Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نزول قرآن اور ماہ رمضان ماہ رمضان شریف کی فضیلت وبزرگی کا بیان ہو رہا ہے اسی ماہ مبارک میں قرآن کریم اترا مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور توراۃ چھٹی تاریخ اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارھویں کو اور انجیل اٹھارہویں کو ، اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل و زبور جس پیغمبر پر اتریں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزت سے آسمانی دنیا تک تو ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتًا فوقتًا حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا یہی مطلب آیت ( اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ) 97 ۔ القدر:1 ) آیت اور آیت ( اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ ) 44 ۔ الدخان:3 ) اور آیت ( اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ) 2 ۔ البقرۃ:185 ) مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضان المبارک کے مہینے میں لیلتہ القدر کو نازل ہوا اور اسی کو لیلہ مبارکہ بھی کہا ہے ، ابن عباس وغیرہ سے یہی مروی ہے ، آپ سے جب یہ سوال ہوا کہ قران کریم تو مختلف مہینوں میں برسوں میں اترتا رہا پھر رمضان میں اور وہ بھی لیلتہ القدر میں اترنے کے کیا معنی؟ تو آپ نے یہی مطلب بیان کیا ( ابن مردویہ وغیرہ ) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آدھی رمضان میں قرآن کریم دنیا کے آسمان کی طرف اترا بیت العزۃ میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت واقعات اور سوالات پر تھوڑا تھوڑا اترتا رہا اور بیس سال میں کامل ہوا اس میں بہت سی آیتیں کفار کے جواب میں بھی اتریں کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن کریم ایک ساتھ سارا کیوں نہیں اترا ؟جس کے جواب میں فرمایا گیا آیت ( لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا ) 25 ۔ الفرقان:32 ) یہ اس لئے کہ تیرے دل کو برقرار اور مضبوط رکھیں پھر قرآن کریم کی تعریف میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کی ہدایت ہے اور اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں تدبر اور غور و فکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے یہ حق وباطل حرام وحلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے ہدایت وگمراہی اور رشدوبرائی میں علیحدگی کرنے والا ہے ، بعض سلف سے منقول ہے کہ صرف رمضان کہنا مکروہ ہے شہر رمضان یعنی رمضان کا مہینہ کہنا چاہے ، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے رمضان نہ کہو یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے شہر رمضان یعنی رمضان کا مہینہ کہا کرو ، حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور محمد بن کعب سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت ابن عباس اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مذہب اس کے خلاف ہے ، رمضان نہ کہنے کے بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے لیکن سندا وہ وہی ہے امام بخاری نے بھی اس کے رد میں باب باندھ کر بہت سی حدیثیں بیان فرمائی ہیں ایک میں ہے جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور نیک نیتی کے ساتھ رکھے اس کے سبب اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں وغیرہ غرض اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب رمضان کا چاند چڑھے کوئی شخص اپنے گھر ہو ، سفر میں نہ ہو اور تندرست بھی ہو اسے روزے رکھنے لازمی اور ضروری ہیں ، پہلے اس قسم کے لوگوں کو بھی جو رخصت تھی وہ اٹھ گئی اس کا بیان فرما کر پھر بیمار اور مسافر کے لئے رخصت کا بیان فرمایا کہ یہ لوگ روزہ ان دنوں میں نہ رکھیں اور پھر قضا کرلیں یعنی جس کے بدن میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے روزے میں مشقت پڑے یاتکلیف بڑھ جائے یا سفر میں ہو تو افطار کرلے اور جتنے روزے جائیں اتنے دن پھر قضا کرلے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان حالتوں میں رخصت عطا فرما کر تمہیں مشقت سے بچا لینا یہ سراسر ہماری رحمت کا ظہور ہے اور احکام اسلام میں آسانی ہے ، اب یہاں چند مسائل بھی سنئے ( ١ ) سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مقیم ہو اور چاند چڑھ جائے رمضان شریف کا مہینہ آجائے پھر درمیان میں اسے سفر درپیش ہو تو اسے روزہ ترک کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو روزہ رکھنے کا صاف حکم قرآن پاک میں موجود ہے ، ہاں ان لوگوں کو بحالت سفر روزہ چھوڑناجائز ہے جو سفر میں ہوں اور رمضان کا مہینہ آجائے ، لیکن یہ قول غریب ہے ، ابو محمد بن حزم نے اپنی کتاب محلی میں صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے لیکن اس میں کلام ہے واللہ اعلم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں فتح مکہ کے غزوہ کے لئے نکلے روزے سے تھے کدید میں پہنچ کر روزہ افطار کیا اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں ( متفق علیہ ) ( ٢ ) صحابہ رحمۃ اللہ تابعین کی ایک اور جماعت نے کہا کہ سفر میں روزہ توڑ دینا واجب ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت ( فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ) 2 ۔ البقرۃ:185 ) لیکن صحیح قول جو جمہور کا مذہب ہے یہ ہے کہ آدمی کو اختیار ہے خواہ رکھے خواہ نہ رکھے اس لئے کہ ماہ رمضان میں لوگ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلتے تھے بعض روزے سے ہوتے تھے بعض روزے سے نہیں ہوتے تھے پس روزے دار بےروزہ پر اور بےروزہ دار روزہ دار پر کوئی عیب نہیں پکڑاتا تھا اگر افطار واجب ہوتا تو روزہ رکھنے والوں پر انکار کیا جاتا ، بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے ، بخاری ومسلم میں ہے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رمضان المبارک میں سخت گرمی کے موسم میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے گرمی کی شدت کی وجہ سے سر پر ہاتھ رکھے رکھے پھر رہے تھے ہم میں سے کوئی بھی روزے سے نہ تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کے ۔ ( ٣ ) تیسرا مسئلہ ۔ ایک جماعت علماء کا خیال ہے جن میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنے سے افضل ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے ، ایک دوسری جماعت کا خیال ہے کہ روزہ نہ رکھنا افضل ہے کیونکہ اس میں رخصت پر عمل ہے ، اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر کے روزے کی بابت سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو روزہ توڑ دے اس نے اچھا کیا اور جو نہ توڑے اس پر کوئی گناہ نہیں ایک اور حدیث شریف میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی رخصتوں کو جو اس نے تمہیں دی ہیں تم لے لو ۔ تیسری جماعت کا قول ہے کہ رکھنا نہ رکھنا دونوں برابر ہے ۔ ان کی دلیل حضرت عائشہ والی حدیث ہے کہ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں روزے اکثر رکھا کرتا ہوں تو کیا اجازت ہے کہ سفر میں بھی روزے رکھ لیا کروں فرمایا اگر چاہو نہ رکھو ( بخاری ومسلم ) بعض لوگوں کا قول ہے کہ اگر روزہ بھاری پڑتا ہو تو افطار کرنا افضل ہے ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا اس پر سایہ کیا گیا ہے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ روزے سے ہے آپ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ( بخاری ومسلم ) یہ خیال رہے کہ جو شخص سنت سے منہ پھیرے اور روزہ چھوڑنا سفر کی حالت میں بھی مکروہ جانے تو اس پر افطار ضروری ہے اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔ مسند احمد وغیرہ میں حضرت ابن عمر حضرت جابر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے مروی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول نہ کرے اس پر عرفات کے پہاڑوں برابر گناہ ہوگا ۔ چوتھا مسئلہ: آیا قضاء روزوں میں پے درپے روزے رکھنے ضروری ہیں یا جدا جدا بھی رکھ لئے جائیں تو حرج نہیں؟ ایک مذہب بعض لوگوں کا یہ ہے کہ قضا کو مثل ادا کے پورا کرنا چاہئے ، ایک کے پیچھے ایک یونہی لگاتار روزے رکھنے چاہئیں دوسرے یہ کہ پے درپے رکھنے واجب نہیں خواہ الگ الگ رکھے خواہ ایک ساتھ اختیار ہے جمہور سلف وخلف کا یہی قول ہے اور دلائل سے ثبوت بھی اسی کا ہے ، رمضان میں پے درپے رورزے رکھنا اس لئے ہیں کہ وہ مہینہ ہی ادائیگی روزہ کا ہے اور رمضان کے نکل جانے کے بعد تو صرف وہ گنتی پوری کرنی ہے خواہ کوئی دن ہو اسی لئے قضاء کے حکم کے بعد اللہ کی آسانی کی نعمت کا بیان ہوا ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو ، بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو ، مسند ہی میں ایک اور حدیث میں ہے ، عروہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے کہ آپ تشریف لائے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے معلوم ہوتا تھا کہ وضو یا غسل کر کے تشریف لا رہے ہیں جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوالات کرنے شروع کر دئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا فلاں کام میں کوئی حرج ہے؟ فلاں کام میں کوئی حرج ہے؟ آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کا دین آسانیوں والا ہے تین مرتبہ یہی فرمایا ، مسند ہی کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں آسانی کرو سختی نہ کرو تسکین دو نفرت نہ دلاؤ ، بخاری ومسلم کی حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ کو جب یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا تم دونوں خوشخبریاں دینا ، نفرت نہ دلانا ، آسانیاں کرنا سختیاں نہ کرنا ، آپس میں اتفاق سے رہنا اختلاف نہ کرنا سنن اور مسانید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں یکطرفہ نرمی اور آسانی والے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں ، محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا غور سے آپ اسے دیکھتے رہے پھر فرمایا کیا تم اسے سچائی کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تمام اہل مدینہ سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے نہ سناؤ کہیں یہ اس کی ہلاکت کا باعث نہ ہو سنو اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس امت کے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ، پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ مریض اور مسافر وغیرہ کو یہ رخصت دینا اور انہیں معذور جاننا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ آسانی کا ہے سختی کا نہیں اور قضا کا حکم گنتی کے پورا کرنے کے لئے ہے اور اس رحمت نعمت ہدایت اور عبادت پر تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑائی اور ذکر کرنا چاہئے جیسے اور جگہ حج کے موقع پر فرمایا آیت ( فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا ) 2 ۔ البقرۃ:200 ) یعنی جب احکام حج ادا کر چکو تو اللہ کا ذکر کرو اور جگہ جعمہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد فرمایا کہ جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور رزق تلاش کرو اور اللہ کا ذکر زیادہ کرو تاکہ تمہیں فلاح ملے ، اور جگہ فرمایا آیت ( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ) 15 ۔ الحجر:98 ) یعنی سورج کے نکلنے سے پہلے سورج کے ڈوبنے سے پہلے رات کو اور سجدوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کیا کرو ، اسی لئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد تسبیح اور تکبیر پڑھنی چاہئے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز سے فارغ ہونا صرف اللہ اکبر کی آوازوں سے جانتے تھے ، یہ آیت دلیل ہے اس امر کی کہ عیدالفطر میں بھی تکبیریں پڑھنی چاہئیں داود ، بن علی اصبہانی ظاہری کا مذہب ہے کہ اس عید میں تکبیروں کا کہنا واجب ہے کیونکہ اس میں صیغہ امر کا ہے ولتکبرو اللہ اور اس کے بالکل برخلاف حنفی مذہب ہے وہ کہتے ہیں کہ اس عید میں تکبیریں پڑھنا مسنون نہیں ، باقی بزرگان دین اسے مستحب بتاتے ہیں گو بعض تفصیلوں میں قدرے اختلاف ہے پھر فرمایا تاکہ تم شکر کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لا کر اس کے فرائض کو ادا کر کے اس کے حرام کردہ کاموں سے بچ کر اس کی حدود کی حفاظت کر کے تم شکر گزار بندے بن جاؤ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

185۔ 1 رمضان میں نزول قرآن کا یہ مطلب نہیں کہ مکمل قرآن کسی ایک رمضان میں نازل ہوگیا بلکہ یہ ہے کہ رمضان کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتار دیا گیا اور وہاں سے حسب حالات 2 سالوں تک اترتا رہا (ابن کثیر) ۔ اس لئے یہ کہنا قرآن رمضان میں یا لیلۃ القدر مبارکہ میں اترا یہ سب صیح ہے۔ کیونکہ لوح محفوظ سے تو رمضان میں ہی اترا ہے اور لیلۃ القدر اور لیلۃ المبارکہ یہ ایک ہی رات ہے یعنی قدر کی رات جو رمضان میں ہی آتی ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ رمضان میں نزول قرآن کا آغاز ہوا اور وحی جو غار حرا میں آئی وہ رمضان میں آئی۔ اس اعتبار سے قرآن مجید اور رمضاں المبارک کا آپس میں نہایت گہرا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس ماہ مبارک میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور جس سال آپ کا وصال ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان میں جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا رمضان کی تین راتوں (23۔ 25۔ اور 27) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو باجماعت قیام اللیل بھی کرایا جس کو اب تراویح کہا جاتا ہے (صحیح ترمذی وسنن ابن ماجہ البانی) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣٦] تمام کتب سماوی اور اسی طرح قرآن کریم رمضان ہی میں نازل ہوئیں اور قرآن لیلۃ القدر کو سارے کا سارا آسمان دنیا پر نازل کردیا گیا۔ پھر تھوڑا تھوڑا کر کے حالات کے مطابق آپ پر نازل ہوتا رہا جو سراپا ہدایت اور حق و باطل میں تمیز کرنے والی کتاب ہے۔ اس آیت سے قرآن اور رمضان کا خصوصی تعلق معلوم ہوا۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان میں جبریل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور فرمایا کرتے اور زندگی کے آخری رمضان میں دو بار دور فرمایا۔ مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ رمضان میں بطور خاص قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کریں۔ اسی لیے رمضان میں قیام اللیل کی خصوصی تاکید کی گئی۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص رمضان کی راتوں میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے، اس کے پہلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب تطوع قیام رمضان من الایمان) - [٢٣٧] حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ کا قاعدہ تھا کہ جب آپ کو دو باتوں کا اختیار دیا جاتا تو آپ وہ بات اختیار کرتے جو آسان ہوتی۔ بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو (بخاری کتاب المناقب باب صفہ النبی پھر آپ نے فرمایا (لوگوں پر) آسانی کرو، سختی نہ کرو اور خوشی کی بات سناؤ، نفرت نہ دلاؤ۔ (بخاری، کتاب العلم، باب کان النبی یتخولھم بالموعظہ والعلم) - [٢٣٨] ان رخصتوں اور اللہ کی مہربانیوں کی وجہ سے تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ جس نے ہر قسم کے لوگوں کا لحاظ رکھ کر ایسے احکام فرمائے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یعنی وہ ” اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ۭ“ ماہ رمضان ہیں۔ - (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ) یعنی اس ماہ لیلۃ القدر میں قرآن کا نزول شروع ہوا، پھر تیئیس برس میں تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا گیا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ماہ رمضان کو قرآن مجید کے ساتھ خاص تعلق ہے، اس میں کثرت کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور قیام ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان میں ہر رات جبریل (علیہ السلام) کے ساتھ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے۔ [ بخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی : ٦ ] صحابہ کرام اور دوسرے سلف صالحین کے عمل سے بھی رمضان میں قرآن سے خصوصی شغف ثابت ہے۔ بہت سی احادیث میں ماہ رمضان کی راتوں میں قیام کی فضیلت آئی ہے، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس شخص نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کا قیام کیا، اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ “ [ بخاری، الصوم، باب فضل من قام رمضان : ٢٠٠٩ ] ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان کی ٢٣ ویں، ٢٥ ویں اور ٢٧ ویں رات جماعت کے ساتھ قیام کروایا۔ [ أبو داوٗد، تفریع أبواب شہر رمضان، باب فی قیام شہر رمضان : ١٣٧٥، بسند صحیح ] ابو سلمہ (رض) نے عائشہ (رض) سے پوچھا کہ رمضان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کس طرح تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ آپ رمضان ہو یا غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ [ بخاری، صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان : ٢٠١٣ ] عمر (رض) نے تمام لوگوں کو ایک امام پر جمع کردیا، چناچہ ابی بن کعب اور تمیم داری (رض) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت قیام کروائیں۔ [ الموطأ، باب قیام شہر رمضان : ٢٤١ بسند صحیح ] بیس رکعت پڑھنا یا اس کا حکم دینا صحیح سند کے ساتھ نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے نہ عمر (رض) سے۔ بعض روایات میں عمر (رض) کے زمانے میں بعض لوگوں سے بیس رکعت پڑھنے کا ذکر آیا ہے، موطا کی صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر (رض) نے ابی بن کعب اور تمیم داری (رض) کو خاص طور پر گیارہ رکعت کا حکم انھی لوگوں کے اس عمل کو ختم کرنے کے لیے دیا تھا۔ - ( ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ ) یعنی قرآن لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس کے ساتھ اس میں ہدایت اور حق و باطل میں فرق کرنے والے دلائل بھی ہیں۔ ہدایت ایک عام ہوتی ہے اور ایک وہ ہدایت جس کے ساتھ دلیل بھی ہو، سو اس میں صرف ہدایت ہی نہیں بلکہ اس کے دلائل بھی ہیں۔ (التسہیل)- (فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) یعنی اس ماہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد جو گھر میں موجود ہو وہ ضرور روزہ رکھے۔ - وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) اس آیت سے علمائے کرام نے روزوں کی تکمیل پر اس کا شکر ادا کرنے کے لیے عید الفطر کا اہتمام اور اس کے لیے جاتے اور واپس آتے ہوئے تکبیرات کا اہتمام اخذ کیا ہے۔ جس کی عملی تفسیر احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور ربط آیات :- تعیین ایام صیام :- اوپر ارشاد ہوا تھا کہ تھوڑے روزہ رکھ لیا کرو آگے ان تھوڑے دنوں کا بیان ہے،- (وہ تھوڑے ایام جن میں روزے کا حکم ہوا ہے) ماہ رمضان ہے جس میں (ایسی برکت ہے کہ اس کے ایک خاص حصہ یعنی شب قدر میں) قرآن مجید (لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر) بھیجا گیا ہے جس کا (ایک) وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لئے (ذریعہ) ہدایت ہے اور (دوسرا وصف یہ ہے کہ ہدایت کے طریقے بتلانے میں اس کا جزو جزو) واضح الدلالۃ ہے (اور ان دونوں وصفوں میں) منجملہ ان کتب (سماویہ) کے ہے جو کہ (انہی دو وصفوں سے موصوف ہیں یعنی ذریعہ) ہدایت (بھی) ہیں اور (وضوح دلالت کی وجہ سے حق و باطل کے درمیان) فیصلہ کرنے والی (بھی) ہیں سو جو شخص اس ماہ میں موجود ہو اس کو ضرور اس میں روزہ رکھنا چاہئے (اور وہ فدیہ کی اجازت جو اوپر مذکور تھی منسوخ و موقوف ہوئی) اور (مریض اور مسافر کے لئے جو اوپر قانون تھا وہ البتہ اب بھی اسی طرح باقی ہے کہ) جو شخص (ایسا) بیمار ہو (جس میں روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں ہو تو (اس کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور بجائے ایام رمضان کے) دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کر کے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب ہے) اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ (احکام میں) آسانی (کی رعایت کرنا منظور ہے (اس لئے ایسے احکام مقرر کئے جن کو تم آسانی سے بجا لاسکو چناچہ سفر اور مرض میں کیسا آسان قانون مقرر کردیا) اور تمہارے ساتھ (احکام و قوانین مقرر کرنے میں) دشواری منظور نہیں (کہ سخت احکام تجویز کردیتے) اور (یہ احکام مذکورہ ہم نے خاص خاص مصلحتوں سے مقرر کئے چناچہ اولا روزہ ادا رکھنے کا اور کسی شرعی عذر سے رہ جاوے تو دوسرے ایام میں قضا کرنے کا حکم تو اسی لئے کیا) تاکہ تم لوگ (ایام ادا یا قضاء کی) شمار کی تکمیل کرلیا کرو تاکہ ثواب میں کمی نہ رہے اور خود قضا رکھنے کا حکم اس لئے کیا تاکہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور ثناء بیان کیا کرو اس پر کہ تم کو (ایک ایسا) طریقہ بتلا دیا (جس سے تم برکات وثمرات صیام سے محروم نہ رہو ورنہ اگر قضا واجب نہ ہوتی تو کون اتنے روزے رکھ کر ثواب حاصل کرتا) اور (عذر سے خاص رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت اس لئے دے دی) تاکہ تم لوگ (اس نعمت آسمانی پر اللہ تعالیٰ کا) شکر ادا کیا کرو (ورنہ اگر یہ اجازت نہ ہوتی تو سخت مشقت ہوجاتی) - معارف و مسائل :- اس آیت میں پچھلی مجمل آیت کا بیان بھی ہے اور ماہ رمضان کی اعلیٰ فضیلت کا ذکر بھی، بیان اس لئے کہ پچھلی آیات میں اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ کا لفظ مجمل ہے جس کی شرح اس آیت نے کردی کہ وہ پورے ماہ رمضان کے ایام ہیں اور فضیلت یہ بیان کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو اپنی وحی اور آسمانی کتابیں نازل کرنے کے لئے منتخب کر رکھا ہے چناچہ قرآن بھی اسی ماہ میں نازل ہوا مسند احمد میں حضرت واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفے رمضان کی پہلی تاریخ میں نازل ہوئے اور تورات چھ رمضان میں، انجیل تیرہ رمضان اور قرآن چوبیس رمضان میں نازل ہوا، اور حضرت جابر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ زبور بارہ رمضان میں انجیل اٹھارہ رمضان میں نازل ہوئی (ابن کثیر) - حدیث مذکور میں پچھلی کتابوں کا نزول جس تاریخ میں ذکر کیا گیا ہے اسی تاریخ میں وہ کتابیں پوری کی پوری انبیاء پر نازل کردی گئی ہیں قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ رمضان کی ایک رات میں پورا کا پورا لوح محفوظ سے سماء دنیا پر نازل کردیا گیا مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کا نزول تیئیس سال میں رفتہ رفتہ ہوا،- رمضان کی وہ رات جس میں قرآن نازل ہوا قرآن ہی کی تصریح کے مطابق شب قدر تھی اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ مذکور الصدر حدیث میں اس کو ٢٤ رمضان کی شب بتلایا ہے اور حضرت حسن کے نزدیک چوبیسویں شب شب قدر ہوتی ہے اس طرح یہ حدیث آیت قرآن کے مطابق ہوجاتی ہے اور اگر یہ مطابقت نہ تسلیم کی جائے تو بہرحال قرآن کریم کی تصریح سب پر مقدم ہے جو رات بھی شب قدر ہو وہی اس کی مراد ہوگی،- فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ اس ایک جملہ میں روزے کے متعلق بہت سے احکام و مسائل کی طرف اشارات ہیں لفظ شہد شہود سے بنا ہے جس کے معنی حضور یعنی حاضر و موجود ہونے کے ہیں اور الشھر عربی لغت میں مہینہ کے معنی میں آتا ہے مراد اس سے مہینہ رمضان کا ہے جس کا ذکر اوپر آیا ہے اس لئے معنی اس جملے کے یہ ہوگئے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں حاضر یعنی موجود ہو اس پر لازم ہے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے روزہ کے بجائے فدیہ دینے کا عام اختیار جو اس سے پہلی آیت میں مذکور ہے اس جملے نے منسوخ کرکے روزہ ہی رکھنا لازم کردیا ہے،- ماہ رمضان میں حاضر و موجود ہونے کا مفہوم یہی ہے کہ وہ ماہ رمضان کو ایسی حالت میں پائے کہ اس میں روزہ رکھنے کی صلاحیت موجود ہو یعنی مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، حیض ونفاس سے پاک ہو،- اسی لئے جس شخص کا پورا رمضان ایسی حالت میں گذر گیا کہ اس میں روزہ رکھنے کی مطلق صلاحیت ہی نہیں جیسے کافر، نابالغ، مجنون، تو یہ لوگ اس حکم کے مخاطب ہی نہیں اس لئے ان پر گذشتہ رمضان کے روزے فرض ہی نہیں ہوئے اور جن میں صلاحیت ذاتی طور پر موجود ہے مگر کسی وقت عذر کی وجہ سے مجبور ہوگئے جیسے حیض ونفاس والی عورت یا مریض اور مسافر، تو انہوں نے ایک حیثیت سے ماہ رمضان بحالت صلاحیت پالیا اس لئے حکم آیت کا ان کے حق میں ثابت ہوگیا مگر وقتی عذر کے سبب اس وقت روزہ معاف ہے البتہ بعد میں قضاء لازم ہے جیسا کہ اس کے بعد تفصیل آئے گی، - مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے لئے ماہ رمضان کا بحالت صلاحیت پالینا شرط ہے اس لئے جس نے پورا رمضان پالیا اس پر پورے رمضان کے روزے فرض ہوگئے جس نے کچھ کم پایا اس پر اتنے ہی دن کے روزے فرض ہوئے جتنے دن رمضان کے پائے اس لئے وسط رمضان میں جو کافر مسلمان ہوا یا نابالغ بالغ ہوا اس پر صرف آئندہ کے روزے لازم ہوں گے گذشتہ ایام رمضان کی قضاء لازم نہ ہوگی، البتہ مجنون مسلمان اور بالغ ہونے کے اعتبار سے ذاتی صلاحیت رکھتا ہے وہ رمضان کے کسی حصہ میں ہوش میں آجائے تو گذشتہ ایام رمضان کی قضا بھی اس پر لازم ہوجائے گی اسی طرح حیض ونفاس والی عورت، وسط رمضان میں پاک ہوجائے یا مریض تندرست ہوجائے یا مسافر مقیم ہوجائے تو گدشتہ ایام کی قضاء لازم ہوگی،- مسئلہ : ماہ رمضان کا پالینا شرعاً تین طریقوں سے پابت ہوتا ہے ایک یہ کہ خود رمضان کا چاند دیکھ لے دوسرے یہ کہ کسی معتبر شہادت سے چاند دیکھنا ثابت ہوجائے اور جب یہ دونوں صورتیں نہ پائی جائیں تو شعبان کے تیس روز پورے کرنے کے بعد ماہ رمضان شروع ہوجائے گا،- مسئلہ : شعبان کی انتیسویں تاریخ کی شام کو اگر ابر وغیرہ کے سبب چاند نظر نہ آئے اور کوئی شرعی شہادت بھی چاند دیکھنے کی نہ پہنچنے تو اگلا روز یوم الشک کہلاتا ہے کیونکہ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ حقیقۃً چاند ہوگیا ہو مگر مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے نظر نہ آیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ آج چاند ہی مطلع پر نہ آیا ہو، اس روز میں چونکہ شہود شہر یعنی رمضان کا پالینا صادق نہیں آتا اس لئے اس دن کا روزہ رکھنا واجب نہیں بلکہ مکروہ ہے حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے تاکہ فرض اور نفل میں اختلاط اور التباس نہ پیدا ہوجائے (جصاص) - مسئلہ : جن ملکوں میں رات دن کئی کئی مہینوں کے طویل ہوتے ہیں وہاں شہود شہر یعنی رمضان کا پالینا بظاہر صادق نہیں آتا اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ ان پر روزے فرض ہی نہ ہوں فقہائے حنفیہ میں سے حلوانی اور قبالی وغیرہ نے نماز کے متعلق تو اسی پر فتویٰ دیا ہے کہ ان لوگوں پر اپنے ہی دن رات کے اعتبار سے نماز کا حکم عائد ہوگا مثلاً جس ملک میں مغرب کے فوراً بعد صبح صادق ہوجاتی ہے وہاں نماز عشاء فرض ہی نہیں (شامی) اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جہاں چھ مہینے کا دن ہے وہاں چھ مہینے میں صرف پانچ نمازیں ہوں گی اور رمضان وہاں آئے گا ہی نہیں اس لئے روزے بھی فرض نہ ہوں گے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی نے امداد الفتاوٰی میں روزے کے متعلق اسی قول کو اختیار فرمایا ہے ،- فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخَرَ اس میں مریض اور مسافر کو رخصت دی گئی ہے کہ وہ اس وقت روزہ نہ رکھیں، تندرستی ہونے پر اور سفر کے ختم ہونے پر اتنے دنوں کی قضاء کرلیں یہ حکم اگرچہ پچھلی آیت میں بھی آچکا تھا مگر جب اس آیت میں روزہ کے بجائے فدیہ دینے کا اختیار منسوخ کیا گیا ہے تو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید مریض اور مسافر کی رخصت بھی منسوخ ہوگئی ہو اس لئے دوبارہ اس کا اعادہ کردیا گیا،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝ ٠ ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝ ٠ ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝ ٠ ۭ يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝ ٠ ۡوَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝ ١٨٥- شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، - ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ - رمض - شَهْرُ رَمَضانَ [ البقرة 185] ، هو من الرَّمْضِ ، أي : شدّة وقع الشمس، يقال :- أَرْمَضَتْهُ فَرَمِضَ ، أي : أحرقته الرَّمْضَاءُ ، وهي شدّة حرّ الشمس، وأرض رَمِضَةٌ ، ورَمِضَتِ الغنم : رعت في الرّمضاء فقرحت أکبادها، وفلان يَتَرَمَّضُ الظّباء، أي : يتبعها في الرّمضاء .- ( ر م ض ) شَهْرُ رَمَضانَ [ البقرة 185] روزوں کا مہینہ یہ رمض سے مشتق ہے جسکے معنی سورج کی سخت تپش کے ہیں ارمضتہ سخت تپش نے اسے جھلس دیا فرمض چناچہ وہ جھلسا گیا ۔ ارض رمضۃ سخت گرم سر زمین ۔ رمضت الغنم سخت گرمی میں باہر چرنے کی وجہ سے بکریوں کے جگر زخمی ہوگئے ۔ فلاں سخت گرم جگہ میں ہرن کا شکار کرتا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] - ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ - فُرْقَانُ- والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون شهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی عطا کی ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] - ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ - عسر - العُسْرُ : نقیض الیسر . قال تعالی: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] ، والعُسْرَةُ : تَعَسُّرُ وجودِ المالِ. قال : فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] ، وقال : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] ، وأَعْسَرَ فلانٌ ، نحو : أضاق، وتَعَاسَرَ القومُ : طلبوا تَعْسِيرَ الأمرِ. وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] ، ويَوْمٌ عَسِيرٌ: يتصعّب فيه الأمر، قال : وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] ، يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] ، وعَسَّرَنِي الرّجلُ : طالبني بشیء حين العُسْرَةِ.