قومی عصبیت باعث شقاوت ہے ابن عباس سے مروی ہے کہ حی بن اخطب اور ابو یاسر بن اخطب یہ دونوں یہودی سب سے زیادہ مسلمانوں کے حاسد تھے لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے اور عربوں سے جلتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کعب بن اشرف کا بھی یہی شغل تھا زہری کہتے ہیں اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ بھی یہودی تھا اور اپنے شعروں میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا گو ان کی کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق موجود تھی اور یہ بخوبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں جانتے تھے اور آپ کو اچھی طرح پہچانتے تھے پھر یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ قرآن ان کی کتاب کی تصدیق کر رہا ہے ایک امی اور ان پڑھ وہ کتاب پڑھتا ہے جو سراسر معجزہ ہے لیکن صرف حسد کی بنا پر کہ یہ عرب میں آپ کیوں مبعوث ہوئے کفر و افکار پر آمداہ ہو گئے بلکہ اور لوگوں کو بھی بہکانا شروع کر دیا پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ تم درگزر کرتے رہو اور اللہ کے حکم کا اور اس کے فیصلے کا انتظار کرو ۔ جیسے اور جگہ فرمایا تمہیں مشرکوں اور اہل کتاب سے بہت کڑوی باتیں سننی پڑیں گی مگر بعد میں حکم نازل فرما دیا کہ ان مشرکین سے اب دب کر نہ رہو ان سے لڑائی کرنے کی تمہیں اجازت ہے حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ حضور اور آپ کے اصحاب مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کرتے تھے اور ان کی ایذاء اور تکلیف سہتے تھی اور اس آیت پر عمل پیرا تھے یہاں تک کہ دوسری آیتیں اتریں اور یہ حکم ہٹ گیا اب ان سے بدلہ لینے اور اپنا بچاؤ کرنے کا حکم ملا اور پہلی ہی لڑائی جو بدر کے میدان میں ہوئی اس میں کفار کو شکست فاش ہوئی اور ان کے بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں میدان میں بچھ گئیں پھر مومنوں کو رغبت دلائی جاتی ہے کہ تم نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کی حفاظت کرو یہ تمہیں آخرت کے عذابوں سے بچانے کے علاوہ دنیا میں بھی غلبہ اور نصرت دے گی پھر فرمایا کہ اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہر نیک و بدعمل کا بدلہ دونوں جہاں میں دے گا اس سے کوئی چھوٹا ، بڑا ، چھپا ، کھلا ، اچھا ، برا ، عمل پوشیدہ نہیں یہ اس لئے فرمایا کہ لوگ اطاعت کی طرف توجہ دیں اور نافرمانی سے بچیں مبصر کے بدلے بصیر کہا جیسے مبدع کے بدلے بدیع اور مولم کے بدلے الیم ۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت میں سمیع بصیر پڑھتے تھے اور فرماتے تھے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھتا ہے ۔
[١٢٧] یہود کے حسد اور عناد کی وجہ تو اوپر مذکور ہوچکی۔ اس لیے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مختلف طریقوں اور حیلوں بہانوں سے اسلام سے برگشتہ کر کے مسلمانوں کی قوت کو کمزور تر کردیں۔ لہذا اے مسلمانو تم ان کے اندرونی عناد اور بغض کی حقیقت کو خوب سمجھ لو اور ان کا ردعمل دیکھ کر مشتعل نہ ہوجاؤ، نہ ان سے بحث و مناظرہ میں الجھو اور نہ اپنا وقت ضائع کرو بلکہ انہیں درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دو ، اور صبر کے ساتھ دیکھتے رہو کہ اللہ ان کے حق میں کیا فیصلہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو پوری سزا دے کے رہے گا۔ کیونکہ وہ ہر بات اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔- [ ١٢٨] اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہوا کہ ان کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ پھر ان میں سے کچھ (بنو نضیر) تو نہایت ذلت کے ساتھ جلاوطن کئے گئے اور بعد میں جزیہ دینے پر مجبور ہوئے اور بعض دوسرے (بنو قریظہ) قید ہوئے اور پھر قتل کردیئے گئے اور ان کی عورتیں اور بچے لونڈی و غلام بنا لیے گئے۔
(كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰب) میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے اہل کتاب شامل ہیں اور بعد میں آنے والے تمام زمانوں کے یہود و نصاریٰ بھی، جیسا کہ ہمارے دور میں ان کی طرف سے علم و تحقیق کے نام پر اسلام کے عقائد و احکام کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا ہے اور ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ مسلمان اگر یہودی یا نصرانی نہ بنیں تو کم از کم اپنے دین سے ضرور بدگمان ہوجائیں۔ - (حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ ) حق کو پہچاننے کے باوجود ان کی یہ خواہش محض حسد کی وجہ سے ہے اور حسد بھی کسی دینی جذبے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کے دلوں کے بغض و عناد کی وجہ سے ہے۔ اس سے حسد کی قباحت ظاہر ہوئی کہ خود بھی ایمان سے محروم رہے اور دوسروں کے پاس یہ نعمت دیکھنا بھی برداشت نہیں۔ ابلیس کا سجدے سے انکار، قابیل کا اپنے بھائی کو قتل کرنا، برادران یوسف کا اپنے بھائی پر ظلم اور اہل کتاب کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننے کے باوجود انکار اور دشمنی کا باعث یہی حسد تھا۔ - (فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا) یعنی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ لڑائی کا حکم نہ آجائے اس وقت تک عفو و درگزر سے کام لو، ان کے اوچھے حملوں اور حسد و بغض کی وجہ سے بےقابو نہ ہونا۔ پھر لڑائی کا حکم آنے پر بنو نضیر اور بنو قینقاع کو جلا وطن ہونا پڑا اور بنو قریظہ قتل ہوئے۔
خلاصہ تفسیر :- (بعض یہود شب وروز مختلف تدبیروں سے دوستی اور خیر خواہی کے پیرایہ میں مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے کی کوشش کیا کرتے تھے اور باوجود ناکامی کے اپنی دھن سے باز نہ آتے تھے حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس پر متبنہ فرما دیا کہ) ان اہل کتاب (یعنی یہود) میں بہتیرے دل سے یہ چاہتے ہیں کہ تم کو تمہارے ایمان لائے پیچھے پھر کافر کر ڈالیں (اور یہ چاہنا کچھ خیر خواہی سے نہیں جیسا کہ وہ اظہار کرتے ہیں بلکہ) محض حسد کی وجہ سے جو کہ (تمہاری جانب سے کسی امر کے سبب پیدا نہیں ہوا بلکہ) خود ان کے دلوں ہی سے (جوش مارتا) ہے (اور یہ بھی نہیں کہ ان کو حق واضح نہ ہوا بلکہ) حق واضح ہوئے پیچھے (یہ حالت ہے اب اس پر مسلمانوں کو ان پر غصہ آنے کا محل تھا اس لئے ارشاد ہوتا ہے کہ) خیر (اب تو) معاف کرو اور درگذر کرو جب تک اللہ تعالیٰ ( اس معاملہ کے متعلق) اپنا حکم (قانون جدید) بھجیں (اشارۃ بتلا دیا کہ ان کی شرارتوں کا علاج قانون انتظام امن عام یعنی قتال وجزیہ سے ہم جلد کرنے والے ہیں اس پر مسلمانوں کو اپنا ضعف اور ان کی قوت دیکھ کر اس قانون کے اجراء کے متعلق تعجب ہوسکتا تھا اس پر ارشاد ہوتا ہے کہ تم تعجب کیوں کرتے ہو) اللہ تعالیٰ ہر چیز پر (خواہ وہ معمولی ہو خواہ عجیب ہو) قادر ہیں اور (سردست صرف) نمازیں پابندی سے پڑھے جاؤ اور (جن پر زکوٰۃ فرض ہے) زکوٰۃ دئیے جاؤ ( اور جب قانون آجائے گا ان اعمال صالحہ کے ساتھ اس کا بھی اضافہ کرلینا) اور یہ نہ سمجھو کہ جب تک جہاد کا حکم نہ آوے صرف نماز روزہ سے کچھ ثواب میں کمی رہے گی نہیں بلکہ جو نیک کام بھی اپنی بھلائی کے واسطے جمع کرتے رہو گے حق تعالیٰ کے پاس (پہنچ کر) اس کو (پورا پورا مع صلہ کے) پالو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب کئے ہوئے کاموں کی دیکھ بھال کررہے ہیں (ان میں ایک ذرہ بھی ضائع نہ ہونے پائے گا) - فائدہ : اس وقت کی حالت کا یہی مقتضا تھا پھر حق تعالیٰ نے اس وعدے کو پورا فرمایا اور جہاد کی آیات نازل ہوئیں جس کے بعد یہود کے ساتھ بھی وہ قانون برتا گیا اور ناشائستہ لوگوں کے ساتھ حسب حیثیت ان کے فساد کے بدلے قتل یا جلا وطنی یا جزیہ پر عملدرآمد کیا گیا،
وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا ٠ ۚۖ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ٠ ۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٠٩- ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- حسد - الحسد : تمنّي زوال نعمة من مستحق لها، وربما کان مع ذلک سعي في إزالتها، وروي :- «المؤمن يغبط والمنافق يحسد» وقال تعالی: حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ [ البقرة 109] ، وَمِنْ شَرِّ حاسِدٍ إِذا حَسَدَ [ الفلق 5] .- ( ح س د ) الحسد ( ن ) کسی مستحق نعمت سے اس نعمت سے اس نعمت کے زائل ہونے کی تمنا کرنے کا نام حسد ہے بسا اوقات اس میں اسی مقصد کے لئے کوشش کرنا بھی شامل ہوتا ہے ایک روایت میں ہے : ۔ کہ مومن رشک کرتا ہے اور منافق حسد کرتا ہے قرآن میں ہے : ۔ حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ [ البقرة 109] اپنے دل کی جلن سے ۔ وَمِنْ شَرِّ حاسِدٍ إِذا حَسَدَ [ الفلق 5] اور حسد کرنے والے کی برانی سے جب حسد کرنے لگے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- مبین بَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- عفو - العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر : أخذ البلی أبلادها وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر :- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره .- ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجر نباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔- صفح - صَفْحُ الشیءِ : عرضه وجانبه، كَصَفْحَةِ الوجهِ ، وصَفْحَةِ السّيفِ ، وصَفْحَةِ الحَجَرِ.- والصَّفْحُ : تركُ التّثریب، وهو أبلغ من العفو، ولذلک قال : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة 109] ، وقد يعفو الإنسان ولا يَصْفَحُ. قال : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] ، فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر 85] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] ، وصَفَحْتُ عنه : أولیته مني صَفْحَةٍ جمیلةٍ معرضا عن ذنبه، أو لقیت صَفْحَتَهُ متجافیا عنه، أو تجاوزت الصَّفْحَةَ التي أثبتّ فيها ذنبه من الکتاب إلى غيرها، من قولک : تَصَفَّحْتُ الکتابَ ، وقوله : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر 85] ، فأمر له عليه السلام أن يخفّف کفر من کفر کما قال : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل 127] ، والمُصَافَحَةُ : الإفضاء بِصَفْحَةِ الیدِ.- ( ص ف ح ) صفح - ۔ کے معنی ہر چیز کا چوڑا پہلو یا جانب کے مثلا صفحۃ السیف ( تلوار کا چوڑا پہلو ) صفحتہ الحجر ( پتھر کی چوڑی جانب وغیرہ ۔ الصفح ۔ ( مصدر ) کے معنی ترک ملامت اور عفو کے ہیں مگر یہ عفو سے زیادہ بلیغ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة 109] تو تم معاف کرو داور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے ۔ میں عفو کے بعد صفح کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان عفو یعنی درگزر تو کرلیتا ہے لیکن صفح سے کا م نہیں لیتا یعنی کسی سے اس قدر درگزر کرنا کہ اسے مجرم ہی نہ گروانا جائزنیز فرمایا : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] اس لئے درگذر کرو اور اسلام کہہ دو ۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر 85] تو تم ان سے اچھی طرح درگزر کرو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ صفحت عنہ (1) میں نے اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے صفح جمیل کا والی بنایا یعنی اسکے جرم سے کلیۃ اعراض برتا (2) اس سے دور ہوتے ہوئے ایک جانب سے ملا (3) میں نے کتاب کے اس صفحہ سے تجاوز کیا جس میں اس کا جرم لکھ رکھا تھا ۔ اس صورت میں یہ تصفحت الکتاب سے ماخوذ ہوگا ۔ جس کے معنی کتاب کے صفحات کو الٹ پلٹ کردیکھنے کے ہیں قرآن میں ہے : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر 85] اور قیامت توضرور آکر رہے گی لہذا تم ( ان سے ) ا چھی طرح سے درگذر کرو ۔ اس آیت میں آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل 127] اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ بد اندیش کر رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو ۔ المصافحۃ مصافحہ کرنا ۔ ہاتھ ملانا ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
