کثرت سوال حجت بازی کے مترادف ہے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو روکتے ہوئے فرماتا ہے کہ کسی واقعہ کے ہونے سے پہلے میرے نبی سے فضول سوال نہ کیا کو ۔ یہ کثرت سوال کی عادت بہت بری ہے جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ ) 5 ۔ المائدہ:101 ) ایمان والو ان چیزوں کا سوال نہ کیا کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں برا لگے گا اور اگر تم قرآن کے نازل ہونے کے زمانہ میں ایسے سوالوں کا سلسلہ جاری رکھو گے تو یہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی ۔ کسی بات کے واقع ہونے سے پہلے اس کی نسبت سوال کرنے میں خوف یہ ہے کہ کہیں اس سوال کی وجہ سے وہ حرام نہ ہو جائیں صحیح حدیث میں ہے کہ مسلمانوں میں سے بڑا مجرم وہ ہے جو اس چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال سے حرام ہو گئی ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا ۔ کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے تو کیا کرے؟ اگر لوگوں کو خبر کرے تو یہ بھی بڑی بےشرمی کی بات ہے اور اگر چپ ہو جائے تو بڑی بےغیرتی کی بات ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سوال بہت برا معلوم ہوا آخر اسی شخص کو ایسا واقعہ پیش آیا اور لعان کا حکم نازل ہوا ۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فضول بکواس ، مال کو ضائع کرنے اور زیادہ پوچھ گچھ سے منع فرمایا کرتے تھے ۔ صحیح مسلم میں ہے میں جب تک کچھ نہ کہوں ، تم بھی نہ پوچھو تم سے پہلے لوگوں کو اسی بدخصلت نے ہلاک کر دیا کہ وہ بکثرت سوال کرتے تھے اور اپنے نبیوں کے سامنے اختلاف کرتے تھے ۔ جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق بجا لاؤ اور اگر منع کروں تو رک جایا کرو یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب لوگوں کو خبر دی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے تو کسی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اس نے پھر پوچھا آپ نے کوئی جواب نہ دیا اس نے تیسری دفعہ پھر یہی سوال کیا آپ نے فرمایا ہر سال نہیں لیکن اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم کبھی بھی اس حکم کو بجا نہ لا سکتے پھر آپ نے مندرجہ بالا فرمان ارشاد فرمایا حضرت انس فرماتے ہیں جب ہمیں آپ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں ہیبت کھاتے تھے چاہتے تھے کہ کوئی بادیہ نشین ناواقف شخص آ جائے وہ پوچھے تو ہم بھی سن لیں ۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں میں کوئی سوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنا چاہتا تھا تو سال سال بھر گزر جاتا تھا کہ مارے ہیبت کے پوچھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ہم تو خواہش رکھتے تھے کہ کوئی اعرابی آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر بیٹھے پھر ہم بھی سن لیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی جماعت نہیں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف بارہ ہی مسئلے پوچھے جو سب سوال مع جواب کے قرآن پاک میں مذکورہ ہیں جیسے شراب وغیرہ کا سوال حرمت والے مہینوں کی بابت کا سوال ، یتیموں کی بابت کا سوال وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں پر ام یا تو بل کے معنی میں ہے یا اپنے اصلی معنی میں ہے یعنی سوال کے بارے میں جو یہاں پر انکاری ہے یہ حکم مومن کافر سب کو ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سب کی طرف تھی قرآن میں اور جگہ ہے آیت ( يَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ ) 4 ۔ النسآء:53 ) اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر کوئی آسمانی کتاب اتارے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا کہ اللہ کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں جس ظلم کی وجہ سے انہیں ایک تند و تیز آواز سے ہلاک کر دیا گیا ۔ رافع بن حرملہ اور وہب بن زید نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی آسمانی کتاب ہم پر نازل کیجئے جسے ہم پڑھیں اور ہمارے شہروں میں دریا جاری کر دیں تو ہم آپ کو مان لیں اس پر یہ آیت اتری ۔ ابو العالیہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی اسی طرح ہو جاتا جس طرح بنی اسرائیل کے گناہوں کا کفارہ تھا آپ نے یہ سنتے ہی تین دفعہ جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ نہیں الہ نہیں ہم یہ نہیں چاہتے پھر فرمایا سنو بنو اسرائیل میں سے جہاں کوئی گناہ کرتا اس کے دروازے پر قدرتاً لکھا ہوا پایا جاتا اور ساتھ ہی اس کا کفارہ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا اب یا تو دنیا کی رسوائی کو منظور کر کے کفارہ ادا کر دے اور اپنے پوشیدہ گناہوں کو ظاہر کرے یا کفارہ نہ دے اور آخرت کی رسوائی منظور کرے لیکن تم سے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا آیت ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) 4 ۔ النسآء:110 ) یعنی جس سے کوئی برا کام ہو جائے یا وہ اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر استغفار کرے تو وہ اللہ کو بہت بڑا بخشش اور مہربانی کرنے والا پائے گا ۔ اسی طرح ایک نماز دوسری نماز تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے پھر جمعہ دوسرے جمعہ تک کفارہ ہو جاتا ہے سنو جو شخص برائی کا ارادہ کرے لیکن برائی نہ کرے تو برائی لکھی نہیں جاتی اور اگر کر گزرے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور اگر بھلائی کا ارادہ کرے پھر گو نہ کرے لیکن بھلائی لکھ لی جاتی ہے اور اگر کر بھی لے تو دس بھلائیاں لکھی جاتی ہیں اب بتاؤ تم اچھے رہے یا بنی اسرائیل؟ تم بنی اسرائیل سے بہت ہی اچھے ہو ہاں باوجود اتنے کرم اور رحم کے پھر بھی کوئی ہلاک ہو تو سمجھو کہ یہ خود ہلاک ہونے والا ہی تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی قریشیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے تو ہم ایمان لاتے ہیں آپ نے فرمایا اچھا لیکن پھر مائدہ ( آسمانی دستر خوان ) مانگنے والوں کا جو انجام ہوا وہی تمہارا بھی ہو گا اس پر وہ انکاری ہو گئے اور اپنے سوال کو چھوڑ دیا مراد یہ ہے کہ تکبر عناد سرکشی کے ساتھ نبیوں سے سوال کرنا نہایت مذموم حرکت ہے جو کفر کو ایمان کے بدلے مول لے اور آسانی کو سختی سے بدلے وہ سیدھی راہ سے ہٹ کر جہالت و ضلالت میں گھر جاتا ہے اسی طرح غیر ضروری سوال کرنے والا بھی جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) 14 ۔ ابراہیم:28 ) کیا تو انہیں نہیں دیکھتا جو اللہ کی نعمت کو کفر سے بدلتے ہیں اور اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور وہ بڑی بری قرار گاہ ہے ۔
108۔ 1 مسلمانوں (صحابہ (رض) کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم یہودیوں کی طرح اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ازراہ سرکشی غیر ضروری سوالات مت کیا کرو۔ اس میں اندیشہ کفر ہے۔
[١٢٦] اسلام سے متنفر کرنے کا دوسرا طریقہ جو یہود نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ موشگافیاں کر کے طرح طرح کے سوالات مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے اور انہیں کہتے کہ اپنے نبی سے یہ بات بھی پوچھ کر بتاؤ اور وہ بھی اور یہ بھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا کہ یہود کی تو عادت ہی یہ رہی ہے انہوں نے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو مسلسل سوالات اور مطالبے کر کر کے تنگ کردیا تھا۔ اس طرح کی موشگافیاں کافرانہ روش ہے اور یہ کام ایسے لوگ کرتے ہیں جو اطاعت و فرمانبرداری پر آمادہ نہیں ہوتے۔ لہذا تم ایسے لایعنی اور بےمقصد سوالات کرنے سے پرہیز کرو، اور سورة مائدہ میں فرمایا۔ مسلمانو اپنے رسول سے ایسے سوالات مت پوچھا کرو کہ اگر ان کا جواب دیا جائے تو تمہیں برا لگے۔ (٥ : ١٠١) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو بارہا متنبہ فرمایا کہ قیل و قال اور بال کی کھال اتارنے کی وجہ سے پچھلی امتیں تباہ ہوئیں۔ لہذا تم ایسی باتوں سے پرہیز کرو اور جن باتوں کو اللہ اور اس کے رسول نے نہیں چھیڑا ان میں خواہ مخواہ کرید نہ کرو۔
