Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رمضان میں مراعات اور کچھ پابندیاں ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا پینا ، جماع کرنا عشاء کی نماز تک جائز تھا اور اگر کوئی اس سے بھی پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہوگیا ، اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو قدرے مشقت ہوئی جس یہ رخصت کی آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے رفث سے مراد یہاں جماع ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ عطا مجاہد سعید بن جبیر طاؤس سالم بن عبداللہ بن عمرو بن دینا حسن قتادو زہری ضحاک ، ابراہیم نخعی ، سدی ، عطا خراسانی ، مقاتل بن حبان رحمہم اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ لباس سے مراد سکون ہے ، ربیع بن انس لحاف کے معنی بیان کرتے ہیں مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ انہیں ان راتوں میں بھی اجازت دی جاتی ہے پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ جس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب یہ حکم تھا کہ افطار سے پہلے اگر کوئی سوجائے تو اب رات کو جاگ کر کھاپی نہیں سکتا اب اسے یہ رات اور دوسرا دن گزار کر مغرب سے پہلے کھانا پینا حلال ہوگا حضرت قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ دن بھر کھتی باڑی کا کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کہا کچھ کھانے کوہے؟ جواب ملا کچھ نہیں میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں وہ تو گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی جب آکر دیکھا تو بڑا افسوس ہوا کہ اب یہ رات اور دوسرا دن بھوکے پیٹوں کیسے گزرے گا ؟ چنانچہ جب آدھا دن ہوا تو حضرتقیس بھوک کے مارے بیہوش ہوگئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ذکر ہوا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے ۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہو جایا کرتے تھے جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قصور کئی ایک حضرات سے ہوگیا تھا جن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہوں نے عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی پھر دربار نبوت میں شکایتیں ہوئی اور یہ رحمت کی آیتیں اتریں ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آکر یہ واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا عمر تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت یہ آیت اتری ایک روایت میں ہے کہ حضرت قیس نے عشاء کی نماز کے بعد نیند سے ہوشیار ہو کر کھاپی لیا تھا اور صبح حاضر ہو کر سرکار محمدی میں اپنا قصور بیان کیا تھا ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب مبارشرت کا ارادہ کیا تو بیوی صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آگئی تھی لیکن انہوں نے اسے بہانہ سمجھا ، اس رات آپ دیر تک مجلس نبوی میں بیٹھے رہے تھے اور بہت رات گئے گھر پہنچے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی قصور ہوگیا تھا ماکتب اللہ سے مراد اولاد ہے ، بعض نے کہا جماع مراد ہے بعض کہتے ہیں لیلۃ القدر مراد ہے قتادہ کہتے ہیں مراد یہ رخصت ہے تطبیق ان سب اقوال میں اس طرح ہوسکتی ہے کہ عموم کے طور پر سبھی مراد ہیں ۔ جماع کی رخصت کے بعد کھانے پینے کی اجازت مل رہی ہے کہ صبح صادق تک اس کی بھی اجازت ہے صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب من الفجر کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لئے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اس کے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے ، مسند احمد میں ہے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو دھاگے ( سیاہ اور سفید ) اپنے تکئے تلے رکھ لئے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکل اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے ۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں بھی ہے ، مطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونون آجاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق ومغرب تک کی ہے ، صحیح بخاری میں یہ تفسیر بھی روایتا موجود ہے ، بعض روایتوں میں یہ لفظ بھی ہے کہ پھر تو تو بڑی لمبی چوڑی گردن والا ہے ، بعض لوگوں نے اس کے معنی بیان کئے ہیں کہ کند ذہن ہے لیکن یہ معنی غلط ہیں ، بلکہ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جب تکیہ اتنا بڑا ہے تو گردن بھی اتنی بڑی ہی ہوگی واللہ اعلم ۔ بخاری شریف میں حضرت عدی کا اسی طرح کا سوال اور آپ کا اسی طرح کا جواب تفصیل وار یہی ہے ، آیت کے ان الفاظ سے سحری کھانے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اس لئے کہ اللہ کی رخصتوں پر عمل کرنا اسے پسند ہے ، حضور علیہ السلام کا فرمان ہے کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے ( بخاری ومسلم ) ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے ( مسلم ) سحری کا کھانا برکت ہے اسے نہ چھوڑو اگر کچھ نہ ملے تو پانی کا گھونٹ ہی سہی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں ( مسند احمد ) اسی طرح کی اور بھی بہت سے حدیثیں ہیں سحری کو دیر کر کے کھانا چاہئے ایسے وقت کہ فراغت کے کچھ ہی دیر بعد صبح صادق ہو جائے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سحری کھاتے ہی نماز کے لئے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اذان اور سحری کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں ( بخاری ومسلم ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جب تک میری امت افطار میں جلدی کرے اور سحری میں تاخیر کرے تب تک بھلائی میں رہے گی ۔ ( مسند احمد ) یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام غذائے مبارک رکھا ہے ، مسند احمد وغیرہ کی حدیچ میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی ایسے وقت کہ گویا سورج طلوع ہونے والا ہی تھا لیکن اس میں ایک راوی عاصم بن ابو نجود منفرد ہیں اور مراد اس سے دن کی نزدیکی ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ فاذا بلغن اجلہن الخ یعنی جب وہ عورتیں اپنے وقتوں کو پہنچ جائیں مراد یہ ہے کہ جب عدت کا زمانہ ختم ہو جانے کے قریب ہو یہی مراد یہاں اس حدیث سے بھی ہے کہ انہوں نے سحری کھائی اور صبح صادق ہو جانے کا یقین نہ تھا بلکہ ایسا وقت تھا کہ کوئی کہتا تھا ہوگئی کوئی کہتا تھا نہیں ہوئی کہ اکثر اصحاب رسول اللہ کا دیر سے سحری کھانا اور آخری وقت تک کھاتے رہنا ثابت ہے جیسے حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت علی ، ابن مسعود ، حضرت حذیفہ ، حضرت ابو ہریرہ حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کی بھی ایک بہت بڑی جماعت سے صبح صادق طلوع ہونے کے بالکل قریب تک ہی سحری کھانا مروی ہے ، جیسے محمد بن علی بن حسین ، ابو مجلز ، ابراہیم نخعی ، ابو الضحی ، ابو وائل وغیرہ ، شاگردان ابن مسعود ، عطا ، حسن ، حاکم بن عیینہ ، مجاہد ، عروہ بن زبیر ، ابو الشعثائ ، جابر بن زیاد ، اعمش اور جابر بن رشد کا اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ہم نے ان سب کی اسنادیں اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام میں بیان کردی ہے وللہ الحمد ابن جریری نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے تک کھانا پینا جائز ہے جیسے غروب ہوتے ہی افطار کرنا ، لیکن یہ قول کوئی اہل علم قبول نہیں کرسکتا کیونکہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن میں حیط کا لفظ موجود ہے ، بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن کر تم سحری سے نہ رک جایا کرو وہ رات باقی ہوتی ہے اذان دے دیا کرتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو جب تک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان نہ سن لو وہ اذان نہیں کہتے جب تک فجرطلوع نہ ہو جائے ۔ مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ فجر نہیں جو آسمان کے کناروں میں لمبی پھیلتی ہے بلکہ وہ جو سرخی والی اور کنارے کنارے ظاہر ہونے والی ہوتی ہے ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اس میں ہے کہ اس پہلی فجر کو جو طلوع ہو کر اوپر کو چڑھتی ہے دیکھ کر کھانے پینے سے نہ کو بلکہ کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سرخ دھاری پیش ہو جائے ، ایک اور حدیث میں صبح کاذب اور اذان بلال کو ایک ساتھ بھی بیان فرمایا ہے ایک اور روایت میں صبح کاذب کو صبح کی سفیدی کے ستون کی مانند بتایا ہے ، دوسری روایت میں اس پہلی اذان کو جس کے موذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ سوتوں کو جگانے اور نماز تہجد پڑھنے والوں اور قضا لوٹا نے کے لئے ہوتی ، فجر اس طرح نہیں ہے جب تک اس طرح نہ ہو ( یعنی آسمان میں اونچی چڑھنے والی نہیں بلکہ کناروں میں دھاری کی طرح ظاہر ہونے والی ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ فجر دوہیں ایک توبھیڑیے کی دم کی طرح ہے اس سے روزے دار پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ہاں وہ فجر جو کناروں میں ظاہر ہو وہ صبح کی نماز اور روزے دار کا کھانا موقوف کرنے کا وقت ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو سفیدی آسمان کے نیچے سے اوپر کو چڑھتی ہے اسے نماز کی حلت اور روزے کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں لیکن فجر جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکنے لگتی ہے وہ کھانا پینا حرام کرتی ہے ۔ حضرت عطا سے مروی ہے کہ آسمان میں لمبی لمبی چڑھنے والی روشنی نہ تو روزہ رکھنے والے پر کھانا پیناحرام کرتی ہے نہ اس سے نماز کا وقت آیا ہوا معلوم ہوسکتا ہے نہ حج فوت ہوتا ہے لیکن جو صبح پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل جاتی ہے یہ وہ صبح ہے جو روزہ دار کے لئے سب چیزیں حرام کردیتی ہے اور نمازی کو نماز حلال کردیتی ہے اور حج فوت ہو جاتا ہے ان دونون روایتوں کی سند صحیح ہے اور بہت سے سلف سے منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ مسئلہ: چونکہ جماع کا اور کھانے پینے کا آخری وقت اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والے کے لئے صبح صادق کا مقرر کیا ہے اس سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ صبح کے وقت جو شخص جنبی اٹھا وہ غسل کر لے اور اپنا روزہ پورا کرلے اس پر کوئی حرج نہں ، چاروں اماموں اور سلف وخلف کے جمہور علماء کرام کا یہی مذہب ہے ، بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جماع کرتے صبح کے وقت جنبی اٹھتے پھر غسل کر کے روزہ رکھتے آپ کا یہ جنبہ ہونا احتلام کے سبب نہ ہوتا تھا ، حضرت ام سلمہ والی روایت میں ہے پھر آپ نہ افطار کرتے تھے نہ قضا کرتے تھے ، صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صبح نماز کا وقت آجانے تک جنبی ہوتا ہوں تو پھر کیا میں روزہ رکھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہی بات میرے ساتھ بھی ہوتی ہے اور میں روزہ رکھتا ہوں اس نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تو آپ جیسے نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں آپ نے فرمایا واللہ مجھ تو امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کی باتوں کو جاننے والا میں ہوں ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ جب صبح کی اذان ہو جائے اور تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ اس دن روزہ نہ رکھے ، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور یہ حدیث شرط شیخین پر ہے ۔ جیسے کہ ظاہر ہے یہ حدیث بخار مسلم میں بھی حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے وہ فضل بن عباس سے روایت کرتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنن نسائی میں یہ حدیث بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم ، عطا ، ہشام بن عروہ اور حسن بصری رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنبی ہو کر سوگیا ہو اور آنکھ کھلے تو صبح صادق ہوگئی ہو تو اس کے روزے میں کوئی نقصان نہیں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ والی حدیث کا یہی مطلب ہے اور اگر اس نے عمدا غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں صبح صادق ہوگئی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا حضرت عروہ ، طاؤس اور حسن یہی کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اگر فرضی روزہ ہو تو پورا تو کرلے لیکن قضا لازم ہے اور نفلی روزہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، ابراہیم نخعی یہی کہتے ہیں ، خواجہ حسن بصری سے بھی ایک روایت ہے بعض کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ والی حدیث حضرت عائشہ والی حدیث سے منسوخ ہے لیکن حقیقت میں تاریخ کا پتہ نہیں جس سے نسخ ثابت ہو سکے ۔ ابن حزم فرماتے ہیں اس کی ناسخ یہ آیت قرآنی ہے لیکن یہ بھی دور کی بات ہے اس لئے کہ اس آیت کا بعد میں ہونا تاریخ سے ثابت نہیں بلکہ اس حیثیت سے تو بظاہر یہ حدیث اس آیت کے بعد کی ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں لاکمال نفی کا ہے یعنی اس شخص کا روزہ کامل نہیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت ام سلمہ والی حدیث سے جواز صاف طور سے ثابت ہو رہا ہے یہی مسلک ٹھیک بھی ہے ۔ اور دوسرے تمام اقوال سے یہ قول عمدہ ہے اور یوں کہنے سے دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت بھی نکل آتی ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ روزے کو رات تک پورا کرو اس سے ثابت ہوا کہ سورج کے ڈوبتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہئے ، بخاری مسلم میں امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب ادھر سے رات آجائے اور ادھر سے دن چلا جائے توروزے دار افطار کر لے بخاری مسلم میں حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے خیر سے رہیں گے ، مسند احمد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ پیارے وہ بندے ہیں جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنے والے ہیں ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں ، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ بشری بن خصاصیہ کی بیوی صاحبہ حضرت لیلیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے دو روزوں کو بغیر افطار کئے ملانا چاہا تو میرے خاوند نے مجھے منع کیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کام نصرانیوں کا ہے تم تو روزے اس طرح رکھو جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رات کو روزہ افطار کر لیا کرو اور بھی بہت سی احادیث روزے سے روزے کو ملانے کی ممانعت آئی ہے مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا روزے سے روزہ نہ ملاؤ تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ خود تو ملاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس سے باز نہ رہے تو آپ نے دو دن دو راتوں کا برابر روزہ رکھا پھر چاند دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر چاند نہ چڑھتا تو میں یونہی روزوں کو ملائے جاتا گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عاجزی ظاہر کرنا چاہتے تھے بخاری ومسلم میں بھی یہ حدیث ہے اور اسی طرح روزے کے بے افطار کئے اور رات کو کچھ کھائے بغیر دوسرے روزے سے ملالینے کی ممانعت میں بخاری ومسلم میں حضرت انس حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی مرفوع حدیثیں مروی ہیں ، پس ثابت ہوا کہ امت کو تو منع کیا گیا ہے لیکن آپ کی ذات اس سے مستثنی تھی آپ کو اس کی طاقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی مدد کی جاتی تھی ، یہ بھی خیال رہے کہ مجھے میرا رب کھلا پلا دیتا ہے اس سے مراد حقیقتا کھانا پینا نہیں کیونکہ پھر تو روزے سے روزے کا وصال نہ ہوا بلکہ یہ صرف روحانی طور پر مدد ہے جیسے کہ ایک عربی شاعر کا شعر ہے لہا احادیث من ذکراک تشغلہا عن الشراب وتلہیہا عن الزاد یعنی اسے تیرے ذکر اور تیری باتوں میں وہ دلچسپی ہے کہ کھانے پینے یک قلم بےپرواہ ہو جاتی ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص دوسری سحری تک رک رہنا چاہے تو یہ جائز ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا روزے کو روزے سے مت ملاؤجو ملنا ہی چاہے تو سحری تک ملا لے لوگوں نے کہا کہ آپ تو ملا دیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں مجھے تو رات ہی کو کھلانے والا کھلادیتا ہے اور پلانے والا پلا دیتا ہے ( بخاری مسلم ) ایک اور روایت میں ہے کہ ایک صحابیہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی آپ سحری کھا رہے تھے فرمایا آؤ تم بھی کھالو اس نے کہا میں توروزے سے ہوں آپ نے فرمایا تم روزہ کس طرح رکھتی ہو اس نے بیان کیا ۔ تو آپ نے فرمایا آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح سحری کے وقت سے دوسری سحری کے وقت تک کا ملا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھتیں؟ ( ابن جریر ) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سحری سے دوسری سحری تک کا روزہ رکھتے تھے ، ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے کہ وہ کئی کئی دن تک پے درپے بغیر کچھ کھائے روزہ رکھتے تھے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عبادت کے طور پر نہ تھا کہ بلکہ نفس کو مارنے کے لئے ریاضت کے طور پر تھا واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سمجھا ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سے روکنا صرف شفقت اور مہربانی کے طور پر نہ تھا کہ ناجائز بتانے کے طور پر جیسے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ نے لوگوں پر رحم کھا کر اس سے منع فرمایا تھا ، پس ابن زبیر اور ان کے صاحبزادے عامر اور ان کی راہ چلنے والے اپنے نفس میں قوت پاتے تھے اور روزے پر روزہ رکھے جاتے تھے ، یہ بھی مروی کہ جب وہ افطار کرتے تو پہلے گھی اور کڑوا گوند کھاتے تاکہ پہلے غذا پہنچنے سے آنتیں جل نہ جائیں ، مروی ہے کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سات سات دن تک برابر روزے سے رہتے اس اثناء میں دن کو یا رات کو کچھ نہ کھاتے اور پھر ساتویں دن خوب تندرست چست وچالاک اور سب سے زیادہ قوی پائے جاتے ، ابو العالیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن کا روزہ فرض کردیا رہی رات تو جو چاہے کھالے جو نہ چاہے نہ کھائے پھر فرمان ہوتا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت نہ کرو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو شخص مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا ہو خواہ رمضان میں خواہ اور مہینوں میں اس پر دن کے وقت یا رات کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے جب تک اعتکاف پورا نہ ہو جائے حضرت ضحاک فرماتے ہیں پہلے لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی جماع کرلیا کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے پر جماع حرام کیا گیا مجاہد اور قتادہ بھی یہی کہتے ہیں پس علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اعتکاف والا اگر کسی ضروری حاجت کے لئے گھر میں جائے مثلا پیشاب پاخانہ کے لئے یا کھانا کھانے کے لئے تو اس کام سے فارغ ہوتے ہی مسجد میں چلا آئے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں نہ اپنی بیوی سے بوس وکنار وغیرہ جائز ہے نہ کسی اور کام میں سوائے اعتکاف کے مشغول ہونا اس کے لئے جائز ہے بلکہ بیمار کی بیمار پرسی کے لئے بھی جانا جائز نہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ چلتے چلتے پوچھ لے اعتکاف کے اور بھی بہت سے احکام ہیں بعض میں اختلاف بھی ہے جن سب کو ہم نے اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام کے آخر میں بیان کیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ ۔ چونکہ قرآن پاک میں روزے کے بیان کے بعد اعتکاف کا ذکر ہے اس لیے اکثر مصنفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں روزے کے بعد ہی اعتکاف کے احکام بیان کئے ہیں اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اعتکاف روزے کی حالت میں کرنا چاہئے یا رمضان کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی رمضان شریف کے آخری دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کو وفات آئی آپ کے بعد امہات المومنین آپ کی بیویاں اعتکاف کیا کرتی تھیں ( بخاری ومسلم ) بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت صفیہ بنت حیی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آپ کی اعتکاف کی حالت میں حاضر ہوتی تھیں اور کوئی ضروری بات پوچھنے کی ہوتی تو وہ دریافت کر کے چلی جاتی ایک مرتبہ رات کو جب جانے لگیں تو چونکہ مکان مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھا اس لئے حضور ساتھ ہو لئے کہ پہنچا آئیں راستہ میں دو انصاری صحابی مل گئے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ کو دیکھ کر شرم کے مارے جلدی جلدی قدم بڑھا کر جانے لگے ۔ آپ نے فرمایا ٹھہر جاؤ سنو یہ میری بیوی صفیہ ہیں وہ کہنے لگے سبحان اللہ ( کیا ہمیں کوئی اور خیال بھی ہو سکتا ہے؟ ) آپ نے فرمایا شیطان انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح پھرتا رہتا ہے مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی بدگمانی نہ پیدا کر دے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس واقعہ سے اپنی امت کو گویا سبق سکھا رہے ہیں کہ وہ تہمت کی جگہوں سے بچتے رہیں ورنہ ناممکن ہے کہ وہ پاکباز صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کوئی برا خیال بھی دل میں لائیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ ان کی نسبت یہ خیال فرمائیں واللہ اعلم ۔ آیت میں مراد مباشرت سے جماع اور اس کے اسباب ہیں جیسے بوس وکنار وغیرہ ورنہ کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ یہ سب باتیں جائز ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کی حالت میں میری طرف جھکا دیا کرتے تھے میں آپ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی آپ اعتکاف کے دنوں میں ضروری حاجت کے رفع کے سوا اور وقت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے حضرت عائشہ فرماتی ہیں اعتکاف کی حالت میں تو چلتے چلتے ہی گھر کے بیمار کی بیمار پرسی کر لیا کرتی ہوں ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ ہماری بیان کردہ باتیں اور فرض کئے ہوئے احکام اور مقرر کی ہوئی حدیں ہیں روزے اور روزوں کے احکام اور اس کے مسائل اور اس میں جو کام جائز ہیں یا جو ناجائز ہیں غرض وہ سب ہماری حدبندیاں ہیں خبردار ان کے قریب بھی نہ آنا نہ ان سے تجاوز کرنا نہ ان کے آگے بڑھنا بعض کہتے ہیں یہ حد اعتکاف کی حالت میں مباشرت سے الگ رہنا ہے بعض کہتے ہیں ان آیتوں کے چاروں حکم مراد ہے پھر فرمایا جس طرح روزے اور اس کے احکام اور اس کے مسائل اور اس کی تفصیل ہم نے بیان کر دی اسی طرح اور احکام بھی ہم اپنے بندے اور رسول کی معرفت سب کے سب تمام جہان کے لئے بیان کیا کرتے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کر سکیں کہ ہدایت کیا ہے اور اطاعت کسے کہتے ہیں؟ اور اس بنا پر وہ متقی بن جائیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) 57 ۔ الحدید:9 ) وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اللہ تعالیٰ تم پر رافت ورحمت کرنے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

187۔ 1 ابتدا اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشاء کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جاسکتا تھا ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اٹھا لیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت فرما دی۔ 187۔ 2 یعنی رات ہوتے ہی (سورج غروب کے فورا بعد) روزہ افطار کرلو تاخیر مت کرو جیسا کہ حدیث میں بھی روزہ جلد افطار کرنے کی تاکید اور فضیلت آئی ہے دوسرا یہ کہ ایک روزہ افطار کئے بغیر دوسرا روزہ رکھ لینا اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے۔ (کتب حدیث) 187۔ 3 اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس و کنار کی اجازت نہیں ہے البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔ اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے چاہے مرد ہو چاہے عورت۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھنا صحیح نہیں ہے البتہ مسجد میں ان کے لئے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے تاکہ مردوں سے کسی طرح اختلاط نہ ہو جب تک مسجد میں معقول محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے یہ ایک نفلی عبادت ہے جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے فقہ کا اصول ہے۔ (درء المفاسد یقدم علی جلب المصالح) (مصالح کے اصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣٩] میاں بیوی کے تعلقات کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف استعارہ فرمایا۔ جس کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہیں ہوتی اسی طرح میاں بیوی کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور رازدان ہو۔ تیسرے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کی عزت کے شریک ہو اور چوتھے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کے پردہ پوش ہو وغیرہ وغیرہ۔- [٢٤٠] ابتدائے اسلام میں رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے مباشرت کرنے کے متعلق کوئی واضح حکم موجود نہ تھا۔ تاہم صحابہ کرام (رض) اپنی جگہ اسے ناجائز سمجھتے تھے۔ پھر بعض صحابہ (رض) مکروہ سمجھتے ہوئے بھی اس کام سے باز نہ رہ سکے۔ چناچہ براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ جب روزے فرض ہوئے تو لوگ سارا مہینہ عورتوں کے پاس نہ جاتے۔ پھر بعض لوگوں نے چوری چوری یہ کام کرلیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) - [٢٤١] یعنی مباشرت اس لیے کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اولاد مقدر فرمائی ہے وہ عطا فرما دے گویا اس آیت سے عزل اور لواطت اور دبر میں جماع کرنے وغیرہ سب باتوں کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ - اور اگر کوئی شخص رمضان میں دن کو روزہ کی حالت میں مباشرت کرے تو اسے اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- حضرت ابو ہریرۃ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص (سلمہ بن صخر بیاضی (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا میں تباہ ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کیوں کیا بات ہوئی ؟ کہنے لگا میں رمضان میں اپنی عورت پر جا پڑا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کیا تو ایک غلام آزاد کرسکتا ہے ؟ کہنے لگا، مجھ میں یہ قدرت نہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا دو مہینے کے پے در پے روزے رکھ سکتا ہے ؟ کہنے لگا۔ نہیں (اتنا مقدور ہوتا تو یہ روزہ ہی کیوں توڑتا) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اچھا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے ؟ کہنے لگا نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کہا کہ اچھا بیٹھ جاؤ۔ اتنے میں آپ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا آگیا جس میں پندرہ صاع کھجور آسکتی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا۔ لے ٹوکرا لے جا اور اسے محتاجوں میں تقسیم کر دے۔ وہ کہنے لگا کہ میں اسے ان لوگوں میں تقسیم کروں جو ہم سے بڑھ کر محتاج ہوں۔ قسم اس پروردگار کی جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچائی کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ مدینہ کے دونوں کناروں میں اس سرے سے اس سرے تک کوئی گھر والے ہم سے زیادہ محتاج نہیں۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا ہنسے کہ آپ کی کچلیاں نظر آنے لگیں اور فرمایا جا اپنے بیوی بچوں کو ہی کھلا دے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب من اعان المعسر فی الکفارۃ) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ فرضی روزہ توڑنے کا کفارہ بعینہ وہی ہے جو سورة مجادلہ کی آیت نمبر ٣ اور ٤ میں مذکور ہے۔ اور دوسری یہ کہ کفارہ دینے والا اگر محتاج اور تنگ دست ہو تو اس کی صدقہ و خیرات سے مدد کی جاسکتی ہے جیسا کہ عنوان باب سے معلوم ہوتا ہے۔- [٢٤٢] یعنی رات کی تاریکی سے سپیدہ فجر نمایاں ہوجائے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ - عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے رات کو ایک سفید ڈوری اور ایک کالی ڈوری (اپنے تکیے کے نیچے) رکھ لیں۔ انہیں دیکھتا رہا مگر تمیز نہ ہوئی (کھاتے پیتے رہے) جب صبح ہوئی تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے اپنے تکیے تلے دو ڈوریاں رکھ لی تھیں۔ آپ نے (مزاحاً ) فرمایا : تمہارا تکیہ تو بہت بڑا ہے جس کے نیچے (صبح کی) سفید ڈوری اور (رات کی) کالی ڈوری آگئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب آیت مذکور) - [٢٤٣] براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے جب کوئی روزہ رکھتا اور افطار کرنے سے پہلے سو جاتا تو پھر اگلی شام تک کچھ نہ کھا سکتا تھا۔ قیس بن صرمہ نے روزہ رکھا جب افطار کا وقت آیا تو بیوی سے پوچھا : کیا کھانے کو کوئی چیز ہے ؟ وہ بولیں۔ نہیں، لیکن میں ابھی جاتی ہوں تو تمہارے کھانے کو کچھ لے آتی ہوں۔ بیوی چلی گئی، قیس دن بھر کے تھکے ماندے تھے۔ نیند نے غلبہ کیا اور وہ سو گئے۔ بیوی نے واپس آ کر دیکھا تو بہت دکھ ہوا۔ الغرض انہوں نے کچھ کھائے پئے بغیر پھر روزہ رکھ لیا۔ لیکن ابھی آدھا دن ہی گزرا تھا کہ بےہوش ہوگئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر کیا گیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب الصوم، باب قول اللہ آیت احل لکم لیلۃ الصیام الرفث۔۔ الخ، اور ترمذی، ابو اب التفسیر، باب آیت مذکور) - [٢٤٤] یعنی آغاز سحر سے لے کر آغاز رات یعنی غروب آفتاب تک روزہ کا وقت ہے۔ غروب آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار کرلینا چاہیے۔ یہود غروب آفتاب کے بعد احتیاطاً اندھیرا چھا جانے تک روزہ نہیں کھولتے تھے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک روزہ جلد افطار کرے گی۔ (روزہ کھولنے میں جلدی اور سحری دیر سے کھانا چاہیے۔ ) (بخاری، کتاب الصوم۔ باب تعجیل الافطار) - ١۔ نیز عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر (غزوہ فتح مکہ) میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے۔ آپ نے ایک آدمی (بلال (رض) سے فرمایا کہ اتر اور میرے لیے ستو گھول۔ وہ کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی تو سورج کی روشنی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اتر اور میرے لیے ستو گھول۔ بلال (رض) پھر کہنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی تو سورج کی روشنی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر تیسری بار فرمایا : اتر اور میرے لیے ستو گھول۔ آخر وہ اترے اور ستو گھولا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پی لئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہو تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہوگیا۔ (بخاری : کتاب الصوم، باب الصوم فی السفر والافطار - ٢۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دیکھو تم بلال (رضی اللہ عنہ) کی اذان کہنے سے سحری کھانے سے رک نہ جانا۔ بلال (رضی اللہ عنہ) تو اس لیے اذان دیتا ہے کہ جو شخص (تہجد کی نماز میں) کھڑا ہو وہ لوٹ جائے۔ اور صبح یا فجر کی روشنی وہ نہیں ہے جو اس طرح لمبی ہوتی ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر بتلایا کہ یہ صبح کاذب ہے) پھر ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے جدا کر کے دائیں بائیں کھینچا (یہ صبح صادق ہے) بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب الاشارۃ فی الطلاق والامور) اسی طرح روزہ رکھتے وقت آخری وقت کھانا پینا افضل ہے۔ (بخاری، کتاب الصوم باب تاخیر السحور) - بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قطبین کے قریب جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، وہاں نماز اور روزہ کے لیے اوقات کی تعیین کیسے ہوسکتی ہے ؟ یہ سوال بس برائے سوال ہی ہے کیونکہ قطبین پر اتنی شدید سردی ہوتی ہے کہ وہاں انسانوں کا زندہ رہنا ہی ناممکن ہے اور جہاں سے انسانی آبادی شروع ہوتی ہے۔ وہاں کے دن رات خط استوا کی طرح واضح نہ سہی اتنے واضح ضرور ہوتے ہیں کہ صبح و شام کے آثار وہاں پوری باقاعدگی سے افق پر نمایاں ہوتے ہیں اور انہی کا لحاظ رکھ کر وہاں کے باشندے اپنے سونے جاگنے، کام کرنے اور تفریح کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ لہذا کوئی وجہ نہیں کہ یہ آثار نماز اور سحر و افطار کے معاملہ میں وقت کی تعیین کا کام نہ دے سکیں اور جہاں کئی کئی مہینے رات اور دن ہوتے ہیں۔ وہاں صرف روزہ کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے دوسرے مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وہ لوگ کتنے گھنٹے سوتے ہیں۔ کمائی اور کاروبار کب اور کیسے کرتے ہیں اور کتنے گھنٹے کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کا جواب یہی ہے کہ ایسے مقامات پر انسان سردی کی وجہ سے زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔- [٢٤٥] اس آیت سے معلوم ہوا کہ اعتکاف ہر مسجد میں ہوسکتا ہے اور صرف مسجد میں ہی ہوسکتا ہے۔ رمضان میں بھی ہوسکتا ہے اور غیر رمضان میں بھی، مگر چونکہ رمضان میں دوسرے مہینوں کی نسبت بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور رمضان میں اعتکاف فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اسی کی زیادہ اہمیت ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آخری عشرہ رمضان اعتکاف میں گزارا جائے۔ تاہم یہ کم وقت حتیٰ کہ ایک دن کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ اعتکاف کی حالت میں شرعی عذر کے بغیر باہر نہ جانا چاہئے۔ نہ زیادہ دنیوی باتوں میں مشغول ہونا چاہئے اور اعتکاف کی حالت میں اپنی بیویوں سے صحبت بھی منع ہے۔- فقہاء نے اعتکاف کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک مسنون جو سنت نبوی سے ثابت ہوتا ہے۔ اس کی عام مدت دس دن ہے اور رمضان کے آخری عشرہ کی صورت میں ٩ یا دس دن بشرط رؤیت ہلال عید۔ ایک دفعہ آپ جب اعتکاف کے لیے اپنے خیمہ کی طرف گئے تو دیکھا کہ آپ کی کئی بیویوں نے بھی مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے خیمے لگا رکھے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ ان بیویوں نے یہ حسن نیت کی بنا پر نہیں بلکہ جذبہ رقابت سے کیا ہے۔ لہذا ان کے سب خیمے اٹھا دو ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا خیمہ بھی اٹھوا دیا اور یہ رمضان کا آخری عشرہ تھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سال رمضان میں اعتکاف نہیں کیا بلکہ عید کے بعد شوال میں کرلیا۔- اور ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا۔ پھر جبریل (علیہ السلام) نے آپ کو بتلایا کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہوگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخری عشرہ بھی اعتکاف میں گزارا۔ اسی طرح اس سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتکاف بیس دن کا ہوگیا۔ ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسنون اعتکاف ایک عشرہ سے کم نہیں ہوتا اور افضل اعتکاف رمضان کا آخری عشرہ ہے اور اس بات میں اعتکاف کرنے والے کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اکیسویں رات نماز عشاء اور قیام اللیل کے بعد اعتکاف میں بیٹھ جائے یا مغرب کے بعد ہی بیٹھ جائے یا صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد بیٹھ جائے۔- اور اعتکاف کی دوسری قسم اعتکاف واجب ہے۔ یعنی وہ اعتکاف جو اعتکاف کرنے والا اللہ سے عہد کر کے اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے اس کی کوئی مدت متعین نہیں۔ یہ سات دن کا بھی ہوسکتا ہے، تین دن کا بھی، ایک دن کا بھی۔ حتیٰ کہ صرف ایک رات کا بھی اور اسکا کوئی وقت بھی متعین نہیں خواہ رمضان میں ہو یا کسی دوسرے مہینہ میں اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔- حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ میں نے جاہلیت کے زمانہ میں یہ منت مانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا۔ تو آپ نے فرمایا کہ اپنی منت پوری کرو۔ (بخاری، کتاب الصوم۔ باب الاعتکاف لیلا) - واضح رہے کہ منت صرف وہی پوری کرنی چاہیے جس میں اللہ کی معصیت نہ ہوتی ہو اور اگر کسی خلاف شرع کام پر منت مانی ہو تو اسے ہرگز پورا نہ کرنا چاہیے۔- [٢٤٦] اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا بلکہ یوں فرمایا کہ ان حدوں کے قریب بھی نہ پھٹکنا اور ان دونوں قسم کے فقروں میں جو فرق ہے وہ سب سمجھ سکتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ابن کثیر میں ہے کہ ابتدا میں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو روزہ کھولنے سے لے کر صرف نماز عشاء تک کھانا پینا اور عورت سے صحبت جائز تھی، اگر کسی شخص نے عشاء کی نماز پڑھ لی، یا وہ اس سے پہلے سو گیا تو اس کا روزہ شروع ہوجاتا تھا، پھر اگلے روز افطار یعنی سورج غروب ہونے تک کھانا پینا اور جماع اس پر حرام ہوتا تھا، بعض لوگ ضبط نہ کرسکے اور رات کو بیویوں سے صحبت کر بیٹھے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں لوگ جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو ان پر کھانا پینا اور بیویاں حرام ہوجاتی تھیں اور وہ اگلی شام تک کے لیے روزے دار ہوجاتے تھے۔۔ تو اللہ تعالیٰ- نے یہ آیت نازل کی۔ [ أبو داوٗد، الصیام، باب مبدأ فرض الصیام : ٢٣١٣ ] ایک انصاری صحابی قیس بن صرمہ (رض) کے متعلق روایت ہے کہ وہ روزے کی حالت میں دن بھر کھیت میں کام کرتے رہے، افطار کے وقت گھر آئے اور بیوی سے پوچھا، کوئی چیز کھانے کے لیے ہے ؟ بیوی نے جواب دیا نہیں، آپ ٹھہرئیے، میں جا کر پڑوسیوں سے کچھ لاتی ہوں۔ بیوی کے چلے جانے کے بعد ان کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئے۔ بیوی کو یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا، پھر اگلے دن انھیں ( بغیر کھائے پیے ہی) روزہ رکھنا پڑا۔ ابھی آدھا دن نہیں گزرا تھا کہ کمزوری کی وجہ سے غش کھا گئے۔ اس کا علم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ [ بخاری، الصوم، باب قول اللہ جل ذکرہ : ( أحل لکم ۔۔ ) : ١٩١٥۔ أبو داوٗد : ٢٣١٤ ] - ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ…... یعنی میاں بیوی ایک دوسرے سے لباس کی طرح مل جاتے ہیں، انھیں جدا رکھنا یقیناً ان پر شاق ہوگا، اس لیے انھیں رمضان کی راتوں میں مباشرت کی اجازت دے دی گئی۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کا آپس میں کوئی پردہ نہیں، بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ” وہ ایک دوسرے کی شرم گاہ کو نہیں دیکھ سکتے “ ان کے ایک دوسرے کا لباس ہونے کے منافی ہے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی برتن سے غسل کرلیتے، جو میرے اور آپ کے درمیان ہوتا، جبکہ ہم دونوں جنبی ہوتے۔ “ [ بخاری، الحیض، باب مباشرۃ الحائض : ٢٩٩ ] عائشہ (رض) سے مروی روایت کہ میں نے کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شرم گاہ نہیں دیکھی، صحیح نہیں۔ [ دیکھیے ضعیف ابن ماجہ للألبانی : ٦٦٨ ]- وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ …. اس سے صحبت کی لذت کے ساتھ ساتھ پاک دامنی کا حصول اور اولاد کی طلب مراد ہے۔ کفار کی خواہش کے مطابق مسلمانوں کا اولاد کی کثرت سے اجتناب جائز نہیں۔- فجر کے سفید دھاگے سے مراد صبح صادق ہے۔ اس ” سفید دھاگے “ اور ” سیاہ دھاگے “ کے سمجھنے میں بعض صحابہ کو غلط فہمی ہوگئی۔ انھوں نے سرہانے کے ساتھ سفید دھاگا اور سیاہ دھاگا رکھ لیا اور اس کے واضح ہونے کا انتظار کرتے رہے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس سے مراد رات کی سیاہی سے صبح کی سفیدی واضح ہونا ہے۔ “ [ بخاری، الصوم، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و کلوا واشربوا ۔۔ ): ١٩١٦، عن عدی بن حاتم (رض) ] معلوم ہوا کہ قرآن سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان سیکھ لینا کافی نہیں، بلکہ حدیث بھی ضروری ہے۔ - فجر تک کھانے پینے اور جماع کی اجازت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جنابت کی حالت میں روزہ رکھ سکتا ہے، غسل اذان کے بعد کرلے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہ ثابت ہے۔ [ بخاری، الصوم، باب الصائم یصبح جنبا : ١٩٢٥، ١٩٢٦، ١٩٣٠ ] - (اِلَى الَّيْلِ ) یعنی سورج غروب ہونے تک۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہود و نصاریٰ دیر سے افطار کرتے ہیں۔ “ [ أبوداوٗد، الصیام، باب ما یستحب من تعجیل الفطر : ٢٣٥٣ ]- (وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِ ۭ ) رمضان سے چونکہ اعتکاف کا خاص تعلق ہے، اس لیے یہاں اعتکاف کے احکام کی طرف اشارہ فرما دیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء محدثین روزے کے عنوان کے بعد اعتکاف کا عنوان باندھتے ہیں۔ اعتکاف کا معنی اپنے آپ کو کسی کے ساتھ یا کسی جگہ روک کر رکھنا ہے۔ (راغب) اعتکاف میں بیوی سے مباشرت جائز نہیں، نہ مسجد سے نکلنا ہی جائز ہے، سوائے ایسی ضرورت کے جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ اگر مباشرت کرے گا یا مجبوری والی ضرورت کے بغیر نکلے گا تو اعتکاف باطل ہوجائے گا۔ ہاں مسجد میں جاکر عورت اپنے خاوند سے ملاقات کرسکتی ہے، جیسا کہ بعض ازواج مطہرات نے مسجد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا کر ملاقات کی اور بیوی خاوند کی خدمت بھی کرسکتی ہے۔ [ بخاری، الاعتکاف، باب ہل یخرج المعتکف ۔۔ : ٢٠٣٥، ٢٠٣٠، ٢٠٣١ ]- فِي الْمَسٰجِدِ ۭ ) اس لفظ سے معلوم ہوا کہ اعتکاف گھر میں نہیں ہوتا، مسجد میں ہوتا ہے، عورت ہو یا مرد۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں مسجد میں اعتکاف کرتی تھیں۔ [ بخاری، الصوم، باب اعتکاف النساء : ٢٠٣٣، ٢٠٣٤ ] اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اعتکاف ہر مسجد میں ہوسکتا ہے۔ وہ روایت کہ ” تین مسجدوں کے سوا اعتکاف نہیں “ منکر ہے۔ صحیح بخاری میں امام بخاری (رض) نے اس کے غیر ثابت ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے باب قائم کیا ہے : ” اَلْاِعْتِکَافُ فِی الْمَسَاجِدِ کُلِّہَا “ ” تمام مسجدوں میں اعتکاف (کے جائز) ہونے کا بیان۔ “ مسئلہ : احادیث میں سحری کے وقت کھانا کھا کر روزہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے، انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سحری کھاؤ، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ “ [ بخاری، الصوم، باب برکۃ السحور من غیر إیجاب : ١٩٢٣۔ مسلم : ١٠٩٥ ] اور عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق سحری کھانے کا ہے۔ “ [ مسلم، الصیام، باب فضل السحور ۔۔ : ١٠٩٦ ] لہٰذا سحری کے وقت کچھ کھا پی کر روزہ رکھنا چاہیے۔ - تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ۭ ) یہ احکام یعنی صبح صادق تک مباشرت اور کھانے پینے کا جائز ہونا، فجر سے سورج غروب ہونے تک ان چیزوں کی ممانعت اور اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت کی ممانعت، یہ کام اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں، ان کی سختی سے پابندی کرو۔ ( ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- حکم چہارم رمضان کی راتوں میں جماع :- اس آیت روزہ کے بقیہ احکام کی کچھ تفسیر مذکور ہے تم لوگوں کے واسطے روزہ کی شب میں اپنی بیبیوں سے مشغول ہونا حلال کردیا گیا (اور پہلے جو اس سے ممانعت تھی وہ موقوف کی گئی) کیونکہ (بوجہ قرب واتصال کے) وہ تمہارے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہیں اور تم ان کے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہو خدا تعالیٰ کو (اس کی خبر تھی کہ تم (اس حکم الٰہی میں) خیانت (کر) کے گناہ میں اپنے کو مبتلا کر رہے تھے (مگر) خیر (جب تم معذرت سے پیش آئے تو) اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے گناہ کو دھو دیا سو (جب اجازت ہوگئی تو) اب ان سے ملو ملاؤ اور جو (قانون اجازت) تمہارے لئے تجویز کردیا ہے (بےتکلف) اس کا سامان کرو اور (جس طرح شب صیام میں بی بی سے ہم بستری کی اجازت ہے اسی طرح یہ بھی اجازت ہے کہ تمام رات میں جب چاہو) کھاؤ (بھی) اور پیو (بھی) اس وقت تک کہ تم کو سفیدخط صبح (صادق کی روشنی) کا متمیز ہوجاوے سیاہ خط سے (یعنی رات کی تاریکی سے) تو پھر (صبح صادق سے) رات (آنے) تک روزہ کو پورا کیا کرو،- صبح کی سفیدی کا سفید خط رات کی تاریکی کے سیاہ خط سے متمیز ہوجانے سے مراد یہ ہے کہ صبح صادق یقینی طور سے ثابت ہوجائے،- حکم پنجم اعتکاف :- اور ان بیبیوں (کے بدن) سے اپنا بدن بھی (شہوت کے ساتھ) مت ملنے دو جس زمانے میں کہ تم لوگ اعتکاف والے ہو (جو کہ) مسجدوں میں (ہوا کرتا ہے) یہ ( سب احکام مذکورہ) خداوندی ضابطے ہیں سو ان (ضابطوں) سے (نکلنا تو کیسا) نکلنے کے نزدیک بھی مت ہونا (اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ احکام بیان کئے ہیں) اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے (اور) احکام بھی لوگوں (کی اصلاح) کے واسطے بیان فرمایا کرتے ہیں اس امید پر کہ وہ لوگ (احکام پر مطلع ہو کر ان احکام کے خلاف کرنے سے) پرہیز رکھیں۔