کعبہ صرف علامت وحدت و سمت ہے اللہ کا جمال و جلال غیر محدود ہے اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ان اصحاب کو تسلی دی جاری ہے جو مکہ سے نکالے گئے اور اپنی مسجد سے روکے گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھتے تو کعبتہ اللہ بھی سامنے ہی ہوتا تھا جب مدینہ تشریف لائے تو سولہ سترہ ماہ تک تو ادھر ہی نماز پڑھتے رہے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے کعبتہ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دیا امام ابو عبیدہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب ناسخ منسوخ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے روایت کی ہے کہ قرآن میں سب سے پہلا منسوخ حکم یہی قبلہ کا حکم ہے للہ المشرق والی آیت نازل ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے لگے پھر آیت ( وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) 2 ۔ البقرۃ:149 ) نازل ہوئی اور آپ نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنی شروع کی ، مدینہ میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے تو یہود بہت خوش ہوئے لیکن جب یہ حکم چند ماہ کے بعد منسوخ ہوا اور آپ کو اپنی چاہت ، دعا اور انتظار کے مطابق کعبتہ اللہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا تو ان یہودیوں نے طعنے دینے شروع کر دیئے کہ اب اس قبلہ سے کیوں ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر یہ اعتراض کیا ؟ جدھر اس کا حکم ہو پھر جانا چاہئے حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ مشرق مغرب میں جہاں کہیں بھی ہو منہ کعبہ کی طرف کرو ، بعض بزرگوں کا بیان ہے کہ یہ آیت کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کے حکم سے پہلے اتری ہے اور مطلب یہ ہے کہ مشرق مغرب جدھر چاہو منہ پھیرو سب جہتیں اللہ کی ہیں اور سب طرف اللہ موجود ہے اس سے کوئی جگہ خالی نہیں جیسے فرمایا آیت ( وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ) 58 ۔ المجادلہ:7 ) تھوڑے بہت جو بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہے پھر یہ حکم منسوخ ہو کر کعبتہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا فرض ہوا ۔ اس قول میں جو یہ لفظ ہیں کہ اللہ سے کوئی جگہ خالی نہیں اگر اس سے مراد علم اللہ ہو تو صحیح ہے کوئی مکان اللہ کے علم سے خالی نہیں اور اگر ذات باری مراد ہو تو ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی پاک ذات اس سے بہت بلند و بالا ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز میں محصور ہو ایک مطلب آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت سفر اور رہ روی اور خوف کے وقت کے لئے ہے کہ ان وقتوں میں نفل نماز کو جس طرف منہ ہو ادا کر لیا کرو ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی اونٹنی کا منہ جس طرح ہوتا تھا نماز پڑھ لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا اور اس آیت کا مطلب بھی یہی ہے آیت کا ذکر کئے بغیر یہ حدیث مسلم ترمذی نسائی ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں مروی ہے اور اصل اس کی صحیح بخاری صحیح مسلم میں بھی موجود ہے صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ابن عمر سے جب نماز خوف کے بارے میں پوچھا جاتا تو نماز خوف کو بیان فرماتے اور کہتے کہ جب اس سے بھی زیادہ خوف ہو تو پیدل اور سوار کھڑے پڑھ لیا کرو منہ خواہ قبلہ کی جانب ہو خواہ نہ ہو حضرت نافع کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر میرے خیال سے اسے مرفوع بیان کرتے تھے ۔ امام شافعی کا مشہور فرمان اور امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ سفر خواہ پر امن ہو خواہ خوف ڈر اور لڑائی کا ہو سواری پر نفل ادا کر لینے جائز ہیں امام مالک اور آپ کی جماعت اس کے خلاف ہے ۔ امام ابو یوسف اور ابو عسید اصطخری بغیر سفر کے بھی اسے جائز کہتے ہیں حضرت انس سے بھی یہ روایت ہے امام ابو جعفر طبری بھی اسے پسند فرماتے ہیں یہاں تک کہ وہ تو پیدل چلنے والے کو بھی رخصت دیتے ہیں بعض اور مفسرین کے نزدیک یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں قبلہ معلوم نہ ہو سکا اور انہوں نے قیاس سے مختلف جہتوں کی طرف نماز پڑھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کی وہ نماز ادا شدہ بتائی گئی حضرت ربیعہ فرماتے ہیں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ایک منزل پر اترے رات اندھیری تھی لوگوں نے پتھر لے لے کر بطور نشان کے قبلہ رخ رکھ کر نماز پڑھنی شروع کر دی صبح اٹھ کر روشنی میں دیکھا تو نماز قبلہ کی طرف ادا نہیں ہوئی تھی ، ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، یہ حدیث ترمذی شریف میں ہے امام صاحب نے اسے حسن کہا ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ اس وقت گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ہم نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے سامنے خط کھینچ دیئے تھے تاکہ صبح روشنی میں معلوم ہو جائے کہ نماز قبلہ کی طرف ادا ہوئی یا نہیں؟ صبح معلوم ہوا کہ قبلہ جاننے میں ہم نے غلطی کی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا اور یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کے بھی دو راوی ضعیف ہیں یہ روایت دار قطنی وغیرہ میں موجود ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ تھے یہ بھی سنداً ضعیف ہے ایسی نماز کے لوٹانے کے بارے میں علماء کے دو قول میں سے ٹھیک قول یہی ہے کہ دوہرائی نہ جائے اور اسی قول کی تائید کرنے والی یہ حدیثیں ہیں جو اوپر بیان ہوئیں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے نازل ہونے کا باعث نجاشی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی خبر دی اور کہا ان کے جنازہ کی غائبانہ نماز پڑھو تو بعض نے کہا کہ وہ تو مسلمان نہ تھا نصرانی تھا اس پر آیت نازل ہوئی کہ آیت ( وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا ) 4 ۔ النسآء:159 ) یعنی بعض اہل کتاب اللہ تعالیٰ پر اور اس چیز پر جو اے مسلمانو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس چیز پر جو ان پر نازل کی گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ قبلہ کی طرف تو نماز نہیں پڑھتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ روایت غریب ہے واللہ اعلم ۔ اس کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ بیت المقدس کی طرف اس لئے نمازیں پڑھتے رہے کہ انہیں اس کے منسوخ ہو جانے کا علم نہیں ہوا تھا ، قرطبی فرماتے ہیں ان کے جنازے کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی اور یہ دلیل ہے کہ جنازے کی نماز غائبانہ ادا کرنی چاہئے اور اس کے نہ ماننے والے اس حکم کو مخصوص جانتے ہیں اور اس کی تین تاویلیں کرتے ہیں ایک تو یہ کہ آپ نے اس کے جنازے کو دیکھ لیا زمین آپ کے لئے سمیٹ لی گئی تھی ، دوسری یہ کہ چونکہ وہاں ان کے پاس ان کے جنازہ کی نماز پڑھنے والا اور کوئی نہ تھا اس لئے آپ نے یہاں غائبانہ ادا کی ابن عربی اسی جواب کو پسند کرتے ہیں قرطبی کہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ ایک بادشاہ مسلمان ہو اور اس کی قوم کا کوئی شخص اس کے پاس مسلمان نہ ہو ، ابن عربی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ شاید ان کے نزدیک جنازے کی نماز ان کی شریعت میں نہ ہو ، یہ جواب بہت اچھا ہے ، تیسری یہ کہ نماز آپ نے اس لئے ادا کی کہ دوسرے لوگوں کی رغبت کا سبب ہو اور اس جیسے دوسرے بادشاہ بھی دین اسلام کی طرف مائل ہوں ( لیکن یہ تینوں تاویلیں ظاہر کے خلاف ہونے کے علاوہ صرف احتمالات کی بنا پر ہیں اور انہیں مان لینے کے بعد بھی مسئلہ وہیں رہتا ہے کیا جنازہ غائبانہ پڑھنا چاہئے کیونکہ گو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنازے کا مشاہدہ کر لیا لیکن صحابہ کی نماز تو غائبانہ ہی رہی ۔ اگر ہم دوسرا جواب مان لیں تو بھی جنازہ تو غائبانہ نہ ہی ہوا جو لوگ سرے سے نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہی نہیں وہ تو اس صورت میں بھی قائل نہیں ہیں اور یہ بات تو دل کو لگتی ہی نہیں کہ ان کے نزدیک نماز جنازہ شروع نہ ہو شریعت ان کی بھی اسلام ہی تھی نہ کہ کوئی اور تیسرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے اور برتقدیر تسلیم اب بھی وہ وجہ باقی ہے کہ جنازہ غائبانہ ادا کیا کریں تاکہ دوسرے لوگوں کی رغبت اسلام کا باعث ہو واللہ اعلم ۔ مترجم ) ابن مردویہ میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اہل مدینہ اہل شام اہل عراق کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہے یہ روایت ترمذی میں بھی دوسرے الفاظ سے مروی ہے اور اس کے ایک راوی ابو معشر کے حافظہ پر بعض اہل علم نے کلام کیا ہے امام ترمذی نے اسے ایک اور سند سے بھی وارد کیا ہے اور اسے حسن صحیح کہا ہے حضرت عمر بن خطاب علی ابن ابو طالب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عمر فرماتے ہیں جب تو مغرب کو اپنی دائیں جانب اور مشرق کو بائیں جانب کر لے تو تیرے سامنے کی جہت قبلہ ہو جائے گا حضرت عمر سے بھی اوپر کی طرح حدیث مروی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ملاحظہ ہو دار قطنی بیہقی وغیرہ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب بھی اس آیت کا ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگنے میں اپنا منہ جس طرف بھی کرو میرا منہ بھی اسی طرف پاؤ گے اور میں تمہاری دعاؤں کو قبول فرماؤں گا ، حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ جب یہ آیت ( ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ) 40 ۔ غافر:60 ) مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اتری تو لوگوں نے کہا کس طرف رخ کر کے دعا کریں اس کے جواب میں آیت ( فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ) 2 ۔ البقرۃ:115 ) نازل ہوئی پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام وسعتوں پر غالب ، گنجائش والا اور علم والا ہے جس کی کفایت سخاوت اور فضل و کرم نے تمام مخلوق کا احاطہ کر کھا ہے وہ سب چیزوں کو جانتا بھی ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں بلکہ وہ تمام چیزوں کا عالم ہے ۔
115۔ ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں، بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو، نماز پڑھ سکتے ہو۔ کبھی چند اسباب جمع ہوجاتے ہیں اور ان سب کے حکم کے لئے ایک ہی آیت نازل ہوجاتی ہے۔ ایسی آیتوں کی شان نزول میں متعدد روایات مروی ہوتی ہیں، کسی روایت میں ایک سبب نزول کا بیان ہوتا ہے اور کسی میں دوسرے کا۔ یہ آیت بھی اسی قسم کی ہے۔
[١٣٥] حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر نفل ادا کر رہے تھے اور سواری کسی بھی سمت کو رخ کرلیتی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مکہ سے مدینہ آ رہے تھے۔ پھر حضرت عمر (رض) نے یہی آیت پڑھی اور فرمایا کہ یہ آیت اسی باب میں ہے (ترمذی ابو اب التفسیر زیر آیت بالا) ایک روایت میں یہ ہے کہ ایک سفر میں صحابہ کرام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے۔ رات اندھیری تھی ہر ایک کو قبلہ جدھر معلوم ہوا نماز ادا کرلی اور نشان کے طور پر پتھر رکھ لیے صبح کو معلوم ہوا وہ بعض لوگوں نے غلط سمت میں نماز ادا کی ہے۔ ان کو تردد ہوا تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ آیت (۠فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ١٤٤۔ ) 2 ۔ البقرة :144) ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر زیر آیت بالا) - واضح رہے کہ وحدت الوجود کے قائل صوفی حضرات اس آیت کو وحدت الوجود کی صحت پر دلیل کے طور پر پیش فرمایا کرتے ہیں۔ چناچہ خواجہ حسن سنجری فرماتے ہیں کہ - کافراں سجدہ کہ بروئے بتاں مے کردند - ہمہ اوسوئے تو بود و ہمہ سو روئے تو بود - یعنی کافر جو بتوں کو سجدہ کرتے ہیں تو ان کا منہ دراصل تیری ہی طرف ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر طرف تیرا ہی چہرہ ہوتا ہے۔ اس آیت کے نزول کا سبب اور اس کے منسوخ ہونے کے متعلق ہم اوپر لکھ چکے ہیں۔- اس کے باوجود اگر ان حضرات کے اس نظریہ کو درست سمجھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تحویل قبلہ کی آخر کیا ضرورت اور اہمیت تھی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی سورة بقرہ میں ٩ آیات نازل فرمائیں ؟ سنجری صاحب کے اس شعر سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ جب انسان پہلے سے ذہن میں ایک نظریہ قائم کر کے پھر سے قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کس حد تک کج فکری سے کام لے سکتا ہے۔ چناچہ سنجری صاحب نے بت پرستوں کو بت پرستی کے فعل کی بھی تحسین فرما کر اسے درست قرار دے دیا۔- [ ١٣٦] یعنی اللہ تعالیٰ تنگ نظر اور تنگ دل نہیں، بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع، زاویہ نظر بھی وسیع اور دائرہ فیض بھی وسیع ہے۔ لہذا اگر قبلہ کی تلاش میں خطا ہو بھی جائے تو وہ قابل گرفت نہیں وہ خوب جانتا ہے کہ اس کا فلاں بندہ کہاں، کس وقت اور کس نیت سے یاد کر رہا ہے۔
اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ نماز میں قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں، بلکہ مراد خاص صورتوں میں قبلہ کی پابندی ختم کرنا ہے، کیونکہ اس سے پہلے ان ظالموں کا ذکر ہے جو اللہ کی مسجدوں سے روکتے ہیں، یعنی ان ظالموں کی اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور انھیں ویران کرنے کی کوشش اللہ تعالیٰ کی عبادت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے، سو انسان کو قبلہ کی طرف رخ کرنے میں اگر کوئی دشواری ہو، دشمن کا خوف ہو یا قبلہ معلوم نہ ہو سکے تو جس طرف منہ کرکے نماز پڑ لے درست ہے۔ سنن ابی داؤد ” کِتَابُ صَلٰوۃِ السَّفَرِ : ١٢٤٩“ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن انیس (رض) کو بھیجا کہ وہ خالد بن سفیان کو قتل کردیں، کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے کے لیے فوج جمع کر رہا تھا۔ وہ انھیں عرنہ یا عرفات میں نظر آگیا (جہاں عبداللہ بن انیس (رض) کا چہرہ کعبہ کی مخالف سمت تھا) ، ادھر عصر کا وقت ہوگیا تو انھوں نے نماز فوت ہونے کے خدشے کے پیش نظر دشمن کی طرف چلتے چلتے نماز پڑھ لی، پھر جا کر اسے قتل کردیا۔ انتہیٰ ۔ سفر کی حالت میں نفل نماز کے متعلق اجازت ہے کہ وہ سواری پر پڑھ لی جائے، خواہ رخ کسی بھی جانب ہو۔ چناچہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ کی طرف آتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر (نفل) نماز پڑھتے رہتے تھے، اس کا رخ جدھر بھی ہوتا۔ فرماتے ہیں، اسی کے بارے میں یہ آیت اتری : (فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ) [ مسلم، صلوۃ المسافرین، باب جواز النافلۃ : ٣٣؍٧٠٠ ] (فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا) کا ایک معنی ” حَیْثُمَا تُوَلُّوْا “ (جہاں بھی تم رخ کرلو) بھی کیا گیا ہے، یہ مجاہد کا قول ہے۔ (طبری) اس صورت میں بھی اس کا تعلق پہلی آیت سے ہے، یعنی اگر تمہیں اللہ کی مسجدوں سے روک دیا جائے تو تم جس جگہ بھی ہو نماز پڑھ لو۔ (التسہیل)
