تحویل کعبہ ایک امتحان بھی تھا ۔ اور تقرر جہت بھی بیوقوفوں سے مراد یہاں مشرکین عرب اور علماء یہود اور منافقین وغیرہ ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن خود آپ کی چاہت یہ تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ شریف ہو ۔ چنانچہ اب حکم آ گیا اور آپ نے عصر کی نماز اس کی طرف ادا کی ۔ آپ کے ساتھ کے نمازیوں میں سے ایک شخص کسی اور مسجد میں پہنچا ، وہاں جماعت رکوع میں تھی اس نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نماز پڑھ کر ابھی آ رہا ہوں ۔ جب ان لوگوں نے سنا تو اسی حالت میں وہ کعبہ کی طرف گھوم گئے ، اب بعض لوگوں نے یہ کہا کہ جو لوگ اگلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں ان کی نمازوں کا کیا حال ہے ۔ تب یہ فرمان نازل ہوا کہ ( وما کان اللہ ) الخ یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت ( قدنری ) الخ یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت جس پر فرمان ( ماکان اللہ ) الخ نازل ہوا اور ان کی نمازوں کی طرف سے اطمینان ہوا ۔ اب بعض بیوقوف اہل کتاب نے قبلہ کے بدلے جانے پر اعتراض کیا ، جس پر یہ آیتیں ( سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ ) الخ نازل ہوئیں شروع ہجرت کے وقت مدینہ شریف میں آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا کرنے کا حکم ہوا تھا ۔ یہود اس سے خوش تھے لیکن آپ کی چاہت اور دعا قبلہ ابراہیمی کی تھی ۔ آخر جب یہ حکم نازل ہوا تو یہودیوں نے جھٹ سے اعتراض جڑ دیا ۔ جس کا جواب ملا کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں خلاصہ یہ ہے کہ مکہ شریف میں آپ دونوں رکن کے درمیان نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سامنے کعبہ ہوتا تھا اور بیت المقدس کے صخرہ کی طرف آپ کا منہ ہوتا تھا ، لیکن مدینہ جا کر یہ معاملہ مشکل ہو گیا ۔ دونوں جمع نہیں ہو سکتے تھے تو وہاں آپ کو بیت المقدس کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم قرآن میں نازل ہوا تھا یا دوسری وحی کے ذریعہ یہ حکم ملا تھا ۔ بعض بزرگ تو کہتے ہیں یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہادی امر تھا اور مدینہ آنے کے بعد کئی ماہ تک اسی طرف آپ نمازیں پڑھتے رہے گو چاہت اور تھی ۔ یہاں تک کہ پروردگار نے بیت العتیق کی طرف منہ پھیرنے کو فرمایا اور آپ نے اس طرف منہ کر کے پہلے نماز عصر پڑھی اور پھر لوگوں کو اپنے خطبہ میں اس امر سے آگاہ کیا ۔ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ ظہر کی نماز تھی ۔ حضرت ابو سعید بن معلی فرماتے ہیں میں نے اور میرے ساتھی نے اول اول کعبہ کی طرف نماز پڑھی ہے اور ظہر کی نماز تھی بعض مفسرین وغیرہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قبلہ بدلنے کی آیت نازل ہوئی ۔ اس وقت آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے ، دو رکعت ادا کر چکے تھے پھر باقی کی دو رکعتیں آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف پڑھیں ، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام ہی مسجد ذو قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد ہے ۔ حضرت نویلہ بنت مسلم فرماتی ہیں کہ ہم ظہر کی نماز میں تھے جب ہمیں یہ خبر ملی اور ہم نماز میں ہی گھوم گئے ۔ مرد عورتوں کی جگہ آگئے اور عورتیں مردوں کی جگہ جا پہنچیں ۔ ہاں اہل قبا کو دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت یہ خبر پہنچی بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے ۔ اچانک کسی آنے والے نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رات کو حکم قرآنی نازل ہوا اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم ہو گیا ۔ چنانچہ ہم لوگ بھی شام کی طرف سے منہ ہٹا کر کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناسخ کے حکم کا لزوم اسی وقت ہوتا ہے ۔ جب اس کا علم ہو جائے گو وہ پہلے ہی پہنچ چکا ہو ۔ اس لئے کہ ان حضرات کو عصر مغرب اور عشا کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا ۔ واللہ اعلم ۔ اب باطل پرست کمزور عقیدے والے باتیں بنانے لگے کہ اس کی کیا وجہ ہے کبھی اسے قبلہ کہتا ہے کبھی اسے قبلہ قرار دیتا ہے ۔ انہیں جواب ملا کہ حکم اور تصرف اور امر اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جدھر منہ کرو ۔ اسی طرف اس کا منہ ہے بھلائی اسی میں نہیں آ گئی بلکہ اصلیت تو ایمان کی مضبوطی ہے جو ہر حکم کے ماننے پر مجبور کر دیتی ہے اور اس میں گویا مومنوں کو ادب سکھایا گیا ہے کہ ان کا کام صرف حکم کی بجا آوری ہے جدھر انہیں متوجہ ہونے کا حکم دیا جائے یہ متوجہ ہو جاتے ہیں اطاعت کے معنی اس کے حکم کی تعمیل کے ہیں اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ ہر طرف گھمائے تو ہم بخوشی گھوم جائیں گے ہم اس کے غلام ہیں ہم اس کے ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہیں اور اس کے خادم ہیں جدھر وہ حکم دے گا پھیر لیں گے ۔ امت محمدیہ پر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے کہ انہیں خلیل الرحمن علیہ السلام کے قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا جو اسی اللہ لا شریک کے نام پر بنایا گیا ہے اور تمام تر فضیلتیں جسے حاصل ہیں ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث ہے کہ یہودیوں کو ہم سے اس بات پر بہت حسد ہے کہ اللہ نے ہمیں جمعہ کے دن کی توفیق دی اور یہ اس سے بھٹک گئے اور اس پر کہ ہمارا قبلہ یہ ہے اور وہ اس سے گمراہ ہو گئے اور بڑا حسد ان کو ہماری آمین کہنے پر بھی ہے جو ہم امام کے پیچھے کہتے ہیں
142۔ 1 جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے گئے 16 17 مہینے تک بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے جو قبلہ ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر بھی اٹھاتے۔ بلآخر اللہ تعالیٰ نے تحویل کعبہ کا حکم دے دیا جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچایا حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے اسی طرح کرنے کا پابند ہوتا ہے اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا اسی طرف پھرجانا ضروری تھا علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق اور مغرب ساری سمتیں اسی کی ہیں اس لئے سمتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہر سمت میں اللہ کی عبادت ہوسکتی ہے بشرطیکہ اس سمت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل کعبہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی۔