- ( ع س ر ) العسر - کے معنی تنگی اور سختی کے ہیں یہ یسر ( آسانی فارغ البالی ) کی ضد ہے قرآن میں ہے : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ العسرۃ تنگ دستی تنگ حسالی قرآن میں ہے : ۔ فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] مشکل کی گھڑی میں ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر قرض لینے والا تندست ہو ۔ اور اضاق فلان کی طرح اعسر فلان کے معنی ہیں وہ مفلس اور تنگ حال ہوگیا تعاسر القوم لوگوں نے معاملہ کو الجھا نے کی کوشش کی قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] اور اگر باہم ضد ( اور نااتفاقی ) کرو گے تو ( بچے کو اس کے ) باپ کے ) کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی ۔ یوم عسیر سخت دن ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] اور وہ دن کافروں پر ( سخت ) مشکل ہوگا ۔ يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] مشکل کا دن ( یعنی ) کافروں پر آسان نہ ہوگا ۔ عسر الرجل تنگدستی کے وقت کسی چیز کا مطالبہ کرنا ۔- كمل - كَمَالُ الشیء : حصول ما فيه الغرض منه . فإذا قيل : كَمُلَ ذلك، فمعناه : حصل ما هو الغرض منه، وقوله تعالی: وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ [ البقرة 233] تنبيها أنّ ذلک غاية ما يتعلّق به صلاح الولد . وقوله : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ- [ النحل 25] تنبيها أنه يحصل لهم کمال العقوبة .- ( ک م ل ) کمال الشی کسی چیز کا ل ہونے سے مراد ہے غرض پوری ہوجانا جس کے لئے وہ وجود میں آتی تھی ۔ چناچہ کے متعلق کمل ذالک کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اس سے مقصود تھا ۔ وہ حاصل ہوگیا ۔ اور آیت کریمہ : ، وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ [ البقرة 233] اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں ۔ میں کاملین سے مراد یہ ہے کہ رضاعت کے لئے دو سال مدت آخر مدت ہے جس سے بچہ کی نشونما اور اس کی بیوی کا تعلق ہے اور آیت کریمہ : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ [ النحل 25] یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال ) پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ انہیں قیامت کے دن پوری سزا ملے گی - عدۃ - وعد بروزن فعلۃ بمعنی معدود ہے جیسے کہ طحن بمعنی مطحون۔ اور اسی بناء پر انسانوں کی گنی ہوئی جماعت کو عدۃ کہتے ہیں اور عورت کی عدت بھی اسی معنی میں ہے یعنی اس کے گنے ہوئے دن ۔ عورت کی عدت سے مراد وہ ایام کہ جن کے گزر جانے پر اس سے نکاح کرنا حلال ہوجاتا ہے۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ارشاد باری ہے ( شھر رمضان الذی انزل فیہ القران۔۔۔۔۔ الایۃ) مصنف کتاب ابوبکر جصاص کہتے ہیں : گزشتہ سطور میں ہم نے ان حضرات کا قول نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ابتدا میں ہر ماہ ک تین روزے فرض تھے اس کے لیے قول باری ہے ص کتب علیکم الصیام تم پر روزے فرض کئے گئے) نیز قول باری ہے ( ایاما معدودات گنتی کے چند دن) پھر یہ حکم اس قول باری سے منسوخ ہوگیا کہ ( شھر رمضان الذی انزل فیہ القران) بعض اہل علم کا قول ہے کہ ( کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم اور ( ایاما معدودات) سے جس چیز کا وجوب ہوا تھا ، یعنی روزہ ( شھر رمضان ) اس کا بیان ہے۔ اس صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی کہ گنتی کے چند دن جو رمضان کے مہینے کے ہیں “ ار ایام معدودات ، کے روزے اللہ تعالیٰ کے اس قول ( شھر رمضان ) تا قول باری ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) سے منسوخ ہوگئے تو اس صورت میں قول باری ( شھر رمضان) کے ذریعے پہلی آیت کے دو حکم منسوخ ہوجائیں گے۔ پہلا ” ایام معدودات “ جو غیر رمضان ہیں اور دوسرا روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے کے درمیان اختیا جو ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) کے ذریعے دیا گیا تھا۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے صفحات میں سلف سے نقل کیا ہے۔ - اگر ( شھر رمضان) اللہ کے قول ( ایاما معدودات) کا بیان قرر دیا جائے تو پھر لا محالہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فرض رمضان کے نزول کے بعد وجوب صوم کے ابتدائی مراحل میں روزہ رکھنے اور کھانا کھلا دینے کے درمیان اختیار باقی تھا اور یہ حکم اسی طرح باقی اور جاری رہا حتیٰ کہ افمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) کے ذریعے اس پر نسخ وارد ہوا اور یہ منسوخ ہوگیا کیونکہ یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ فعل کا وقت آنے سے پہلے اور اس پر عمل درآمد سے قبل ہی اس پر نسخ وار ہوجائے۔ دوسرا قول درست ہے اس لیے ک سلف سے اس بارے میں روایات کی کثرت ہے کہ روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے کے درمیان اختیار رمضان کے روزوں میں تھا اور پھر یہ ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) سے منسوخ ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت کے مضمون میں یہ دلالت موجود ہے کہ ( ایاماً معذودات) سے غیر رمضان مراد ہے۔ اسی لیے کہ سلسلہ کلام میں اس کا ذکر روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے کے درمیان اختیار کے ذکر کے ساتھ مقرون و متصل ہے۔ - اگر ( ایام معدودات) ایسا فرض مجمل ہوتا جس کا حکم کسی بیان پر موقوف ہوتا تو پھر ثبوت فرض سے پہلے تخییر کے ذکر کا کوئی معنی نہ ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کسی ایسے فرض کے ورود میں کوئی امتناع نہیں ہے جو اگر مجمل ہو لیکن اس کے ضمن میں ایسا حکم موجود ہو جس کے معنی سمجھ میں آ رہے ہوں اور بس یہ حکم کسی بیان پر موقوف ہو ، جب یہ بیان آ جائے کہ اس حکم سے کیا مراد ہے تو اس بیان کے ساتھ ہی اس حکم کا ثبوت ہوجائے گا۔ - اس بنا پر تقدیر کلام کچھ اس طرح ہوگی کہ ” گنتی کے چند دن ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ جب ان کا وقت اور ان کی مقدار کا بیان آ جائے تو اس کے حکم کے مخاطب لوگوں کو روزہ رکھنے اور فدیہ دینے کے درمیان اختیار ہوگا “۔ مثلاً قول باری ہے ( خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم، آپ ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کیجئے جس کے ذریعہ انہیں پاک کر دیجئے) یہاں اموال کے لفظ میں عموم تھا جس کا اس سے متعلقہ حکم میں - اعتبار کرنا درست ہوگیا۔ لیکن لفظ صدقہ ایک مجمل لفظ ہے جسے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ جب صدقہ کا بیان آگیا یعنی اس سے مراد کفارہ ذنوب ہے جن میں وہ لوگ مبتلا ہوگئے تھے جو غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ گئے تھے تو اس کے بعد اس میں اموال کے لفظ کے عموم کا اعتبار کرنا بالکل درست رہا۔ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ ایک احتما ل یہ بھی ہے کہ ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) کا نزول بعد میں ہوا ہو اگرچہ تلاوت میں یہ پہلے ہے۔ اس صورت میں تقدیر آیات اور ان کے معانی کی ترتیب اس طرح ہوگی۔ ” گنتی کے چند دن کو ک رمضان کے ہیں ، تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ بعد کے دنوں میں گنتی پوری کرلے، اور ان لوگوں کے ذمہ جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں فدیہ ہے، ایک مسکین کو کھانا کھلانا “ اس صورت میں یہ حکم کچھ عرصے تک باقی اور جاری رہا ہوگا۔ - پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اور اس کے ذریعے روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے کے درمیان اختیار منسوخ ہوگیا۔ اس کی بعینہہ وہی صورت ہے جس کا ہم نے آیت ( واذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ میں ذکر کیا ہے کہ اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ اول یہ کہ گائے ذبح کرنے کے سلسلے میں ایک شخص کے قتل کا ذکر اگرچہ تلاوت میں مئوخر ہے لیکن نزول میں مقدم ہے، اور دوسری تفسیر یہ تھی کہ اس کا نزول اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے اس کی تلاوت ہے اگر معنی کے لحاظ سے مقدم ہے اور حرف وائو کے ذریعے قتل نفس کا ذکر گائے ذبح کرنے کے حکم پر معطوف ہے اور چونکہ حرف عطف وائو میں معطوف علیہ اور معطوف میں ترتیب کا ہونا ضروری نہیں ہوتا اس بنا پر کہا جائے گا کہ گویا سارا واقعہ ایک ساتھ مذکور ہوا ہے۔ - ٹھیک اسی طرح قول باری ( ایاما معدودات) تا قول باری (شھر رمضان ) میں وہ تمام احتمالات ہیں جو گائے کے واقعہ والی آیات میں ہیں۔ ارشاد باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اس میں کئی احکام ہیں پہلا حکم تو یہ ہے کہ جو شخص اس مہینے کو پالے اس پر روزہ واجب ہے اور جو نہ پائے اس پر نہیں۔ اگر سلسلہ آیات میں از ( کتب علیکم) تا قول باری ( شھر رمضان الذی انزل فیہ القران) پر ہی اکتفا کیا جاتا تو اس صورت میں روزہ تمام کے تمام مکلفین کو لازم ہوجاتا لیکن جب اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) تو یہ بیان کردیا گیا کہ روزے کا لزوم سب پر نہیں بلکہ صرف ان لوگوں پر ہے جو اس مہینے کو پالیں۔ اس آیت ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) پر بھی کئی معافی کا توارد ہوا ہے ایک تو یہ کہ جو شخص اس مہینے کا شاہد یعنی پالینے والا ہو اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مقیم ہو مسافر نہ ہو جیسا کہ محاورہ میں مقیم کو شاہد اور مسافر کو غائب کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر روزے کا لزوم مقیم لوگوں کو ہوگا۔ مسافروں کو نہیں۔ پھر اگر سلسلہ کلام میں رمضان کو پالینے والوں کے ذکر پر اقتصار کرلیا جاتا تو اس سے یہ مفہوم ہوتا کہ وجوب صوم کا اقتصار صرف ان ہی لوگوں پر ہے مسافرین پر نہیں ہے کیونکہ ان کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہوا۔ اس بنا پر ان پر روزہ لازم ہوتا ہے نہ اس کی قضا۔ لیکن جب فرمایا گیا ( ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) تو مریض اور مسافر کا حکم بیان ہوگیا کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں ان پر قضا واجب ہے، یہ ساری تفسیر اس صورت کی ہے جب ( فمن شھد منکم الشھر) کا مطلب شہر میں اقامت ہو، خانہ بدوشی نہ ہو، یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا مطلب شاھد الشھر یعنی اس مہنے کا عمل رکھنے والا ہو۔ - ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اس کا مطلب ہے ج شخص مکلف ہونے کی صورت میں اس مہینے کو پالے، اس لیے کہ دیوانہ اور ایسے لوگ جو - مکلف نہیں ہیں وہ لزوم صوم کے منتفی ہونے کے لحاظ سے ان لوگوں کے حکم میں ہوں گے جو سرے سے موجود نہ ہوں گویا رمضان کا شہود کا ان پر اطلاق کیا گیا لیکن اس سے مراد یہ لیا گیا کہ ” ایسے لوگ جو مکلف بھی ہوں “۔ جس طرح یہ ارشاد باری ہے ( ضم بکم عمی یہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں) چونکہ ان لوگوں نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ہدایت کی باتیں سن کر ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اس بنا پر انہیں قوت شنوائی سے محروم یعنی بہرے قرار دے کر انہیں گونگے اور اندھے کہا گیا۔ اسی طرح ارشاد باری ہے ( ان فی ذلک لذکریٰ لمن کان لہ قلب۔ بیشک اس میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جن کا دل ہو) یعنی عقل اور سمجھ ہو، اس لیے کہ جو شخص اپنی عقل اور سمجھ سے کام نہیں لے گا اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ گویا اس کا دل ہی نہیں ہے۔ یہاں بھی اسی طرح یہ جائز ہے کہ شہود شہر اس سے عبارت ہے کہ وہ مکلفین میں سے ہو اس لیے کہ جو شخص اہل تکلیف میں سے نہیں ہوگا وہ روزے کے حکم سے سقوط کے اعتبار سے ان لوگوں کی طرح ہوگا جو سرے سے موجود ہی نہ ہوں۔ - درج بالا احکام کے علاوہ جو ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) سے مستفاد ہوئے، ایک حکم یہ بھی معلوم ہوا کہ اس سے رمضان کا فرض کی تعیین ہوگئی کیونکہ ’ شہود شہر “ سے مراد یہ ہے کہ اس مہینے میں مکلف ہونے کی حالت میں ہونا، مجنون اور ایسے لوگ جو مکلفین میں شمار نہیں ہوتے ان کے لیے اس ماہ کے روزے لازم نہیں ہیں۔ - ( اس شخص کے متعلق فقہا کی آراء کا اختلاف جس پر پورے رمضان یا اس کے بعض حصے میں دیوانگی طاری رہی) - امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف ، محمد، زفر اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر ایک شخص پر پورے رمضان دویانگی طارق رہی تو اس پر کوئی قضا نہیں۔ اگر رمضان کے کسی حصے میں اسے افاقہ ہوگیا اور وہ ہوش میں آگیا تو وہ رمضان کے پورے روزے قضا کرے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ جو شخص مکمل دیوانگی کی حالت میں بالغ ہوگیا اور اسی حالت میں کئی سال گزر گئے پھر اس کی دیوانگی ختم ہوگئی تو وہ تمام پچھلے سالوں کے روزے قضا کرے گا لیکن اس پر نمازوں کی قضا نہیں ہوگی۔ عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ ایک شخص دماغی خرابی میں مبتلا ہو پھر اسے افاقہ ہوجائے اور اس بیماری کے دوران نماز اور روزے چھوڑ رکھے ہوں تو اس پر ان کی قضا لازم نہیں آئے گی۔ دیوانے کے متعلق ان کا قول ہے کہ اگر اسے افاقہ ہوجائے یا ایسا شخص جسے صفراء یا سوداء کی بیماری لاحق ہوجائے اور پھر افاقہ ہوجائے اس کے متعلق بھی ان کی رائے ہے کہ وہ قضا کرے گا۔ امام شافعی نے الویطی سے فرمایا ہے کہ جو شخص رمضان میں دیوانہ ہوجائے تو اس پر قضا نہیں، اگر رمضان میں کسی دن غروب آفتاب سے پہلے وہ ہوش میں آ جائے تو بھی اس پر قضا واجب نہیں ہوگی۔ مصنف کتاب ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ قول باری ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) ایسے مجنوں پر وجوب قضا سے مانع ہے جسے رمضان کے کسی حصے میں بھی ہوش نہ آئے، اس لیے کہ وہ حقیقت میں اسے مہینے کو پانے والوں میں سے نہیں ہے۔ اس مہینے کو پالینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکلف ہونے کی حالت میں اس میں موجود ہو اور دیوانہ اہل تکلیف میں سے نہیں ہے اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ص رفع القلم عن ثلاب عن النائم حتی یستیقظ وعن الضغیر حتی یحلوو عن المجنون حتی یفیق۔ تین قسم کے لوگ مرفوع القلم یعنی غیر مکلف ہیں۔ سونے والا شخص جب تک کہ بیدار نہ ہوجائے، نابالغ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے اور دیوانہ جب تک کہ ہوش میں نہ آجائے۔ اگر یہ کہا کہ جائے کہ قول باری : ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) میں یہ احتمال ہے کہ - ایک شخص کی اس مہینے میں حالت امامت میں موجودگی پائی جائے اور سفر نہ ہو نہ کہ حالت تکلیف میں جس کا تم ذکر کر رہے ہو، تو و کونسی دلیل ہے جس کی بنا پر تم نے اپنے دعوے کے مطابق شہود رمضان کو حالت تکلیف کے ساتھ مقید کیا اور حالت امامت کے ساتھ مقید نہیں کیا جس کے ہم قائل ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ چونکہ آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے اور یہ دونوں معانی ایک دوسرے کے منافی بھی نہیں ہیں بلکہ ان دونوں کا ایک ساتھ مراد لینا جائز ہے او لزوم صوم کے لیے ان کا شرط بننا بھی درست ہے تو ایسی صورت میں آیت کے الفاظ کو ان دونوں پر محمول کرنا واجب ہے، ہم اسی کے قائل ہیں۔ - اس لیے کوئی شخص ہمارے نزدیک اسی صورت میں روزے کا مکلف ہوگا اور اسے ترک صوم کی اجازت نہیں ہوگی جب وہ مقیم و مکلف ہوگا۔ اور اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حکم کا مخاطب بننے کی صحت کے لیے اہل تکلیف میں سے ہونا شرط ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی اور دیوانہ رمضان کے مہینے میں اہل تکلیف میں سے نہیں تھا تو گویا حکم صوم کا خطاب اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا اور اس پر قضا بھی لازم نہیں ہوئی۔ اس حقیقت پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ ظاہر قول دلالت کر رہا ہے جو اوپر گزر چکا ہے کیونک رفع القلم کا مطلب اسقاط تکلیف ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کررہی ہے کہ دیوانگی ایک ایسی کیفیت ہے جس کے تسلسل کی صورت میں ایسا شخص سرپرستی کا مستحق ہوجاتا ہے۔ یعنی کوئی اس کا ولی بن کر اس کے معاملات طے کرے، اس لحاظ سے مجنون کی حیثیت صنعیر یعنی نابالغ کی سی ہوجاتی ہے کہ اگر وہ سارا مہینہ نابالغ رہے تو اس سے روزے کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ - البتہ اغماء ( بےہوشی کی حالت اس سے جدا ہے ۔ کیونکہ اس کیفیت کی طوالت کے باوجود اس کے لیے ولی مقرر کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اغماء والی کیفیت والا انسان، مجنون اور نابالغ نیند میں مدہوش انسان سے جدا ہوتے ہیں اس لیے کہ نیند کی مدہوشی میں مبتلا انسان اس کا مستحق نہیں ہوتا کہ اس مدہشی کی بنا پر کوئی دوسرا انسان کا اس ولی بنے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اغماء میں مبتلا انسان کو کسی حکم کا مخاطب بنانا اسی طرح درست نہیں ہے جس طرح دیوانے کو، ان دونوں سے مکلف ہونے کی صفت زائل ہوچکی ہوتی ہے جس کی بنا پر یہ واجب ہے کہ اس پر اغماء کی وجہ سے قضا لازم نہ ہو۔ اس ک جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اغماء کی موجودگی میں اگرچہ روزے کے حکم کا مخاطب بنانا منچع ہے لیکن اس پر قضا واجب کرنے کے لیی ایک اور اصل موجود ہے اور وہ ہے قول باری ( فمن کان منکھ مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) اغماء والے انسان پر مریض کے لفظ کا اطلاق بالکل درست اور جائز ہے۔ اس لیے اس لفظ کے عموم کی بنا پر اس پر قضا واجب کرنا ضروری ہے اگرچہ اغمار کی حالت میں وہ اس کا مخاطب نہیں بن سکتا، رہا مجنون تو اسے مریض کا لفظ مطلقاً شامل نہیں ہوتا اس لیے وہ ان لوگوں میں داخل ہی نہیں ہے جن پر اللہ نے قضا واجب کی ہے۔ رہا ایسا مجنون جسے اس ماہ کے کی حصے میں دیوانگی سے افاقہ ہوگیا ہو تو اس پر قضا کالزوم اس قول باری کی وجہ سے ہوا ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) کیونکہ اسے اس مہینے کا اس بنا پر شہود ہوگیا کہ وہ اس کے ایک جز میں مکلف بن گیا تھا۔ اس لیے کہ قول باری ( فمن شھد منکم الشھر) سے یا تو یہ مراد ہے کہ پورے مہینے کا شہود ہو یا یہ مراد ہے کہ اس کے کسی جز کا شہود ہو، پہلی صورت کو لزوم صوم کے لیے شرط بنانا دو وجہوں سے درست نہیں ہے۔ - اول یہ کہ اس کی وجہ سے لفظ میں تناقض معنی پیدا ہوجائے گا، وہ اس لیے کہ ایسا شخص پورے مہینے کے شہود کی صف سے اسی وقت متصف ہوگا - جبکہ پورا مہینہ گزر جائے گا اور یہ ایک امر محال ہے کہ پورے مہینے کا گزر جانا اس کے لیے پورے روزوں کے لزوم کی شرط بنے اس لیے کہ گزر جانے والے قوت میں روزے کے فعل کی انجام دہی امر محل ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ایسے شخص کے حق میں پورے مہینے کا شہود مراد نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ جس شخص پر ماہ رمضان آ جائے اور وہ اہل تکلیف میں سے ہو تو اس پر پہلے دن سے روزہ فرض ہوجائے گا کیونکہ اسے اس مہینے کے ایک حصے کا شہود ہوگیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس مہینے کے روزوں کے مکلف ہونے کی یہ شرط ہے کہ ایسا شخص اس کے ایک جُز میں اہل تکلیف میں سے ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی تنقیح کے مطابق شہود سے مراد اس مہینے کے ایک جُز کو پالینا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس پر صرف اسی جز کا روزہ لازم ہو کیونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ لزوم صوم کے لیے مہینے کے بعض حصے کا شہود شرط ہے۔- اس بنا پر آیت کی تقدیر عبارت یہ ہوگی کہ ” جو شخص اس مہینے کے بعض حصے کو پالے وہ اس حصے کا روزہ رکھ لے “۔ معترض کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ تمہارا خیال درست نہیں ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر اس بات پر دلیل قائم نہ ہوتی کہ رمضان کے بعض حصے کا شہود لزوم صوم کے لیے شرط ہے۔ تو ظاہر لفظ یعنی ( الشھر) جس معنی کا مقتضی ہوتا وہ پورے مہینے کا استغراق ہوتا ( یعنی ارشاد باری میں لفظ الشھر کے ظاہر معنی اس بات کے متقاضی ہوتے کہ اس سے پورا مہینہ مراد لیا جائے۔ اب جب اس بات پر دلیل قائم ہو کہ لزوم کی شرط میں مہینے کا بعض حصہ مراد ہے کہ پورا مہینہ تو ہم اس لفظ کو اسی پر محمول کریں گے۔ لیکن ظاہر لفظ پورے مہینے کے روزوں کے وجوب کے لیے کارفرما رہے گا اس لیے لفظ الشھر کا اطلاق پورے ماہ پر ہوتا ہے۔ اس بنا پر تقدیر عبارت اس طرح ہوگی۔ تم میں سے جو شخص اس مہینے کے کسی جُز کو پالے تو وہ پورے ماہ کا روزہ رکھے “۔ اگر یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ دیوانے کی دیوانگی سے اس وقت افاقہ ہوجائے جبکہ اس مہینے کے کچھ دن باقی ہوں تو تمہارے لیے ضروری ہے کہ اس پر گزرے ہوئے دنوں کی قضا لازم نہ کرو کیونکہ اسے گزرے ہوئے دنوں کے روزوں کا مکلف بنانا ایک امر محال ہے اور اس صورت میں وجوب صوم کا ہدف باقی ماند دن ہونے چاہئیں۔ اس اعتراض کا یہ جواب دیا جائے گا کہ ایسے شخص پر گزرے ہوئے دنوں کی قضا لازم آئے گی نہ کہ روزہ، او یہ بات جائز ہے کہ اسے اگر چہ روزوں کا مخاطب بنانا ممتنع ہے لیکن اس پر قضا کا لزوم ہوسکتا ہے یعنی اسے قضا کے حکم کا مخاطب بنایا جاسکتا ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بھول جانے والا انسان، حالت اغبما میں مبتلا شخص اور نیند میں پڑا ہوا آدمی ان تمام کو مذکورہ بالا حالات میں روزہ کے فعل کا مخاطب بنانا محال ہے۔ لیکن ان کے مکلف ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹیں لزوم قضا سے مانع نہیں ہوسکتی ہیں۔ یہی حالت نماز کو بھول جانے والے اور نماز سے سو جانے والے کی ہے۔ اس لیے ایسے شخص کی طرف فعل صوم کا خطاب دو طریقوں سے متوجہ ہے۔ اول مکلف ہونے کی حالت میں فعل صوم، دوم کسی اور وقت میں اس کی قضا اگرچہ اغماء اور نسیان کی حالت میں فعل صوم کا خطاب اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ واللہ اعلم - (رمضان کے کسی حصے میں نابالغ کا بالغ یا کافر کا مسلمان ہوجانا )- ارشاد باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ اس سے مراد اس مہینے کے بعض حصے کا شہود ہے، ایک نابالغ جو رمضان کے بعض حصے بالغ ہوجائے یا ایک کافر مسلمان ہوجائے اس کے متعلق فقہا کی آرا میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد ، زفر ، امام مالک ( مئوطا میں) عبید اللہ بن الحسن ، لیث اور امام شافعی کا قول ہے کہ یہ دونوں باقی ماندہ دنوں کے روزے رکھیں گے اور گزر - جانے والے دنوں کی قضا ان پر لازم نہیں آئے گی بلکہ اس دن کی قضا بھی لازم نہیں آئے گی جس دن یہ نابالغ بالغ ہوا یا یہ کافر مسلمان ہوا۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ یہ اس دن کی قضا کرے۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ اگر نابالغ نصف رمضان میں بالغ ہوجائے تو گزشتہ دنوں کی قضا کرے گا۔ اس لیے کہ اسے ان دنوں کے روزوں کی طاقت تھی۔ کافر کے متعلق ان کا قول ہے کہ اسلام لانے کے بعد وہ گزشتہ دنوں کی قضا نہیں کرے گا، ہمارے اصحاب یعنی احناف کا قول ہے کہ جس دن وہ بالغ ہوجائے یا اسلام لے آئے اس دن کی باقی ماندہ حصے میں کھانے پینے سے رک جانا مستحب ہے۔ مصنف کتاب امام جصاص کا ان آراء پر تبصرہ : قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) ہم نے اس کے معانی بیان کردیے ہیں اور یہ ثابت کردیا ہ کہ لزوم صوم کے لیے متعلقہ شخص کا مکلفین میں سے ہونا شرط ہے۔ نابالغ بلوغت سے پہلے اہل تکلیف میں سے نہیں ہوتا اس لیے اس پر اس حکم کا لازم کرنا درست نہیں ہے پھر صنعر یعنی کم سنی روزے کی صحت منافی ہے کیونکہ صغیر کا روزہ صحیح نہیں ہوتا، اسے روزہ رکھنے کے لیے جو کہا جاتا ہے تو وہ صرف تعلیم کی خاطر ہوتا ہے، نیز اسے روزے کی عادت ڈالنے اور اس کی مشق کے لیے ایسا حکم دیا جاتا ہے۔- کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب وہ بالغ ہوجاتا ہے تو اس پر نہ تو پچھلی نمازوں کی قضا لازم آتی ہے اور نہی روزوں کی یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ حالت صنعر میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کا اس پر لزوم درست نہیں ہے۔ اگر اس پر رمضان کے گزرے ہوئے دنوں کی قضا لازم آتی تو پھر اس پر گزشتہ سال کے روزوں کی قضا کا لزوم بھی درست ہوتا جبکہ اسے ان روزوں کے رکھنے کی طاقت ہوتی۔ جب تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ باوجود روزے کی طاقت کے گزشتہ سال کے روزے اس کے حق میں ساقط ہیں تو پھر یہی حکم اس رمضان کا بھی ہونا چاہیے جس کے ایک حصے میں وہ بالغ ہوا تھا۔ اس پہلو سے کافر بھی نابالغ کا مشابہ ہے کیونکہ کافر کو روزے کا مکلف اسی وقت بنایا جاسکتا ہے جب وہ پہلے مسلمان ہوچکا ہو۔ اس لیے کہ کفر روزے کی صحت کے منافی ہے چناچہ وہ نابالغ کے مشابہ ہوگیا یہ دونوں مجنون کے مشابہ نہیں ہیں جسے اس ماہ کے کسی حصے میں دیوانگی سے افاقہ ہوجاتا ہے اور اس پر اس ماہ کے گزرے ہوئے دنوں کی قضا بھی لازم ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ جنون روزے کے منافی نہیں ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جو شخص روزے کی حالت میں دیوانہ ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ دیوانگی اس کے روزے کی صحت کے منافی نہیں ہے اور کفر اس کے منافی ہے۔ اس پہلو سے وہ صغیر یعنی نابالغ کے مشابہ ہے۔ اگرچہ صغیر اور کافر اس باب میں اس لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ کافر ترک صوم پر سزا کا مستحق ہوگا جبکہ صغیر اس کا مستحق نہیں ہوگا۔ رمضان کے درمیان مسلمان ہونے والے کافر سے رمضان کے گزرے ہوئے دنوں کی قضا کے سقوط پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے ( قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ما قد سلف) آپ کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر ووہ باز آ جائیں تو ان کی پچھلی خطائیں معاف کردی جائیں گی) ۔ - نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہے ( الاسلام یجب ما قبلہ والاسلام یھدم ما قبلہ) اسلام ما قبل کی خطائوں کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے اور اسلام ما قبل کے گناہوں کو مسمار کردیتا ہے) ہمارے اصحاب کا یہ قول کہ رمضان میں دن کے وقت اگر کافر مسلمان ہوجائے یا نابالغ بالغ ہوجائے تو دونوں شام تک کھانے پینے سے اپنے آپ کو روکے رکھیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ان پر ایسی حالت طاری ہوگئی ہے کہ اگر یہ دن کے شروع - میں ہوتی تو یہ روزہ رکھنے کے پابند ہوتے۔ اس لیے دن کے درمیان اس حالت کی موجودگی میں ان کا کھانے پینے سے رک جانا ضروری ہے۔ اس مسئلے کی اصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول وہ روایت ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ نے عاشورہ کے دن مدینہ کے بالائی حصہ کی آبادی کو پیغام بھیجا کہ جس نے طلوع فجر کے بعد کچھ کھا پی لیا ہے وہ دن کے باقی ماندہ حصے میں کھانے پینے سے رک جائے اور جنہوں نے کچھ نہیں کھایا ہے وہ روزہ رکھ لیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے کھا پی لینے والوں کو قضا کرنے اور دن کے باقی ماندہ حصے میں کھانے پینے سے باز رہنے کا حکم دیا تھا حالانکہ ان کا روزہ نہیں تھا۔ اس لیے کہ اگر یہ کھاپی نہ چکے ہوتے یعنی حالت افطار میں نہ ہوتے تو انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا جاتا۔ چناچہ ہم نے دن کے دورا ان طارق ہونے والی حالت کا اعتبار اس حیثیت سے کیا ہے کہ اگر یہ حالت دن کی ابتدا میں پیش آ جاتی تو اس کا کیا حکم ہوتا۔- اس بنا پر اگر طارق ہونے والی حالت ایسی ہو جس سے روزہ لازم ہوجائے تو ایسے شخص کو باقیماندہ دن میں کھانے پینے سے باز رہنے کے لیے کہا جائے گا۔ اور اگر طارق ہونے والی حالت ایسی نہ ہو تو اسے امساک کا حکم نہیں دیا جاتے گا۔ اسی بناپر احناف کا قول ہے کہ رمضان میں دن کے کسی حصے میں حیض سے پاک ہونے والی عورت اور سفر سے واپس گھر پہنچ جانے والے شخص کو اگر وہ روزے سے نہ ہو دنے بقیہ وقت میں کھانے پینے سے رکے رہنے کا حکم دیا جائے گا اس لیی کہ اگر پاکی اور اقامت کی حالت دن کی ابتدا میں موجود ہوتی تو انہیں روزہ رکھنے کا حکم ہوتا۔ - احناف کا یہ بھی قول ہے کہ اگر عورت کو دن کے کسی حصے میں حیض آ جائے تو اسے باقی ماندہ حصے میں خوردونوش سے باز رہنے کے لیے نہیں کہا جائے گا اس لیے کہ اگر حیض کی حالت دن کی ابتدا میں ہوتی تو اسے روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا۔ اگر اس بنا پر کوئی یہ اعتراض اٹھئے کہ پھر تو تمہیں اس شخص کو افطار کی اجازت دے دینی چاہیے جو دن کی ابتدا میں مقیم تھا اور پھر سفر پر روانہ ہوگیا، اس لیے کہ سفر کی حالت اگر دن کی ابتدا میں موجود ہوتی اور پھر وہ سفر کرتا تو اس سے اسے افطار کی اجازت مل جاتی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ درج بالا سطور میں ہم نے اپنے استدلال کو روزہ چھوڑ دینے یا روزہ رکھ لینے کی علت نہیں بنایا تھا بلکہ اس غیر روزہ دار کے امساک یعنی کھانے پینے سے رک جانے کی علت قرار دیا ہے۔ رہ گئی روزہ چھوڑنے کی اباحت یا امتناع کی بات تو اس کے لیے ایک اور شرط ہے جو ہمارے مذکورہ استدلال کے علاوہ ہے۔ ارشاد باری ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) سے کچھ اور احکام مستبط ہوتے ہیں جو گزشتہ سطور میں بیان کردہ احکام کے علاوہ ہیں۔ ایک یہ کہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی شخص کو صبح ہونے کے بعد یہ ظاہر ہوجائے کہ رمضان شروع ہوچکا ہے تو اس پر روزے کی ابتدا کردینا لازم ہوجائے گا اس لیے کہ آیت میں یہ کوئی فرق موجود نہیں ہے کہ ایک شخص کو رات سے ہی رمضان کی ابتدا کا علم ہوجائے یا دن کے شروع میں۔ آیت ان دونوں حالتوں کے لیے عام ہے۔ ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی شخص رات سے رمضان کے روزے کی نیت نہ کرے تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر دیوانہ اور اغماء کی کیفیت میں مبتلا انسان کو دن کے کسی حصے میں افاقہ ہوجائے اور انہوں نے رات سے روزے کی نیت نہ کی ہو تو ان پر یہ واجب ہوگا کہ وہ اسی وقت سے روزہ شروع کردیں اس لیے انہیں ماہ رمضان کا شہود ہوگیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے سہود کو لزوم صوم کی شرط قرار دیا ہے۔ اس آیت سے ایک اور حکم بھی مستنبط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص نے رمضان میں نفلی یا کسی اور فرض روزے کی نیت کرلی تو اس کی یہ نیت اس رمضان کے روزوں کی نیت کی جگہ لے لے گی۔ اس - کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں روزہ رکھنے کا حکم مطلقاً وارد ہوا ہے ، یہ حکم نہ تو کسی وصف کے ساتھ مقید ہے اور نہ ہی نیت فرض کی شرط کے ساتھ مشروط و مخصوص ہے۔ اس بناپر وہ جس نیت سے بھی روزہ رکھے گا آیت کے حکم سے عہد برار ہوجائے گا اور یہ رمضان کا ہی روزہ ہوگا۔ اس آیت میں ایک حکم یہ بھی ہے کہ جو شخص تنہا رمضان کا چاند دیکھ لے گا اس پر روزہ لازم ہوجائے گا۔ اس کے لیے اس وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہوگا کہ بقیہ تمام لوگوں نے چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے اسے شعبان کا دن سمجھ کر روزہ نہیں رکھا ہے۔- روح بن عبادہ نے ہشام سے اور اشعث نے حسن سے نقل کیا ہے کہ جو شخص تنہا رمضان کا چاند دیکھے وہ امام المسلیمن کے ساتھ روزہ رکھے گا۔ تنہا روزہ نہیں رکھے گا۔ عبداللہ بن المبارک نے ابن جریج کے واسطے سے عطاء بن رباح سے روایت کی ہے کہ جس شخص کو رمضان کا چاند لوگوں سے ایک رات پہلے نظر آ جائے تو وہ لوگوں سے پہلے نہ روزہ رکھے اور نہ ہی روزہ چھوڑے۔ عطاء کا قول ہے کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں اسے شبہ نہ ہوگیا ہو۔ اس سلسلے میں حسن بصری نے مطلقا یہ کہا ہے کہ ایسا شخص روزہ نہیں رکھے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن کے نزدیک اگر اس شخص کو بلا کسی شک و شبہ روایت کا یقین بھی ہوجائے پھر بھی وہ روزہ نہیں رکھے گا۔ - البتہ عطاء کے قول سے یہ ترشح ہوتا ہے کہ ایسا شخص اس صورت میں روزہ نہیں رکھے گا جب وہ اپنے متعلق یہ سمجھتا ہو کہ اسے رویت ہلالی میں شبہ ہوگیا ہے اور حقیقت میں اس نے چاند نہیں دیکھا ہے بلکہ یہ صرف اس کے تخیل کی کارفرمائی ہے۔ ہمارے خیال میں ظاہر آیت ہر اس شخص پر روزہ واجب کردیتا ہے جسے چاند نظر آگیا ہو کیونکہ آیت میں یہ فرق نہیں کیا گیا ہے کہ خواہ کسی نے تنہا دیکھا ہے یا دوسرے لوگوں کے ساتھ۔ اس آیت میں ایک اور حکم ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ اگر کسی کو دخول رمضان کا علم نہ ہو اور وہ روزہ رکھ لے تو اس کا یہ روزہ رمضان کے روزوں کی کفایت نہیں کرے گا۔ ان کی دلیل یہ قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اس آیت میں رمضان کا روزہ اس شخص پر لازم کیا گیا ہے جسے اس کا علم وا اس لیے کہ قول باری ( فمن شھد) کا مطلب یہ ہے کہ کہ جس نے مشاہدہ کیا ہو اور اسے اس کا علم ہوگیا ہو۔ اس لیے جسے دخول رمضان کا علم ہی نہیں ہوا وہ کیسے اس کا فرض ادا کرسکے گا۔ وہ اس طرح کہ جیسے ایک شخص شک کی بنا پر رمضان کے روزے رکھ لے پھر اسے یقین ہوجائے اور کوء یاشتباہ باقی نہ رہے ۔ مثلاً دارالحرب میں کوئی مسلمان قیدی ہو وہ ایک ماہ روزے رکھ لے اور یہ رمضان کا مہینہ نکلے۔ ان حضرات کے قول کے مطابق ایسے شخص کے روزے رمضان کے روزوں کی جگہ نہیں لیں گے۔ سلف کی ایک جماعت سے بھی اس قول کی حکایت کی گئی ہے۔ امام مالک اور امام شافعی سے اس بارے میں دو قول منقول ہیں۔ ایک یہ کہ یہ روزے رمضان کے روزوں کی طرف سے کفایت کر جائیں گے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ کفایت نہیں کریں گے۔ - قیدی کے روزے - امام اوزاعی نے قید کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر عین رمضان میں اس نے روزے رکھ لیے تو ادائیگی ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر رمضان کے بعد کسی اور مہینے میں اس نے روزے رکھ لیے تو بھی ادائیگی ہوجائے گی۔ ہمارے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ اگر دارالحرب میں مسلمان قیدی عین رمضان میں یا اس کے بعد رمضان کے روزے رکھ لے تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا۔ ہمیں اس بارے میں فقہا کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر کسی نے کسی ایک مہینے کے متعلق تحری کی اور اس جستجو و تفتیش کے بعد اس کا غالب گمان یہ ہوگیا کہ یہ ماہ رمضان - ہے۔ پھر اسے یقین آگیا اور اس میں کوئی اشتباہ باقی نہ رہا کہ یہ وہی مہینہ ہے تو ایسی صورت میں رکھے گئے روزے رمضان کے روزوں کی طرف سے کفایت کر جائیں گے۔ جس طرح اگر کسی نے بادلوں والے دن میں کسی نماز کے وقت کے متعلق جستجو اور سوچ بچار کیا اور غالب گمان کی بنا پر نماز ادا کرلی پھر بعد میں اسے یقین آگیا کہ تمام کا یہی وقت تھا تو اس کی نماز درست ہو جائیگی۔ رہا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) تو اس میں اگرچہ یہ احتمال ہے کہ اسے دخول رمضان کا عمل ہونا چاہیے لیکن اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو روزوں کے جواز سے مانع ہو اگرچہ اسے دخول رمضان کا عمل پہلے سے نہ بھی ہوا ہو۔ دخول رمضان کا علم روزے کے لزوم اور اسے موخر کرنے سے روکنے کے لیے شرط ہے۔ - جواز کی نفی کے لیے اس میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اگر منع جواز کی بات پائی جات تو اس سے یہ لازم آتا کہ جو شخص دارالحرب میں ہونے کی وجہ سے اسلامی مہینوں کے متعلق اشتباہ میں پڑگیا ہو جس کی وجہ سے اسے دخول رمضان کا عمل نہ ہوسکا ہو ایسے شخص پر قضا واجب نہ ہوگی۔ اس لیے کہ اس نے نہ تو رمضان کا مشاہدہ کیا اور نہ ہی اسے اس کا علم ہوسکا تھا۔ اب جبک ایسے شخص کے متعلق تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ اس پر قضا واجب ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رمضان کے روزوں کے جواز کے لیے دخول رمضان کا علم شرط نہیں ہے جس طرح کہ قضا کے وجوب کے لیے اس کا علم شرط نہیں۔ اب اگر ایسا شخص جسے دخول رمضان کا علم نہ ہوا ہو۔ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں وجوب قضا کے لحاظ سے شہود رمضان کے وصف سے متصف قرار دیا جاسکتا ہے تو اسے جواز صوم کے لحاظ سے بھی اسی وصف سے متصف قرار دینا واجب ہوگا جب کہ اسے عین رمضان میسر آگیا ہو۔ آیت ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) میں جب یہ احتمال ہے کہ اس سے یہ مراد لیا جاسکتا ہے کہ اس ماہ میں آیت کا مخاطب مکلفین میں سے ہو، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں تو اس بنا پر یہ تسلیم کرنا ضروری ہوگا کہ اہل تکلیف میں سے ہونے کے بعد اسے جس حالت میں بھی شہود رمضان ہو اس کا روزہ درست ہوجائے گا یعنی جو شخص اہل تکلیف میں سے ہے اسے شہود رمضان حاصل ہوجائے گا۔ - اس لیے ظاہر آیت کا مقتضیٰ یہ ہوگیا کہ ایسے شخص کا روزہ جائز ہوجائے گا اگرچہ اسے دخول رمضان کا علم نہ بھی ہوا ہو۔ جو لوگ دخول رمضان کے عدم علم کی بنا پر ایسے شخص کے روزہ کے جواز کے قائل نہیں ہیں ان کی ایک دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا ص صوموالرویتہ و افطروا لرویتہ فان غم علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلثین چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیھ کر روزہ چھوڑو۔ اگر رمضان چاند کے موقع پر مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے تھ ہیں چاند نظر نہ آئے تو شعبان ک تیس دنوں کی گنتی پوری کرو) ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں جب یہ حکم ہے کہ پہلے چاند دیکھو اس کے بعد روزہ رکھنے کا عمل شروع کرو تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ چاند نہ دیکھنے کی صورت میں اس دن کے متعلق یہ حکم لگایا جائے گا کہ یہ شعبان کا دن ہے۔ ایسی صورت میں اس دن اس کا روزہ جائز نہیں ہو گ اس لیے کہ شعبان میں رکھا ہوا روزہ رمضان کے روزے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ لیکن یہ دلیل بھی جواز صوم کے لیے مانع نہیں بن سکتی جس طرح یہ وجوب قضا کے لیے بھی نہیں بن سکتی جب اسے روزہ رکھنے کے بعد علم ہو کر یہ رمضان کا مہینہ تھا، حدیث میں مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے ا دن پر شعبان ہونے کا حکم عدم علم کی شرط پر لگایا گیا ہے۔ جب اسے اس کے بعد یہ علم ہوجائے گا کہ یہ رمضان کا دن تھا تو اس پر رمضان ہونے کا حکم لگ - جائے گا اور ہم نے شروع میں اس پر شعبان ہونے کا جو حکم لگایا تھا وہ ختم ہوجائے گا۔ گویا اس کے متعلق ہمارا لگایا ہوا حکم کوئی قطعی نہیں ہوگا بلکہ اس کی قطعیت کا انتظار کیا جائے گا اور اس میں گنجائش رکھی جائے گی اس طرح اس دن کے روزے میں بھی گنجائش ہوگی اگر بعد میں ظاہر ہوجائے کہ یہ رمضان کا دن تھا تو روزہ رمضان کا ہوجائے گا اور اگر یہ واضح نہ ہو سکے تو یہ نفلی روزہ ہوجائے گا۔ اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں وجوب قضا روزہ رکھ لینے کی صورت میں اس کے جواز پر دلالت نہیں کرت اس لیے حائضہ عورت پر قضا لازم ہوتی ہے لیکن وجوب قضا جواز صوم پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر عدم علم جواز صوم سے مانع ہوجائے تو پھر یہ واجب ہوگا کہ یہی چیز روزہ رکھنے کی ضرورت میں وجوب قضا سے بھی مانع ہوجائے جس طرح کہ مجنون اور نابالغ کا مسئلہ ہے۔- اس لیے کہ آپ کے خیال کے مطابق جواز صوم سے یہ چیز مانع ہے کہ اس شخص کو شہود رمضان حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی اسے اس کے دخول کا علم ہوا، اس لیے اگر وجوب قضا کا حکم صرف اش شخص پر عائد ہو جسے شہود رمضان ہوا ہو اور جسے شہود نہ ہو اس پر وجوب نہ ہو تو پھر مذکورہ بالا شخص پر شہود رمضان نہ ہونے کی وجہ سے قضا لازم نہ آئے لیکن آپ کے استدلال کی یہی حد ہے تو اس سے جواز صوم کے حکم میں اگر روزہ رکھ لے اور قضا صوم کے حکم میں اگر روزہ نہ رکھے، کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا اور نہی کوئی فرق پڑتا ہے۔ - رہ گئی خائضہ عورت تو اسے روزہ کے مکلف ہونے کا حکم شہود رمضان حاصل ہونے اور دخول رمضان کے علم کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اس وجہ سے نہیں لاحق ہوا کہ اس علم کے باوجود بھی اس کا روزہ رکھنا اس سے فرض کے سقوط کے لیے کافی نہ ہوتا اور اس کے ساتھ افطار کی صورت میں اس پر قضا کا وجوب اس وجہ سے لازم نہیں ہوا کہ وہ روزہ نہ رکھ کر افطار کے فعل کا مرتکب نہیں ہوئی۔ اسی بنا پر اس سے قضا کے وجوب کا سقوط واجب نہیں ہوا کہ اس کا روزہ رکھنا ہی درست نہیں تھا آیت میں حکم کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ جس شخص پر رمضان کا مہینہ آ جائے اور وہ پہلے مقیم ہو پھر سفر پر چلا جائے تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔ اس قول کی روایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، عبیدہ اور ابو مجلز سے کی گئی ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حسن، سعی بن المسیب، ابرہیم نخعی ، اور شعبی کا قول ہے کہ سفر شروع کرنے پر اگر چاہے تو روزہ چھوڑ سکتا ہے فقہاء امصار کا یہی قول ہے۔ پہلے گروہ کی دلیل یہ قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اور اس سفر پر جانے والے شخص نے حالت قیام میں شہود رمضان کیا ہے اس لیے ظاہر آیت کے مقتضیٰ کے پیش نظر اس کے ذمہ روزے پورا کرنا ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ حالت اقامت میں اس پر روزے کا فرض عائد ہوتا ہے اس لیے کہ اس آیت کے بعد ہی مریض اور مسافر کا حکم بیان کردیا گیا ہے۔- ارشاد باری ہے ( ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) آیت میں یہ فرق نہیں رکھا گیا کہ خواہ ایک شخص مہینے کے شروع میں مقیم تھا اور پھر سفر پر چلا گیا یا ایک شخص مہینے کی ابتداء ہی سے سفر پر تھا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) میں دیا گیا حکم اقامت کی حالت پر عائد ہوتا ہے نہ کہ اقامت کے بعد سفر کی حالت پر۔ اور اگر اس آیت کا وہ مفہوم ہوتا جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے تو اس سے یہ بات جائز ہوجاتی کہ اگر کوئی شخص مہینے کی ابتدا میں سفر پر ہو اور پھر مقیم ہوجائے تو وہ روزے نہ رکھے اس لیے کہ ارشاد باری ہے ( ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) اور یہ شخص ابتدائے رمضان میں مسافر تھا ( اس لیے روزے نہ رکھے) اسی طرح جو شخص ابتدائے رمضان میں بیمارہوا اور پھر اسے صحت ہوجائے تو اس کا روزے نہ رکھنا جائز قرار - دیا جاتے ، کیونکہ اس پر اسم مریض یا اسم مسافر کا اطلاق ہوگیا ہے۔ اب جبکہ قول باری ( ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) مریض یا مسافر کو جب وہ رمضان کے دوران صحت یاب ہوجائے یا اقامت کرلے، روزہ رکھنے سے مانع نہیں ہوا اور اس حکم کا دارومدار سفر یا بیماری کے بقا پر رہا تو اسی طرح قول باری ( فمن شھد منکم الشھد فلیصمہ) میں حکم صوم کا دارومدار بقائے اقامت پر رہا۔ اہل سیر اور دوسرے حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مہ کے سال رمضان میں سفر اختیار فرمایا تھا اور اس سفر میں آپ نے روزہ رکھا تھا، پھر چند روزے رکھنے ک بعد آپ نے روزے چھوڑ دیے تھے ور صحابہ کرام کو بھی روزہ نہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات موجود ہیں جو اتنی مشہور ہیں کہ ان کی اسناد کے بیان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ - یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ ( فمن سھد منکم الشھر فلیصمہ) میں روزے کے لزوم اور ترک افطار کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا دارومدار بقائے اقامت کی حالت پر ہے۔ یعنی جب تک اقامت باقی رہے گی یہ حکم باقی رہے گا اور اگر یہ حالت ختم ہوجائے گی تو حکم بھی ختم ہوجائے گا۔ امام ابوبکر فرماتے ہیں کہ پچھلے صفحات میں ہم نے آیت ( فمن شھد منکم الشھر) پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس سے مستنبط ہونے والے احکام پر روشنی ڈالی ہے۔ اب ہم قول باری ( فلیصمہ) کے معانی اور اس سے مستنبط ہونے والے احکام پر گفتگو کریں گے۔ واضح رہے کہ صوم کی دو قسمیں ہیں۔ صوم لغوی اور صوم شرعی۔ صوم لغوی کی اصلیت امساک یعنی رُک جانا ہے۔ یہ لفظ کھانے پینے سے رک جانے کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر وہ فعل جس میں امساک کا معنی پایا جائے لغت میں وہ صوم کہلائے گا۔ قول باری ہے ( انی نذرت للرحمن صوما۔ میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے) یہاں صوم سے مراد کلام کرنے سے رکے رہنا ہے اس لیے کہ اس آیت کے متصل یہ ارشاد باری ہے ( فلن اکلم الیوم انسیا، میں آج کسی سے نہیں بولوں گی) شاعر کا قول ہے : وخیل صیام یلکن الجم، یعنی گھوڑے جو چارہ وغیرہ سے محروم لگاموں کو چبا رہے ہیں ( یہاں گھوڑے چونکہ چارہ وغیرہ کھانے سے رکے ہوئے ہیں اس لیے انہیں صیام کہا گیا) نابغہ زبیانی کا شعر ہے - خیل صیام و خیل غیر صائمۃ تحت العجاج و خیل تعلک اللجما - گردو غبار میں کچھ گھوڑے تو ایسے ہیں جو چارہ وغیرہ نہیں کھا رہے اور کچھ کھا رہے ہیں اور کچھ گھوڑے لگاموں کو چبا رہے ہیں۔ - عربوں کا محاورہ ہے صام النھار ( دن کھڑا ہوگیا ) اور صامت الشمس ( سورج رک گیا) اس لیے کہ دوپہر کے وقت وہ حرکت کرنے سے رکا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ امرئو القیس کا شعر ہے : - فم عھا وسل الھم عنک بحیرۃ ذمول اذا صام النھار وھجرا - معشوقہ کا ذکر چھوڑ دے اور جدائی کے غم کو ایسی اونٹنی پر سواری کے ذریعہ بھلا دے جو بڑی ڈیل ڈول والی ہو اور دوپہر کے وقت جب دن کھڑا ہوجائے آہستہ آہستہ چل رہی ہو۔ لغت میں صوم کے یہ معانی ہیں۔ شریعت میں ایک خاص قسم کے امساک کو صوم کہتے ہیں جس کی کچھ متعین شرطیں ہیں جو لغت کے لحاظ سے اس لفظ سے سمجھی نہیں جاسکتی ہیں۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہر چیز سے امساک کو شرعی لحاظ سے روزہ کہنا درست نہیں ہے اس لیے کہ انسان سے ایسا امساک محال ہے کیونکہ ہر چیز سے امساک میں انسان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اپنی - تمام متضاد صفات سے دست بردار ہوجائے یعنی نہ وہ ساکن رہے ، نہ متحرک، نہ کھانے والا، نہ چھوڑنے والا ، نہ قائم ، نہ بیٹھنے والا اور نہ ہی لیٹنے والا، یہ صورت محال ہے اور شرچ میں ایسی عبادت کا ورود جائز نہیں ہوتا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ شریعت میں صوم ایک خاص قسم کے امساک کو کہتے ہیں نہ کہ تمام قسموں کے امساک کو۔ اس لیے خاص قسم جس پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے وہ کھانے، پینے اور ہمبستری سے باز رہنے والا امساک ہے۔ فقہاء امصار نے اس کے ساتھ ساتھ حقنہ کرنے ، ناک کے ذریعہ دوائی چڑھانے مثلاً نسوار وغیرہ اور جان بوجھ کر منہ بھر کے قے کرنے سے بھی باز رہنے کی شرط لگائی ہے کچھ لوگ حقنہ اور ناک کے ذریعہ دوائی وغیرہ چڑھانے کی صورت میں قضا کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن یہ شاز قول ہے جمہور کا قول اس کے برعکس ہے۔ قے کرنے کی صورت میں بھی یہی اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : روزہ ہر اس چیز سے ٹوٹ جاتا ہے جو جسم میں داخل ہو نہ کہ اسے جو جسم سے خارج ہو “۔ طائوس اور عکرمہ کا بھی یہی قول ہے۔ لیکن فقہاء امصار کی رائے اس کے خلاف ہے اس لیے کہ جان بوجھ کر قے کرنے کی صورت میں وہ قضا واجب کرتے ہیں۔ البتہ ان فقہا کا اس میں اختلاف ہے کہ معدے میں کوئی چیز پیٹ یا سر کے زخم کے ذریعے پہنچ جائے تو اس پر قضا ہوگی ای نہیں ؟ - امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی قضا کے قائل ہیں جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد قضا کے قائل نہیں ہیں۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے ۔ اسی طرح حجامت یعنی پچھنے لگوانے میں بھی اختلاف ہے۔ عام فقہا کا خیال ہے کہ حجامت سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ امام اوزاعی کے نزدیک ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح کنکر نگل جانے کی صورت میں ہمارے اصحاب یعنی احناف، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک روزہ ٹوٹ جاتا ہے جبکہ حسن بن صالح کے نزدیک نہیں ٹوٹتا۔ اگر روزہ دار دانتوں کے درمیان کوئی چیز پھنسی ہو اور وہ اسے جان بوجھ کر کھالے تو ہمارے اصحاب اور امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک اس پر قضا نہیں ہوگی۔ حسن بن زیاد نے امام زفر سے روایت کی ہے کہ اگر روزہ دار کے دانتوں کے درمیان گوشت کا ٹکڑا یا ستو یا روٹی کا ٹکڑا پھنسا ہوا ہو، پھر اس کا کچ حصہ اس کی زبان پر آجائے جسے وہ نگل لے جبکہ اسے یاد ہو کہ وہ روزہ دا رہے تو ایسی صورت میں اس پر قضا اور کفارہ دونوں کا لزوم ہوگا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک ای پر قضا واجب ہوگی۔ کفارہ نہیں۔ نووی نے کہا ہے کہ اس کے لیے مستحب ہوگا کہ قضا کرلے۔- حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر مکھی منہ کے راستے اس کے پیٹ میں پہنچ جائے تو اس پر روزے کی قضا لازم آئے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ قضا لازم نہیں آئے گی۔ اہل اسلام کے درمیان مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حیض روزے کی صحت کے لیے مانع ہے۔ البتہ جنبی کے مسئلے میں اختلاف ہے۔ عام فقہاء امصار کی رائے یہ ہے کہ ایسے شخص پر کوئی قضا نہیں اور جنابت کے ساتھ اس کا روزہ مکمل ہوجائے گا۔ حسن بن حی کا قول ہے کہ اس کے لیے اس دن کا روزہ قضا کرلینا مستحب ہوگا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگرچہ کوئی شخص صبح کے وقت جنابت کی حالت میں ہو پھر بھی نفلی روزہ رکھ سکتا ہے۔ حائضہ عورت کے متعلق ان کا قول ہے کہ کہ اگر رات کے قوت وہ حیض سے پاک ہوجائے اور صبح ہونے تک اس نے غسل نہیں کیا تو اس پر اس دن کے روزے کی قضا لازم ہے۔ یہ ہیں وہ امور جن میں سے چند کے متعلق یہ اتفاق ہے کہ ان سے امساک کا نام روزہ ہے اور کچھ امور مختلف فیہ ہیں جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ متفق علیہ امور جن سے امساک کا نام صوم ہے وہ کھانا پینا اور ہمبستری کرنا ہیں۔- اس کی اصل یہ قول باری ہے : ( احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی انساء کم تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے) تا قول باری ( فالان باشروھن وابتغوا ما کتب اللہ لکم وکلو و اشربوا حتی یتبین ربکم الخیظ الا بیض من الخیط الاسود من الفجر ثم واتموا الصیام الی اللیل۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جازء کردیا ہے اسے حاصل کرو، نیز راتوں کو کھائو پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے، تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرلو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کی راتوں میں ابتدائے شب سے طلوع فجر تک کھانا پینا اور ہمبستری کرنا مباح کردیا اور پھر رات تک روزہ مکمل کرنے کا حکم دیا۔ اس کلام کے مضمون اور تہ میں ان باتوں یعنی جماع اور اکل و شرب پر پابندی موجود ہے جنہیں رات کے دوران مباح کردیا گیا تھا۔ اس لیے آیت مضمون سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان اشیائے ثلاثہ سے امساک شرعی روزہ میں داخل ہے۔ اس میں اس بات پر کوئی دلالت موجود نہیں کہ ان تین چیزوں کے علاوہ دوسری چیزوں سے امساک روزہ میں داخل نہیں ہے۔ بلکہ یہ بات اس کی دلالت پر موقوف ہے۔ سنت نبوی اور علمائے امت کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان تین چیزوں کے علاوہ چند دوسری چیزوں سے امساک بھی صوم شرعی میں داخل ہے جن کا ہم انشاء اللہ آگے چل کر بیان کریں گے۔ - شرعی روزہ کے لزوم کی ایسی شرطیں بھی ہیں جو امساک کے مفہوم میں نہیں آتی ہیں اور وہ ہیں مسلمان ہونا اور بالغ ہونا کیونکہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دنیاوی احکام میں نابالغ روزے کے حکم کا مخاطب ہی نہیں ہے۔ رہا کافر تو رہ اگرچہ روزے کے حکم کا مخاطب بھی ہے اور ترک صوم پر سزا کا مستحق بھی تا ہم وہ ان لوگوں کے حکم میں ہے جنہیں دنیاوی احکام کا مخاطب نہیں بنایا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ کافر پر حالت کفر میں روزہ نہ رکھنے کی قضا واجب نہیں ہے۔ عورت کا حیض سے پاک ہونا رمضان کے روزہ کے حکم کے مکلف ہونے کی ایک شرط ہے۔ اسی طرح عقل یعنی دماغی صحت، اقامت اور جسمانی صحت بھی اس کے شرائط میں داخل ہیں اگرچہ اقامت اور جسمانی صحت کی عدم موجودگی میں قضا واجب ہے اور عقلی خرابی کی صورت میں قضا کے بارے میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ ہم رمضان میں دیوانہ ہوجانے والے انسان کے متعلق اہل علم کے قول سابقہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں۔ نیت ہر قسم کے روزے کی صحت کے لیے شرط ہے۔ روزے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ - اول ایسا روزہ جو عین فرض ہوتا ہے اور وہ رمضان اور کسی خاص دن میں مانی ہوئی نذر کا روزہ ہوتا ہے۔ دوم نفلی روزہ، سوم اپنے ذمے عائد شدہ روزہ۔ نفلی روزے میں رات سے نیت نہ کرنے کی گنجائش ہوتی ہے بشرطیکہ زوال سے پہلے پہلے اس کی نیت کرے، یہی مسئلہ مستحق العین یعنی فرض روزے کا ہے۔ البتہ اپنے ذمہ عائد شدہ روزے میں رات سے نیت کرنا ضروری ہے ۔ اس کے بغیر روزہ درست نہیں ہوگا۔ زفر کا قول ہے کہ رمضان کا روزہ نیت کے بغیر بھی رکھا جاسکتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ پورے ماہ کے لیے ایک دفعہ نیت کرلینا کافی ہے۔ ہم جو اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی نے کنکر وغیرہ نگل لیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اگرچہ کنکر عادۃ ماکولات میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی وہ غذا یا دوا ہے تو اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ( ثم اتموا الصیام الی اللیل) اس کے مفہوم میں ارل یعنی کوئی چیز کھا لینا داخل ہے اور اس کا عموم ان تمام چیزوں کو شامل ہے جو اکل کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اب اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ - روزے کی حالت میں کنکر نگل لینے کی ممانعت ہے۔ البتہ اختلاف اس میں ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں اگرچہ اس پر بھی اتفاق ہے کہ کنکر نگل لینے کی ممانعت کا مفہوم آیت سے پیدا ہوا ہے۔ اس سے یہ واجب ہوگیا کہ آیت سے یہی مراد ہے۔ اس لیے کھانے پینے سے رک جانے کا علی الاطلان حکم اس بات کا متقاضی ہے کہ کنکر بھی اس میں دوسرے ماکولات کی طرح داخل ہوجائے۔ اب جبکہ آیت بقیہ تمام ماکولات کے سلسلے میں وجوب قضا پر دلالت کرتی ہے تو یہ کنکر نگل جانے کی صورت میں بھی وجوب قضا پر دلالت کرے گی۔ - اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ ( من اکل اوشرب ناسیاً فلا قضاء علیہ جس نے بھول کر کھا پی لیا اس پر قضا نہیں ہے) یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ اکل کے مفہوم میں داخل تمام صورتوں میں عمداً ایسا کیا گیا ہو تو وجوب قضا کے لحاظ سے ان میں کوئی - فرق نہیں کیا جائے گا اور تمام صورتوں میں قضا لازم آئے گی۔ اب ناک کے راستے چڑھانے جانے والی دوا یا چیز اور پیٹ یا سر کے زخم کے ذریعے معدے میں پہنچ جانے والی دوا تو ان کے متعلق حکم کی بنیاد حضرت لقیط بن صبرہ کی حدیث ہے جو آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے ( بالغ فی الاسنشاق الا ان تکون صائما ناک میں اچھی طرح پانی ڈالو مگر جب تم روزے سے ہو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضر لقیط بن صبرہ کو ناک میں اچھی طرح پانی ڈالنے کا حکم دیا۔ اور روزے کی بنا پر اس سے روک دیا۔ اس ارشاد سے مسئلے پر دلالت ہو رہی ہے کہ ناک میں پانی ڈالنے کی وجہ سے حلق یا دماغ تک پہنچ جانے والے پانی کا حصہ روزہ توڑ دیتا ہے اگر یہ معنی نہ لیا جائے تو روزے کی وجہ سے اس سے روکنے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا جبکہ غیر روزے کی حالت میں آپ ؐ نے اس کا حکم دیا تھا۔- یہی حدیث امام ابوحنیفہ کے اس مسلک کے لیے بنیاد بن گئی ہے کہ ہر اس چیز سے قضا واجب ہوتی ہے جو پیٹ میں پہنچ کر ٹھہر جائے جبکہ وہ چیز ایسی ہو کہ پیٹ تک پہنچنے سے اسے روکنا اپنے بس میں ہو۔ خواہ وہ چیز کھانے پینے کے راستے سے پیٹ میں پہنچی ہو یا جسم میں فطری طور پر بنی ہوئی دیگر راہوں سے یا ان کے سوا کسی اور ذریعے سے ۔ اس لئے کہ تمام صورتوں میں مفہوم یہی ہے کہ وہ چیز معدے میں پہنچ کر ٹھہر گئی جبکہ اس سے بچنا عادۃ ً ممکن تھا۔ یہ بات مکھی یا دھوئیں یا دیگر غبار کے حلق میں داخل ہونے پر صادق نہیں ہوتی کیونکہ عادۃ ً اس سے بچنا اختیار سے باہر ہے۔ اس سے تحفظ صرف منہ بند رکھنے کی صورت میں ہوسکتا ہے۔- روزہ دار کے مثانے سے دو اداخل کرنے کا کیا حکم ہے ؟- اگر یہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک احلیل یعنی قضیب میں کسی دوا وغیرہ کے داخل کرنے کی بنا پر قضاواجب نہیں ہوتی تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ امام صاحب کے نزدیک قضا اس لیے واجب نہیں ہوتی کہ آپ کے خیال میں وہ دوا وغیرہ مثانہ تک نہیں پہنچتی ہے۔ امام صاحب سے یہ بات نصا ً روایت کی گئی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر وہ چیز مثانہ تک پہنچ جائے تو اس سے روز ٹوٹ جائے گا ۔ امام ابو یوسف اور امام محمد اس مسئلے میں یہ رائے کھتے ہیں کہ قضیب کا سوراخ بھی جسم میں فطری طور پر بنی ہوئی راہوں میں سے ایک ہے اس لئے اس راہ سے جانے والی چیز بھی جوف یعنی معدے تک پہنچ جاتی ہے۔- صائم کے قے کرنے سے روزہ کی کیفیت - جو شخص جان بوجھ کر قے کرے اس پر قضا واجب ہے لیکن جسے از خود قے آ جائے اس پر واجب نہیں ہے۔ قیاس کا بھی تقاضا یہی ہے کہ عمدا ً قے پر روزہ نہیں ٹوٹنا چاہیے کیونکہ اصل میں روزہ کھانے یا اس کے قائم مقام چیز مثلاً جماع وغیرہ سے ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ عمدا ً قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ جسم میں داخل ہونے والی چیز سے روزہ ٹوٹتا ہے جسم سے نکلنے والی چیز سے نہیں ٹوٹتا۔ جس طرح جسم سے خارج ہونے والی دیگر تمام اشیاء سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور اس پر سب کا اتفاق ہے تو قے کا خارج ہونا بھی ان دیگر اشیاء کے خروج کی طرح ہے اگرچہ اس میں قے کرنے والے کے اپنے فعل کو بھی داخل ہوتا ہے۔ - مگر فقہاء نے اس مسئلے یعنی عمدا ً قے کرنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول حدیث کی بنا پر قیاس کو ترک کردیا کیونکہ جہاں حدیث موجود ہو وہاں قیاس کا کوئی کام نہیں ہوتا ۔ یہ عیسیٰ بن یونس کی حدیث ہے جو انہوں نے ہشام بن حسان سے روایت کی ہے۔ ہشام نے اسے محمد سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( من ذرعہ القی لم لفطر ولا قضاء علیہ ومن استقاء عمداً فعلیہ القضاء جس کو از خود قے آ جائے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا اور نہ ہی اس پر قضا واجب ہوگی اور جو شخص جان بوجھ کر قے کرے گا اس پر قضا ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ اس مسئلے میں ابن سیرین سے ہشام بن حسان کی روایت غیر محفوظ ہے۔ اس سند سے صحیح روایت بھول کر کھا لینے کے متعلق ہے تو جواب میں کہا جائے گا کہ عیسیٰ بن یونس نے یہ دونوں باتیں اکٹھی ہشام بن حسان سے روایت کی ہے اور عیسیٰ بن یونس وہ ثقہ راوی ہیں جن کی امانت ، ثقاہت اور صداقت پر تمام علمائے جرح و تعدیل کا اتفاق ہے۔ محمد بن بکر نے ہم سے بیان کیا انہیں ابو دائود نے بتایا کہ حفص بن غیاث نے بھی ہشام سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔- امام اوزاعی نے یعیش بن ولید سے وایت کی ہے کہ انہیں معدان بن ابی طلحہ نے بتایا کہ مجھ سے حضرت ابو الدرداء نے بیان کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قے کی اور پھر روزہ ختم کرلیا ۔ ابو طلحہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری ملاقات حضرت ثوبان سے ہوئی ۔ میں نے یہ بات ان سے پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ ابو الدرداء نے درست کہا ہے۔ قے کے بعد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وضو کرنے کے لئے پانی ڈالتا رہا ۔- وہب بن جریر نے روایت کی ہے کہ میرے والد نے بتایا کہ میں نے یحییٰ بن ایوب کو یزید بن ابی حبیب سے یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ انہوں نے ابو مرزوق سے ، انہوں نے جیش سے ، انہوں نے فضالہ بن عبید سے روایت کی ہے کہ حضرت فصالہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے پانی منگوا کر پی لیا ، فضاء نے عرض کیا کہ آپ روزے سے نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” میں روزے سے تھا لیکن مجھے قے آ گئی تھی ‘ ‘ فقہاء نے ان آثار کی وجہ سے جان بوجھ کر قے کے مسئلے میں قیاس کو ترک کردیا تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ یہ روایت بھی موجود ہے کہ قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ یہ روایت ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن کثیر نے ، انہیں سفیان نے زید بن اسلم سے کی ہے۔ زید کے ایک دوست نے ایک صحابی سے یہ روایت بیان کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( لا یفطر من قاء ولا من احتلم ولا من احتجم ) جس شخص کو قے آ جائے یا جسے احتلام ہوجائے یا جس نے پچھنے لگوائے اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا ۔- اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث محمد بن ابان نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے انہوں نے ابو عبید اللہ صنا بحی سے یہ بیان کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ ( من اصبح صائما ً فذرعہ القی فلویفطر ، ومن احتلم فلم یفطر ومن احتجم فلم یفطر) جس شخص نے روزے کی حالت میں صبح کی پھر اسے قے آ گئی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا ، جسے احتلام ہوگیا اس کا روزہ نہیں ٹوٹا اور جس نے سینگی لگوائی اس کا روزہ نہیں ٹوٹا)- اس حدیث میں اس قے کا ذکر ہوا ہے جس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اور اگر یہ بات اس طرح بیان نہ ہوتی تو اسے اس کے اپنے معنی پر معمول کرنا ضروری ہوتا ۔ اس میں وجہ اور بھی ہے اور یہ کہ اس بیان سے دونوں حدیثیں ایک دوسری کی وجہ سے ساقط ہونے سے محفوظ رہتی ہیں اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو متضاد روایتیں منقول ہوں لیکن تضاد سے ہٹ کر کسی اور طریقے سے ان دونوں پر عمل کرنا ممکن ہو تو دونوں پر عمل کیا جائے گا اور کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا ۔- فقہاء نے یہ جو کہا ہے کہ اگر کسی شخص نے منہ بھرکرقے نہیں کی بلکہ اس سے کم مقدار میں قے آئی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ اس قول کی وجہ یہ ہے ایسی صورت میں اس پر قے کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی ڈکار لے اور اس کے ساتھ اس کی زبان پر معدے سے کوئی چیز آ جائے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے قے کی ہے۔ قے کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب اس کی مقدار زیادہ ہو اور وہ منہ سے باہر آ جائے۔ ابو الحسن کرخی (رح) منہ بھر ک قے کی مقدار کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ اتنی مقدار میں ہو کہ منہ میں اس کا روکنا ممکن ہی نہ ہو ، ایسی صورت میں وہ قے کہلائے گی ۔- پچھنے لگانے کے متعلق فقہاء کا قول ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا اس لیے کہ اصول یہ ہے کہ بدن سے خارج ہونے والی شے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مثلاً بول و براز ، پسینہ اور دودھ وغیرہ ۔ اس بنا پر اگر کوئی شخص زخمی ہوگیا اور زخموں سے خون نکلایا کسی نے فصد کھلوائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ، پچھنے لگانے کو بھی اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔- نیز یہ بھی وجہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہر چیز سے امساک شرعی روزے میں داخل نہیں ہے اس لئے ہمارے واسطے یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم ہر چیز کو اس کے ساتھ ملحق کریں سوائے ان چیزوں کے جن کے متعلق شریعت نے رہنمائی کردی ہے یا اس پر امت کا اتفاق ہوچکا ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بچھنے لگانے کی اباحت کے سلسلے میں بہت سے آثار منقول ہیں ۔ ایک روایت وہ ہے جو ہمیں عبد الباقی بن قانع نے بیان کی ، انہیں عبید بن شریک بزاز نے ، انہیں ابو الجماہر نے ، انہیں عبد اللہ بن زید بن اسلم نے ، انہیں ان کے والد زید نے عطاء بن یسار سے روایت کی ۔ عطاء نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( ثلث لا یفطرن الصائم القی ولا حتلام واحجمامۃ ) تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا ، قے ، اختلا م اور پچھنے لگانا)- ہمیں محمد بن بکر نے انہیں ابو دائود نے ، انہیں حفص بن عمر نے ، انہیں مثعیہ نے یزید بن ابی زیاد سے ، یزید نے مقسم سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالت احرام وصوم میں پچھنے لگوائے تھے۔ ہم سے عبد الباقی نے، ان سے حسین بن اسحاق نے ، ان سے محمد بن عبد الرحمن بن سہم نے ، ان سے عیسیٰ بن یونس نے ایوب محمد بن الیمانی سے ، انہوں نے مثنی بن عبد اللہ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک سے یہ روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اٹھارویں رمضان کی صبح ایک شخص کے پاس سے گزرا ہواجو پچھنے لگوا رہا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے دیکھ کر فرمایا ( افطرالحاجموالمحجوم) پچھنے لگانے والا) اور جسے لگایا گیا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ اس کے بعد ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور رمضان میں پچھنے لگوانے کے متعلق آپ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( اذانبغ باحد کم الدم فلیحتجم ، جب تم میں سے کسی کا خون جوش مارے تو وہ پچھنے لگوائے) ہمیں عبد الباقی نے ، انہیں محمد بن الحسن بن حبیب ابو حفص کو فی نے ، انہیں ابراہیم بن محمد میمون نے ، انہیں ابو مالک نے حجاج سے ، حجاج نے حکم سے ، انہوں نے مقسم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت بیان کی کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی جس کی وجہ سے آپ پر نیم بےہوشی طاری ہوگئی ، اسی بنا پر آپ نے اسے ناپسند فرمایا ۔- ہمیں محمد بن بکر نے انہیں ابو دائود نے ، انہیں القعبی نے ، انہیں سلیمان یعنی ابن المغیرہ نے ثابت سے یہ روایت بیان کی ثابت نے حضرت انس سے ان کا یہ قول نقل کیا کہ ہم روزہ دار کے لیے پیچھے لگوانے کو صرف اس لیے چھوڑ دیتے تھے یعنی اس کام سے صرف اس لیے روکتے تھے کہ ہم اسے مشقت میں مبتلا کرنا ناپسند کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مکحولی نے حرت ثوبان (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( افطر الحلجم والمحجوم) ابو قلابہ نے ابو الاشعت سے ، انہوں نے حضرت شدادا بن اوس سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھارہ رمضان کو میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے مقام بقیع میں ایک شخص کے پاس سے گزرے جو پچھنے لگوا رہا تھا، آپ نے فرمایا ( افطر الحاجم والمحجوم) اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے اور ناقلین حدیث کے اصول کے مطابق یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ بعض نے اسے ابو قلابہ ، ابو اسماء اور ثوبان کے سلسلہ سند سے اور بعض نے اسے ابو قلابہ ، شداد بن اوس کے سلسلہ سند سے روایت کی ہے۔ سند میں اس قسم کا اضطراب روایت کو کمزور کردیتا ہے۔ رہی مکحول کی روایت تو اس کی سند میں دراصل حضرت ثوبان سے جس شخص نے روایت کی ہے وہ قبیلے کا ایک بوڑھا شخص ہے جس کے احوال پر پردہ پڑا ہوا ہے۔- دوسر ی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ( افطورالحاجم والمحجوم) میں حجامت کی بنا پر جبکہ آپ نے یہ کہہ کر ایک عین ذات کی طرف اشارہ کیا ۔ روزہ ٹوٹنے پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس جیسی صورت میں حجامت کا ذکر ان دونوں شخصوں کی شناخت کے لیے تھا ، مثلاً آپ یہ کہیں کہ افطوالقائم والقاعد (کھڑا ہونے والا) اور بیٹھنے والا دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) اسی طرح یہ کہیں کہ افطرزید ( زید کا روزہ ٹوٹ گیا) یہ کہتے ہوئے آپ کسی شخص کی عین ذات کی طرف اشارہ کریں ۔ - ایسی صورت میں آپ کے اس کلام میں اس معنی پر کوئی دلالت نہیں ہوگی کہ قیام روزہ توڑنے کا باعث ہے۔ یا فلاں شخص کا زید ہوتا اس کے افطار کا سبب ہے، یعنی معنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قوم ( افطرالحاجم والمحجوم) کے لیے جائیں گے جبکہ آپ نے یہ کہتے ہوئے دو شخصوں کے عین ذات کی طرف اشارہ کیا تھا اس لئے اس کلام میں اس معنی پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ حجامت کی بنا پر روزہ ٹوٹ گیا ۔ اس روایت کی یہ تاویل بھی جائز ہے کہ آپ نے ان دونوں کو کھانے پینے وغیرہ کی ایسی حالت میں دیکھا ہوگا جو روزہ توڑنے کا سبب بنی ہو۔ پھر آپ نے ان کے روزہ ٹوٹ جانے کی اطلاع اور وجہ بتانا ضروری نہیں سمجھا، یہ تاویل بھی درست ہے کہ آپ نے ان دونوں کو لوگوں کی غیبت کرتے ہوئے دیکھا ہوگا پھر آپ نے ان کے متعلق فرمایا کہ ان دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔- جس طرح کہ یزید بن ابان نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( الغیبۃ تفطر الصائم) غیبت سے روزہ دار کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے فقہاء کے نزدیک اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیب کرنے والا روزہ سے باہر ہوجاتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ غیبت اس کے روزے کے ثواب کو باطل کردیتی ہے۔ اس لیے ( افطر الحاجم والمحجوم) کی روایت میں حاجم اور محجوم کے روزہ ٹوٹ جانے کا یہ معنی ہو ( یعنی روزہ تو نہیں ٹوٹا البتہ روزے کا ثواب باطل ہوگیا ) مترجم ۔ ایک تاویل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم نے جو روایتیں یہاں بیان کی ہیں ان میں حجامت سے نہی کہ بعد حجامت کی اجازت کی تاریخ کا ذکر ہے ( اس طرح نہی والی روایتیں رخصت کی روایتوں کی بناء پر منسو خ ہوگئیں) مترجم۔- یہ تاویل بھی جائز ہے کہ حجامت سے اس لیے روک دیا گیا تھا کہ حالت صوم میں اس کی وجہ س کمزوری پیدا ہونے کا اندیشہ تھا جس طرح آپ نے سفر میں روزہ رکھنے سے اس وقت منع فرما دیا تھا جبکہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ سفر میں روزے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوری کی بنا پر اس پر چادر تان دی گئی تھی ۔ فقہاء کا یہ قول کہ اگر کوئی شخص دانتوں میں پھنسی ہوئی کوئی چیز روزے کی حالت میں نگل لے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پھنسی ہوئی چیز پانی کے ان اجزاء کی طرح ہے جو منہ میں اس وقت باقی رہ گئے ہوں جب روزہ دار کلی کر کے فارغ ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ یہ اجزاء اس کے جوف میں پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جانے کا کوئی حکم موجود نہیں ہے اسی طرح خوراک کے ایسے اجزاء جو اس کے منہ میں رہ گئے ہوں ان کی بھی وہی حیثیت ہے جس کا تذکرہ ہم نے ابھی پانی کے اجزاء کے سلسلے میں کیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے رات کے وقت ستو کا استعمال کیا ہو اور کلی وغیرہ کی ہو جس کا اس زمانے میں رواج نہیں تھا تو لازمی امر ہے کہ صبح کے وقت اس کے دانتوں میں اس کے کچھ اجزا باقی رہ گئے ہوں گے اور کسی نے اسے ان اجزا کو خلال اور کلی کرنے کے ذریعہ پوری طرح نکال دینے کا حکم نہیں دیا جس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ایسے اجزاء کا کوئی حکم نہیں ہے ، یعنی ان کے نگل لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔- کیا روزہ دار کے منہ میں کھی جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟- اگر مکھی روزہ دار کے منہ میں پہنچ جائے جبکہ اس میں روزہ دار کے اپنے ارادے کا دخل نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا اس لیے کہ عادۃ ً ایسی صورت حال سے بچائو نہیں ہوسکتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مکھی کے پیٹ میں پہنچ جانے کے خطرے کے پیش نظر روزہ دار کو منہ بند رکھنے اور کلام نہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اس بنا پر مکھی کے داخل ہوجانے کی صورت گرد و غبار اور دھوئیں کے حلق کے اندر پہنچ جانے کا مشابہ ہے اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا لیکن یہ صورت اس حالت کے مشابہ نہیں ہے جس میں کسی روزہ دار کے منہ میں زبردستی پانی انڈیل دیا جائے۔ ایسی صورت میں اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اس لیے کہ اس میں عادت کو کوئی دخل نہیں ہے۔ جبکہ ہم نے مکھی کے داخل ہونے کا جو مسئلہ بیان کیا ہے اس میں سلام کے لیے منہ کھولنا عام عادت پر مبنی ہے اور جس سے عادۃ ً بچنا مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس سلسلے میں اپنے بندوں پر تخفیف کردی ہے۔ قول باری ہے ( وما جعل علیکم فی الدین من حرج) اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی پیدا نہیں کی ہے۔- رہی جنابت تو وہ صحت صوم کے لیے مانع نہیں ہے (فالان باشروھن وابتغوا ما کتب اللہ لکم وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیوی سے ہمبستری کو رات کی ابتداء سے انتہا تک مطلق رکھا ہے ۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ جو شخص آخر شب ہم بستری کا عمل کرے گا اور طلوع فجر کے ساتھ اسے فراغت ہوگی تو ایسی صورت میں وہ جنابت کی حالت میں صبح کرے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول ( ثم اتموا الصیام الی اللیل) کے ذریعے اس کے روزے کی صحت کا حکم لگا دیا ہے۔ - علاوہ ازیں عائشہ (رض) اور حضرت اسلم سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی جنابت کی حالت میں جو احتلام کی وجہ سے لا حق نہیں ہوتی تھی ( بلکہ ہم بستری کی وجہ سے ہوتی تھی) صبح کرتے اور پھر اس دن کا روزہ رکھ لیتے ۔ ابو سعید نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا ( ثلاث لا یفطون الصائم القی والحجامۃ والاحتلام) ظاہر ہے کہ احتلام سے جنابت لا حق ہوجاتی ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی حالت میں روزے کی صحت کا حکم صاد فرما دیا ہے۔- یہ بات ا س حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ جنابت روزے کی صحت کے منافی نہیں ہے ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ( من اصبح جنبا ً فلا یصومن یومہ) جس شخص نے جنابت کی حالت میں صبح کی وہ ہرگز اس دن کا روزہ نہ رکھے ۔ لیکن جب حضرت ابوہریرہ (رض) کو حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) کی روایت کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے فرمایا مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ مجھے تو فضل بن عباس نے یہ حدیث نسائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کا یہ قول آپ کی اپنی روایت کی تصنیف کر رہا ہے ۔ اس لیے کہ آپ نے شروع میں یہ فرمایا ۔ رب کعبہ کی قسم میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ جس شخص نے جنابت کی حالت میں صبح کی اس کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ رب کعبہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ہے کہ میں اس کے متعلق پوچھنے والے کو یہ فتویٰ دیتا ہوں کہ اس کا روزہ نہیں رہا ۔- جب آپ کو حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) کی روایت سنائی گئی تو آپ نے اپنی ذمہ داری سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :” مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ مجھے تو اس بارے میں فضل بن عباس نے بتایا تھا “۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے اپنے فتویٰ سے رجوع کرلیا تھا۔ ہمیں یہ روایت عبد الباقی نے کی ہے، انہیں اسماعیل بن فضل نے انہیں عمرو بن الہیثم نے انہیں ہشام نے قتادہ سے روایت کی ، قتادہ نے سعید بن المسیب سے روایت کی کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اپنے اس فتویٰ سے رجوع کرلیا تھا کہ جس شخص نے جنابت کی حالت میں صبح کی تو وہ اس دن کا روزہ رکھے ۔ اس بنا پر اگر حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ثابت تسلیم بھی کرلی جائے تو یہ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) کی روایت کی معارض نہیں ہوگی ۔ کیونکہ اس میں یہ تاویل کی جاسکتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی مراد اس سے یہ ہو کہ جو شخص صبح کے وقت ایسا فعل کرے جو جنابت کا موجب ہو مثلاً وہ صبح کے وقت اپنی بیوی سے مباشرت کرے تو اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ اگر ہمارے لیے دو روایتوں کی تصحیح اور ان دونوں پر عمل پیرا ہونا ممکن ہو تو ہم ان دونوں پر اس حد تک عمل پیرا ہوں گے جس حد تک ان میں تعارض پیدا نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) کی روایت اس طرح قابل عمل ہوسکتی ہے کہ اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ مخصوص کردیا جائے کیونکہ ان دونوں امہات المومنین نے اس کی نسبت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کی طرف کی ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کو امت کے لیے معمول برقرار دیا جائے۔- اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حکم میں دوسروں کے ساتھ مساوات اور شرکت نقل کی گئی ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام سلمہ کی روایت سن کر فرمایا تھا کہ مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ مجھے تو یہ بات فضل بن عباس نے بتائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ نہیں فرمایا کہ ان دونوں کی روایت میری روایت کی معارض نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کی روایت کا اقتصار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر ہے اور میری روایت باقی تمام لوگوں کے لیے ہے۔- حضرت ابوہریرہ (رض) کے بیان سے معتر ض کی تاویل باطل ہوجاتی ہے نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جملہ احکام شریعت میں امت کے مساوی اور شریک ہیں سوائے ان احکام کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات کے ساتھ خاص کردیے اور امت کو ان کی اطلاع دے کر بقیہ احکام سے انہیں جدا کردیا ۔ ارشاد باری ہے ( فاتبعوہ ٗ ، رسول کی پیروی کرو) اسی طرح قول باری ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔- درج بالا سطور میں ہم نے جن امور کا تذکرہ کیا ہے۔ رمضان میں دن کے وقت ان سے امساک یعنی باز رہنا روزے کا حصہ ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے اس قول ثم اتموا الصیام الی اللیل اور قول باری فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ میں مطلوب و مراد ہے۔ اسی لیے ان چیزوں سے امساک صوم لغوی اور صوم شرعی دونوں میں داخل ہے اور جو باتیں امساک کے مفہو م میں شامل نہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ روزے کی شرائط میں داخل ہیں۔- ہماری مذکورہ صورتوں میں امساک اس وقت تک صوم شرعی نہیں بنے گا جب تک یہ شرطیں نہیں پائی جائیں گی ، وہ چیزیں ہیں اسلام ، بلوغت اور نیت صوم نیز عورت ہونے کی صورت میں حی سے پاکی ان شرائط میں سے ایک شرط بھی اگر موجود نہ پائی جائے تو اسی حالت میں امساک کو صوم شرعی نہیں کہا جائے گا ۔ رہ گئی اقامت اور صحت تو یہ دونوں چیزیں روزے کے لزوم کی شرطیں ہیں سفر اور مر کا وجود روزے کی صحت کے منافی نہیں ہے یہ دونوں چیزیں بطریق وجوب روزے کے لزوم کی منافی ہیں اس لیے اگر مریض اور مسافر روزہ رکھ لیں تو ان کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ بلوغت لزوم صوم کی صحت کے لیے شرط ہے تو اس کی وجہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث ہے رفع القلم عن ثلاثہ ، عن النائم حتی یستیقظ ، وعن المجنوت حتی یفیق وعن الصبی حتی یحتلم ۔ تین قسم کے انسان مروفع القلم ہیں ۔ نیند میں پڑا ہوا انسان جب تک بیدار نہ ہوجائے ، دیوانہ جب تک دماغی حالت درست نہ ہوجائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے۔ ا س بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نابالغ کو تمام عبادتیں معاف ہیں ۔ اسی طرح روزہ بھی لازم نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ قریب البلو غ لڑکے کو تعلیم کے طور پر روزہ رکھنے کا حکم دیا جاسکتا ہے تا کہ اس میں اس کی عادت پیدا ہو اور اسے اس کی مشق کا موقعہ ملے۔ ارشاد باری ہے توا انفسکم واھلیکم نارا ً اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچائو اس آیت کی تفسیر میں کہا گیا کہ اس کا مفہوم ہے کہ انہیں تعلیم دو اور اسلامی آداب سے روشناس کرائو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا مروھم بالصلوٰۃ لسبع واضربوھم علیھا لشعر اپنے بچوں کو جب وہ سات برس کے ہوجائیں نماز پڑھنے کے لئے کہو اور جب وہ دس برس کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے کی صورت میں ان کی پٹائی کرو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم اس وجہ سے نہیں تھا کہ بچے اس عمر میں نماز کے مکلف ہیں بلکہ یہ حکم تعلیم اور تادیب کے طور پر تھا۔ اسلام کی شرط تو اس وجہ سے ہے کہ یہ بندے کے فعل کی صحت کے لیے بنیاد ہے کیونکہ اراشد باری ہے ( لئن اشرکت لیحبطن عملک اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے سارے اعمال اکارت جائیں گے ۔ اس بنا پر کوئی نیکی اس وقت تک کار آمد نہیں ہوگی جب تک کہ نیکی کرنے والے میں مومن ہونے کی شرط موجود نہ ہو۔ رہی عقل کی شرط تو اگر اس کے ساتھ نیت اور ارادہ مفقود ہو تو یہ صورت حالی نیت کے فقدان کی بنا پر روزے کی صحت کی نفی کر دے گی ۔ اگر اس کے ساتھ رات کے وقت سے نیت صوم پائی جائے پھر عقل گم ہوجائے تو یہ صورت حال اس سے روزے کی نفی نہیں کرے گی ۔ ہم نے یہ جو کہا ہے کہ نیت روزے کی صحت کے لیے شرط ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ شرعی روزہ اسی وقت بنے گا جب روزہ دار کی نیت تقریب الٰہی کی ہو اور کوئی تقریب یا نیکی اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک اس میں نیت اور ارادہ کو دخل نہ ہو۔- ارشاد باری ہے لن ینال اللہ لحومھا ولا د ماء ھا ولکن ینالہ التقوی منکم نہ ان کے گوشت اللہ کے ہاں پہنچتے ہیں نہ خون ، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی کہ اس کے امر کی موافقت کی جستجو تقویٰ کی شرط ہے۔ اب جبکہ اس کے متقی ہونے کی شرط اس کا فرض روزہ رکھنا ٹھہرا تو یہ بات نیت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اس لیے کہ تقویٰ اللہ تعالیٰ کے امر کی موافقت کی جستجو اور اس کے ارادے کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔ ارشاد باری ہے وما امروا الا لیعبد و اللہ مخلصین لہ الذین انہیں اس کے سوا اور کسی بات کا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ دین کو اسی کے لیے خالص رکھیں اور دین کو اللہ کے لیے خالص رکھنا اسی وقت حاصل ہوگا جب کہ اس سے اللہ کی ذات کا قصد کیا جائے اور اس کے سوا کسی اور کے ارادے سے پورے طرح منہ موڑ لیا جائے۔ نیتوں کے ساتھ فرض عبادتوں کے تعلق کے بارے میں یہ چند اصولی باتیں ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نماز ، زکوٰۃ ، حج اور کفارات کی ایک شرط یہ ہے کہ ان کی انجام دہی کی نیت دل میں پیدا ہو اس لیے کہ یہ ایسے فرائض ہیں جو مقصود بالذات ہیں اس بنا پر روزے کا حکم بھی بعینہٖ اسی علت کی بنا پر یہی ہوگا ۔- اگر یہ کہا جائے کہ روزے اور تمام دوسری فرض عبادتوں میں نیت کی شرط کے ثبوت کے لیے آپ نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان سے یہ لازم آتا ہے کہ طہارت میں بھی نیت کی شرط ہو اس لیے کہ وہ بھی ایک فریضہ ہے۔ جو اب میں کہا جائے گا کہ آپ نے جو کچھ کہا صورت حال اس طرح نہیں ہے اس لیے طہارت مقصود بالذات فریضہ نہیں ہے ۔ اس سے مقصود دوسری عبادت ہوتی ہے جس کے لیے اس شر ط قرار دیا جاتا ہے ۔ اس لیے ہم سے کہا گیا ہے کہ طہارت کے بغیر نماز نہ پڑھو جس طرح کہ یہ کہا گیا ہے نجاست سے پاکیزگی کے بغیر نماز نہ پڑھو یا ستر عورت کے بغیر نماز نہ پڑھو اس لیے یہ باتیں مفروض بالذات نہیں ہیں اس لیے ان میں نیت کا دل میں پیدا کرنا لازم نہیں ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ جب خود نیت کسی دوسری عبادت کے لیے شرط ٹھہری اور مفروض بالذات نہیں ہوئی اس لیے یہ نیت بغیر اس بات کے درست ہوگئی کہ اس کے لیے کوئی اور نیت دل میں پیدا کی جائے۔ اس بنیاد پر ایسے فرائض جو مقصود بالذات ہیں اور ایسے فرائض جو دوسرے فرائض کے لیے شرط کا کام دیتے ہیں اور مفروض بالذات نہیں ہیں دونوں کے حکم ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ جب پانی کے ذریع طہارت دوسری عبادتوں کے لیے شرط ٹھہری نیز یہ کسی کا بدل بھی قرار نہیں پائی اس بنا پر اس میں نیت کرنا لازم نہیں ہوا لیکن اس اسدلال سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم تیمم کے لیے نیت نہ کریں اس لیے کہ تیمم پانی کا بدل ہے اس بنا پر یہ اسی وقت ذریعہ طہارت بنے گا جب کہ نیت اس کا جز بن جائے کیونکہ تیمم بذاتہٖ طہارت نہیں ہے بلکہ یہ ایک اور ذریعہ طہارت یعنی پانی کا بدل ہے۔- (بقیہ تفسیر اگلی آیت میں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨٥) رمضان المبارک کا مہینہ ایسا ہے جس میں حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) کے واسطہ سے سارا قرآن کریم ایک ہی دفعہ آسمان دنیا پر اتارا گیا پھر انہوں نے اس کا فرشتوں پر املا کرایا اور اس کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دن بدن ایک یا دو اور تین آیات اور کبھی پوری سورت نازل ہوتی رہی۔ اور قرآن کریم لوگوں کے سامنے گمراہی کے راستے بیان کرنے والا اور دین معاملات کو واضح طور پر روشن کرنے والا ہے اور اسی طریقہ پر قرآن میں حلال و حرام اور جملہ احکام وحدود اور شبہات کا ازالہ ہے۔- اور جو مقیم ہو وہ روزے رکھے اور جو شخص رمضان المبارک کے مہینہ میں بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو دوسرے دنوں میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرے، اللہ تعالیٰ سفر کی حالت میں روزے کھول دینے کی اجازت دیتا ہے اور ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے (کہ تکلیف کی حالت میں) حالت سفر میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے روزوں کا کھولنا پسند کیا ہے اور حالت سفر میں روزہ کی وجہ سے تمہارے لیے تنگی اور مشکل کا ارادہ نہیں فرمایا اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ سفر میں جب سختی ہو تو تمہارے لیے روزہ کو پسند نہیں کیا ہے، تاکہ جتنے روزے تم نے سفر میں نہیں رکھے ہیں، اقامت کی حالت میں ان کو پورا کرلو، اور اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو جیسا کہ اس نے اپنے دین کی تمہیں ہدایت عطا فرمائی اور تمہیں اپنی خاص سہولتوں سے نوازا تاکہ تم اس ذات کی ان خصوصی رعایتوں پر شکر بجالاؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٥ (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ) (ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج) (فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط) - اب وہ وجوب علی التخییرّ کا معاملہ ختم ہوگیا اور وجوب علی التعیین ہوگیا کہ یہ لازم ہے ‘ یہ رکھنا ہے۔ - (وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط) - یہ رعایت حسب سابق برقرار رکھی گئی ۔- (یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز) - لوگ خواہ مخواہ اپنے اوپر سختیاں جھیلتے ہیں ‘ شدید سفر کے اندر بھی روزے رکھتے ہیں ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنے کی اجازت دی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سفر میں ان لوگوں پر کافی سرزنش کی جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ صحابہ کرام (رض) کے ہمراہ جہاد و قتال کے لیے نکلے تھے کہ کچھ لوگوں نے اس سفر میں بھی روزہ رکھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سفر کے بعد جہاں منزل پر جا کر خیمے لگانے تھے وہ نڈھال ہو کر گرگئے اور جن لوگوں کا روزہ نہیں تھا انہوں نے خیمے لگائے۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ ) (٢١) سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔ لیکن ہمارا نیکی کا تصور مختلف ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ خواہ ١٠٥ بخار چڑھا ہوا ہو وہ کہیں گے کہ روزہ تو میں نہیں چھوڑوں گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی رعایت سے فائدہ نہ اٹھانا ایک طرح کا کفران نعمت ہے۔ - (وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ) - مرض یا سفر کے دوران جو روزے چھوٹ جائیں تمہیں دوسرے دنوں میں ان کی تعداد پوری کرنی ہوگی۔ وہ جو ایک رعایت تھی کہ فدیہ دے کر فارغ ہوجاؤ وہ اب منسوخ ہوگئی۔- (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٹکُمْ ) ( وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ )- وہ نعمت عظمیٰ جو قرآن حکیم کی شکل میں تمہیں دی گئی ہے ‘ تم اس کا شکر ادا کرو۔ اس موضوع پر میرے دو کتابچوں عظمت صوم اور عظمت صیام و قیام رمضان مبارک کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔ ان میں یہ سارے مضامین تفصیل سے آئے ہیں کہ روزے کی کیا حکمت ہے ‘ کیا غرض وغایت ہے ‘ کیا مقصد ہے اور آخری منزل کیا ہے۔ مطلوب تو یہ ہے کہ تمہارا یہ جو جسم حیوانی ہے ‘ یہ کچھ کمزور پڑے اور روح ربانی جو تم میں پھونکی گئی ہے اسے تقویت حاصل ہو۔ چناچہ دن میں روزہ رکھو اور اس حیوانی وجود کو ذرا کمزور کرو ‘ اس کے تقاضوں کو دباؤ۔ پھر راتوں کو کھڑے ہوجاؤ اور اللہ کا کلام سنو اور پڑھو ‘ تاکہ تمہاری روح کی آبیاری ہو ‘ اس پر آب حیات کا ترشح ہو۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ خود تمہارے اندر سے تقربّ الی اللہ کی ایک پیاس ابھرے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :187 یعنی اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کے لیےمخصوص نہیں کر دیا ہے ، بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذر شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں ، ان کے لیے دوسرے دنوں میں اس کی قضا کر لینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تا کہ قرآن کی جو نعمت اس نے تم کو دی ہے ، اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محروم نہ رہ جاؤ ۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے ، بلکہ انہیں مزید براں اس عظیم الشان نعمت ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے ، جو قرآن کی شکل میں اس نے ہمیں عطا فرمائی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہوسکتی ہے ، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے ، جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو ۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دنیا کو اس پر چلائیں ۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے ۔ لہٰذا نزول قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے ، اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے ، بلکہ اس کے ساتھ خود اس نعمت قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

116: اس آیت میں ایک لطیف اشارہ ان تکبیرات کی طرف بھی ہے جو رمضان کے فوراً بعد عید کی نماز میں کہی جاتی ہیں۔