184۔ 1 یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کرلیں۔ 184۔ 2 يُطِيقُونَهُ کا ترجمہ یتجشمونہ (نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں) کیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے جسے شفایابی کی امید نہ ہو روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے وہ ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دے دے لیکن زیادہ تر مفسرین نے اس کا ترجمہ طاقت ہی کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا دیا کریں۔ لیکن بعد میں (فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) 002:185 کے ذریعے سے منسوخ کر کے ہر صاحب طاقت کے لئے روزہ فرض کردیا گیا تاہم زیادہ بوڑھے دائمی مریض کے لئے اب بھی یہ حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں، دودھ پلانے والی عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہونگی یعنی وہ روزہ نہ رکھیں بعد میں روزے کی قضا دیں۔ 184۔ 3 جو خوشی سے ایک مسکین کے بجائے دو یا تین مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔
[ ٢٣٠] یعنی انتیس یا تیس دن جو کہ قمری مہینہ کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مدت ہے۔ شریعت نے قمری مہینہ کی تعین کو ستاروں کے علم یا آلات روئیت کے حساب سے معلق نہیں کیا بلکہ اس کی بنیاد رؤیت ہلال پر رکھی ہے یعنی چاند کو دیکھ کر ہی روزے رکھنا شروع کرو اور چاند (شوال کا) دیکھ کر ہی روزے رکھنا ختم کرو۔ اب رؤیت ہلال مختلف ممالک میں مختلف اوقات اور مختلف تاریخوں پر ہونا عین ممکن ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ماہ رمضان کے دوران مختلف، ممالک کا سفر کرنے والوں میں سے کسی کے روزوں کی تعداد ٢٨ رہ جائے اور کسی کے ٣١ ہوجائے۔ ایسی صورت میں جس شخص کے روزے ٢٨ بن رہے ہوں وہ بعد میں ایک روزہ کی قضا دے گا اور جس کے ٣١ بن رہے ہوں وہ ایک روزہ چھوڑ دے گا۔ یا اسے نفلی تصور کر کے روزہ رکھ سکتا ہے۔- [٢٣١] بیمار کے علاوہ یہی رعایت حیض یا نفاس والی عورت کے لیے بھی ہے اور دودھ پلانے والی عورت بھی اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جو مزمن قسم کی ہو اور اس سے افاقہ کی امید کم ہو تو ایسی صورت میں کفارہ دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بوڑھا ضعیف ہوچکا ہے۔ جس میں روزہ رکھنے کی سکت ہی نہ رہ گئی ہو تو وہ بھی کفارہ دے سکتا ہے اور یہ کفارہ ایک مسکین کا دو وقت کا کھانا ہے۔ خواہ کسی کو روزہ ہی رکھوا دیا کرے اور افطار کرائے یا اس کے برابر نقد قیمت ادا کر دے اور نقد کی تشخیص اسی معیار کے مطابق ہوگی جیسا وہ خود کھاتا ہے۔ اسی طرح ضعیف آدمی پورے مہینے کا اکٹھا کفارہ بھی ادا کرسکتا ہے۔ اسی طرح کسی بوڑھے کا اپنے متعلق یہ اندازہ لگانا کہ اب وہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں، بھی اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور اس سلسلہ میں جو کام بھی کیا جائے وہ اللہ سے ڈر کر کرنا چاہیے۔- پھر جس طرح سفر میں تکلیف بڑھ جانے سے روزہ کھول دینا ہی سنت ہے۔ اسی طرح اگر کسی بیمار نے اپنے متعلق یہ اندازہ لگایا کہ وہ روزہ نبھا سکے گا۔ مگر تکلیف بڑھ گئی تو اسے فوراً روزہ کھول دینا چاہیے۔ بعد میں اس کی قضا دے لے بلکہ بعض فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر مریض مرض کی شدت پر بھی روزہ افطار نہ کرے اور مرجائے تو وہ خودکشی کی موت مرے گا اور روزہ کا ثواب حاصل کرنے کی بجائے الٹا اپنی جان ضائع کرنے کا مجرم بن جائے گا اور اس پر دلیل درج ذیل حدیث ہے جو ابو داؤد میں حضرت جابر (رض) سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر پر نکلے۔ ہم میں سے کسی کے سر پر ایک پتھر لگا۔ جس نے سر کو بری طرح زخمی کردیا۔ اتفاق سے اس شخص کو احتلام ہوگیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ آپ لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت کو درست سمجھتے ہیں ؟ وہ کہنے لگے نہیں، اس لیے کہ پانی موجود ہے۔ چناچہ اس آدمی نے غسل کیا تو اس کی موت واقع ہوگئی۔ پھر جب ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا : اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرے انہوں نے اپنی ساتھی کو مار ڈالا۔ جب وہ یہ مسئلہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے کیوں نہ کسی عالم سے پوچھ لیا ؟ جہالت کی درماندگی کا علاج تو پوچھ لینا ہی ہے۔ اسے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا اور اس پر تیمم کرلیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا۔ - [ ٢٣٢] سفر کی حالت میں روزہ رکھ لینا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی، اور وہ اس بات کا اندازہ روزہ دار کی جسمانی قوت اور سفر کی مشقت کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔ تاہم اگر سفر میں روزہ چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ بلکہ اگر روزہ رکھ لیا ہو اور پھر تکلیف کی شدت محسوس ہو تو روزہ کھول دینا چاہیے اور بعد میں اس کی قضا دے دینا چاہیے۔ چناچہ غزوہ مکہ میں جو ماہ رمضان میں درپیش تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) نے روزہ رکھا ہوا تھا اور نڈھال سے ہو رہے تھے۔ مگر روزہ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کے وقت سب لوگوں کو دکھا کر پانی کا پیالہ پیا اور روزہ کھول دیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ صحابہ (رض) بھی روزہ کھول دیں۔ چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی روزہ کھول دیا۔ (بخاری، کتاب الصوم باب الصوم فی السفر والافطار) - نیز جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر (غزوہ فتح مکہ) میں تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جگہ ہجوم دیکھا اور معلوم ہوا کہ ایک شخص (قیس عامری) پر لوگ سایہ کئے ہوئے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا یہ کیا قصہ ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ روزہ دار ہے۔ آپ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں۔ (بخاری : کتاب الصوم، باب قول النبی لمن ظلل علیہ واشتد الحر۔۔ ) - [ ٢٣٣] اس آیت کی تفسیر میں دو مختلف اقوال ہیں۔ پہلا یہ کہ یُطِیْقُوْنَہُ کا معنی ہی یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ (لغت ذوی الاضداد) تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو لوگ لاعلاج مرض میں مبتلا ہوں یا مرض سے شفا کا امکان نظر نہ آ رہا ہو یا اتنے بوڑھے ہوچکے ہوں کہ بعد میں قوت بحال ہونے کا امکان نہ ہو تو ایسے لوگ روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ دے سکتے ہیں اور یہ صورت اب بھی بحال ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ابتداء میں مسلمانوں کو یہ رعایت دی گئی تھی کہ چاہیں تو روزہ رکھ لیں اور چاہیں تو فدیہ دے دیں۔ جبکہ بعض لوگ اس طرح کے ضبط نفس پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے، لیکن بعد میں یہ رعایت (فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہ) سے ختم کردی گئی اور حدیث سے اسی دوسرے قول کی تائید ہوتی ہے۔ چناچہ حضرت سلمہ بن اکوع بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جس کا جی چاہتا روزہ نہ رکھتا، اور فدیہ دے دیتا، تاآنکہ اس کے بعد آیت (فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ١٨٥۔ ) 2 ۔ البقرة :185) نازل ہوئی اور اس نے اسے منسوخ کردیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ) - [٢٣٤] اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ صدقہ کی معین مقدار سے صدقہ زیادہ دے دے، دوسرا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور فدیہ بھی دے دے۔- [٢٣٥] یعنی اگر تمہیں روزہ کے ثواب کا علم ہو تو روزہ رکھنا ہی بہتر سمجھو گے اور روزہ کے ثواب کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ دار میری خاطر اپنا کھانا پینا اور شہوت رانی چھوڑتا ہے۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ روزہ (گناہوں سے بچنے کے لئے) ڈھال ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک روزہ کھولتے وقت اور دوسری جب وہ اپنے پروردگار سے ملے گا۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ (عمدہ) ہے۔ (بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ )
مریض کا روزہ :- (آیت) فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا مریض سے مراد وہ مریض ہے جس کو روزہ رکھنے سے ناقابل برداشت تکلیف پہنچے یا مرض بڑھ جانے کا قوی اندیشہ ہو بعد کی آیت وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ میں اس طرف اشارہ موجود ہے جمہور فقہاء امت کا یہی مسلک ہے،- مسافر کا روزہ :- اَوْ عَلٰي سَفَرٍ یہاں لفظ مسافر کے بجائے علیٰ سفر کا لفظ اختیار فرما کر کئی مسائل کی طرف اشارہ فرمادیا۔- اول یہ کہ مطلقا لغوی سفر یعنی اپنے گھر اور وطن سے باہر نکل جانا روزہ میں رخصت سفر کے لئے کافی نہیں بلکہ سفر کچھ طویل ہونا چاہئے کیونکہ لفظ عَلٰي سَفَرٍ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ سفر پر سوار ہو جس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ گھر سے دس پانچ میل چلے جانا مراد نہیں مگر یہ تحدید کہ سفر کتنا طویل ہو قرآن کے الفاظ میں مذکور نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان اور صحابہ کے تعامل سے امام اعظم ابوحنیفہ اور بہت سے فقہاء نے اس کی مقدار تین منزل یعنی وہ مسافت جس کو پیادہ سفر کرنے والا بآسانی تین روز میں طے کرسکے قرار دی ہے اور بعد کے فقہاء نے میلوں کے حساب سے اڑتالیس میل لکھے ہیں۔