[١٧٤] تحویل قبلہ کے ضمن میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تمام امت مسلمہ کے لیے قبلہ اول خانہ کعبہ ہی تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اسے تعمیر کیا تو بھی یہی قبلہ تھا اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے تعمیر کیا تو اس وقت بھی یہی قبلہ تھا۔ مگر جب سلیمان (علیہ السلام) نے ہیکل سلیمانی تعمیر کیا۔ تو اس وقت تابوت سکینہ صخرہ پر پڑا رہتا تھا اور بنی اسرائیل اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے مستقل طور پر اسے ہی اپنا قبلہ بنا لیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی گرفت نہ ہوئی تھی۔ لہذا یہ قبلہ شرعاً بھی درست سمجھا گیا۔ مگر یہ صرف بنی اسرائیل ہی کا قبلہ تھا۔ مکہ کے مشرکین کا نہ تھا۔ وہ کعبہ کی ہی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔- چونکہ مشرکین مکہ کے بجائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل کتاب کو بہتر سمجھتے تھے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف رخ کرنا مناسب سمجھا تاکہ مشرکین مکہ کے قبلہ سے امتیاز ہو سکے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس عمل کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی طرف منسوب کیا :۔ جیسا کہ آیت (وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ ١٤٣۔ ) 2 ۔ البقرة :143) سے واضح ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے یا قبلہ بنانے کا حکم قرآن یا حدیث میں صراحتاً کہیں مذکور نہیں۔ ممکن ہے کہ وحی خفی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بصیرت سے ہی بیت المقدس قبلہ بنانے کا طرز عمل اختیار کیا ہو وہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقرار (سکوت) ہو تو بھی وحی تقریری کا حکم رکھتا ہے۔ بہرحال بیت المقدس کی طرف مسلمانوں کے رخ کر کے نماز ادا کرنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا ہی حکم قرار دیا ہے۔- دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ کسی قوم کے قبلہ کو تسلیم کرلینا فی الحقیقت اس قوم کی قیادت و امامت کو تسلیم کرلینے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو ابتدائی دور میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا تو اس کی ایک وجہ تو بوجہ شرک مشرکین مکہ کی مخالفت تھی، دوسرے اس میں مسلمانوں کا امتحان بھی مقصود تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت (لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ ) اور وہ امتحان اس طرح تھا کہ ہر قوم کو اپنے شعائر سے انتہائی عقیدت ہوتی ہے اور مکہ میں اسلام لانے والے چونکہ مشرکین مکہ میں سے ہی ہوتے تھے۔ اس لیے فی الواقعہ ان کا اس بات میں بھی امتحان تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کتنی فراخدلی سے اپنا آبائی قبلہ (کعبہ) کو چھوڑ کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بناتے ہیں۔- ہجرت کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ پہنچے تو اب صورت حال بالکل مختلف تھی۔ مسلمانوں کی ایک آزاد چھوٹی سی ریاست وجود میں آچکی تھی اور اب بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھنا ذہنی طور پر یہود کی امامت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ لہذا اب آپ یہ چاہتے تھے کہ حقیقی قبلہ اول یعنی خانہ کعبہ ہی مستقل طور پر مسلمانوں کا قبلہ قرار پائے اور اس توقع میں کئی بار آسمان کی طرف رخ پھیرتے کہ شائد کسی وقت جبرئیل ایسا حکم لے کر نازل ہو۔ چناچہ براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھی لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے یہ تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو۔ چناچہ ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی اور لوگوں نے بھی پڑھی۔ پھر ان میں سے ایک شخص جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا۔ دوسری مسجد والوں پر گزرا جبکہ وہ نماز ادا کر رہے تھے۔ اس نے کہا اللہ گواہ ہے میں نے ابھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ (کعبہ) کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے۔ تو اسی حالت میں کعبہ کی طرف گھوم گئے (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ) یہی مسجد بعد میں مسجد قبلتین کے نام سے مشہور ہوئی۔- تحویل قبلہ کا دراصل مطلب یہ تھا کہ اب بیت المقدس کی مرکزیت ختم ہوچکی اور آئندہ ہمیشہ کے لیے خانہ کعبہ کو امت مسلمہ کا مرکز قرار دے دیا گیا۔ اب اس تحویل قبلہ کا یہود پر منفی اثر ہونا ایک لازمی امر تھا۔ چناچہ یہی براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ جن نادانوں (تنگ نظر لوگوں) نے یہ اعتراض کیا تھا کہ مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا ہے۔ یہ یہودی لوگ تھے۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب التوجہ نحوالقبلۃ) چناچہ یہود نے اس واقعہ کو بھی ایک بنیاد بنا کر ضعیف الاعتقاد اور کم فہم مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کردیئے۔- [ ١٧٥] یہود کے اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے نہایت خوبصورت انداز میں پیش کردیا۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہیے کہ مشرق بھی اللہ کے لیے ہے اور مغرب بھی۔ اس نے بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم دیا تو ہم نے اس کو تسلیم کرلیا اور اب کعبہ کو قبلہ بنایا تو بھی ہم نے تسلیم کرلیا اور اللہ کا حکم تسلیم کرلینا ہی سیدھی راہ ہے اور یہ راہ وہ جسے چاہے دکھا دے۔
براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے، پھر آپ کو بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا۔ [ بخاری، أخبار الأحاد،- باب ما جاء فی إجازۃ ۔۔ : ٧٢٥٢ ] - اس پر یہود، منافقین اور مشرکین سبھی نے اعتراضات شروع کردیے کہ اگر وہ پہلا قبلہ درست تھا تو اسے بدلنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اور اگر یہ درست ہے تو اتنی دیر بیت المقدس قبلہ کیوں رہا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ یہ لوگ بےوقوفی کی وجہ سے ایسی باتیں کہہ رہے ہیں، مشرق یا مغرب کی اپنی کچھ حیثیت نہیں کہ ان کی طرف منہ کرنا باعث ثواب ہو، بلکہ اصل چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرماں برداری ہے، کیونکہ مشرق و مغرب دونوں کا مالک وہی ہے۔ وہ جب چاہے، جدھر چاہے منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دے سکتا ہے۔ تمہارا کام حکم ماننا ہے، کیونکہ صراط مستقیم وہی ہے جس کا وہ حکم دے، مگر اس پر چلنے کی توفیق وہ جسے چاہے دیتا ہے، جو توفیق سے محروم ہیں وہ بےوقوفی سے بےکار باتیں بناتے رہتے ہیں، اس آیت : (لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ ) [ البقرۃ : ١٧٧] میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔
خلاصہ تفسیر :- (جب کعبہ قبلہ نماز مقرر ہو کر یہود کا قبلہ متروک ہوگیا تو بوجہ ناگواری کے) اب تو (یہ) بیوقوف لوگ ضرور ہی کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو ان کے (سابق سمیت) قبلہ سے (کہ بیت المقدس تھا) جس طرف پہلے متوجہ ہوا کرتے تھے کس بات نے (دوسری سمت کی طرف) بدل دیا آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ سب (سمتیں خواہ) مشرق ہو اور (خواہ) مغرب (ہو) اللہ ہی ملک ہیں (خدا تعالیٰ کو مالکانہ اختیار ہے جس سمت کو چاہیں مقرر فرمادیں کسی کو منصب علت دریافت کرنے کا نہیں ہے اور سیدھا طریق احکام شرعیہ کے باب میں یہی اعتقاد ہے لیکن بعضوں کو اس راہ کے اختیار کرنے کی توفیق نہیں ہوتی خواہ مخواہ علتیں ڈھونڈتے پھرا کرتے ہیں البتہ) جس کو خدا ہی (اپنے فضل سے) چاہیں (یہ) سیدھا طریق بتلا دیتے ہیں، - معارف و مسائل :- اس آیت میں میں مخالفین کا اعتراض درباہ تحویل قبلہ نقل کرکے اس کا جواب دیا گیا ہے اس اعتراض اور جواب سے پہلے قبلہ کی حقیقت اور اس کی مختصر تاریخ سن لیجئے جس سے سوال و جواب کا سمجھنا آسان ہوجائے گا،- قبلہ کے لفظی معنی ہیں سمت توجہ یعنی جس طرف رخ کیا جائے یہ ظاہر ہے کہ مومن کا رخ ہر عبادت میں صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف ہوتا ہے اور اس کی ذات پاک مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کی قیدوں اور سمتوں سے بالاتر ہے وہ کسی خاص سمت میں نہیں اس کا اثر طبعی طور پر یہ ہونا تھا کہ کوئی عبادت کرنے والا کسی خاص رخ کا پابند نہ ہوتا جس کا جس طرف جی چاہتا نماز میں اپنا رخ اس طرف کرلیتا اور ایک ہی آدمی کسی وقت ایک طرف اور کسی وقت کئی طرف رخ کرتا تو وہ بھی بےجا نہ ہوتا،- لیکن ایک دوسری حکمت الہیہ اس کی مقتضی ہوئی کہ تمام عبادت گذاروں کا رخ ایک ہی طرف ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ عبادت کی مختلف قسمیں