہ پیدا ہو کر رہے گا۔ یہ عقیدہ بذاتِ خود کفر تھا، اس لئے واضح کردیا گیا کہ دنیا کے دوسرے اسباب کی طرح جادو بھی محض ایک سبب ہے اور دنیا میں کوئی سبب بھی اپنا مسبّب یا نتیجہ اس وقت تک ظاہر نہیں کرسکتا جب تک اللہ کی مشیت اس کے ساتھ متعلق نہ ہو۔ کائنات کی کسی چیز میں بذاتِ خود نہ کسی کو نفع پہنچانے کی طاقت ہے نہ نقصان پہنچانے کی۔ لہٰذا اگر کوئی ظالم کسی پر ظلم کرنا چاہتا ہے تو وہ اللہ کی قدرت اور مشیت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ البتہ چونکہ یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے اس لئے یہاں اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کوئی گناہ کرنا چاہتا ہے یا کسی پر ظلم کرنا چاہتا ہے تو اگر اﷲ تعالیٰ تکوینی مصلحت کے مطابق سمجھتا ہے تو اپنی مشیت سے وہ کام کرادیتا ہے۔ اِسی کے نتیجے میں ظالم کو گناہ اور مظلوم کو ثواب ملتا ہے، ورنہ اگر اللہ اسے کام کی قدرت ہی نہ دے تو امتحان کیسے ہو؟ لہٰذا جتنے گناہ کے کام دنیا میں ہوتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ ہی کی قدرت اور مشیت سے ہوتے ہیں، اگرچہ اس کی رضا مندی ان کو حاصل نہیں ہوتی۔ اور اﷲ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی رضا مندی میں فرق یہی ہے کہ مشیت اچھے بُرے ہر کام سے متعلق ہوسکتی ہے، مگر رضامندی صرف جائز اور ثواب کے کاموں سے مخصوص ہے۔ 69: اس آیت کے شروع میں تو یہ کہا گیا ہے کہ وہ یہ حقیقت جانتے ہیں کہ جو مشرکانہ جادو کا خریدار ہوگا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، لیکن آیت کے آخری حصہ میں فرمایا ہے کہ ’’کاش وہ علم رکھتے‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس حقیقت کا علم نہیں ہے۔ بظاہر دونوں باتیں متضاد لگتی ہیں، لیکن درحقیقت اس اندازِ بیان سے یہ عظیم سبق دیا گیا ہے کہ نرا علم جس پر عمل نہ ہو حقیقت میں علم کہلانے کا مستحق نہیں، بلکہ وہ کالعدم ہے۔ لہٰذا اگر وہ یہ بات جانتے توہیں مگر ان کا عمل اس کے برخلاف ہے تو وہ علم کس کام کا ؟ کاش کہ وہ حقیقی علم رکھتے تو اس پر ان کا عمل بھی ہوتا۔