- دوسرا مسئلہ اسی لفظ عَلٰي سَفَرٍ سے یہ نکلا کہ وطن سے نکل جانے والا مسافر اسی وقت تک رخصت سفر کا مستحق ہے جب تک اس کے سفر کا سلسلہ جاری رہے اور یہ ظاہر ہے کہ آرام کرنے یا کچھ کام کرنے کے لئے کسی جگہ ٹھہر جانا مطلقا اس کے سلسلہ سفر کو ختم نہیں کردیتا جب تک کوئی معتدبہ مقدار قیام نہ ہو اور اسی معتدبہ قیام کی مدت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان سے ثابت ہوئی کہ پندرہ دن ہیں جو شخص کسی ایک مقام پر پندرہ دن ٹھرنے کی نیت کرے تو وہ عَلٰي سَفَرٍ نہیں کہلاتا اس لئے وہ رخصت سفر کا بھی مستحق نہیں، - مسئلہ : اسی سے یہ بھی نکل آیا کہ کوئی شخص پندرہ دن کے قیام کی نیت ایک جگہ نہیں بلکہ متفرق مقامات شہروں اور بستیوں میں کرے تو وہ بدستور مسافر کے حکم میں رہ کر رخصت سفر کا مستحق رہے گا،- کیونکہ وہ عَلٰي سَفَرٍ کی حالت میں ہے،- روزہ کی قضا :- (آیت) فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ یعنی مریض ومسافر کو اپنے فوت شدہ روزوں کی گنتی کے مطابق دوسرے دنوں میں روزے رکھنا واجب ہے اس میں بتلانا تو یہ منظور تھا کہ مرض یا سفر کی مجبوری سے جو روزے چھوڑے گئے ہیں ان کی قضاء ان لوگوں پر واجب ہے جس کے لئے فعلیہ القَضَاءُ کا مختصر جملہ بھی کافی تھا مگر اس کے بجائے فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ فرما کر اشارہ کردیا گیا کہ مریض ومسافر پر فوت شدہ روزوں کی قضاء صرف اس صورت میں واجب ہوگی جب کہ مریض صحت کے بعد اور مسافر مقیم ہونے کے بعد اتنے دنوں کی مہلت پائے جنھیں قضاء کرسکے تو اگر کوئی شخص اتنے دن سے پہلے ہی مرگیا تو اس پر قضاء یا وصیت فدیہ لازم نہیں ہوگی، - مسئلہ : عِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ میں چونکہ اس کی کوئی قید نہیں کہ ترتیب وار رکھے یا غیر مسلسل رکھے بلکہ عام اختیار ہے اس لئے اگر کوئی شخص جس کے رمضان کے ابتدائی دس روزے قضا ہوگئے ہوں وہ دسویں یا نویں روزے کی قضا پہلے کرے اور ابتدائی روزوں کی قضا بعد میں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں اسی طرح متفرق کرکے قضا روزے رکھے تو یہ بھی جائز ہے کیوں کہ عِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ میں اس کی گنجائش ہے،- روزہ کا فدیہ :- وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ اس آیت کے بےتکلف معنی وہی ہیں جو خلاصہ تفسیر میں بتلائے گئے ہیں کہ جو لوگ مریض یا مسافر کی طرح روزہ رکھنے سے مجبور نہیں بلکہ روزے کی طاقت تو رکھتے ہیں مگر کسی وجہ سے دل نہیں چاہتا تو ان کے لئے بھی یہ گنجائش ہے کہ وہ روزے کے بجائے روزے کا فدیہ بصورت صدقہ ادا کردیں اس کے ساتھ اتنا فرما دیا وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ یعنی تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ روزہ ہی رکھو،- یہ حکم شروع اسلام میں تھا جب لوگوں کو روزے کا خوگر کرنا مقصود تھا اس کے بعد جو آیت آنے والی ہے یعنی مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ اس سے یہ حکم عام لوگوں کے حق میں منسوخ کردیا گیا صرف ایسے لوگوں کے حق میں اب بھی باجماع امت باقی رہ گیا جو بہت بوڑھے ہوں (جصاص) یا ایسے بیمار ہوں کہ اب صحت کی امید ہی نہیں رہی جمہور صحابہ وتابعین کا یہی قول ہے (جصاص، مظہری) - صحیح بخاری ومسلم و ابوداؤد، نسائی، ترمذی، طبرانی وغیرہ تمام ائمہ حدیث نے حضرت سمہ بن اکوع سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ نازل ہوئی تو ہمیں اختیار دے دیا گیا تھا کہ جس کا جی چاہے روزے رکھے جس کا جی چاہے ہر روزے کا فدیہ دیدے پھر جب دوسری آیت مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ نازل ہوئی تو یہ اختیار ختم ہو کر طاقت والوں پر صرف روزہ ہی رکھنا لازم ہوگیا۔- مسند احمد میں حضرت معاذ بن جبل کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نماز کے معاملات میں بھی ابتدائے اسلام میں تین تغیرات ہوئے اور روزے کے معاملے میں بھی تین تبدیلیاں ہوئیں روزے کی تین تبدیلیاں یہ ہیں کہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو ہر مہینہ میں تین روزے اور ایک روزہ یوم عاشورا (یعنی دسویں محرم) کا رکھتے تھے پھر رمضان کی فرضیت نازل ہوگئی كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ تو حکم یہ تھا کہ ہر شخص کو اختیار ہے کہ روزہ رکھ لے یا فدیہ دیدے اور روزہ رکھنا بہتر اور افضل ہے پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ نازل فرمادی اس آیت نے تندرست قوی کے لئے یہ اختیار ختم کرکے صرف روزہ رکھنا لازم کردیا، مگر بہت بوڑھے آدمی کے لئے یہ حکم باقی رہا کہ وہ چاہے تو فدیہ ادا کردے،- یہ تو دو تبدیلیاں ہوئیں تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ شروع میں افطار کے بعد کھانے پینے اور اپنی خواہش پورا کرنے کی اجازت صرف اس وقت تک تھی جب تک آدمی سوئے نہیں جب سوگیا تو دوسرا روزہ شروع ہوگیا کھانا پینا وغیرہ ممنوع ہوگیا پھر اللہ تعالیٰ نے آیت اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام الرَّفَثُ نازل فرما کر یہ آسانی عطا فرمادی کہ اگلے دن کی صبح صادق تک کھانا پینا وغیرہ سب جائز ہیں سو کر اٹھنے کے بعد سحری کھانے کو سنت قرار دے دیا گیا صحیح بخاری، مسلم، ابوداؤد، میں بھی اس مضمون کی احادیث آئی ہیں (ابن کثیر) - فدیہ کی مقدار اور متعلقہ مسائل :- ایک روزہ کا فدیہ نصف صاع گندم یا اس کی قیمت ہے، نصف صاع ہمارے مروّجہ اسی (80) تولہ کے حساب سے تقریبا پونے دو سیر ہوتے ہیں اس کی بازاری قیمت معلوم کرکے کسی غریب مسکین کو مالکانہ طور پر دیدینا ایک روزہ کا فدیہ ہے بشرطیکہ کسی مسجد مدرسہ کی خدمت کے معاوضہ میں نہ ہو،- مسئلہ : ایک روزہ کے فدیہ کو دو آدمیوں میں تقسیم کرنا یا چند روزوں کے فدیہ کو ایک ہی شخص کو ایک تاریخ میں دینا درست نہیں جیسا کہ شامی نے بحوالہ بحراز قنیہ نقل کیا ہے اور بیان القرآن میں اسی کو نقل کیا گیا ہے مگر حضرت نے امداد الفتاوٰی میں فتویٰ اس پر نقل کیا ہے کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں، شامی نے بھی فتویٰ اس پر نقل کیا ہے البتہ امداد الفتاوٰی میں ہے کہ احتیاط اس میں ہے کہ کئی روزوں کا فدیہ ایک تاریخ میں ایک کو نہ دے لیکن دے دینے میں گنجائش بھی ہے یہ فتویٰ مورخہ ١٦ جمادی الاخریٰ ١٣٥٣ امداد الفتاویٰ جلد دوم صفحہ ١٥ میں منقول ہے،- مسئلہ : اگر کسی کو فدیہ ادا کرنے کی بھی وسعت نہ ہو تو وہ فقط استغفار کرے اور دل میں نیت رکھے کہ جب ہوسکے گا ادا کروں گا (بیان القرآن )
اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ٠ ۭ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ٠ ۭ وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَہٗ فِدْيَۃٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ٠ ۭ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ ٠ ۭ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ١٨٤- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها .- والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] ،- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔- مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125]- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔- دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ - - سفر - السَّفْرُ : كشف الغطاء، ويختصّ ذلک بالأعيان، نحو : سَفَرَ العمامة عن الرّأس، والخمار عن الوجه، وسَفْرُ البیتِ : كَنْسُهُ بِالْمِسْفَرِ ، أي : المکنس، وذلک إزالة السَّفِيرِ عنه، وهو التّراب الذي يكنس منه، والإِسْفارُ يختصّ باللّون، نحو : وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ- [ المدثر 34] ، أي : أشرق لونه، قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس 38] ، و «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» »من قولهم : أَسْفَرْتُ ، أي : دخلت فيه، نحو : أصبحت، وسَفَرَ الرّجل فهو سَافِرٌ ، والجمع السَّفْرُ ، نحو : ركب . وسَافَرَ خصّ بالمفاعلة اعتبارا بأنّ الإنسان قد سَفَرَ عن المکان، والمکان سفر عنه، ومن لفظ السَّفْرِ اشتقّ السُّفْرَةُ لطعام السَّفَرِ ، ولما يوضع فيه . قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء 43]- ( س ف ر ) السفر - اصل میں اس کے معنی کشف غطاء یعنی پردہ اٹھانے کے ہیں اور یہ اعیان کے ساتھ مخصوص ہے جیسے سفر العمامۃ عن الراس اس نے سر سے عمامہ اتارا دیا ۔ سعر عن الوجہ چہرہ کھولا اور سفر البیت کے معنی گھر میں جھاڑو دینے اور کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے ہیں اور جھاڑو کو مسفرۃ اور اس گرد و غبار کو سفیر کہا جاتا ہے جو جھاڑو دے کر دور کی جاتی ہے ۔ الاسفار ( افعال ) یہ الوان کے ساتھ مختص ہے یعنی کسی رنگ کے ظاہر ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر 34] اور قسم ہے صبح کی جب روشن ہو ۔ اور فرمایا : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس 38] کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے ۔ اور حدیث «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» صبح خوب روشن ہونے کے بعد نماز پڑھا کرو تو زیادہ ثواب ملے گا ۔ میں اسفروا اسفرت کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روشنی میں داخل ہونے کے ہیں جیسے اصبحت ( میں صبح میں داخل ہوا ) سفر الرجل اس نے سفر کیا اور سافر ( مسافر ) کی جمع سفر آتی ہے جیسے راکب کی جمع رکب رد علی ہذا القیاس ) اور سافر کے معنی ہیں اس نے سفر کیا یہ خاص کر باب مفاعلۃ سے آتا ہے گویا اس میں جانبین یعنی وطن اور آدمی کے ایک دوسرے سے دور ہونے کے معنی کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ اور سفر سے ہی سفرۃ کا لفظ مشتق ہے جس کے معنی طعام سفر یا توشہ دان ہیں جس میں سفری کھانا رکھا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء 43] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو - طاقت - وقد يعبّر بنفي الطَّاقَةِ عن نفي القدرة . وقوله : وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ- [ البقرة 184] ، ظاهره يقتضي أنّ المُطِيقَ له يلزمه فدية أفطر أو لم يفطر، لکن أجمعوا أنه لا يلزمه إلّا مع شرط آخر وروي :( وعلی الّذين يُطَوَّقُونَهُ ) أي : يُحَمَّلُونَ أن يَتَطَوَّقُوا .- اور کبھی طاقتہ کی نفی سے قدرت کا انکار مراد ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں ( لیکن رکھیں نہیں ) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں ۔ کے بظاہر معنی تو یہی ہیں کہ جو شخص روزہ کی طاقت رکھتا ہو اس پر فدیہ لازم ہے خواہ روزہ رکھے یا نہ رکھے مگر اس امر پر اجماع ہوچکا ہے کہ صرف دوسری شروط کے ساتھ فدیہ یعنی جن پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ مشقت روزہ رکھیں ۔- فدی - الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال :- وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184]- ( ف د ی ) الفدٰی والفداء - کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے - خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- تَّطَوُّعُ- والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- صوم - الصَّوْمُ في الأصل : الإمساک عن الفعل مطعما کان، أو کلاما، أو مشیا، ولذلک قيل للفرس الممسک عن السّير، أو العلف : صَائِمٌ. قال الشاعر :۔ خيل صِيَامٌ وأخری غير صَائِمَةٍ- «1» وقیل للرّيح الرّاكدة : صَوْمٌ ، ولاستواء النهار :- صَوْمٌ ، تصوّرا لوقوف الشمس في كبد السماء، ولذلک قيل : قام قائم الظّهيرة . ومَصَامُ الفرسِ ، ومَصَامَتُهُ : موقفُهُ. والصَّوْمُ في الشّرع : إمساک المکلّف بالنّية من الخیط الأبيض إلى الخیط الأسود عن تناول الأطيبين، والاستمناء والاستقاء، وقوله : إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً- [ مریم 26] ، فقد قيل : عني به الإمساک عن الکلام بدلالة قوله تعالی: فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] .- ( ص و م ) الصوم - ( ن ) کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا اور باز رہنا کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور یا گفتگو کرنے سے اس بنا پر گھوڑا چلنے سے رک جائے یا چارہ نہ کھائے اسے بھی صائم کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ( البیط ) ( 280 ) خیل صیام واخرٰ ی غیر صائیمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہوں ۔ اور ہوا کے ساکن ہونے اور دوپہر کے وقت پر بھی صوم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس تصور پر کہ اس وقت آفتاب وسط آسمان میں ٹہھر جاتا ہے اسی اعتبار سے قام قائم الظھیرۃ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت سورج کے خط نصف النہار پر ہونا کے ہیں مصمام الفرس او مصامتہ گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔ اصطلاحی شریعت میں کسی مکلف کا روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے منی خارج کرنے اور ۔ عمدا قے کرنے سے رک جانے کا نام صوم ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم 26] کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صوم سے مراد کلام سے رکنے یعنی خاموش رہنا کے ہیں ۔ جیسا کہ بعد میں فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] تو آج میں کسی آدمی سے ہر گز کلام نہ کروں گی ) سے اسکی تفسیر کی گئی ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
ابوبکر جصاص کہتے ہیں ظاہر آیت اس امر کا مقتضی ہے کہ جس شخص پر لفظ مریض کا اطلاق ہوا اس کے لیے افطار یعنی روزے چھوڑ دینا جائز ہے خواہ روزہ رکھنے کی وجہ سے اسے کوئی ضرر لاحق ہو یا نہ ہوتا ہم ہمیں اس امر میں کسی اختلاف کا علم نہیں کہ ایسا مریض جسے روزہ رکھنے کی صورت میں کوئی ضرر لاحق نہ ہو اسے روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ چناچہ حضرت امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اگر کسی کو اس بات کا خوف ہو کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کی آنکھ کی تکلیف بڑھ جائے گی یا بخار اور شدت اختیار کرلے گا تو وہ روزہ نہ رکھے۔ امام مالک کا مئوطا میں قول ہے کہ جو شخص روزے کی وجہ سے نڈھال ہوجائے تو وہروزہ توڑ دے ور اس کی قضا کرے ایسی صورت میں اس پر کوئی کفارہ عائد نہیں ہوگا۔ میں ( ابوبکر جصاص ) نے جو سنا ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی مریض کے لیے اس کے مرض کی وجہ سے روزہ رکھنا مشکل ہوجائے اور اس کی جان پر آ بنے تو وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں قضا کرلے۔ امام مالک اور دیگر اہل علم کی رائے ہے کہ حاملہ عورت کو اگر روزے کی تاب نہ ہو تو اس کے لیے روزے چھوڑ دینا ضروری ہے بعد میں وہ ان کی قضا کرلے، ان کی رائے میں حمل بھی ایک قسم کی بیماری ہے۔ امام اوزای کا قول ہے کہ جس شخص کو کسی قسم کا بھی مرض لاحق ہوجائے اس کے لیے روزہ چھوڑ دینا حلال ہوگا۔ اگر اسے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو وہ روزہ نہیں رکھے گا۔ البتہ اگر اسے روزہ رکھنے کی طاقت ہو، خواہ اسے مشقت ہی کیوں نہ پیش آئے۔ تو وہ روزہ نہ چھوڑے۔ - امام شافعی کا قول ہے کہ اگر روزے کی وجہ سے مرض کی شدت میں نمایاں اضافہ ہوجائے تو پھر روزہ نہ رکھے۔ اور اگر شدت قابل برداشت ہو تو روزہ نہ چھوڑے۔ درج بالا اقوال سے یہ بات واضح ہوگئی کہ فقہا سے بالاتفاق یہ ثابت ہے کہ مریض کے لیے روزہ چھوڑنے کی اجازت، روزے کی وجہ سے مرض کے بڑھ جانے پر موقوف ہے، نیز جب تک اسے ضرر پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو اس وقت تک اس پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ رہی یہ بات کہ مریض کے لیے افطار یعنی روزہ چھوڑ دین کی اجازت کا تعلق اندیشہ ضرر کے ساتھ ہے تو اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو انس بن مال قشیری نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے ، آپ کا ارشاد ہے ( اللہ وضع عن المسافر شطر الصلوۃ والصوم وعن الحامل و المرضع، اللہ تعالیٰ نے مسافر کے حق میں آدھی نماز اور روزہ معاف کردیا ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی) یہ بات ظاہر ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت اس بنا پر ملی ہے کہ اس سے ان دونوں کو یا ان کے بچوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ غرض اس جیسی صورت میں روزہ چھوڑنے کا جواز اندیشہ ضرر کے ساتھ متعلق ہے۔ کیونکہ حاملہ اور دودھ پالنے والی عورت دونوں تندرست ہوت ہییں لیکن اندیشہ ضرر کی وجہ سے ان کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز کردیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے روزہ چھوڑنا مباح کردیا ہے۔ لغت میں سفر کے لیے کوئی معلوم و مقرر حد نہیں ہے کہ جس کے ذریعے تھوڑے اور زیادہ سفر میں خط امتیاز کھینچا جاسکے، تا ہم اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ افطار کو مباح کردینے والے سفر کے لیے ایک مقررہ حد ہے،۔ لیکن اس حد میں اختلاف رائے ہے، ہمارے اصحاب یعنی احناف کا قول ہے اس کی حدتیں دن اور تین راتوں کی مسافت ہے جبکہ دوسرے حضرات کے نزدیک یہ دو دنوں کی اور بعض کے نزدیک ایک دن کی مسافت ہے۔ اس تحدید میں لغت کو کوئی دخل نہیں ہے اس لیے کہ اس کی کم سے کم مدت کو ایسے وقت کے ساتھ محصور نہیں کیا گیا ہے کہ جس سے کم کا کوئی جواز نہ ہو، یہ تو ایسا نام ہے جسے عام طور پر زندگی کے عمومی اصول و ضوابط سے لیا گیا ہے اور جس چیز کا حکم زندگی کے عمومی اصول و ضوابط سے اخذ کیا جائے اس کی اقل قلیل ( کم سے کم حد) کے ساتھ تحدید ممکن نہیں ہوتی۔ یہ کہا گیا ہے کہ سفر کا لفظ سفر بمعنی کشف سے مشتق ہے۔ عربوں کا محاورہ ہے، سفوت المرأۃ عن وجھھا، عورت نے اپنا چہرہ کھول دیا) یا اسفر الصبح ( صبح ظاہر ہوگئی) یا سفرت الریح السحاب ( تیز ہوا نے بادل کو بکھیر دیا) اسی طرح جھاڑو کو مسفرۃ کہتے ہیں۔ اس لیے کہ جھاڑو زمین سے مٹی کو جھاڑ کر اس کی سطح کو ظاہر کردیتی ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے اسفروجھہ ( اس کا چہرہ روشن ہوگیا) - اسی معنی میں قول باری ہے ( وجوہ یومئذ مسفرۃ اس دن بہت سے چہرے تاباں ہوں گے) اسی بنا پر دور کی جگہ کی طرف نکل پڑنا سفر کہلاتا ہے اس لیے کہ یہ مسافر کے اخلاق و احوال سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر سفر کے وہ معنی ہیں جو ہم نے بیان کیے تو اس کا ظہور تھوڑے سے وقت اور ایک یا دو دن میں نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ اس تھوڑی سے مسافت کے دوران مسافر ظاہر داری کا لبادہ اوڑھ لے اور دور کی مسافت کی صورت میں اس کی اخلاق سے جو پردہ اٹھ سکتا تھا وہ نہ اٹھ سکے۔ اگر سفر کے بارے میں لوگوں کا عمومی رویے کا اعتبار کیا جائے تو ہمیں معلوم ہے کہ تھوڑی سی مسافت سفر نہیں کہلاتی بلکہ طویل مسافت سفر کہلاتی ہے۔ تا ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ تین دن اور رات کی مسافت صحیح معنوں میں سفر ہے جس کے ساتھ احکام شرع کا تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تین دن کی مسافت سفر ہے اور اس سے کم کی مسافت سفر نہیں کیونکہ سفر کے معنی اس میں نہیں پائے جاتے، نیز اس کے متعلق لغت یا شرع کی طرف سے کوئی راہنمائی ہے نہ ہی اس کی تحدید میں اہل علم کا اتفاق ہے۔ علاوہ ازیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی چند احادیث بھی اس امر کی متقاضی ہیں کہ احکام شرع میں تین دن کیی مسافت کو سفر سمجھا جائے۔ ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جو حضرت ابن عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تین دن کے سفر سے منع کردیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ابو سعید خدری کی جو روایت ہے اس میں راویوں کا اختلاف ہے۔ بعض نے اس روایت میں تین دنوں کا ذکر کیا ہے اور بعض نے دو دنوں کا حضرت ابوہریرہ (رض) جو روایت ہے اس میں بھی اختلاف ہے۔ - سفیان نے عجلان سے ، انوں نے سعید بن ابی سعید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے جو روایت کی ہے اس میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ( لا تسافرا مرأۃ فوق ثلاثۃ ایام الاو معھاذو محرم کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن سے زائد کا سفر نہ کرے) کثیر بن زید نے سعید بن ابی سعید مقبری کے واسطے سے حضرت ابوہریرہ (رض) سے جو روایت کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ( یا نساء المومنات لا تخرج امرأۃ من مسیرۃ لیلۃ الامع ذی محرم اے خواتین اسلام، کوئی عورت محرم کے بغیر ایک دن کے سفر پر بھی نہ نکلے) حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ کی ان روایتوں میں سے ہر روایت خبر واحد ہے ( یعنی سلسلہ روایت کے ایک مرحلہ میں راوی کی تعداد صرف ایک رہ گئی ہے) اور روایت میں لفظی اختلاف ہے اور یہ بھی ثابت نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختلف مواقع یا پس منظر میں یہ ارشاد فرمایا ہو، اس لیے ایسی صورت میں ی واجب اور ضروری ہے کہ اس روایت کو ترجیح دی جائے جس میں زائد دنوں کا ذکر ہے اور وہ تین دن ہیں، اس لیے کہ تین دنوں پر تو سب کا اتفاق ہے اور ان سے کم میں اختلاف ہے۔ اس بنا پر راویوں کے اختلاف کے سبب تین دن سے کم والی کو روایت ثابت نہیں رہے گی۔ - جہاں تک حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایتوں کا تعلق ہے تو ان میں کوئی اختلاف نہیں اس لیے وہ ثابت رہیں گی اور ان روایتوں میں تین دنوں کا ذکر ہے۔ اگر ہم حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت ابو سعید خدری کی روایتوں کو لفظی اختلاف کے باوجود ثابت تسلیم بھی کرلیں تو اکثر احوال میں یہ روایتیں ایک دوسرے کی متضاد ہونے کی بنا پر اس طرح ساقط ہوجائیں گی گویا کہ یہ وارد ہی نہیں ہوئیں اور پھر حضرت ابن عمر (رض) کی روایت جس میں ت ین دنوں کا ذکر ہے کسی معارض کے بغیر ثابت رہے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایتیں ایک دوسرے کی متعارض نہیں ہیں اس لیے ان میں جن مدتوں کا ذکر ہے ان سب کو ہم ثابت تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی عورت محرم کے بغیر ایک دن یا دو دن یا تین دن کا سفر نہ کرے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب سفر کے لیے تین دنوں سے کم کی مدت پر عمل کیا جائے گا تو اس صورت میں تین دن کی مدت لغو اور بےکار قرار پائے گی اور اس کا ورود اور عدم ورود دونوں برابر ہوں گے کیونکہ تم تین دن سے کم والی روایت پر عمل پیرا ہو کر تین دن والی روایت پر عمل پیرا نہیں ہوسکتے بلکہ اسے لغو اور بےکار ٹھہرانے کے مرتکب ہوگئے۔ اور جب یہ صورت ہوجائے کہ بعض پر عمل ہوجائے اور بعض نظر انداز ہوجائے تو پھر تین دن والی روایت پر عمل اولیٰ ہوگا۔ اس لیے کہ اس میں زائد دنوں کا ذکر ہے۔ - اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس صورت میں تین والی روایت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک یا دو دن والی روایتوں پر بھی عمل ممکن ہے اور اس طرح ان روایتوں کا فائدہ ثابت رہے گا۔ مثلاً کوئی عورت تین دن کے سفر کا ارادہ کرلے تو وہ ان تین میں سے ایک یا دو دن محرم کے بغیر سفر نہیں کرسکے گی، نیز کوئی گمان کرنے والا یہ گمان بھی نہیں کرسکے گا کہ جب تین دنوں کی حد مقرر کردی گئی تو پھر عورت کے لیے غیر محرم کے ساتھ ایک یا دو دن کے سفر پر نکلنا مباح ہوجائے گا اگرچہ اس کی نیت تین دنوں کے سفر کی ہی ہو، اس غلط گمان کی پیش بندی کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دن سے کم کی مدت پر بھی پابندی کی وضاحت کردی۔ درج بالا بحث سے جب عورت کے لیے محرم کے بغیر سفر کی ممانعت کی مدت تین دن متعین ہوگئی تو رمضان میں سفر کرنے والے شخص کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت کے لیے بھی سفر کی اسی مدت کا دو طریقوں سے تعین ہوجائے گا۔ اول یہ کہ جن لوگوں کے ہاں عورت کے سفر کے لیے تین دنوں کی مدت کا اعتبار ہے ان کے نزدیک روزہ چھوڑنے کے جواز کے لیے بھی اسی مدت کا اعتبار ہے اور جو لوگ عورت کے سفر کے لیے ایک یا دو دن کے قائل ہیں وہ جواز افطار میں بھی اس مدت کے قائل ہیں۔ دوم یہ ک تین دنوں کی مدت کے ساتھ تو بعض دفع کسی حکم شرعی کا تعلق ہوجاتا ہے اور تین دن سے کم مدت کے ساتھ کسی بھی حکم شرعی کا تعلق نہیں ہوتا اس بنا پر افطار کے جواز کے لیے مدت کا تعین تین دنوں کے ساتھ کرنا واجب ہوگا اس لیے کہ یہ ایسا حکم ہوگا جس کا تعلق ایسے وقت کے ساتھ ہے جو شریعت میں بعض دوسرے احکام کے لیے مقرر شدہ ہے جب کہ اس سے کم مدت کے ساتھ کوئی حکم متعین نہیں ہے۔ اس لیے اس کم مدت کی حیثییت وہی ہوجائے گی جو روزے کی مدت ( طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک) میں دن کے ایک گھڑی کے نکل جانے کی ہے۔ - اس مسئلے پر ایک اور پہلو سے غور کیا جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقیم کو ایک دن ایک رات اور مسافر کو تین دن تین رات موزوں پر مسح کی اجازت دی تھی۔ ظاہر ہے کہ آپ کا یہ ارشاد تمام مسافروں کے لیے بیان حکم کے موقع و محل میں وارد ہوا، اس لیے جو ارشاد بیان حکم کے موقع پر وارد ہوتا ہے اس کا حکم ان تمام افراد کو شامل ہوجاتا ہے جو اس کے دائرے میں آ رہے ہوں۔ اس بنا پر مسافر وہی کہلائے گا جس کا سفر کم از کم تین دنوں کا ہوگا اگر سفر کی مدت عندالشرع تین دن سے کم کی ہوتی تو ایسا مسافر بھی ضرور پایا جاتا جس کا حکم شریعت میں بیان ہونے سے رہ گیا ہے۔ جن کہ لفظ ان تمام افراد کا احاطہ کر رہا ہے جن کا بیان حکم متقاضی ہے، اگر یہ صورت تسلیم کرلی جائے تو اس سے بیان حکم کی حیثیت مجروح ہوجائے گی۔ ایک اور جہت سے اس پر نظر ڈالیے، المسافر پر الف لام کے دخول کی وجہ سے یہ لفظ اسم جنس ہے۔ اس بنا پر جو بھی مسافر ہوگا اس حکم کا اطلاق ہوگا اور جو فرد اس سے خارج ہوگا وہ مسافر نہیں کہلائے گا کہ اس کے سفر کے ساتھ کوئی حکم متعلق ہو، اس میں اس بات کی واضح ترین دلالت ہے کہ جس سفر کے ساتھ شرعی حکم کا تعلق ہے وہ تین دنوں کا سفر ہے اور اس سے کم مدت کے سفر کے ساتھ افطار صوم اور قصر صلوٰۃ کا کوئی حکم متعلق نہیں ہے۔ - اس کا ایک اور پہلو بھی ہے ۔ وہ یہ کہ اس قسم کی مقداروں کا اندازہ بذریعہ قیاس نہیں لگایا جاسکتا ، بلکہ ان کے اثبات کا طریقہ یہ ہے کہ یا تو اہل علم کا اتفاق پایا جائے یا پھر شریعت کی طرف سے رہنمائی کی گئی ہو۔ جب یہ دونوں باتیں موجود نہ ہوں تو پھر تین دنوں کی مدت پر وقوف کرنا واجب ہوگا کیونکہ اسی پر سب کا اتفاق ہے کہ تین دنوں کا سفر وہ سفر ہے جو افطار کو مباح کردیتا ہے۔ نیز روزے کی فرضیت کا لزوم اصل ہے جبکہ رخصت افطار کی مدت میں اختلاف ہے۔ ایسی صورت میں اصل یعنی فرضیت صوم کو صرف اجماع کے ذریعے ترک کرنا جائز ہوگا اور اجماع تین دن کی مدت پر ہے۔ اس لیے کہ فرضیت کے حق میں احتیاط سے کام لینا چاہیے نہ کہ اس کے خلاف حضرت عبداللہ بن مسعود (رض)، حضرت عمار (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ تین دن سے کم کی مدت میں افطار نہیں ہے۔ ولی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین اور جو لوگ رورہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں پھر نہ رکھیں تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے ( فقہاء سلف سے اس آیت کی تاویل میں اختلاف منقول ہے ۔ مسعودی نے عمرو بن مرہ سے ، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ ” روزے کی فرضیت تین مرحلوں سے گزری ( حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر ماہ تین دنوں کے روزے اور یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ پھر ( کتب علیکم الصیام الی قولہ وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) کی آیت نازل ہوئی ، اس کے تحت جو شخص چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا نہ رکھتا اور ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور اس طرح روزے کا فدیہ ادا کردیتا۔ - پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل کی ( شھر رمضان الذی انزل فیہ القران الی قولہ فن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر جو مقیم اور تندرست ہو رمضان کے روزے فرض کر دئیے اور مریض اور مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت دے دی ، نیز ایسے بوڑھے کے لیے ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی رعایت باقی رہی جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت سلمہ بن الاکوع، علقمہ ، زہری اور عکرمہ سے ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) کی تفسیر میں مروی ہے کہ جو شخص چاہتا روزہ رکھ لیتا) اور جو چاہتا روزہ نہ رکھتا اور بطور فدیہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا حتیٰ ک یہ آیت ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) نازل ہوئی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرل علی کرم اللہ وجہہ سے ایک روایت منقول ہے جسے عبداللہ بن موسیٰ نے اسرائیل سے، انہوں نے ابواسحاق سے اور انہوں نے حرث سے کی ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : جس شخص پر رمضان آ جائے اور وہ بیمار یا مسافر ہو تو رہزہ نہ رکھے اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو ایک صاع ( تقریباً چارسیر) طعام دے دے ، یہی اس آیت کی تفسیر ہے “۔ ایک اور روایت منصور نے مجاہد سے کی ہے انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ آپ اس آیت کی قرأت اس طرح کرتے تھے ( وعلی الذین یطوقونہ فدیۃ طعام مسکین) اور اس کی تفسیر میں فرماتے کہ ایسا بوڑھا شخص جو جوانی میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا تھا پھر اس پر بڑھانا طاری ہوگیا اور کمزوری کی وجہ سے نہ اس میں روزہ رکھنے کی طاقت رہی اور نہ ہی وہ کھانا پینا چھوڑ سکے۔ ایسا شخص روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو ایک صاع طعام دے دے۔ - سعید بن المسیب سے بھی اسی قسم کی ایک روایت ہے۔ حضرت عائشہ (رض) اس آیت کو اس طرح قرأت کرتیں ( و علی الذین یطوقونہ) خالد حذا نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ آپ ( وعلی الذین یطیقونہ) پڑھتے تھے اور فرماتے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی ہے حجاج نے ابو اسحاق سے، انہوں نے حرث سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے (وعلی الذین یطیقونہ) کی قرأت روایت کی ہے اور فرمایا کہ اس سے مراد بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہے۔ ابوبکر نے ان روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا : صحابہ کرام اور تابعین عظام کے پہلے گروہ نے جن کی تعداد زیادہ ہے، فرمایا کہ ابتدا میں فرضیت ظوم اس طرح نازل ہوئی کہ جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت رکھنا تھا اسے روزہ اور فدیہ کے درمیان اختیار دے دیا گیا تھا، پھر یہ اختیار اس کے حق میں ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) سے منسوخ ہوگیا۔ دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ مریض اور مسافر کے حق میں باقی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں اور بعد میں قضا کرلیں اور ان پر قضا اور فدیہ دونوں لازم ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت عائشہ (رض) ، عکرمہ اور سعید بن المسیب اس آیت کی قرأت ( وعلی الذین یطوقونہ) کرتے تھے، اس لفظ میں کئی معانی کا احتمال ہے۔ ایک تو وہ ہے جو ابن عباس کا بیان کردہ ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو پہلے روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے تھے پھر بوڑھے ہوگئے اور روزہ رکھنے سے عاجز ہوگئے۔ ایسے لوگوں پر فدیہ کے طور پر مسکین کو کھانا کھلانا لازم ہے۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ وہ لوگ جو صعوبت کی بنا پر روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن مشقت کے باوجود وہ روزے کے مکلف ہیں، ان پر مسکین کو کھانا کھلانا لازم ہے۔ ایک اور معنی یہ ہے کہ ان پر روزے کے مکلف ہونے کا حکم قائم ہے اگرچہ وہ روزے کی طاقت نہیں رکھتے، اس صورت میں فدیہ ان کے مکلف ہونے ک حکم کے قائم مقام بن جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تیمم کرنے والا پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنے کا مکلف ہوتا ہے اور یہ حکم تکلیف اس پر قائم رہتا ہے اگرچہ وہ پانی کے استعمال کی قدرت نہیں رکھتا حتیٰ کہ مٹی کو پانی کے قائم مقام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو تیمم طہرت بالماء کا بدل نہ قرار پاتا۔ اسی طرح بھولی جانے والے اور سوتے رہنے والے انسان پر نماز کی قضا اس وجہ سے واجب ہوتی ہے کہ کہ اس پر نماز کے مکلف ہونے کا حکم قائم رہتا ہے، اس تر ترک صلوٰۃ کی وجہ سے قضا لازم نہیں آتی۔ اب روزے کی صورت میں جب اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے سے عاجزی اور قضا کرنے سے مایوسی کی حالت میں ایک شخص پر فدیہ واجب کردیا تو گویا اس پر اپنے اس ارشاد ( وعلی الذین یطیقونہ) سے لفظ تکلیف کا اطلاق کیا کیونکہ فدیہ وہ چیز ہے جو اپنے غیر کے قائم مقام ہوتی ہے اس بنا پر اس آیت کی دونوں طرح سے قرأت درست ہے۔ البتہ پہلی قرأت ( وعلی الذین یطیقونہ) لا محالہ منسوخ ہے۔ اس کی بنا پر وہ روایات ہیں۔ - جو صحابہ کرام سے منقول ہیں جن میں روزے کی فرضیت کی کیفیت اور ابتداء میں اس کی صورت کی خبر دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان حضرات صحابہ میں سے جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا اسے روزہ رکھ لینے اور روزہ چھوڑ کر فدیہ دینے کا اختیار ہوتا۔ یہ بات ان حضرات نے اپنی رائے سے نہیں کہی بلکہ یہ تو اس حالت کی حکایت ہے جس کا انہوں نے مشاہدہ کیا تھا اور جس کا علم انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کی روشنی میں حاصل ہوا تھا۔ اس حقیقت پر ان آیات کے مضمون میں ایسی واضح دلالت موجود ہے کہ اگر ہمارے پاس سلف سے اس معنی کی ایک روایت بھی موجود نہ ہوتی تو پھر بھی یہ دلالت اس حقیقت کو واضح کردینے کے لیے کافی ہوتی۔ ارشاد ہوتا ہے ( ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) اللہ تعالیٰ نے مریض اور مسافر کے حکم کے بیان سے ابتداء کی اور ان پر روزہ چھوڑنے کی صورت میں قضا واجب کردی پھر اس کے بعد ارشاد فرمایا ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) - اب یہاں یہ درست نہ ہوگا کہ موخر الذکر آیت میں مذکورہ لوگوں سے وہی بیمار اور مسافر مراد لیے جائیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اس لیے کہ ان کے حکم کا ذکر اور ان پر عائد شدہ فرض یعنی قضا کا بیان ان کے مخصوص ناموں کے ساتھ گزر چکا ہے۔ اس لیے یہ درست نہ ہوگا کہ ایک دفعہ صریح الفاظ میں ان کے ذکر کے بعد حرف عطف ( وائو) کے ذریعہ بطور کنایہ دوبارہ ان کا ذکر کیا جائے کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ معطوف، معطوف علیہ سے جدا ہوتا ہے اس لیے کہ ایک چیز کو اس کی ذات کا معطوف نہیں بنایا جاسکتا (حرف عطف مثلاً وائو، فاء اور ثم وغیرہ سے دو کلموں یا فقروں کو جوڑ دیا جاتا ہے پہلا کلمہ یا فقرہ معطوف علیہ ہوتا ہے اور دوسرا معطوف ۔ مترجم) اس لیے موخر الذکر آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے مراد مقیم لوگ ہیں جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں۔ پہلی آیت میں جس مریض کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد وہ مریض ہے جسے روزہ رکھنے کی صورت میں اندیشہ ضرر لاحق ہو۔ اب دوسری آیت میں اس کا ذکر اس عنوان سے کیسے کیا جاسکتا ہے کہ اسے روزہ رکھنے کی طاقت ہے جبکہ اسے رخصت افطار ہی اسی بنیاد پر دی گئی تھی کہ اس میں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں ہے اور روزے کی صورت میں اسے اندیشہ ضرر ہے۔ اسی پر سلسلہ کلام کے یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں ( وان تصوموا خیر لکھ، تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو) ظاہر ہے کہ ایسا مریض جسے اپنے جان کا خطرہ ہو اس کے حق میں روزہ رکھنا اچھا نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس حالت میں تو اسے روزہ رکھنے سے منع کردیا گیا ہے۔ آیت سے اس بات پر بھی دلالت ہوتی ہے کہ مریض اور مسافر پر فدیہ نہیں ہے۔ فدیہ تو ایک چیز کے قائم مقام ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے صریح الفاظ میں مریض اور مسافر پر قضا واجب کردی ہے اور قضا فرض کے قائم مقام ہے اس لیے کھانا کھلانا ان کے حق میں فدیہ نہیں بن سکتا۔ اس میں اس بات پر بھی دلالت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ( وعلی الذین یطقونہ فدیہ طعام مسکین) میں فدیہ کے سلسلے میں روئے سخن مریض اور مسافر کی طرف نہیں ہے اور یہ آیت درج بالا وجوہ کی بنا پر منسوخ ہے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اصل فرض تو روزہ ہے اور اس سے فدیہ کی طرف عدول اسی بنا پر کیا گیا ہے کہ فدیہ روزے کا بدل ہے۔ کیونکہ فدیہ کہتے ہی اس کو ہیں جو کسی چیز کے قائم مقام ہو۔ اگر اطعام یعنی کھانا کھلانا تخییر کے طور پر فی نفسہ فرض ہوتا جیسا کہ روزہ فرض ہے تو پھر یہ بدل نہیں بن سکتا جس طرح کہ قسم کا کفارہ ادا کرنے والا تین چیزوں ( دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس دینا یا گردن آزاد کرنا) میں سے جس کے ساتھ چاہے کفارہ ادا کرسکتا ہے۔ لیکن کفارہ میں ادا کی ہوئی چیز بقیہ دو چیزوں کا بدل یا فدیہ نہیں بن سکتی۔ اگر اس آیت کی تاویل ان لوگوں کے قول کے مطابق کی جائے جو یہ کہتے ہیں کہ ( وعلی الذین یطیقونہ) سے مراد بوڑھے لوگ ہیں تو پھر آیت منسوخ نہیں سمجھی جائے گی۔ لیکن اس صورت میں عبارت قرآنی اس طرح ہونی چاہیے تھی وعلی الذین کا نوا یطیقونہ، یعنی ان لوگوں پر جو پہلے روزہ کی طاقت رکھتے تھے پھر بڑھاپے کی وجہ سے عاجز آ گئے اور قضا کرنے سے بھی مایوس ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ آیت سے یہ معنی پیدا کرنا اسی وقت درست ہوگا جب اس پر سب کا اتفاق ہو یا شرع کی طرف سے اس کی رہنمائی کردی گئی ہو اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو بھی یہ معنی لے کر ایک لفظ کو بغیر کسی دلیل کے اس کے حقیقی معنی اور اس کے ظاہر سے ہٹانے کا عمل سرزد ہوجاتا۔ نیز اس سے ( وعلی الذین یطیقونہ) کا فائدہ بھی ساقت ہوجاتا ہے اس لیے کہ وہ لوگ ، خولزوم فرض کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے تھے اور وہ لوگ جو بڑھاپے کی وجہ سے روزے کی فرضیت کے وقت ہی اس سے عاجز تھے، دونوں اس حکم میں برابر ہیں اور جب آیت اس پر محمول کی جائے کہ وہ بوڑھا جو کبر سنی کی وجہ سے روزہ رکھنے سے عاجز اور قضا کرنے سے مایوس ہے۔ اس پر فدیہ ہے تو اس صورت میں ( وعلی الذین یطیقونہ) کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے کہ روزہ رکھنے کی طاقت کے ذکر کے ساتھ نہ تو کوئی حکم متعلق ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی مطلب نکلا۔ البتہ جن لوگوں نے ( یطوقونہ) پڑھا ہے۔ ان کی قرأت میں احتمال ہے کہ اس سے مراد ایسا بوڑھا ہے جو قضا کرنے سے بھی مایوس ہو، اس پر فدیہ واجب ہے ، اس لیے کہ یطوقونہ) کا اقتضاء یہ ہے کہ ایسے بوڑھوں کو روزے کے حکم کا مکلف بنادیا جائے اگرچہ روزہ رکھنے میں انہیں انتہائی دشواری اور مشقت کا سامنا کرنا پڑے، پھر فدیہ کو روزے کے قائم مقام کردیا جائے، اس قرأت کی اگر اسی طرح تاویل کی جائے جو ہم نے بیان کی ہے تو پھر یہ منسوخ نہیں ہے بلکہ اس میں مندرج حکم اس بوڑھے کے لیے ثابت ہے جو روزہ رکھنے سے عاجز ہو اور قضا کرنے کی بھی کوئی امید نہ ہو۔ واللہ الموفق بعنہ وکرمہ۔ - شیخ فانی کے بارے میں فقہاء کے اختلاف کا تذکرہ - امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ شیخ کبیر وہ بوڑھا ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ افطار کرے گا اور ہر روزے کے بدلے اس کی طرف سے نصف صاح ( تقریباً دو سیر) گندم کھلائی جائے گی۔ اس پر اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ امام نووی نے طعام کا تو ذکر کیا ہے لیکن اس کی مقدار بیان نہیں کی۔ مزنی نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ ہر روز ایک مد ص ایک پیمانہ جس کی مقدار اہل عراق کے نزدیک دو رطل اور اہل حجاز کے نزدیک ( 1-1 3) رطل ہے۔ رطل بارہ اوقیہ یعنی چالیس تولے کا ایک وزن ہے، مترجم) گندم کھلا دی جائے۔ امام مالک اور ربیعہ کا قول ہے کہ ایسے شخص پر کھانا کھلانا لازم نہیں ہے۔ البتہ اگر کھلا دے تو بڑی اچھی بات ہے، مصنف کتاب امام ابوبکر کہتے ہیں : ہم نے سابقہ سطور میں حضرت ابن عباس سے ( وعلی الذین یطوقونہ) کی قرأت اور اس کی تفسیر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک اسے سے مراد شیخ کبیر ہے، اگر آیت میں اس معنی کا احتمال نہ ہوتا تو حضرت ابن عباس اور دوسرے حضرات جن سے یہی تاویل منقول ہے کبھی اس کی یہ تفسیر نہ کرتے۔ اس بنا پر اس آیت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شیخ کبیر کے حق میں فدیہ واجب کرنا ضروری ہے۔ حضرت علی (رض) سے بھی یہی منقول ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شیخ کبیر ہی مراد لی ہے۔ - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت ہے کہ ( من مات و علیہ صوم فلیطعم عنہ ولیہ مکان کل یوم مسکینا) جو شخص اس حالت میں وفات پا جائے کہ اس کے ذمے رمضان کے روزے ہوں تو اس کا ولی ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو اس کی طرف سے کھانا کھلائے) اگر اطعام کا اصول میت کے حق میں ثابت ہوگیا تو پھر بوڑھے کے حق میں بطریق اولیٰ ثابت ہوگا اور میت ک مقابلہ میں بوڑھا اس رعایت کا زیادہ مستحق ٹھہرے گا اس لیے کہ میت اور بوڑھا سب کے اندر روزہ رکھنے سے درماندگی کی مشترک صفت پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آیا شیخ کبیر اس مریض کی طرح نہیں ہے جو رمضان میں روزے نہیں رکھتا پھر اس کی بیماری کا سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوجاتی ہے اور اس طرح اس پر قضا لازم نہیں آتی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ چونکہ بیمار کو ایام اخر یعنی بعد کے دنوں میں قضا کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر ( فعدۃ من ایام اخر) کے پیش نظر بیمار کے ساتھ فرضیت صوم کا تعلق قضا کے دنوں میں ہوگا۔ اس لیے جب اسے دوسرے دنوں میں روزہ کی تعداد پوری کرنے کا موقع ہی نہیں ملا اور اس کی وفات ہوگئی تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں آئی اور اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جو رمضان کی آمد سے پہلے کی چل بسا ہو۔ اس کے مقابلہ میں شیخ کبیر سے یہ امید ہی نہیں کی سکتی کہ وہ دوسرے دنوں میں قضا کرے گا اس بنا پر فرضیت صوم کا حکم تو اسے فی الفور لاحق ہوگیا اور اس کے بدلے میں اس پر فدیہ واجب کردیا گیا۔ اس بنا پر مریض اور شیخ کبیر دونوں کے احوال مختلف ہوگئے۔ نیز ہم نے سلف سے شیخ کبیر پر فی الفور فدیہ واجب کرنے کا قول نقل کیا ہے اور ان کے ہم پایہ اہل علم میں سے کسی کا کوئی اختلاف منقول نہیں اس بنا پر یہ اجماع ہے جس کے خلاف کسی کی کوئی بات نہیں سنی جائے گی۔ فدیہ کے لیے نصف صاع گندم واجب کرنے کے سلسلے میں وہ روایت ہے جو ہم سے عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے، انہیں اسحاق ارزق نے شریک سے، شریک نے ابن ابی لیلیٰ سے، ابن ابی لیلیٰ نے نافع سے ، نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے ، جنہوں نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( من مات و علیہ ومضان فلم یقضہ فلیطعم عنہ مکان کل یوم نصف صاع لمسکین جو شخص وفات پا جائے اور اس پر رمضان کے روزے ہوں جو وہ قضا نہ کرسکے تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو نصف صاع کھانا کھلایا جائے۔ جب یہ بات رمضان میں روزہ نہ رکھ سکنے والے کے حق میں ثابت ہوگئی جبکہ قضا کرنے سے پہلے اس کی وفات ہوگئی ہو تو یہی بات شیخ کبیر کے حق میں بھی کئی وجوہ سے ثابت ہوجائے گی۔ اول یہ کہ یہ حکم شیخ کبیر اور اس کے غیر سب کو عام ہے۔ اس لیے کہ شیخ کبیر کو روزے کے مکلف ہونے کا حکم اس طرح متعلق ہوجاتا ہے جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، اس لیے اس کی موت کے بعد یہ کہنا درست ہوگا کہ اس کی موت اس حالت میں واقع ہوئی کہ اس کے ذمہ رمضان کے روزے تھے اس لیے لفظ کے عموم میں وہ بھی شامل ہوگیا۔ ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آیت میں جس فدیہ کا ذکر ہوا ہے حدیث کی روشنی میں اس سے یہی مقدار مراد ہے اور آیت میں فدیہ کے لیے روئے سحن شیخ کبیر کی طرف ہے اس لیے اس پر واجب ہونے والے فدیہ کی مقدار بھی یہی ہے۔ - اس کا ایک اور پہلو بھی ہے، حدیث سے جب یہ مقدار اس شخص پر واجب ہوگئی جس کے ذمے رمضان کی قضا تھی اور اس کی وفات ہوگئی تو یہ ضروری ہوگیا کہ یہی مقدار شیخ کبیر پر بھی وجب ہو۔ اس لیے کہ شیخ کبیر پر فدیہ واجب کرنے والوں میں سے کسی نے شیخ کبیر اور قضا کیے بغیر مرنے والے کے درمیان فرق نہیں کیا۔ حضرت ابن عباس، قیس بن السائب، جو زمانہ جاہلیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شریک رہے ہیں، حضرت عائشہ ، حضرت ابوہریرہ اور سعید بن المسیب سے شیخ کبیر کے متعلق مروی ہے کہ وہ ہر دن کے بدلے نصف صاع گندم کھلائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت کعب بن عجرہ پر چھ مسکینوں کا کھانا واجب کردیا تھا اس طرح کہ ہر مسکین کو نصف صاع گندم جی جائے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ فدیہ کی مقدار مُد کی بجائے نصف صاع مقرر کرنا بہتر ہے۔ اس لیے کہ دونوں یعین شیخ کبیر او قضا کیے بغیر مرنے والے کے مسئلے میں تخییر کا تعلق دراصل صوم اور فدیہ کے درمیان ہوگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور تابعین کے ایک گروہ سے ہر دن کے بدلے ایک مُد فدیہ کی روایت بھی منقول ہے، لیکن پہلی بات بہتر ہے۔ اس کی بنیاد اس حدیث پر ہے جسے ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے اور جس کی تائید صحابہ اور تابعین کی اکثریت کے قول سے ہوئی ہے اور عقلی دلائل بھی اس کی تائید میں ہیں۔ - ارشاد باری ہے ( وعلی الذین یطیقونہ) اس ارشاد میں ضمیر کے مرجع کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کا قول ہے کہ یہ صوم کی طرف راجع ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مرجع فدیہ ہے۔ پہلی بات زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے مرجع کا ذکر اسم ظاہر کی صورت میں پہلے ہوچکا ہے جبکہ فدیہ کا کوئی ذکر نہیں ہوا اور ضمیر ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہو راجع ہوتی ہے۔ نیز فدیہ کا لفظ مونث ہے اور ( یطیقونہ) میں ضمیر مذکر ہے۔ یہ آیت فرقہ جبر یہ کے اس قول کا بھی بطلان کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسی چیز کا بھی مکلف بنا دیتا ہے جسے کرنے کی وہ طاقت نہیں رکھتے ہیں اور یہ کہ بندے وقوع فعل سے پہلے اس فعل پر قادر نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کے قول کے بطلان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صریح الفاظ میں فرما دیا کہ بندہ کسی فعل کے کرنے سے پہلے اس کے کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ) اللہ تعالیٰ نے بندے کو اس وصف کے ساتھ موصوف کیا کہ ترک صوم کے باوجود اور روزہ چھوڑ کر فدیہ کی طرف پلٹ جانے کے باوصف وہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہے اور اگر ( یطیقونہ ) کا مرجع فدیہ بھی مان لیا جائے پھر بھی لفظ کی دلالت اس معنی پر قائم رہے گی۔ - اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فدیہ دینے کی طاقت دے دی تھی اگرچہ اس نے فدیہ نہیں دیا بلکہ روزہ کی طرف پلٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ( شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس و بینات من الھدی و الفرقان) فرقہ جبر یہ کے مذہب کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ہدایت نہیں دی، بطلان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ قرآن تمام مکلفین کے لیے ہدایت ہے جیسا کہ ایک اور آیت میں فرمایا ( واما ثمود فھدینا ھم فاستحبوا العمی علی الھدی) رہے ثمود تو ہم نے انہیں ہدایت دی لیکن انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھے پن یعنی گمراہی کو پسند کرلیا۔ ارشاد باری ہے ( فمن تطوع خیرا فھوا خیر لہ) اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے) اس میں یہ ممکن ہے کہ یہاں سے ایک نئے کلام کا آغاز ہو، جس کا ما قبل سے کوئی تعلق نہ ہو اس لیے کہ یہ فقرہ فائدہ یعنی ایک نئے مضمون سے متعارف کرانے میں جس کے ساتھ خطاب کا آغاز درست ہو، قائم بنفسہ یعنی خود کفیل ہے۔ اس بنا پر اس کا مقصد خوش دلی سے نیکیاں کرنے والے کو طاعات الٰہی پر ابھارنا ہے۔ اس فقرے سے یہ مراد لینا بھی جائز ہے کہ جو شخص خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرلے یعنی طعام فدیہ میں اضافہ کر دے، اس لیے کہ مفروض مقدار تو نصف ساع ہے، اگر اس نے خوشی سے ایک یا دو صاع دے دیے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہوگا۔ اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت قیس بن السائب سے منقول ہے کہ وہ بڑھاپے کی بنا پر روزہ رکھنے سے عاجز آ گئے تو فرمایا کہ ایک انسان کی طرف سے ایک دن کے بدلے فدیہ کے دو مُد طعام کھلایا جاتا ہے ۔ لیکن تم میری طرف سے ہر دن کے بدلے تین مُد طعام کھلائو۔ اس آیت میں یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ اس سے صوم اور اطعام کے درمیان واقع شدہ تخییر میں سے ایک مراد ہے اس لیے کہ ان دونوں میں سے جس کسی پر عمل ہوجائے گا وہ فرض ٹھہرے گا جس میں کسی تطوع یعنی اپنی خوشی سے نیکی کرن کی گنجائش نہیں ہوگی۔ اس لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ ان دو باتوں میں سے ایک آیت کی مراد بن جائے۔ - البتہ یہ بات جائز ہے کہ تطوع سے مراد روزہ اور طعام دونوں کا جمع کردینا لیا جائے۔ اس صورت میں ایک چیز تو فرض قرار پائے گی جبکہ دوسری تطوع ٹھہرے گی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ( وان تصوموا خیر لکم) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آیت کا اول حصہ ان لوگوں کے متعلق ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں یعنی تندرس اور مقیم جو مریض یا مسافر نہ ہوں نیز وہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں نہ ہوں۔ یہ اس لیے کہ جس مریض کے لیے افطار مباح کردیا گیا ہے وہ ایسا ہوتا ہے جو روزہ رکھنے کی صورت میں نقصان پہنچنے کے اندیشے میں مبتلا ہوتا ہے اور جس کی حالت یہ ہو اس کے لیے روزہ رکھنے میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی اس لیے کہ اسے تو روزہ کی وجہ سے اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے روک دیا گیا ہے۔ یہی حالت حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کی ہوتی ہے کہ روزہ کی وجہ سے یا تو ان کی جانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے یا ان کے بچوں کی جانوں کو، اس لیے ان کے حق میں افطار بہتر ہے اور انہیں روزہ رکھنے کی ممانعت کردی گئی ہے ۔ ہاں اگر روزے کی وجہ سے ان کو یا ان کے بچوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو تو ان کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہوگا اور افطار جائز نہ ہوگا۔ - اس تنقیح سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ دونوں قسم کی عورتیں اللہ تعالیٰ کے اس قول ) وعلی الذین یطیقونہ) میں داخل نہیں ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ( وان تصوموا خیر لکم) ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ذکر اس خطاب کی ابتدا میں ہوچکا ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ( وان تصوموا خیر لکھ) کا رخ ان مقیم لوگوں کی طرف ہونے کے ساتھ ساتھ جنھیں روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے کے درمیان اختیار دیا گیا ہے، مسافرین کی طرف بھی ہو۔ اس صورت میں روزہ ان سب کے لیے بہتر ہوگا کیونک اکثر مسافروں کے لیی عادۃ یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ کسی ضرر کے اندیشہ کے بغیر روزہ رکھ سکتے ہیں اگرچہ اغلب حالات میں اس میں مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ اس آیت میں اس بات پر واضح دلالت موجود ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا روزہ چھوڑنے سے افضل ہے۔ اس میں یہ بھل دلالت ہے کہ ایک دن کا نفلی روزہ نصف صاع صدقہ سے افضل ہے اس لیے کہ فرض روزہ کی صورت میں یہی اصول ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب فرض روزہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اسے روزہ رکھنے اور نصف صاع صدقہ کے درمیان اختیاردے دیا تو روزہ رکھنے کو صدقہ سے افضل ٹھہرایا۔ اس لیے نفلی روزے کی صورت میں بھی اسی حکم کا پایا جانا واجب ہے۔ - حاملہ اور مرضعہ یعنی دودھ پلانے والی عورت - امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، محمد بن الحسن، زفر ، ثوری اور حسن بن حی کا قول ہے کہ جب حاملہ اور مرضعہ کو اپنی یا اپنے بچوں کی جان کا خطرہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں بلکہ قضا کریں اور ان پر کوئی کفارہ عائد نہیں ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب مرضعہ کو اپنے بچے کی جان کا خطرہ ہو اور بچہ اس کے سوا کسی اور کا دودھ قبول نہ کرتا ہو تو و روزہ نہیں رکھے گی، بلکہ قضا کرے گی اور ساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو ایک مُد طعام دے گی۔ البتہ حاملہ عورت اگر روزہ چھوڑ دے تو اسے کھانا کھلانا نہیں پڑے گا۔ لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک نے یہ بھی فرمایا کہ اگر حاملہ اور مرضعہ کو اپنی جان کا خطرہ ہو تو ان کی حیثیت مریض جیسی ہوگی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر حاملہ اور مرضعہ کو اپنے بچوں کی جان کا خطرہ ہو تو وہ روزہ نہیں رکھیں گی، ان قر قضا اور کفارہ لازم آئے گا اور اگر انہیں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ان کی حیثیت مریض جیسی ہوگی اور ان پر قضا لازم آئے گا، کفارہ نہیں دینا ہوگا۔ البویطی میں امام شافعی سے منقول ہے کہ حاملہ عورت پر روزہ چھوڑنے کی صورت میں کھانا کھلانا لازم نہیں ہوگا۔ اس مسئلے میں سلف کے درمیان اختلاف کی تین صورتیں ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں ان دونوں پر قضا لازم ہوگی اور فدیہ واجب نہیں ہوگا۔ ابراہیم نخعی، حسن بصری اور عطاء کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول یہ ہے کہ ان پر فدیہ لازم ہوگا قضا نہیں ہوگی۔ حضرت ابن عمر (رض) اور مجاہد کا قول یہ ہے کہ ان پر فدیہ بھی لازم ہوگا اور قضا بھی۔ ہمارے اصحاب یعنی احناف کی دلیل وہ حدیث ہے جو ہم نے جعفر بن محمد بن احمد نے ، ان سے ابوالفضل جعفر بن محمد بن الیمان نے ، ان سے ابوعبید القاسم بن سلام نے ، ان سے اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سے بیان کی ۔ ایوب نے کہا کہ ان سے ابوقلابہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد پوچھا کہ آیا تم اس شخص کو دیکھنا پسند کرو گے جس نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے، یہ کہہ کر انہوں نے مجھے اس شخص کا پتہ بتادیا۔ میں اس ک پاس گیا ، اس شخص نے بتایا کہ مجھے میرے ایک عزیز نے جن کا نام انس بن مالک ہے یہ بتایا کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنے ایک پڑوسی کے اونٹوں کا معاملہ لے کر گیا جنہیں پکڑ لیا گیا تھا۔ جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ نے مجھے کھانے میں شرکت کی دعوت دی۔ - میں نے عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں روزے کے متعلق بتاتا ہوں۔ سنو اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز اور روزہ معاف کردیا ہے اور حاملہ اور مرضعہ کو بھی۔ حضرت انس (رض) ک رشتہ دار کہتے ہیں کہ حضرت انس ہمیں اس بات پر تاسف کیا کرتے تھے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر آپ کے ساتھ کھانے میں کیوں شریک نہیں ہوئے۔ مصنف کتاب ابوبکر جصاص فرماتے ہیں۔ نصف نماز کی معافی کا تعلق مسافر کے ساتھ ہے، کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حمل اور رضاعت نماز میں قصر کی اباحت کا سبب نہیں ہوسکتے ہیں، ہماری اس بات کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ حاملہ اور مرضعہ کو روزے کی چھوٹ اسی طرح ہے جس طرح مسافر کو ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ روزے کی چھوٹ کا حکم جس کا تعلق حدیث میں مسافر کے ساتھ تھا ، اسے بعینہ حاملہ اور مرضعہ کے متعلق بھی کردیا گیا اس لیے کہ حاملہ اور مرضعہ کو کسی نئی چیز کے ذکر کے بغیر مسافر پر معطوف کردیا گیا ہے، اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حاملہ اور مرضعہ کے روزے کی چھوٹ کا حکم مسافر کی چھوٹ کے حم میں داخل ہے اور ان دونوں حکموں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ مسافر کو روزے کی چھوٹ اس وجہ سے ہے کہ اس پر قضا واجب کردی جاتی ہے اور فدیہ کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اس لیے حاملہ اور مرضعہ کے لیے بھی اسی حکم کا ہونا ضروری ٹھہرا یعنی ان دونوں پر قضا واجب ہوگی فدیہ نہیں دیں گی۔ اس حدیث میں اس حقیقت پر بھی دلالت موجود ہے کہ روزے کی چھوٹ کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا خواہ ان دونوں کو روزہ رکھنے کی صورت میں اپنی جان کا خطرہ ہو یا اپنے بچوں کی جان کا، کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپن ارشاد میں ان دونوں حالتوں میں فرق نہیں فرمایا ہے۔ نیز حاملہ اور مرضعہ کے حق میں روزے قضا کرنے کی امید ہوتی ہے اور انہیں روزہ نہ رکھنے کی رعایت صرف اس وجہ سے ملتی ہے کہ انہیں اپنے یا اپنے بچوں کے متعلق اندیشہ ضرر ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ قضا کرنے کا بھی امکان ہوتا ہے اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو بھی مریض اور مسافر جیسی حیثیت دی جائے۔ اگر قضا اور فدیہ دونوں کے وجوب کے قائلین ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین کے ظاہر آیت کو اپنے لیے دلیل بنائیں تو ان کا ایسا کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ وہ روایت ہے جو ہم نے صحابہ کی ایک جماعت سے کی ہے جن کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں۔ اس روایت کا ماحصل یہ ہے کہ آیت میں اس شخص کے فرض کی بات کی گئی ہے جو مقیم اور تندرست ہو اور جسے روزہ رکھنے اور فدیہ ادا کرنے کے درمیان اختیار دیا تھا ، پھر ہم نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ اس قسم کی تفسیر و تشریح اپنی رائے کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ اس میں شرع کی طرف سے رہنمائی ہوتی ہے اور چونکہ حاملہ اور مرضعہ کا اس روایت میں ذکر ہی نہیں ہے اس لیے اس آیت کے وہی معنی لیے جانے چاہئیں جو ہم نے بیان کیے ہیں۔ - پھر یہ آیت اللہ ک اس ارشاد ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) کی وجہ سے منسوخ ہوچکی ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی اس منسوخ شدہ آیت کو دلیل بنانا درست نہیں ہے اور وہ پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پورے خطاب کے سیاق میں یہ ارشاد فرمایا کہ ( وان تصوموا خیر لکم) اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جن کا ذکر آیت کی ابتدا میں ہوچکا ہے۔ حاملہ اور مرضعہ کے لیے یہ حکم نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اگر انہیں ضرر کا خوف ہو تو روزہ رکھنا ان کے لیے بہتر نہیں ہوگا بلکہ ایسی صورت میں انہیں روزے کی ممانعت ہوگی اور اگر انہیں اپنی یا اپنے بچوں کی جان کا خطرہ نہیں ہوگا پھر ان کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہوگا۔ اس طرح اس پورے سیاق میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ آیت مذجکورہ میں حاملہ اور مرضعہ مراد نہیں ہیں۔ جو لوگ فدیہ اور قضا دونوں کے وجوب کے قائل ہیں ان کے دعویٰ کے بطلان پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اطعام مسکین کو فدیہ فرمایا ہے اور فدیہ یہ ہوتا ہے جو کسی چیز کے قائم مقام ہو اور اس کے خلا کو پُر کر دے۔ اس ترتیب کی بنا پر فدیہ اور قضا دونوں کو اکٹھا ہوجانا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ قضا جب واجب ہوگی تو وہ متروک یعنی روزہ کے قائم مقام ہوجائے گی اس بنا پر اطعام فدیہ نہیں بن سکے گا، اور اگر فدیہ صحیح ہوجائے تو پھر قضا واجب نہ ہوگی اس لیے کہ ایسی صورت میں فدیہ قضاء کے قام مقام ہو کر اس کے خلا کو پُر کر دے گا، اگر یہ کہا جائے کہ اس بات سے کون سی چیز مانع ہے کہ قضا اور اطعام دونوں متروک یعنی چھوڑے ہوئے روزے کے قائم مقام بن جائیں تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر قضا اور اطعام دونوں چھوڑے ہوئے روزے کے قائم مقام بن جائیں تو اطعام فدیہ کا ایک حصہ بن جائے گا اور پورا فدیہ نہیں بنے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اطعام کو فدیہ کا نام دیا ہے۔ - اور تمہاری تاویل آیت کا مقتضیٰ کے خلاف جائے گی۔ پھر جب حاملہ اور مرضعہ کے لیے افطار کو مباح کرنے اور ان پر فدیہ واجب کرنے کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ قول ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) قرار پائے اور دوسری طرف سلف کا یہ قول موجود ہو جس کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں کہ فدیہ یا روزہ میں سے ایک چیز واجب ہے، دونوں جمع نہیں ہوسکتے تو پھر حاملہ اور مرضعہ پر دونوں چیزیں واجب کرنے کے لیے اس سے استدلال کیسے درست ہوگا۔ ایک اور پہلو سے اس کا جائزہ لیجیے، یہ بات واضح ہے کہ اللہ تبارک کے اس قول ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) میں افطار کا لفظ مخدوف ہے گویا عبارت اس طرح ہے ” وعلی الذین یطیقونہ اذا افطرو فدیۃ طعام مسکین ( اور ان لوگوں پر جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں جب روزہ نہ رکھیں ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا فدیہ ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے وجوب کے لیے صرف فدیہ کے ذکر پر اقتصار کیا ہے تو اس کے ساتھ کسی اور چیز کو واجب کردینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس سے نص میں زیادتی لازم آئے گی جو صرف اسی صورت میں جائز ہوتی ہے جب کسی اور نص کے ذریعے ہو۔ پھر حاملہ اور مرضعہ شیخ کبیر کی طرح بھی نہیں ہیں جس سے روزہ رکھنے کی کوئی امید نہیں ہوتی اس لیے کہ اس بارے میں اس کی طرف سے پوری مایوسی ہوتی ہے اس بنا پر اس پر قضا لازم نہیں ہوت اور جو چیز اس پر لاز م آتی ہے یعنی اطعام وہ اس کے لیے فدیہ بن کر اس کے چھوڑے ہوئے روزہ کے قائم مقام بن جاتی ہے اور حاملہ اور مرضعہ سے چونکہ قضا کی امید کی جاسکتی ہے اس بنا پر ان کی حیثیت مریض اور مسافر جیسی ہوگی۔ حضرت ابن عباس کا ظاہر آیت سے استدلال کرنا اس لیے درست رہا ہے کہ آپ صرف فدیہ کے وجوب کے قائل ہیں، قضا کے نہیں۔