ہیں بعض انفرادی ہیں بعض اجتماعی ذکر اللہ اور روزہ وغیرہ انفرادی عبادات ہیں جن کو خلوت میں اور اخفاء کے ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے اور نماز اور حج اجتماعی عبادات ہیں جن کو جماعت و اجتماع و اعلان کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے ان میں عبادت کے ساتھ مسلمانوں کو اجتماعی زندگی کے آداب کا بتلانا اور سکھانا بھی پیش نظر ہے اور یہ بھی بالکل ظاہر ہے کہ اجتماعی نظام کا سب سے بڑا بنیادی اصول افراد کثیرہ کی وحدت اور یک جہتی ہے، یہ وحدت جتنی زیادہ قوی سے قوی ہوگی اتنا ہی اجتماعی نظام مستحکم اور مضبوط ہوگا انفرادیت اور تشتت اجتماعی نظام کے لئے سم قاتل ہے پھر نقطہ وحدت متعین کرنے میں ہر قرن ہر زمانہ کے لوگوں کی مختلف راہیں رہی ہیں کسی قوم نے نسل اور نسب کو نقطہ وحدت قرار دیا کسی نے وطن اور جغرافیائی خصوصیات کو کسی نے رنگ اور زبان کو،- لیکن دین الہی اور شرائع انبیاء (علیہم السلام) نے ان غیر اختیاری چیزوں کو نقطہ وحدت بنانے کے قابل نہیں سمجھا اور نہ درحقیقت یہ چیزیں ایسی ہیں جو پورے افراد انسانی کو کسی ایک مرکز پر جمع کرسکیں بلکہ جتنا غور کیا جائے یہ وحدتیں درحقیقت افراد انسانی کو بہت سی کثرتوں میں تقسیم کر ڈالنے اور آپس میں ٹکراؤ اور اختلافات کے اسباب ہیں، - دین اسلام نے جو درحقیقت تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین ہے وحدت کا اصل نقطہ فکر و خیال اور عقیدہ کی وحدت کو قرار دیا اور کروڑوں خداؤں کی پرستش میں بٹی ہوئی دنیا کو ایک ذات حق وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی جس پر مشرق ومغرب اور ماضی و مستقبل کے تمام افراد انسانی جمع ہوسکتے ہیں پھر اس حقیقی فکری اور نظری وحدت کو عملی صورت اور قوت دینے کے لئے کچھ ظاہری وحدتیں بھی ساتھ لگائی گئیں مگر ان ظاہری وحدتوں میں بھی اصول یہ رکھا گیا کہ وہ عملی اور اختیاری ہوں تاکہ تمام افراد انسانی ان کو اختیار کرکے ایک رشتہ اخوت میں منسلک ہوسکیں نسب، وطن، زبان، رنگ وغیرہ اختیاری چیزیں نہیں ہیں جو شخص ایک خاندان کے اندر پیدا ہوچکا ہے وہ کسی طرح دوسرے خاندان میں پیدا نہیں ہوسکتا جو پاکستان میں پیدا ہوچکا وہ انگلستان یا افریقہ میں پیدا نہیں ہوسکتا جو کالا ہے وہ اپنے اختیار سے گورا اور جو گورا ہے وہ اپنے اختیار سے کالا نہیں ہوسکتا،- اب اگر ان چیزوں کو مزکز وحدت بنایا جائے تو انسانیت کا سیکڑوں بلکہ ہزاروں ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم ہوجانا ناگریز ہوگا اس لئے دین اسلام نے ان چیزوں سے جن سے تمدنی مفاد وابستہ ہیں ان کا پورا احترام رکھتے ہوئے ان کو وحدت انسانی کا مرکز نہیں بننے دیا کہ یہ وحدتیں افراد انسانی کو مختلف کثرتوں میں بانٹنے والی ہیں ہاں اختیاری امور میں اس کی پوری رعایت رکھی کہ فکری وحدت کے ساتھ عملی اور صوری وحدت بھی قائم ہوجائے مگر اس میں بھی اس کا پورا لحاظ رکھا گیا کہ مرکز وحدت ایسی چیزیں بنائی جائیں جن کا اختیار کرنا ہر مرد و عورت لکھے پڑھے اور ان پڑھ شہری اور دیہاتی امیر و غریب کو یکساں طور پر آسان ہو، یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلام نے تمام دنیا کے لوگوں کو لباس اور مسکن کھانے اور پینے کے کسی ایک طریقہ کا پابند نہیں کہا کہ ہر جگہ کے موسم اور طبائع مختلف اور ان کے ضروریات مختلفہ ہیں سب کو ایک ہی طرح کے لباس یا شعار (یونیفارم) کا پابند کردیا جائے تو بہت سی مشکلات پیش آئیں گی پھر اگر یہ یونیفارم کم سے کم تجویز کردیا جائے تو یہ اعتدال انسانی پر ظلم ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے عمدہ لباس اور عمدہ کپڑوں کی بےحرمتی ہوگی اور اگر اس سے زائد کسی لباس کا پابند کیا جائے تو غریب مفلس لوگوں کو مشکلات پیش آئیں گی، - اس لئے شریعت اسلام نے مسلمانوں کا کوئی ایک شعار (یونیفارم) مقرر نہیں کیا بلکہ مختلف قوموں میں جو طریقے اور اوضاع لباس کی رائج تھیں ان سب پر نظر کرکے ان میں سے جو صورتیں اسراف بیجا یا فخر وغیرہ یا کسی غیر مسلم قوم کی نقالی پر مبنی تھیں صرف ان کو ممنوع قرار دے کر باقی چیزوں میں ہر فرد اور ہر قوم کو آزاد اور خود مختار رکھا مرکز وحدت ایسی چیزوں کو بنایا گیا جو اختیاری بھی ہوں اور آسان اور سستی بھی ان چیزوں میں جیسے جماعت نماز کی صف بندی ایک امام کی نقل و حرکت کی مکمل پابندی حج میں لباس اور مسکن کا اشتراک وغیرہ ہیں، - اسی طرح ایک اہم چیز سمت قبلہ کی وحدت بھی ہے کہ اگرچہ اللہ جل شانہ کی ذات پاک ہر سمت وجہت سے بالاتر ہے اس کے لئے شش جہت یکساں ہیں لیکن نماز میں اجتماعی صورت اور وحدت پیدا کرنے کے لئے تمام دنیا کے انسانوں کا رخ کسی ایک ہی جہت وسمت کی طرف ہونا ایک بہترین اور آسان اور بےقیمت وحدت کا ذریعہ ہے جس پر سارے مشرق ومغرب اور جنوب و شمال کے انسان آسانی سے جمع ہوسکتے ہیں اب وہ ایک سمت وجہت کونسی ہو جس کی طرف ساری دنیا کا رخ پھیر دیا جائے اس کا فیصلہ اگر انسانوں پر چھوڑا جائے تو یہ ایک سب سے بڑی بناء اختلاف ونزاع بن جاتی ہے اس لئے ضرور تھا کہ اس کا تعین خود حضرت حق جل وعلا شانہ کی طرف سے ہوتا حضرت آدم (علیہ السلام) کو دنیا میں اتارا گیا تو فرشتوں کے ذریعہ بیت اللہ کعبہ کی بنیاد پہلے ہی رکھ دی گئی تھی حضرت آدم (علیہ السلام) اور اولاد آدم (علیہ السلام) کا سب سے پہلا قبلہ یہی بیت اللہ اور خانہ کعبہ بنایا گیا،- اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ للنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ (٩٦: ٣) سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ گھر ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہدایت والا جہان والوں کیلئے نوح (علیہ السلام) تک سب کا قبلہ یہی بیت اللہ تھا طوفان نوح (علیہ السلام) کے وقت پوری دنیا غرق ہو کر تباہ ہوگئی بیت اللہ کی عمارت بھی منہدم ہوگئی اور ان کے بعد حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے دوبارہ بحکم خداوندی بیت اللہ کی تعمیر کی اور یہی ان کا اور ان کی امت کا قبلہ رہا اس کے بعد انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کے لئے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا گیا اور بقول ابو العالیہ انبیاء سابقین جو بیت المقدس میں نماز پڑہتے تھے وہ بھی عمل ایسا کرتے تھے کہ صخرہ بیت المقدس بھی سامنے رہے اور بیت اللہ بھی (ذکرہ القرطبی) - حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب نماز فرض کی گئی تو بقول بعض علماء ابتدا آپ کا قبلہ آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ یعنی خانہ کعبہ ہی قرار دیا گیا مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے اور مدینہ طیبہ میں قیام کرنے کے بعد اور بعض روایات کے اعتبار سے ہجرت مدینہ سے کچھ پہلے آپ کو اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ آپ بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنائیے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سولہ سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز ادا فرمائی مسجد نبوی میں آج تک اس کی علامات موجود ہیں جہاں کھڑے ہو کر آپ نے بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا فرمائی تھیں (قرطبی) - حکم خداوندی کی تعمیل کے لئے تو سید الرسل سر تاپا اطاعت تھے اور حکم خداوندی کے مطابق نمازیں بیت المقدس کی طرف ادا فرما رہے تھے لیکن آپ کی طبعی رغبت اور دلی خواہش یہی تھی کہ آپ کا قبلہ پھر وہی آدم (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ قرار دے دیا جائے اور چونکہ عادۃ اللہ یہی ہے کہ وہ اپنے مقبول بندوں کی مراد اور خواہش ورغبت کو پورا فرماتے ہیں،- تو چناں خواہی خدا خواہد چنیں - می دہد یزداں مراد متقیں - آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہ امید تھی کہ آپ کی تمنا پوری کی جائے گی اور اس لئے انتظار وحی میں آپ بار بار آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے تھے اسی کا بیان قرآن کی اس آیت میں ہے، قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَ آفَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (١٤٤: ٢) ہم دیکھ رہے ہیں آپ کا بارہا آسمان کی طرف نظر اٹھانا سو ہم آپ کا قبلہ وہی بدل دیں گے جو آپ کو پسند ہے اس لئے آئندہ آپ نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کیا کریں، - اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمنا کا اظہار فرما کر اس کو پورا کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے کہ آئندہ آپ مسجد حرام کی طرف رخ کیا کریں، - نماز میں خاص بیت اللہ کا استقبال ضروری نہیں اس کی سمت کا استقبال بھی بیرونی دنیا کے لئے کافی ہے :- یہاں ایک فقہی نکتہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس آیت میں کعبہ یا بیت اللہ کے بجائے لفظ مسجد حرام کا استعمال فرمایا گیا ہے جس میں اشارہ ہے کہ بلاد بعیدہ کے رہنے والوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ عین بیت اللہ کی محاذات پائی جائے، بلکہ سمت بیت اللہ کی طرف رخ کرلینا کافی ہے، ہاں جو شخص مسجد حرام میں موجود ہے یا کسی قریبی پہاڑ پر بیت اللہ کو سامنے دیکھ رہا ہے اس کے لئے خاص بیت اللہ ہی کی طرف رخ کرنا ضروری ہے اگر بیت اللہ کی کوئی چیز بھی اس کے چہرے کے محاذات میں نہ آئی تو اس کی نماز نہیں ہوتی بخلاف ان لوگوں کے جن کے سامنے بیت اللہ نہیں کہ ان کے واسطے سمت بیت اللہ یا سمت مسجد حرام کی طرف رخ کرلینا کافی ہے،- بہرحال ہجرت مدینہ سے سولہ سترہ مہینے بعد پھر آپ کا اور مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ کو بنایا گیا اس پر یہود اور بعض مشرکین و منافقین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ ان کے دین کا بھی کوئی ٹھکانا نہیں ان کا قبلہ بھی روز روز بدلتا رہتا ہے،- قرآن کریم نے ان کا یہ اعتراض آیت مذکورہ میں نقل فرمایا مگر ساتھ ہی عنوان یہ رہا کہ بیوقوف لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں اور ان کی بیوقوفی اس جواب سے واضح ہوگئی جو اس کے بعد ذکر فرمایا گیا ہے ارشاد ہے، قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۭ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ یعنی آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی کے ہیں مشرق اور مغرب وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ چلاتا ہے،- اس میں استقبال قبلہ کی حقیقت کو واضح فرما دیا کہ کعبہ اور بیت المقدس کی کوئی خصوصیت بجز اس کے نہیں کہ حکم ربانی نے ان کو کوئی امتیاز دے کر قبلہ بنادیا وہ اگر چاہیں تو ان دونوں کے علاوہ کسی تیسری چوتھی چیز کو بھی قبلہ بنا سکتے ہیں پھر جس کو قبلہ بنادیا گیا اس کی طرف رخ کرنے میں جو کچھ فضیلت اور ثواب ہے اس کی روح حکم حق جل شانہ کی اطاعت کے سوا کچھ نہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا بنیادی اصول ہے اور اسی لئے دوسری آیت میں اور زیادہ واضح فرمایا کہ :- لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ (١٧٧: ٢) اس میں ذاتی کوئی نیکی اور ثواب نہیں کہ تم مشرق کی طرف رخ کرو یا مغرب کی طرف لیکن نیکی اللہ پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے میں ہے،- اور ایک آیت میں فرمایا،- فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ (١١٥: ٢) یعنی تم اللہ کے فرمان کے مطابق جس طرف بھی رخ کرو اللہ تعالیٰ کی توجہ اسی طرف پاؤ گے،- ان آیات نے قبلہ اور استقبال قبلہ کی حقیقت کو بھی واضح فرما دیا کہ اس میں ان مقامات کی کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ ان میں فضیلت پیدا ہونے کا سبب ہی یہ ہے کہ ان کو حق تعالیٰ نے قبلہ بنانے کے لئے اختیار فرما لیا اور اس کی طرف رخ کرنے میں ثواب کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ حکم ربانی کی اطاعت ہے اور شاید آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قبلہ میں تغیر وتبدل فرمانے کی یہ بھی حکمت ہو کہ عملی طور سے لوگوں پر یہ واضح ہوجائے کہ قبلہ کوئی بت نہیں جس کی پرستش کی جائے بلکہ اصل چیز حکم خداوندی ہے وہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا آگیا تو اس کی تعمیل کی پھر جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا تو اسی کی طرف رخ کرنا عبادت ہوگیا اس کے بعد والی آیت میں خود قرآن کریم نے بھی اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں فرمایا ہے ،- وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ (١٤٣: ٢) یعنی جس قبلہ پر آپ پہلے رہ چکے ہیں اس کو قبلہ بنانا تو محض اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے تھا کہ کون رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرتا ہے اور کون پیچھے ہٹ جاتا ہے، - اس حقیقت قبلہ کے بیان سے ان بیوقوف مخالفین کا بھی پورا جواب ہوگیا جو قبلہ کے بارے میں تغییر وتحویل کو اصول اسلام کے منافی سمجھتے اور مسلمانوں کو طعنے دیتے تھے آخر میں ارشاد فرمایا يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ اس میں بتلا دیا ہے کہ سیدھی راہ یہی ہے کہ انسان حکم حق جل شانہ کے لئے کمربستہ منتظر رہے جو حکم مل جائے اس پر بےچون وچرا عمل کرے اور یہ سیدھی راہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔- مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ (رض) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل کتاب کو مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا حسد تین چیزوں پر ہے ایک یہ کہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لئے مخصوص کرنے کا حکم ساری امتوں کو ملا تھا یہود نے سنیچر کا دن مقرر کرلیا اور نصاریٰ نے اتوار کا اور حقیقت میں عنداللہ وہ جمعہ کا روز تھا جو مسلمانوں کے انتخاب میں آیا۔ دوسرے وہ قبلہ جو تحویل کے بعد مسلمانوں کے لئے مقرر کیا گیا اور کسی امت کو اس کی توفیق نہیں ہوئی تیسرے امام کے پیچھے آمین کہنا کہ یہ تینوں خصلتیں صرف مسلمانوں کو میسر ہوئیں اہل کتاب ان سے محروم ہیں۔
سَيَقُوْلُ السُّفَہَاۗءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلىہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِىْ كَانُوْا عَلَيْہَا ٠ ۭ قُلْ لِّلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ٠ ۭ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ١٤٢- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- سفه - السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] - ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - قِبْلَةً :- في الأصل اسم للحالة التي عليها الْمُقَابِلُ نحو : الجلسة والقعدة، وفي التّعارف صار اسما للمکان الْمُقَابَلِ المتوجّهِ إليه للصلاة . نحو : فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة 144] - القبلۃ :- اصل میں بالمقابل آدمی کی حالت کو کہا جاتا ہے جیسے جلسۃ وقعدۃ اور عرف میں اس جہت کو قبلہ کہا جاتا ہے جس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة 144] سو ہم تم کو ایسے قبلہ کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو متوجہ ہونے کا حکم دیں گے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه .- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔- غرب - الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] ، وقیل لكلّ متباعد :- غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ- [ المائدة 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ- [ فاطر 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ.- ( غ رب ) الغرب - ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سدچھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