تحویل قبلہ کی بحث :- دوسری آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو تسلی دی گئی ہے کہ مشرکین مکہ نے اگرچہ آپ کو مکہ اور بیت اللہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا اور مدینہ پہنچ کر ابتدائی زمانہ میں سولہ سترہ مہینہ تک آپ کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا لیکن اس میں آپ کا کوئی نقصان نہیں نہ آپ کے لئے غمگین ہونے کی کوئی وجہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کسی خاص سمت میں نہیں وہ ہر جگہ ہے اس کے لئے مشرق ومغرب یکساں ہیں کعبہ کو قبلہ نماز بنائیں یا بیت المقدس کو دونوں میں کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ امر الہی کی تعمیل ہی دونوں جگہ سبب فضیلت ہے،- داد حق را قابلیت شرط نیست - بلکہ شرط قابلیت داد ہست - اس لئے جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم تھا اس میں فضیلت تھی اور جب بیت المقدس کا استقبال کرنے کا حکم ہوگیا تو اس میں فضیلت ہے آپ دل گیر نہ ہوں اللہ تعالیٰ کی توجہ دونوں حالتوں میں یکساں ہے جبکہ بندہ اس کے حکم کی تعمیل کررہا ہو،- چند مہینوں کے لئے بیت المقدس کو قبلہ قرار دینے کا حکم دے کر عملاً اور آپ نے قولاً اس بات کو واضح کردیا کہ کسی خاص مکان یا سمت کو قبلہ قرار دینا اس وجہ سے نہیں کہ معاذ اللہ خدا تعالیٰ اس مکان یا اس سمت میں ہے دوسری جگہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر سمت میں یکساں توجہ کے ساتھ موجود ہے کسی خاص سمت کو قبلہ عالم قرار دینا دوسری حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کی توجہ کسی خاص سمت یا جگہ کے ساتھ مقید نہیں تو اب عمل کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ ہر شخص کو اختیار دے دیا جائے کہ جس طرف چاہے رخ کرکے نماز پڑھے دوسرے یہ کہ سب کے لئے کوئی خاص سمت وجہت معین کردی جائے ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں ایک تشتت وافتراق کا منظر سامنے آئے گا کہ دس آدمی نماز پڑھ رہے ہیں اور ہر ایک کا رخ الگ الگ اور ہر ایک کا قبلہ جدا جدا ہے اور دوسری صورت میں تنظیم و اتحاد کا عملی سبق ملتا ہے ان حکمتوں کی بناء پر سارے عالم کا قبلہ ایک ہی چیز کو بنانا زیادہ مناسب ہے اب وہ بیت المقدس ہو یا کعبہ دونوں مقدس اور متبرک مقامات ہیں ہر قوم اور ہر زمانہ کے مناسب اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام آتے ہیں ایک زمانے تک بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی دلی خواہش کے مطابق اس حکم کو منسوخ کرکے کعبہ کو قبلہ عالم بنادیا گیا ارشاد ہوا :- قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَ آفَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭوَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ (١٤٤: ٢) - ترجمہ : (یعنی کعبہ کو قبلہ بنادینے کی دلی رغبت کی وجہ سے) بار بار آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ (شاید فرشتہ حکم لے آئے) ہم یہ سب دیکھ رہے ہیں اس لئے اب ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف متوجہ کردیں گے جس کو آپ چاہتے ہیں اس لئے اب سے آپ اپنا چہرہ نماز میں مسجد حرام کی طرف کیا کریں اور (یہ حکم کچھ آپ ہی کے لئے مخصوس نہیں بلکہ تمام امت کے لئے یہی حکم دے دیا گیا کہ) تم جہاں کہیں بھی موجود ہو یہاں تک کہ خود بیت المقدس کے اندر بھی ہو تو نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کیا کرو،- الغرض آیت مذکورہ وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ نے استقبال قبلہ کی پوری حقیقت کو واضح کردیا کہ اس کا منشاء بیت اللہ یا بیت المقدس کی معاذ اللہ پرستش نہیں اور نہ ان دونوں مکانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک مخصوص ہے بلکہ اس کی ذات سارے عالم پر محیط اور ہر سمت میں اس کی توجہ یکساں ہے پھر کسی خاص مکان یا سمت کو مخصوص کیا جاتا ہے اس میں دوسری حکمتیں ہیں، - آیت مذکورہ کے اس مضمون کو واضح اور دل نشین کرنے ہی کے لئے شاید آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو ہجرت کے اوائل میں سولہ سترہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم دے کر عملی طور پر بتلا دیا گیا کہ ہماری توجہ ہر طرف ہے اور نوافل میں اس حکم کو ہمیشہ کے لئے جاری رکھا کہ سفر میں کوئی شخص کسی سواری مثلاً اونٹ، گھوڑے وغیرہ پر سوار ہو تو اس کو اجازت ہے کہ سواری پر بیٹھے ہوئے اشارہ سے نفلی نماز پڑھ لے اور اس کے لئے قبلہ کی طرف رخ کرنا بھی ضروری نہیں جس طرف اس کی سواری چل رہی ہے اسی طرف رخ کرلینا کافی ہے،- بعض مفسرین نے آیت فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ کو اسی نفلی نماز کا حکم قرار دیا ہے مگر یاد رہے کہ یہ حکم صرف ان سواریوں کا ہے جن پر سوار ہو کر چلتے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کرنا دشوار ہے اور جن سواریوں میں سوار کو قبلہ کی طرف رخ کرلینا دشوار نہیں جیسے ریل، پانی کا جہاز، ہوائی جہاز، ان کا وہی حکم ہے جو حالت حضر میں رخ قبلہ کا ہے کہ اگر نفل نماز بھی ان میں پڑھی جائے تو قبلہ رخ ہو کر پڑھی جائے (البتہ نماز کی حالت میں ریل کا یا جہاز کا رخ مڑجائے اور نمازی کے لئے گنجائش نہ ہو کہ وہ بھی قبلہ رخ پھرجائے تو اسی حالت میں نماز پوری کرلے) - اسی طرح جہاں نمازی کو سمت قبلہ معلوم نہ ہو اور رات کی اندھیری وغیرہ کی وجہ سے سمتیں متعین کرنا بھی دشوار ہو اور کوئی بتلانے والا بھی نہ ہو تو وہاں بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنا اندازہ اور تخمینہ لگا کر جس طرف کو بھی متعین کرلے گا وہی سمت اس کا قبلہ قراردی جائے گی نماز ادا کرنے کے بعد اگر یہ بھی ثابت ہوجائے کہ اس نے غلط سمت میں نماز ادا کی ہے تب بھی نماز صحیح ہے اعادہ کی ضرورت نہیں - آیت کے اس بیان اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعامل اور جزئیات مذکورہ سے استقبال قبلہ کے حکم شرعی کی پوری حقیقت واضح ہوگئی،
وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ٠ ۤ فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ١١٥- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه .- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔- غرب - الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] ، وقیل لكلّ متباعد :- غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ- [ المائدة 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ- [ فاطر 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ.- ( غ رب ) الغرب - ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔- أين - أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن .- وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله .- قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک .- وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ :- ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته .- والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان .- وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم .- قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین .- این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - ثمَ- ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و :- ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] فهو في موضع المفعول - ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- وسع - السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ :- الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو .- ( و س ع )- اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔
قول باری ہے : وللہ المشرق والمغرب فایتماتو لوا فثم وجہ اللہ (مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رخ کرو گے اسی طرف اللہ کا رخ ہے) ابو اشعث السمان نے عاصم بن عبید اللہ سے، انہوں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ ہم ایک تاریک رات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، ہمیں پتہ نہیں چلا کہ قبلہ کس طرف ہے۔ چناچہ ہر شخص نے اپنے اپنے رخ پر نماز ادا کی ۔ جب صبح ہوئی تو ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : فاینما تولوا فثم وجہ اللہ۔- ایوب بن عتبہ نے قیس بن طلق سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ کچھ لوگ سفر پر نکلے، انہوں نے جب نماز ادا کی تو انہیں قبلہ کا پتہ نہیں چلا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو پتہ لگا کہ انہوں نے قبلہ کے سوا کسی اور رخ پر نماز ادا کرلی ہے۔ پھر انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :’ دتمہاری نماز پوری ہوگئی۔ “ - ابن لہیعہ نے بکر بن سوادہ سے ایک شخص کے بارے میں روایت بیان کی جس نے حضرت عمر (رض) سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جو سفر کے دوران غلطی سے قبلہ رخ ہوئے بغیر نماز پڑھ لیتا ہے ۔ حضرت ابن عمر نے جواب میں مذکورہ آیت کی تلاوت فرما دی۔- ابو علی الحسین بن علی الحافظ نے رویات بیان کی، انہیں محمد بن سلیمان الواسطی نے ، انہیں احمد بن عبداللہ بن الحسن العنبری نے بتایا کہ میں نے ابوعبید اللہ بن الحسن کی کتاب میں یہ تحریر دیکھی کہ عبدالملک بن ابی سلیمان لاعرزمی نے عطاء بن ابی رباح سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد پر ایک چھوٹا لشکر روانہ کیا جس میں بھی شامل تھا۔ ہمیں تاریکی نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور قبلہ کا ہمیں کوئی پتہ نہ چلا۔ پھر ہم میں سے ایک گروہ نے بتایا کہ ہمیں قبلہ معلوم ہوگیا ہے، یہ کہہ کر انہوں نے شمال کی طرف اشارہ کیا۔ چناچہ لوگوں نے اسی طرخ نماز ادا کی اور چند لکیریں لگا دیں۔ دوسرے گروہ نے جنوب کی طرف قبلے کی نشاندہی کر کے چند لکیریں لگا دیں، لیکن جب صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ مذکورہ لکیریں قبلے کے رخ نہیں تھیں۔ پھر جب ہم سفر سے واپس ہوئے تو اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ فاینما تولوا فثم وجہ اللہ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا روایات میں یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ زیر بحث آیت کے نزول کا سبب ان حضرات کی وہ نماز تھی جسے انہوں نے اپنے اجتہاد سے کام لے کر قبلہ کے سوا کسی اور رخ پر ادا کیا تھا۔- حضرت ابن عمر سے ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آتے ہوئے اپنی سواری پر اسی رخ نماز ادا کرتے رہے جس رخ آپ کی سواری ہوتی۔ اسی سلسلے میں مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔- معمر نے قتادہ سے اسی آیت کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ یہ قبلہ اول تھا اور پھر اسے مسجد حرام کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے حکم نے منسوخ کردیا۔ اس بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے پھر جب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو یہود نے اسے بہت ناپسند کیا۔ اس پر زیر تفسیر آیت نازل ہوئی۔- بعض حضرات کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرف چاہیں رخ کر کے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس بنا پر بیت المقدس کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رخ کرنا ایجاب کی بنا پر نہیں تھا، بلکہ اختیار کی بنا پر تھا۔ حتیٰ کہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم نازل ہوگیا ۔ اس لئے : فاینما تولوا فثم وجہ اللہ کی بات کعبہ کی طرف رخ کرنے کے حکم سے پہلے تخییر کے وقت کی بات تھی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص سفر کی حالت میں اجتاد سے کام لے کر کسی ایک رخ پر نماز پڑھ لے اور پھر یہ واضح ہوجائے کہ اس کی نماز قبلہ کے سوا کسی اور رخ پر ہوئی تھی تو ایسے شخص کی نماز درست ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے تمام اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر اسے کوئی ایسا شخص میسر ہو جس سے پوچھ کر وہ قبلہ کی جہت معلوم کرسکتا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کی نماز نہیں ہوگی، لیکن اگر اسے مذکورہ شخص نہ ملے اور وہ اجتہاد سے کام لے کر غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے نما زپڑھ لے تو اس کی نماز ہوجائے گی خواہ سا نے قبلہ کی طرف پشت کر کے یا اس سے مشرق یا مغرب کا رخ کر کے نماز ادا کی ہو۔ اس قول جیسا قول جیسا قول مجاہد، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی، عطاء اور شعبی سے بھی منقول ہے۔ حسن بصری، زہری، ربیعہ اور ابن ابی سلمہ کا قول ہے کہ وہ وقت کے اندر نماز لوٹائے گا۔ اگر وقت نکل جائے اور اسے اپنی غلطی کا علم ہو تو نماز نہیں لوٹائے گا۔ امام مالک کا بھی یہی قول ہے اس کی روایت ابن وہب نے بیان کی ہے۔ ابو مصعب نے ان سے روایت بیان کی ہے کہ وہ وقت کے اندر اس صورت میں نماز کا اعادہ کرے گا جب اس نے قبلہ کی طر پشت کر کے یا قبلہ سے مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی ہو۔ اگر سا نے قبلہ سے تھوڑا سا دائیں طرف یا بائیں طرف رخ کیا ہو تو نماز کا اعادہ نہیں کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جو شخص اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دے اور نماز ہی میں معلوم ہوجائے کہ قبلہ مغرب میں ہے تو نماز نئے سرے سے پڑھے گا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر نمازی یہ دیکھے کہ وہ قبلہ سے ہٹا ہوا ہے تو اس پر قبلہ کی طرف مڑ جانا لازم ہوگا اور نماز کے ادا شدہ حصے کا ادا شمار کرے گا۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت کی اس امر پر دلالت ہے کہ نمازی جس جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے اس کی نماز ہوجائے گی۔ اس لئے کہ قول باری : فاینما لوتوا فثم وجہ اللہ کے معنی ہیں۔ وہاں اللہ کی رضا مندی ہوگی اور یہی وجہ ہے جس کی طرف تمہیں متوجہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : انما نطعمکم بوجہ اللہ (ہم بوجہ اللہ تمہیں کھلاتے ہیں) یعنی اس کی خوشنودی اور رضا مندی نیز اس چیز کی خاطر ہم تمہیں کھلاتے ہیں جس یاللہ نے ہم سے چاہا ہے ۔ قول باری : کل شی ھالک الا وجھہ (ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے وجہ اللہ کے) یعنی سوائے اس چیز کے جو اس کی رضا اور ارادے کے لئے ہو حضرت عامر بن ربیعہ اور حضرت جابر کی روایتوں میں جن کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں مروی ہے کہ اسی بارے میں آیت کا نزول ہوا تھا۔ - یہاں اگر یہ کہا جائے کہ آیت کا نزول سواری پر نفل نماز ادا کرنے کے بارے میں تھا اور یہ بھی مروی ہے کہ اس کا نزول قبلے کے بیان کے بارے میں تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ یہ تمام صورتیں ایک ہی وقت میں پیش آ گئی ہوں اور پھر ان کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا گیا ہو اور اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرما کر ان تمام کا حکم بیان کردیا ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے ہر ایک صورت پر یہ فرما کر نص کردیتے کہ اگر تمہیں قبلہ کی جہت کا علم ہو اور تمہارے لئے اس کی طرف رخ کرنا ممکن ہو تو جس جہت کی طرف تمہارے لئے رخ کرنا ممکن ہو وہی وجہ ہے اور اگر تمہارے لئے مختلف جہات مشتبہ ہوجائیں اور پھر تم کسی بھی جہت کی طرف رخ کر کے نما زپڑھ لو تو وہی وجہ ہے۔ جب ان تمام صورتوں کے مراد ہونے میں کوئی منافات نہیں تو پھر آیت کو اس پر محمول کرنا واجب ہے اور آیت سے اللہ کی مراد یہ تمام صورتیں ہوں گی۔ جس طرح اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں۔ خاص طور پر جبکہ حضرت جابر اور حضرت عامر بن ربیعہ کی روایتوں نے یہ نص کردیا ہے کہ آیت کا نزول اس شخص کے متعلق ہوا ہے جو قبلہ کا رخ معلوم کرنے کے لئے اپنی سمجھ بوجھ سے کام لینے کے باوجود قبلہ کے صحیح رخ کا تعین نہ کرسکے۔- ان روایتوں میں یہ بات بتادی گئی ہے کہ قبلہ کی طرف پشت کرنے والا نیز قبلہ سے دائیں یا بائیں جانب رخ کرنے والا سب یکساں ہیں کیونکہ ان روایتوں میں مذکور ہے کس نے شمال کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی اور کسی نے جنوب کی جانب رخ کر کے اور یہ دونوں جہتیں ایک دوسری کی ضد ہیں۔ اس کے جواز پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے ایک جماعت نے بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلام ابو سعید سے روایت کی ہے، ان سے عبداللہ بن جعفر نے عثمان بن محمد سے، انہوں نے سعید المقبری سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” مشرق اور مغرب کے مابین قبلہ ہے۔ “ آپ کا یہ ارشاد تمام جہتوں کو قبلہ ثابت کرنے کا مقتضی ہے کیونکہ آپ کا قول ” مشرق اور مغرب کے مابین “ آپ کے قول ” تمام آفاق “ کی طرح ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری : رب المشرق والمغرب مشرق و مغرب کا رب سے مراد پوری دنیا ہے اور لوگوں کی آپس میں مخاطبت کے اندر بھی جب پوری دنیا کے بارے میں خبر دینا مقصود ہو تو اس کے لئے مشرق اور مغرب کا ذکر کردیا جاتا ہے اور یہ دونوں الفاظ پوری دنیا کو شامل ہوجاتے ہیں۔- ہم نے سلف کا جو قول نقل کیا ہے اس کا اجماع پر مبنی ہونا واجب ہے کیونکہ یہ قول بہت واضح ہے اور استفاضہ ، یعنی کثرت کے ساتھ منقول ہوا ہے اور اس کے خلاف سلف کے ہم چشموں میں سے کسی سے کوئی قول نقل نہیں ہوا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جو شخص مکہ مکرمہ سے باہر ہو تو اس کی نماز اس کی اپنی سمجھ بوجھ یعنی اجتہاد پر مبنی قبلہ رخ ہوگی اس لئے کہ کوئی شخص بھی اس جہت کے بارے میں جس کی طرف وہ رخ کر کے نماز پڑھتا ہے اس یقین کا اظہار نہیں کرسکتا کہ مذکورہ جہت کعبہ کے محاذات میں ہے۔ اس سے ہٹی ہوئی نہیں ہے۔ اگر تمام لوگوں کی نماز مذکورہ جہت میں اس بنا پر جائز ہے کہ اس کے سوا کسی اور جہت کا مکلف قرار نہیں دیا گیا تو پھر سفر کی حالت میں اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر ایک جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے والا بھی اپنا فرض ادا کرلینے والا قرار پائے گا کیونکہ وہ اس جہت کے سوا کسی اور جہت کا مکلف نہیں ہے۔ اس پر جو حضرات نماز کا اعادہ واجب کرتے ہیں وہ گویا اس پر ایک اور فرض لازم کرت یہیں اور کسی دلالت کے بغیر اس پر ایک فرض لازم کردینا سرے سے جائز ہی نہیں ہے۔ اگر یہ حضرات ہم پر اس کپڑے یا پانی کے مسئلے میں اعتراض لازم کردیں جسے پہن کر نماز پڑھی جائے اور پھر معلوم ہو کہ کپڑا ناپاک تھا یا پانی سے وضو کرلیا جائے اور پھر معلوم ہو کہ پانی نجس تھا تو ہم کہیں گے کہ ان تمام نمازیوں کے مابین اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے کہ ہر ایک نے اپن افرض ادا کیا، البتہ کپڑے یا پانی کی نجاست کے بارے میں علم کے بعد متعلقہ نمازیوں پر قائم ہونے والی ایک دلالت کی بنا پر ایک اور فرض لازم کردیا جبکہ قبد کی جہت کے سلسلے میں اپنی سمجھ بوجھ سے کام لینے والے پر ایک اور فرض لازم کرنے کے لئے کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی اس لئے کہ قبلہ کی جہت کے سوا کسی اور جہت کی طرف نماز بلا ضرورت بھی جائز ہوجاتی ہے اور یہ سواری پر بیٹھ کر پڑھی جانے والی نماز ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ نفل پڑھنے والے پر نفل پڑھنا لازم نہیں ہے۔ جب نفل نماز بلا ضرورت غیر قبلہ کی طرف جائز ہوگئی تو پھر غیر قبلہ کی طرف فرض نماز پڑھنے والے پر بھی اس صورت میں اسی نماز کے سوا اور کچھ واجب نہیں ہوگا، جب اسے قبلہ کی جہت کے بارے میں غلطی کا علم ہوجائے۔ چونکہ ناپاک کپڑے میں نماز کا جواز صرف ضرورت کی بنا پر ہے اور ناپاک پانی سے وضو کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ اس لئے ان پر نماز کا اعادہ لازم کردیا گیا۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھے، اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر کسی جہت کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنے والے کی حیثیت وہی ہے جو پانی نہ ملنے پر تمیم کر کے نماز ادا کرنے والے کی ہے۔ سا لئے اس پر نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوگا کیونکہ جس جہت کی طرف رخ کر کے اس نے نماز ادا کی ہے وہ اسی طرح قبلہ کی قائم مقام بن جائے گی۔ جبکہ ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھنے والے نیز نجس پانی سے وضو کرنے والے کو بدل کے طور پر کوئی ایسی چیز دستیاب نہیں ہوتی جو طہارت کی قائم مقام بن سکے۔ اس بنا پر ان دونوں کی حیثیت وہی ہوگی جو پانی کی غیر موجودگی میں تمیم کئے بغیر نماز پڑھ لینے والے کی ہے۔ اس پر غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے خائف کی نماز کی ادائیگی دلالت کرتی ہے اور ہمارے زیر بحث مسئلہ کی اصل اور بنیاد بھی یہی ہے جس پر مذکورہ مسئلہ دو وجوہ پر مبنی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ خائف کی اختیار کردہ جہت حقیقت میں وہ جہت ہے جس کے سوا وہ کسی اور جہت کا مکلف نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مذکورہ جہت قبلہ کی قائم مقام ہے اس لئے تمیم کرنے والے کی طرح اس پر بھی نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوگا۔ قول باری : فثم وجہ اللہ سے قبلہ کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کر کے نماز کی ادائیگی مراد ہے۔ اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ کعبہ کی مساحت یعنی طول و عرض میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ اس سے دور رہ کر نماز پڑھنے والوں میں سے ہر نمازی اس کی محاذات میں نماز ادا کرسکے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بعض مساجد کی مساحت کعبہ کی مساحت سے کئی گنا زیادہ ہے جس کی بنا پر اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں میں سے ہر نمازی کعبہ کے محاذات میں نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود تمام نمازیوں کی نماز درست ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ نمازی صرف اس جہت کی طرف رخ کرنے کے مکلف ہیں جس کے متعلق انہیں گمان ہوتا ہے کہ یہ کعبہ کے محاذات میں ہے، وہ بعینہ کعبہ کے محاذات کے مکلف نہیں ہیں اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ عذر کی صورت میں ہر جہت کعبہ کی جہت کی قائم مقام ہوجاتی ہے۔- اگر یہاں یہ کہا جائے کہ ان نمازیوں کی نماز صرف اس بنا پر دسرت ہوتی ہے کہ ان کا رخ کعبہ کے سوا کسی اور طرف ہوتا ۔ اس بنا پر یہ صورت ہمارے زیر بحث مسئلے کی نظیر نہیں بن سکتی کہ اس میں اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر ایک جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے والے کے سامنے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے قبلہ کی جہت کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ان دونوں قسم کے نمازیوں کے درمیان مذکورہ فرق کی گنجائش کا اعتبار کرلیا جائے تو اس سے لازم ہوگا ک تمام نمازیوں کی نماز درست قرار نہ دی جائے کیونکہ اگر کعبہ کے محاذات کی مقدار مثلاً بیس گز ہو تو اس صورت میں محاذات ولاوں کی تعداد غیر محاذات والوں کی تعداد سے کہیں کم ہوگی جبکہ دوسری طرف ہم اہل شرق و غرب سب کو دیکھتے ہیں کہ ان کی نماز اس علم کے باوجود درست ہوجاتی ہے کہ کعبہ کے محاذات رکھنے والے نمازی قلیل ہوتے ہیں اور اپنی تعداد کی قلت کی وجہ سے تمام نمازیوں کی تعداد کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتے جبکہ اس کے ساتھ یہ صورت بھی ممکن ہے کہ تمام نمازیوں میں کعبہ کے محاذات والا نمازی کوئی بھی نہ ہو، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود سب کی نماز درست ہوتی ہے حالانکہ اصول کے اندر احکام کا تعلق اس صورت کے ساتھ ہے جو اعم و اکثر ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ دارالاسلام اور دارالحرب میں رہنے والوں میں سے ہر ایک کا حکم اعم و اکثر والی صورت کے ساتھ متعلق ہوتا ہے حتیٰ کہ جو شخص دار الاسلام میں آ جاتا ہے اس کی جان محفوظ ہوجاتی ہے، جبکہ یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ دار الاسلام میں قتل کے سزا اور افراد مثلاً مرتد، ملحد اور حربی بھی موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص دار الحرب میں پہنچ جائے اس کا خون مباح ہوجاتا ہے حالانکہ وہاں مسلمان تاجر اور مسلمان قیدی بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح تمام دوسرے اصول ہیں جن کے احکام اسی نہج پر چلتے ہیں۔ اس بنا پر بطلان صلوۃ کے بارے میں اعم و اکثر والی صورت کا اس علم کے باوجود کوئی حکم نہیں ہوگا کہ نمازیوں کی اکثریت کعبہ کے محاذات میں نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ا ن نمازیوں میں سے ہر ایک اپنے وقت میں جس بات کا مکلف ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے لئے کعبہ کی جہت وہی ہوگی جس کے متعلق اسے گمان ہو کہ یہ کعبہ کی جہت ہے۔ اسی طرح اس حالت کے اندر بھی اس کے لئے کعبہ کی جہت وہی ہوگی جس کے متعلق اس نے اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر یہ سمجھا ہے کہ یہ کعبہ کی جہت ہے اور اس دوسری صورت میں کسی پر بھی نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوگا۔- اگر یہاں یہ سوال اٹھایا جائے کہ آپ اس نماز پر اعادہ واجب کردیتے ہیں جس کے لئے کعبہ کی جہت کے بارے میں دوسروں سے پوچھنے کا امکان ہو اور وہ پھر بھی اپنے اجتہاد سے کام لے کر کسی ایک جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لے اور پھر یہ واضح ہوجائے کہ اس نے قبلہ کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی ہے۔- اس کا جو با یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت موقعہ اجتہاد نہیں ہے۔ یعنی اگر نمازی کو کوئی شخص مل جائے جس سے وہ کعبہ کی جہت معلوم کرسکتا ہو اور پھر وہ اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر غلط جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لے، تو اس پر نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔ ہم نے تو اس شخص کے لئے اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر کسی ایک جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ جس کی حالت ایسی ہو جس میں مذکورہ اجتہاد کی گنجائش موجود ہو، لیکن اگر اسے ایسا شخص مل جائے جسے وہ کعبہ کی جہت پوچھ سکتا ہو تو اس صورت میں وہ اپنے اجتہاد سے کام لے کر نماز پڑھنے کا مکلف نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایسی صورت میں کعبہ کی جہت پوچھنے اور معلوم کرنے کا مکلف ہوگا۔ ہماری اس بات پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں جو شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے غائب اور دور ہوتا وہ اپنا فرض اپنی سمجھ بوجھ یعنی اجتہاد سے کام لے کر ادا کرتا اور اس کے ساتھ یہ بات بھی جائز سمجھتا کہ شاید یہ فرض منسوخ ہوجائے، چناچہ اہل قبا کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ وہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، پھر ایک نماز کے دوران کسی نے آ کر انہیں اطلاع دی کہ قبلہ بدل گیا ہے تو وہ اپنی نماز کے اندر ہی کعبہ کی طرف گھوم گئے، جبکہ اس وقت ان کی پشت کعبہ کی طرف تھی۔ مدینہ کے اندر جس شخص کا رخ بیت المقدس کی طرف ہوتا ہے اس کی پشت کعبہ کی طرف ہوتی ہے۔ اس کے باوجود نسخ کے ورود کے ساتھ انہیں نماز کے اس حصے کا اعادہ کا حکم نہیں دیا گیا جس کی ادائیگی انہوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے کی تھی۔- یہاں اغلب گمان تو یہی ہے کہ انہوں نے نسخ کے ورود کے بعد نماز کی ابتدا کی تھی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نسخ کا حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت نازل ہوا تھا جب آپ مدینہ میں تھے اور نسخ کے بعد خبر لے جانے والا خبر لے کر قبا پہنچا تھا۔ مدینہ اور قبا کے درمیان تقریباً ایک فرسخ یعنی تیل میل کا فاصلہ ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نسخ کے بعد ان کی نماز شروع ہوئی تھی کیونکہ اتنی مدت تک ان کا نماز کے اندر رہنا ممتنع تھا۔ اگر نسخ سے پہلے ہی ان کی نماز کی ابتداء تسلیم کرلی جائے تو بھی مذکورہ بالا دلالت اپنی جگہ قائم رہے گی اس لئے کہ ایسی صورت کے اندر بھی انہوں نے اپنی نماز کا کچھ حصہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے ادا کیا تھا۔- یہاں اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات اس لئے جائز ہوگئی کہ انہوں نے نسخ سے پہلے اپنی نماز شروع کردی تھی اور یہی چیز ان پر فرض تھی تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہی کیفیت اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر نماز کے لئے ایک جتہ متعین کرنے والے کی بھی ہے۔ اس پر بھی وہ بات فرض ہوتی ہے جس پر اس کا اجتہاد اسے پہنچا دے۔ اس پر اس کے سوا اور کوئی بات فرض نہیں ہوتی۔- اگر یہاں کہا جائے کہ نماز پر جب یہ واضح ہوجائے کہ اس نے قبلہ کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی ہے تو اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جو کسی پیش آمد ہ واقعہ کے حکم کے متعلق اجتہاد کرے اور پھر اس حکم کے بارے میں اسے نص مل جائے تو نص کے وجود کی صورت میں اس کا مذکورہ اجتہاد باطل ہوجائے گا۔- اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح معترض نے تصور کیا ہے کیونکہ کعبہ کی جہت کے بارے میں نص اسی صورت میں ہوگی جب یہ سامنے ہو یا اس کے بارے میں علم ہو۔ نماز کے لئے تو ایک جہت نہیں ہے کہ نمازی اس کی طرف رخ کر کے بلکہ نمازیوں کے احوال میں فرق کے مطابق تمام جہات ان کے لئے ہوتی ہیں۔ مثلاً جس شخص کی نظروں کے سامنے کعبہ ہو وہ اس کی طرف رخ کرے گا اور جو شخص کعبہ سے دور ہوا ور کعبہ کے بارے میں اسے علم ہو اس پر وہ جہت فرض ہوگی جس کی طرف اسے رخ کرنا ممکن ہو ایسے شخص کے لئے کعبہ اس کے فرض کی جہت نہیں ہوگا۔ جس شخص پر جہت مشتبہ ہوجائے تو اس پر وہ جہت فرض ہوگی جس پر اس کی سمجھ بوجھ، یعنی اجتاد اسے پہنچا دے۔ اس لئے معترض کا یہ قول درست نہیں ہے کہ ایسا شخص اجتاد کے ذریعے نص تک پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ اجتہاد کی حالت میں کعبہ کی جہت اس پر فرض نہیں ہوتی نص تو اس حالت میں ہوتی ہے جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا امکان اور اس کا علم ہو نیز کعبہ کے بارے میں علم ہوتے اور اس کی جہت کے بارے میں عدم علم کی صورت میں بھی اسے اجتہاد سے کام لینے کا حق ہوتا ہے۔ اس بنا پر اگر یہ صورت نص کے بمنزلہ ہوتی تو پھر اس علم کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی کوئی گنجائش نہ ہوتی کہ اس کی طرف سے اس حکم پر نص موجود ہے جس طرح اس علم کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ کی طرف سے فلاں واقعے کے بارے میں نص موجود ہے۔
(١١٥) اب اللہ تعالیٰ قبلہ کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب شخص کو قبلہ معلوم نہ ہو وہ سوچ وبچار کرکے جس جانب نماز میں اپنا چہرہ کرلے تو وہ نماز اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے ہوجائے گی، اور اس آیت کی یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرق ومغرب والوں کے لیے قبلہ بیان کررہا ہے اور وہ حرم ہے، تو جس مقام پر بھی نماز کی حالت میں تم اپنے چہروں کو حرم کی طرف کرلو گے تو وہ ہی اللہ تعالیٰ کا قبلہ ہے اللہ تعالیٰ قبلہ کے تعلق سے ان کی نیتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔- شان نزول : (آیت) وللہ المشرق والمغرب “ (الخ)- مسلم، ترمذی (رح) ، نسائی (رح) نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے حوالہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ واپسی کے وقت اپنی سواری پر جس جانب بھی آپ کی سواری کا چہرہ ہوتا تھا نفل نماز ادا فرما رہے تھے، اس کے بعد ابن عمر (رض) نے (آیت) ” وللہ المشرق والمغرب “۔ آیت کریمہ پڑھی اور فرمایا اسی کے حکم کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے اور امام حاکم (رح) نے حضرت عمر (رض) سے ہی روایت کی ہے کہ (آیت) ” فاینما تولو فثم وجہ اللہ “۔ یہ آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جس جانب بھی آپ کی سواری کا چہرہ اور رخ ہو اس پر نفل نماز پڑھ سکتے ہو، امام حاکم (رح) فرماتے ہیں یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اس آیت مبارکہ کے بارے میں جو احادیث مروی ہیں ان سب میں ازروئے سندیہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے اور اس پر علماء کرام کی ایک جماعت نے اعتماد کیا ہے مگر اس آیت کے نازل ہونے کا سبب بلکہ صرف اتنا ہے کہ اس چیز کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ دوسری روایات میں سبب نزول کی تصریح بھی موجود ہے چناچہ ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے علی بن ابی طلحہ (رض) کے ذریعہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کی حالت میں ” بیت المقدس “ کی طرف چہرہ کرنے کا حکم دیا اس سے یہودی بہت خوش ہوئے، چناچہ آپ نے دس ماہ سے زیادہ ” بیت المقدس “ کی طرف نماز میں چہرہ اور رخ کیا اور آپ قبلہ ابراہیمی کو پسند فرماتے تھے اور اس کے لیے دعا بھی کرتے تھے، اس کی طرف بھی دیکھتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے پھر پہلے قبلہ کی طرف چہرہ کرنے کا حکم صادر فرما دیا ، (آیت) ”۔ فولووجوھکم شطرہ “۔ اس پر یہودیوں کو شک ہوا کہ کیا وجہ ہے کیہ جس قبلہ کی طرف یہ نماز پڑھ رہے تھے پھر اس قبلہ کو ترک کردیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ آپ فرما دیجئے کہ مشرق ومغرب سب ہی جہتیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اس حدیث کی اسناد قوی ہیں اور حدیث کے معنی سے بھی اس کی تائید ہورہی ہے، لہٰذا اسی پر اعتماد کرلو اور اس آیت کریمہ کے بارے میں دیگر ضعیف روایات بھی موجود ہیں، چناچہ ترمذی، ابن ماجہ اور دارقطنی نے بذریعہ اشعث بن سمان (رح) عاصم بن عبداللہ (رح) ، عبداللہ بن عامر (رح) عامر بن ربیعہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک اندھیری رات میں سفر کر رہے تھے ہم میں سے کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ قبلہ کس طرف ہے ہر ایک نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق نماز ادا کرلی۔