یہاں اگرچہ بیان نہیں ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا سوال کیا گیا، مگر پیچھے گزر چکا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا دیکھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ [ البقرۃ : ٥٥ ] اہل کتاب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ایسی ہی گستاخی کا رویہ اختیار کیا، چناچہ سورة نساء (١٥٣) میں ہے : ” اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے کوئی کتاب اتارے، سو وہ تو موسیٰ سے اس سے بڑی بات کا مطالبہ کرچکے ہیں، چناچہ انھوں نے کہا ہمیں اللہ کو کھلم کھلا دکھلا۔ “ اللہ تعالیٰ نے گستاخی پر مشتمل سوالات کے علاوہ وحی اترنے کے زمانہ میں ایسی چیزوں کے متعلق سوال سے بھی منع فرما دیا جو اگر ظاہر کردی جائیں تو ناگوارہوں۔ دیکھیے سورة مائدہ (١٠١) اور اس کا حاشیہ۔- گستاخانہ سوالات کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کرنا قرار دیا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- (بعض یہود نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عناداً عرض کیا کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) پر ایک ہی دفعہ توراۃ نازل ہوئی اسی طرح آپ قرآن مجموعی طور پر لائیے اس پر ارشاد ہوتا ہے کہ) ہاں کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول (وقت) سے (بیجا بیجا) درخواستیں کرو جیسا کہ اس کے قبل (تمہارے بزرگوں کی طرف سے حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی (ایسی ایسی) درخواستیں کی جا چکی ہیں (مثلا خدا تعالیٰ کو علانیہ دیکھنے کی درخواست کی تھی اور ایسی درخواستیں جن میں صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کرنا اور مصالح الہیہ میں مزاحمت کرنا ہی مقصود ہو اور ایمان لانے کا پھر بھی ارادہ نہ ہو نری کفر کی باتیں ہیں اور) جو شخص ایمان لانے کی بجائے کفر (کی باتیں) کرے بلاشک وہ شخص راہ راست سے دور جاپڑا۔- فائدہ : اس درخواست کو بیجا اس لئے فرمایا کہ ہر فعل میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور مصلحتیں جدا جدا ہوتی ہیں بندے کو اس میں تعیین طریق کا کیا حق ہے کہ وہ کہے کہ یہ بات اس طرح ہو یہ اس طرح ہو اس کا کام تو بس یہ ہونا چاہئے،- زباں تازہ کردن باقرارِ تو نینگیختنٍ علت از کار تو - ترجمہ شیخ الہند میں یہ خطاب مسلمانوں سے قرار دیا ہے اس کا حاصل مسلمانوں کو اس پر تنبیہ کرنا ہوگا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بےجا سوال نہ کیا کریں،
اَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَـمَا سُىِٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ ٠ ۭ وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ١٠٨- أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» «1» وقال بعض الحکماء : کو ننا مصیبین من وجه وکوننا ضَالِّينَ من وجوه كثيرة، فإنّ الاستقامة والصّواب يجري مجری المقرطس من المرمی، وما عداه من الجوانب کلّها ضَلَالٌ.- ولما قلنا روي عن بعض الصالحین أنه رأى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في منامه فقال : يا رسول اللہ يروی لنا أنّك قلت : «شيّبتني سورة هود وأخواتها فما الذي شيّبک منها ؟ فقال : قوله : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» والضَّلَالُ من وجه آخر ضربان : ضَلَالٌ في العلوم النّظريّة، کا لضَّلَالِ في معرفة اللہ ووحدانيّته، ومعرفة النّبوّة، ونحوهما المشار إليهما بقوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 136] . وضَلَالٌ في العلوم العمليّة، کمعرفة الأحكام الشّرعيّة التي هي العبادات، والضَّلَالُ البعیدُ إشارةٌ إلى ما هو کفر کقوله علی ما تقدّم من قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ [ النساء 136] ، وقوله : إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] ، وکقوله : فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ 8] ، أي : في عقوبة الضَّلَالِ البعیدِ ، وعلی ذلک قوله : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک 9] ، قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة 77] ، وقوله : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة 10] ، كناية عن الموت واستحالة البدن . وقوله : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة 7] ، فقد قيل : عني بِالضَّالِّينَ النّصاری «1» . وقوله : فِي كِتابٍ لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه 52] ، أي : لا يَضِلُّ عن ربّي، ولا يَضِلُّ ربّي عنه : أي : لا يغفله، وقوله : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل 2] ، أي : في باطل وإِضْلَالٍ لأنفسهم .- ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ حکماء نے کہا ہے کہ صحت دراستی کی راہ تو صرف ایک ہی ہے مگر گمراہی کے متعدد راستے ہیں کیونکہ استقامت اور صواب کی مثال تیر کے ٹھیک نشانہ پر بیٹھ جانے کی ہے اور صحیح نشانہ کے علاوہ ہر جہت کا نام ضلالت ہے ۔ ہمارے اس قول کی تائید بعض صالحین کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور عرض کی یارسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب کے اس فرمان کے کیا معنی ہیں (12) شیبتنی سورة ھود واخواتھا کہ سورة ہود اور اس کی ہم مثل دوسری سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے ۔ تو آنحضرت نے فرمایا سورة ھود کی جس آیت نے مجھے بوڑھا کردیا : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» «2»ہے یعنی اے پیغمبر ٹھیک اسی طرح سیدھے رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے اعتبار سے ضلالۃ کی دو قسمیں ہیں (1) علوم نظریہ تو حید و نبوات وغیرہما کی معرفت میں غلطی کرنا چناچہ آیت کریمہ : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 136 اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور روز قیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دور جاپڑا ۔ میں اس قسم کی گمراہی کو ضلالا بعیدا کہا گیا ہے ۔ (2) علوم عملیہ میں ضلالۃ ہے جس کے معنی ہیں احکام شرعیہ یعنی عبادات ( اور معاملات ) کی معرفت میں غلطی کرنا اور آیت مذکورہ میں ضلالا بعید اسے اس کے کفر ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت کے ابتداء ومن یکفر اور آیت :إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] جن لوگوں نے کفر کیا اور دوسروں کو خدا کے رستے سے روکا وہ رستے سے بھٹک کر دور جا پڑے سے معلوم ہوتا ہے ۔ اور آیت فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ 8] میں بھی معنی مراد ہیں اور فی کے معنی یہ ہیں کہ اس گمراہی کی سزا میں گرفتارہوں گے اور یہی معنی آیت : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک 9] میں مراد ہیں ۔ نیز فرمایا : قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة 77] جو ( خود بھی ) پہلے گمراہ ہوئے اور بھی اکثروں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بھٹک کئے ۔ اور آیت کریمہ : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة 10] کے معنی یہ ہیں ک جب مرنے کے بعد مٹی میں مل کر ضائع ہوجائیں گے اور آیت : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة 7] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اس سے نصارٰی مراد ہیں ۔ اور آیت لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه 52] کے معنی ہیں : ہیں یعنی میرے پروردگار کو کوئی چیز غافل نہیں کرتی اور آیت : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل 2] کیا ان کی تدبیر کو ضائع نہیں کیا ( گیا) میں فی تضلیل کے معنی ضائع کردینا اور غلط راہ لگا دینا کے ہیں ۔- سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔
(١٠٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) سے بنی اسرائیل نے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار اور اس سے کلام کرنے وغیرہ کے سوالات کے، تم بھی اسی قسم کا خیال رکھتے ہو جو شخص ایمان چھوڑ کر کفر اختیار کرتا ہے تو اس نے ہدایت کے راستہ کو ترک کردیا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ام تریدون (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید (رح) اور عکرمہ (رض) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رافع بن حرملہ نے اور وہب بن زید نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گزارش کی کہ ہمارے پاس ایسی کتاب لائیے جو ہم پر آسمان سے نازل ہو جسے ہم خود پڑھتے ہیں، یا ہمارے لیے نہریں جاری کردیجئے تاکہ ہم آپ کی پیروی کریں اور آپ کی تصدیق کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ام تریدون “۔ سے۔” سواء السبیل “۔ تک آیت نازل فرمائی اور حی بن اخطب اور ابویاسر بن اخطب یہودیوں میں سے سب سے زیادہ حاسد تھے اور یہ دونوں اپنی پوری جدوجہد اور کوشش کے ساتھ لوگوں کو اسلام سے منع کرنے میں لگے ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بارے میں (آیت) ” ودکثیر من اھل الکتاب “۔ اس آیت کو نازل فرمایا۔- اور ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ان کے لیے ” کوہ صفا “ کو سونے کا بنادیا جائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اچھا مگر وہ تمہارے حق میں اگر تم کفر کرو گے ایسا ہوگا جیسا کہ بنی اسرائیل کے لیے دسترخوان۔ چناچہ انہوں نے نہ مانا اور اپنے قول سے رجوع نہ کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ”۔ ام تریدون (الخ) نازل فرمائی۔- اور سدی (رح) سے روایت کیا گیا ہے کہ عرب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کو لے آئیں تاکہ ہم خود بغیر کسی پردے کے اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور ابوالعالیہ (رح) نے روایت کی ہے ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاش ہمارے کفارات بھی بنی اسرائیل کے کفارات کے طریقہ پر ہوتے، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز تمہیں عطا کی ہے وہ زیادہ اچھی ہے، بنی اسرائیل میں سے جب کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا تھا تو اپنے دروازے پر اس گناہ اور اس کے کفارہ کو لکھا ہوا پاتا تھا اگر وہ شخص کفارہ ادا کردیتا تھا تو صرف دنیا ہی میں رسوائی ہوتی تھی اور اگر کفارہ ادا نہ کرتا تو آخرت میں اس کی رسوائی کا باعث ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے اچھی چیز عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (آیت) ” ومن یعمل سوء او یظلم نفسہ “۔ (یعنی جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے گا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں) اور پانچوں نمازیں اور ایک دوسرے جمعہ تک درمیانی گناہوں کے کفارات ہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ام تریدون (الخ)
آیت ١٠٨ (اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْءَلُوْا رَسُوْلَکُمْ کَمَا سُءِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ط) - مثلاً ان سے کہا گیا کہ ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک کہ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں۔ اسی طرح کے اور بہت سے مطالبے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیے جاتے تھے۔ یہاں مسلمانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اس روش سے باز رہو ‘ ایسی بات تمہارے اندر پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ - (وَمَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بالْاِِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآء السَّبِیْلِ )- ظاہر ہے کہ جو منافقین اہل ایمان کی صفوں میں شامل تھے وہی ایسی حرکتیں کر رہے ہوں گے۔ اس لیے فرمایا کہ جو کوئی ایمان کو ہاتھ سے دے کر کفر کو اختیار کرلے گا وہ تو راہ راست سے بھٹک گیا۔ منافق کا معاملہ دو طرفہ ہوتا ہے ‘ چناچہ قرآن حکیم میں منافقین کے لیے مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ کے الفاظ آئے ہیں۔ اب اس کا بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ کفر کی طرف یکسو ہوجائے اور اس کا بھی امکان ہوتا ہے کہ بالآخر ایمان کی طرف یکسو ہوجائے۔ جو شخص ایمان اور کفر کے درمیان معلقّ ہے اس کے لیے یہ دونوں امکانات ہیں۔ جو کفر کی طرف جا کر مستقل طور پر ادھر راغب ہوگیا یہاں اس کا ذکر ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :110 یہُودی موشگافیاں کر کر کے طرح طرح کے سوالات مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے تھے اور انہیں اکساتے تھے کہ اپنے نبی سے یہ پوچھو اور یہ پوچھو اور یہ پوچھو ۔ اس پر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ اس معاملے میں یہُودیوں کی روش اختیار کرنے سے بچو ۔ اسی چیز پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی مسلمانوں کو بار بار متنبہ فرمایا کرتے تھے کہ قیل و قال سے اور بال کی کھال نکالنے سے پچھلی اُمّتیں تباہ ہو چکی ہیں ، تم اس سے پرہیز کرو ۔ جن سوالات کو اللہ اور اس کے رسُول نے نہیں چھیڑا ، ان کی کھوج میں نہ لگو ۔ بس جو حکم تمہیں دیا جاتا ہے اس کی پیروی کرو اور جن امور سے منع کیا جاتا ہے ، ان سے رُک جاؤ ، دُور ازکار باتیں چھوڑ کر کام کی باتوں پر توجہ صرف کرو ۔
72: یہ خطاب یہودیوں کو بھی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے بجائے طرح طرح کے مطالبے پیش کرتے تھے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی یہ سبق دیاجارہا ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے باوجود یہودی ان سے نامعقول اور غیر ضروری سوالات اور مطالبے کرتے رہے، تم ایسا نہ کرنا۔