قول باری ہے : سیقول السفھاء من الناس ماولھم عن قبلتھم التی کانوا علیھا ( نادان لوگ ضرور کہیں گے، انہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اس سے یکا یک پھرگئے)- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اہل اسلام کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں نیز ہجرت کے بعد ایک عرصے تک مدینہ میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت براء بن عازب (رض) نے کہا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدینہ تشریف آور کے سترہ مہینے بعد تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ قتادہ نے کہا ہے کہ سولہ ماہ بعد۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ یہ عرصہ نو ماہ یا دس ماہ کا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔- زیر بحث آیات کے اندر اللہ تعالیٰ نے نقاً بیان فرما دیا کہ نماز غیرکعبہ کے رخ ادا کی جاتی تھی اور پھر اللہ سبحانہ نے اپنے قول : سیقول السفھا من الناس تا آخر آیت کے ذریعے نیز : وما جعلنا القبلتہ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ ( پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے) اور : قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قلیلۃ ترضھا ( یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں، لو ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو ( کے ذریعے قبلہ کا رخ پھیر دیا۔ مذکورہ بالا تمام آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیر کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف رخ پھیر دیا تھا۔ یہ بات ان لوگوں کے قول کو باطل کردیتی ہے جو کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں کوئی ناسخ و منسوخ نہیں ہے۔- بیت المقدس کی طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رخ کرنے کے بارے میں اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا یہ فرض تھا اور اس کے سوا کوئی اور بات جائز نہیں تھی، یا آپ کو بیت المقدس کی طرف اور اس کے سوا کسی اور طرف رخ کرنے کا اختیار تھا۔ الربیع بن انس کے قول کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بارے میں اختیار دیا گیا تھا، جبکہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا فرض تھا اور اس سلسلے میں کوئی تخییر نہیں تھی۔ مذکورہ بالا دونوں اقوال میں سے جو قول بھی قبول کیا جائے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا فرض تھا کیونکہ تخییرا سے فرضیت کے دائرے سے خارج نہیں کرتی جس طرح مثلاً کفائرہ یمین میں کئی باتوں کے درمیان تخییر ہے لیکن ان میں سے جس صورت کے تحت یہ کفارہ ادا کیا جائے گا وہ قرض قرار پائے گی۔ یا جس طرح اول یا درمیانی یا آخر وقت میں نماز کی ادائیگی۔ جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ انہوں نے فرمایا :” قرآن کی سب سے پہلی بات جو منسوخ ہوئی وہ قبلے کی بات تھی وہ اس طرح کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اللہ نے آپ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس پر یہودی بڑے خوش ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ اوپر دس مہینے اس کی طرف رخ کیا لیکن آپ کو اپنے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ دل سے پسند تھا۔ آپ اس کے لیے اللہ سے دعائیں کرتے اور آسمان کی طرف رخ کرنا فرض تھا اور مذکورہ بالا آیت کے ذریعے یہ فرضیت منسوخ ہوگئی۔ اس میں ان حضرات کے قول پر کوئی دلالت نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ تخییر کے بغیر بیت المقدس کی طرف رخ کرنا فرض تھا۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا علی وجہ التخییر فرض ہو اور پھر نسخ کا ورود تخییر پر ہوا ہو اور اس کے ذریعے مسلمانوں کو کعبے کی طرف رخ کرنے میں بلا تخییر محدود کردیا گیا ہو۔ روایت میں ہے کہ ہجرت سے پہلے کچھ لوگ مدینہ سے مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کے ارادے سے چل پڑے۔ یہ لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں میں حضرت البراء بن معرور بھی تھے۔ انہوں نے راستے میں اپنی نمازیں کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھیں جبکہ دوسرے رفقا نے یہ کہہ کر ایسا کرنے سے انکار کردیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ جب یہ حضرات مکہ پہنچ گئے تو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں دریافت کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت البراء سے فرمایا : تم ایک قبلے یعنی بیت المقدس پر تھے، اگر اس پر ثابت رہتے تو تمہارے لیے یہ بات کافی ہوتی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پڑھئی ہوئی نمازیں لوٹانے کا حکم نہیں دیا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس معاملے میں انہیں تخییر حاصل تھی اور انہوں نے بیت المقدس کی طرح رخ کرنے کی بات اختیار کرلی تھی۔- اگر یہاں کہاجائے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں سب سے پہلی بات جو منسوخ ہوئی وہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم تھا، تو جواب میں کہاجائے گا کہ ممکن ہے کہ اس سے مراد قرآن کا وہ حصہ ہو جو منسوخ التلاوۃ قرار پایا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد : سیقول السفھاء من الناس کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ یہاں نادانوں کے ذکر سے یہود مراد ہیں، نیز یہ کہ انہوں نے ہی تحویل قبلہ کے حکم پر نکتہ چینی کی تھی۔ یہ بات حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت بیان کی گئی ہے۔ یہوڈ نے اس نکتہ چینی کے ذریعے نسخ کے انکار کا ارادہ کیا تھا کیونکہ ان میں سے ایک گروہ نسخ کا قائل نہیں تھا۔ ایک قول کے مطابق انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ آپ اس قبلے سے کیوں پھرگئے جس کی طرف پہلے رخ کرتے تھے ؟ آپ ؐ پھر اس کی طرف پھر جائیے۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کریں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں گے۔ انہوں نے یہ کہہ کر صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آزمانا چاہا تھا۔ اس طرح قبلہ اول سے قبلہ ثانی کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحویل پر یہود کا اعتراض اور انکی نکتہ چینی مذکورہ بالا دو میں سے ایک معنی پر محمول ہوگی حسن بصری نے کہا ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ملا تو مشرکین عرب نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آبائو اجداد کے طریقے کو چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر اسی طریقے کی طرف لوٹ آئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے دین کی طرف بھی ضرور لوٹ آئیں گے۔- اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کو بھی بیان فرمایا جس کی خاطر اس نے مسلمانوں کو قبلہ اول سے قبلہ ثانی کی طرف پھیر دیا تھا، چناچہ ارشاد ہے : وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ ( پہلے تم جس طرف رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے ایک قول کے مطابق مسلمانوں کو مکہ کے اندر بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا اس لیے حکم دیا گیا تھا کہ وہ مشرکین سے ممتا ز ہوجائیں جو ان کے سامنے کعبہ کی طرف رخ کیا کرتے تھے ۔ پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے مدینہ گئے تو مدینہ کے آس پاس آباد یہودی بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اس لیے مسلمانوں کو پھر سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ وہ یہودیوں سے اسی طرح ممتاز ہوجائیں جس طرح وہ مکہ میں مشرکین سے ممتاز تھے۔ اس طرح مسلمان دونوں قبلوں کے اختلاف کے ذریعے مشرکین اور یہودیوں سے ممتاز ہوگئے۔- اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی طرف سے نسخ کے انکار پر یہ فرما کر حجت قائم کردی کہ : قل للہ المشرق والمغرب یھدی من یشاء الی صراط مستقیم (آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب اللہ کے لئے ہیں وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے) یہود پر حجت قائم کرنے کی صورت یہ ہے کہ جب مشرق اور مغرب اللہ کے لیے ہے تو ان دونوں کی طرح رخ کرنا یکساں ہے، انسانی عقل کے نزدیک ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ دین اور صرا ط مستقیم کی طرف ہدایت کی مصلحت کی خاطر جس جہت کو چاہتا ہے رخ کرنے کے حکم کے ساتھ مختص کردیتا ہے۔ اسے ایک جہت سے دیکھئے۔ یہود کا دعویٰ یہ تھا کہ ارض مقدس ( فلسطین جہاں بیت المقدس واقع ہے) کی طرف رخ کرنا اولی ہے کیونکہ یہ انبیاء (علیہم السلام) کی سرزمین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو شرف اور عظمت بخشی ہے اس لیے اس سرزمین سے رخ پھیرنا بلاوجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس دعوے کا ابطال یہ کہہ کر کردیا کہ مشرق سے مغرب تک تمام مقامات اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان میں سے جس مقام کو چاہتا ہے ہر زمانے کے اندر بندوں کی بھلائی اور مصلحت کے پیش نظر مخصوص کردیتا ہے۔ مقامات کے اندربالذات تفصیل کی کوئی بات نہیں ہوتی بلکہ ان مقامات کو فضیلت کے وصف کے ساتھ ان امور کی بنا پر موصوف کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان مقامات کی تعظیم واجب کی اور ان مقامات میں ادا کیے جانے والے اعمال کو فضیلت حاصل ہوتی ہے۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت کے ذریعے ان حضرات سے استدلال کیا ہے جو قرآن کے ذریعے سنت کے نسخ کے قائل ہیں۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے اس کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔ پھر یہ بات زیر بحث آیت کے ذریعے منسوخ کردی گئی جو حضرات مذکورہ بالا نسخ کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے ذکر کیا ہے کہ قول باری : فاینما تولوافثم وجہ اللہ۔ منسوخ ہوا ہے اس آیت کے مضمون میں کسی بھی جہت کی طرف رخ کرنے کی بات کی گئی ہے جسے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دے کر منسوخ کردیا گیا۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک مذکورہ بالا قول باری منسوخ نہیں ہوابل کہ اس کے حکم پر تین صورتوں کے اندر عمل ہوتا ہے۔ اول اس صورت میں جب ایک شخص اپنی سمجھ بوجھ اور اجتہاد سے کام لے کر کعبہ کی جہت کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کرکے نمازادا کرلے۔ دوم خوف زدہ انسان کی نماز کی صورت میں اور سوم سواری پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی صورت میں۔- حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت عامر بن ربیعہ (رض) نے روایت بیان کی ہے کہ مذکورہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اپنے اجتہاد سے کام لے کر کعبہ کے سوا کسی اور رخ نماز ادا کرے اور پھر اس کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ اس نے کعبہ کے رخ نماز ادا نہیں کی ۔ حضرت ابن عمر (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ مذکورہ آیت کا نزول سواری پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے متعلق ہوا ہے۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ جب ہمارے لیے نسخ کے ایجاب کا حکم عائد کیے بغیر آیت پر عمل کرنا ممکن ہے تو پھر اس کے نسخ کا حکم لگانا جائز نہیں ہوگا۔ ہم نے اس مسئلہ پر اصول فقہ کے اندر سیر حاصل بحث کی ہے۔- زیر بحث آیت کے اندر ایک اور حکم بھی ہے۔ حماد بن سلمہ نے ثابت سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے پھر یہ آیت نازل ہوئی : فول وجھک شطر المسجد الحرام (اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف موڑلو) اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے منادی کرنے والے نے اعلان کردیا کہ :” مسلمانو تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے چہرے مسجد حرام کی طرف موڑلو “ یہ اعلان سن کر بنو سلمہ نے اپنے چہرے بیت اللہ کی طرف رکوع کی حالت میں ہی موڑ لیے۔- عبدالعزیز بن مسلم نے عبداللہ بن دینار سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت بیان کی کہ لوگ قبا ( مدینہ کے قریب ایک آبادی کا نام ) کے اندر صبح کی نماز میں مصروف تھے کہ ایک شخص ان کیپ اس پہنچا اور انہیں آگاہ کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہواہی اور آپ کو کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے تم لوگ بھی استقبال کعبہ کرو۔ یہ سن کر تمام لوگ اسی حالت میں کعبہ کی طرف مڑ گئے جبکہ پہلے ان کا رخ شام کی طرف تھا۔- اسرائیل نے ابو اسحق نے اور انہوں نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت بیا ن کی ہے کہ جب آیت : قد نری تقلب وجھک فی السماء کے نزول کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے رخ مڑ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کرنے والا ایک شخص انصار کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا۔ یہ حضرات بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کر رہے تھے، یہ دیکھ کر مذکورہ شخص نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرمائی ہے۔ یہ سن کر انصار کا مذکورہ گروہ نماز کے اندر ہی رکوع میں جانے سے پہلے کعبہ کی طرف مڑ گیا۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اہل علم کے ہاتھوں میں یہ ایک صحیح اور مستفیض روایت ہے اور لوگوں نے اس روایت کو قبول بھی کیا ہے، اس لیے یہ روایت متواتر حدیث کے مقام پر پہنچ گئی ہے اور حدیث متواتر علم کی موجب ہوتی ہے۔ یہی روایت اس شخص کے مسئلے میں اصول کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنے اجتہاد سے کام لے کر غیر کعبہ کے رخ نماز شروع کرے اور پھر نماز کے دوران میں اسے معلوم ہوجائے کہ اس کا رخ کعبے کی طرف نہیں ہے تو وہ کعبہ کی طرف پھر جائے گا اور نئے سرے سے نما ز شروع نہیں کرے گا۔- اسی طرح اگر لونڈی کو نماز کے اندر آزاد ہوجانے کی خبر مل جائے تو وہ دوپٹہ لے کر اپنی نماز جاری رکھے گی۔ یہ روایت دین کے معاملے میں خبرواحد کو قبول کرلینے کے سلسلے میں اصل اور بنیاد ہے۔ اس لیے کہ انصار نے ایک شخص کی دی ہوئی خبر کی بنیاد پر نماز کے اندر ہی اپنا رخ کعبہ کی طرف کرلیا تھا۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس شخص کے ذریعے تحویل قبلہ کے حکم کی منادی کرائی تھی وہ بھی ایک تھا اور اس کی دی ہوئی خبر، خبر واحد کا درجہ رکھتی تھی۔ اگر صحابہ کرام کے لیے خبر واحد کو قبول کرنا لازم نہ ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے منادی کرانے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔- یہاں اگر کوئی کہے کہ آپ کا اصول تو یہ ہے کہ ایسا حکم جو علم کو واجب کردینے والے ذریعے سے حاصل ہوا ہو سے رفع کرنے میں خبرواحد کو قبول نہیں کیا جائے گا اور زیر بحث واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصول کے خلاف ہے کیونکہ لوگ آپ کی طرف سے توقیف اور حکم کی بناء پر بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اور پھر انہوں نے خبر واحد کی بنا پر اس حکم کو ترک کردیا ؟- اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے مذکورہ حکم اس لئے ترک کردیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے دور رہ کر انہیں اس حکم کے باقی رہنے کا یقین نہیں تھا اور وہ اس حکم کے نسخ کو ممکن سمجھتے تھے۔- اگر یہاں کوئی شخص یہ کہے کہ جس طرح ا ن حضرات نے تحویل قبلہ کے بعد اپنی نمازیں جاری رکھیں اسی طرح آپ اس تیمم کرنے والے کو اپنی نماز جاری رکھنے کا کیوں حکم نہیں دیتے جسے نماز کے اندر پانی دستیاب ہوجائے ؟- اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں اس بنا پر فرق ہے کہ تیمم کرنے والے کے لئے نماز جاری رکھنے کو جائز قرار دینا اس پر وضو کو واجب نہیں کرتا اور پانی مل جانے کے باوجود تیمم کے ساتھ اس کے لئے نماز جاری رکھنا جائز ہوتا ہے جب کہ دوسری طرف بنو سلمہ کے انصار کو جب تحویل قبلہ کی خبر پہنچی تو وہ فوراً کعبہ کی طرف پھرگئے اور اس جہت کی طرف اپنا رخ باقی نہیں رکھا جس کی طرف وہ اپنے چہرے کیے ہوئے تھے۔ اس لئے قبلہ کی نظریہ ہے کہ تیمم کرنے والے کو وضو کرنے اور نماز جاری رکھنے کا حکم دیاجائے۔ اس مسئلے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تیمم کرنے والے کو اگر وضو کرنا لازم ہوجائے تو اس کے لئے تیمم کے ساتھ نمازیں جاری رکھناجائز نہیں ہوتا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھے کہ تیمم کرنے والے کے لئے اصل فرض پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا ہوتا ہے اور مٹی اس کا بدل ہوتی ہے۔ اس لئے جب اسے پانی مل جائے تو وہ اپنے اصل فرض کی طرف لوٹ آتا ہے جس طرح موزوں پر مسح کرنے والا شخص مسح کا وقت ختم ہوجانے پر اپنی نماز مسح کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ یہی کیفیت تیمم کرنیوالے کی ہے۔- بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے والوں کا افضل فرض اس وقت کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا نہیں تھا جب وہ نماز میں داخل ہوئے تھے۔ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا فرض تو انہیں نماز کی حالت میں لاحق ہوا تھا۔ اسی طرح لونڈی کو اگر نماز کی حالت میں آزادکردیاجائے تو اس سے پہلے اس پر ستر فرض نہیں تھا، یہ فرض تو اسے نماز کی حالت میں لاحق ہوا۔ اس لئے لونڈی کا مسئلہ حضرات انصار کے مسئلے کے مشابہ ہوگیا جب انہیں تحویل قبلہ کا حکم معلوم ہوا۔ اسی طرح اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر ایک جہت کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے والے کا فرض اس جہت کی طرف رخ کرنا تھا جس کی طرف اپنے اجتہاد کی بنا پر اس نے رخ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے سو اس اس پر قول جاری فاینما تولو انتم وجہ اللہ کی بنا پر کوئی اور بات فرض نہیں تھی۔ وہ تو ایک فرض سے دوسرے فرض کی طرف منتقل ہوا تھا۔ بدل سے اصل فرض کی طرف منتقل نہیں ہوا تھا۔- زیر بحث آیت میں ایک حکم اور بھی ہے، وہ یہ کہ حضرات انصار کا مذکورہ بالا فعل اس بات کی بنیاد ہے کہ اوامر اور زواجر کے احکام ان کے بارے میں علم ہوجانے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس پر نماز فرض ہے اور پھر وہ دارالاسلام میں آ جائے، تو اس پر گزشتہ نمازوں کی فضا لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ فرضیت اسے سماع کے طریقے سے لازم ہوگی لیکن جب تک اس کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک اس کا حکم اس سے متعلق نہیں ہوگا جس طرح حضرات انصار کے ساتھ تحویل قبلہ کی خبر آنے سے پہلے اس کا حکم متعلق نہیں ہوا۔ یہ بات وکالہ اور مضاربہ اور اسی طرح کے دیگر عقود میں جن کا تعلق بندوں کے اوامر سے ہے اس مسئلے کی اصل اور بنیاد ہے کہ اگر اسی طرح کے دیگر عقود میں جن کا تعلق بندوں کے اوامر سے ہے اس مسئلے کی اصل اور بنیاد ہے کہ اگر ان عقود میں حق فسخ رکھنے والا شخص انہیں فسخ کردے تو جب تک دوسرے کو اس کا علم نہ ہو اس وقت تک ان عقود کی کوئی بات فسخ نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے کہا ہے کہ عقد و کا لہ کا علم ہونے سے پہلے وکیل کا تصرف جائز نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(١٤٢) یہود اور مشرکین میں سے جو لوگ جاہل ہیں یہی کہیں گے کہ اس ” بیت المقدس “ کے قبلہ کو انہوں نے اس لیے بدلا ہے، تاکہ اپنے آباؤاجداد کے دین کی طرف لوٹ آئیں اور ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ کس چیز نے ان کو اس قبلہ ” بیت المقدس “ سے ہٹادیا جس کی طرف یہ منہ کیا کرتے تھے اور جس کی طرف یہ نماز پڑھا کرتے تھے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنا اور ” بیت المقدس “ کی طرف جو تم نماز پڑھا کرتے تھے دونوں ہی اللہ کے حکم کے سبب سے تھا، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے دین اور درست قبلہ پر ثابت قدم رکھتا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” سیقول السفہاء (الخ)- ابن اسحاق (رح) ، اسماعیل بن ابی خالد (رح) اور ابو اسحاق (رح) کے ذریعہ سے حضرت براء (رض) سے روایت ہے، کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی جانب مونہہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور حکم الہی کے انتظار میں آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں، اس لیے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی قبلہ کی طرف پھیر کردیں گے، جس کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش ہے پھر اپنا چہرہ مبارک مسجد حرام کی طرف فرمالیجیے، اس کے بعد مسلمانوں میں سے کچھ لوگ کہنے لگے کہ جو لوگ ہم میں قبلہ کی تبدیلی سے پہلے فوت ہوگئے ہیں کاش ہمیں ان کے بارے میں ان کی حالت کا پتا چل جاتا اور ہم نے ” بیت المقدس “ کی طرف منہ کرکے جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کا کیا حکم ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت ) ” وما کان اللہ (الخ) کہ اللہ تعالیٰ ایسے نہیں کہ ایسے نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کردیں اور لوگوں میں سے بیوقوف لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس قبلہ سے انہیں کس چیز نے پھیر دیا اللہ تعالیٰ نے اسی کے بارے میں یہ آیت نازل فرمادی (آیت) ” سیقول السفھاء (الخ) اسی طرح چند دیگر طریقوں سے بھی یہ روایت بھی نقل کی گئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
دو ‘ رکوعوں پر مشتمل تمہید کے بعد اب تحویل قبلہ کا مضمون براہ راست آرہا ہے ‘ جو پورے دو رکوعوں پر پھیلا ہوا ہے۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ کون سی ایسی بڑی بات تھی جس کے لیے قرآن مجید میں اتنے شدومدّ کے ساتھ اور اس قدر تفصیل بلکہ تکرار کے ساتھ بات کی گئی ہے ؟ اس کو یوں سمجھئے کہ ایک خاص مذہبی ذہنیت ہوتی ہے ‘ جس کے حامل لوگوں کی توجہّ اعمال کے ظاہر پر زیادہ مرکوز ہوجاتی ہے اور اعمال کی روح ان کی توجہ کا مرکز نہیں بنتی۔ عوام الناس کا معاملہ بالعموم یہی ہوجاتا ہے کہ ان کے ہاں اصل اہمیت دین کے ظواہر اور مراسم عبودیت کو حاصل ہوجاتی ہے اور جو اصل روح دین ہے ‘ جو مقاصد دین ہیں ‘ ان کی طرف توجہّ نہیں ہوتی۔ نتیجتاً ظواہر میں ذرا سا فرق بھی انہیں بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی مثال یوں سامنے آتی ہے کہ احناف کی مسجد میں اگر کسی نے رفع یدین کرلیا یا کسی نے آمین ذرا اونچی آواز میں کہہ دیا تو گویا قیامت آگئی۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہماری مسجد میں کوئی اور ہی آگیا۔ اس مذہبی ذہنیت کے پس منظر میں یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں تھا۔