Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایمان فروش لوگ حضرت ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے کہ انہوں نے ہدایت چھوڑ دی اور گمراہی لے لی ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں انہوں نے ایمان کے بدلے کفر قبول کیا ۔ مجاہد فرماتے ہیں ایمان لائے پھر کافر ہو گئے ۔ قتادہ فرماتے ہیں ہدایت پر گمراہی کو پسند کرتے ہیں ۔ جیسے اور جگہ قوم ثمود کے بارے میں ہے آیت ( وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) 41 ۔ فصلت:17 ) یعنی باوجود اس کے کہ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت سے روشناس کر دیا مگر پھر بھی انہوں نے اس رہنمائی کی جگہ اندھے پن کو پسند کیا ۔ مطلب یہ ہوا کہ منافقین ہدایت سے ہٹ کر گمراہی پر آ گئے اور ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی گویا ہدایت کو بیچ کر گمراہی خرید لی ۔ اب ایمان لا کر پھر کافر ہوئے ہوں خواہ سرے سے ایمان ہی نصیب نہ ہوا ہو اور ان منافقین میں دونوں قسم کے لوگ تھے ۔ چنانچہ قرآن میں ہے آیت ( ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ ) 63 ۔ المنافقون:3 ) یہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ ایمان لا کر پھر کافر ہو گئے پس ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ایسے بھی منافق تھے جنہیں ایمان نصیب ہی نہ ہوا پس نہ تو انہیں اس سودے میں فائدہ ہوا ، نہ راہ ملی ، بلکہ ہدایت کے چمنستان سے نکل کر گمراہی کے خارزار میں ، جماعت کے مضبوط قلعہ سے نکل کر تنہائیوں کی تنگ جیل میں ، امن کے وسیع میدان سے نکل کر خوف کی اندھیری کوٹھری میں اور سنت کے پاکیزہ گلشن سے نکل کر بدعت کے سنسان جنگل میں آ گئے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 تجارت سے مراد ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرنا ہے۔ جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ منافقین نے نفاق کا جامہ پہن کر ہی گھاٹے والی تجارت کی۔ لیکن یہ گھاٹا آخرت کا گھاٹا ہے ضروری نہیں کہ دنیا ہی میں اس گھاٹے کا انہیں علم ہوجائے۔ بلکہ دنیا میں تو اس نفاق کے ذریعے سے انہیں جو فوری فائدے حاصل ہوتے تھے، اس پر وہ بڑے خوش ہوتے اور اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو بہت دانا اور مسلمانوں کو عقل فہم سے عاری سمجھتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

نویں آیت میں منافقین کے اس حال کا ذکر ہے کہ انہوں نے اسلام کو بھی قریب سے دیکھا اس کا ذائقہ بھی چکھا اور کفر میں تو پہلے سے مبتلا ہی تھے پھر کفر واسلام دونوں کو دیکھنے سمجھنے کے بعد انہوں نے اپنی ذلیل دنیاوی اغراض کی خاطر اسلام کے بدلے کفر ہی کو ترجیح دی ان کے اس عمل کو قرآن کریم نے تجارت (بیوپار) کا نام دے کر یہ بتلایا کہ ان لوگوں کو بیوپار کا بھی سلیقہ نہ آیا کہ بہترین قیمتی چیز یعنی ایمان دے کر ردی اور تکلیف دہ چیز یعنی کفر خرید لیا،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰى۝ ٠ ۠ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ۝ ١٦- شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» «1» وقال بعض الحکماء : کو ننا مصیبین من وجه وکوننا ضَالِّينَ من وجوه كثيرة، فإنّ الاستقامة والصّواب يجري مجری المقرطس من المرمی، وما عداه من الجوانب کلّها ضَلَالٌ.- ولما قلنا روي عن بعض الصالحین أنه رأى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في منامه فقال : يا رسول اللہ يروی لنا أنّك قلت : «شيّبتني سورة هود وأخواتها فما الذي شيّبک منها ؟ فقال : قوله : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» والضَّلَالُ من وجه آخر ضربان : ضَلَالٌ في العلوم النّظريّة، کا لضَّلَالِ في معرفة اللہ ووحدانيّته، ومعرفة النّبوّة، ونحوهما المشار إليهما بقوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 136] . وضَلَالٌ في العلوم العمليّة، کمعرفة الأحكام الشّرعيّة التي هي العبادات، والضَّلَالُ البعیدُ إشارةٌ إلى ما هو کفر کقوله علی ما تقدّم من قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ [ النساء 136] ، وقوله : إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] ، وکقوله : فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ 8] ، أي : في عقوبة الضَّلَالِ البعیدِ ، وعلی ذلک قوله : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک 9] ، قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة 77] ، وقوله : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة 10] ، كناية عن الموت واستحالة البدن . وقوله : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة 7] ، فقد قيل : عني بِالضَّالِّينَ النّصاری «1» . وقوله : فِي كِتابٍ لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه 52] ، أي : لا يَضِلُّ عن ربّي، ولا يَضِلُّ ربّي عنه : أي : لا يغفله، وقوله : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل 2] ، أي : في باطل وإِضْلَالٍ لأنفسهم .- ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ حکماء نے کہا ہے کہ صحت دراستی کی راہ تو صرف ایک ہی ہے مگر گمراہی کے متعدد راستے ہیں کیونکہ استقامت اور صواب کی مثال تیر کے ٹھیک نشانہ پر بیٹھ جانے کی ہے اور صحیح نشانہ کے علاوہ ہر جہت کا نام ضلالت ہے ۔ ہمارے اس قول کی تائید بعض صالحین کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور عرض کی یارسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب کے اس فرمان کے کیا معنی ہیں (12) شیبتنی سورة ھود واخواتھا کہ سورة ہود اور اس کی ہم مثل دوسری سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے ۔ تو آنحضرت نے فرمایا سورة ھود کی جس آیت نے مجھے بوڑھا کردیا : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» «2»ہے یعنی اے پیغمبر ٹھیک اسی طرح سیدھے رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے اعتبار سے ضلالۃ کی دو قسمیں ہیں (1) علوم نظریہ تو حید و نبوات وغیرہما کی معرفت میں غلطی کرنا چناچہ آیت کریمہ : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 136 اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور روز قیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دور جاپڑا ۔ میں اس قسم کی گمراہی کو ضلالا بعیدا کہا گیا ہے ۔ (2) علوم عملیہ میں ضلالۃ ہے جس کے معنی ہیں احکام شرعیہ یعنی عبادات ( اور معاملات ) کی معرفت میں غلطی کرنا اور آیت مذکورہ میں ضلالا بعید اسے اس کے کفر ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت کے ابتداء ومن یکفر اور آیت :إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] جن لوگوں نے کفر کیا اور دوسروں کو خدا کے رستے سے روکا وہ رستے سے بھٹک کر دور جا پڑے سے معلوم ہوتا ہے ۔ اور آیت فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ 8] میں بھی معنی مراد ہیں اور فی کے معنی یہ ہیں کہ اس گمراہی کی سزا میں گرفتارہوں گے اور یہی معنی آیت : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک 9] میں مراد ہیں ۔ نیز فرمایا : قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة 77] جو ( خود بھی ) پہلے گمراہ ہوئے اور بھی اکثروں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بھٹک کئے ۔ اور آیت کریمہ : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة 10] کے معنی یہ ہیں ک جب مرنے کے بعد مٹی میں مل کر ضائع ہوجائیں گے اور آیت : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة 7] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اس سے نصارٰی مراد ہیں ۔ اور آیت لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه 52] کے معنی ہیں : ہیں یعنی میرے پروردگار کو کوئی چیز غافل نہیں کرتی اور آیت : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل 2] کیا ان کی تدبیر کو ضائع نہیں کیا ( گیا) میں فی تضلیل کے معنی ضائع کردینا اور غلط راہ لگا دینا کے ہیں ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ربح - الرّبح : الزّيادة الحاصلة في المبایعة، ثمّ يتجوّز به في كلّ ما يعود من ثمرة عمل، وينسب الرّبح تارة إلى صاحب السّلعة، وتارة إلى السّلعة نفسها، نحو قوله تعالی: فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] وقول الشاعر : قروا أضيافهم ربحا ببحّ فقد قيل : الرُّبَحُ : الطائر، وقیل : هو الشجر . وعندي أنّ الرُّبَحَ هاهنا اسم لما يحصل من الرّبح، نحو : النّقص، وبحّ : اسم للقداح التي کانوا يستقسمون بها، والمعنی: قروا أضيافهم ما حصّلوا منه الحمد الذي هو أعظم الرّبح، وذلک کقول الآخر : فأوسعني حمدا وأوسعته قری ... وأرخص بحمد کان کا سبه الأكل - ( ر ب ح ) الربح وہ فائدہ جو خرید وفروخت سے حاصل ہو مجازا ثمرہ اعمال کو بھی ربح کہا جاتا ہے ۔ اس کی نسبت کبھی سامان تجارت کی طرف ہوتی ہے ۔ اور کبھی صاحب سامان کی طرف ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] سو نہ تو ان کی تجارت سود مند ہوئی ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 171 ) قروا أضيافهم ربحا ببحّ بعض نے کہا ہے کہ ربح ایک پرندے کا نام ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ربح بمعنی چربی سے لیکن ہمارے خیال میں ربح سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو ربح سے حاصل ہوئی ہو جیسا کہ نقص سے جو اثر ظاہر ہوتا ہے اسے نقص کہا جاتا ہے اور بح قرعہ اندازی یا قماری بازی کے تیز کو کہتے ہیں ۔ تو شعر کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اپنے مہمانوں کی مہمانداری سے تعریف کا بہت بڑا فائدہ حاصل کیا ۔ جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) فأوسعني حمدا وأوسعته قری ... وأرخص بحمد کان کا سبه الأكل اس نے میری تعریف میں فروگذاشت نہ کی اور میں نے بھی اس کی خوب مہمان نوازی کی ۔ وہ تعریف کتنی سستی ہے جو چند لقموں سے حاصل ہوجائے - تجر - التِّجَارَة : التصرّف في رأس المال طلبا للربح، يقال : تَجَرَ يَتْجُرُ ، وتَاجِر وتَجْر، کصاحب وصحب، قال : ولیس في کلامهم تاء بعدها جيم غير هذا اللفظ «1» ، فأمّا تجاه فأصله وجاه، وتجوب التاء للمضارعة، وقوله تعالی: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] ، فقد فسّر هذه التجارة بقوله :- تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] ، إلى آخر الآية . وقال : اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ، تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] .- قال ابن الأعرابي «3» : فلان تاجر بکذا، أي : حاذق به، عارف الوجه المکتسب منه .- ( ت ج ر ) تجر ( ن ) تجرا وتجارۃ کے معنی نفع کمانے کے لئے المال کو کاروبار میں لگانے کے ہیں ۔ صیغہ صفت تاجر وتجور جیسے صاحب وصحت یاد رہے ۔ کہ عربی زبان میں اس کے سو ا اور کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ۔ جس تاء ( اصل ) کے بعد جیم ہو ۔ رہا تجاۃ تو اصل میں وجاہ ہے اور تجوب وغیرہ میں تاء اصلی نہیں ہے بلکہ نحل مضارع کی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو عذاب الیم سے مخلص دے ۔ میں لفظ تجارہ کی تفسیر خود قرآن نے بعد کی آیت ؛ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] آلایہ میں بیان فرمادی ہے ۔ نیز فرمایا ؛ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ ان کی تجارت ہی نہیں کچھ نفع دیا ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کالین دین ہو ( اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تو وہ جائز ہے ) تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] سود ا وست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو ۔ ابن لاعرابی کہتے ہیں کہ فلان تاجر بکذا کے معنی ہیں کہ فلاں اس چیز میں ماہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔- اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله :- الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] .- الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦) اللہ تعالیٰ دنیاوی زندگی میں بھی ان کے کفر اور گمراہی میں اتنی ڈھیل دیتا ہے کہ جس پر انکی بصیرت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور سچائی کا امتیاز باقی نہیں رہتا، یہ اس طرح کے لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کرلیا ہے اور ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، لیکن انکو اپنی اس تجارت میں کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی میں مبتلا ہوئے اور اب یہ گمراہی سے سیدھی راہ پر نہیں آئیں گے۔- شان نزول : (آیت) ” واذا لقوالذین امنوا “۔ الخ)- واحدی (رح) اور ثعلبی (رح) نے بواسطہ محمد بن مروان، سدی صیغر، کلبی، ابوصالح، ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ آیت کریمہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کا سبب یہ ہے کہ ایک دن منافقین کی جماعت نکلی، راستہ میں ان لوگوں کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ صحابہ کرام (رض) نظر آئے، عبداللہ بن ابی نے اپنے دوستوں سے کہا کہ دیکھو کس طرح میں تم سے (العیاذ باللہ) ان بیوقوفوں کو ہٹاتا ہوں، چناچہ عبداللہ بن ابی نے آکر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا صدیق اکبر (رض) بنی تمیم کے سردار، مسلمانوں کے بزرگ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفیق غار، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اپنی جان اور مال کو خرچ کرنے والے آپ کو خوش آمدید ہو۔- پھر اس نامراد نے حضرت عمر فاروق (رض) کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا عدی بن کعب کے سردار فاروق اعظم (رض) اللہ تعالیٰ کے دین میں بہت جری اور بہادر، اپنی جان ومال رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خرچ کرنے والے آپ کو خوش آمدید ہو، پھر اس نے حضرت علی (رض) کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داماد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ بنی ہاشم کے سردار، مرحبا۔ اس کے بعد عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم نے دیکھا میں نے کیا کیا جب تم ان لوگوں کو دیکھو تو تم بھی میری طرح ان سے پیش آؤ، یہ سن کر اس کے منافق ساتھیوں نے اس کی تعریف کی۔- یہ جماعت صحابہ کریم (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں آئی، اور آپ کو سارے واقعہ کی تفصیل سے آگاہ کیا اس وقت یہ آیت اتری، اس روایت کی یہ سند بہت ہی کمزور ہے کیوں کہ سدی صغیر اور اسی طرح کلبی دونوں کذاب ہیں اور ابوصالح ضعیف ہے، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بالْھُدٰیص) - یہ بڑا پیارا انداز بیان ہے۔ ان کے سامنے دونوں تھے۔ ایک شخص نے گمراہی کو چھوڑا اور ہدایت لے لی۔ اسے اس کی بھاری قیمت دینا پڑی۔ اسے تکلیفیں اٹھانی پڑیں ‘ آزمائشوں میں سے گزرنا پڑا ‘ قربانیاں دینا پڑیں۔ اس نے یہ سب کچھ منظور کیا اور ہدایت لے لی۔ جبکہ ایک شخص نے ہدایت دے کر گمراہی لے لی ہے۔ آسانی تو ہوگئی ‘ فوری تکلیف سے تو بچ گئے ‘ دونوں طرف سے اپنے مفادات کو بچالیا ‘ لیکن حقیقت میں سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا یہی ہے۔- (فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ ) - ” رَبِحَ یَرْبَحُ “ کے معنی ہیں تجارت وغیرہ میں نفع اٹھانا ‘ جو ایک صحیح اور جائز نفع ہے ‘ جبکہ ” رب و “ مادہ سے رَبَا یَرْبُوْکے معنی بھی مال میں اضافہ اور بڑھوتری کے ہیں ‘ لیکن وہ حرام ہے۔ تجارت کے اندر جو نفع ہوجائے وہ ” رِبح “ ہے ‘ جو جائز نفع ہے اور اپنا مال کسی کو قرض دے کر اس سے سود وصول کرنا ” رِبا “ ہے جو حرام ہے۔ - اب یہاں دو بڑی پیاری تمثیلیں آرہی ہیں۔ پہلی تمثیل کفار کے بارے میں ہے اور دوسری تمثیل منافقین کے بارے میں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani