Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شک ، کفر اور نفاق کیا ہے؟ مثال کو عربی میں مثیل بھی کہتے ہیں اس کی جمع امثال آتی ہے ۔ جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۚ وَمَا يَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:43 ) یعنی یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں جنہیں صرف عالم ہی سمجھتے ہیں ۔ اس آیت شریف کا مطلب یہ ہے کہ جو منافق گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور اندھے پن کو بینائی کے بدلے مول لیتے ہیں ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے اندھیرے میں آگ جلائی اس کے دائیں بائیں کی چیزیں اسے نظر آنے لگیں ، اس کی پریشانی دور ہو گئی اور فائدے کی امید بندھی کہ دفعتہ آگ بجھ گئی اور سخت اندھیرا چھا گیا نہ تو نگاہ کام کر سکے ، نہ راستہ معلوم ہو سکے اور باوجود اس کے وہ شخص خود بہرا ہو ۔ کسی کی بات کو نہ سن سکتا ہو ۔ گونگا ہو کسی سے دریافت نہ کر سکتا ہو ، اندھا ہو جو روشنی سے کام نہ چلا سکتا ہو ۔ اب بھلا یہ راہ کیسے پا سکے گا ؟ ٹھیک اسی طرح یہ منافق بھی ہیں کہ ہدایت چھوڑ کر راہ گم کر بیٹھے اور بھلائی چھوڑ کر برائی کو چاہنے لگے ۔ اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے ایمان قبول کر کے کفر کیا تھا ۔ جیسے قرآن کریم میں کئی جگہ یہ صراحت موجود ہے واللہ اعلم ۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں سدی سے یہی نقل کیا ہے ۔ پھر کہا ہے کہ یہ تشبیہ بہت ہی درست اور صحیح ہے ، اس لئے کہ اولاً تو ان منافقوں کو نور ایمان حاصل ہوا پھر ان کے نفاق کی وجہ سے وہ چھن گیا اور یہ حیرت میں پڑ گئے اور دین گم ہو جانے کی حیرت سے بڑی حیرت اور کیا ہو گی؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ جن کی یہ مثال بیان کی گئی ہے انہیں کسی وقت بھی ایمان نصیب ہی نہ ہوا تھا کیونکہ پہلے فرمان الٰہی گزر چکا ہے کہ آیت ( وماھم بمومنین ) یعنی گو یہ زبان سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں مگر حقیقتاً یہ ایماندار نہیں ۔ درحقیقت اس آیۃ مبارکہ میں ان کے کفر و نفاق کے وقت کی خبر دی گئی ہے اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس حالت کفر و نفاق سے پہلے کبھی انہیں ایمان حاصل ہی نہیں ہوا ۔ ممکن ہے ایمان لائے ہوں ، پھر اس سے ہٹ گئے ہوں اور اب دلوں میں مہریں لگ گئی ہوں دیکھئے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے آیت ( ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ ) 63 ۔ المنافقون:3 ) یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا ، پھر ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ۔ اب وہ کچھ نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مثال میں روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے یعنی کلمہ ایمان کے ظاہر کرنے کی وجہ سے دنیا میں کچھ نور ہو گیا ، کفر کے چھپانے کی وجہ سے پھر آخرت کے اندھیروں نے گھیر لیا ۔ ایک جماعت کی مثال شخص واحد سے اکثر دی جاتی ہے ۔ قرآن پاک میں اور جگہ ہے آیت ( رَاَيْتَهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ تَدُوْرُ اَعْيُنُهُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِـنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَي الْخَــيْرِ ) 33 ۔ الاحزاب:19 ) تو دیکھے گا کہ وہ تیری طرف آنکھیں پھیر پھیر کر اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص جو سکرات موت میں ہو ۔ اور اس آیت کو بھی دیکھئے آیت ( مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ) 31 ۔ لقمان:28 ) تم سب کا پیدا کرنا اور مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کر دینا ایسا ہی ہے جیسے ایک جان کو دوبارہ زندہ کرتا ۔ تیسری جگہ توراۃ سیکھ کر عملی عقیدہ اس کے مطابق نہ رکھنے والوں کی مثال میں کہا گیا ہے آیت ( كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ) 62 ۔ الجمعہ:5 ) گدھے کی مانند ہیں جو کتابیں لادے ہوئے ہو ۔ سب آیتوں میں جماعت کی مثال ایک ہی دی گئی ہے ۔ اسی طرح مذکورہ بالا آیت میں منافقوں کی جماعت کی مثال ایک شخص سے دی گئی ۔ بعض کہتے ہیں تقدیر کلام یوں ہے ۔ آیت ( مثل قصتھم کمثل قصۃ الذین استو قدوا نارا ) یعنی ان کے واقعہ کی مثال ان لوگوں کے واقعہ کی طرح ہے جو آگ روشن کریں ۔ بعض کہتے ہیں کہ آگ جلانے والا تو ایک ہے ۔ لیکن مجموعی طور پر پوری جماعت اس سے محظوظ ہوتی ہے جو اس کے ساتھ ہے اور اس قسم کا اور الذی یہاں الذین کے معنی میں ہیں جیسے کہ شاعروں کے شعروں میں بھی میں کہتا ہوں اس مثال میں بھی واحد کے صیغہ کے بعد ہی جمع کے صیغہ بھی ہیں بنورھم اور ترکھم اور لا یرجعون ملاحظہ ہوں ۔ اس طرح کلام میں اعلیٰ فصاحت اور بہترین خوبی بھی آ گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی روشنی لے گیا اس سے مطلب یہ ہے کہ جو نور نفع دینے والا تھا وہ تو ان سے ہٹا لیا اور جس طرح آگ کے بجھ جانے کے بعد تپش اور دھواں اور اندھیرا رہ جاتا ہے اسی طرح ان کے پاس نقصان پہنچانے والی چیز یعنی شک و کفر و نفاق رہ گیا تو راہ راست کو نہ خود دیکھ سکیں نہ دوسرے کی بھلی بات سن سکیں نہ کسی سے بھلائی کا سوال کر سکیں ۔ اب پھر لوٹ کر ہدایت پر آنا محال ہو گیا ۔ اس کی تائید میں مفسرین کے اقوال سنئے ۔ حضرت ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض اور صحابہ رضوان اللہ علیہم فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد کچھ لوگ اسلام لے آئے مگر پھر منافق بن گئے ۔ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو اندھیرے میں ہو پھر آگ جلا کر روشنی حاصل کرے اور آس پاس کی بھلائی برائی کو سمجھنے لگے اور معلوم کرے کہ کس راہ میں کیا ہے؟ کہ اچانک آگ بجھ جائے روشنی جاتی رہے ۔ اب معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس راہ میں کیا کیا ہے؟ اسی طرح منافق شرک و کفر کی ظلمت میں تھے پھر اسلام لا کر بھلائی برائی یعنی حلال حرام وغیرہ سمجھنے لگے مگر پھر کافر ہو گئے اور حرام و حلال خیرو شر میں کچھ تمیز نہ رہی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں نور سے مراد ایمان اور ظلمت سے مراد ضلالت و کفر ہے یہ لوگ ہدایت پر تھے لیکن پھر سرکشی کر کے بہک گئے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں ایمانداری اور ہدایت کی طرف رخ کرنے کو اس مثال میں آس پاس کی چیز کے روشنی کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت عطا خراسانی کا قول ہے کہ منافق کبھی کبھی بھلائی کو دیکھ لیتا ہے اور پہچان بھی لیتا ہے لیکن پھر اس کے دل کی کور چشمی اس پر غالب آ جاتی ہے ۔ عکرمہ ، عبدالرحمن ، حسن ، سدی اور ربیع سے بھی یہی منقول ہے ۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ ایمان لاتے ہیں اور اس کی پاکیزہ روشنی سے ان کے دل جگمگا اٹھتے ہیں جیسے آگ کے جلانے سے آس پاس کی چیزیں روشن ہو جاتی ہیں لیکن پھر کفر اس روشنی کو کھو دیتا ہے جس طرح آگ کا بجھ جانا پھر اندھیرا کر دیتا ہے ۔ مندرجہ بالا اقوال تو ہماری اس تفسیر کی تائید میں تھے کہ جن منافقوں کی یہ مثال بیان کی گئی ہے وہ ایمان لا چکے تھے پھر کفر کیا ۔ اب امام ابن جریر کی تائید میں جو تفسیر ہے اسے بھی سنئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ مثال منافقوں کی ہے کہ وہ اسلام کی وجہ سے عزت پا لیتے ہیں ۔ مسلمانوں میں نکاح ، ورثہ اور تقسیم مال غنیمت میں شامل ہوتے ہیں لیکن مرتے ہی یہ عزت چھن جاتی ہے جس طرح آگ کی روشنی آگ بجھتے ہی جاتی رہتی ہے ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں جب منافق آیت ( لا الہ الا اللہ ) پڑھتا ہے تو دل میں نور پیدا ہوتا ہے پھر جہاں شک کیا وہ نور گیا ، جس طرح لکڑیاں جب تک جلتی رہیں روشنی رہی ، جہاں بجھ گئیں نور گیا ۔ ضحاک فرماتے ہیں نور سے مراد یہاں ایمان ہے جو ان کی زبانوں پر تھا ۔ قتادہ کہتے ہیں آیت ( لا الہ الا اللہ ) ان کے لئے روشنی کر دیتا تھا امن و امان ، کھانا پینا ، بیوی بچے سب مل جاتے تھے لیکن شک و نفاق ان سے یہ تمام راحتیں چھین لیتا ہے جس طرح آگ کا بجھنا روشنی دور کر دیتا ہے ۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) کہنے سے منافق کو ( دنیوی نفع مثلاً مسلمانوں میں لڑکے لڑکی کا لین دین ، ورثہ کی تقسیم ، جان و مال کی حفاظت وغیرہ ) مل جاتا ہے لیکن چونکہ اس کے دل میں ایمان کی جڑ اور اس کے اعمال میں خلوص نہیں ہوتا اس لئے موت کے وقت وہ سب منافع سلب ہو جاتے ہیں جیسے آگ کی روشنی بجھ جائے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اندھیروں میں چھوڑ دینا سے مراد مرنے کے بعد عذاب پانا ہے ۔ یہ لوگ حق کو دیکھ کر زبان سے اس کا اس کا اقرار ہیں اور ظلمت کفر سے نکل جاتے ہیں لیکن پھر اپنے کفر و نفاق کی وجہ سے ہدایت اور حق پر قائم رہنا ان سے چھن جاتا ہے ۔ سدی کا قول ہے کہ اندھیرے سے مراد ان کا نفاق ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں موت کے وقت منافقین کی بد اعمالیاں اندھیروں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں اور کسی بھلائی کی روشنی ان کے لئے باقی نہیں رہتی جس سے ان کی توحید کی تصدیق ہو ۔ وہ بہرے ہیں ، حق کے سننے اور راہ راست کو دیکھنے اور سمجھنے سے اندھے ہیں ۔ ہدایت کی طرف لوٹ نہیں سکتے ۔ نہ انہیں توبہ نصیب ہوتی ہے نہ نصیحت حاصل کر سکتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر جلدی منافق ہوگئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہوگیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہوگئیں دفعتا وہ روشنی بجھ گئی اور حسب سابق تاریکیوں میں گھر گئے۔ یہ حال منافقین کا تھا پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے مسلمان ہوئے تو روشنی میں آگئے۔ حلال و حرام کو پہچان گئے پھر وہ دوبارہ کفر و نفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] منافقوں کی مثال (١) :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی صورت حال بیان فرمائی ہے۔ یہ آگ جلانے والا شخص خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جنہوں نے کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں اسلام کی شمع روشن اور حق کو باطل سے، صحیح کو غلط سے اور راہ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کردیا۔ اب جو لوگ (سچے مومن) دیدہ بینا رکھتے تھے۔ انہیں سب کچھ واضح طور پر نظر آنے لگا۔ مگر یہ منافقین جو اپنی مفاد پرستی کی وجہ سے اندھے ہو رہے تھے۔ انہیں اس روشنی میں بھی کچھ نظر نہ آیا۔ ان کے اس طرح اندھے بنے رہنے کو ہی اللہ تعالیٰ نے آیت (ذَھَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ 17؀) 2 ۔ البقرة :17) سے تعبیر کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت ویسی ہی ہے جیسے آیت ( خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۝ۧ) 2 ۔ البقرة :7) میں ہے جس کی وضاحت ہم نے کردی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ منافقوں کو خود نور صداقت دیکھنا گوارا نہیں تو اللہ نے بھی انہیں تاریکیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیا۔ اللہ کا قانون ہرگز یہ نہیں کہ کسی کو زبردستی ہدایت دے بلکہ اس کا قانون یہ ہے کہ جدھر کوئی چلتا ہے اللہ تعالیٰ ادھر ہی اسے چلنے میں مدد کیے جاتا ہے۔ (١٧: ٢٠)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اسْـتَوْقَدَ نَارًا ” اَوْ قَدَ نَارًا “ کے معنی ہیں اس نے آگ جلائی۔ ” اسْـتَوْقَدَ “ میں سین اور تاء زیادہ ہونے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے اس کا ترجمہ ” خوب بھڑکائی “ کیا ہے۔ - منافقین کی تشبیہ اس شخص سے کس طرح دی گئی جس نے ایک آگ خوب بھڑکائی، پھر اس کی آگ بجھ گئی اور اللہ ان کا نور لے گیا ؟ جواب یہ ہے کہ دو وجہ سے، پہلی یہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لائے تو نور ایمان سے ان کے لیے ہر چیز روشن ہوگئی، پھر نفاق میں مبتلا ہوگئے تو وہ نور بجھ گیا اور وہ کفر و نفاق اور شکوک و شبہات کے کئی اندھیروں میں بھٹکتے رہ گئے۔ اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے : (ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ ) [ المنافقون : ٣ ] ” یہ اس لیے کہ بیشک وہ ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ “- تشبیہ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایمان لانے کی وجہ سے دنیا میں انھیں مسلمانوں والی عزت حاصل ہوئی، مسلمانوں کے ساتھ ان کے رشتے ناتے رہے، وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے رہے، مال غنیمت اور دوسرے بیشمار فوائد حاصل کرتے رہے، مگر جب فوت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ عزت چھین لی، جیسے اس آگ والے سے اس کی روشنی چھین لی اور انھیں بہت سے اندھیروں (یعنی قبر، یوم محشر اور جہنم کے عذاب) میں چھوڑ دیا۔ (طبری عن ابن عباس بسند حسن)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخری چار آیتوں میں منافقین کے حال کی دو مثالیں دے کر اس کا قابل نفرت ہونا بیان فرمایا گیا دو مثالیں اس بناء پر دی گئیں کہ منافقین میں دو طرح کے آدمی تھے ایک وہ جو اپنے کفر میں بالکل پختہ تھے ایمان کا اظہار صرف دنیوی مصلحت کی وجہ سے کرتے تھے ایمان واسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا دوسرے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر کبھی کبھی سچے مسلمان ہونے کا ارادہ بھی کرلیتے تھے مگر پھر دنیوی اغراض سامنے آکر ان کو اس ارادہ سے روک دیتی تھیں اسی طرح وہ ایک تذبذب اور تردد کے حال میں رہتے،- اسی مضمون کے ضمن میں ان ظالموں کو یہ تنبیہ بھی کردی گئی کہ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں ہر وقت ہر حال میں ہلاک بھی کرسکتے ہیں اور بینائی وشنوائی کی طاقتیں بھی سلب کرسکتے ہیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَثَلُھُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا۝ ٠ ۚ فَلَمَّآ اَضَاۗءَتْ مَا حَوْلَہٗ ذَھَبَ اللہُ بِنُوْرِہِمْ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ۝ ١٧- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- وقد - يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ- [ آل عمران 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ- ( و ق د )- وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- ضوأ - الضَّوْءُ : ما انتشر من الأجسام النّيّرة، ويقال : ضَاءَتِ النارُ ، وأَضَاءَتْ ، وأَضَاءَهَا غيرُها . قال تعالی: فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] ، كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور 35] ، يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] ، وسَمَّى كُتُبَهُ المُهْتَدَى بها ضِيَاءً في نحو قوله : وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ- [ الأنبیاء 48] .- ( ض و ء ) الضوء ۔ کے معنی نور اور روشنی کے ہیں ضائت النار واضائت : آگ روشن ہوگئی اور اضائت ( افعال ) کے معنی روشن کرنا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] جب آگ نے اس کے ارد گرد کی چیزیں روشن کردیں ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] جو تم کو روشنی لادے ۔ اور سماوی کتابوں کو جو انسان کی رہنمائی کے لئے نازل کی گئی ہیں ضیاء سے تعبیر فرمایا ہے ۔ چناچہ ( تورات کے متعلق ) فرمایا :۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسٰی اور ہارون کو ( ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی اور ( سرتاپا ) روشنی اور نصیحت ( کی کتاب ) عطاکی ۔- حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧) منافقین کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں یہ مثال ہے، جیسا کسی شخص نے اندھیرے میں آگ جلائی، تاکہ اس کے ذریعے سے اپنے مال اور اہل و عیال کی حفاظت کرے، جب وہ آگ روشن ہوگئی اور ارد گرد اور چیزیں بھی نظرآنے لگیں اور اپنے مال اور اہل واعیال کے بارے میں اطمینان ہوگیا تو اچانک وہ آگ بجھ گئی، اسی طرح منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پاک پر ایمان لائے اور حقیقت میں ان کا ایمان صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی جانوں، اموال و عیال کی قتل اور قید سے حفاظت کریں، چناچہ جب وہ مرجائیں گے تو ان کے ایمان کا نفع ختم ہوجائے گا اور ان کو حق تعالیٰ قبر کی ایسی سختیوں میں ڈال دے گا کہ اس کے بعد ان کو راحت و آرام نظر ہی آئے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا ج) - یہاں ایک شب تاریک کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ؂- اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو - ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل - اندھیری شب ہے۔ قافلہ بھٹک رہا ہے۔ کچھ لوگ بڑی ہمت کرتے ہیں کہ اندھیرے میں بھی ادھر ادھر سے لکڑیاں جمع کرتے ہیں اور آگ روشن کردیتے ہیں۔ لیکن عین اس وقت جب آگ روشن ہوتی ہے تو کچھ لوگوں کی بینائی سلب ہوجاتی ہے۔ پہلے وہ اندھیرے میں اس لیے تھے کہ خارج میں روشنی نہیں تھی۔ اب بھی وہ اندھیرے ہی میں رہ گئے کہ خارج میں تو روشنی آگئی مگر ان کے اندر کی روشنی گل ہوگئی ‘ ان کی بصارت سلب ہوگئی۔ یہ مثال ہے ان کفار کی جو اسلام کی روشنی پھیلنے کے باوجود اس سے محروم رہے ‘ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے ہر سو تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی حقیقت واضح نہیں تھی۔ قافلۂ انسانیت اندھیری شب میں بھٹک رہا تھا۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور انہوں نے آگ روشن کردی۔ اس طرح ہدایت واضح ہوگئی۔ لیکن کچھ ضد ‘ تعصب ‘ تکبرّ یا حسد کی بنیاد پر کچھ لوگوں کی اندر کی بینائی زائل ہوگئی۔ چناچہ وہ تو ویسے کے ویسے بھٹک رہے ہیں۔ جیسے پہلے اندھیرے میں تھے ویسے ہی اب بھی اندھیرے میں ہیں۔ روشنی میں آنے والے تو وہ ہیں جن کا ذکر سب سے پہلے ” المُتّقین “ کے نام سے ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :16 مطلب یہ ہے کہ جب ایک اللہ کے بندے نے روشنی پھیلائی اور حق کو باطل سے ، صحیح کو غلط سے ، راہِ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کر دیا ، تو جو لوگ دیدہء بینا رکھتے تھے ، ان پر تو ساری حقیقتیں روشن ہو گئیں ، مگر یہ منافق ، جو نفس پرستی میں اندھے ہو رہے تھے ، ان کو اس روشنی میں کچھ نظر نہ آیا ۔ ” اللہ نے نور بصارت سلب کر لیا“ کے الفاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ان کے تاریکی میں بھٹکنے کی ذمہ داری خود ان پر نہیں ہے ۔ اللہ نور بصیرت اسی کا سلب کرتا ہے ، جو خود حق کا طالب نہیں ہوتا ، خود ہدایت کے بجائے گمراہی کو اپنے لیے پسند کرتا ہے ، خود صداقت کا روشن چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا ۔ جب انہوں نے نور حق سے منہ پھیر کر ظلمتِ باطل ہی میں بھٹکنا چاہا تو اللہ نے انہیں اسی کی توفیق عطا فرما دی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15 یہاں سے ان منافقوں کی مثال دی جارہی ہے جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود نفاق کی گمراہی میں پھنسے رہے، اسلام کے واضح دلائل کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح اس روشنی سے ماحول کی چیزیں صاف نظر آنے لگتی ہیں اسی طرح اسلام کے دلائل سے حقیقت ان پر واضح ہوگئی ؛ لیکن پھر ضد اور عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ روشنی ان سے سلب کرلی اور وہ دیکھنے کی قوت سے محروم ہوگئے۔