Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خشوع و خضوع ضروری ہے حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ قرآن میں قبلہ کا حکم پہلا نسخ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یہاں کے اکثر باشندے یہود تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھنے کا حکم دیا یہود اس سے بہت خوش ہوئے ۔ آپ کئی ماہ تک اسی رخ نماز پڑھتے رہے لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت قبلہ ابراہیمی کی تھی آپ اللہ سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے بالاخر آیت ( قد نری ) الخ نازل ہوئی اس پر یہود کہنے لگے کہ اس قبلہ سے یہ کیوں ہٹ گئے جس کے جواب میں کہا گیا کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور فرمایا جدھر تمہارا منہ ہو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے اور فرمایا کہ اگلا قبلہ امتحاناً تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اس پر یہ آیت اتری اور حکم ہوا کہ مسجد حرام کی طرف کعبہ کی طرف میزاب کی طرف منہ کرو جبرائیل علیہ السلام نے امامت کرائی ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد حرام میں میزاب کے سامنے بیٹھے ہوئے اس آیت پاک کی تلاوت کی اور فرمایا میزاب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے ۔ امام شافعی کا بھی ایک قول یہ ہے کہ عین کعبہ کی طرف توجہ مقصود ہے اور دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ کعبہ کی جہت ہونا کافی ہے اور یہی مذہب اکثر ائمہ کرام کا ہے ۔ حضرت علی فرماتے ہیں مراد اس کی طرف ہے ابو العالیہ مجاہد عکرمہ سعید بن جبیر قتادہ ربیع بن انس وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ابن جریج میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بیت اللہ مسجد حرام والوں کا قبلہ اور مسجد اہل حرام کا قبلہ اور تمام زمین والوں کا حرام قبلہ ہے خواہ مشرق میں ہوں خواجہ مغرب میں میری تمام امت کا قبلہ یہی ہے ۔ ابو نعیم میں بروایت براء مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ سترہ مہینے تک تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن آپ کو پسند امر یہ تھا کہ بیت اللہ کی طرف پڑھیں چنانچہ اللہ کے حکم سے آپ نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر عصر کی نماز ادا کی پھر نمازیوں میں سے ایک شخص مسجد والوں کے پاس گیا وہ رکوع میں تھے اس نے کہا میں حلفیہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ شریف کی طرف نماز ادا کی یہ سن کر وہ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ شریف کی طرف پھر گئے عبدالرزاق میں بھی یہ روایت قدرے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے نسائی میں حضرت ابو سعید بن معلی سے مروی ہے کہ ہم صبح کے وقت مسجد نبوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جایا کرتے تھے اور وہاں کچھ نوافل پڑھا کرتے تھے ایک دن ہم گئے تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ہوئے ہیں میں نے کہا آج کوئی نئی بات ضرور ہوئی ہے میں بھی بیٹھ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ( قد نری ) تلاوت فرمائی میں نے اپنے ساتھی سے کہا آؤ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوں منبر سے اترنے سے پہلے ہی ہم اس نئے حکم کی تعمیل کریں اور اول فرمانبردار بن جائیں چنانچہ ہم ایک طرف ہو گئے اور سب سے پہلے بیت اللہ شریف کی طرف نماز پڑھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی منبر سے اتر آئے اور اس قبلہ کی طرف پہلی نماز ظہر ادا کی گئی ۔ ابن مردویہ میں بروایت ابن عمر مروی ہے کہ پہلی نماز جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف ادا کی وہ ظہر کی نماز ہے اور یہی نماز صلوٰۃ وسطی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ پہلی نماز کعبہ کی طرف عصر کی ادا کی ہوئی اسی وجہ سے اہل قبا کو دوسرے دن صبح کے وقت اطلاع پہنچی ۔ ابن مردویہ میں روایت نویلہ بنت مسلم موجود ہے کہ ہم مسجد بنو حارثہ میں ظہر یا عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے ادا کر رہے تھے دو رکعت پڑھ چکے تھے کہ کسی نے آ کر قبلہ کے بدل جانے کی خبر دی ۔ چنانچہ ہم نماز میں بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے اور باقی نماز اسی طرف ادا کی ، اس گھومنے میں مرد عورتوں کی جگہ اور عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں ، آپ کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو خوش ہو کر فرمایا یہ ہیں ایمان بالغیب رکھنے والے ۔ ابن مردویہ میں بروایت عمارہ بن اوس مروی ہے کہ رکوع کی حالت میں ہمیں اطلاع ہوئی اور ہم سب مرد عورتیں بچے اسی حالت میں قبلہ کی طرف گھوم گئے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تم جہاں بھی ہو مشرق مغرب شمال یا جنوب میں ہر صورت نماز کے وقت منہ کعبہ کی طرف کر لیا کرو ۔ ہاں البتہ سفر میں سواری پر نفل پڑھنے والا جدھر سواری جا رہی ہو ادھر ہی نفل ادا کرنے اس کے دل کی توجہ کعبہ کی طرف ہونی کافی ہے اسی طرح میدان جنگ میں نماز پڑھنے والا جس طرح اور جس طرف بن پڑے نماز ادا کر لے اور اسی طرح وہ شخص جسے قبلہ کی جہت کا قطعی علم نہیں وہ اندازہ سے جس طرف زیادہ دل مانے نماز ادا کر لے ۔ پھر گو اس کی نماز فی الواقع قبلہ کی طرف نہ بھی ہوئی ہو تو بھی وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ۔ مسئلہ مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظریں رکھے نہ کہ سجدے کی جگہ جیسے کہ شافعی ، احمد اور ابو حنیفہ کا مذہب ہے اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ منہ مسجد الحرام کی طرف کرو اور اگر سجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلیف کمال خشوع کے خلاف ہو گا بعض مالکیہ کا یہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینہ کی طرف نظر رکھے قاضی شریک کہتے ہیں کہ قیام کے وقت سجدہ کی جگہ نظر رکھے جیسے کہ جمہور جماعت کا قول ہے اس لئے کہ یہ پورا پورا خشوع خضوع ہے اور اور ایک حدیث بھی اس مضمون کی وارد ہوئی ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ پر نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور التحیات کے وقت اپنی گود کی طرف پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ یہودی جو چاہیں باتیں بنائیں لیکن ان کے دل جانتے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی اللہ کی جانب سے ہے اور برحق ہے کیونکہ یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے لیکن یہ لوگ کفر وعناد اور تکبر و حسد کی وجہ سے اسے چھپاتے ہیں اللہ بھی ان کی ان کرتوتوں سے بےخبر نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

144۔ 1 اہل کتاب کے مختلف مقدس کتابوں میں خانہ کعبہ کے قبلہ آخر الانبیاء ہونے کے واضح اشارات موجود ہیں۔ اس لئے اس کا برحق ہونا انہیں یقینی طور پر معلوم تھا، مگر ان کا نسلی غرور و حسد قبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٩] کیونکہ ان کی کتابوں میں مذکور ہے کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرب میں پیدا ہوں گے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریق پر ہوں گے اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) یہ قبلہ بدلنے کا اصل حکم ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن میں پہلا نسخ قبلے کا ہے۔ [ ابن أبی حاتم عن ابن أبی طلحۃ، عن ابن عباس (رض) ] براء (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے سولہ یا سترہ ماہ نماز پڑھی اور آپ کو پسند یہ تھا کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو اور آپ نے پہلی نماز (بیت اللہ کی طرف) عصر کی نماز پڑھی۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ تعالیٰ : ( سیقول السفہاء ۔۔ ) : ٤٤٨٦ ]- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ کا قبلہ ہونا اس قدر پسند تھا کہ قبلہ بدلنے کی امید میں بار بار آسمان کی طرف دیکھتے تھے۔ واضح رہے کہ بیت المقدس شام میں ہے اور یہ مدینہ سے شمال کی طرف ہے اور بیت اللہ اس کے بالکل مخالف جنوب کی طرف ہے۔ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ قبا میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے پاس ایک صاحب آئے، انھوں نے کہا، آج رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن اترا ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا تم بھی اس کی طرف منہ کرلو۔ ان کا رخ شام کی طرف تھا تو انھوں نے گھوم کر کعبہ کی طرف منہ کرلیا۔ [ بخاری، التفسیر، باب ( ولئن أتیت الذین ۔۔ ) : ٤٤٩٠ ] اس سے صحابہ کا حدیث رسول بلکہ قرآن کریم کے ثبوت کے لیے ایک معتبر آدمی کی خبر (یعنی خبر واحد) پر اعتماد اور اس پر فوری عمل ثابت ہوتا ہے۔ جو لوگ بعض احادیث کو خبر واحد کہہ کر رد کردیتے ہیں انھیں غور کرنا چاہیے۔ - (فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) سفر میں نفل نماز، کشتی میں نماز، حالت جنگ میں نماز یا جسے قبلہ معلوم نہ ہو سکے وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، وہ جدھر منہ کر کے نماز پڑھ سکیں پڑھ سکتے ہیں، فرمایا : (فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ) [ البقرۃ : ١١٥ ] ” تو تم جس طرف رخ کرو، سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔ “ البتہ سفر میں اگر ممکن تو سواری کا رخ قبلہ کی طرف کر کے نفل نماز شروع کرلی جائے، اس کے بعد سواری کا رخ جدھر بھی ہو، مضائقہ نہیں۔ انس (رض) راوی ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر کرتے اور نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی کا رخ قبلہ کی طرف کر کے تکبیر کہتے پھر سواری آپ کا رخ جدھر کو بھی کرتی نماز پڑھتے رہتے۔ - [ أبو داوٗد، صلاۃ السفر، باب التطوع علی الراحلۃ : ١٢٢٥، و حسنہ الألبانی ]- (لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۭ ) یعنی یہود کو اپنی کتابوں کی پیشین گوئی کی بنا پر خوب علم ہے کہ نبی آخر الزماں کا قبلہ مسجد حرام ہوگا، مگر وہ کفر و عناد اور حسد کی بنا پر چھپا رہے ہیں۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ لوگ (اہل کتاب) ہم پر کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا جمعہ کے دن پر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور وہ اس سے گمراہ ہوگئے اور اس قبلہ پر جس کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی اور وہ اس سے گمراہ ہوگئے اور امام کے پیچھے ہمارے آمین کہنے پر۔ “ [ أحمد : ٦؍١٣٥، ح : ٢٥٠٨٢، إسنادہ صحیح ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- آپ جو دل سے کعبہ کے قبلہ ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اور امید وحی میں بار بار آسمان کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھتے ہیں کہ شاید فرشتہ حکم لے آوے سو) آپ کے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں (اور چونکہ ہمیں آپ کی خوشی پورا کرنا منظور ہے) اس لئے (ہم وعدہ کرتے ہیں کہ) آپ کو اسی قبلہ کی طرف متوجہ کردیں گے جو آپ کو پسند ہے (لو پھر ہم حکم ہی دئیے دیتے ہیں کہ) اب سے اپنا چہرہ نماز میں مسجد حرام کی طرف کیا کیجئے اور (یہ حکم صرف آپ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ سب لوگ پیغمبر بھی اور امتی بھی) جہاں کہیں موجود ہو (خواہ مدینہ منورہ میں یا اور جگہ یہاں تک کہ خود بیت المقدس میں بھی) اپنے چہروں کو اسی (مسجد حرام) کی طرف کیا کرو ( اور اس قبلہ کے مقرر ہونے کے متعلق) یہ اہل کتاب بھی (بالعموم اپنی کتابوں کی پیشینگوئی کی وجہ سے کہ نبی آخرالزماں کا قبلہ اس طرح ہوگا) یقینا جانتے ہیں کہ یہ حکم بالکل ٹھیک ہے (اور) ان کے پروردگار ہی کی طرف سے ہے (مگر عنادا مانتے نہیں) اور اللہ تعالیٰ ان کی کارروائیوں سے کچھ بیخبر نہیں ہے،- معارف و مسائل :- اس آیت کے پہلے جملہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشتیاق کعبہ کا ذکر ہے اس اشتیاق کی مختلف وجوہ بیان کی گئی ہیں اور سب میں کوئی تعارض نہیں وہ سب وجوہ ہوسکتی ہیں مثلاً یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نزول وحی اور عطاء نبوت سے پہلے اپنی طبیعت و فطرت سے ملت ابراہیمی کے تابع کام کرتے تھے اور نزول وحی کے بعد قرآن نے بھی آپ کی شریعت کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے مطابق قرار دیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا قبلہ بیت اللہ تھا اس لئے آپ کی دلی خواہش یہی تھی کہ آپ کا اور مسلمانوں کا قبلہ بھی وہی کعبہ بیت اللہ قرار دے دیا جائے،- یہ وجہ بھی تھی کہ قبائل عرب بھی چونکہ ملت ابراہیمی کو کم ازکم زبان سے مانتے تھے اور اس کی پیروی کے مدعی تھے کعبہ کے قبلہ مسلمین ہوجانے سے ان کے اسلام کی طرف مائل ہوجانے کی توقع تھی اور سابق قبلہ بیت المقدس میں جو موافقت اہل کتاب کی توقع کی جاسکتی تھی وہ سولہ سترہ مہینے کے عمل کے بعد منقطع ہوچکی تھی کیونکہ یہود مدینہ منورہ کو اس کی وجہ سے کوئی اسلام سے قرب ہونے کے بجائے بعد ہی بڑھا تھا،- بہرحال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش یہ تھی کہ مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ یعنی کعبہ کو قرار دے دیا جائے اور چونکہ مقربان بارگاہ الہٰی انبیاء (علیہم السلام) اپنی کوئی خواہش اور کوئی درخواست حق تعالیٰ کی بارگاہ میں اس وقت تک پیش نہیں کرتے جب تک ان کو یہ درخواست پیش کرنے کی اجازت کا علم نہ ہوجائے اس سے سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرنے کی اجازت پہلے مل چکی تھی اور آپ اس کی دعا کررہے تھے اور اس کی قبولیت کے امیدوار تھے اس لئے بار بار آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تھے کہ شاید کوئی فرشتہ حکم لے کر آجائے آیت مذکورہ میں اس کیفیت کا بیان فرما کر پہلے تو قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا فَلَنُوَلِّيَنَّكَ یعنی ہم آپ کا رخ اسی کی طرف پھیر دیں گے جو سمت آپ کو پسند ہے اس کے فوراً بعد ہی یہ رخ پھیرنے کا حکم بھی نازل فرما دیا فَوَلِّ وَجْهَكَ اس طرز عمل میں ایک خاص لطف تھا کہ پہلے وعدہ کی خوشی حاصل ہو پھر ایفائے وعدہ کی خوشی قند مکرر ہوجائے (یہ سب مضمون قرطبی، جصاص، مظہری سے لیا گیا ہے) - مسئلہ استقبال قبلہ :- یہ تحقیق پہلے آچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے تو ساری سمتیں اور ساری جہات برابر ہیں قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ لیکن مصالح امت کے لئے بتقاضائے حکمت کسی ایک جہت کو تمام دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنا کر سب میں ایک دینی وحدت کا عملی مظاہرہ مقصود تھا وہ جہت بیت المقدس بھی ہوسکتی تھی مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمنا کے مطابق کعبہ کو قبلہ بنانا تجویز کرلیا گیا اور اسی کا حکم اس آیت میں دیا گیا اس کا متقضی یہ تھا کہ اس جگہ فَوَلِّ وَجْهَكَ الی الکعبۃ او الیٰ بیت اللہ فرمایا جاتا مگر قرآن حکیم نے یہ عنوان بدل کر شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے الفاظ اختیار فرمائے اس سے کئی اہم مسائل استقبال قبلہ کے بارے میں واضح ہوگئے،- اول یہ کہ اگرچہ اصل قبلہ بیت اللہ ہے جس کو کعبہ کہا جاتا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ اصل بیت اللہ کا استقبال اسی جگہ تک ہوسکتا ہے جہاں تک بیت اللہ نظر آتا ہے جو لوگ وہاں سے دور ہیں اور بیت اللہ ان کی نظروں سے غائب ہے اگر ان پر یہ پابندی عائد کی جائے کہ عین بیت اللہ کی طرف رخ کرو تو اس کی تعمیل بہت دشوار ہوجائے خاص آلات وحسابات کے ذریعہ بھی صحیح سمت کا استخراج دور کے شہروں میں مشکل اور غیر یقینی ہوجائے اور شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا مدار سہولت و آسانی پر رکھا گیا ہے اس لئے بجائے بیت اللہ یا کعبہ کے مسجد حرام کا لفظ رکھا گیا جو بہ نسبت بیت اللہ کے بہت زیادہ وسیع رقبہ پر مشتمل ہے اس کی طرف رخ پھیرلینا دور دور تک لوگوں کے لئے آسان ہے،- پھر ایک دوسری سہولت لفظ شطر اختیار کرکے دے دیگئی ورنہ اس سے مختصر