قول باری ہے : فاغفوا واصفحوا حتی یاتی اللہ بامرہ (تم عفو و درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے) معمر نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ یہ آیت قول باری : اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم (مشرکین کو قتل کر ڈالو جہاں بھی انہیں پائو) کی بنا پر منسوخ ہوگئی ہے۔ ابو محمد جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، ان سے ابوالفضل جعفر بن محمد بن الیمان نے کہ ابو عبید کے سامنے یہ روایت پڑھی گئی اور میں اسے سن رہا تھا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یہ روایت عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے قول باری : لست علیھم بمصیطر (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر داروغہ نہیں ہیں) نیز : وما انت علیھم بجبار (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں) نیز : فاعرض عنھم واصفح (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے منہ پھیر لیجیے اور درگزر کیجیے) نیز : قل للذین امنوا یغفروا للذین لایرجون ایام اللہ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہہ دیجیے جو ایمان لائے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں عفو سے کام لیں جو ایام اللہ کی امید نہیں رکھتے) کی تفسیر میں نقل کی ہے کہ مذکورہ بالا تمام آیات کو قول باری : فاقتلوا لمشرکین حیث وجدتموھم نیز قول باری : فاقتلوا الذین لایومنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یحرمون ما حرم اللہ و رسولہ (جنگ کرو ان لوگوں کے ساتھ جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی یوم آخر پر اور نہ ہی ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے) تا آخر آیت نے منسوخ کردیا ہے : اسی طرح یہ قول باری : فاعرض عمن لولی عن ذکرنا ولم یرد الا الحیوۃ الدنیا (ان لوگوں سے منہ پھیر لیجیے جو ہمارے ذکر سے روگردانی کریں اور دنیاوی زندگی کے سوا کچھ نہ چاہیں) نیز : ادفع بالتیھی احسن فاد الذین بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم (آپ نیکی سے بدی کو ٹال دیا کیجیے تو پھر یہ ہوگا کہ جس شخص میں اور آپ میں عداوت ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے) نیز : واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاماً (اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو یہ کہتے ہیں ” سلام ہے۔ “)- یہ تمام آیتیں قتال کی فرضیت کے لزوم سے پہلے نازل ہوئی تھیں اور یہ بات ہجرت سے پہلے تھی۔ ان آیات کا مقصد یہ تھا کہ کفار و مشرکین کو دلائل دے کر نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات میں غور و فکر پر آمادہ کر کے اور یہ بتا کر کہ ان جیسے امور انبیاء کے سوا کسی اور کے ہاتھوں ظہور پذیر نہیں ہوتے، اسلام کی طرف بلایا جائے۔ اسی سلسلے میں ذیل کی آیات قرآنی ہیں : قل انما اعظکم بواحدۃ ان تقوموا للہ مثنیٰ و فرادیٰ ثم تتفکرواما بصاحبکم من جنۃ (کہہ دیجیے کہ میں تم کو ایک بات سمجھاتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے ایک ایک، دوددو ہو کر کھڑے ہو جائو پھر سوچو کہ تمہارے ساتھی کو جنون تو نہیں ہے) نیز : قال اولو جئتکم باھدی مما وجدتم علیہ اباء کم (اس پر ان کے پیغمبر نے کہا کہ اور اگر میں اس سے بہتر طریقہ منزل پر پہنچا دینے کے اعتبار سے لایا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے) نیز : اولم تاتھم بینۃ ما فی الصحف الاولیٰ (کیا ان کے پاس اس کا ظہور نہیں پہنچا جو کچھ اگلے صحیفوں میں ہے) نیز : افلا تعقلون (کیا تم نہیں سمجھتے ؟ ) نیز : فانی توفکون (تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے) نیز : فانی تصرفون (تمہیں کہاں پھیرا جا رہا ہے) اور اسی طرح کی دیگر آیتیں جن میں لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے معاملے پر نیز آپ پر اللہ کی طر ف سے ظاہر کئے جانے والے ان دلائل پر غور و فکر کریں جو آپ کی سچائی نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا پتہ دیتے ہیں۔- پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے مخالفین اسلام کے ساتھ قتال کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس وقت تک دلائل کے ذریعے بات واضح کرنے اور معجزات و آیات کے ذریعے شہری اور دیہاتی، قریب و دور ہر شخص کے ذہن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی حقیقت بٹھا دینے کا مرحلہ مکمل ہوچکا تھا اور مخالفین نے اپنی آنکھوں سے اور ناقابل تردید ذرائع سے ان تمام باتوں کا مشاہدہ کرلیا تھا۔ ہم جب ان آیات پر پہنچیں گے جو قتال کے وجوب پر مشتمل ہیں تو وہاں قتال کی فرضیت کے سلسلے میں انشاء اللہ مزید گفتگو کریں گے۔
(١٠٩) کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی اور فخاص بن عاز داء اور اس کی جماعت، اے عمار اور حذیفہ اور اے معاذ بن جبل حسد وبغض میں یہ تمنا و خواہش کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لانے کے بعد کافر ہو کر (عیاذ باللہ) پھر ان کے دین پر لوٹ جاؤ، اس کے باوجود کہ ان کی کتابوں میں یہ بات آچکی تھی ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کا دین اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف وصفتیں یہ سب درست ہیں، لہذا ان باتوں کو چھوڑو اور ان سے احتراز کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ” بنی قریظہ “ اور ” بنی نضیر “ پر قتل و غارت گری، قید اور جلاوطنی کا اپنا عذاب نہ نازل فرما دے اور اللہ تعالیٰ قتل وجلاوطنی کا اپنا عذاب نہ نازل فرما دے اور اللہ تعالیٰ قتل وجلاوطنی سب پر قدرت رکھنے والا ہے۔
آیت ١٠٩ (وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْم بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ج) - یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی بلیّ کی دم کٹ جائے تو وہ یہ چاہے گی کہ ساری بلیوں کی دمیں کٹ جائیں تاکہ وہ علیحدہ سے نمایاں نہ رہے۔ چناچہ اہل کتاب یہ چاہتے تھے کہ اہل ایمان کو بھی واپس کفر میں لے آیا جائے۔- (حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ ) - ان کا یہ طرز عمل ان کے حسد کی وجہ سے ہے کہ یہ نعمت مسلمانوں کو کیوں دے دی گئی ؟- (مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ج) - وہ حق کو جان چکے ہیں اور پہچان چکے ہیں ‘ کسی مغالطے یا غلط فہمی میں نہیں ہیں۔- (فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا) - یہ بہت اہم مقام ہے۔ مسلمانوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ ابھی تو مدنی دور کا آغاز ہو رہا ہے ‘ ابھی کشمکش ‘ کشاکش اور مقابلہ و تصادم کے بڑے سخت مراحل آ رہے ہیں۔ چونکہ تمہارا سب سے پہلا محاذ کفار مکہ کے خلاف ہے اور وہی سب سے بڑھ کر تم پر حملے کریں گے اور ان سے تمہاری جنگیں ہوں گی ‘ لہٰذا یہ جو آستین کے سانپ ہیں ‘ یعنی یہود ‘ ان کو ابھی مت چھیڑو۔ جب تک یہ خوابیدہ ( ) پڑے رہیں انہیں پڑا رہنے دو ۔ فی الحال ان کے طرز عمل کے بارے میں زیادہ توجہ نہ دو ‘ بلکہ عفو و درگزر اور چشم پوشی سے کام لیتے رہو۔ - (حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط) - ایک وقت آئے گا جب اے مسلمانو تمہیں آخری غلبہ حاصل ہوجائے گا اور جب تم باہر کے دشمنوں سے نمٹ لو گے تو پھر ان اندرونی دشمنوں کے خلاف بھی تمہیں آزادی دی جائے گی کہ ان کو بھی کیفر کردار تک پہنچادو۔ - (اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ )
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :111 یعنی ان کے عناد اور حسد کو دیکھ کر مشتعل نہ ہو ، اپنا توازن نہ کھو بیٹھو ، ان سے بحثیں اور مناظرے کرنے اور جھگڑنے میں اپنے قیمتی وقت اور اپنے وقار کو ضائع نہ کرو ، صبر کے ساتھ دیکھتے رہو کہ اللہ کیا کرتا ہے ۔ فضولیات میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے خدا کے ذکر اور بھلائی کے کاموں میں انہیں صرف کرو کہ یہ خدا کے ہاں کام آنے والی چیز ہے نہ کہ وہ ۔