اللہ ہی مقتدر اعلیٰ ہے کے دلائل یہ اور اس کے ساتھ کی آیت نصرانیوں کے رد میں ہے اور اس طرح ان جیسے یہود و مشرکین کی تردید میں ہے جو اللہ کی اولاد بتاتے تھے ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین و آسمان وغیرہ تمام چیزوں کا تو اللہ مالک ہے ان کا پیدا کرنے والا انہیں روزیاں دینے والا ان کے اندازے مقرر کرنے والا انہیں قبضہ میں رکھنے والا ان میں ہر تغیر و تبدل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر بھلا اس مخلوق میں سے کوئی اس کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے؟ نہ عزیز اور نہ ہی عیسیٰ اللہ کے بیٹے بن سکتے ہیں جیسے کہ یہود و نصاریٰ کا خیال تھا نہ فرشتے اس کی بیٹیاں بن سکتے ہیں جیسے کہ مشرکین عرب کا خیال تھا ۔ اس لئے دو برابر کی مناسبت رکھنے والے ہم جنس سے اولاد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی نظیر نہ اس کی عظمت و کبریائی میں اس کا کوئی شریک نہ اس کی جنس کا کوئی اور وہ تو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے اس کی اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی کوئی بیوی بھی نہیں وہ چیز کا خالق اور ہر چیز کا عالم ہے یہ لوگ رحمٰن کی اولاد بتاتے ہیں یہ کتنی بےمعنی اور بیہودہ بےتکی بات تم کہتے ہو؟ اتنی بری بات زبان سے نکالتے ہو کہ اس سے آسمانوں کا پھٹ جانا اور زمین کا شق ہو جانا اور پہاڑوں کا ریزہ ریز ہو جانا ممکن ہے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب اولاد ہے اللہ کی اولاد تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اس کے سوا جو بھی ہے سب اس کی ہی ملکیت ہے زمین و آسمان کی تمام ہستیاں اس کی غلامی میں ظاہر ہونے والی ہیں جنہیں ایک ایک کر کے اس نے گھیر رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے ان میں سے ہر ایک اس کے پاس قیامت والے دن تنہا تنہا پیش ہونے والی ہے پس غلام اولاد نہیں بن سکتا ملکیت اور ولدیت دو مختلف اور متضاد حیثیتیں ہیں دوسری جگہ پوری سورت میں اس کی نفی فرمائی ارشاد ہوا آیت ( قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ) کہ دو کہ اللہ ایک ہی ہے اللہ بے نیاز ہے اس کی نہ اولاد ہے نہ ماں باپ اس کا ہم جنس کوئی نہیں ان آیتوں اور ان جیسی اور آیتوں میں اس خالق کائنات نے اپنی تسبیح و تقدیس بیان کی اور اپنا بے نظیر بے مثل اور لا شریک ہونا ثابت کیا اور ان مشرکین کے اس گندے عقیدے کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ وہ تو سب کا خالق و رب ہے پھر اس کی اولاد بیٹے بیٹیاں کہاں سے ہوں گی؟ سورۃ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف کی ایک قدسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اسے یہ لائق نہ تھا مجھے وہ گالیاں دیتا ہے اسے یہ نہیں چاہیے تھا اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ خیال کر بیٹھتا ہے کہ میں اسے مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ میری اولاد بتاتا ہے حالانکہ میں پاک ہوں اور میری اولاد اور بیوی ہو اس سے بہت بلند و بالا ہوں یہی حدیث دوسری سندوں سے اور کتابوں میں بھی با اختلاف الفاظ مروی ہے صحیین میں ہے حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں بری باتیں سن کر صبر کرنے میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی کامل نہیں ۔ لوگ اس کی اولاد بتائیں اور وہ انہیں رزق و عافیت دیتا رہے پھر فرمایا ہر چیز اس کی اطاعت گزار ہے اس کی غلامی کا اقرار کئے ہوئے ہے اس کے لئے مخلص ۔ اس کی سرکار میں قیامت کے روز دست بستہ کھڑی ہونے والی اور دنیا میں بھی عبادت گزار ہے جس کو کہے یوں ہو جاؤ یا اس طرح بن ۔ فوراً وہ اسی طرح ہو جاتی اور بن جاتی ہے ۔ اس طرح ہر ایک اس کے سامنے پست و مطیع ہے کفار نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے مطیع ہیں ہر موجود کے سائے اللہ کے سامنے جھکتے رہتے ہیں ، قرآن نے اور جگہ فرمایا آیت ( وللہ یسجد ) الخ آسمان و زمین کی کل چیزیں خوشی ناخوشی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہیں ان کے سائے صبح شام جھکتے رہتے ہیں ایک حدیث میں مروی ہے کہ جہاں کہیں قرآن میں قنوت کا لفظ ہے وہاں مراد اطاعت ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ممکن ہے صحابی کا یا اور کسی کا کلام ہو اس سند سے اور آیتوں کی تفسیر بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ضعیف ہے کوئی شخص اس سے دھوکہ میں نہ پڑے واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا وہ آسمان و زمین کو بغیر کسی سابقہ نمونہ کے پہلی ہی بار کی پیدائش میں پیدا کرنے والا ہے لغت میں بدعت کے معنی نو پیدا کرنے نیا بنانے کے ہیں حدیث میں ہے ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے یہ تو شرعی بدعت ہے کبھی بدعت کا اطلاق صرف لغتہً ہوتا ہے شرعاً مراد نہیں ہوتی ۔ جیسے حضرت عمر نے لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کیا اور پھر اسے اسی طرح جاری دیکھ کر فرمایا تھا اچھی بدعت ہے بدیع کا منبع سے تصرف کیا گیا ہے جیسے مولم سے الیم اور مسمیع سے سمیع معنی متبدع کے انشا اور نو پیدا کرنے والے کے ہیں بغیر مثال بغیر نمونہ اور بغیر پہلی پیدائش کے پیدا کرنے والے بدعتی کو اس لئے بدعتی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اللہ کے دین میں وہ کام یا وہ طریقہ ایجاد کرتا ہے جو اس سے پہلے شریعت میں نہ ہو اسی طرح کسی نئی بات کے پیدا کرنے والے کو عرب مبتدع کہتے ہیں امام ابن جریر فرماتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے وہ آسمان و زمین کی تمام چیزوں کا مالک ہے ہر چیز اس کی وحدانیت کی دلیل ہے ہر چیز اس کی اطاعت گزاری کا اقرار کرتی ہے ۔ سب کا پیدا کرنے والا ، بنانے والا ، موجود کرنے والا ، بغیر اصل اور مثال کے انہیں وجود میں لانے والا ، ایک وہی رب العلمین ہے اس کی گواہی ہر چیز دیتی ہے خود مسیح علیہ السلام بھی اس کے گواہ اور بیان کرنے والے ہیں جس رب نے ان تمام چیزوں کو بغیر نمونے کے اور بغیر مادے اور اصل کے پیدا کیا اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بےباپ پیدا کر دیا پھر کوئی وجہ نہیں کہ انہیں تم خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا مان لو پھر فرمایا اس اللہ کی قدرت سلطنت سطوت و شوکت ایسی ہے کہ جس چیز کو جس طرح کی بنانا اور پیدا کرنا چاہئے اسے کہ دیتا ہے کہ اس طرح کی اور ایسی ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے جیسے فرمایا آیت ( اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 36 ۔ یس:82 ) دوسری جگہ فرمایا آیت ( اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 16 ۔ النحل:40 ) اور ارشاد ہوتا ہے آیت ( وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ ) 54 ۔ القمر:50 ) شاعر کہتا ہے ۔ اذا ما اراد اللہ امرا فانما یقول لہ کن قولتہ فیکون مطلب اس کا ہے کہ ادھر کسی چیز کا اللہ نے ارادہ فرمایا اس نے کہا ہو جا وہیں وہ ہو گیا اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں پس مندرجہ بالا آیت میں عیسائیوں کو نہایت لطیف پیرا یہ ہیں یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں دسری جگہ صاف صاف فرما دیا آیت ( اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 3 ۔ آل عمران:59 ) یعنی حضرت عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم جیسی ہے جنہیں مٹی سے پیدا کیا پھر فرمایا ہو جا وہ ہو گئے ۔
[١٣٧] یہود کہتے ہیں کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) اللہ کا بیٹا ہے۔ اور مشرکین کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اس کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمانوں، اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملک اور وہ ان کا مالک ہے۔ لہذا تمام اشیاء مملوک ہوئیں اور بیٹا شریک ہوتا ہے مملوک نہیں ہوتا۔ لہذا اللہ کی اولاد ہونا ناممکن ٹھہرا، اور ایک حدیث صحیح قدسی میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بنو آدم نے مجھے جھٹلایا اور گالی دی۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ میں اسے دوبارہ پیدا نہ کرسکوں گا اور اسکا گالی دینا یہ ہے جو اس نے میرے لیے بیوی اور بیٹا تجویز کیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورة اخلاص)
