Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پھر فرماتا ہے کہ اس پسندیدہ قبلہ کی طرف تمہیں متوجہ کرنا اس لیے ہے کہ تم خود بھی پسندیدہ امت ہو تم اور امتوں پر قیامت کے دن گواہ بنے رہو گے کیونکہ وہ سب تمہاری فضیلت مانتے ہیں وسط کے معنی یہاں پر بہتر اور عمدہ کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ قریش نسب کے اعتبار سے وسط عرب ہیں اور کہا گیا ہے حضور علیہ السلام اپنی قوم میں وسط تھے یعنی اشرف نسب والے اور صلوۃ وسطی یعنی افضل تر نماز جو عصر ہے جیسے صحیح احادیث سے ثابت ہے اور چونکہ تمام امتوں میں یہ امت بھی بہتر افضل اور اعلی تھی اس لئے انہیں شریعت بھی کامل راستہ بھی بالکل درست ملا اور دین بھی بہت واضح دیا گیا جیسے فرمایا ( هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ) 22 ۔ الحج:78 ) اس اللہ نے تمہیں چن لیا اور تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں کی تمہارے باپ ابراہیم کے دین پر تم ہو ۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے اس سے پہلے بھی اور اس میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نوح علیہ السلام کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ پہنچا دیا تھا ۔ ان کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پرسش ہوگی کیا نوح علیہ السلام نے میری باتیں تمہیں پہنچائی تھیں وہ صاف انکار کریں گے اور کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا تمہاری امت انکار کرتی ہے تم گواہ پیش کرو یہ کہیں گے کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت میری گواہ ہے یہی مطلب اس آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ) 2 ۔ البقرۃ:143 ) کا ہے وسط کے معنی عدل کے ہیں اب تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے اور میں تم پر گواہی دوں گا ( بخاری ترمذی ، نسائی ابن ماجہ ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے قیامت کے دن نبی آئیں گے اور ان کے ساتھ ان کی امت کے صرف دو ہی شخص ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی اس کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں تبلیغ کی تھی؟ وہ انکار کریں گے نبی سے کہا جائے گا تم نے تبلیغ کی وہ کہیں گے ہاں ، کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت ۔ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت بلائی جائے گی ان سے یہی سوال ہو گا کہ کیا اس پیغمبر نے تبلیغ کی؟ یہ کہیں گے ہاں ، ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں کیسے علم ہوا ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے نبی آئے اور آپ نے خبر دی کہ انبیاء علیہم السلام نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا ۔ یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان ( وکذلک ) الخ کا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں وسطاً بمعنی عدلاً آیا ہے ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے تمام مخلوق میں نمایاں ہو گے اور سب کو دیکھ رہے ہوں گے اس روز تمام دنیا تمنا کرے گی کہ کاش وہ بھی ہم میں سے ہوتے جس جس نبی کی قوم نے اسے جھٹلایا ہے ہم دربار رب العالمین میں شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے حق رسالت ادا کیا تھا ۔ مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے کہ بنی مسلمہ کے قبیلے کے ایک شخص کے جنازے میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے لوگ کہنے لگے حضور یہ بڑا نیک آدمی تھا ۔ بڑا متقی پارسا اور سچا مسلمان تھا اور بھی بہت سی تعریفیں کیں آپ نے فرمایا تم یہ کس طرح کہ رہے ہو؟ اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدگی کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن ظاہرداری تو اس کی ایسی ہی حالت تھی آپ نے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی پھر بنو حارثہ کے ایک شخص کے جنازے میں تھے لوگ کہنے لگے حضرت یہ برا آدمی تھا بڑا بد زبان اور کج خلق تھا آپ نے اس کی برائیاں سن کر پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو اس شخص نے بھی یہی کہا کہ آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی محمد بن کعب اس حدیث کو سن کر فرمانے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں دیکھو قرآن بھی کہہ رہا ہے ( وکذلک ) الخ مسند احمد میں ہے ۔ ابو الاسود فرماتے ہیں میں مدینہ میں آیا یہاں بیماری تھی لوگ بکثرت مر رہے تھے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو ایک جنازہ نکلا اور لوگوں نے مرحوم کی نیکیاں بیان کرنی شروع کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی اتنے میں دوسرا جنازہ نکلا لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی میں نے کہا امیر المومنین کیا واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا میں نے وہی کہا جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کی بھلائی کی شہادت چار شخص دیں اسے جنت میں داخل کرتا ہے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین دیں؟ آپ نے فرمایا تین بھی ہم نے کہا اگر دو ہوں آپ نے فرمایا دو بھی ۔ پھر ہم نے ایک کی بابت کا سوال نہ کیا ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے قریب ہے کہ تم اپنے بھلوں اور بروں کو پہچان لیا کرو ۔ لوگوں نے کہا حضور کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اچھی تعریف اور بری شہادت سے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو پھر فرماتا ہے کہ اگلا قبلہ صرف امتحاناً تھا یعنی پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر کے پھر کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنا صرف اس لئے تھا کہ معلوم ہو جائے کہ سچا تابعدار کون ہے؟ اور جہاں آپ توجہ کریں وہیں اپنی توجہ کرنے والا کون ہے؟ اور کون ہے جو ایک دم کروٹ لے لیتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے ، یہ کام فی الحقیقت اہم کام تھا لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار ہیں جو جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو فرمائیں سچ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم کرتا ہے ۔ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے حکم دے جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے اسکا ہر کام ، ہر حکم حکمت سے پر ہے ان پر اس حکم کی بجا آوری کچھ بھی مشکل نہیں ۔ ہاں بیمار دل والے تو جہاں نیا حکم آیا انہیں فوراً نیا درد اٹھا قرآن کریم میں اور جگہ ہے ( وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ۭ هَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ:127 ) یعنی جب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض پوچھتے ہیں اس سے کس کا ایمان بڑھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایمانداروں کے ایمان بڑھتے ہیں اور ان کی دلی خوشی بھی اور بیمار دل والے اپنی پلیدی میں اور بڑھ جاتے ہیں اور جگہ فرمان ہے ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ) 41 ۔ فصلت:44 ) یعنی ایمان والوں کے لیے یہ ہدایت اور شفا ہے اور بے ایمان لوگوں کے کانوں میں بوجھ اور آنکھوں پر اندھاپا ہے اور جگہ فرمان ہے ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ) 17 ۔ الاسرآء:82 ) یعنی ہمارا اتارا ہوا قرآن مومنوں کے لئے سراسر شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کا نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے اس واقعہ میں بھی تمام بزرگ صحابہ ثابت قدم رہے اول سبقت کرنے والے مہاجر اور انصار دونوں قبیلوں کی طرف نماز پڑھنے والے ہیں ۔ چنانچہ اوپر حدیث بیان ہو چکی کہ کس طرح وہ نماز پڑھتے ہوئے یہ خبر سن کر گھوم گئے ۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ رکوع کی حالت میں تھے اور اسی میں کعبہ کی طرف پھر گئے جس سے ان کی کمال اطاعت اور اعلیٰ درجہ کی فرمان برداری ثابت ہوئی پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا ۔ یعنی تمہاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازیں رد نہیں ہوں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بلکہ ان کی اعلیٰ ایمانداری ثابت ہوئی انہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا ثواب عطا ہو گا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے ساتھ تمہارے گھوم جانے کو ضائع نہ کرے گا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ رؤف رحیم ہے؟ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگی قیدی عورت کو دیکھا جس سے اس کا بچہ چھوٹ گیا تھا وہ اپنے بچہ کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھی اور جب وہ نہیں ملا تو قیدیوں میں سے جس کسی بچہ کو دیکھتی اسی کو گلے لگا لیتی یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ مل گیا خوشی خوشی لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا سینے سے لگایا پیار کیا اور اس کے منہ میں دودھ دیا یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا بتاؤ تو یہ اپنا بس چلتے ہوئے اس بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم جس قدر یہ ماں اپنے بچہ پہ مہربان ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رؤف و رحیم ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

143۔ 1 وسط کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی جس طرح تمہیں بہتر قبلہ عطا کیا گیا اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے (لِیَکُون الرَّسُولُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْ اشُھَدَآ ءَ عَلَی النَّاسِ ) 022:028 رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا وہ ہاں میں جواب دیں گے ٫ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہارا کوئی گواہ ہے ؟ کہیں گے ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت، چناچہ یہ امت گواہی دے گی۔ 143۔ 2 یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، کہ مومنین صادقین تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشارات کے منتظر رہا کرتے تھے اس لئے ان کے لئے ادھر سے ادھر پھرجانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع میں ہی اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیرلیا یہ مسجد قبلٰتین (یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا (لِنَعْلَمْ ) ( تاکہ ہم جان لیں) اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کردیں تاکہ لوگوں کے سامنے بھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہوجائیں (فتح القدیر) 143۔ 3 بعض صحابہ (رض) اجمعین کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ (رض) اجمعین بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہوچکے تھے یا ہم جتنا عرصہ اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگئیں یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہونگی اور ان کا پورا پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ واضح کردیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٦] یعنی جس طرح ہم نے قبلہ اول کو تمہارے لیے مستقل قبلہ بنادیا ہے۔ اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بھی بنادیا ہے۔ امت وسط سے مراد ایسا اشرف اور اعلیٰ گروہ ہے جو عدل و انصاف کی روش پر قائم ہو اور افراط وتفریط، غلو اور تخفیف سے پاک ہو اور دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ نصاریٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اتنا بڑھایا کہ انہیں خدا ہی بنادیا اور یہود نے اتنا گھٹایا کہ ان کی پیغمبری سے انکار بھی کیا اور ان کی جان کے بھی لاگو ہوگئے اور اس امت وسط کی روش یا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے پیارے پیغمبر اور روح اللہ تھے۔ بیشمار عقائد و احکام میں آپ کو امت وسط کا یہی طریقہ نظر آئے گا۔ مثلاً یہود کے لیے قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص ہی فرض کیا گیا تھا۔ جب کہ نصاریٰ کو عفو و درگزر سے کام لینے کا حکم دیا گیا اور امت مسلمہ کے لیے قصاص کو جواز کی حد تک رکھا گیا اور قصاص کے بجائے دیت کو پسند کیا گیا اور عفو و درگزر کی ترغیب دی گئی اور اسے ایک مستحسن عمل قرار دیا گیا۔ یا مثلاً یہود میں اگر عورت حائضہ ہوجاتی تو نہ اس کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا کھاتے، نہ اس کے ساتھ کھاتے، بلکہ اسے اپنے گھر میں بھی نہ رہنے دیتے تھے اور ایسی عورتوں کا کسی الگ مقام پر رہائش کا بندوبست کیا کرتے تھے (مسلم، کتاب الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زدجہا) نصاریٰ ایسی عورتوں سے کسی طرح کا بھی پرہیز نہیں کرتے تھے۔ جبکہ مسلمانوں کو دوران حیض صرف جماع سے اجتناب کا حکم دیا گیا۔ باقی کاموں میں کوئی پابندی نہیں رکھی گئی۔ اس کے ہاتھوں کا پکایا ہوا کھانا جائز اس کے ساتھ رہنا حتیٰ کہ اسکا بوسہ لینا اور اسے گلے لگانا بلکہ اسکے ساتھ لیٹ جانے تک کو جائز قرار دیا گیا اور صرف مجامعت پر پابندی لگائی گئی۔- [ ١٧٧] ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) کو بلایا جائے گا وہ کہیں گے لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھیں گے، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے جی ہاں پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا۔ کیا نوح (علیہ السلام) نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہیں گے : تمہارا کوئی گواہ ہے ؟ وہ کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت۔ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ یقینا نوح (علیہ السلام) نے پیغام پہنچا دیا تھا اور پیغمبر ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ بنیں گے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکور) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت نوح (علیہ السلام) کی امت کہے گی تمہاری گواہی کیسے مقبول ہوسکتی ہے۔ جب کہ تم نے نہ ہمارا زمانہ پایا اور نہ ہمیں دیکھا۔ اس وقت امت وسط یہ جواب دے گی کہ ہم کو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے بتلانے سے یہ یقینی علم حاصل ہوا۔ اسی لیے ہم یہ گواہی دیتے ہیں۔- یہ تو تھی امت مسلمہ کی دوسری امتوں پر گواہی کی کیفیت۔ اس کے بعد خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے ان لوگوں کے خلاف گواہی دیں گے جنہوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا اور کہتے تھے کہ قرآن بیشک اس زمانہ میں تو ایک کارآمد کتاب تھی مگر آج زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ لہذا اس کی تعلیمات فرسودہ ہوچکی ہیں۔ یا ان لوگوں کے خلاف جو اپنے جلسے جلوسوں کا افتتاح تو تلاوت قرآن سے کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد انہیں قرآن سے کچھ غرض نہیں ہوتی یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآن کو محض عملیات کی ایک کتاب قرار دے رکھا ہے اور اس سے اپنی صرف دنیوی اغراض کے لیے اس کی آیات سے تعویذ وغیرہ تیار کرتے اور تجربے کرتے رہتے ہیں۔ یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآن کو ایک مشکل ترین کتاب سمجھ کر اس کو عقیدتاً ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر کسی اونچے طاقچے میں تبرکا " رکھ دیا ہوتا ہے۔ یا ان لوگوں کے خلاف جو قرآنی آیات و احکام کو سمجھنے کے بعد محض دنیوی اغراض یا فرقہ وارانہ تعصب کے طور پر ان کی غلط تاویل کرتے ہیں یا ان کے خلاف جو دیدہ و دانستہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ان سب لوگوں کے خلاف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حضور یہ گواہی دیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا جیسا کہ سورة فرقان کی آیت نمبر ٣٠ سے صاف واضح ہے۔- ] ـــ ١٧٧۔ ١] جب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو منافقوں اور یہودیوں دونوں نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیا اور اس قدر پروپیگنڈا کیا کہ آسمان سر پر اٹھا لیا، اور وہ پروپیگنڈا یہ تھا کہ مسلمان کبھی کسی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ کبھی کسی طرف ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ ان لوگوں کے پروپیگنڈا سے کچھ کمزور ایمان والے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے البتہ جو اپنے ایمان میں راسخ اور مضبوط تھے۔ انہوں نے اس پروپیگنڈا کی مطلقاً پروا نہ کی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ اپنے احکام کی حکمت خود ہی بہتر جانتا ہے، فوراً سر تسلیم خم کردیا۔ چناچہ انہیں دیکھ کر متاثر ہونے والے مسلمان بھی اپنے پاؤں پر پوری طرح جم گئے، اور حقیقتاً ایسا پروپیگنڈا مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش بن گیا تھا اور اللہ کی مہربانی سے مسلمان اس میں ثابت قدم نکلے۔- [ ١٧٨] براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ بہت سے مسلمان تحویل قبلہ سے پہلے شہید ہوچکے تھے، ہمیں ان کے متعلق شبہ ہوا کہ ان کی ادا کردہ نمازوں کا کیا بنے گا، تب یہ آیت نازل ہوئی (وَمَا كَان اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ١٤٣۔ ) 2 ۔ البقرة :143) (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وسط کا معنی درمیان ہے، افضل چیز کو بھی وسط کہہ لیتے ہیں، کیونکہ درمیانی چیز سب سے بہتر ہوتی ہے۔ یہاں مراد سب سے بہتر ہے، جیسا کہ فرمایا : (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ ) [ آل عمران : ١١٠] ” تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی۔ “ کیونکہ دو نقطوں کے درمیان سب سے مختصر اور صحیح خط مستقیم ہی ہوتا ہے۔ ابو سعید خدری (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا معنی یہاں ” عدل “ روایت کیا ہے۔ [ بخاری، التفسیر : ٤٤٨٧ ] عدل کا معنی ثقہ اور قابل اعتماد بھی ہے، اعتقاد و اخلاق اور اعمال میں معتدل اور پہلی امتوں کی افراط و تفریط سے پاک بھی۔ نہ یہاں یہود کی سختی ہے نہ نصاریٰ کی نرمی۔ (کبیر، قرطبی)- وَكَذٰلِكَ : یعنی جس طرح یہ دو باتیں تمہارے پاس پوری ہیں اور تمہارے مخالفوں کے پاس ناقص، ایک یہ کہ تم تمام انبیاء کو مانتے ہو اور یہود و نصاریٰ کسی کو مانتے ہیں کسی کو نہیں، دوسری یہ کہ تمہارا قبلہ کعبہ ہے، جو ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے مقرر ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) سب کے پیشوا ہیں، یہود و نصاریٰ اور ان کے قبلے بعد کی بات ہیں۔ اسی طرح ہم نے تمہیں ہر کام میں افضل امت بنادیا ہے۔ اس لیے اب تمہارا کام ہے کہ تم دوسروں کی راہنمائی کرو، ان کا کام نہیں کہ تمہاری راہنمائی کریں۔ (موضح)- لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ) اس سے تین طرح کی شہادت مراد ہے، پہلی یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہادت دیں گے کہ انھوں نے صحابہ تک پیغام حق پہنچا دیا، صحابہ تابعین پر اور اسی طرح امت کا ہر طبقہ آنے والوں پر یہ شہادت دے گا۔ اس امت کے افضل ہونے کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں، جیسا کہ سورة آل عمران (١١٠) میں فرمایا : (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ ) ، چناچہ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا : ” اے لوگو تم اللہ کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے اکٹھے کیے جانے والے ہو۔ “ پھر فرمایا : ” اور میری امت کے کچھ لوگوں کو بائیں طرف لے جایا جائے گا تو میں کہوں گا، پروردگار یہ تو میرے ساتھی ہیں، تو کہا جائے گا، آپ نہیں جانتے انھوں نے آپ کے بعد کیا نیا کام کیا تھا۔ تو میں کہوں گا جیسے صالح بندے (عیسیٰ (علیہ السلام ) نے کہا تھا : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ۭواَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ) [ المائدۃ : ١١٧ ] ” اور میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان میں رہا، پھر جب تونے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔ “ - [ بخاری، التفسیر، باب : ( و کنتعلیہمشہیدًا ۔۔ ): ٤٦٢٥ ] یہی بات جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں صحابہ کرام (رض) سے پوچھی : ” کیا میں نے (اللہ تعالیٰ کا) پیغام (آپ لوگوں تک) پہنچا دیا ؟ “ تو سب نے کہا : ” بیشک آپ نے پہنچا دیا۔ “ [ بخاری، الحج، باب الخطبۃ أیام منٰی : ١٧٤١ ]- اب ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ یہ پیغام آنے والوں تک پہنچائے، تبھی وہ ان پر شہادت دے سکے گا اور تبھی وہ امت وسط کہلانے کا حق دار ہوگا اور جو امت مسلمہ کی تمام گمراہی دیکھ کر بھی خاموش رہے گا وہ نہ گواہی دے سکے گا اور نہ امت وسط کا مصداق ہوگا۔ دوسری وہ شہادت ہے جو امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خبر دینے کی بنا پر پہلی تمام امتوں پردے گی کہ ان کے انبیاء نے اللہ کے احکام ان تک پہنچا دیے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نوح (علیہ السلام) اور ان کی امت آئے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تم نے پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ عرض کریں گے، ہاں اے میرے رب پھر ان کی امت کو فرمائے گا، کیا انھوں نے تمہیں پیغام پہنچا دیا تھا ؟ تو وہ کہیں گے، نہیں ہمارے پاس تو کوئی نبی آیا ہی نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نوح ( (علیہ السلام) ) سے فرمائے گا، تمہاری شہادت کون دے گا ؟ وہ عرض کریں گے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت، پھر ہم شہادت دیں گے کہ یقیناً انھوں نے پیغام پہنچا دیا تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ عزوجل : ( ولقد أرسلنا ۔۔ ) : ٣٣٣٩، ٤٤٨٧، عن أبی سعید الخدری (رض) ]- تیسری شہادت دنیا ہی میں مسلمانوں کی کسی کے حق میں نیک یا بد ہونے کی شہادت ہے، جس کی بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنازے کے لیے جنت اور دوسرے کے لیے جہنم واجب ہونے کا اعلان فرمایا اور فرمایا : ( أَنْتُمْ شُہَدَاء اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ ) ” تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔ “ [ بخاری، الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت : ١٣٦٧ ]- (وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ ) یہ تحویل قبلہ کی ایک حکمت بیان فرمائی ہے۔ قریش کو بطور قبلہ بیت اللہ عزیز تھا اور اہل کتاب کو بیت المقدس۔ پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرکے قریش اور ان کے ساتھیوں کی آزمائش ہوئی، پھر بیت اللہ کو مقرر کرکے اہل کتاب کی۔ اپنے محبوب قبلہ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرماں برداری میں ترک کرنا ہدایت یافتہ لوگوں کے سوا دوسروں کے لیے نہایت مشکل تھا، اس لیے جنھیں یہ ہدایت نصیب نہ تھی وہ ڈگمگا گئے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے جس قبلے کی طرف آپ رخ کرتے تھے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا تھا، اگرچہ قرآن مجید میں اس حکم کا ذکر نہیں ہے۔ یہ دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید کے علاوہ بھی احکام نازل ہوتے تھے، جنھیں وحی خفی یا حدیث کہا جاتا ہے اور انھیں ماننا بھی قرآن کی طرح فرض ہے۔ - ( وَمَا كَان اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ۭ ) براء (رض) فرماتے ہیں کہ تحویل قبلہ سے قبل کئی آدمی پہلے قبلے کے زمانے میں قتل ہو کر فوت ہوچکے تھے، ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ ہم ان کے متعلق کیا کہیں تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا : (ۭ وَمَا كَان اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ۭ )” اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کر دے۔ “ یعنی تمہاری پہلی نمازیں اللہ کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ [ بخاری،- الإیمان، باب الصلاۃ من الإیمان : ٤٠ ] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نماز کو ایمان قرار دیا۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کو ایمان قرار دیتے ہیں ان کی بات درست نہیں، بلکہ اعمال بھی ایمان کا جز ہیں اور نماز اور زکوٰۃ تو ایسا جز ہیں جن کے بغیر بندہ اسلامی برادری (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ) کا حصہ ہی نہیں بنتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ ) [ التوبۃ : ١١] ” پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں۔ “ اور جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلاَۃِ ) [ مسلم، الإیمان، باب بیان إطلاق اسم ۔۔ : ٨٢ ]” آدمی کے درمیان اور شرک و کفر کے درمیان (فرق) نماز کا چھوڑنا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (اے متبعان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح ہم نے تم کو ایسی ہی ایک جماعت بنادی ہے جو (ہر پہلو سے) نہایت اعتدال پر ہے تاکہ (دنیا میں شرف و امتیاز حاصل ہونے کے علاوہ آخرت میں بھی تمہارا بڑا شرف ظاہر ہو کہ) تم (ایک بڑے مقدمہ میں جس میں ایک فریق حضرات انبیاء (علیہم السلام) ہوں گے اور فریق ثانی ان کی مخالف قومیں ہوں گی ان مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ (تجویز) ہو اور (شرف بالائے شرف یہ ہوا کہ) تمہارے (قابل شہادت اور معتبر ہونے کے) لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہ ہوں ( اور اس شہادت سے تمہاری شہادت معتبر ہونے کی تصدیق ہو پھر تمہاری شہادت سے اس مقدمہ کا حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں فیصلہ ہو اور مخالفین مجرم قرار پاکر سزا یاب ہوں اور اس امر کا اعلیٰ درجہ کی عزت ہونا ظاہر ہے) - معارف و مسائل :- امت محمدیہ کا خاص اعتدال :- لفظ وَسَطَ بفتح السین بمعنی اوسط ہے اور خیر الامور اور افضل اشیاء کو وسط کہا جاتا ہے، - ترمذی میں بروایت ابو سعید خدری آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لفظ وسط کی تفسیر عدل سے کی گئی ہے جو بہترین کے معنی میں آیا ہے (قرطبی) اس آیت میں امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی ایک امتیازی فضیلت وخصوصیت کا ذکر ہے کہ وہ ایک معتدل امت بنائی گئی اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے مسلمانوں کو وہ قبلہ عطا کیا جو سب سے اشرف و افضل ہے اسی طرح ہم نے امت اسلامیہ کو ایک خاص امتیازی فضیلت یہ عطا کی ہے کہ اس کو ایک معتدل امت بنایا ہے جس کے نتیجہ میں ان کو میدان حشر میں یہ امتیاز حاصل ہوگا کہ سارے انبیاء (علیہم السلام) کی امتیں جب اپنے انبیاء کی ہدایت و تبلیغ سے مکر جائیں گی اور ان کو جھٹلا کر یہ کہیں گی کہ ہمارے پاس نہ کوئی کتاب آئی نہ کسی نبی نے ہمیں کوئی ہدایت کی اس وقت امت محمدیہ انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے گواہی میں پیش ہوگی اور یہ شہادت دے گی کہ انبیاء (علیہم السلام) نے ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائی ہوئی ہدایت ان کو پہنچائیں اور ان کو صحیح راستہ پر لانے کی مقدور بھر پوری کوشش کی مدعیٰ علیہم امتیں امت محمدیہ کی گواہی پر یہ جرح کریں گی کہ اس امت محمدیہ کا تو ہمارے زمانے میں وجود بھی نہ تھا اس کو ہمارے معاملات کی کیا خبر اس کی گواہی ہمارے مقابلہ میں کیسے قبول کی جاسکتی ہے،- امت محمدیہ اس جرح کا یہ جواب دے گی کہ بیشک ہم اس وقت موجود نہ تھے مگر ان کے واقعات و حالات کی خبر ہمیں ایک صادق مصدوق رسول نے اور اللہ کی کتاب نے دی ہے جس پر ہم ایمان لائے اور ان کی خبر کو اپنے معائنہ سے زیادہ وقیع اور سچا جانتے ہیں اس لئے ہم اپنی شہادت میں حق بجانب اور سچے ہیں اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش ہوں گے اور ان گواہوں کا تزکیہ و توثیق کریں گے کہ بیشک انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری تعلیم کے ذریعہ ان کو یہ صحیح حالات معلوم ہوئے،- محشر کے اس واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری، ترمذی، نسائی، اور مسند احمد کی متعدد احادیث میں مجملا اور مفصلا مذکور ہے،- الغرض آیت مذکورہ میں امت محمدیہ کی اعلیٰ فضلیت وشرف کا راز یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ امت معتدل امت بنائی گئی ہے اس لئے یہاں چند باتیں قابل غور ہیں، - اعتدال امت کی حقیقت، اہمیت اور اس کی کچھ تفصیل :- (١) اعتدال کے معنی اور حقیقت کیا ہیں، (٢) وصف اعتدال کی یہ اہمیت کیوں ہے کہ اس پر مدار فضیلت رکھا گیا، (٣) اس امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے معتدل ہونے کا واقعات کی رو سے کیا ثبوت ہے ترتیب وار ان تینوں سوالوں کا جواب یہ ہے،- ١۔ اعتدال کے لفظی معنی ہیں برابر ہونا یہ لفظ عدل سے مشتق ہے اس کے معنی بھی برابر کرنے کے ہیں ٢۔ وصف اعتدال کی یہ اہمیت کہ اس کو انسانی شرف و فضیلت کا معیار قرار دیا گیا، ذرا تفصیل طلب ہے، اس کو پہلے ایک محسوس مثال سے دیکھئے، دنیا کے جتنے نئے اور پرانے طریقے جسمانی صحت وعلاج کے لئے جاری ہیں طب یونانی، ویدک، ایلوپیتھک، ہومیو پیتھک وغیرہ سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ بدن انسانی کی صحت اعتدال مزاج سے ہے اور جہاں یہ اعتدال کسی جانب سے خلل پذیر ہو وہی بدن انسانی کا مرض ہے خصوصاً طب یونانی کا تو بنیادی اصول ہی مزاج کی پہچان پر موقوف ہے انسان کا بدن چار خلط خون، بلغم، سودا، صفرا، سے مرکب اور انہی چاروں اخلاط سے پیدا شدہ چار کیفیات انسان کے بدن میں ضروری ہیں گرمی، ٹھنڈک، خشکی اور تری، جس وقت تک یہ چاروں کیفیات مزاج انسانی کے مناسب حدود کے اندار معتدل رہتی ہیں وہ بدن انسانی کی صحت و تندرستی کہلاتی ہے اور جہاں ان میں سے کوئی کیفیت مزاج انسانی کی حد سے زیادہ ہوجائے یا گھٹ جائے وہی مرض ہے اور اگر اس کی اصلاح وعلاج نہ کیا جائے تو ایک حد میں پہنچ کر وہی موت کا پیام ہوجاتا ہے، - اس محسوس مثال کے بعد اب روحانیت اور اخلاقیات کی طرف آئیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں بھی اعتدال اور بےاعتدالی کا یہی طریقہ جاری ہے اس کے اعتدال کا نام روحانی صحت اور بےاعتدالی کا نام روحانی اور اخلاقی مرض ہے اور اس مرض کا اگر علاج کرکے اعتدال پر نہ لایا جائے تو اس کا نتیجہ روحانی موت ہے اور یہ بھی کسی صاحب بصیرت انسان پر مخفی نہیں کہ جوہر انسانیت جس کی وجہ سے انسان ساری مخلوقات کا حاکم اور مخدوم قرار دیا گیا ہے وہ اس کا بدن یا بدن کے اجزاء واخلاط یا ان کی کیفیات حرارت وبرودت نہیں کیونکہ ان اجزاء و کیفیات میں تو دنیا کے سارے جانور بھی انسانیت کے ساتھ شریک بلکہ انسانیت سے زیادہ حصہ رکھنے والے ہیں، - جوہر انسانیت جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات اور آقائے کائنات مانا گیا ہے وہ اس کے گوشت پوست اور حرارت وبرودت وغیرہ سے بالاتر کوئی چیز ہے جو انسان میں کامل اور اکمل طور پر موجود ہے دوسری مخلوقات کو اس کا وہ درجہ حاصل نہیں اور اس کا معین کرلینا بھی کوئی باریک اور مشکل کام نہیں کہ وہ انسان کا روحانی اور اخلاقی کمال ہے جس نے اس کو مخدوم کائنات بنایا ہے مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے ،- آدمیت لحم وشحم و پوست نیست - آدمیت جز رضائے دوست نیست - اور اسی وجہ سے وہ انسان جو اپنے جوہر شرافت و فضیلت کی بےقدری کرکے اس کو ضائع کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا،- اینکہ می بینی خلاف آدم اند - نیستند آدم غلاف آدم اند - اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ انسان کا جوہر شرافت اور مدار فضیلت اس کے روحانی اور اخلاقی کمالات ہیں اور یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ بدن انسانی کی طرح روح انسانی بھی اعتدال وبے اعتدالی کا شکار ہوتی ہے اور جس طرح بدن انسانی کی صحت اس کے مزاج اور اخلاط کا اعتدال ہے اسی طرح روح کی صحت روح اور اس کے اخلاق کا اعتدال ہے، اس لئے انسان کامل کہلانے کا مستحق صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو جسمانی اعتدال کے ساتھ روحانی اور اخلاقی اعتدال بھی رکھتا ہو یہ کمال تمام انبیاء (علیہم السلام) کو خصوصیت کے ساتھ عطا ہوتا ہے اور ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انبیاء (علیہم السلام) میں بھی سب سے زیادہ یہ کمال حاصل تھا اس لئے انسان کامل کے اولین مصداق آپ ہی ہیں اور جس طرح جسمانی علاج معالجہ کے لئے ہر زمانہ اور ہر جگہ ہر بستی میں طبیب اور ڈاکٹر اور دواؤں اور آلات کا ایک محکم نظام حق تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے اسی طرح روحانی علاج اور قوموں میں اخلاقی اعتدال پیدا کرنے کے لئے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے گئے ان کے ساتھ آسمانی ہدایات بھیجی گئیں اور بقدر ضرورت مادی طاقتیں بھی عطا کی گئیں جن کے ذریعہ وہ یہ قانون اعتدال دنیا میں نافذ کرسکیں اسی مضمون کو قرآن کریم میں سورة حدید میں اس طرح بیان فرمایا ہے ،- لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِ (٢٥: ٥٧) یعنی ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول نشانیاں دے کر اور اتاری ان کے ساتھ کتاب اور ترازو تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوجائیں اور ہم نے اتارا لوہا اس میں سخت لڑائی ہے اور لوگوں کے کام چلتے ہیں، - اس میں انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور ان پر کتابیں نازل کرنے کی حکمت یہی بتلائی ہے کہ وہ ان کے ذریعہ لوگوں میں اخلاقی اور عملی اعتدال پیدا کریں، کتاب، اخلاق، اور روحانی اعتدال پیدا کرنے کے لئے نازل کی گئی اور ترازو معاملات لین دین میں عملی اعتدال پیدا کرنے کے لئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ترازو سے مراد ہر پیغمبر کی شریعت ہو جس کے ذریعہ اعتدال حقیقی معلوم ہوتا ہے اور عدل و انصاف قائم کیا جاسکتا ہے۔- اس تفصیل سے آپ نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور ان پر کتابیں نازل کرنے کی اصلی غرض و حکمت یہی ہے کہ قوموں کو اخلاقی اور عملی اعتدال پر قائم کیا جائے اور یہی قوموں کی صحت مندی اور تندرستی ہے،- امت محمدیہ میں ہر قسم کا اعتدال :- اس بیان سے آپ نے یہ بھی معلوم کرلیا ہوگا کہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی جو فضلیت آیت مذکورہ میں بتلائی گئی وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا یعنی ہم نے تمہیں ایک معتدل امت بنایا ہے یہ بولنے اور لکھنے میں تو ایک لفظ ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے کسی قوم یا شخص میں جتنے کمالات اس دنیا میں ہو سکتے ہیں ان سب کے لئے حاوی اور جامع ہے،- اس میں امت محمدیہ کو امت وسط یعنی معتدل امت فرما کر یہ بتلا دیا کہ انسان کا جوہر شرافت و فضیلت ان میں بدرجہ کمال موجود ہے اور جس غرض کیلئے یہ آسمان و زمین کا سارا نظام ہے اور جس کے لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں بھیجی گئی ہیں یہ امت اس میں ساری امتوں سے ممتاز اور افضل ہے،- قرآن کریم نے اس امت کے متعلق اس خاص وصف فضیلت کا بیان مختلف آیات میں مختلف عنوانات سے کیا ہے سورة اعراف کے آخر میں امت محمدی کے لئے ارشاد ہوا،- وممن خلقنا امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون (١٨١: ٧) یعنی ان لوگوں میں جن کو ہم نے پیدا کیا ہے ایک ایسی امت ہے جو سچی راہ بتلاتے ہیں اور اس کے موافق انصاف کرتے ہیں، - اس میں امت محمدیہ کے اعتدال روحانی و اخلاقی کو واضح فرمایا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کو چھوڑ کر آسمانی ہدایت کے مطابق خود بھی چلتے ہیں اور دوسروں کو بھی چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی معاملہ میں نزاع واختلاف ہوجائے تو اس کا فیصلہ بھی اسی لیے لاگ آسمانی قانون کے ذریعہ کرتے ہیں جس میں کسی قوم یا شخص کے ناجائز مفاد کا کوئی خطرہ نہیں، - اور سورة آل عمران میں امت محمدیہ کے اسی اعتدال مزاج اور اعتدال روحانی کے آثار کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے،- كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤ ْمِنُوْنَ باللّٰهِ ۭ (١١٠: ٣) یعنی تم سب امتوں میں بہتر ہو جو عالم میں بھیجی گئی ہو، حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور اللہ پر ایمان لاتے ہو،- یعنی جس طرح ان کو سب رسولوں میں افضل نصیب ہوئے کتاب سب کتابوں میں جامع اور اکمل نصیب ہوئی، اسی طرح ان کو قوموں کا صحت مندانہ مزاج اور اعتدال بھی اس اعلیٰ پیمانے پر نصیب ہوا کہ وہ سب امتوں میں بہتر قرار پائی اس پر علوم و معارف کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں، ایمان وعمل وتقویٰ کی تمام شاخیں ان کی قربانیوں سے سرسبز و شاداب ہوں گی وہ کسی مخصوص ملک و اقلیم میں محصور نہ ہوگی بلکہ اس کا دائرہ عمل سارے عالم اور انسانی زندگی کے سارے شعبوں کو محیط ہوگا گویا اس کا وجود ہی اس لئے ہوگا کہ دوسروں کی خیر خواہی کرے اور جس طرح ممکن ہو انھیں جنت کے دروازوں پر لاکھڑا کردے، اُخْرِجَتْ للنَّاس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہ امت دوسروں کی خیر خواہی اور فائدہ کے لئے بنائی گئی ہے اس کا فرض منصبی اور قومی نشان یہ ہے کہ لوگوں کو نیک کاموں کی ہدایت کرے برے کاموں سے روکے،- ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد الدین النصیحۃ کا یہی مطلب ہے کہ دین اس کا نام ہے کہ سب مسلمانوں کی خیر خواہی کرے پھر برے کاموں میں کفر، شرک، بدعات، رسوم قبیحہ فسق و فجور اور ہر قسم کی بداخلاقی اور نامعقول باتیں شامل ہیں ان سے روکنا بھی کئی طرح ہوگا کبھی زبان سے کبھی ہاتھ سے کبھی قلم سے، کبھی تلوار سے، غرض ہر قسم کا جہاد اس میں داخل ہوگیا یہ صفت جس قدر عموم و اہتمام سے امت محمدیہ میں پائی گئی پہلی امتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی، - ٣۔ اب تیسری بات غور طلب یہ رہ گئی کہ اس امت کے توسط و اعتدال کا واقعات سے ثبوت کیا ہے اس کی تفصیل طویل اور تمام امتوں کے اعتقادات، اعمال و اخلاق اور کارناموں کا موازنہ کرکے بتلانے پر موقوف ہے اس میں سے چند چیزیں بطور مثال ذکر کی جاتی ہیں،- اعتقادی اعتدال :- سب سے پہلے اعتقادی اور نظری اعتدال کو لے لیجئے تو پچھلی امتوں میں ایک طرف تو یہ نظر آئے گا کہ اللہ کے رسولوں کو اس کا بیٹا بنا لیا اور ان کی عبادت اور پرستش کرنے لگے؛ وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ (٣٠: ٩) اور دوسری طرف انہی قوموں کے دوسرے افراد کا یہ عالم بھی مشاہدہ میں آئے گا کہ رسول کے مسلسل معجزات دیکھنے اور برتنے کے باوجود جب ان کا رسول ان کو کسی جنگ و جہاد کی دعوت دیتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں، - فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ (٢٤: ٥) یعنی جائیے آپ اور آپ کا پروردگار وہی مخالفین سے قتال کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں کہیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ اپنے انبیاء کو خود ان کے ماننے والے طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتے ہیں۔- بخلاف امت محمدیہ کے کہ وہ ہر قرن ہر زمانے میں ایک طرف تو اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ عشق و محبت رکھتے ہیں کہ اس کے آگے اپنی جان ومال اور اولاد وآبرو سب کو قربان کردیتے ہیں، - سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں - بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں - اور دوسری طرف یہ اعتدال کہ رسول کو رسول اور خدا کو خدا سمجھتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باایں ہمہ کمالات و فضائل عبداللہ و رسولہ مانتے اور کہتے ہیں وہ آپ کے مدائح ومناقب میں بھی یہ پیمانہ رکھتے ہیں جو قصیدہ بردہ میں فرمایا،- دع ما ادعتہ النصاریٰ فی نبیھم - واحکم بما شئت مدحاً فیہ واحتکم - یعنی اس کلمہ کفر کو چھوڑ دو جو انصاریٰ نے اپنے نبی کے بارے میں کہہ دیا (کہ وہ معاذ اللہ خود خدا یا خدا کے بیٹے ہیں) اس کے سوا آپ کی مدح وثنا میں جو کچھ کہو وہ سب حق و صحیح ہے،- جس کا خلاصہ کسی نے ایک مصرع میں اس طرح بیان کردیا،- بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔- عمل اور عبادت میں اعتدال :- اعتقاد کے بعد عمل اور عبادت کا نمبر ہے اس میں ملاحظہ فرمائیے پچھلی امتوں میں ایک طرف تو یہ نظر آئے گا کہ اپنی شریعت کے احکام کو چند ٹکوں کے بدلے فروخت کیا جاتا ہے رشوتیں لے کر آسمانی کتاب میں ترمیم کی جاتی ہے یا غلط فتوے دئیے جاتے ہیں اور طرح طرح کے حیلے بہانے کرکے شرعی احکام کو بدلا جاتا ہے عبادت سے پیچھا چھڑایا جاتا ہے اور دوسری طرف عبادت خانوں میں آپ کو ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جنہوں نے ترک دنیا کرکے رہبانیت اختیار کرلی وہ خدا کی دی ہوئی حلال نعمتوں سے بھی اپنے آپ کو محروم رکھتے اور سختیاں جھیلنے ہی کو عبادت وثواب سمجھتے ہیں ؛- امت محمدیہ نے اس کے خلاف ایک طرف رہبانیت کو انسانیت پر ظلم قرار دیا اور دوسری طرف احکام خدا و رسول پر مر مٹنے کا جذبہ پیدا کیا اور قیصر وکسریٰ کے تخت وتاج کے مالک بن کر دنیا کو یہ دکھلا دیا کہ دیانت وسیاست میں یا دین و دنیا میں بیر نہیں مذہب صرف مسجدوں یا خانقاہوں کے گوشوں کے لئے نہیں آیا بلکہ اس کی حکمرانی بازاروں اور دفتروں پر بھی ہے اور وزارتوں اور امارتوں پر بھی اس نے بادشاہی میں فقیری اور فقیری میں بادشاہی سکھلائی۔- چو فقر اندر لباس شاہی آمد - زتدبیر عبید اللہی آمد - معاشرتی اور تمدنی اعتدال :- اس کے بعد معاشرت اور تمدن کو دیکھئے تو پچھلی امتوں میں آپ ایک طرف یہ بےاعتدالی دیکھیں گے کہ انسانی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں حق ناحق کی کوئی بحث نہیں اپنی اغراض کے خلاف جس کو دیکھا اس کو کچل ڈالنا، قتل کردینا، لوٹ لینا سب سے بڑا کمال ہے ایک رئیس کی چراگاہ میں کسی دوسرے کا اونٹ گھس گیا اور وہاں کچھ نقصان کردیا تو عرب کی مشہور جنگ حرب بسوس مسلسل سو برس جاری رہی ہزاروں انسانوں کا خون ہوا عورتوں کو انسانی حقوق دینا تو کجا زندہ رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی کہیں بچپن ہی میں ان کو زندہ درگور کردینے کی رسم تھی کہیں مردہ شوہروں کے ساتھ ستی کرکے جلا ڈالنے کا رواج تھا اس کے بالمقابل دوسری طرف یہ سفیہانہ رحم دلی کہ کیڑے مکوڑوں کی ہتھیا کو حرام سمجھیں جانوروں کے ذبیحہ کو حرام قرار دیں خدا کے حلال کئے ہوئے جانوروں کے گوشت و پوست سے نفع اٹھانے کو ظلم سمجھیں امت محمدیہ اور اس کی شریعت نے ان سب بےاعتدالیوں کا خاتمہ کیا ایک طرف انسان کو انسان کے حقوق کی حفاظت سکھلائی عورتوں کو مردوں کی طرح حقوق عطا فرمائے اور دوسری طرف ہر چیز کی حد مقرر فرمائی جس سے آگے بڑہنے اور پیچھے رہنے کو جرم قرار دیا اور اپنے حقوق کے معاملہ میں درگذر اور عفو وچشم پوشی کا سبق سکھلایا دوسروں کے حقوق کا پورا اہتمام کرنے کے آداب سکھلائے،- اقتصادی اور مالی اعتدالی :- اس کے بعد دنیا کی ہر قوم وملت میں سب سے اہم مسئلہ معاشیات اور اقتصادیات کا ہے اس میں بھی دوسری قوموں اور امتوں میں طرح طرح کی بےاعتدالیاں نظر آئیں ایک طرف نظام سرمایہ داری ہے جس میں حلال و حرام کی قیود سے اور دوسرے لوگوں کی خوش حالی یا بدحالی سے آنکھیں بند کرکے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرلینا سب سے بڑی انسانی فضیلت سمجھی جاتی ہے تو دوسری طرف شخصی اور انفرادی ملکیت ہی کو سرے سے جرم قرار دیا جاتا ہے اور غور کرنے سے دونوں اقتصادی نظاموں کا حاصل مال و دولت کی پرستش اور اس کو مقصد زندگی سمجھنا اور اس کے لئے دوڑ دھوپ ہے،- امت محمدیہ اور اس کی شریعت نے اس میں بھی اعتدال کی عجیب و غریب صورت پیدا کی کہ ایک طرف تو دولت کو مقصد زندگی بنانے سے منع فرمایا اور انسانی عزت و شرافت یا کسی منصب عہدہ کا مدار اس پر نہیں رکھا اور دوسری طرف تقسیم دولت کے ایسے پاکیزہ اصول مقرر کئے جن سے کوئی انسان ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے اور کوئی فرد ساری دولت کو نہ سمیٹ لے قابل اشتراک چیزوں کو مشترک اور وقف عام رکھا مخصوص چیزوں میں انفرادی ملکیت کا مکمل احترام کیا حلال مال کی فضیلت اس کے رکھنے اور استعمال کرنے کے صحیح طریقے بتلائے اس کی تفصیل اس قدر طویل ہے کہ ایک مستقل بیان کو چاہتی ہے اس وقت بطور مثال چند نمونے اعتدال اور بےاعتدالی کے پیش کرنے تھے اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے جس سے آیت مذکورہ کا مضمون واضح ہوگیا کہ امت محمدیہ کو ایک معتدل اور بہترین امت بنایا گیا ہے،- شہادت کے لئے عدل وثقہ ہونا شرط ہے :- لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاس یعنی امت محمدیہ کو وسط اور عدل وثقۃ اس لئے بنایا گیا کہ یہ شہادت دینے کے قابل ہوجائیں اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص عدل نہیں وہ قابل شہادت نہیں، عدل کا ترجمہ ثقہ یعنی قابل اعتماد کیا جاتا ہے اس کی پوری شرائط کتب فقہ میں مذکور ہیں، - اجماع کا حجت ہونا : - قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت اجماع امت کے حجت ہونے پر ایک دلیل ہے کیونکہ جب اس امت کو اللہ تعالیٰ نے شہداء قرار دے کر دوسری امتوں کے بالمقابل انکی بات کو حجت بنادیا تو ثابت ہوا کہ اس امت کا اجماع حجت ہے اور عمل اس پر واجب ہے اس طرح کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کا اجماع تابعین پر اور تابعین کا اجماع تبع تابعین پر حجت ہے،- اور تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اس امت کے جو افعال و اعمال متفق علیہ ہیں وہ سب محمود و مقبول ہیں کیونکہ اگر سب کا اتفاق کسی خطا پر تسلیم کیا جائے تو پھر یہ کہنے کے کوئی معنی نہیں رہتے کہ یہ امت وسط اور عدل ہے۔- اور امام جصاص نے فرمایا کہ اس آیت میں اس کی دلیل ہے کہ ہر زمانے کے مسلمانوں کا اجماع معتبر ہے اجماع کا حجت ہونا صرف قرن اول یا کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیونکہ آیت میں پوری امت کو خطاب ہے اور امت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صرف وہ نہ تھے جو اس زمانے میں موجود تھے بلکہ قیامت تک آنے والی نسلیں جو مسلمان ہیں وہ سب آپ کی امت ہیں تو ہر زمانے کے مسلمان شہداء اللہ ہوگئے جن کا قول حجت ہے وہ سب کسی خطاء اور غلط پر متفق نہیں ہوسکتے،- (وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ :) - خلاصہ تفسیر :- (اور اصل میں تو شریعت محمدیہ کے لئے ہم نے کعبہ ہی قبلہ تجویز کر رکھا تھا) اور جس سمت قبلہ پر آپ (چند روز قائم) رہ چکے ہیں (یعنی بیت المقدس) وہ تو محض اس (مصلحت کے) لئے تھا کہ ہم کو (ظاہری طور پر بھی) معلوم ہوجاوے کہ (اس کے مقرر ہونے سے یا بدلنے سے یہود اور غیر یہود میں سے) کون تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع اختیار کرتا ہے اور کون پیچھے کو ہٹتا جاتا ہے (اور نفرت اور مخالفت کرتا ہے اس امتحان کے لئے اس عارضی قبلہ کو مقرر کیا تھا پھر اصلی قبلہ سے اس کو منسوخ کردیا) اور یہ قبلہ کا بدلنا (منحرف لوگوں پر) ہوا بڑا ثقیل (ہاں) مگر جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے (سیدھے طریق کی) ہدایت فرمائی ہے (جس کا بیان اوپر آچکا ہے کہ احکام الہیہ کو بےچون وچرا قبول کرلینا ان کو کچھ بھی گراں نہیں ہوا جیسا پہلے اس کو خدا کا حکم سمجھتے تھے اب اس کو سمجھنے لگے) اور (ہم نے جو کہا ہے کہ بیت المقدس قبلہ غیر اصلی تھا اس سے کوئی شخص یہ وسوسہ نہ لاوے بس تو جتنی نمازیں ادھر پڑھی ہیں ان میں ثواب بھی کم ملا ہوگا کیونکہ اصلی قبلہ کی طرف نہ تھیں سو اس وسوسہ کو دل میں نہ لانا کیونکہ) اللہ تعالیٰ ایسے نہیں کہ تمہارے ایمان (کے متعلق اعمال مثلاً نماز کے ثواب) کو ضائع (اور ناقص) کردیں (اور) واقعی اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں پر بہت ہی شفیق (اور) مہربان ہیں (تو ایسے شفیق مہربان پر یہ گمان کب ہوسکتا ہے کیونکہ کسی قبلہ کا اصلی یا غیر اصلی ہونا تو ہم ہی جانتے ہیں تم نے تو دونوں کو ہمارا حکم سمجھ کر قبول کیا اس لئے ثواب بھی کسی کا کم نہ ہوگا) - معارف و مسائل :- کعبہ کے قبلہ نماز ہونے کی ابتداء کب ہوئی :- اس میں صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین کا اختلاف ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں جب نماز فرض ہوئی اس وقت قبلہ بیت اللہ تھا یا بیت المقدس۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول یہ ہے کہ اول ہی سے قبلہ بیت المقدس تھا جو ہجرت کے بعد بھی سولہ سترہ مہینہ تک باقی رہا اس کے بعد بیت اللہ کو قبلہ بنانے کے احکام نازل ہوگئے البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل مکہ مکرمہ میں یہ رہا کہ آپ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان نماز پڑہتے تھے تاکہ بیت اللہ بھی سامنے رہے اور بیت المقدس کا بھی استقبال ہوجائے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد یہ ممکن نہ رہا اس لئے تحویل قبلہ کا اشتیاق پیدا ہوا (ابن کثیر) - اور دوسرے حضرات نے فرمایا کہ جب نماز فرض ہوئی مکہ مکرمہ میں تو مسلمانوں کا ابتدائی قبلہ بیت اللہ ہی تھا کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واسماعیل (علیہ السلام) کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی رہا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے بیت اللہ ہی کی طرف نماز پڑھتے رہے پھر ہجرت کے بعد آپ کا قبلہ بیت المقدس قرار دے دیا گیا اور مدینہ منورہ میں سترہ مہینے آپ نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی اس کے بعد پھر آپ کا جو پہلا قبلہ تھا یعنی بیت اللہ اسی کی طرف نماز میں توجہ کرنے کا حکم آگیا تفسیر قرطبی میں بحوالہ ابو عمرو اسی کو اصح القولین قرار دیا ہے اور حکمت اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد چونکہ قبائل یہود سے سابقہ پڑا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مانوس کرنے کے لئے انہی کا قبلہ باذن خداوندی اختیار کرلیا مگر پھر تجربہ سے ثابت ہوا کہ یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنے والے نہیں تو پھر آپ کو اپنے اصلی قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا، جو آپ کو اپنے آباء ابراہیم واسماعیل کا قبلہ ہونے کی وجہ سے طبعاً محبوب تھا، - اور قرطبی نے ابوالعالیہ ریاحی سے نقل کیا ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی مسجد کا قبلہ بھی بیت اللہ کی طرف تھا اور پھر ابوالعالیہ نے نقل کیا ہے کہ ان کا ایک یہودی سے مناظرہ ہوگیا یہودی نے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا قبلہ صخرہ بیت المقدس تھا ابوالعالیہ نے کہا کہ نہیں موسیٰ (علیہ السلام) بیت المقدس کے پاس نماز پڑہتے تھے مگر آپ کا رخ بیت اللہ ہی کی طرف ہوتا تھا یہودی نے انکار کیا تو ابوالعالیہ نے کہا کہ اچھا میرے تمہارے جھگڑے کا فیصلہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی مسجد کردے گی جو بیت المقدس کے نیچے ایک پہاڑ پر ہے دیکھا گیا تو اس کا قبلہ بیت اللہ کی طرف تھا،- اور جن حضرات نے پہلا قول اختیار کیا ہے ان کے نزدیک حکمت یہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں تو مشرکین سے امتیاز اور ان سے مخالفت کا اظہار کرنا تھا اس لئے ان کا قبلہ چھوڑ کر بیت المقدس کو قبلہ بنادیا گیا پھر ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں یہود و نصاریٰ سے امتیاز اور ان کی مخالفت کا اظہار مقصود ہوا تو ان کا قبلہ بدل کر بیت اللہ کو قبلہ بنادیا گیا اسی اختلاف اقوال کی بناء پر آیت مذکورہ کی تفسیر میں بھی اختلاف ہوگیا کہ الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ سے کیا مراد ہے قول اول کی بناء پر اس سے مراد بیت المقدس ہے جو آپ کا قبلہ اولیٰ تھا اور قول ثانی کی بناء پر اس سے مراد کعبہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہی آپ کا پہلا قبلہ تھا،- اور مفہوم آیت کا دونوں صورتوں میں یہ ہے کہ ہم نے تحویل قبلہ کو آپ کا اتباع کرنے والے مسلمانوں کے لئے ایک امتحان قرار دیا ہے تاکہ ظاہر طور پر بھی معلوم ہوجائے کہ کون آپ کا صحیح فرمانبردار ہے اور کون اپنی رائے کے پیچھے چلتا ہے چناچہ تحویل قبلہ کا حکم نازل ہونے کے بعد بعض ضعیف الایمان یا وہ جن کے دلوں میں کچھ نفاق تھا اسلام سے پھرگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگایا کہ یہ تو اپنی قوم کے دین کی طرف پھرگئے،- بعض احکام متعلقہ :- کبھی سنت کو قرآن کے ذریعہ بھی منسوخ کیا جاتا ہے :- جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ قرآن کریم میں کہیں اس کی تصریح نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبل از ہجرت یا بعد ہجرت بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تھا بلکہ اس کا ثبوت صرف احادیث اور سنت نبویہ ہی سے ہے تو جو چیز سنت کے ذریعہ ثابت ہوئی تھی اس آیت قرآن نے اس کو منسوخ کرکے آپ کا قبلہ بیت اللہ کو بنادیا،- اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حدیث رسول بھی ایک حیثیت سے قرآن ہی ہے اور یہ کہ کچھ احکام وہ بھی ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں صرف حدیث سے ثابت ہیں اور قرآن ان کی شرعی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ اسی آیت کے اخیر میں یہ بھی مذکور ہے کہ جو نماریں بامر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی طرف پڑھی گئیں وہ بھی معتبر اور مقبول عنداللہ ہیں، - خبر واحد جبکہ قرائن قویہ اس کے ثبوت پر موجود ہوں اس سے قرآنی حکم منسوخ سمجھا جاسکتا ہے :- بخاری ومسلم اور تمام معتبر کتب حدیث میں متعدد صحابہ کرام (رض) اجمعین کی روایت سے منقول ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا اور آپ نے عصر کی نماز جانب بیت اللہ پڑھی (اور بعض روایات میں اس جگہ عصر کے بجائے ظہر مذکور ہے) (ابن کثیر) تو بعض صحابہ کرام (رض) اجمعین یہاں سے نماز پڑھ کر باہر گئے اور دیکھا کہ قبیلہ بنی سلمہ کے لوگ اپنی مسجد میں حسب سابق بیت المقدس کی طرف نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے آواز دے کر کہا کہ اب قبلہ بیت اللہ کی طرف ہوگیا ہے ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بجانب بیت اللہ نماز پڑھ کر آئے ہیں ان لوگوں نے درمیان نماز ہی اپنا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف پھیرلیا، نویلہ بنت مسلم کی روایت میں ہے کہ اس وقت عورتیں جو پچھلی صفوں میں تھیں آگے آگئیں اور مرد جو اگلی صفوں میں تھے پیچھے آگئے اور جب رخ بیت اللہ کی طرف بدلا گیا تو مردوں کی صفیں آگے اور عورتوں کی پیچھے ہوگئیں (ابن کثیر) - بنو سلمہ کے لوگوں نے تو ظہر یا عصر ہی سے تحویل قبلہ کے حکم پر عمل کرلیا مگر قباء میں یہ خبر اگلے دن صبح کی نماز میں پہنچی جیسا کہ بخاری ومسلم میں بروایت ابن عمر مذکور ہے اہل قباء نے بھی نماز ہی کے اندر اپنا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف پھیرلیا (ابن کثیر وجصاص) - امام جصاص نے یہ متعدد روایات حدیث نقل کرکے فرمایا :- ھذا خبر صحیح مستفیض فی ایدی اہل العلم قد تلقوہ بالقبول فصار فی حیز التواتر الموجب للعلم،- یعنی یہ حدیث اگرچہ اصل سے خبر واحد ہے مگر قرائن قویہ کی وجہ سے اس نے درجہ تواتر کا حاصل کرلیا ہے جو علم یقین کا موجب ہوتا ہے ،- مگر حنفیہ اور ان کے متفق فقہا جن کا ضابطہ یہ ہے کہ خبر واحد سے کوئی قطعی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا ان پر یہ سوال اب بھی باقی رہتا ہے کہ اس حدیث کی شہرت اور تلقی بالقبول تو بعد میں ہوئی بنو سلمہ اور اہل قباء کو تو اچانک ایک ہی آدمی نے خبر دی تھی اس وقت اس حدیث کو درجہ شہرت وتواتر حاصل نہیں تھا انہوں نے اس پر کیسے عمل کرلیا۔ جصاص نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ ان حضرات اور سب صحابہ کرام (رض) اجمعین کو پہلے سے یہ معلوم تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رغبت یہ ہے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کردیا جائے اور آپ اس کے لئے دعا بھی کررہے ہیں اس رغبت ودعا کی وجہ سے ان حضرات کی نظر میں استقبال بیت المقدس کا حکم آئندہ باقی نہ رہنے کا احتمال ضرور پیدا ہوگیا تھا اس احتمال کی وجہ سے بقاء قبلہ بیت المقدس ظنی ہوگیا تھا اس کے منسوخ کرنے کے لئے یہ خبر واحد کافی ہوگئی ورنہ محض خبر واحد سے کوئی قرآنی قطعی فیصلہ منسوخ ہوجانا معقول نہیں، - آلہ مکبر الصوت کی آواز پر نماز میں نقل و حرکت کے مفسد نماز نہ ہونے پر استدلال :- صحیح بخاری باب ما جاء فی القبلۃ میں حضرت عبداللہ بن عمر کی حدیث میں جو قباء میں تحویل قبلہ کا حکم پہنچنے اور ان لوگوں کے بحالت نماز بیت اللہ کی طرف پھرجانے کا واقعہ ذکر کیا اس پر علامہ عینی حنفی نے تحریر فرمایا ہے ،- فیہ جواز تعلیم من لیس فی الصلوٰۃ من ھو فیہا (عمدۃ القاری ص ١٤٨ ج ٤) - " یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص نماز میں شریک نہیں وہ کسی نماز پڑھنے والے کو تعلیم و تلقین کرسکتا ہے "۔- نیز علامہ عینی نے دوسری جگہ اس حدیث کے ذیل میں یہ الفاظ لکھے ہیں وفیہ استماع المصلی الکلام من لیس فی الصلوٰۃ فلا یضر صلو تہ (الی) ہکذا استنبطہ الطحاوی (عمدۃ القاری ص ٢٤٢ ج ١) - اور عام فقہاء حنفیہ نے جو خارج صلوۃ کسی شخص کی اقتداء اور اتباع کی مفسد نماز کہا ہے جو عام متون وشروح حنفیہ میں منقول ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ نماز میں غیر اللہ کے امر کا اتباء موجب فساد نماز ہے لیکن اگر کوئی شخص اتباع امر الہی کا کرے مگر اس اتباع میں کوئی دوسرا شخص واسطہ بن جائے وہ موجب فساد نہیں، - فقہاء نے جہاں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ کوئی شخص جماعت میں شریک ہونے کے لئے ایسے وقت پہنچے کہ اگلی صف پوری ہوچکی ہے اب پچھلی صف میں تنہا رہ جاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اگلی صف میں سے کسی آدمی کو پیچھے کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے اس میں بھی یہی سوال آتا ہے کہ اس کے کہنے سے جو پیچھے آجائے گا وہ نماز میں اتباع امر غیر اللہ کا کرے گا اس لئے اس کی نماز فاسد ہوجانی چاہئے لیکن درمختار باب الامامۃ میں اس مسئلہ کے متعلق تحریر فرمایا ثم نقل تصحیح عدم الفساد فی مسئلۃ من جذب من الصف فتأخر فہل ثم فرق فلیحرر اس پر علامہ طحطاوی نے تحریر فرمایا لانہ امتثل امر اللہ یعنی اس صورت میں نماز فاسد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت اس شخص نے آنیوالے کے حکم کا اتباع نہیں کیا بلکہ امر الہٰی کا اتباع کیا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ اس کو پہنچا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو اگلی صف والے کو پیچھے آجانا چاہئے،- اسی طرح شربنلالی نے شرح وہبانیہ میں اس مسئلہ کا ذکر کرکے پہلے فساد نماز کا قول نقل کیا پھر اس کی تردید کی اس کے الفاظ یہ ہیں۔- اذا قیل لمصل تقدم فتقدم (الی) فسدت صلوتہ لانہ امتثل امر غیر اللہ فی الصلوٰۃ لان امتثالہ انما ہو لامر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلا یضرا،- ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی نمازی ایسے شخص کی آواز پر عمل کرے جو اس کے ساتھ نماز میں شریک نہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ خود اس شخص کی دلداری اور اتباع مقصود ہو یہ تو مفسد نماز ہے لیکن اگر اس نے کوئی حکم شرعی بتلایا اور اس کا اتباع نمازی نے کرلیا تو وہ درحقیقت امر الہی کا اتباع ہے اس لئے مفسد نماز نہیں ہوگا اسی لئے طحطاوی نے فیصلہ یہی کیا ہے کہ اقول لو قیل بالتفصیل بین کونہ امتثل امر الشارع فلا تفسد وبین کونہ امتثل امر الداخل مراعاۃ لخاطرہ من غیر نظر لامر الشارع فتفسد لکان حسناً (طحطاوی علی الدر، ص ٢٤٦ ج ١) - اب مسئلہ زیر بحث یعنی آلہ مکبر الصوت کا فیصلہ کرلینا آسان ہوگیا کیونکہ وہاں اس آلے کے اتباع کا دور دور بھی وہم نہیں ہوسکتا ظاہر ہے کہ اتباع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس حکم کا ہوتا ہے کہ جب امام رکوع کرے تو رکوع کرو جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اس آلہ سے صرف یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اب امام رکوع میں گیا یا سجدہ میں جارہا ہے اس علم کے بعد اتباع امام کا کرتا ہے نہ کہ اس آلے کے حکم کا اور اتباع امام ایک حکم الہی ہے اور یہ کلام اس بنیاد پر ہے کہ آلہ مکبر الصوت کی آواز کو عین امام کی آواز نہ مانی جائے بلکہ اس کی نقل وحکایت قرار دیا جائے اور اہل فن اس کی آواز کو عین آواز امام کہتے ہیں ان کی تحقیق پر تو کوئی اشکال جواز صلوۃ میں نہیں ہے اس مسئلہ کی تحقیق پر احقر کا ایک مستقل مفصل رسالہ بھی شائع شدہ ہے اس کو دیکھ لیا جائے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم،- وَمَا كَان اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُ یہاں اگر ایمان سے مراد اس کے معروف معنی لئے جائیں تو مطلب آیت کا یہ ہے کہ تحویل قبلہ پر جو بعض بیوقوف لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ دین سے منحرف ہوگئے اور ان کا ایمان ہی ضائع ہوگیا اس کا جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والے نہیں بیوقوف لوگوں کے کہنے پر کان نہ دھریں، - اور بعض روایات حدیث اور اقوال سلف میں اس جگہ ایمان کی تفسیر نماز سے کی گئی ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو نمازیں سابق قبلہ بیت المقدس کی طرف پڑھی گئی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ضائع کرنے والا نہیں وہ تو صحیح و مقبول ہوچکیں تحویل قبلہ کے حکم کا پچھلی نمازوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا،- صحیح بخاری میں بروایت ابن عازب اور ترمذی میں بروایت ابن عباس منقول ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قبلہ بیت اللہ کو بنادیا گیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ جو مسلمان اس عرصہ میں انتقال کرگئے جب کہ نماز بیت المقدس کی طرف ہوا کرتی تھی اور بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنا ان کو نصیب نہیں ہوا ان کا کیا حال ہوگا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں نماز کو ایمان کے لفظ سے تعبیر کرکے واضح کردیا کہ ان کی نمازیں سب صحیح و مقبول ہوچکی ہیں ان کے معاملہ میں تحویل قبلہ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝ ٠ ۭ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْہِ۝ ٠ ۭ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَۃً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللہُ۝ ٠ ۭ وَمَا كَانَ اللہُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٤٣- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - وسط - وَسَطُ الشیءِ : ما له طرفان متساویا القدر، ويقال ذلک في الكمّيّة المتّصلة کالجسم الواحد إذا قلت : وَسَطُهُ صلبٌ ، وضربت وَسَطَ رأسِهِ بفتح السین . ووَسْطٌ بالسّكون . يقال في الكمّيّة المنفصلة كشيء يفصل بين جسمین . نحو : وَسْطِ القومِ كذا . والوَسَطُ تارة يقال فيما له طرفان مذمومان . يقال : هذا أَوْسَطُهُمْ حسبا : إذا کان في وَاسِطَةِ قومه، وأرفعهم محلّا، وکالجود الذي هو بين البخل والسّرف، فيستعمل استعمال القصد المصون عن الإفراط والتّفریط، فيمدح به نحو السّواء والعدل والنّصفة، نحو : وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة 143] وعلی ذلک قوله تعالی: قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم 48] وتارة يقال فيما له طرف محمود، وطرف مذموم کالخیر والشّرّ ، ويكنّى به عن الرّذل . نحو قولهم : فلان وَسَطُ من الرجال تنبيها أنه قد خرج من حدّ الخیر . وقوله : حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة 238] ، فمن قال : الظّهر فاعتبارا بالنهار، ومن قال : المغرب «فلکونها بين الرّکعتین وبین الأربع اللّتين بني عليهما عدد الرّکعات، ومن قال : الصّبح فلکونها بين صلاة اللّيل والنهار . قال : ولهذا قال : أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ الآية [ الإسراء 78] . أي : صلاته . وتخصیصها بالذّكر لکثرة الکسل عنها إذ قد يحتاج إلى القیام إليها من لذیذ النّوم، ولهذا زيد في أذانه : ( الصّلاة خير من النّوم) ومن قال : صلاة العصر فقد روي ذلک عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فلکون وقتها في أثناء الأشغال لعامّة الناس بخلاف سائر الصلوات التي لها فراغ، إمّا قبلها، وإمّا بعدها، ولذلک توعّد النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فقال : «من فاته صلاة العصر فكأنّما وتر أهله وماله»- ( و س ط ) وسط الشئی ہر چیز کی در میانی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے اس کے دونوں اطراف کا فاصلہ مساوی ہو اور اس کا استعمال کمیتہ متصلہ یعنی ایک جسم پر ہوتا ہے جیسے وسطہ صلب اس کا در میان سخت ہے ) ضر بت ہ وسط راسہ لیکن وسط ( بالسکون ) کمیت منفصلہ پر بولا جاتا ہے یعنی دو چیزوں کے در میان فاصل کو وسط کہا جاتا ہے جیسے ۔ وسط القوم کذا کہ وہ لوگوں کے در میان فاصل ہے ۔ نیز الوسط ( بفتح اسیں ) اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دو مذموم اطراف کے در میان واقع ہو یعنی معتدل کو افراط وتفریط کے بالکل در میان ہوتا ہے مثلا جوہ کہ ببخل اور اسراف کے در میانی در جہ کا نام ہے اور معنی اعتدال کی مناسبت سے یہ عدل نصفۃ سواء کی طرح ہر عمدہ اور بہترین چیز کے لئے بولا جاتا ہے مثلا جو شخص اپنی قوم میں لحاظ حسب سب سے بہتر اور اونچے درجہ کا ہو اس کے متعلق ھذا وسطھم حسبا کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی ہیں ( امت مسلمہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة 143] اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ۔ اسی طرح آیت : ۔ قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم 48] ایک جوان جوان میں فر زانہ نہ تھا بولا ۔ میں بھی اوسط کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے اور کبھی وسط اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو نہ زیادہ اچھی ہو اور نہ بریوی بلکہ در میانے در جہ کی ہو ۔ اور کبھی کنایۃ رذیل چیز پر بھی بولا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ۔ فلان وسط من لرجال کہ فلاں کم در جے کا آدمی ہے یعنی در جہ خیر سے گرا ہوا ہے اور آیت کریمہ : ۔ حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة 238] مسلمانوں سب نمازیں خصوصا بیچ کی نماز یعنی عصر ایورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ وسطی سے مراد صلوۃ ظہر ہے کیونکہ وہ دن کے در میانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے اور بعض اس سے صلوۃ مغرب مراد لیتے ہیں کیونکہ وہ تعداد رکعات کے لحاظ سے ثنائی اور رباعی نمازوں کے در میان میں ہے اور بعض نے صلوۃ فجر مراد لی ہے کیونکہ وہ دن اور رات کی نمازوں کے در میان میں ہے جیسا کہ دوسری آیت فرمایا : ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ الآية [ الإسراء 78]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ( ظہر عصر مغرب عشا کی ) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو ۔ اور صلوہ وسطیٰ کو خاص کر الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کا وقت سستی اور غفلت کا وقت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت اٹھنے کے لئے نیند کی لذت کو چھوڑ نا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ صبح کی اذان میں کا اضافہ کیا گیا ہے اور جو لوگ اس سے صلوۃ عصر مراد لیتے ہیں جیسا کہ آنحضرت سے ایک حدیث میں بھی مروی ہے تو وہ اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ عصر عوام کے کاروبار کا وقت ہوات ہے اس لئے اس نماز میں سستی ہوجاتی ہے بخلاف دوسری نمازوں کسے کہ ان کے اول یا آخر میں فر صت کا وقت مل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زجرا فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز ضائع کردی گویا اس نے اپنے اہل و عیال اور مال کو بر باد کردیا ۔- شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر :- مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه .- شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں - قِبْلَةً :- في الأصل اسم للحالة التي عليها الْمُقَابِلُ نحو : الجلسة والقعدة، وفي التّعارف صار اسما للمکان الْمُقَابَلِ المتوجّهِ إليه للصلاة . نحو : فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة 144] - القبلۃ :- اصل میں بالمقابل آدمی کی حالت کو کہا جاتا ہے جیسے جلسۃ وقعدۃ اور عرف میں اس جہت کو قبلہ کہا جاتا ہے جس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة 144] سو ہم تم کو ایسے قبلہ کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو متوجہ ہونے کا حکم دیں گے ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے - پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ - عقب - العَقِبُ : مؤخّر الرّجل، وقیل : عَقْبٌ ، وجمعه : أعقاب، وروي : «ويل للأعقاب من النّار» واستعیر العَقِبُ للولد وولد الولد . قال تعالی: وَجَعَلَها كَلِمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] ، وعَقِبِ الشّهر، من قولهم : جاء في عقب الشّهر، أي : آخره، وجاء في عَقِبِه : إذا بقیت منه بقيّة، ورجع علی عَقِبِه : إذا انثنی راجعا، وانقلب علی عقبيه، نحو رجع علی حافرته ونحو : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وقولهم : رجع عوده علی بدئه قال : وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] ، انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] ، وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] ، فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66]- ( ع ق ب ) ب والعقب پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اعقاب ہے حدیث میں ہے ویلمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] وضو میں خشک رہنے والی ایڑیوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عقب کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے ۔ جاء فی عقب الشھر مہنے کے آخری دنوں میں آیا ۔ رجع علٰی عقیبہ الٹے پاؤں واپس لوٹا ۔ انقلب علٰی عقیبہ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا جیسے : ۔ رجع علٰی ھافرتہ کا محاورہ ہے اور جیسا کہ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے لوٹ گئے ۔ نیز کہا جاتا ہے ۔ رجع عودہ علٰی بدئہ یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ ایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائیگا ۔ ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] تو پسپا ہوکر چل دیا ۔ فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66] اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے ۔ عقبہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا اس کا جانشین ہوا جیسا کہ دبرہ اقفاہ کا محاورہ ہے ۔- كَبِيرَةُ ، گناه، مشكل - والْكَبِيرَةُ متعارفة في كلّ ذنب تعظم عقوبته، والجمع : الْكَبَائِرُ. قال : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] ، وقال : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء 31] قيل : أريد به الشّرک لقوله : إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] . وقیل : هي الشّرک وسائر المعاصي الموبقة، کالزّنا وقتل النّفس المحرّمة، ولذلک قال : إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] . وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو :- وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة 45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11] - الکبیرۃ ۔ عرف میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہو ۔ اس کی جمع الکبائر آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اور آیت ؛ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو ۔ میں بعض نے کہا ہے ۔ کہ کبائر سے مراد شرک ہے ۔ کیونکہ دوسری آیت ۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ؛میں شرک کو ظلم عظیم کہا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہ ے کہ کبائر کا لفظ ۔ شر ک اور تمام مہلک گناہوں کو شامل ہے ۔ جیسے زنا اور کسی جان کا ناحق قتل کرنا جیسا کہ فرمایا :إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے ۔ قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔ مگر ان کے نقصان فاہدوں سے زیادہ ہیں ۔ اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ اور یہ کبر بمعنی پیرا نہ سالی سے ماخوذ ہے جیسا کہ آیت ۔: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11]- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ضيع - ضَاعَ الشیءُ يَضِيعُ ضَيَاعاً ، وأَضَعْتُهُ وضَيَّعْتُهُ. قال تعالی: لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] - ( ض ی ع ) ضاع - ( ض ) الشیئ ضیاعا کے معنی ہیں کسی چیز کا ہلاک اور تلف کرنا ۔ قرآن میں ہے : لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] اور ( فرمایا ) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - رأف - الرَّأْفَةُ : الرّحمة، وقد رَؤُفَ فهو رَئِفٌ ورُؤُوفٌ ، نحو يقظ، وحذر، قال تعالی: لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] .- ( ر ء ف )- الرافتہ یہ رؤف ( ک ) سے ہے اور اس کے معنی شفقت اور رحمت کے ہیں صفت کا صیغہ رؤوف اور رئف مثل حزر وبقظ آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] اور اللہ کے حکم ( کی تعمیل ) میں تم کو ان ( کے حال ) پر ( کسی طرح کا ) ترس دامن گیر نہ ہو ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اجماع کی صحت پر بحث - قول باری ہے۔ وکذلک جعلنا کم امۃ وسطاً لتکونو ا شھداء علی الناس ( اور اسی طرح تو نے تمہیں ایک امت وسط بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو) اہل لغت کے قول کے مطابق وسط عدل، یعنی معتدل کو کہتے ہیں اور عدل وہ ہے جو کوتاہی کرنے والے اور غلو کرنے والے کے درمیان ہو۔ ایک قول کے مطابق وسط کے معنی ہیں خیار یعنی بہترین، یہ دونوں معنی یکساں ہیں اس لئے کہ عدل خیار، یعنی بہترین ہی ہوتا ہے۔ زہیر کا شعر ہے ؎- ھم وسط یرضی الانام بحکمھم اذا طرقت احدی اللیا بعظم - (اگر لوگوں کو کوئی اہم مسئلہ پیش آ جائے تو ایسے موقعہ پر میرے ممدوحین اس قدر معتدل اور بہترین لوگ ثابت ہوئے ہیں کہ ان کے صادر کردہ فیصلے پر تمام لوگ رضا مند ہوجاتے ہیں)- قول باری : لتکونوا شھداء علی الناس کا مفہوم ہے ” تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جائو “۔- لفظ شھداء کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ مسلمان دنیا و آخرت میں لوگوں پر ان کے ان اعمال کی گواہی دیں گے جن کے اندر انہوں نے حق کی خلاف ورزی کی تھی۔ قول باری ہے۔ وحی بالنبین والشھداء (اور نبیوں اور گواہوں کو لایاجائے گا) اور ایک قول کے مطابق مسلمان انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں ان کی جھٹلانے والی امتوں کے خلاف گواہی دیں گے کہ ان انبیاء نے امتوں کو پیغام حق پہنچا دیا تھا ۔ مسلمانوں کی یہ گواہی اس بنا پر ہوگی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس بات سے آگاہ فرما دیا تھا۔ ایک اور قول کے مطابق زیر بحث لفظ کا مفہوم ہے تاکہ تم اپنی دی ہوئی گواہیوں میں حجت بن جائو جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے ہر فردپر شہید بمعنی حجت ہیں۔ “- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ لفظ ان تمام معانی کا احتمال رکھتا ہے اور یہ جائز ہے کہ یہ تمام معانی اللہ کی مراد ہوں ۔ یعنی امت مسلمہ دنیا اور آخرت میں لوگوں کے اعمال کی ان پر گواہی دے گی اور اس امت کے افراد انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں ان کی امتوں کے خلاف گواہی دیں گے۔ یہ گواہی اس بنا پر ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق انہیں بتایا ہے اور اس کے ساتھ یہ امت شریعت کو بعد میں آنے والے لوگوں کی طرف منتقل کرنے میں ان پر حجت ہوگی اور یہ اللہ کے جن احکام کا اعتقاد رکھیں اور جو فیصلے کریں ان میں بھی حجت ہیں۔- اس آیت میں دو وجوہ سے اجماع امت کی صحت پر دلالت موجود ہے۔ اول یہ کہ اس امت کو عدالت یعنی عادل ہونے کے وصف سے موصوف کیا گیا ہے نیز یہ کہ یہ بہترین ہیں۔ یہ بات اس امر کی متقضی ہے کہ اس امت کی تصدیق کی جائے اور اس کے قول کی صحت کا حکم عائد کیا جائے نیز یہ بات گمراہی پر امت کے اجماع کی نفی کرتی ہے۔- دوم یہ کہ قول باری : لتکونو ا شھداء علی الناس۔ کا مفہوم ہے کہ یہ امت لوگوں پر اسی طرح حجت ہے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس امت پر حجت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افراد کو دوسروں پر گواہ بنادیا تو گویا ان کے حق میں عدالت کا نیز ان کا قول قبول کرنے کا حمک بھی عائد کردیا کیونکہ اللہ کے مقرر کردہ گواہ نہ تو کافر ہوسکتے ہیں اور نہ ہی گمراہ۔ اس طرح آیت اس بات کی متقضی ہوگئی کہ امت کے افراد آخرت میں ان لوگوں پر گواہ بنیں گے جن کے اعمال کا انہوں نے ہر زمانے میں مشاہدہ کیا ہے۔ ایسے لوگوں پر یہ گواہ نہیں بنیں گے جو ان کے زمانے سے پہلے مرچکے ہوں جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر اس شخض پر گواہ ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں موجود تھا۔ یہ بات اس صورت میں ہوگی جب گواہی سے آخرت میں لوگوں پر ان کے اعمال کی گواہی مراد ہو، لیکن اگر گواہی سے حجت مراد ہو تو اس صورت میں یہ عنصر ثانی یعنی اپنے بعد کے زمانے کے ان لوگوں پر حجت ہوں گے جنہیں انہوں نے دیکھا تھا نیز ان لوگوں پر بھی جو قیامت تک ان کے بعد آئیں گے۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری امت پر اول سے لے کر آخر تک گواہ ہیں اس لئے اللہ کی حجت کا جب ایک وقت میں ثبوت ہوجائے تو یہ ہمیشہ کے لئے ثابت رہے گی۔- آخرت میں اعمال پر گواہی حجت کے درمیان فرق پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے : فکیف اذا جئتا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھئولا شھیدا ( پھر سوچو کہ اس وقت پر یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں ( یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے) جب اللہ سبحانہ نے ان کے اعمال پر گواہی مراد لی تو ہر گواہ کی گواہی کو اس کے زمانے کے لوگوں نیز ان افراد کے ساتھ خاص کردیا جنھیں گواہ نے مذکورہ اعمال کرتے دیکھا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی زبانی فرمایا : وکنت علیھم شھیداً ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم ( میں اسی وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا۔ جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگران تھے) اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اعمال کی گواہی صرف گواہی دینے کی حالت کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے۔ رہ گئی وہ گواہی جو حجت کے معنوں میں ہے تو امت پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجت ہونے کے اعتبار سے امت کے اول اور آخر کا اختصاص اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اسی طرح ہر عصر کے لوگ جب ازراہ حجت اللہ کے گواہ ہوتے ہیں تو اس سے یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے ان لوگوں پر بھی حجت بن جائیں جو ان کے اجماع کے اندر ان کے ساتھ داخل ہوں نیز ان لوگوں پر بھی جو آنے والے زمانوں میں ان کے بعد آئیں گے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک زمانے کے لوگ کسی بات پر اجماع کرلیں اور پھر کچھ لوگ ان کے اس اجماع سے باہر ہوجائیں تو ان پر سابقہ اجماع کی حجت قائم ہوجاتی ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جماعت کے حق میں اس کے قول کی صحت کی گواہی دی تھی اور اسے حجت اور دلیل قرار دیا تھا۔ اس لئے کہ اللہ کی دلیل کا وجود اپنے مدکول سے عاری ہوکر نہیں پایا جاتا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نسخکا وجود محال ہونے کی بنا پر ازروئے نسخ آپ کا حکم ترک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ امت کا اجماع جس حالت میں بھی منعقد ہوجائے وہ اللہ عزوجل کی حجت ہوتا ہے۔- زیر بحث آیت چونکہ صدر اول کے اجماع کی صحت پر دلالت کرتی ہے اس لیے یہ دیگر زمانوں کے اجماع کی صحت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اس میں کسی ایک زمانے کی تخصیص نہیں کی گئی اگر آیت کی رو سے صدر اول کے اجماعت پر اقتصار درست ہوتا اور دیگر زمانوں کا اجماع اس میں شامل نہ ہوتا تو پھر آیت ہی کے رو سے دیگر زمانوں کے اجماع پر اقتصار درست ہوجاتا اور صدر اول والے اس میں شامل نہ ہوتے اگر یہاں کوئی یہ بات کہے کہ اللہ سبحانہ نے : وکذلک جعلنا کم امۃ وسطاً فرما کر ان لوگوں سے خطاب کیا جو اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہی لوگ اس خطاب کے ساتھ مخصوص تھے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں مذکورہ خطاب پوری امت کے لیے ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ خطاب ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو آیت کے نزول کے وقت موجود تھے اور ان کے لیے بھی جو قیامت تک آنے والے تھے جس طرح یہ قول باری ہے کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم ( تم پر روزہ اسی طرح فرض کردیا گیا جس طرح یہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کردیا گیا تھا) اسی طرح فرمایا کتب علیکم القصاص ( تم پر قصاص فرض کردیا گیا) اور اسی طرح کی دیگر آیات میں خطاب پوری امت کے لیے ہے جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری امت کے لئے معبوث کئے گئے تھے یعنی ان کے لئے بھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ بعثت میں موجود تھے اور ان کے لیے بھی جو بعد میں آنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے : انا ارسلنک شاھداً ومبشراً ونذیراً و داعیا الی اللہ باذنہ وسراجاً منیراً ( بیشک ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور گواہ نیز بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے) نیز فرمایا : وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین) ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے) میرے خیال میں امت کے اندر ایک فرد بھی ایسا نہیں ہوگا جو اس قول کو جائز سمجھتا ہو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری امت از اول تا آخر کے لیے مبعوث ہوئے تھے، نیز یہ آپ ؐ پوری امت پر حجت اور گواہ نہیں تھے اور پوری امت کے لیے رحمت نہیں تھے۔- اگر یہاں کوئی شخص یہ کہے کہ قول باری ہے : وکذلک جعلنا کم امۃ وسطاً اور امت کا اسم ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں موجود تھے اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد قیامت تک آنے والے تھے۔ تاہم آپ کے زمانے میں موجود امت پر عدالت اور قبول شہادت کا حکم عائد کیا گیا ۔ اس میں کسی اور زمانے والوں کے لیے عدالت اور قبول شہادت کے حکم کا ذکر نہیں ہے تو پھر تم نے ہر زمانے والوں پر عدالت کا حکم کہاں سے عائد کردیا ؟ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جن پر عادل ہونے کا حکم عائد کردیا گیا دوسروں پر حجت قرار دیا اور یہ بات معلوم ہے کہ عدالت کی مذکورہ بالا صفت انہیں دنیا میں حاصل ہوگئی تھی اور اللہ نے یہ بتادیا کہ یہ لوگ دوسروں پر گواہ ہیں تو ایسی صورت میں اگر امت پر ان کے حجت ہونے کے اعتبار سے پوری امت از اول تا آخر کا اعتبار کرلیا جائے تو ہمیں معلم ہوجائے گا کہ ہر عصر کے لوگ مراد ہیں، امت اس جماعت کا اسم ہے جس میں یکجہتی پائی جائے اس بنا پر یہ اسم ہر زمانے کے لوگوں کو علیحدہ علیحدہ بھی شامل ہے چناچہ اس امر میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ لفظ امت کا اطلاق کرکے اس کے ذریعے کسی ایک عصر کے لوگ مراد لیے جائیں۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھئے۔ ارشاد باری ہے جعلنکم امۃ وسطاً اللہ سبحانہ نے امت کو وسط کی صفت کے ساتھ موصوف کرتے ہوئے اسم نکرہ کے ذریعے ان سے تعبیر کی اور انہیں حجت قرار دیا یہ بات ہر عصر کے لوگوں کی متقضی ہے کیونکہ قول باری : جعلنکم سب کے لیے خطاب ہے اور مذکورہ صفت مخاطبین میں سے ہر امت اور ہر گروہ کو لاحق ہے، نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قول باری کو نہیں دیکھتے : ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق (اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک امت ہے جو حق کی رہنمائی کرتی ہے) حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پوری قوم ان کی امت ہے، لیکن مذکورہ بالا صفت کے ساتھ موصوف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو علی الانفراد امت کے نام سے موسوم کیا۔ اس سے یہ باتثابت ہوگئی کہ ہر زمانے کے لوگوں کو امت کے نام سے موسو م کرنا جائز ہے اگرچہ امت کا اسم بعض دفعہ امت کے اول اور اس کے آخر کو لاحق ہوجاتا ہے۔- زیر بحث آیت میں اس امر پر بھی دلالت موجود ہے کہ ایسے گروہ جن کا کفر ظاہر ہوچکا ہو مثلاً فرقہ جبریہ اور فرقہ مشبہ وغیرہ اجماع امت کے سلسلے میں ان کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اسی طرح ایسے فرقے جن کا فسق واضح ہو مثلاً خوارج اور روافض، انہیں بھی اجماع امت کے سلسلے میں قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا۔ خواہ یہ فسق اعمال کی صورت میں ظاہر ہوا ہو یا اعتقاد کی شکل میں۔ اس لیے کہ اللہ سبحانہ نے آیت میں مذکورہ لوگوں کو ان کی عدالت اور خیرو بھلائی کی بنا پر گواہ قرار دیا ہے اور عدالت اور خیر کی یہ صفت نہ تو کافروں کو لاحق ہوسکتی ہے اور نہ ہی فاسقوں کو۔ اس بارے میں ان لوگوں کے حکم کے اندر کوئی فرق نہیں ہے جو تاویل کی بنا پر فسق یا کفر میں مبتلا ہوئے ہیں یا نص کو رد کردینے کی بنا پر کیونکہ مذمت کی صفت ان سب کو شامل ہے اور عدالت کی صفت انہیں کسی بھی حال میں لاحق نہیں ہوسکتی۔ واللہ اعلم۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٣) اور جیسا کہ ہم نے تمہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین اور ان کے قبلہ کی وجہ سے عزت دار اور مکرم بنایا ہے، اسی طرح اعتدال پسندامت بھی بنایا ہے، تاکہ لوگوں پر ان احکامات کو ظاہر کرنے کے لیے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو پاک وصاف کرنے اور اعتدال پسند بنانے والے کے لیے گواہ بن جائیں اور جس قبلہ کی طرف آپ نے انیس مہینوں تک (صحیح ١٦ یا ١٧ ماہ) نماز پڑھی ہے، اس قبلہ کو تبدیل نہیں کیا ہم مگر اس لیے تاکہ ہم دیکھ سکیں اور (لوگوں کے سامنے) فرق کردیں کہ کون قبلہ کے مسئلہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مانتا ہے اور کون اپنے دین اور قبلہ کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے۔- اور جن لوگوں کے دلوں کی اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی ہے، ان کے علاوہ اور لوگوں پر قبلہ کی تبدیلی بہت گراں اور بھاری تھی اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو باطل نہیں کرتا جیسا کہ دیگر شریعتوں کے منسوخ ہونے سے پہلے ہوا کرتا تھا، ایک یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمانوں کو منسوخ نہیں کرتے بلکہ تمہارے ایمان کی شریعتوں کو منسوخ کرتا ہے اور ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ تم نے ” بیت المقدس “ کی طرف منہ کرکے جو نمازیں ادا کی ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں منسوخ اور ضائع نہیں کریں گے بلکہ تمہارا جو ” بیت المقدس ‘ قبلہ ہے اس کو منسوخ کردیں گے اور اللہ تعالیٰ مومنین پر بہت ہی شفقت کرنے والے اور مہربان ہیں ان کے ایمان کو منسوخ نہیں کرتا جیسا کہ نسخ شرائع سے پہلے - شان نزول : (آیت) ” وما کان اللہ لیضیع ایمانکم (الخ)- بخاری شریف اور مسلم شریف میں حضرت براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ جب ” بیت المقدس “ قبلہ تھا تو اس کی تبدیلی سے پہلے چند صحابہ کرام (رض) انتقال فرما گئے اور کچھ جہاد میں شہید ہوگئے، ہمیں پتہ نہیں کہ آپ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، تب یہ آیت نازل ہوتی، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٣ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ) - اب یہ خاص بات کہی جا رہی ہے کہ اے مسلمانو تم اس تحویل قبلہ کو معمولی بات نہ سمجھو ‘ یہ علامت ہے اس بات کی کہ اب تمہیں وہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے :- (لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط) ۔ - اب یہ تمہارا فرض منصبی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس دین کی گواہی تم پر اپنے قول و عمل سے دی ہے اسی دین کی گواہی تمہیں اپنے قول اور عمل سے پوری نوع انسانی پر دینی ہے۔ اب تمٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نوع انسانی کے درمیان واسطہ ( ) بن گئے ہو۔ اب تک نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک نبی کی تعلیم ختم ہوجاتی یا اس میں تحریف ہوجاتی تو دوسرا نبی آجاتا۔ اس طرح پے در پے انبیاء و رسل ( علیہ السلام) چلے آ رہے تھے اور ہر دور میں یہ معاملہ تسلسل کے ساتھ چل رہا تھا۔ ابٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت ختم ہو رہی ہے ‘ لیکن نسل انسانی کا سلسلہ تو قیامت تک جاری رہنا ہے۔ لہٰذا اب آگے لوگوں کو تبلیغ کرنا ‘ ان تک دین پہنچانا ‘ ان پر حجت قائم کرنا اور شہادت علی الناس کا فریضہ سرانجام دینا کس کیّ ذمہ داری ہوگی ؟ پہلے تو ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ اللہ کی طرف سے جبرائیل ( علیہ السلام) وحی لائے اور نبی کے پاس آگئے ‘ نبی نے لوگوں کو سکھا دیا۔ اب یہ معاملہ اس طرح ہے کہ اللہ سے جبرائیل ( علیہ السلام) وحی لائےٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھایا تمہیں ‘ اور اب تمہیں سکھانا ہے پوری نوع انسانی کو تو اب تمہاری حیثیت درمیانی واسطے کی ہے۔ یہ مضمون سورة الحج کی آخری آیات میں زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔- وَکَذٰلِکَ (اسی طرح) سے مراد یہ ہے کہ تحویل قبلہ اس کا ایک مظہر ہے۔ اس سے اب تم اپنی ذمہّ داریوں کا اندازہ کرو۔ صرف خوشیاں نہ مناؤ ‘ بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری کا جو بوجھ تم پر آگیا ہے اس کا ادراک کرو۔ یہی بوجھ جب ہم نے اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کاندھوں پر رکھا تھا تو ان سے بھی کہا تھا : (اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا ) (المزمل) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم آپ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ وہی بھاری بات بہت بڑے پیمانے پر اب تمہارے کاندھوں پر آگئی ہے۔ - (وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ) (اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ط) یہاں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بعد وحی ‘ خفی کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اجتہاد ہو ‘ اور اسے اللہ نے قبول فرما لیا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد پر اگر اللہ کی طرف سے نفی نہ آئے تو وہ گویا اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا جانا ایک امتحان قرار دیا گیا کہ کون اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی روش پر گامزن رہتا ہے اور کون دین سے پھرجاتا ہے۔ اس آزمائش میں تمام مسلمان کامیاب رہے اور ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ٹھیک ہے ‘ ہمارا قبلہ وہ تھا ‘ اب آپ نے اپنا قبلہ بدل لیا ہے تو آپ کا راستہ اور ہے ہمارا راستہ اور - (وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً الاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ ط) ۔ - واقعہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی قبول کرلینا آسان بات نہیں ہوتی۔ یہ بڑا حساسّ مسئلہ ہوتا ہے۔- (وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ط) - ایمان سے یہاں مراد نماز ہے جسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات اس تشویش کے جواب میں فرمائی گئی جو بعض مسلمانوں کو لاحق ہوگئی تھی کہ ہماری ان نمازوں کا کیا بنے گا جو ہم نے سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی ہیں ؟ مسلمان تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کا پابند ہے ‘ اس وقت رسول کا وہ حکم تھا ‘ وہ اللہ کے ہاں مقبول ٹھہرا ‘ اس وقت یہ حکم ہے جو تمہیں رسول کی جانب سے مل رہا ہے ‘ اب تم اس کی پیروی کرو ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :144 یہ اُمّتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے ۔ ”اسی طرح“ کا اشارہ دونوں طرف ہے: اللہ کی اس رہنمائی کی طرف بھی ، جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اس مرتبے پر پہنچے کہ ” اُمّتِ وَسَط“ قرار دیے گئے ، اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سَمْت سے دُوسری سَمْت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں ، حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمْت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزُول کیا اور اُمّتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا ۔ ”اُمتِ وَسَط“ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دُوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے ، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو ، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو ، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق ، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں”اُمّتِ وَسَط“ اس لیے بنایا گیا ہے کہ”تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو“ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا ، اس وقت رسُول ہمارے ذمّہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عمل صالح اور نظام عدل کی جو تعلیم ہم نے اسے دی تھی ، وہ اس نے تم کو بےکم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا ۔ اس کے بعد رسُول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسُول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا ، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں ، اور جو کچھ رسُول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے ۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسُول صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمّت کے لیے خدا ترسی ، راست روی ، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے ، اسی طرح اس اُمّت کو بھی تمام دنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے ، حتّٰی کہ اس کے قول اور عمل اور برتاؤ ، ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے ، راست روی یہ ہے ، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے ۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمّہ داری بڑی سخت تھی ، حتّٰی کہ اگر وہ اس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے ، اسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمّہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے ۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت ، جو تیرے رسُول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی ، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے ، تو ہم بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا ۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں ، ان سب کے لیے ائمہء شر اور شیاطینِ انس و جِنّ کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے ۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت ، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا ، تو تم کہاں مر گئے تھے ۔ س ُوْرَةُ الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :145 یعنی اس سے مقصُود یہ دیکھنا تھا کہ کون لوگ ہیں جو جاہلیّت کے تعصّبات اور خاک و خون کی غلامی میں مبتلا ہیں ، اور کون ہیں جو ان بندشوں سے آزاد ہو کر حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہیں ۔ ایک طرف اہل عرب اپنے وطنی و نسلی فخر میں مبتلا تھے اور عرب کے کعبے کو چھوڑ کر باہر کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا ان کی اس قوم پرستی کے بُت پر ناقابلِ برداشت ضرب تھا ۔ دُوسری طرف بنی اسرائیل اپنی نسل پرستی کے غرور میں پھنسے ہوئے تھے اور اپنے آبائی قبلے کے سوا کسی دُوسرے قبلے کو برداشت کرنا ان کے لیے محال تھا ۔ ظاہر ہے کہ یہ بُت جن لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوں ، وہ اس راستے پر کیسے چل سکتے تھے ، جس کی طرف اللہ کا رسُول انہیں بُلا رہا تھا ۔ اس لیے اللہ نے ان بُت پرستوں کو سچّے حق پرستوں سے الگ چھانٹ دینے کے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تاکہ جو لوگ عربیّت کے بُت کی پرستش کرتے ہیں ، وہ الگ ہو جائیں ۔ پھر اس قبلے کو چھوڑ کر کعبے کو قبلہ بنایا تاکہ جو اسرائیلیت کے پرستار ہیں ، وہ بھی الگ ہو جائیں ۔ اس طرح صرف وہ لوگ رسُول کے ساتھ رہ گئے ، جو کسی بُت کے پرستار نہ تھے ، محض خدا کے پرستار تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

90: یعنی جس طرح ہم نے اس آخری زمانے میں دوسری جہتوں کو چھوڑکر کعبہ کی سمت کو قبلہ بننے کا شرف عطا فرمایا اور تمہیں اسے دل وجان سے قبول کرنے کی ہدایت دی، اسی طرح ہم نے تم کو دوسری امتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ معتدل اور متوازن امت بنایا ہے (تفسیر کبیر) چنانچہ اس امت کی شریعت میں ایسے مناسب احکام رکھے گئے ہیں جو قیام قیامت تک انسانیت کی صحیح رہنمائی کرسکیں، معتدل امت کی یہ خصوصیت بھی اس آیت میں بیان فرمائی گئی ہے کہ اس امت کو قیامت کے دن انبیاء کرام کے گواہ کے طور پر پیش کیا جائے گا، اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ جب پچھلے انبیاء کرام کی امتوں میں سے کافر لوگ صاف انکار کردیں گے کہ ہمارے پاس کوئی نبی نہیں آیا تھا تو امت محمدیہ کے لوگ انبیائے کرام کے حق میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے رسالت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی اپنی امتوں کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تھا اور اگرچہ ہم خود اس موقع پر موجود نہیں تھے ؛ لیکن ہمارے نبی کریمﷺ محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی سے باخبر ہو کر ہم کو یہ بات بتلادی تھی اور ہمیں ان کی بات پر اپنے ذاتی مشاہدے سے زیادہ اعتماد ہے۔ دوسری طرف رسول کریم ﷺ اپنی امت کی اس بات کی تصدیق فرمائیں گے، نیز مفسرین نے امت محمدیہ کے گواہ ہونے کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ شہادت سے مراد حق کی دعوت وتبلیغ ہے اور یہ امت پوری انسانیت کو اسی طرح حق کا پیغام پہنچائے گی جس طرح آنحضرتﷺ نے ان کو پہنچایا تھا۔ باتیں دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور ان میں کوئی تعارض بھی نہیں۔ 91: مطلب یہ ہے کہ پہلے کچھ عرصے کے لئے بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا جو حکم ہم نے دیا تھا اس کا مقصد یہ امتحان لینا تھا کہ کون قبلے کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور کون ہے جو کسی ایک قبلے کو بذات خود ہمیشہ کے لئے مقدس مان کر اللہ کے بجائے اسی کی عبادت شروع کردیتا ہے، قبلے کی تبدیلی سے یہی واضح کرنا مقصود تھا کہ عبادت بیت اللہ کی نہیں اللہ کی کرنی ہے، ورنہ اس میں اور بت پرستی میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اگلے جملے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ جو لوگ صدیوں سے بیت اللہ کو قبلہ مانتے چلے آرہے تھے ان کے لئے اچانک بیت المقدس کی طرف رخ موڑ دینا کوئی آسان بات نہ تھی ؛ کیونکہ صدیوں سے دلوں پر حکمرانی کرنے والے اعتقادات کو یکایک بدل لینا بڑا مشکل ہوتا ہے ؛ لیکن جن لوگوں کو اللہ نے یہ سمجھ عطا فرمائی کہ کسی بھی چیز میں کوئی ذاتی تقدس نہیں اور اصل تقدس اللہ تعالیٰ کے حکم کو حاصل ہے ان کو نئے قبلے کی طرف رخ کرنے میں ذرا بھی دقت پیش نہیں آئی ؛ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم پہلے بھی اللہ کے بندے اور اس کے تابع فرمان تھے اور آج بھی اسی کے حکم پر ایسا کررہے ہیں۔ 92: اس سلسلۂ کلام میں اس جملے کا ایک مطلب توحضرت حسن بصری (رح) نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ نئے قبلے کو اختیار کرلینا مشکل تھا ؛ لیکن جن لوگوں نے اپنی قوت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اسے بے چون وچرا مان لیا اللہ تعالیٰ ان کے اس ایمانی جذبے کو ضائع نہیں کرے گا ؛ بلکہ انہیں اس کا عظیم اجر ملے گا (تفسیر کبیر) دوسرے یہ جملہ ایک سوال کا جواب بھی ہے جو بعض صحابہ کے دل میں پیدا ہوا تھا اور وہ یہ کہ جو مسلمان اس وقت انتقال فرماگئے تھے جب قبلہ بیت المقدس تھا تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی وہ نمازیں جو انہوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی تھیں قبلے کی تبدیلی کے بعد ضائع اور کالعدم ہوجائیں؟ آیت نے جواب دے دیا کہ نہیں چونکہ انہوں نے اپنے ایمانی جذبے کے تحت وہ نمازیں اللہ ہی کے حکم کی تعمیل میں پڑھی تھیں اس لئے وہ نمازیں ضائع نہیں ہوں گی۔