لفظ الی الْمَسْجِدِ الْحَرَام تھا اس کو چھوڑ کر شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام فرمایا گیا شطر دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک نصف شے دوسرے سمت شے باتفاق مفسرین اس جگہ شطر سے مراد سمت ہے تو اس لفظ نے یہ بتلا دیا کہ بلاد بعیدہ میں یہ بھی ضروری نہیں کہ خاص مسجد حرام ہی کی طرف ہر ایک کا رخ ہوجائے تو نماز درست ہو بلکہ سمت مسجد حرام کافی ہے (بحر محیط) - مثلاً مشرقی ممالک ہندوستان وپاکستان وغیرہ کے لئے جانب مغرب مسجد حرام کی سمت ہے تو مغرب کی جانب رخ کرلینے سے استقبال قبلہ کا فرض ادا ہوجائے گا اور چونکہ گرمی، سردی کے موسموں میں سمت مغرب میں بھی اختلاف ہوتا رہتا ہے اس لئے فقہاء نے اس سمت کو سمت مغرب و قبلہ قرار دیا ہے جو موسم گرم وسرما کی دونوں مغربوں کے درمیان ہے اور قواعد ریاضی کے حساب سے یہ صورت ہوگی کہ مغرب صیف اور مغرب شتا کے درمیان ٤٨ ڈگری تک سمت قبلہ قرار دی جائے گی یعنی ٢٤ ڈگری تک بھی اگر دائیں یا بائیں مائل ہوجائے تو سمت قبلہ فوت نہیں ہوگی نماز درست ہوجائے گی ریاضی کی قدیم اور مشہور کتاب شرح چغمنی باب رابع صفحہ ٦٦ میں دونوں مغربین کا فاصلہ یہی ٤٨ ڈگری قرار دیا ہے۔- سمت قبلہ معلوم کرنے کے لئے شرعاً آلات رصدیہ اور حسابات ریاضیہ پر مدار نہیں :- اس سے ان لوگوں کی جہالت بھی واضح ہوگئی جنہوں نے ہندوستان وپاکستان کی بہت سی مسجدوں کی سمت قبلہ میں معمولی سا فرق دو چار ڈگری کا دیکھ کر یہ فیصلہ کردیا کہ ان میں نماز نہیں ہوتی یہ سراسر جہالت ہے اور بلا وجہ مسلمانوں میں تفریق و انتشار پیدا کرنا ہے،- شریعت اسلامیہ چونکہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے اور پوری دنیا کے ممالک کے لئے ہے اس لئے احکام شرعیہ کو ہر شعبہ میں اتنا آسان رکھا گیا ہے کہ ہر گاؤں، جنگل، پہاڑ، جزیرہ میں بسنے والے مسلمان اس پر اپنے مشاہدہ سے عمل کرسکیں کسی مرحلے میں حسابات، ریاضی، یا اصطرلاب وغیرہ آلات کی ضرورت نہ پڑے، ٤٨ ڈگری تک کی وسیع سمت مغرب اہل شرق کا قبلہ ہے اس میں پانچ دس ڈگری کا فرق ہو بھی جائے تو اس سے نمازوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث سے اس کی اور وضاحت ہوجاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں مابین المشرق والمغرب قبلۃ (رواہ الترمذی عن ابی ہریرۃ) یعنی مشرق ومغرب کے درمیان قبلہ ہے آپ کا یہ ارشاد مدینہ طیبہ والوں کے لئے تھا کیونکہ ان کا قبلہ مشرق ومغرب کے درمیان جانب جنوب واقع تھا اس حدیث نے گویا شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے لفظ کی تشریح کردی کہ مسجد حرام کی سمت کافی ہے البتہ بناء مسجد کے وقت اس کی کوشش بہتر ہے کہ ٹھیک بیت اللہ کے رخ سے جتنا قریب ہوسکے وہ کرلیا جائے صحابہ کرام وتابعین اور سلف صالحین کا طریقہ تو اس دریافت کے لئے سیدھا سادہ یہ تھا کہ جس جگہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کی بنائی ہوئی کوئی مسجد ہوئی اس سے اس کے قرب و جوار کی مسجدوں کا رخ سیدھا کرلیا پھر ان کے قرب و جوار کا ان کے ذریعہ اسی طرح تمام عالم میں مساجد کا رخ تجویز کیا گیا ہے، اس لئے بلاد بعیدہ میں سمت قبلہ معلوم کرنے کا صحیح طریقہ جو سلف سے چلا آتا ہے یہ ہے کہ جن بلاد میں مساجد قدیمہ موجود ہیں ان کا اتباع کیا جائے کیونکہ اکثر بلاد میں تو حضرات صحابہ وتابعین نے مساجد کی بنیادیں ڈالی ہیں اور سمت قبلہ متعین فرمائی ہے اور پھر انھیں دیکھ کر دوسری بستیوں میں مسلمانوں نے اپنی اپنی مساجد بنائی ہیں، - اس لئے یہ سب مساجد مسلمین سمت قبلہ معلوم کرنے کے لئے کافی ووافی ہیں، ان میں بلاوجہ شبہات فلسفیہ نکالنا شرعاً محمود نہیں بلکہ مذموم اور موجب تشویش ہے بلکہ بسا اوقات ان تشویشات میں پڑنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین اور عامۃ المسلمین پر بدگمانی ہوجاتی ہے کہ ان کی نمازیں اور قبلہ درست نہیں حالانکہ یہ باطل محض اور سخت جسارت ہے آٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف عالم ابن رجب حنبلی اسی بناء پر سمت قبلہ میں آلات رصدیہ اور تدقیقات ریاضیہ میں پڑنے کو منع فرماتے ہیں ولفظہ :- اما علم التسییر فاذا تعلم منہ ما یحتاج الیہ للاستھداء ومعرفۃ القبلۃ والطرق کان جائزا عند الجمھور وما زاد علیہ فلا حاجۃ الیہ وھو یشغل عما ھو اہم منہ وربما ادی التدقیق فیہ الی اساءۃ الظن بمحاریب المسلمین فی امصارہم کما وقع فی ذللک کثیر من اہل ہذا العلم قدیما وحدیثا وذلک یفضی الیٰ اعتقاد خطاء الصحابہ والتابعین فی صلواتہم فی کثیر من الامصار وھو باطل وقدانکر الامام احمد الاستدلال بالجدے وقال انما ورد مابین المشرق والمغرب قبلۃ :- " لیکن علم تسییر سو اس کو اس قدر حاصل کرنا جمہور کے نزدیک جائز ہے جس سے راہ یابی اور قبلہ اور راستوں کی شناخت ہوسکے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں کہ وہ (یعنی زیادہ سیکھنا) امور ضروریہ سے غافل کردے گا اور بعض مرتبہ تدقیقات فلکیہ میں پڑنا عامہ بلاد اسلامیہ میں جو مسلمانوں کی مسجدیں ہیں ان کے متعلق بدگمانی پیدا کردیتا ہے اس فن میں مشغول ہونیوالوں کی ہمیشہ اس قسم کے شبہات پیش آتے ہیں اس سے بھی اعتقاد پیدا ہوگا کہ بہت سے شہروں میں صحابہ وتابعین کی نمازیں غلط طریقہ پر تھیں اور یہ بالکل لغو و باطل ہے امام احمد نے (ستارہ) جدی (جس کو ہمارے بلاد میں قطب کہتے ہیں) سمت قبلہ میں اس سے استدلال کرنے کو منع کیا اور فرمایا