اللہ کی مسجدوں سے روکنے والوں کا یہ ایک اور ظلم بیان فرمایا کہ انھوں نے کہا، اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے۔ چناچہ یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قراردیا، اسی طرح مشرکین عرب نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے اس کا رد فرمایا، پہلے ” سبحانہ “ کے ساتھ کہ اولاد تو محتاجی کی دلیل ہے اور اللہ اس سے پاک ہے۔ (دیکھیے سورة بنی اسرائیل : ١١١) ۔ دوسرے یہ کہ اللہ آسمان و زمین کا مالک ہے، جس میں عزیر (علیہ السلام) ، مسیح (علیہ السلام) اور فرشتے سب شامل ہیں۔ مالک اور مملوک باپ بیٹا کیسے ہوسکتے ہیں بیٹا تو باپ کا مملوک بن بھی جائے تو خود بخود آزاد ہوجاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ بیٹا سرکشی بھی کرسکتا ہے، جب کہ آسمان و زمین میں رہنے والے سب اللہ کے فرمان کے تابع ہیں، ان کا سانس بھی اس کے حکم کے بغیر نہیں چلتا۔
خلاصہ تفسیر :- (بعض یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور مشرکین عرب ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں جیسا مختلف آیات میں ان اقوال کی خبر دی گئی ہے حق تعالیٰ اس قول کی قباحت اور بطلان کا بیان فرماتے ہیں، یعنی) اور یہ لوگ (مختلف عنوان سے) کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اولاد رکھتا ہے سبحان اللہ (کیا مہمل بات ہے) بلکہ (ان کے تو اولاد ہونا عقلاً ممکن نہیں کیونکہ دو حال سے خالی نہیں یا تو اولاد غیر جنس ہوگی اور یا ہم جنس ہوگی اگر غیر جنس ہو تب تو ناجنس اولاد ہونا عیب ہے اور حق تعالیٰ عیب پاک ہیں عقلا بھی جیسا مسلم ہے اور نقلاً بھی جیسا سبحانہ مذکور کا بھی مدلول ہے اور اگر ہم جنس ہو تو اس لئے باطل ہے کہ حق تعالیٰ کا کوئی ہم جنس نہیں کیونکہ جو صفات کمال لوازم ذات واجبہ سے ہیں وہ اللہ کے ساتھ مخصوص اور غیر اللہ میں معدوم ہیں اور لازم کی نفی ملزوم کی نفی کی دلیل ہے اس لئے غیر اللہ ذات واجب نہ ہوگا اور وجوب خود عین حقیقت یا لازم حقیقت ہے پس کوئی غیر اللہ اللہ کے ساتھ حقیقت میں شریک نہ ہوا لہذا ہم جنس ہونا بھی باطل ہوگیا اب صفات کمال صرف حق تعالیٰ ہی کے ساتھ مختص ہونے کی دلیلیں مذکور ہوتی ہیں اول یہ کہ) خاص اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں (موجودات) ہیں ( اور دوسرے یہ کہ مملوک ہونے کے ساتھ) سب ان کے محکوم (بھی) ہیں (بایں معنی کہ ان کے تصرفات قدرت جیسے مارنا جلانا وغیرہ کو کوئی نہیں ہٹا سکتا گو احکام شرعیہ کو کوئی ٹال دے اور تیسرے یہ کہ حق تعالیٰ ) موجد (بھی) ہیں آسمانوں اور زمین کے اور (چوتھے یہ ایجاد کی بھی قدرت ایسی عظیم وعجیب ہے کہ) جب کسی کام کا (مثلا پیدا ہی کرنا ہے) پورا کرنا چاہتے ہیں تو بس (اتنی بات ہے کہ) اس کو (اتنا) فرما دیتے ہیں کہ ہوجا بس وہ (اسی طرح) ہوجاتا ہے (ان کو آلات و اسباب اور صناعوں اور معینوں کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ چاروں امر بجز حق تعالیٰ کے کسی میں نہیں پائے جاتے اور یہ مدعیان اولاد کے بھی مسلمات سے تھا پس دلیل سے مقدمہ اختصاص بھی ثابت ہو کر حجت تمام ہوگئی) - فوائد : - ١۔ خاص خاص کاموں پر خاص خاص ملائکہ کو مقرر کرنا مثلاً بارش، رزق وغیرہ اور اسی طرح اسباب اور مواد اور قوی سے کام لینا یہ سب کسی حکمت خداوندی پر مبنی ہوتا ہے اس لئے نہیں کہ لوگ انہیں اسباب وقوات کو حاجت روا مان کر استعانت ومدد کے طبگار ہوں،- ٢۔ بیضاوی نے کہا ہے کہ پہلی شرائع میں اللہ تعالیٰ کو سبب اول ہونے کی وجہ سے باپ کہا کرتے تھے جاہلوں نے ولادت کے معنی سمجھ لئے اس لئے یہ عقیدہ رکھنا یا ایسا کہنا کفر قرار دیا گیا دفع فساد کی مصلحت سے اب ایسے لفظ کے استعمال کی بالکل اجازت نہیں۔
وَقَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا ٠ ۙ سُبْحٰنَہٗ ٠ ۭ بَلْ لَّہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ ١١٦- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11]- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- قنت - القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ- [ البقرة 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] قيل : خاضعون، وقیل :- طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً- [ النحل 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ- [ الأحزاب 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] .- ( ق ن ت ) القنوت - ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں
قول باری ہے : وقال اتخذ اللہ ولداً سبحانہ بل لہ ما فی السموت والارض (ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اللہ پاک ہے۔ ان باتوں سے، اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں)- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ انسان کی اپنے بیٹے پر ملکیت باقی نہیں رہتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول : بل لہ ما فی السموت والارض سے ملکیت کے اثبات کے ذریعے ولد کی نفی کردی، یعنی بیٹا اللہ کی ملکیت ہوتا ہے اللہ کا بیٹا نہیں ہوتا۔ یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے : وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولداً ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمٰن عبداً (رحمٰن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں) یہ بات اس امر کی مقتضی ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کا مالک بن جائے تو وہ اس پر آزاد ہوجائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس جیسا حکم والد کے بارے میں جاری کیا ہے جب بیٹا اس کا مالک بن جائے۔ چناچہ آپ نے فرمایا :” کوئی بیٹا اپنے باپ کو اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا۔ الا یہ کہ وہ اسے مملوک پائے اور پھر اسے خرید کر آزاد کردے۔ “ اس طرح آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کا مالک بنے تو وہ اس پر آزاد ہوجائے گا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس امر کا مقتضی ہے کہ بیٹا جب اپنے باپ کا مالک بنے تو وہ اس پر آزاد ہوجائے گا۔- بعض بےعلم لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اگر بیٹا اپنے باپ کا مالک بن جائے تو وہ اس وقت تک اس پر آزاد نہیں ہوگا جب تک بیٹا اسے آزاد نہ کرے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” وہ اسے خرید لے اور پھر آزاد کر دے۔ “ یہ بات ملکیت کے بعد ایک نئے عتق کی مقتضی ہے جو لغت اور عرف کے اعتبار سے لفظ کے حکم سے جہالت پر مبنی ہے۔ کیونکہ مذکورہ الفاظ سے یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ :” بیٹا اسے خریدے اور آزاد کر دے۔ “ اس لئے کہ آپ نے یہ بتادیا کہ اس کی خریداری اس کے عتق کی موجب ہے۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی طرح ہے : لوگ دو ٹولیوں میں اپنے گھروں سے صبح کے وقت نکلتے ہیں۔ ایک وہ ہوتا ہے جو اپنی ذات فروخت کر کے اسے ہلاک کردیتا ہے اور ایک وہ ہوتا ہے جو اپنی ذات خرید کر کے اسے آزاد کردیتا ہے۔ “ اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ خریداری کے ذریعے اسے آزاد کردیتا ہے۔ نہ کہ اس کے بعد نئے سرے سے آزادی دے کر اسے آزاد - ١ ؎ غلام بیٹے کا مالک بن جانا مراد ہے۔ اسی طرح باپ کا مالک بن جانے سے غلام باپ کا مالک بن جانا مراد ہے (ادارہ) کرتا ١ ؎ ہے۔
(١١٦) اب یہود اور نصاری کا مقالہ بیان کررہے ہیں کہ یہود حضرت عزیر کو حق تعالیٰ کا بیٹا اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اولاد اور شریک سے پاک ہے، جیسا تم کہتے ہو ایسا نہیں ہے بلکہ زمین و آسمان میں جتنی بھی مخلوق ہے وہ سب کی سب اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے، سب کے سب اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی توحید کے قائل ہیں، زمین و آسمان کے وجود اور اس کی مثال سے پہلے حق تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے ،
آیت ١١٦ (وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًالا سُبْحٰنَہٗ ط) - ظاہر بات ہے یہاں پھر اہل مکہ ہی کی طرف اشارہ ہو رہا ہے جن کا یہ قول تھا کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد اختیار کی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ نصاریٰ کہتے تھے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں ‘ اور یہودیوں کا بھی ایک گروہ ایسا تھا جو حضرت عزیر ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتا تھا۔- (بَلْ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط) - سب مخلوق اور مملوک ہیں ‘ خالق اور مالک صرف وہ ہے ۔- (کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ ) ۔ - بڑے سے بڑا رسول ہو یا بڑے سے بڑا ولی یا بڑے سے بڑا فرشتہ یا بڑے بڑے اجرام سماویہ ‘ سب اسی کے حکم کے پابند ہیں۔