- تا ہم اگر حاملہ اور مرضعہ کو صرف اپنے بچوں کی جان کا خطرہ ہو اور اپنی جان کا نہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں گی اور اس طرح ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) کا ظہر ان دونوں کو بھی شامل ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) کا یہی قول ہے۔ ہم سے محمد بن بکر نے ، ان سے ابودائود نے ، ان سے موسیٰ بن اسماعیل نے ان سے ابان نے ، ان سے قتادہ نے یہ بیان کیا کہ عکرمہ نے بتایا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تھا کہ ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) میں دی گئی رعایت حاملہ اور مرضعہ کے لیے باقی رہی) ہم سے محمد بکر نے، ان سے ابودائود ن ان سے ابن المثنیٰ نے ، ان سے ابن عدی نے سعید سے انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے عزرہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) کی تفسیر میں بیان فرمایا کہ شیخ کبیر اور عورت کو طاقت صوم کے باوجود یہ رعایت حاصل تھی کہ روزہ نہ رکھیں اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ حاملہ اور مرضعہ کو جب اپنے بچوں کی جان کا خطرہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں اور کھانا کھلا دیں۔ - حضرت ابن عباس (رض) نے ظاہر آیت سے استدلال کرتے ہوئے فدیہ واجب کردیا، قضا واجب نہیں کی۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ روزہ کی طاقت رکھتی ہیں اس لیے آیت کا حکم ان دونوں کو بھی شامل ہوگیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن فقہاء نے اس تشریح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ان کا خیال ہے کہ حضرت ابن عباس اور دوسرے حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ اس آیت میں جو حکم وارد وا ہے وہ ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو روزے کی طاقت رکھتے تھے اس طرح انہیں روزہ اور فدیہ کے درمیان اختیار دے دیا گیا تھا۔ اب یہ حکم لامحالہ اس شخص کو بھی لاحق ہوگا جو تندرست اور مقیم ہوتے ہوئے روزہ رکھنے کی طاقت بھی رکھتا ہو لیکن اس حکم کا اطلاق حاملہ او مرضعہ پر جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ انہیں سرے سے اختیار ہی نہیں ملا ہے۔- ان کی صورت تو یہ ہے کہ اگر انہیں خوف ضرر ہو تو بلا تخییر روزہ چھوڑ دیں۔ اور اگر خوف نہ ہو تو بلا تخییر روزہ رکھیں۔ اب یہ بات تو درست نہیں ہوسکتی کہ آیت کے دو گروہوں پر ایسا حکم لگا دیا جائے کہ ظاہر آیت کا تقاضا تو وجوب فدیہ ہو اور اس سے مراد ایک فریق کے حق میں ہو کہ اسے اطعام اور صوم کے درمیان اختیار مل جائے اور دوسرے فریق کے حق میں یہ ہو اس پر یا تو بلا تخییر روزہ واجب کردیا جائے یا بلا تخییر فدیہ لازم کردیا جائے ۔ حالانکہ ان دونوں گروہوں کو آیت کے الفاظ یکساں طور پر شامل تھے۔- اس لیے درج بالا تنقیح سے یہ بات ثابت کہ آیت حاملہ اور مرضعہ کو شامل ہی نہیں تھی اور ( وان تصومو خیر لکم) سے بھی اس دعوے پر دلیل لائی جاسکتی ہے۔ اس میں حاملہ اور مرضعہ کے متعلق حکم نہیں ہے جب انہیں اپنے بچوں کی جان کا خطرہ ہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں ان دونوں - کے لیے روزہ رکھنا بہتر نہیں ہوگا۔ درج بالا حقیقت پر حضرت انس بن مالک کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزے کے حکم میں مریض اور مسافر، حاملہ اور مرضعہ کو یکساں درجے پر رکھا تھا۔
(١٨٤) تیس، دن تک روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے اس مقام پر تقدیم وتاخیر ہے اور جو شخص بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان میں روزے نہ رکھ سکے تو دوسرے دنوں میں جتنے اس نے رمضان المبارک میں روزے نہیں رکھے ہیں اتنے ہی روزے رکھ لے اور جو حضرات روزے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں تو ہر روزہ کے بدلہ میں جس کو اس نے رمضان میں کھولا ہے نصف صاع گیہوں (گندم) کا ایک مسکین کو دے دے مگر یہ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “۔ سے منسوخ ہے اور (آیت) ” علی الذین یطیقونہ “۔ کے یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ جو حضرات فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں مگر روزہ نہیں رکھ سکتے، یعنی بہت ہی بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہر ایک روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں یعنی رمضان المبارک میں جو بھی روزہ کھولا ہے اس کے عورض ایک مسکین کو آدھا صاع گندم دے دیں اور جو اس مقدار مقررہ سے زیادہ دے دے تو یہ اس کے لیے ثواب کے زیادہ ہونے کا باعث ہے اور فدیہ سے روزہ بہتر ہے جب کہ تم اس چیز کو بخوبی جانتے ہو۔- شان نزول : وعلی الذین یطیقونہ “۔ (الخ)- طبقات میں ابن سعد (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ آیت کریمہ قیس بن سائب کے متعلق نازل ہوئی ہے کہ روزہ کھول دو اور ہر ایک روزہ کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلادو۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٨٤ (اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ط) - مَعْدُوْدٰت جمع قلت ہے ‘ جو تین سے نو تک کے لیے آتی ہے۔ یہ گویا اس کا ثبوت ہے کہ یہاں مہینے بھر کے روزے مراد نہیں ہیں۔ - ( فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ ) (فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ ط) (وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ط) - ان آیات کی تفسیر میں ‘ جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ میں نے اپنے مطالعے کے بعد جو رائے قائم کی ہے َ میں صرف وہی بیان کر رہا ہوں کہ اس وقت امام رازی (رح) کے بقول یہ فرضیتّ علی التّعیین نہیں تھی بلکہ علی التّخییر تھی۔ یعنی روزہ فرض تو کیا گیا ہے لیکن اس کا بدل بھی دیا جا رہا ہے کہ اگر تم روزہ رکھنے کی استطاعت کے باوجود نہیں رکھنا چاہتے تو ایک مسکین کو کھانا کھلا دو ۔ چونکہ روزے کے وہ پہلے سے عادی نہیں تھے ‘ لہٰذا انہیں تدریجاً اس کا خوگر بنایا جا رہا تھا۔ (فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَّہٗ ط) ۔ - اگر کوئی روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے تو یہ اس کے لیے بہتر ہوگا۔- (وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ )- یہاں بھی ایک طرح کی رعایت کا انداز ہے۔ یہ دو آیات ہیں جن میں میرے نزدیک روزے کا پہلا حکم دیا گیا ‘ جس کے تحت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان نے ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان روزوں کا حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان کو اپنے طور پر دیا ہو اور بعد میں ان آیات نے اس کی توثیق کردی ہو۔- اب وہ آیات آرہی ہیں جو خاص رمضان کے روزے سے متعلق ہیں۔ ان میں سے دو آیات میں روزے کی حکمت اور غرض وغایت بیان کی گئی ہے۔ پھر ایک طویل آیت روزہ کے احکام پر مشتمل ہے اور آخر میں ایک آیت گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :184 یعنی ایک سے زیادہ آدمیوں کو کھانا کھلائے ، یا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :185 یہاں تک وہ ابتدا ئی حکم ہے ، جو رمضان کے روزوں کے متعلق سن ۲ ہجری میں جنگ ِ بدر سے پہلے نازل ہوا تھا ۔ اس کے بعد کی آیات اس کے ایک سال بعد نازل ہوئیں اور مناسبتِ مضمون کی وجہ سے اسی سلسلہء بیان میں شامل کر دی گئیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :186 “سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیار ِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ ؓ سفر میں جایا کرتے تھے ، ان میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دُوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا ۔ خود آنحضرت ؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے ۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گر گیا اور اس کے گرد لوگ جمع ہو گئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے ۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے ۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو ۔ حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے ۔ پہلی مرتبہ جنگِ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکّہ کے موقی پر ، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے ۔ ابنِ عمر ؓ کا بیان ہے کہ فتحِ مکّہ کے موقع پر حضُور ؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فا فطر و ا ۔ دُوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قد د نو تم من عد و کم فا فطر و ا ا قوی لکم ۔ یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے ، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو ۔ عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جاسکتا ہے ، حضُور ؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ کرام ؓ کا عمل اس باب میں مختلف ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافر انہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے ، وہ افطار کے لیے کافی ہے ۔ یہ امر مُتَّفَق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو ، اس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اس کو اختیار ہے ۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے ، اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے ۔ دونوں عمل صحابہ ؓ سے ثابت ہیں ۔ یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو ، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجُود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں ، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے ۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے ۔ مگر علّامہ ابن تیمیّہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے ۔
شروع میں جب روزے فرض کئے گئے تو یہ آسانی بھی دی گئی تھی کہ اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کے بجائے فدیہ ادا کردے تو یہ بھی جائز ہے، بعد میں آیت نمبر : ١٨٥ نازل ہوئی جو آگے آرہی ہے اس آیت نے اس سہولت کو واپس لے لیا اور یہ حتمی حکم دے دیا گیا کہ جو شخص بھی رمضان کا مہینہ پائے وہ روزے رکھے، تاہم فدیہ کی سہولت ان لوگوں کے لئے اب بھی باقی رکھی گئی ہے جو نہایت بوڑھے ہوں اور ان میں روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہ ہو اور آئندہ ایسی طاقت پیدا ہونے کی امید بھی نہ ہو۔