کہ حدیث شریف میں (صرف) مابین المشرق والمغرب قبلہ آیا ہے یعنی مشرق ومغرب کے درمیان پوری جہت قبلہ ہے "،- اور جن جنگلات یا نوآبادیات وغیرہ میں مساجد قدیمہ موجود نہ ہوں وہاں شرعی طریقہ جو سنت صحابہ وتابعین سے ثابت ہے یہ ہے کہ شمس وقمر اور قطب وغیرہ کے مشہور و معروف ذرائع سے اندازہ قائم کرکے سمت قبلہ متعین کرلی جاوے اگر اس میں معمولی انحراف ومیلان بھی رہے تو اس کو نظر انداز کیا جاوے کیونکہ حسب تصریح صاحب بدائع بلاد بعیدہ میں تحری اور اندازہ سے قائم کردہ جہت ہی قائم مقام کعبہ کے ہے اور اسی پر احکام دائر ہیں جیسے شریعت نے نیند کو قائم مقام خروج ریح کا قرار دے کر اسی پر نقض وضو کا حکم کردیا یا سفر کو قائم مقام مشقت کا قرار دے کر مطلقاً سفر پر رخصتیں مرتب کردیں حقیقۃً مشقت ہو یا نہ ہو اسی طرح بلاد بعیدہ میں مشہور و معروف نشانات و علامات کے ذریعہ جو سمت قبلہ تحری و اندازہ سے قائم کی جائے گی وہی شرعاً قائم مقام کعبہ کے ہوگی علامہ بحر العلوم نے رسائل الارکان میں اسی مضمون کو بالفاظ ذیل بیان کیا ہے :- والشرط وقوع المسامتۃ علی حسب ما یری المصلی ونحن غیر مامورین بالمسامتۃ علی ما یحکم بہ الالات الرصدیۃ و لہذا افتوا ان الانحراف المفسد ان یتجاوز المشارق والمغارب (رسائل الارکان ص ٥٣) - " اور ستقبال قبلہ میں شرط وضروری صرف یہ ہے کہ نمازی کی رائے اور اندازہ کے موافق کعبہ کے ساتھ مسامتت (محاذات) واقع ہوجاوے اور ہم اس کے مکلف نہیں کہ وہ درجہ مسامتت ومحاذات کا پیدا کریں جو آلات رصدیہ کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے اس لئے عام علماء کا فتویٰ یہ ہے کہ انحراف مفسد (صلوۃ) وہ ہے جس میں مشرق ومغرب کا تفاوت ہوجاوے،- اس مسئلہ کی مکمل تشریح اور حسابات کے ذریعہ استخراج قبلہ کے مختلف طریقے اور ان کی شرعی حیثیت پر مفصل کلام میرے رسالے سمت قبلہ میں دیکھا جاسکتا ہے ،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاۗءِ۝ ٠ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَۃً تَرْضٰىھَا۝ ٠ ۠ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝ ٠ ۭ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝ ٠ ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٤٤- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - قِبْلَةً :- في الأصل اسم للحالة التي عليها الْمُقَابِلُ نحو : الجلسة والقعدة، وفي التّعارف صار اسما للمکان الْمُقَابَلِ المتوجّهِ إليه للصلاة . نحو : فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة 144] - القبلۃ :- اصل میں بالمقابل آدمی کی حالت کو کہا جاتا ہے جیسے جلسۃ وقعدۃ اور عرف میں اس جہت کو قبلہ کہا جاتا ہے جس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة 144] سو ہم تم کو ایسے قبلہ کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو متوجہ ہونے کا حکم دیں گے ۔ - رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- شطر - شَطْرُ الشیء : نصفه ووسطه . قال تعالی: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ- [ البقرة 144] ، أي : جهته ونحوه، وقال : وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ [ البقرة 150] ، ويقال : شَاطَرْتُهُ شِطَاراً ، أي : ناصفته، وقیل : شَطَرَ بصره، أي : نصّفه، وذلک إذا أخذ ينظر إليك وإلى آخر، وحلب فلان الدّهر أَشْطُرَهُ وأصله في الناقة أن يحلب خلفین، ويترک خلفین، وناقة شَطُورٌ: يبس خلفان من أخلافها، وشاة شَطُورٌ: أحد ضرعيها أكبر من الآخر، وشَطَرَ : إذا أخذ شَطْراً ، أي : ناحية، وصار يعبّر بِالشَّاطِرِ عن البعید، وجمعه : شُطُرٌ ، نحو : أشاقک بين الخلیط الشّطر والشَّاطِرُ أيضا لمن يتباعد عن الحقّ ، وجمعه : شُطَّارٌ.- ( ش ط ر ) شطر الشیئ کے اصل معنی نصف یا وسط شے کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ البقرة 144] اور اپنا منہ مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ کیطرف پھیر لو ۔ یہاں شطر بمعنی سمت ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ [ البقرة 150] نماز کے وقت ) اس مسجد کی طرف منہ کرلیا کرو ۔ شاطرتہ شطارا : آدھا آدھا تقسیم کرلینا ۔ شطر بصرہ اس طرح دیکھنا کہ تمہاری طرف بھی نظر رہے اور دوسرے کی طرف بھی ۔ حلب فلان الدھر اشطرہ اس نے زمانہ کے خیر و شر کو پہچان لیا اصل میں یہ لفظ اونٹنی کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ جب کوئی شخص اونٹنی کے اگلی طرف کے تھنوں سے دودھ نکال لے اور پچھلی طرف کے چھوڑ دے تو اس کے متعلق حلب اشطرہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور شطور اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جس کے ایک جانب کے تھن خشک ہوگئے ہوں اور شطور اس بکری کو بھی کہا جاتا ہے جس کا ایک تھن دوسرے سے لمبا ہو ۔ شطر کے معنی ایک جانب ہوجانے کے ہیں ۔ اور شاطر سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو دور رہتا ہو اس کی جمع شطر آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( المتقارب ) ( 261 ) اشاقک بین الخلیط الشطر دوستوں میں تجھے رہنے والوں نے اپنا مشتاق بنا لیا ہے ۔ اور شاطر بعید عن الحق کو بھی کہتے ہیں ۔ اور اس کی جمع شطار آتی ہے ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ- [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- شطر - شَطْرُ الشیء : نصفه ووسطه . قال تعالی: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ- [ البقرة 144] ، أي : جهته ونحوه، وقال : وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ [ البقرة 150] ، ويقال : شَاطَرْتُهُ شِطَاراً ، أي : ناصفته، وقیل : شَطَرَ بصره، أي : نصّفه، وذلک إذا أخذ ينظر إليك وإلى آخر، وحلب فلان الدّهر أَشْطُرَهُ وأصله في الناقة أن يحلب خلفین، ويترک خلفین، وناقة شَطُورٌ: يبس خلفان من أخلافها، وشاة شَطُورٌ: أحد ضرعيها أكبر من الآخر، وشَطَرَ : إذا أخذ شَطْراً ، أي : ناحية، وصار يعبّر بِالشَّاطِرِ عن البعید، وجمعه : شُطُرٌ ، نحو : أشاقک بين الخلیط الشّطر والشَّاطِرُ أيضا لمن يتباعد عن الحقّ ، وجمعه : شُطَّارٌ.- ( ش ط ر ) شطر الشیئ کے اصل معنی نصف یا وسط شے کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ البقرة 144] اور اپنا منہ مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ کیطرف پھیر لو ۔ یہاں شطر بمعنی سمت ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ [ البقرة 150] نماز کے وقت ) اس مسجد کی طرف منہ کرلیا کرو ۔ شاطرتہ شطارا : آدھا آدھا تقسیم کرلینا ۔ شطر بصرہ اس طرح دیکھنا کہ تمہاری طرف بھی نظر رہے اور دوسرے کی طرف بھی ۔ حلب فلان الدھر اشطرہ اس نے زمانہ کے خیر و شر کو پہچان لیا اصل میں یہ لفظ اونٹنی کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ جب کوئی شخص اونٹنی کے اگلی طرف کے تھنوں سے دودھ نکال لے اور پچھلی طرف کے چھوڑ دے تو اس کے متعلق حلب اشطرہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور شطور اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جس کے ایک جانب کے تھن خشک ہوگئے ہوں اور شطور اس بکری کو بھی کہا جاتا ہے جس کا ایک تھن دوسرے سے لمبا ہو ۔ شطر کے معنی ایک جانب ہوجانے کے ہیں ۔ اور شاطر سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو دور رہتا ہو اس کی جمع شطر آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( المتقارب ) ( 261 ) اشاقک بین الخلیط الشطر دوستوں میں تجھے رہنے والوں نے اپنا مشتاق بنا لیا ہے ۔ اور شاطر بعید عن الحق کو بھی کہتے ہیں ۔ اور اس کی جمع شطار آتی ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

استقبال قبلہ پر بحث - قول باری ہے : قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنو لینک قبلۃ ترضھا ( یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں، لو، ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو) ایک قول کے مطابق تقلب کے معنی تحول ( بار بار پھرنے) کے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان کی طرف بار بار اپنا چہرہ اس لیے کرتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تحویل قبلہ کا وعدہ کرلیا گیا تھا۔ اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سلسلے میں وحی کے منتظر تھے اور اللہ سے اس کی درخواست کرتے تھے۔ اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا چہرہ مبارک بار بار آسمان کی طرف کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ انبیاء (علیہم السلام) اللہ کی طرف سے اجازت کے بعد ہی اس سے درخواست اور سوال کرتے ہیں۔ بلا اذن درخواست کی صورت میں خود انہیں یہ کھٹکا ہوتا ہے کہ کہیں ان کی درخواست قوم کے لئے فتنہ اور آزمائش کا سبب نہ بن جائے۔ اس کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا رخ کعبے کی طرف پھیر دے اور اس طرح یہودیوں سے ممتاز ہوجانے اور ان سے ہٹ کر الگ راہ متعین کرنے کی صورت پیدا ہوجائے۔ یہ بات مجاہد سے مروی ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کعبہ کی طرف رخ کرنا اس لئے پسند تھا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد امجد حضر ت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ تھا، ایک اور قول کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عربوں کو ایمان کی طرف راغب کرنے کی خاطر یہ بات پسند فرمائی تھی۔ قول باری : فلنو لینک قبلۃ ترضھا کا یہی مفہوم ہے۔- قول باری ہے : فول وجھک شطر المسجد الحرام ( پس مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو ) اہل لغت کے قول کے مطابق شطر کا لفظ ایک مشترک اسم ہے جو دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک معنی نصف کے ہیں جب آپ ایک چیز دو نصف حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں تو کہتے ہیں شطرت الشئی یعنی میں نے اسے نصف نصف کردیا۔ عرب کے لوگ کہتے ہیں : احلب حلبالک شطرہ ( جانور سے دودھ نکال لو، آدھا تمہارا ہوگا) شطر کا دوسرا معنی : نحوہ وتلقاء ہ ( اس کی طرف) ہے۔ آیت سے یہی معنی مراد ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، ابو العالیہ، مجاہد اور ابربیع بن انس کا یہی قول ہے۔ پہلا معنی مراد لینا جائز نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اس پر مسجد حرام کے نصف حصے کی طرخ رخ کرنا فرض ہے۔- تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص بیت اللہ کے ایک کونے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ لے تو اس کی نماز درست ہوجائے گی کیونکہ ایسی صورت میں وہ بیت اللہ کے شطر یعنی اس کی طرف متوجہ ہوگا۔- اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام کی طرف رخ کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن اس کی مراد بیت اللہ ہے کیونکہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر ایک شخص مکہ میں ہو اور وہ مسجد حرام کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے تو اس کی نماز اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک کہ وہ بیت اللہ کے محاذات میں نہ ہو۔- قول باری ہے : وحیث ما کنتم قولو ا وجوھکم شطرہ ( اب جہاں کہیں بھی تم ہو اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو) یہ خطاب ان لوگوں کے لئے ہے جو کعبہ کے سامنے ہوں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو کعبہ سے دور اور اس کے سامنے نہ ہوں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص کعبہ کے پاس ہو اس پر عین کعبہ کی طرف رخ کرنا فرض ہے اور جو شخص کعبہ سے دور ہو اس پر کعبہ کی طرف رخ کرنا فرض ہے، یعنی اس جہت کی طرف جس کے متعلق اس کا غالب گمان ہو کہ یہ کعبہ کی جہت ہے کیونکہ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ ایسا شخص عین کعبہ کی طرف رخ کرنے کا مکلف نہیں ہے اس لئے کہ ایسا کرنا اس کے بس میں نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے : لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا ( اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی وسعت اور طاقت کے مطابق) اس لئے عین کعبہ کی طرف رخ کرنا جس شخص کے بس سے باہر ہو وہ اس کا مکلف بھی قرار نہیں پاتا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ مذکورہ شخص صرف اس جہت کی طرف رخ کرنے کا مکلف ہے جس کے متعلق اس کا غالب گمان یہ ہو کہ یہ کعبہ کی جہت ہے۔- یہ بات ان اصولوں میں سے ایک ہے جو حوادث یعنی پیش آنے والے نئے واقعات کے احکام کے سلسلے میں اجتہاد سے کام لینے پر دلالت کرتے ہیں۔ ہر مجتہد صرف اس بات کا مکلف ہوتا ہے جس پر وہ اپنے اجتہاد کے ذریعے پہنچ جائے۔ یہاں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ مشتبہ قسم کے نئے حوادث کی ایک حقیقت مطلوبہ ہوتی ہے جس طرح قبلے کی ایک حقیقت ہے۔ جسے اجتہاد اور تحتری کے ذریعے طلب کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر مشتبہ قسم کے حوادث کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کا مکلف ہونا درست ہے جس طرح اجتہاد پر اپنی سمجھ بوجھ کے ذریعے قبلے کی طلب کا مکلف ہونا درست ہے کیونکہ قبلے کی ایک حقیقت ہے۔ اگر سرے سے کسی قبلے کا وجود نہ ہوتا تو ہمیں اس کا مکلف نہ بنایاجاتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٤) تبدیلی قبلہ کے لیے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو دعا فرمائی ہے، اب اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں کہ ہم آسمان کی طرف آپ کی نظر اٹھانے کو دیکھ رہے ہیں، تاکہ جبریل امین (علیہ السلام) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تحویل قبلہ کا حکم لے کر آئیں، چناچہ ہم نماز ہی کے اندر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے قبلہ کی طرف یعنی قبلہ ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف جس کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پسند کرتے ہیں پھیر دیں گے ،- لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چہرہ کو نماز ہی کی حالت میں مسجد حرام کی طرف موڑ لیجیے اور خواہ تم خشکی میں ہو یا تری میں اپنے چہروں کو نماز میں اسی طرف پھیر لیں۔- اور اہل کتاب (یعنی یہودی) اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ حرم محترم حضرت خلیل اللہ کا قبلہ ہے لیکن وہ اس چیز کو خفیہ رکھتے ہیں اور جس چیز کو تم خفیہ رکھتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٤ (قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآءِ ج) - معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تحویل قبلہ کے فیصلے کا انتظار تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی یہ وقفہ شاق گزر رہا تھا جس میں نماز پڑھتے ہوئے بیت اللہ کی طرف پیٹھ ہو رہی تھی۔ چناچہ آپ کی نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اٹھتی تھیں کہ کب جبریل امین تحویل قبلہ کا حکم لے کر نازل ہوں۔- (فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰٹہَاص) - اس آیت میں ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اللہ کی طرف سے بڑی محبت ‘ بڑی شفقت اور بڑی عنایت کا اظہار ہو رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ کے ساتھ بڑی محبت تھی ‘ اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا ایک رشتۂ قلبی تھا۔- (فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط) (وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ ط) (وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ ط) - تورات میں بھی یہ مذکور تھا کہ اصل قبلۂ ابراہیمی ( علیہ السلام) بیت اللہ ہی تھا۔ بیت المقدس کو تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک ہزار سال بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا ‘ جسے ہیکل سلیمانی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اَنَّہٗسے مراد یہاں بیت اللہ کا اس امت کے لیے قبلہ ہونا ہے۔ اس بات کا حق ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا یہود پر واضح تھا اور اس کے اشارات و قرائن تورات میں موجود تھے ‘ لیکن یہود اپنے حسد اور عناد کے سبب اس حقیقت کو بھی دوسرے بہت سے حقائق کی طرح جانتے بوجھتے چھپاتے تھے۔ اس موضوع کو سمجھنے کے لیے مولانا حمیدالدین فراہی کارسالہ الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح بہت اہم ہے ‘ جس کا اردو ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے ذبیح کون ہے ؟ کے عنوان سے کیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :146 یہ ہے وہ اصل حکم ، جو تحویلِ قبلہ کے بارے میں دیا گیا تھا ۔ یہ حکم رجب یا شعبان ۲ ہجری میں نازل ہوا ۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بِشْر بن بَراء بن مَعْرُور کے ہاں دعوت پر گئے ہوئے تھے ۔ وہاں ظہر کا وقت آگیا اور آپ لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے ۔ دو رکعتیں پڑھا چکے تھے کہ تیسری رکعت میں یکایک وحی کے ذریعے سے یہ آیت نازل ہوئی اور اسی وقت آپ اور آپ کی اقتدا میں جماعت کے تمام لوگ بیت المقدس سے کعبے کے رخ پھر گئے ۔ اس کے بعد مدینہ اور اطرافِ مدینہ میں اس کی عام منادی کی گئی ۔ بَراء بن عازِب کہتے ہیں کہ ایک جگہ منادی کی آواز اس حالت میں پہنچی کہ لوگ رکوع میں تھے ۔ حکم سنتے ہی سب کے سب اسی حالت میں کعبے کی طرف مُڑ گئے ۔ اَنس بن مالک کہتے ہیں کہ بنی سَلمَہ میں یہ اطلاع دُوسرے روز صبح کی نماز کے وقت پہنچی ۔ لوگ ایک رکعت پڑھ چکے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز پڑی: ”خبردار رہو ، قبلہ بدل کر کعبے کی طرف کر دیا گیا ہے“ ۔ سنتے ہی پوری جماعت نے اپنا رخ بدل دیا ۔ خیال رہے کہ بیت المقدس مدینے سے عین شمال میں ہے اور کعبہ بالکل جنوب میں ۔ نماز باجماعت پڑھتے ہوئے قبلہ تبدیل کرنے میں لامحالہ امام کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہو گا اور مقتدیوں کو صرف رخ ہی نہ بدلنا پڑا ہوگا ، بلکہ کچھ نہ کچھ انہیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنی پڑی ہوں گی ۔ چنانچہ بعض روایات میں یہی تفصیل مذکور بھی ہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ” ہم تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے ہیں “ اور یہ کہ” ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں ، جسے تم پسند کرتے ہو“ ، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تحویلِ قبلہ کا حکم آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے منتظر تھے ۔ آپ خود یہ محسوس فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دَور ختم ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ بیت المقدس کی مرکزیّت بھی رخصت ہوئی ۔ اب اصل مرکزِ ابراہیمی کی طرف رخ کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ مسجدِ حرام کے معنی ہیں حُرمت اور عزّت والی مسجد ۔ اس سے مراد وہ عبادت گاہ ہے ، جس کے وسط میں خانہء کعبہ واقع ہے ۔ کعبے کی طرف رخ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہ دنیا کے کسی کونے میں ہو ، اسے بالکل ناک کی سیدھ میں کعبے کی طرف رخ کرنا چاہیے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا ہر وقت ہر شخص کے لیے ہر جگہ مشکِل ہے ۔ اسی لیے کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، نہ کہ کعبے کی سیدھ میں ۔ قرآن کی رُو سے ہم اس بات کے لیے ضرور مُکَلف ہیں کہ حتّی الامکان صحیح سَمْتِ کعبہ کی تحقیق کریں ، مگر اس بات پر مُکَلف نہیں ہیں کہ ضرور بالکل ہی صحیح سَمْت معلوم کرلیں ۔ جس سمت کے متعلق ہمیں امکانی تحقیق سے ظنِ غالب حاصل ہو جائے کہ یہ سَمْتِ کعبہ ہے ، اُدھر نماز پڑھنا یقیناً صحیح ہے ۔ اور اگر کہیں آدمی کے لیے سَمْتِ قبلہ کی تحقیق مشکل ہو ، یا وہ کسی ایسی حالت میں ہو کہ قبلے کی طرف اپنی سَمْت قائم نہ رکھ سکتا ہو ( مثلاً ریل یا کشتی میں ) تو جس طرف اسے قبلے کا گمان ہو ، یا جس طرف رخ کرنا اس کے لیے ممکن ہو ، اسی طرف وہ نماز پڑھ سکتا ہے ۔ البتہ اگر دوران نماز میں صحیح سمتِ قبلہ معلوم ہو جائے یا صحیح سَمْت کی طرف نماز پڑھنا ممکن ہو جائے ، تو نماز کی حالت ہی میں اس طرف پھر جانا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

93: جب بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تو آنحضرتﷺ کو یہ اندازہ تھا کہ یہ حکم عارضی ہے، اور چونکہ بیت اللہ بیت المقدس کے مقابلے میں زیادہ قدیم بھی تھا اور اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادیں بھی وابستہ تھیں، اس لئے آپ کی طبعی خواہش بھی یہی تھی کہ اسی کو قبلہ بنایا جائے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ قبلے کی تبدیلی کے انتظار اور اشتیاق میں کبھی کبھی آسمان کی طرف منہ اٹھاکر دیکھتے تھے۔ اس آیت میں آپ کی اسی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔ 94: یعنی اہل کتاب اچھی طرح جانتے ہیں کہ قبلے کی تبدیلی کا جو حکم دیا گیا ہے وہ بالکل برحق ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے تھے، اور یہ بات تاریخی طور پر ثابت تھی کہ انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مکہ میں کعبہ تعمیر کیا تھا، بلکہ بعض مؤرخین نے خود تورات کے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تمام اولاد (بشمول حضرت اسحاق علیہ السلام) کا قبلہ کعبہ ہی تھا۔ (اس کی تحقیق کے لئے دیکھئے مولانا حمیدالدین فراہی کا رسالہ ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ ص۳۵ تا۳۸)