Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح مسمانوں کے ساتھ استہزاء استخفاف کا معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے انہیں ذلت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کو استہزاء سے تعبیر کرنا، زبان کا اسلوب ہے، ورنہ حقیقتا یہ مذاق نہیں ہے، ان کے فعل کی سزا ہے جیسے برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی، میں برائی کے بدلے کو برائی کہا گیا حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز فعل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بھی ان سے فرمائے گا۔ جیسا کہ سورة حدید کی آیت ( يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ ) 057:013 میں وضاحت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] اوصاف کا سدہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں ؟ قرآن کی بعض آیات میں بعض اوصاف ذمیمہ مثلاً استہزاء مکر اور خدع کی اللہ تعالیٰ کی طرف جو نسبت کی گئی ہے، یہ محض اہل عرب کے محاورہ کی وجہ سے ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن اہل عرب اور بالخصوص قریش کے محاورہ کے مطابق نازل ہوا ہے۔ ایسے افعال اللہ تعالیٰ کی طرف کبھی اکیلے منسوب نہیں ہوتے بلکہ کافروں کے افعال کے جواب کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ عرف عام میں ایسی صورت کو مشاکلہ کہتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسے اوصاف سے پاک ہے۔ ایسے عرب محاوروں کی ایک مثال درج ذیل آیت میں بھی موجود ہے۔- (وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا) (٤٢: ٤٠) برائی کا بدلہ اس کے مثل (یا اتنی ہی) برائی ہے۔- حالانکہ جو برائی کا بدلہ لے اسے برائی نہیں بلکہ انصاف کہنا زیادہ مناسب ہے۔ لیکن محاوروں میں برائی کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے جواباً مذاق اڑانے سے مراد منافقوں کو ان کے استہزاء کا پورا پورا بدلہ دینا ہے، نہ کہ ان کی طرح کا مذاق اڑانا۔ مگر محاورہ میں استہزاء کا لفظ ہی جواب کے طور پر استعمال ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان کے استہزاء کا جواب اس صورت میں دے گا کہ عنقریب ان کے سارے پول کھول دے گا۔ جس سے یہ لوگ دنیا میں ذلیل و رسوا ہوں گے اور آخرت میں عذاب الیم سے دو چار ہوں گے۔- [٢٢] عَمِہَ بمعنی دل کا اندھا یا نور بصیرت سے خالی ہونا ہے، جبکہ آنکھ کے اندھے کے لیے عمی کا لفظ آتا ہے۔ گویا منافقوں کو حق بات سوجھتی ہی نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

3 منافقین دل میں کفر رکھنے اور کفار کا ساتھ دینے کے باوجود مسلمانوں سے ملتے تو ” اٰمَنَّا “ کہتے اور اسے اہل ایمان کے ساتھ مذاق قرار دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی جواباً ان کے ساتھ یہی معاملہ فرمایا کہ ان کے متعلق یہ طے کردیا کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے، اس کے باوجود دنیا میں انھیں مسلمان قرار دیا اور ان کی رسی دراز کردی، تاکہ وہ سرکشی میں زیادہ سے زیادہ بڑھ جائیں، فرمایا : (اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا) [ آل عمران : ١٧٨ ] ” ہم انھیں صرف اس لیے مہلت دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں بڑھ جائیں۔ “ وہ ان کا مذاق تھا یہ اللہ تعالیٰ کا مذاق ہے۔ قرآن مجید میں ایسے الفاظ مقابلے میں استعمال ہوئے ہیں جو ابتداءً کم ہی استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مذاق کرنے میں وہ معاملہ بھی شامل ہے جو قیامت میں منافقین کو پیش آئے گا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جاتے ہوئے ان کے نور سے راستہ دیکھتے ہوئے جا رہے ہوں گے کہ یکایک ایک دیوار کے ذریعے سے جہنم کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔ ( دیکھیے حدید : ١٢ تا ١٥ )

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آٹھویں آیت میں ان کی اس احمقانہ گفتگو کا جواب ہے کہ یہ بےشعور سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں سے استہزاء کرتے ہیں اور ان کو بیوقوف بنا رہے ہیں حالانکہ درحقیقت خود بیوقوف بن رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حلم وکرم سے ان کو ڈھیل دے کر خود انہی استہزاء کا سامان کردیا ہے کہ ظاہر میں کسی عذاب کے نہ آنے سے وہ اور غفلت میں پڑگئے اور اپنی سرکشی میں بڑہتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کا جرم اور سنگین ہوگیا پھر دفعۃً پکڑ لئے گئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ عمل چونکہ ان کے استہزاء کے جواب میں تھا اس لئے اس عمل کو بھی استہزاء سے تعبیر کیا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَللہُ يَسْتَہْزِئُ بِہِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَھُوْنَ۝ ١٥- اسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ .- ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] .- الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔- مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ- [ النمل 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ- [ البقرة 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] والمُدُّ من المکاييل معروف .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ - عمه - الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] .- ( ع م ہ ) العمۃ - کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) اللہ تعالیٰ بدلے کے طور پر قیامت کے دن ان کا مذاق اڑائے گا، اس طرح کہ ان کے سامنے پہلے جنت کا ایک دروازہ کھولے گا اور پھر انھیں وہ دروازہ دکھا کر ان پر بند کردے گا اس بات پر مومنین ان منافقین کا مذاق اڑائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (اَللّٰہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ وَیَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ ) - اللہ تعالیٰ سرکشوں کی رسّی دراز کرتا ہے۔ کوئی شخص سرکشی کے راستے پر چل پڑے تو اللہ تعالیٰ اسے فوراً نہیں پکڑتا ‘ بلکہ اسے ڈھیل دیتا ہے کہ چلتے جاؤ جہاں تک جانا چاہتے ہو۔ تو ان کی بھی اللہ تعالیٰ رسّی دراز کر رہا ہے ‘ لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اصل میں مذاق تو اللہ کے نزدیک ان کا اڑ رہا ہے۔ - لفظ ” یَعْمَھُوْنَ “ عقل کے اندھے پن کے لیے آیا ہے۔ اس کا مادہ ” ع م ھ “ ہے۔ آگے آیت ١٨ میں لفظ ” عُمْیٌ“ آ رہا ہے جو ” ع م ی “ سے ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ” عَمِہَ یَعْمَہُ “ بصیرت سے محرومی کے لیے آتا ہے اور ” عَمِیَ یَعْمٰی “ بصارت سے محرومی کے لیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی رسی دراز کر رکھی ہے کہ ان کے دوغلے پن کی فوری سزا دنیا میں انہیں نہیں مل رہی ہے، جس سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہماری تدبیر کارگر ہوگئی، چنانچہ وہ اپنی اس گمراہی میں اور پختہ ہوتے جارہے ہیں، آخرت میں انہیں ایک دم پکڑلیا جائے گا، چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ عمل ان کے مذاق کا نتیجہ تھا اسے یہاں اللہ ان سے مذاق کرتا ہے کے عنوان سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