- جب صبح ہوئی تو ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات بتائی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) فاینما تولو فثم وجہ اللہ الخ - امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یہ حدیث ضعیف ہے اور اشعت روایت حدیث میں ضعیف ہیں۔- اور دار قطنی اور ابن مردویہ نے بواسطہ عزری (رح) ، عطا (رح) ، حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ کیا، میں بھی اسی لشکر میں موجود تھا، اچانک ہمیں بہت سخت قسم کی اندھیرے کا سامنا ہوا جس وجہ سے ہم قبلہ کو نہ پہچان سکے، ہم میں سے ایک جماعت نے کہا کہ ہم نے قبلہ کی تحقیق کرلی، قبلہ اس کے شمالی جانب میں ہے، ان لوگوں نے اس طرف نماز ادا کرلی اور علامت کے لیے کچھ نشان کردیے، جب صبح ہوئی اور سورج طلوع ہوا تو یہ نشانات قبلہ کے علاوہ دوسری سمت پر تھے جب ہم اپنے سفر سے واپس لوٹے تو ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کو بیان کیا تو آپ نے اپنی گردن جھکالی اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ”۔ وللہ المشرق والمغرب نازل فرمائی۔- اور ابن مردویہ (رح) نے بواسطہ کلبی (رح) ، ابوصالح (رح) ، حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ فرمایا ان کو راستہ میں اندھیرے سے واسطہ پڑگیا، جس کی وجہ سے قبلہ کا رخ معلوم نہ ہوسکا، چناچہ سب نے نماز ادا کرلی پھر سورج نکلنے کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ قبلہ کے رخ کے علاوہ دوسرے رخ پر نماز پڑھی ہے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں واپس لوٹے تو آپ کے سامنے یہ واقعہ پیش کیا گیا تب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا کہ مشرق ومغرب سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے الخ۔- اور ابن جریر (رح) نے قتادۃ (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارا بھائی نجاشی انتقال کرگیا ہے اس پر نماز پڑھو، صحابہ کرام (رض) نے گزارش کی ہم ایسے شخص پر نماز پڑھیں جو مسلمان ہی نہیں ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وان من اھل الکتاب لمن یؤمن یؤمن باللہ “۔ پھر صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ وہ قبلہ کی طرف چہرہ کرکے نماز نہیں پڑھتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرق ومغرب سب اللہ کی ملک ہیں، یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور مرسل ہے یا معضل۔- اور ابن جریر (رح) ہی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب آیت کریمہ (آیت) ادعونی استجب لکم “۔ نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہاں یاد کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” فاینما تولو۔ الخ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١١٥ (وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق) - یعنی اگر ہم مغرب کی طرف رخ کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ مغرب میں ہے (معاذ اللہ) ۔ اللہ تو جہت اور مقام سے ماورا ہے ‘ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے۔ یہ تو یکسانیت پیدا کرنے کے لیے اور اجتماعی رنگ دینے کے لیے ایک چیز کو قبلہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ تو ایک علامت ہے۔ غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے : َ - ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود - قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں - قبلہ ہمارا مسجود تو نہیں ہے - (فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ط) (اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) ۔ - وہ بہت وسعت والا ہے ‘ وہ کسی بھی سمت میں محدود نہیں ہے ‘ اور ہر شے کا جاننے والا ہے۔- تحویل قبلہ کی تمہید کے طور پر ایک آیت کہہ کر اب پھر اصل سلسلۂ کلام جوڑا جا رہا ہے :
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :115 یعنی اللہ نہ شرقی ہے ، نہ غربی ۔ وہ تمام سمْتوں اور مقاموں کا مالک ہے ، مگر خود کسی سمت یا کسی مقام میں مقید نہیں ہے ۔ لہٰذا اس کی عبادت کے لیے کسی سمْت یا کسی مقام کو مقرر کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ وہاں یا اس طرف رہتا ہے ۔ اور نہ یہ کوئی جھگڑنے اور بحث کرنے کے قابل بات ہے کہ پہلے تم وہاں یا اس طرف عبادت کرتے تھے ، اب تم نے اس جگہ یا سمْت کو کیوں بدل دیا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :116 یعنی اللہ تعالیٰ محدُود ، تنگ دل ، تنگ نظر اور تنگ دست نہیں ہے ، جیسا کہ تم لوگوں نے اپنے اوپر قیاس کر کے اسے سمجھ رکھا ہے ، بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع ہے اور اس کا زاویہء نظر اور دائرہ فیض بھی وسیع اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا کونسا بندہ کہاں کس وقت کس نیت سے اس کو یاد کر رہا ہے ۔
75: اُوپر جن تین گروہوں کا ذکر ہوا ہے ان کے درمیان ایک اختلاف قبلے کا بھی تھا۔ اہلِ کتاب بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اور مشرکین بیت اللہ کو قبلہ سمجھتے تھے۔ مسلمان بھی اسی کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے تھے، اور یہ بات یہودیوں کو ناگوار تھی، ایک مختصر عرصے کے لئے مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیا گیا تو یہودیوں نے حکم دیا گیا تو یہودیوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ دیکھو مسلمان ہماری بات ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں، پھر دوبارہ بیت اللہ کو مستقل قبلہ بنادیا گیا، جس کی تفصیل اِن شا اللہ اگلے پارے کے شروع میں آنے والی ہے، یہ آیت بظاہر اُس موقع پر نازل ہوئی ہے جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ رہے تھے۔ بتلانا یہ مقصود ہے کہ کوئی بھی سمت اپنی ذات میں کسی تقدس کی حامل نہیں۔، مشرق ومغرب سب اللہ کی مخلوق اور اسی کی تابعِ فرمان ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کسی ایک جہت میں محدود نہیں، وہ ہر جگہ موجود ہے، چنانچہ وہ جس سمت کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیدے، بندوں کا کام یہ ہے کہ اسی حکم کی تعمیل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ ہو جہاں قبلے کی صحیح سمت پتہ نہ چل رہی ہو تو وہاں وہ اپنے اندازے سے جس سمت کو قبلہ سمجھ کر نماز پڑھے گا اس کی نماز ہوجائے گی، یہاں تک کہ اگر بعد میں پتہ چلے کہ جس رُخ پر نماز پڑھی ہے وہ صحیح رُخ نہیں تھا تب بھی نماز دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس شخص نے اپنی طاقت کے مطابق اللہ کے حکم کی تعمیل کرلی۔ دراصل کسی بھی جگہ یا کسی بھی سمت میں اگر کوئی تقدس آتا ہے تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے آتا ہے، لہٰذا اگر اﷲ تعالیٰ قبلے کے تعین میں اپنے احکام بدل رہا ہے تو اس میں کسی فریق کی ہار جیت کا سوال نہیں۔ یہ تبدیلی یہی دِکھانے کے لئے آرہی ہے کہ کوئی سمت اپنی ذات میں مقصود نہیں۔ مقصود اﷲ تعالیٰ کے حکم کی پیروی ہے۔ اگر آئندہ اﷲ تعالیٰ دوبارہ بیت اللہ کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیدے تو یہ بات نہ قابل تعجب ہونی چاہئے نہ قابلِ اعتراض۔