- اس کے علاوہ یہ مسئلہ قبائلی اور قومی پس منظر کے حوالے سے بھی سمجھنا چاہیے۔ مکہ مکرمہ میں جو لوگ ایمان لائے تھے ظاہر ہے ان سب کو خانہ کعبہ کے ساتھ بڑی عقیدت تھی۔ خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روتے ہوئے وہاں سے نکلے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اے کعبہ مجھے تجھ سے بڑی محبت ہے ‘ لیکن تیرے یہاں کے رہنے والے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کعبہ کی جنوبی دیوار کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوتے۔ یوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا رخ شمال کی طرف ہوتا ‘ کعبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہوتا اور اس کی سیدھ میں بیت المقدس بھی آجاتا۔ اس طرح استقبال القبلتین کا اہتمام ہوجاتا۔ لیکن مدینہ میں آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رخ بدل دیا اور بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے۔ یہاں استقبال القبلتین ممکن نہ تھا ‘ اس لیے کہ یروشلم مدینہ منورہ کے شمال میں ہے ‘ جبکہ مکہ مکرمہ جنوب میں ہے۔ اب اگر خانہ کعبہ کی طرف رخ کریں گے تو یروشلم کی طرف پیٹھ ہوگی اور یروشلم کی طرف رخ کریں گے تو کعبہ کی طرف پیٹھ ہوگی۔ چناچہ اب اہل ایمان کا امتحان ہوگیا کہ آیا وہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کی پیروی کرتے ہیں یا اپنی پرانی عقیدتوں اور پرانی روایات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جو لوگ مکہ مکرمہ سے آئے تھے ان کی اتنی تربیت ہوچکی تھی کہ ان میں سے کسی کے لیے یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ بقول اقبال : - بمصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست - اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است - حالانکہ قرآن مجید میں کہیں منقول نہیں ہے کہ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ حکم وحئ خفی کے ذریعے سے دیا گیا ہو ‘ تاہم وحئ جلی میں یہ حکم کہیں نہیں ہے کہ اب یروشلم کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیے۔ یہ مسلمانوں کا اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے ایک امتحان تھا جس میں وہ سرخرو ہوئے۔ پھر جب یہ حکم آیا کہ اپنے رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو تو یہ اب ان مسلمانوں کا امتحان تھا جو مدینہ کے رہنے والے تھے۔ اس لیے کہ ان میں سے بعض یہودیت ترک کر کے ایمان لائے تھے۔ مثلاً عبداللہ بن سلام (رض) علماء یہود میں سے تھے ‘ لیکن جو اور دوسرے لوگ تھے وہ بھی علماء یہود کے زیراثر تھے اور ان کے دل میں بھی یروشلم کی عظمت تھی۔ اب جب انہیں بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہ ان کے ایمان کا امتحان ہوگیا۔ - مزید برآں بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی پیدا ہوا ہوگا کہ اگر اصل قبلہ بیت اللہ تھا تو ہم نے اب تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے جو نمازیں پڑھی ہیں ان کا کیا بنے گا ؟ کیا وہ نمازیں ضائع ہوگئیں ؟ نماز تو ایمان کا رکن رکین ہے چناچہ اس اعتبار سے بھی بڑی تشویش پیدا ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک مسئلہ سیاسی اعتبار سے یہ پیدا ہوا کہ یہود اب تک یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمانوں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارا قبلہ اختیار کرلیا ہے ‘ تو یہ گویا ہمارے ہی پیروکار ہیں ‘ لہٰذا ہمیں ان کی طرف سے کوئی خاص اندیشہ نہیں ہے۔ لیکن اب جب تحویل قبلہ کا حکم آگیا تو ان کے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ تو کوئی نئی ملتّ ہے اور ایک نئی امت کی تشکیل ہو رہی ہے۔ چناچہ ان کی طرف سے مخالفت کے اندر شدت پیدا ہوگئی۔ یہ سارے مضامین یہاں پر زیر بحث آ رہے ہیں۔- آیت ١٤٢ (سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ ) (مَاوَلّٰٹہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْہَاط ؟ - یعنی سولہ سترہ مہینے تک انہوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے ‘ اب انہیں بیت اللہ کی طرف کس چیز نے پھیر دیا ؟ - (قُلْ لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ط ) - یہ وہی الفاظ ہیں جو چودہویں رکوع میں تحویل قبلہ کی تمہید کے طور پر آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایک سمت میں محدود نہیں ہے ‘ بلکہ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب سب اسی کے ہیں۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :142 نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہء طیّبہ میں سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المَقْدِس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے ۔ پھر کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آیا ، جس کی تفصیل آگے آتی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :143 یہ ان نادانوں کے اعتراض کا پہلا جواب ہے ۔ ان کے دماغ تنگ تھے ، نظر محدُود تھی ، سمت اور مقام کے بندے بنے ہوئے تھے ۔ ان کا گمان یہ تھا کہ خدا کسی خاص سمت میں مُقَیّد ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے ان کے جاہلانہ اعتراض کی تردید میں یہی فرمایا گیا کہ مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں ۔ کسی سمت کو قبلہ بنانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ اسی طرف ہے ۔ جن لوگوں کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے ، وہ اس قسم کی تنگ نظریوں سے بالاتر ہوتے ہیں اور ان کے لیے عالمگیر حقیقتوں کے ادراک کی راہ کھُل جاتی ہے ۔ ( ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۱۱۵ ، نمبر۱۱٦ )
89: یہاں سے قبلے کی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا تفصیلی بیان شروع ہورہا ہے۔ واقعات کا پس منظر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں آنحضرتﷺ بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے۔ جب آپ مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو آپ کو بیت المقدس کارُخ کرنے کا حکم دیا گیا جس پر آپ تقریباً سترہ مہینے تک عمل فرماتے رہے۔ اس کے بعد دوبارہ بیت اللہ شریف کو قبلہ قراردے دیا گیا۔ تبدیلی کا یہ حکم آگے آیت نمبر : ۴۴۱ میں آرہا ہے۔ یہ آیت پیشینگوئی کررہی ہے کہ یہودی اور عیسائی اس تبدیلی پر بڑے اعتراضات کریں گے، حالانکہ یہ حقیقت اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لئے کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ قبلے کی کوئی خاص سمت مقرّر کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ قبلے کی سمت میں تشریف فرما ہے، وہ توہر سمت اور ہر جگہ موجود ہے اور مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، یہ ساری جہتیں اسی کی بنائی ہوئی ہیں۔ البتہ چونکہ مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرتے وقت تمام مؤمنوں کے لئے کوئی ایک سمت مقرر کردی جائے، اس لئے یہ سمت اﷲ تعالیٰ ہی اپنی حکمت کے تحت مقرر فرماتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ سمت بذاتِ خود مقدس یا مقصود ہے۔ جو کچھ تقدس کسی قبلے یا اس کی سمت میں آتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے آتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی حکمت کے مطابق جب چاہے جس سمت کو چاہے قبلہ قرار دے سکتا ہے۔ ایک مومن کا سیدھا راستہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ کر اللہ کے ہر حکم کے آگے سرِتسلیم خم کردے۔ آیت کے آخر میں سیدھی راہ کا جو ذکر ہے اس سے مراد اسی حقیقت کا ادراک ہے۔