- معارف و مسائل : - اُحِلَّ لَكُمْ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ جو چیز اس آیت کے ذریعہ حلال کی گئی ہے وہ اس سے پہلے حرام تھی صحیح بخاری وغیرہ میں بروایت براء بن عازب مذکور ہے کہ ابتداء میں جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو افطار کے بعد کھانے پینے اور بیبیوں کے ساتھ اختلاط کی صرف اس وقت تک اجازت تھی جب تک سو نہ جائے سو جانے کے بعد یہ سب چیزیں حرام ہوجاتی تھیں بعض صحابہ کرام کو اس میں مشکلات پیش آئیں۔ قیس بن صرمہ انصاریٰ دن بھر مزدوری کرکے افطار کے وقت گھر پہنچنے تو گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا، بیوی نے کہا کہ میں کہیں سے کچھ انتظام کرکے لاتی ہوں جب وہ واپس آئی تو دن بھر کے تکان کی وجی سے ان کی آنکھ لگ گئی اب بیدار ہوئے تو کھانا حرام ہوچکا تھا اگلے دن اسی طرح روزہ رکھا، دوپہر کو ضعف سے بیہوش ہوگئے (ابن کثیر) اسی طرح بعض صحابہ سونے کے بعد اپنی بیبیوں کے ساتھ اختلاط میں مبتلا ہو کر پریشان ہوئے ان واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی جس میں پہلا حکم منسوخ کرکے غروب آفتاب کے بعد سے طلوع صبح صادق تک پوری رات میں کھانے پینے اور مباشرت کی اجازت دے دیگئی اگرچہ سو کر اٹھنے کے بعد ہو بلکہ سو کر اٹھنے کے بعد آخر شب میں سحری کھانا سنت قرار دیا گیا جس کا ذکر روایات حدیث میں واضح ہے اس آیت میں اسی حکم کا بیان کیا گیا ہے،- رَّفَثُ کے لفظی معنی اگرچہ عام ہیں ایک مرد بی بی سے اپنی خواہش پورا کرنے کے لئے جو کچھ کرتا یا کہتا ہے وہ سب اس میں شامل ہے لیکن باتفاق امت اس جگہ اس سے مراد جماع ہے۔- ثبوت احکام شرعیہ کے لئے قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بحکم قرآن ہے :- اس آیت نے جس حکم کو منسوخ کیا ہے یعنی سوجانے کے بعد کھانے پینے وغیرہ کی حرمت کو، یہ حکم قرآن میں کہیں مذکور نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم سے صحابہ کرام اس حکم پر عمل کرتے تھے (کما راوہ احمد فی مسندہ) اسی کو اس آیت نے حکم الہی قرار دے کر منسوخ کیا گیا اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ سنت سے ثابت شدہ بعض احکام کو قرآن کے ذریعہ بھی منسوخ کیا جاسکتا ہے (جصاص وغیرہ) - سحری کھانے کا آخری وقت :- حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ اس آیت میں رات کی تاریکی کو سیاہ خط اور صبح کی روشنی کو سفید خط کی مثال سے بتلا کر روزہ شروع ہونے اور کھانا پینا حرام ہوجانے کا صحیح وقت متعین فرمادیا اور اس میں افراط وتفریط کے احتمالات کو ختم کرنے کے لئے حَتّٰى يَتَبَيَّنَ کا لفظ بڑھا دیا جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نہ تو وہمی مزاج لوگوں کی طرح صبح صادق سے کچھ پہلے ہی کھانے پینے وغیرہ کو حرام سمجھو اور نہ ایسی بےفکری اختیار کرو کہ صبح کی روشنی کا یقین ہوجانے کے باوجود کھاتے پیتے رہو بلکہ کھانے پینے کو حرام سمجھنا درست نہیں اور تیقن کے بعد کھانے پینے میں مشغول رہنا بھی حرام اور روزے کے لئے مفسد ہے اگرچہ ایک ہی منٹ کے لئے ہو سحری کھانے میں وسعت اور گنجائش صرف اسی وقت تک ہے جب تک صبح صادق کا یقین نہ ہو بعض صحابہ کرام کے ایسے واقعات کو بعض کہنے والوں نے اس طرح بیان کیا کہ سحری کھاتے ہوئے صبح ہوگئی اور وہ بےپروائی سے کھاتے رہی یہ اسی پر مبنی تھا کہ صبح کا یقین نہیں ہوا تھا اس لئے کہنے والوں کی جلد بازی سے متاثر نہیں ہوئے۔- ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ حضرت بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے مانع نہ ہونی چاہئے کیونکہ وہ رات سے اذن دیدیتے ہیں، اس لئے تم بلال کی اذان سن کر بھی اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک ابن ام مکتوم کی اذان نہ سنو کیونکہ وہ ٹھیک طلوع صبح صادق پر اذان دیتے ہیں (بخاری ومسلم) - اس حدیث کے ناتمام نقل کرنے سے بعض معاصرین کو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ اذان فجر کے بعد بھی کچھ دیر کھایا پیا جائے تو مضائقہ نہیں اور جس شخص کی آنکھ دیر میں کھلی کہ صبح کی اذان ہورہی تھی اس کے لئے جائز کردیا کہ وہ جلدی جلدی کچھ کھالے حالانکہ اسی حدیث میں واضح طور پر بتلا دیا گیا ہے کہ اذان ابن ام مکتوم جو ٹھیک طلوع فجر کے ساتھ ہوتی تھی اس پر کھانے سے رک جانا ضروری ہے اس کے علاوہ قرآن کریم نے خود جو حدبندی فرما دی ہے وہ طلوع صبح کا تیقن ہے اس کے بعد ایک منٹ کے لئے بھی کھانے پینے کی اجازت دینا نص قرآن کی خلاف ورزی ہے صحابہ کرام اور اسلاف امت سے جو افطار وسحر میں مساہلت کی روایات منقول ہیں ان سب کا محل نص قرآن کے مطابق یہی ہوسکتا ہے کہ تیقن صبح صادق سے پہلے پہلے زیادہ احتیاطی تنگی اختیار نہ کی جائے امام ابن کثیر نے بھی اس روایات کو اسی بات پر محمول فرمایا ہے ورنہ نص قرآنی کی صریح مخالفت کو کون مسلمان برداشت کرسکتا ہے اور صحابہ کرام سے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا خصوصاً جبکہ قرآن کریم نے اسی آیت کے اخیر میں تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ کے ساتھ فَلَا تَقْرَبُوْھَا فرما کر خاص احتیاط کی تاکید بھی فرمادی ہے،- مسئلہ : یہ سب کلام ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ایسے مقام پر ہیں جہاں سے صبح صادق کو بچشم خود دیکھ کر یقین حاصل کرسکتے ہیں اور مطلع بھی صاف ہے اور وہ صبح صادق کی ابتدائی روشنی کی پہچان بھی رکھتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ براہ راست افق کو دیکھ کر عمل کریں اور جہاں یہ صورت نہ ہو مثلا کھلا ہوا افق سامنے نہیں یا مطلع صاف نہیں یا اس کو صبح صادق کی پہچان نہیں اس لئے وہ دوسرے آثار و علامات یا ریاضی حسابات کے ذریعہ وقت کا تعین کرتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کے لئے کچھ وقت ایسا آئے گا کہ صبح صادق کا ہوجانا مشکوک ہو یقینی نہ ہو، ایسے لوگوں کو مشکوک حالت میں کیا کرنا چاہئے، اس کے متعلق امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس حالت میں اصل تو یہی ہے کہ کھانے پینے پر اقدام نہ کرے، لیکن مشکوک حالت میں تحقیق سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس وقت صبح ہوچکی تھی تو قضاء اس کے ذمہ لازم ہے جیسے شروع رمضان میں چاند نظر نہ آیا اور لوگوں نے روزہ نہیں رکھا مگر بعد میں شہادت سے ٢٩ کا چاند ثابت ہوگیا تو جن لوگوں نے اس دن کو شعبان کی تیسویں تاریخ سمجھ کر روزہ نہیں رکھا تھا وہ گنہگار تو نہیں ہوئے مگر اس روزے کی قضاء ان پر باتفاق لازم ہے اسی طرح بادل کے دن میں غروب کے گمان پر روزہ افطار کرلیا بعد میں آفتاب نکل آیا تو یہ شخص گناہگار تو نہیں مگر قضاء اس پر واجب ہے،- امام جصاص کے اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص کی آنکھ دیر میں کھلی اور عام طور پر صبح کی اذان ہوئی تھی جس سے صبح ہونے کا یقین لازمی ہے وہ جان بوجھ کر اس وقت کچھ کھائے گا تو وہ گناہگار بھی ہوگا اور قضاء بھی اس پر لازم ہوگی اور مشکوک حالت میں کھائے گا تو گناہ ساقط ہوجائے گا مگر قضاء ساقط نہ ہوگی اور کسی نہ کسی درجہ میں کراہت بھی ہوگی، - اعتکاف اور اس کے مسائل :- اعتکاف کے لغوی معنی کس جگہ ٹھہرنے کے ہیں اور اصطلاح قرآن وسنت میں خاص شرائط کے ساتھ مسجد میں ٹھرنے اور قیام کرنے کا نام اعتکاف ہے، لفظ فِي الْمَسٰجِدِ کے عموم سے ثابت ہوا کہ اعتکاف ہر مسجد میں ہوسکتا جس میں جماعت ہوتی ہو غیر آباد مسجد جہاں جماعت نہ ہوتی ہو اس میں اعتکاف درست نہیں یہ شرط درحقیقت مسجد کے مفہوم ہی سے مستفاد ہے کیونکہ مساجد کے بنانے کا اصل مقصدجماعت کی نماز ہے ورنہ تنہا نماز تو ہر جگہ دکان مکان وغیرہ میں ہوسکتی ہے۔- مسئلہ : روزے کی رات میں کھانا پینا، بی بی سے مباشرت سب کا حلال ہونا اوپر بیان ہوا ہے حالت اعتکاف میں میں کھانے پینے کا تو وہی حکم ہے جو سب کے لئے ہے مگر مباشرت نساء کے معاملہ میں الگ ہے کہ وہ رات میں بھی جائز نہیں اس لئے اس آیت میں اسی کا حکم بتایا گیا ہے،- مسئلہ : اعتکاف کے دوسرے مسائل کہ اس کے ساتھ روزہ شرط ہے اور یہ کہ اعتکاف میں مسجد سے نکلنا بغیر حاجت طبعی یا شرعی کے جائز نہیں کچھ اسی لفظ اعتکاف سے مستفاد ہیں کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول وفعل سے،- روزے کے معاملے میں احتیاط کا حکم :- آخر آیت میں تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا فرما کر اشارہ کردیا کہ روزے میں کھانے پینے اور مباشرت کی جو ممانعت ہے یہ اللہ تعالیٰ کے حدود ہیں ان کے قریب بھی مت جاؤ کیونکہ قریب جانے سے حد شکنی کا احتمال ہے اسی لئے روزہ کی حالت میں کلی کرنے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے، جس سے پانی اندر جانے کا خطرہ ہو منہ کے اندر کوئی دوا استعمال کرنا مکروہ ہے بی بی سے بوس وکنار مکروہ ہے اسی طرح سحری کھانے میں احتیاط وقت ختم ہونے سے دو چار منٹ پہلے ختم کرنا اور افطار میں دو تین منٹ مؤ خر کرنا بہتر ہے اس میں بےپروائی اور سہل انگاری اس ارشاد خداوندی کے خلاف ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَۃَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ۝ ٠ ۭ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۝ ٠ ۭ عَلِمَ اللہُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ۝ ٠ ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللہُ لَكُمْ۝ ٠ ۠ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۝ ٠ ۠ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ۝ ٠ ۚ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ۝ ٠ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ۝ ٠ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝ ١٨٧- حلَ- أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] ،- ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - رفث - الرَّفَثُ : کلام متضمّن لما يستقبح ذكره من ذکر الجماع، ودواعيه، وجعل کناية عن الجماع - في قوله تعالی: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلى نِسائِكُم[ البقرة 187] ، تنبيها علی جواز دعائهنّ إلى ذلك، ومکالمتهنّ فيه، وعدّي بإلى لتضمّنه معنی الإفضاء - ( ر ف ث ) الرفث ( ن ) وہ فحش باتیں جن کا ذکر اچھا نہیں سمجھا جاتا یعنی جماع اور اس کے دواعی کا تذکرہ آیت کریمہ : أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلى نِسائِكُمْ [ البقرة 187] مسلمانوں ماہ رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے جائز کردیا گیا ہے ۔ میں کنایۃ جماع مراد ہے اور اس سے متنبہ کیا گیا ہے کہ ماہ رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں کو جماع کے لئے بلانا اور ان سے اس کے متعلق گفتگو کرنا جائز ہے اور اسے بواسطہ الی متعدی کرکے معنی افضاء کی طرف اشارہ کیا ہے - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- لبس - لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه :- يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی:- هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله :- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ،- ( ل ب س ) لبس الثوب - ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔- خون - الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة :- الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ،- ( خ و ن ) الخیانۃ - خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - بشر ( مباشره)- والمباشرة : الإفضاء بالبشرتین، وكنّي بها عن الجماع في قوله : وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] ، وقال تعالی: فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ [ البقرة 187] . وفلان مُؤْدَم مُبْشَر أصله من قولهم : أَبْشَرَهُ اللہ وآدمه، أي : جعل له بشرة وأدمة محمودة، ثم عبّر بذلک عن الکامل الذي يجمع بين الفضیلتین الظاهرة والباطنة .- الباشرۃ کے اصل معنی تو ایک کی جلد کو دوسرے کی جلد کے ساتھ ملانا کے ہیں مگر کنایۃ عورت سے مجامعت کرنا کے معنی میں آجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو ۔ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ [ البقرة 187] اب ( تم کو اختیار ہے کہ ) ان سے مباشرت کرلو ۔ فلاں ظاہر و باطن کے لحاظ سے اچھا ہے اصل میں یہ محاورہ البشرۃ اللہ وادمۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی کھال کے ظاہر و باطن کو اچھا کرے پھر ہر اس کامل شخص کو جو ظاہری وباطنی خوبیوں کا مالک ہو اسے مودم ومبشر کہہ دیتے ہیں - ابتغاء - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- شرب - الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ- ( ش ر ب ) الشراب - کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں - حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- خيط - الخَيْطُ معروف، وجمعه خُيُوط، وقد خِطْتُ الثوب أَخِيطُهُ خِيَاطَةً ، وخَيَّطْتُهُ تَخْييطاً. والخِيَاطُ :- الإبرة التي يخاط بها، قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] ، حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ- [ البقرة 187] ، أي : بياض النهار من سواد اللّيل - ( خ ی ط ) الخیط ۔ تا گا ۔ والجمع الخیوط ۔ خاط ( ض ) خیاطۃ وخیط الثوب کے معنی کپڑا سینے کے ہیں اور کپڑا سینے کی سوئی کو الخیاط کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہ :َ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں سے نکل جائے ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ [ البقرة 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری ( رات ) کی سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے ۔ میں خیط ابیض اور اسود سے صبح کی سفیدی اور رات کی تاریکی مراد ہے - بيض - البَيَاضُ في الألوان : ضدّ السواد، يقال : ابْيَضَّ يَبْيَضُّ ابْيِضَاضاً وبَيَاضاً ، فهو مُبْيَضٌّ وأَبْيَضُ. قال عزّ وجل : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذابَ بِما كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] .- ( ب ی ض ) البیاض - سفیدی ۔ یہ سواد کی ضد ہے ۔ کہا جاتا ہے ابیض ، ، ابیضاضا وبیاض فھو مبیض ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ جسدن بہت سے منہ سفید ہونگے اور بہت سے منہ سیاہ ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] . اور جن کے منہ سفید ہوں گے - سود - السَّوَادُ : اللّون المضادّ للبیاض، يقال : اسْوَدَّ واسْوَادَّ ، قال : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ- [ آل عمران 106] - ( س و د ) السواد - ( ضد بیاض ) سیاہ رنگ کو کہتے ہیں اور اسود ( افعلال ) واسواد ( افعیلال ) کے معنی کسی چیز کے سیاہ ہونے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ [ آل عمران 106] جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے سیاہ ۔ تو چہروں کے سفید ہونے سے اظہار مسرت اور سیاہ ہونے سے اظہار غم مراد ہے - فجر - الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً- [ الإسراء 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] .- ( ف ج ر ) الفجر - کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے - صبح کو فجر کہا جاتا ہے - کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو - تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- عكف - العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] ، أي : محبوسا ممنوعا .- ( ع ک ف ) العکوف - کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- حدَّ- الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا :- جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ- [ الطلاق 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه :- إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض .- وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه .- وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . - ( ح د د ) الحد - جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں - ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر)- رمضان کی قضا میں تاخیر کا جواز - ارشاد باری ہے فمن کان منکم مریضاً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر اللہ تعالیٰ نے گنتی پوری کرنا ایسے دنوں میں واجب کردیا جن کی آیت میں تعیین نہیں کی گئی ہے۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ اس کے لیے جائز ہے کہ جس وقت چاہے روزے رکھ لے البتہ سال کے اختتام تک قضا کی تاخیر کے جواز میں ہمارے اصحاب سے کوئی روایت محفوظ نہیں ہے ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے اتنی تاخیر جائز نہیں کہ اگلا رمضان شروع ہوجائے۔ میری یہ رائے احناف کے مسلک کے مطابق ہے ۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک اگر امر غیر موقت ہو ، یعنی اس کا کوئی وقت مقرر نہ ہو ، تو وہ علی الفور ہوتا ہے یعنی اس پر امکانی حد تک فی الفور عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم نے اس اصول کی اصول فقہ میں وضاحت کردی ہے ۔ جب یہ بات درست ہے تو اگر رمضان کی قضا پورے سال کے ساتھ موقت نہ ہوتی تو عبد الفطر کے دوسرے ہی دن سے اس پر روزہ رکھنا لازم ہوجاتا اور تاخیر جائز نہ ہوتی اس لیے کہ تاخیر کی وجہ سے قضا میں کوتاہی کرنا ہی اس کے لیے جائز نہیں خاص کر جبکہ اسے اس بات کا علم بھی نہیں کہ وجوب فرض کا آخری وقت کون سا ہے جس سے موخر کرنا اس کے لیے جائز نہیں جس طرح کہ یہ بات جائز نہیں کہ شریعت کی طرف سے کسی ایسی عبادت کی فرضیت کا امر کردیا جائے جو مامورین کے نزدیک مجہول ہو یعنی جن لوگوں کو اس عبادت کی فرضیت کا امر کیا گیا ہے وہ سرے سے اس سے واقف نہ ہوں اور پھر اس کی وضاحت سے پہلے اس کے ترک پر شریعت کی طرف سے سختی کی جائے اور تارکین کو قابل ملامت گردانا جائے ، مذکورہ بالا دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔- جب یہ بات ثابت ہوگئی اور ہمارے علم میں یہ بات بھی ہے کہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ امکان قضا کے اول اوقات سے رمضان کی قضا کو موخر کردینا جائز ہے تو اس سے اس بات کا ثبوت مل گیا کہ قا کی تاخیر سال کے گزرنے کے ساتھ موقت ہے یعنی قضا میں سال کے گزرنے تک تاخیر کی جاسکتی ہے۔ تو اس کی مثال بمنزلہ ظہر کے وقت کی ہوگی کہ اس کے اول اور آخر دونوں معلوم ہیں ۔ - اس لیے اول سے آخر تک کے درمیان کسی بھی وقت اس کی عبادت کا ورود درست ہے۔ یعنی ان دونوں اوقات کے درمیان کسی بھی وقت ظہر پڑھی جاسکتی ہے اور اس کی تاخیر بھی اس وقت تک جائز ہے کہ اگر اس کے اندر یہ عباد ت بجا لائی جائے تو اس کے فوت ہونے کا خطرہ ہو اس لیے کہ اس کا وہ آخری وقت معلوم ہے جس تک اگر وہ اسے موخر کر دے تو وہ کوتاہی کرنے والا قرار پائے گا ۔ سلف کی ایک جماعت سے سال کے اندر رمضان کی قضا میں تاخیر کا جواز منقول ہے ۔ یحییٰ بن سعید نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ” میرے اوپر رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی ، مجھے ان کے قضا کی استطاعت نہ ہوتی ۔ یہاں تک کہ شعبان کا مہینہ آ جاتا “ ۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ قول مروی ہے کہ دس دس دنوں میں رمضان کے روزے قضا رکھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح سعید بن جبیر سے بھی منقول ہے۔ عطا بن ابی رباح ، طائوس اور مجاہد کا قول ہے کہ جب چاہو رمضان کی قضا کرلو ۔ البتہ فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ ایک شخص رمضان کی قضا میں اتنی تاخیر کر دے کہ اگلا رمضان آ جائے ۔ ہمارے جملہ اصحاب کا یہ قول ہے کہ وہ آنے والے رمضان کے روزے خود رکھے گا اور پھر قضا شدہ رمضان کی قضا کرے گا اور اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں آئے گا ۔ امام مالک ، سفیان ثوری ، امام شافعی اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر اس نے پہلے رمضان کی قضا میں کوتاہی کی یہاں تک کہ اگلا رمضان آگیا تو وہ قضا کے ساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کھانا کھلائے گا ۔ ثوری اور الحسن بن حی کا قول ہے کہ ہر دن کے بدلے نصف صاع گندم کا فدیہ دے گا ۔ امام مالک اور شافعی کا قول ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مد ( دو یا تقریباً سو ایک رطل کا پیمانہ ، ایک رطل چالیس تولے کا ہوتا ہے) طعام کا فدیہ دے اور اگر اس سے مرض یا سفر کی بنا پر قضا کرنے میں کوتاہی نہیں ہوئی ۔ تو اس پر اطعام یعنی مستکین کو کھانا کھلانا لازم نہیں ہوگا ۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ اگر پہلے رمضان کی قضاء میں اس سے کوتاہی ہوگئی اور دوسرے میں بیمار ہوجانے کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکا حتیٰ کہ دوسرا رمضان گزر گیا اور پھر اس کی وفات ہوگئی تو پہلے رمضان کے ہر دن کے بدلے دو مد کا فدیہ دیا جائے گا ایک مد روزے کا اور دوسرا مدا سے ضائع کرنے کا اور دوسرے رمضا ن کے ہر دن کے بدلے ایک مد فدیہ دے گا ۔ امام اوزاعی سے قبل جن ائمہ کا قول گزر چکا ہے ان سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان میں بیمار پڑگیا اور پھر تندرست ہونے سے پہلے وفات پا گیا تو اس کی طرف سے اطعام واجب نہیں ہوگا ۔ عبد الباقی بن قانع نے ہمیں روایت کی ، انہیں محمد بن عبد اللہ حضرمی نے انہیں ابراہیم بن اسحاق ضبی نے ، انہیں قیس نے اسود بن قیس سے ، اسود نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) بن خطاب (رض) سے روایت کی ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذی الحجہ میں رمضان کے قضاء روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ہم سے عبد الباقی نے ، انہیں بشر بن موسیٰ نے ، انہیں یحییٰ بن اسحاق نے ، انہیں ابن طیعہ نے حرث بن یزید سے ، انہوں نے ابو تمیم جیشانی سے یہ روایت کی کہ جیشانی نے کہا کہ طرابلس کے مقام پر ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے اور ہماری مجلس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو صحابی حرت عمرو بن العاص حبیب بن معقل بھی تھے۔ حضرت عمرو نے فرمایا کہ ” میں رمضان کے روزوں میں فصل کرتا ہوں “ ۔ یعنی متفرق ایام میں روزے رکھتا ہوں یہ سن کر غفاری نے فرمایا ” ہم رمضان کے روزوں میں فصل نہیں کرتے “ اس پر حضرت عمرو نے فرمایا ” میں رمضان کے قضاء روزوں میں فصل کرتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فعدۃ من ایام اخد۔ ہمیں عبد اللہ بن عبد ربہ بغلانی نے ، انہیں عیسیٰ بن احمد عسقلانی نے ، انہیں بقیہ نے سلیمان بن ارقم سے، سلیمان نے حسن سے اور حسن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ روایت کی کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول میرے ذمہ رمضان کے کچھ روزے ہیں آیا میں انہیں متفرق دنوں میں رکھ لوں آپ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا ” تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے ذمہ قر ہو اور تم وہ قر ض تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کر دو تو کیا اس طرح ادائیگی ہوجائے گی ؟ اس شخص نے اثبات میں جواب دیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا :” پھر اللہ تعالیٰ عفو و در گزر کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے “۔ - یہ تمام روایات اس بات کی خبر دے رہی ہیں کہ قضاء رمضان کے امکان کے اول وقت سے اسے موخر کر کے رکھنا جائز ہے۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت سے یہ مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان کی قضا میں اگلے سال تک تاخیر کردی تو اس پر فدیہ لازم آئے گا ۔ ان میں سے ایک حضرت ابن عباس (رض) ہیں ۔ یزید بن ہارون سے روایت ہے ۔ انہوں نے عمرو بن میمون ابن مہران سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عباس (رض) کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں دو رمضان بیمار رہا ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس سے پوچھا کہ دونوں رمضان کے درمیان تمہاری بیماری جا رہی یابیچ میں تمہیں صحت ہوگئی تھی ؟ اس نے جواب دیا کہ بیچ میں صحت ہوگئی تھی ۔ آپ نے پھر پوچھا کہ کیا اتنی صحت ہوگئی تھی آپ کا اشارہ صحت کے ایک خاص درجے تک تھا اس نے نفی میں جواب دیا ، آپ نے فرمایا کہ روزہ نہ رکھو جب تک کہ اتنی صحت حاصل نہ ہوجائے۔ وہ شخص اپنے دوستوں کے پاس گیا اور انہیں ساری بات بتائی ۔ دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ جا کر حضرت ابن عباس (رض) کو بتائو کہ اب تمہیں اتنی صحت حاصل ہوگئی ہے چناچہ وہ شخص پھر حضرت ابن عباس (رض) کے پاس آیا۔ آپ نے اس سے پھر وہی سوال کیا ۔ اس دفعہ اس نے اثبات میں جواب دیا ۔ اس پر آپ نے اسے فرمایا کہ دونوں رمضان کی قضاء کرو اور تیس مسکینوں کو کھلا کھلا دو ۔ روح بن عبادہ نے عبد اللہ بن عمر (رض) سے ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کی قضا میں اتنی سستی کرے کہ اس پر اگلا رمضان آ جائے تو وہ نئے رمضان کے روزے رکھے گا اور گزشتہ رمضان کے روزوں کا فدیہ دے گا ۔ ہر دن کے بدلے میں ایک مد گندم اور روزے قضا نہیں کرے گا ۔ آپ کا یہ قول حاملہ کی قضا کے متعلق آپ کے مسلک کے مشابہ ہے کہ وہ مسکینوں کو فدیہ کے طور پر کھانا کھلاوے گی اس کے ساتھ روزے قضا نہیں کر دے گی۔- حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی حضرت ابن عباس (رض) کے قول کی طرح روایت ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے اس سلسلے میں ایک اور قول مروی ہے۔ حماد بن سلمہ نے ایوب سے اور حمید نے ابو زید مدنی سے روایت کی ہے کہ ایک شخص پر سکرات موت طاری ہوگئی اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھ پر اللہ کا ایک قرض ہے اور لوگوں کا بھی ایک قر ض ہے۔ سب سے پہلے اللہ کا قرض ادا کردینا پھر لوگوں کا قرض ۔ میں نے دو رمضان کے روزے نہیں رکھے تھے اس شخص کے بھائی نے حضرت ابن عمر (رض) سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ قربانی کے دو اونٹ جن کے گلے میں قلاوہ پڑاہو یعنی جنہیں حرم میں لے جا کر ذبح کیا جائے۔ اس شخص نے حضرت ابن عباس (رض) سے مسئلہ پوچھا اور ساتھ ہی ساتھ حضرت ابن عمر (رض) کے جواب کی بھی انہیں اطلاع دی ، یہ سن کر حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ ابو عبد الرحمن ( ابن عمر (رض) ) پر رحم کرے قربانی کے اونٹ کا روزے کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ جائو اپنے بھائی کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو “ ۔ راوی ایوب کہتے ہیں کہ وہ شخص دونوں رمضان کے درمیان تندرست ہوگیا تھا۔- طحاوی نے ابن عمر سے ذکر ہے کہ انہوں نے کہا کہ ” میں نے یحییٰ بن اکثم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے یہ بات یعنی مسکینوں کو کھانا کھلانا ، چھ صحابیوں سے سنی ہے اور مجھے ایک صحابی بھی ایسا نہیں ملا جس نے ان صحابیوں سے اختلاف کیا ہو ، یہ بات جائز ہے اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ وہ شخص قضاء رکھنے سے پہلے ہی فوت ہوچکا ہو۔ ارشادباری فعدۃ من ایام اخر متفرق طور پر قضاء روزے رکھنے اور موخر کر کے رکھنے کے جواز پر دلالت کرتا ہے ، نیز اس پر بھی کہ ایسے شخص پر کوئی فدیہ نہیں ۔ اس لیے کہ قضا کے ساتھ فدیہ واجب کردینا دراصل نص کتاب اللہ میں اضافہ ہے اور نفص میں اضافہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ اس کے لیے کوئی اور نص موجود ہو ۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ سال کے آخر تک وہ قضا کو موخر کرسکتا ہے اور اس پر کوئی فدیہ واجب نہیں ہوگا ۔ آیت نے تو قضا شدہ روزوں کی دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا واجب کیا ہے، فدیہ واجب نہیں کیا ، اب یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اگلے سال میں بھی ان دنوں کی گنتی پوری کرنا اس آیت سے واجب ہے جبکہ اگلے سال سے پہلے پہلے کوتاہی کی بنا پر اس نے قضا نہ رکھے ہوں اس لیے یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ آیت سے یہ مراد ہو کہ بعض حالتوں میں تو قضا واجب ہو اور فدیہ نہ ہو اور بعض میں قضا اور فدیہ دونوں واجب ہوجائیں جبکہ دونوں حالتیں ایک ہی شکل سے آیت کے تحت داخل ہیں۔- آپ نہیں دیکھتے کہ چوری کے سلسلے میں یہ بات درست نہیں ہے کہ آیت سرقہ سے مراد یہ ہو کہ بعض چوروں کے تو ہاتھ کاٹ دیئے جائیں اور ان پر جرمانہ بھی کیا جائے ، اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ بعض کے تو دس درہم کی مالیت کی چیز کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیئے جائیں اور ان پر جرمانہ بھی کیا جائے ، اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ بعض کے تو دس درہم کی مالیت کی چیز کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیئے جائیں اور بعض کے اس سے کم کی مالیت پر ، ٹھیک اسی طرح یہ درست نہیں ہے کہ قول باری ( فعدۃ من ایام اخر) سے بعض تو وہ مراد ہیں جو وجوب قضا کے ساتھ خاص ہوں اور ان پر فدیہ نہ ہو اور بعض وہ مراد ہوں جن پر قضا اور فدیہ دونوں واجب ہیں۔ ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کفارات کا اثبات دو طریقوں سے ہوتا ہے یا تو شریعت کی طرف سے توقیف یعنی رہنمائی ہوتی ہے یا پھر اتفاق امت ہوتا ہے اب زیر بحث مسئلے میں یہ دونوں باتیں موجود نہیں ہیں اس بنا پر قیاس سے کفارہ کا اثبات جائز نہیں ہوگا نیز کفارہ ہمیشہ کسی چیز کی جگہ پر کرنے والا اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے اور یہ اس شخص کے حق میں مخصوص ہوتا ہے جس پر قضا واجب نہیں ہوتی ، مثلاً شیخ کبیر یا وہ شخص جس نے قضا کرنے میں کوتاہی کی اور قضا کرنے سے پہلے وفات پا گیا ۔ رہا قضا اور فدیہ دونوں کا اجتماع تو یہ ان وجوہات کی بنا پر ممتنع ہے جو ہم حاملہ اور مرعہ کے باب میں بیان کر آئے ہیں ۔ اس لیے حضرت ابن عمر کا مسلک اس معاملے میں ان لوگوں کے مسلک سے زیادہ واضح ہے جنہوں نے قضا اور فدیہ دونوں لازم کردیئے ہیں جبکہ حضرت ابن عمر (رض) نے فدیہ واجب قرار دیا ہے نہ کہ قضا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں وہ جوہ سے اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ تاخیر قضا سے فدیہ واجب نہیں ہوتا ۔ اول یہ کہ متفرق دنوں میں قضا کے ذکر کے ساتھ فدیہ کے وجوب کا ذکر نہیں ہو ۔ اگر اس کی تاخیر فدیہ واجب کردیتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا ضرور ذکر کرتے۔ دوم یہ کہ آپ نے قضا کو قرض کے ساتھ تشبیہ دی اور یہ ظاہر ہے کہ قرض کی ادائیگی میں تاخیر سے کوئی چیز واجب نہیں ہوتی سوائے اس کے قرض کی ادائیگی ہوجائے۔ اس لیے جس چیز کو اس کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے یعنی قضاء ررضان اس کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب ہمارا اس پر اتفاق ہے کہ رمضان کی قضا کرنے والے کو اگلے سال تک قضا کی تاخیر سے روکا گیا ہے ۔ اگر وہ ایسا کرے تو ضروری ہے کہ اسے مفرط یعنی کوتاہی کرنے والا قرار دیا جائے۔ اس صورت میں اس پر فدیہ لازم ہوگا جیسے کہ وہ اگر قضا کرنے سے پہلے مرجاتا تو اس پر تفریط یعنی کوتاہی کی بنا پر فدیہ لازم ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تفریط کی بنا پر فدیہ لازم نہیں ہوتا بلکہ اس بنا پر لازم ہوتا ہے کہ اس کے لیے قضا کرنے کا امکان پیدا ہوگیا تھا لیکن اس کے بعد موت کی وجہ سے قضا کا موقعہ ہاتھ سے نکل گیا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس نے رمضان میں جان بوجھ کر کھالیا ہوتا تو وہ مفرط شمار ہوتا اور اگر وہ اسی سال اس کی قضا کرلیتا تو سب کے نزدیک اس پر فدیہ لازم نہ آتا ۔ اس لیے اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ فدیہ واجب کرنے کے لیے تفریط کا پایا جانا علت نہیں ہے۔- علی بن موسیٰ قمی نے نقل کیا ہے کہ دائود اصفہانی کا قول ہے کہ جو شخص کسی عذر کی بنا پر رمضان کے ایک دن کا روزہ نہیں رکھتا اس پر شوال کی دوسری تاریخ کو روزہ رکھنا واجب ہے ، اگر اس نے روزہ نہیں رکھا تو وہ گناہ گار ہوگا اور مفرط قرار پائے گا ۔ دائود اپنے اس قول کی وجہ سے زیر بحث مسئلہ میں سلف اور خلف دونوں کے متفقہ موقف اور ظاہر آیت فعدۃ من ایام اخر اور آیت ولتکملوا لعدۃ کی مخالفت کا مرتکب ہوگیا، نیز اس نے ان آثار کی بھی خلاف ورزی کی جن کی ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔- علی بن موسیٰ کا کہنا ہے کہ ایک روز میں نے دائود سے اس کی اس قول کی وجہ پوچھی تو جواب میں کہنے لگا کہ اگر وہ شوال کی دوسری تاریخ کی روزہ نہ رکھے اور اس کی وفات ہوجائے تو اس کے متعلق تمام اہل علم کا یہی قول ہے کہ وہ گناہ گار ہو کر اور مفرط بن کر مرا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شوال کی دوسری تاریخ کو ہی روزہ رکھ لینا اس پر واجب تھا اس لیے کہ اگر اس کے لیے اس کی گنجائش ہوتی کہ وہ دوسری تاریخ کے بعد بھی رکھ سکتا تو اسی رات موت کی وجہ سے وہ مفرط قرار نہ پاتا ۔ علی بن موسیٰ نے اس پر اس سے یہ پوچھا کہ اس شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جس کے ذمہ ایک غلام آزاد کرنا ہو اسے ایک غلام برائے فروخت مل جائے جس کی قیمت بھی اس کے حسب منشاء ہو تو آیا اس کے لیے یہ جائز ہوگا کہ وہ اسے چھوڑ کر کوئی اور غلام خرید لے ؟- دائود نے نفی میں جواب دیا ۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ” اس پر فرض یہ ہے کہ جو پہلا غلام اسے مل جائے تو وہ اسے آزاد کر دے ، جب اسے کوئی غلام مل جائے گا تو اس کے فرض کا لزوم اس کے ساتھ ہی ہوجائے گا اور جب فرض کا لزوم ہوجائے گا تو پھر اسے چھوڑ کر کسی اور غلام کی طرف جانا اس کے لیے جائز نہیں ہوگا “ میں نے پھر پوچھا کہ اگر اس نے ایک غلام ملنے کے باوجود اسے چھوڑ کر دوسرا غلام خرید کر کے اسے آزاد کردیا تو کیا یہ جائز ہوگا ؟ اس نے جواب دیا کہ یہ جائز نہیں ہوگا ۔ میں نے پھر کہا کہ اگر اس شخص کے پاس ایک غلام موجود ہو اور اس پر غلام آزاد کرنا واجب ہوجائے تو ایسی صورت میں اس کے لیے کوئی اور غلام خرید ناجائز ہوگا ؟ دائود نے نفی میں اس کا جواب دیا ۔ میں نے کہا کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ اس پر غلام آزاد کرنے کی جو ذمہ داری عائد ہوئی ہے اس ذمہ داری کا تعلق اس کے پاس موجود غلام کے ساتھ ہوگیا ، کسی اور غلام کے ساتھ نہیں ہوا ؟ دائود نے اثبات میں اس کا جواب دیا ۔ اس پر میں نے اس سے پوچھا کہ اگر وہ غلام مرجائے تو آیا غلام آزاد کرنے کی ذمہ داری اس شخص سے ختم ہوجائے گی جس طرح کہ ایک شخص کسی معین غلام کو آزاد کرنے کی نذر مان لے اور پھر وہ غلام مرجائے تو اس کی نذر باطل ہوجاتی ہے۔ دائود نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس شخص سے غلام آزاد کرنے کی ذمہ داری ختم نہیں ہوگی بلکہ وہ اس غلام کی جگہ کوئی اور غلام لے کر آ زاد کرے گا اس لیے کہ یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ اسی طرح جس شخص پر بالا جماع کوئی غلام آزاد کرنا واجب ہو اس کے لیے جائز ہے کہ کوئی اور غلام آزاد کردے اور صرف وہی غلام آزاد نہ کرے جو سب سے پہلے مل جائے اس پر دائود نے پوچھا کہ تم لوگوں سے یہ اجماع نقل کررہے ہو ؟ میں نے کہا کہ تم کن لوگوں سے پہلا اجماع جس کا تم نے ابھی حوالہ دیا ہے نقل کررہے ہو ؟۔ اس نے جواب دیا کہ اجماع منقول نہیں ہوتا میں نے ا س پر یہ کہا کہ دوسرا اجماع ( جس کا میں نے حوالہ دیا ہے) بھی منقول نہیں ہوا ، یہ سن کر دائود خاموش ہوگیا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دائود نے جو کچھ کہا ہے کہ شوال کی دوسری تاریخ کو اس پر قضالازم ہے اور یہ کہ جس کے ذمہ کوئی غلام آزاد کرنا ہو اور اسے غلام مل جائے تو وہ اس غلام کو چھوڑ کر کسی اور غلام کو آزاد نہیں کرسکتا یہ سب باتیں اجماع امت کے خلاف ہیں ۔ پھر اس کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کا ایک قضا روزہ شوال کی دوسری تاریخ کو نہیں رکھتا اور اس کی وفات ہوجاتی ہے تو اہل علم کے نزدیک وہ مفرط کہلائے گا اس کے اس دعوے کی بطلان کی وجہ یہ ہے کہ جن فقہاء نے ایسے شخص کو سال کے آخر تک قضا مؤخر کردینے کی اجازت دی ۔ ان کے نزدیک بھی ایسا شخص موت کی بنا پر مفرط نہیں قرار پائے گا اس لیے کہ اگلا رمضان آنے تک پورا سال قضا کے لیے وقت ہے جس میں تاخیر کی گنجائش ہے۔ جس طرح کہ نماز کا وقت ہے کہ اس میں اول وقت سے آخر وقت تک تاخیر کی گنجائش ہے اور اگر وقت گزر جانے سے پہلے اس شخص کی وفات ہوجائے تو وہ نماز کی ادائیگی مؤخر کرنے کی بنا پر مفرط قرار نہیں پائے گا۔ رمضان کی قضا کے متعلق بھی قضاء کا یہی قول ہے۔ - اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ایسا شخص اگر مفرط نہ ہوتا تو سال گزرنے سے پہلے قضاء رمضان کے بغیر اس کی وفات کی صورت میں اس پر فدیہ لازم نہ ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لزوم فدیہ تفریط کی علامت نہیں ہے اس لیے کہ شیخ کبیر پر فدیہ لازم ہوتا ہے لیکن اس میں تفریط نہیں پائی جاتی اور دائود کا قول کہ اجماع نقل نہیں کیا جاتا ۔ غلط ہے ، کیونکہ اجماع اسی طرح نقل ہوتا ہے جس طرح نصوص نقل ہوتے ہیں اور جس طرح اختلاف آراء نقل ہوتا ہے۔ اگر ابو دائود کی مراد اپنے اس قول سے یہ ہو کہ اجماع کرنے والوں میں ہر ایک کو اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ ان کے اقوال کی حکایت کرے جبکہ ان میں سے ایک گروہ کا قول مجلس میں نشر ہو اور بقیہ تمام لوگ وہاں موجود ہوں اور وہ قول سن کر اس کی مخالفت نہ کریں تو اس کی یہ مراد درست ہے لیکن اس کے باوجود بھی مطلقاً یہ کہنا درست نہیں کہ اجماع نقل نہیں ہوتا ۔ اس لیے بعض اجماع میں پوری جماعت کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں اس صورت میں ان کا اجماع صحیح طریقے سے منقول ہوتا ہے اور بعض اجماع میں ایک گروہ کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں جو پوری طرح پھیل جاتے ہیں اور باقی ماندہ لوگوں کے کانوں تک بھی یہ اقوال پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کی طرف سے ان کی مخالفت نہیں ہوتی ، یہ بھی ایسا اجماع ہے جو منقول ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں باقی ماندہ لوگوں کی طرف سے مخالفت کا نہ ہونا یہ موافقت کے قائم مقام ہوجاتا ہے اس لیے اجماع کی یہ دونوں قسمیں جو خواص اور فقہاء کا اجماع کہلاتی ہیں ان کی دوسروں تک نقل کی جاتی ہے۔ اجماع کی ایک اور صورت بھی ہے یہ وہ اجماع ہے جس میں عوام الناس اور خواص دونوں شامل ہوں مثلاً زنا اور سود کی حرمت پر اجماع یا جنابت کی وجہ سے وجوب اغتسال یا نما ز پنجگانہ وغیرہ پر اجماع۔ یہ ایسے امور ہیں جن پر اہل اسلام کا اتفاق معلوم ہے ، اگرچہ ہر ایک سے اس کے اعتقاد اور اس کی دینداری کے متعلق کوئی بات نقل نہیں ہوئی ہے۔ اگر اجماع کی یہ قسم مراد لی جائے تو اس کے متعلق یہ کہنا بھی درست ہے کہ اسے آگے نقل نہیں کیا جاتا ہے اور یہ کہنا بھی کہ یہ آگے منقول ہوتا ہے اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ تمام اہل الصلاۃ اس کا عقیدہ رکھتے اور اسے دین سمجھتے ہیں۔- اس بنا پر یہ جائز ہے کہ ان کے اس اعتقاد اور دینداری اور اس پر ان کے اجماع کو آگے نقل کیا جائے جس طرح کہ ایک شخص کا اسلام ہم پر ظاہرہو جائے اور ایمان پر اس کے عقیدے کا بھی اظہار ہوجائے تو ایسی صورت میں یہ جائز ہوگا کہ اس کے مسلمان ہونے کی بات آگے نقل کی جائے۔ ارشاد باری ہے فان علمتو ھن مومنات فلا ترجعوھن الی الکفار اگر تمہیں ان عورتوں کے مومن ہونے کا علم ہوجائے تو انہیں کافروں کو واپس نہ کرو وباللہ التوفیق۔- سفر میں روزہ - ارشاد باری ہے ومن کان منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر ید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر اس آیت میں یہ واضح دلالت موجود ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا شریعت کی طرف سے ایسی رخصت ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے آسانی پیدا فرما دی ہے۔ اگر روزہ نہ رکھنا فرض ہوتا جس پر عمل ضروری ہوتا تو پھر اس قول بار یرید اللہ بکم الیسر کا فائدہ ختم ہوجاتا ۔ اس لیے آیت مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسافر کو اختیار ہے کہ چاہے تو روزہ چھوڑ دے اور چاہے تو روزہ رکھ لے جیسے کہ ارشاد باری ہے ( فاقروا ما تیسر من القرآن) قرآن میں سے تمہیں جہاں سے میسر ہو اس کی قرأت کرلو اسی طرح ارشاد باری ہے فما استیسر من الھدی جو بھی ہدی یعنی قربانی کا جانور میسر آ جائے اس لیے قرآن میں جہاں کہیں بھی یسر یعنی آسانی اور سہولت کا ذکر آیا ہے وہاں تخییر یعنی بندے کو اختیار ملنے پر دلالت موجود ہ۔ عبد الرحیم الجرزی نے طائوس کے واسطے سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :” سفر میں جو شخص روزہ رکھ لے ا س پر ہم نکتہ چینی نہیں کریں گے اور جو نہ رکھے اس پر بھی نہیں کریں گے ، اس لیے کہ ارشاد باری ہے یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر “ ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اپنے اس قول سے یہ بتایا کہ آیت میں جس یسر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد تخییر ہے ۔ اگر آیت میں اس معنی کا احتمال نہ ہوتا تو حضرت ابن عباس آیت کی کبھی تفسیر بیان نہ کرتے نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ پھر اس کو عطف کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر اللہ تعالیٰ نے مسافر پر نہ روزہ رکھنا واجب قرار دیا ہے اور نہ روزہ چھوڑ نا حالانکہ مسافر کو دو طرح سے شہود رمضان ہوگیا ۔ اول یہ کہ اسے اس کا علم ہوگیا ہے اور وہ اس میں موجود ہے۔ دوم ۔ یہ کہ وہ مکلفین میں سے ہے یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ اسے اس ماہ کے روزے کے حکم کا مخاطب بنایا گیا ہے ۔ لیکن اسے اسے کے باوجود بھی افطار کی رخصت دی گئی ہے ۔ اب اس ارشاد باری ( ومن کان مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ روزہ نہ رکھے تو پھر دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے، جس طرح یہ قول باری ہے فمن کان منکم مریضا ًاو بہ اذی من راسہ ففدیۃ من صیام اور جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں کا فدیہ دے اس کا مفہوم یہ ہے کہ سر میں جو ئوں وغیرہ کی تکلیف کی بنا پر خلق کرا لے یعنی سر کے بال صاف کرا لے تو پھر روزوں کی شکل میں فدیہ ادا کرے۔ سفر میں روزہ کے متعلق مسلمانوں کے مضر اتفاق پر یہ بات دلالت کر رہی ہے کہ مریض اگر روزہ رکھ لے تو اس کے لیے جائز ہوگا اور اس پر قضا واجب نہیں ہوگی ، قضا اس وقت واجب ہوگی جب روزہ نہ رکھے۔ یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ افطار یعنی روزانہ رکھنے کا مفہوم خود اس میں پوشیدہ ہے اور جب یہ بات اس طرح ثابت ہوگئی تو یہ پوشیدہ مفہوم بعینہٖ مسافر کے لیے بھی مشروط ہوگا ۔ جس طرح کہ مریض کے لیے ہے اس لیے کہ آیت میں عطف کے ذریعے ان دونوں کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے ۔ یعنی جب دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنے کے وجوب میں افطار مشروط ہے تو جس شخص نے مسافر پر قضا واجب کی ہے جبکہ وہ حالت سفر میں روزے رکھ لے تو اس نے گویا آیت کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔- صحابہ کرام ، ان کے بعد تابعین عظام اور فقہاء امصار کا مسافر کے روزہ کے جواز پر اتفاق ہے البتہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : ” جس شخص نے سفر میں روزہ رکھا اس پر اس کی قضا لازم ہے “ اس مسئلے میں چند ہی لوگوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کا ساتھ دیا ہے جن کے اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خبر مستفیض یعنی بکثرت روایات سے جو موجب علم ہے۔ یہ ثابت ہے کہ آپ نے سفر میں روزہ رکھا تھا۔ آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ سفر میں روزے کو آپ نے مباح قرار دیا ہے۔ ان میں ایک حدیث ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں سفر روزے رکھتا ہوں۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر تمہارا دل چاہے تو روزہ رکھ لو اور اگر چاہو تو نہ رکھو “ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابو سعید الخدری ، حضرت انس بن مالک ، حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت ابو الدرداء اور حضرت سلمہ بن المحبق نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سفر کی حالت میں روزے سے ہونے کی روایت کی ہے۔ جو لوگ مسافر کے روزہ کے جو از کے قائل نہیں ہیں بلکہ اس پر قضا واجب کرتے ہیں وہ ظاہر آیت ( ومن کان مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) سے استدلال کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے دنوں میں قضا کی گنتی پوری کرنا دونوں حالتوں میں واجب ہے ۔ اس لیے کہ آیت میں روزہ رکھنے والے مسافر اور نہ رکھنے والے مسافر کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ - اسی طرح وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جسے حضرت کعب بن عاصم الاشعری ، حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لیس من البر الصیام فی السفر سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔ نیز اس حدیث سے بھی ان کا استدلال ہے جو ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت کی ہے انہیں محمد بن عبد اللہ الحضرمی نے ، انہیں ابراہیم مندر الحزامی نے اور انہیں عبد اللہ بن موسیٰ تیمی نے اسامہ بن زید سے روایت کی ہے۔ اسامہ نے زہری سے ، انہوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے اور انہوں نے اپنے والد عبد الرحمن سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الصائم فی السفر کا لمفطر فی الحضر سفر میں روزہ رکھنے والا حالت اقامت میں روزہ نہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت انس بن مالک قشیری کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ان اللہ وضع عن المسافر شطر الصلاۃ والصوم وعن الحامل والمرضع اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدمی نماز اور روزہ معاف کردیا ہے اسی طرح حاملہ اور مرضعہ سے بھی ۔- جہاں تک آیت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی ایسا بات نہیں ہے جو ان لوگوں کے دعوے کی دلیل بن سکتی ہو بلکہ یہ تو مسافر کے روزے کے جو از پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں رہ گئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث کہ لیس من البرا الصیام فی السفر تو یہ ایسا کلام ہے جو ایک مخصوص حالت کے موقع پر فرمایا گیا اس بنا پر اس کا حکم صرف اسی حالت تک محدود رہے گا ۔ اسی حالت کی وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے اور انہیں شعبہ نے محمد بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارہ سے ، محمد بن عبد الرحمن نے محمد بن عمرو بن الحسن سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) سے کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس پر سائبان کی طرح کوئی چیز تان کر سایہ کردیا ہے اور لوگوں کی ایک بھیڑ وہاں موجود ہے۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا لیس من البر الصیام فی السفر اس روایت میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ جس کسی نے یہ روایت کی اس نے صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس موقع پر کہے ہوئے الفاظ نقل کردیئے ہیں جبکہ ان میں سے بعض نے سبب کا ذکر کیا ہے اور بعض نے اسے حذف کردیا ہے اور صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ دہرا دیئے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ لوگوں نے فتح مکہ کے سال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ روزہ رکھا۔ پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو ، ایسی حالت میں روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ تقویت کا باعث ہوگا اس لیے روزہ نہ رکھو یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے عزیمت پر عمل تھا کسی مسئلے میں شریعت کی طرف سے دی ہوئی رخصت پر عمل کرنے کی بجائے اصل حکم پر عمل کرنا عزیمت کہلات ہے۔ حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو اس حال میں پایا کہ اس واقعہ سے پہلے اور اس واقعہ کے بعد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کے ساتھ روزہ رکھتا رہا ۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے انہیں احمد بن صالح نے ، انہیں ابن وہب نے، انہیں معاویہ نے ربیعہ بن یزید سے اور ربیعہ نے قزعہ سے یہ روایت کی ۔ قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری سے سفر میں رمضان کے روزے رکھنے کے متعلق دریافت کیا ۔ اس کے بعد درج بالا روایت بیان کی ۔ اس حدیث میں حضرت ابو سعید خدری نے وہ وجہ بھی بیان کردی جس کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں صحابہ کرام کو دشمنوں سے جنگ کرنے کی زیادہ قوت ہوتی اور وہ اس لیے کہ جہاد ان پر فرض تھا جبکہ سفر میں روزہ رکھنا فرض نہیں تھا۔ اس بنا پر ان کے لیے درست نہیں تھا کہ وہ فضلیت حاصل کرنے کی خاطر فرض کو ترک کردیں۔ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اپنے والد عبد الرحمن سے روایت کی ہے اس میں یہ کمزوری ہے کہ ابو سلمہ کا اپنے والد عبد الرحمن سے سماع ثابت نہیں ہے جس کی بنا پر یہ حدیث مقطوع ہے ۔ اس لیے جواز صوم کے سلسلے میں اخبار متواترہ کو ایک ایسی مقطوع حدیث کی بنا پر ترک نہیں کیا جاسکتا جس کا بہت سے لوگوں کے نزدیک کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس میں یہ گنجائش موجود ہے کہ یہ ایسا کلام ہو جو کسی سبب کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صادر ہوا ہو اور وہ تھا دشمنوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کا سبب جس کے متعلق سب جانتے ہیں کہ روزہ رکھ کر اسے سر انجام دینا مشکل ہوتا ہے اس لیے اس کلام کے حکم کو اسی حالت تک محدود رکھا جائے گا جس حالت میں یہ صادر ہوا تا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی مخالفت نہ ہو اور اس کی وجہ سے ترک جہاد لازم نہ آئے۔ رہ گیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ ان اللہ وضع عن المسافر شطر الصلاۃ والصوم وعن الحامل والمرضع تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رمضان کی آمد سے مسافر پر روزے کی فرضیت کا تعین نہیں ہوا ( یعنی یہ نہیں ہوا کہ وہ ضرور روزے رکھے) نیز یہ کہ اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن اس روایت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے جس سے روزے کے جواز کی نفی ہوجائے اگر وہ روزہ رکھ لے جس طرح کہ حاملہ اور مرضعہ کے روزے کے جواز کی نفی نہیں ہوتی ۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا افطار سے افضل ہے۔ اما م مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر مسافر کو روزے کی قوت ہو تو اس کا روزہ رکھ لینا زیادہ پسند یدہ ہوگا ۔ امام شافعی نے فرمایا کہ اگر سفر میں روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ سفر میں روزے کی افضلیت پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے۔ کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ایاما ً معدودا ت فمن کان منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) تا قول باری وان تقوموا خیر لکم آیت کا آخری حصہ ان تمام لوگوں سے متعلق ہے جن کا ذکر آیت میں آچکا ہے ، کیونکہ سلسلہ کلام اس طرح ہے کہ اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے کے ساتھ حرف عطف کے ذریعے منسلک ہے ۔ اس لیے کسی حصے کو بلا دلیل کسی حکم کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسافر کا روزہ رکھنا افطار سے افضل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت کے آخری حصے کا تعلق اس کے متصل حصے کے ساتھ ہے نہ کہ اس سے ما قبل کے حصوں کے ساتھ اور وہ متصل حصہ یہ قول باری ہے و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قول باری کتب علیکم الصیام میں تمام لوگوں کو خطاب ہے جن میں مقیم اور مسافر سب داخل ہیں ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان تصوموا خیر لکم کا خطاب بھی ان سب کو شامل ہے جو آیت کے ابتدائی خطاب میں داخل ہیں ۔ اس لیے یہ درست نہیں کہ آیت کے آخری حصے کا خطاب ان میں سے بعض تک محدود ہو نیز ہمارے ما قبل کے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اگر سفر میں کسی نے روزہ رکھ لیا تو فرضیت ادا ہوجائے گی اور جس عبادت کی یہ حیثیت ہو اس کا تعلق الخیرات بھلائیوں سے ہوتا ہے جس کے متعلق ارشاد باری ہے فاستبقوا الخیرات بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت کر جائو اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا انھم کانوا یسارعون یف الخیرات وہ لوگ بھلائیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاتے تھے ، اس لیے بھلائیوں کی انجام دہی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھانا اور سبقت لے جانا ، پیچھے رہ جانے سے افضل ہے ، نیز فرض عبادات کو ان کے مقررہ اوقات میں بجا لانا انہیں دوسرے اوقات تک موخر کرنے سے بہتر ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بھی ہے کہ من ارادان یجح فلیعجل دجو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو اسے جلدی کرنی چاہیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کی ادائیگی میں تعجیل سے کام لینے کا حکم دیا اس لیے ایسے تمام فرائض کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ انہیں ان کے مقررہ اوقات میں ادا کرنا انہیں دوسرے اوقات تک موخر کرنے سے افضل قرار دیا جائے۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائو د نے انہیں عقبہ بن مکرم نے ، انہیں ابو قتیبہ نے انہیں عبد الصمد بن حبیب بن عبد اللہ ازدی نے انہیں حبیب بن عبد اللہ نے روایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سنان بن سلمہ المحبق کو اپنے والد سلمہ المحبق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ( من کانت لہ حمولۃ یاوی الی شبع فلیصم رمضان حیث ادر کہ) جس شخص کے پاس سواری کا جانور ہو اور پیٹ بھر کر اسے کھانے کو مل جاتا ہو تو اسے جہاں کہیں بھی رمضان کا مہینہ آ جائے وہ روزہ کھ لے۔ محمد بن بکر نے ہمیں یہ حدیث بیان کی ، انہیں ابو دئود نے انہیں نصر بن المہاجر نے انہیں عبد الصمد بن عبد الوارث نے انہیں عبد الصمد بن حبیب نے ، انہیں ان کے والد نے سنان بن سلمہ سے اور سنان بن سلمہ نے المحبق سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشراد فرمایا من ادرکۃ رمضان فی السفر ۔۔۔۔ جس شخص پر سفر کی حالت میں رمضان آ جائے۔۔۔ سلمہ بن المحبق نے حدیث کا باقی ماندہ حصہ جو بیان کیا وہ درج بالا حدیث کے ہم معنی ہے۔ اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر میں روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن یہ حکم افضلیت کی بنا پر دیا گیا نہ کہ وجوب کے طور پر ، اس لیے کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سفر میں روزہ کھنا واجب نہیں ہے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص الثقفی اور حضرت انس بن مالک نے یہ روایت کی ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا افطار سے افضل ہے۔ واللہ اعلم ۔- سفر میں روزہ رکھ کر توڑ دینے والاشخص - جس شخص نے سفر میں روزہ رکھ کے بغیر کسی عذر کے اسے توڑ دیا اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ وہ قضا کرے گا اور اس پر کوئی کفارہ نہیں ۔ اسی طرح اگر اس نے روزے کی حالت میں صبح کی اور پھر سفر پر روانہ ہوگیا اور روزہ توڑ لیا ، یا سفر پر تھا اور روزہ رکھ لیا پھر گھر پہنچ کر روزہ توڑ لیا ، ان تمام صورتوں میں وہ اس روزے کی قضا کرے گا اور کفارہ نہیں دے گا ۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ رکھ کر توڑ دینے والا قضا بھی کرے گا اور کفارہ بھی دے گا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ کفارہ نہیں دے گا ۔ ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ ایسے شخص پر کفارہ ہوگا ۔ امام مالک کا مزید قول ہے کہ اگر کسی نے حالت اقامت میں روزہ رکھ لیا پھر سفر پر چلا گیا اور روزہ توڑ لیا تو وہ صرف قضا کرے گا ۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ مسافر اگر روزہ توڑ لے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ۔ اما م لیث کا قول ہے کہ اس پر کفارہ ہوگا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ رمضان کے روزے کا کفارہ شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتا ہے۔ اس کی حیثیت حدود کی طرح ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کفارہ کا لزوم حدود کی طرح کسی خاص گناہ پر ہوتا ہے۔ اب جبکہ حدود کا شبہ کی بنا پر اسقاط ہوجاتا ہے۔ تو کفارہ رمضان بھی اسی طرح ہونا چاہیے ۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہم یہ کہیں گے کہ جب مسافر نے سفر کی حالت میں روزہ توڑ لیا تو اس حالت کا وجود کفارہ کے لزوم سے مانع ہوجائے گا اس لیے کہ حالت سفر روزہ نہ رکھنے کو مباح قرار دیتی ہے اس لیے اباحت وطی میں عقد نکاح اور ملک یمین کے مشابہ ہوجائے گا اگرچہ یہ دونوں چیزیں وطی حائض کو مباح نہیں کرتیں ۔ تا ہم تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ وطی کو مباح کرنے والا سبب اگر موجود ہو تو اصل میں یہی وجوب حد سے مانع بن جاتا ہے اگرچہ یہ سبب بعینہٖ اسی وطی کو مباح نہیں کرتا ( جیسا کہ حائضہ کی صورت میں ہوتا ہے اسی طرح سفر کی حیثیت ہے اگرچہ سفر روزے میں داخل ہوجانے کے بعد روزہ توڑ دینے کو مباح نہیں کرتا لیکن یہ وجوب کفارہ سے مانع بن جاتا ہے۔ اس لیے کہ بنیادی طور پر افطار کی اباحت کے لیے اسے سبب بنایا گیا تھا۔- اسی بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر سفر کی حالت میں اس نے روزہ توڑ دیا تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت انس بن مالک وغیرھما نے یہ روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر کے اندر روزہ رکھنے کے بعد روزہ توڑ دیا تھا اور یہ اس لیے کیا تھا تا کہ لوگوں کو سفر میں جواز افطار کی تعلیم دی جاسکے۔ اس بنا پر ایسی صورت میں روزہ توڑ دینے کی وجہ سے کفارہ واجب کرنا درست نہیں ہوگا ۔ اس کی ایک وجہ اور بھی ہے وہ یہ کہ سفر کی حالت میں چونکہ روزہ رکھنے کا فعل مسافر پر لازم نہیں ہوتا تو اس کی مشابہت رمضان کی قضا رکھنے والے یا نذر یا کفارہ کا روزہ رکھنے والے کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ اس بنا پر روزہ تو دڑنے کی صورت میں اس پر کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔ اس لیے کہ ابتدائی طور پر اس کے لیے روزہ رکھنا لازم نہیں تھا اور شروع کرنے کی وجہ سے اسے پورا کرنے کا لزوم ، روزہ توڑ دینے کی صورت میں ۔ اس پر کفارہ واجب نہیں کرتا تو یہی صورت مسافر کی بھی ہونی چاہیے اگر حالت سفر میں روزہ رکھ کے توڑ لے۔ اگر روزے کی حالت میں صبح کرے پھر سفر پر نکل جائے اور روزہ توڑ لے تو اس صورت میں بھی کفارہ اس لیے لازم نہیں آئے گا کہ افطار کو مباح کردینے والی حالت یہاں موجود ہے اور وہ حالت سفر ہے جس طرح کہ عقد نکاح اور ملک یمین اباحت وطی کا سبب ہیں اگرچہ اس سے حائضہ عورت کے ساتھ وطی مباح نہیں ہوتی ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ درج بالا صورت میں جبکہ کسی شخص نے روزے کی حالت میں صبح کی تو حالت اقامت کی وجہ سے اس کے لیے ترک صوم مباح نہیں تھا۔ اس لیے اس پر کفارہ واجب کردینا چاہیے اگر وہ دن کے کسی حصے میں سفر شروع کر کے اپنا روزہ توڑ دے ، اس لیے کہ دن کے شروع میں اس پر روزہ رکھنے کا فعل لازمی تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس صورت میں کفارہ واجب نہیں ہوگا اس لیے کہ اس پر ایسی حالت یعنی حالت سفر ، طاری ہوگئی ہے جو وجوب کفارہ سے مانع ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں ۔ اگر کوئی شخص حالت سفر میں ہو اور اس نے روزہ رکھ لیا پھر گھر پہنچ کر روزہ توڑ دیا تو اس پر کفارہ نہیں اس لیے کہ ابتداء ہی سے اس پر روزہ لازم نہیں تھا۔ اس بنا پر اس کی مشابہت رمضان کی تضاء رکھنے والے یا نذر یا کفارہ کا روزہ رکھنے والے کے ساتھ ہوگئی، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ایک شخص نے روزہ نہ رکھا اور پھر اسی دن گھر واپس آگیا یا حائضہ عورت دن کے کسی حصے میں حیض سے پاک ہوگئی ۔ ہمارے اصحاب حسن بن صالح اور امام اوزاعی کا قول ہے کہ ان دونوں پر قضاء لازم ہے اور دن کا باقی ماندہ حصہ اسی طرح گزاریں گے جس طرح ایک روزہ دار گزارتا ہے۔ یہی عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے ابن شبرمہ نے کہا ہے کہ مسافر اگر گھر پہنچ جائے اور اس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو تو وہ بقیہ دن روزہ رکھے گا اور قضاء بھی کرے گا اور اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے تو وہ کھاپی سکے گی اور روزہ نہیں رکھے گی ۔- ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے یا مسافر گھر پہنچ جائے جبکہ اس نے سفر میں روزہ نہیں رکھا تو وہ کھا پی سکے گا اور امساک نہیں کرے گا امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔ جابر بن یزید سے بھی اسی قسم کی روایت ہے ۔ سفیان ثوری نے عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : ” جس شخص نے دن کے اول حصے میں کچھ کھا پی لیا وہ دن کے آخری حصے میں بھی کھا پی لے ‘ ‘۔ سفیان ثوری نے خود بھی اس قول سے اختلاف نہیں کیا ہے۔- ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر کسی شخص نے روزہ نہ رکھنے کی نیت کے ساتھ صبح کی اور اسے پتہ نہ ہو کہ یہ رمضان کا دن ہے تو کھانے پینے سے باز رہے گا اور قضاء رکھے گا ۔ اگر اسے دن کے وقت رمضان شروع ہوجانے کا علم ہوگیا اور اس کے بعد اس نے کھا پی لیا تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں آئے گا ، البتہ اگر اس نے دیدہ دلیری کے ساتھ کھانے پینے کا عمل کیا تو اس پر کفارہ بھی واجب ہوگا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فقہاء کا جب اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص کو کسی رکاوٹ کی وجہ سے رمضان کا چاند نظر نہ آئے اور وہ اگلے دن کھا پی لے پھر اسے چاند ہوجانے کا علم ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ اسی طرح امساک کرے گا جس طرح روزہ دار کرتا ہے اور یہی مسئلہ حائضہ اور مسافر کا بھی ہے ان سب کے درمیان مشترک بات یہ ہے کہ کھا پی لینے کے بعد ان پر طاری ہونے والی حالت ، یعنی چاند کا علم ہوجانا ، اگر دن کی ابتداء میں موجود ہوتی تو انہیں روزہ رکھنے کا حکم ہوتا ۔ اس لیے اگر کھا پی لینے کے بعد یہی حالت ان پر طاری ہوگئی تو انہیں امساک کا حکم دیا جائے گا ۔- اس استدلال کی صحت پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ حکم دلالت کرتا ہے جو آپ نے عاشورہ کے دن کھا پی لینے والوں کو دیا تھا کہ وہ باقی ماندہ دن کھانے پینے سے باز رہیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ نے ان پر قضا واجب کردی تھی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم اپنے نظائر کے لیے اصل کا کام دیتا ہے۔ امام مالک کا یہ قول کہ اگر اس نے دیدہ دلیری کے ساتھ کھانے پینے کا عمل کیا تو اس پر کفارہ لازم آئے گا ۔ ایک بےمعنی قول ہے اس لیے کہ اس کفارے کا وجوب خاص حالت میں روزہ فاسد کردینے کے عمل کے ساتھ مختص ہے جبکہ اس قسم کے کھا پی لینے والے نے کھاپی کر روزہ فاسد نہیں کیا ۔ اس لیے اس پر اس کی وجہ سے کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔- ایسا مسافر جو رمضان میں رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ رکھ لے - اس مسافر کے متعلق اختلاف رائے ہے جو رمضان میں کوئی اور واجب روزہ رکھ لے ۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ وہ جس روزے کی نیت کرے گا وہی روزہ ہوجائے گا ۔ اگر اس نے نفلی روزہ رکھ لیا تو اس کے متعلق امام صاحب سے دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ اس کا یہ روزہ رمضان کا روزہ بن جائے گا اور دوسری روایت یہ ہے کہ یہ نفلی روزہ ہوگا ۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ دونوں صورتوں میں یہ رمضان کا روزہ ہوگا ۔ ہمارے اصحاب کا متفقہ قول ہے کہ اگر کسی نے حالت قیام میں رمضان کے اندر کسی اور واجب یا نفلی روزے کی نیت کرلی تو یہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا اور ادائیگی ہوجائے گی ۔ سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کسی عورت نے رمضان میں نفلی روزے رکھے پھر اسے اچانک رمضان کا علم ہوگیا تو اسے کے یہ رکھے ہوئے روزے رمضان کے روزوں کے لیے کفایت کر جائیں گے ۔ ان دونوں حضرات کا قول ہے کہ جس شخص نے دشمن کی سر زمین میں نفلی روزے رکھے اور اس کا اسے علم ہی نہ ہو کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے تو اس کے یہ نفلی روزے رمضان کے روزوں کا کام دیئے جائیں گے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ جس شخص نے رمضان کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھا اور اسے رمضان کے دخول کا علم نہ ہو تو اس کا یہ روزہ رمضا ن کے روزے کی طرف سے کفایت نہیں کرے گا ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ کسی شخص کو اس کی گنجائش نہیں ہے کہ رمضان میں وہ کوئی اور واجب یا کسی اور رمضان کا قضا روزہ رکھے ۔ اگر اس نے ایسا کرلیا تو نہ رمضان کے روزے کی ادائیگی ہوگیا اور نہ ہی کسی اور روزے کی۔- ابو بکر جصا ص کہتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے حالت اقامت کے اندر رمضان میں نفلی روزہ رکھنے والے کے مسئلے پر بحث کریں گے ۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر ظاہری طور پر سے کئی وجوہ سے دلالت ہو رہی ہے ان میں سے ایک وجہ قول باری کتب علیکم الصیام تا قول باری وان تصوموا اخیر لکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں کسی خاص روزے کا ذکر نہیں کیا بلکہ آیت کا لفظ ہر قسم کے روزے کو شامل ہے خواہ وہ نفلی ہو یا فرضی ، بہر صورت یہ روزہ فرض روزے کی کفایت کر جائے گا ۔ اس لیے کہ رمضان میں نفلی یا کوئی اور واجب روزہ رکھنے والے کا روزہ تو وہی روزہ قرار پائے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی یا وہ فضول قرار دیا جائے گا کہ گویا اس نے روزہ رکھا ہی نہیں یا وہ رمضان کے روزے کی کفایت کرے گا ۔ پہلی دو صورتیں اس بات سے مانع بن جائیں گی کہ وہ روزہ اس روزہ دار کے لیے بہترہو بلکہ اس روزے کا رمضان کے روزے کی کفایت کرنا اس کے حق میں بہتر ہوگا اس لیے یہ ضروری ہوگا کہ اسے فضول قرار نہ دیا جائے اور نہ ہی اس کی نیت کا لحاظ کیا جائے جو اس نے رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی کرلی ہو بلکہ اس روزے کو رمضان کا ہی روزہ قرار دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ فمن شھمد منکم الشھر فلیصمہ اور سلسلہ کلام میں پھر یہ فرمایا ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام خر تمام فقہائے امصار کے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ آیت کے آخری حصے میں افطار یعنی روزے نہ رکھنے کا مفہوم پوشیدہ ہے گویا مفہوم کلام یہ ہوا جو شخص بیمار یا مسافر ہو اور وہ روزہ نہ رکھے تو پھر ایسی صورت میں دوسرے دنوں کی گنتی پوری کرے۔- یعنی اللہ تعالیٰ نے مریض اور مسافر پر قضا اسی وقت رکھی جب وہ روزہ نہ رکھیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قیام کی حالت میں جو شخص بھی روزہ رکھے گا اور افطار پر عمل پیرا نہیں ہوگا اس قضاء لازم نہیں ہوگی اس لیے کہ آیت کے ضمن میں ان تمام لوگوں کا روزہ آ جاتا ہے جنہیں روزہ رکھنے کے حکم کا مخاطب بنایا گیا ہے۔ البتہ ان میں وہ مریض اور مسافر داخل نہیں ہیں جنہوں نے افطار کی رخصت پر عمل کیا ہو۔- اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد صوموا لرویتہ و افطروا لرئو یتہ فان عم علیکم فعدوا ثلاثین بھی دلالت کرتا ہے ۔ اس ارشاد کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ چاہے وہ شخص جس نیت سے بھی روزہ رکھے اس کے لیے جائز ہے ۔ خواہ وہ نفلی ہو یا اس کے علاوہ کچھ اور نیز اس میں یہ نقطہ نظر بھی ہے کہ رمضان کا روزہ چونکہ رمضان کے دوران مستحق العین ہے یعنی یہ اس معین وقت میں فرض ہے اس لیے یہ یوم النحر یعنی دسویں ذوالحجہ کو طواف زیارت کے مشابہ ہوگیا ، کیونکہ اس روز طواف کرنے والا جس نیت سے بھی طواف کرے گا اس کا فرض پورا ہوجائے گا حتیٰ کہ اگر اس نے کسی اور کی طرف سے اس کی نیت کرلی تو پھر اس کا اپنا فرض ادا ہوگا اور دوسرے کی طرف سے اس کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا ۔ - اگر اس صورت میں اس کا فرض ادا نہ ہوتا تو یہ ضروری ہوتا کہ اس کی نیت کے مطابق ادا ہوجائے جس طرح رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں رکھے ہوئے روزے روزہ دار کی نیت کے مطابق ادا ہوتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ کسی شخص کو اگر صرف اتنا ہی وقت ملے جس میں وہ ظہر کی نماز ادا کرسکتا ہو تو ایسی صورت میں اس محدود وقت کے اندر ظہر کی نماز مستحق العین ہوگی یعنی صرف ظہر ہی کی نماز ادا کی جائے گی لیکن اس وقت اگر کسی نے نفل کی نیت سے ظاہر ادا کی تو یہ ناجائز ہوگا اس سے آپ کا بیان کردہ کلیہ ٹوٹ گیا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظہر کا وقت ظہر کی نماز کی ادائیگی کے لیے مستحق العین نہیں کیونکہ اس میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ ایک شخص اس میں ظہر کی نماز اور اس کے علاوہ کوئی اور نمازادا کرلے۔ اس لحاظ سے اول وقت اور آخر وقت کے مابین کوئی فرق نہیں ہے ۔ اگر اول وقت میں نفل نماز پڑھنے سے جس طرح فرض کی ادائیگی نہیں ہوگی اسی طرح آخر وقت میں بھی نفل پڑھ کرف رض نہیں ادا ہوگا ۔ نیز اگر اس نے آخر وقت میں نفل یا ظہر کے علاوہ کسی اور فرض کی نیت کر کے نماز پڑھ لی تو یہ نماز اس کی نیت کے مطابق قرار پائے گی ، جبکہ ہمارا اس امر پر اتفاق ہے کہ عین رمضان میں روزہ رکھنا کسی اور روزے کی طرف سے کفایت نہیں کرے گا بلکہ یہ اسی رمضان کا ہی روزہ ہوگا اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ مستحق العین ہے ۔ اس لیے کہ اس میں کسی قسم کا کوئی اور روزہ درست نہیں ہے۔- نیز اس لیے بھی کہ رضمان کا وقت ایسا ہوتا ہے جو سارے کا سارا فرض کی ادائیگی میں صرف ہوجاتا ہے ۔ اس بنا پر اس فرض کی اس کے اس مقررہ وقت سے نہ تو تقدیم درست ہے اور نہ تاخیر لیکن نماز ظہر کے وقت کی یہ کیفیت نہیں ہے کہ اس کا سارا وقت اس نماز کی ادائیگی میں صرف ہوجائے ۔ اس لیے اگر اس نے یہ نماز موخر کر کے پڑھی تو پھر اس کی فرضیت سے وہ سبکدوش ہوجائے گا ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد الاعمال بالنیات وانما لکل امری مانوی تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا اس بات سے مانع ہے کہ کوئی شخص رمضان میں نفلی روزے کی نیت کرے اور پھر رمضان کا روزہ ادا ہوجائے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد الاعمال بالنیات سے استدلال درست نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس میں ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جو اگرچہ الفاظ میں مذکورہ نہیں ہے لیکن اس میں کئی معنی کا احتمال ہے۔ اس بنا پر اس فقرے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ” اعمال کے جو ازکا دارومدار نیتوں پر ہے “ اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اعمال کی فضلیت کا دارومدار نیتوں پر ہے اور اگر اس کے متعلق فریقین میں تنازعہ پیدا ہوگا تو اس صورت میں اس کے اثبات کے لیے کسی دلالت کی ضرورت ہوگی جس کی وجہ سے اس فقرے سے استدلا ل ہی ساقط ہوجائے گا۔ رہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد وانما لکل امری مانوی تو ہمارا فریق مقابل بھی اسی مسئلے میں ہم سے اتفاق کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان میں نفل یا کسی اور واجب روزے کی نیت کرے گا تو اس کی نیت درست نہیں ہوگی ۔ اس لیے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ رمضان کے سوا اور کسی فرض یا نفل کی ادائیگی نہیں ہوگی جبکہ فریق مخالفت کا قول ہے کہ ایسی صورت میں نہ رمضان کی ادائیگی ہوگی اور نہ اس روزے کی جس کی اس نے نیت کی ہے۔ اس بنا پر سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ یہ حدیث اپنے ظاہر کے لحاظ سے اس مسئلے میں قابل استدلا ل نہیں ہے ، نیز وانما لکل امری مانوی سب کے نزدیک اپنے حقیقی معنوں استعمال نہیں ہوتا اس لیے کہ الفاظ کے حقیقی معنوں کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص روزے کی نیت کرلے وہ صائم بن جائے اور جو نماز کی نیت کرلے وہ مصلی بن جائے خواہ اس نے نہ روزہ رکھنے کا عمل کیا ہوا ورنہ نماز پڑھنے کا جبکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ایک شخص افعال صلوٰۃ کی ادائیگی کے بغیر صرف نیت کی بنا پر مصلی نہیں بن سکتا ۔- یہی بات روزے اور دوسرے تمام فرائض اور عبادات کے متعلق کہی جاسکتی ہے۔ اس پوری بحث سے یہ بات نکھر کے سامنے آ گئی کہ حدیث کے یہ الفاظ اپنے حکم کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں جب تک کہ ان کے ساتھ قرینہ نہ پایا جائے اس بنا پر فریق مخالف کا اسے بطوراستدلال لانا دو وجوہ سے ساقط ہوگیا ۔ اول یہ کہ حکم کا تعلق ایسے معنی کے ساتھ ہے جو محذوف ہے اور جس کے اثبات کے لیے کسی دلالت کی ضرورت ہے اور جس فقرے کی یہ کیفیت ہو اس کے ظاہر س استدلا ل کرنا ساقط سمجھا جاتا ہے۔ دوسر ی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ( وانما لکل امری مانوی) اس کا متقاضی ہے کہ اس کا روزہ درست ہوجائے۔ جب وہ نفل کی نیت کر کے رکھے اور جب روزہ درست ہوجائے گا ۔ تو باوجود نفل کی نیت کے اس کا فرض ادا ہوجائے گا اس لیے کہ ہمارا اور فریق مخالف کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر اس کی نیت کی بنا پر فرض ادا نہ ہوگا تو وہ روزہ بھی درست نہیں ہوگا جس کی اس نے نیت کی ہے۔ اس لیے ولکل امری مانوی کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ جس چیز کی اس نے نیت کی ہے ۔ وہ اسے حاصل ہوجائے۔ بصورتدیگر ہم لفظ کے حکم کو سرے سے لغو اور بےفائدہ قرار دینے کے مرتکب ہوں گے درج بالا بیان سے ظاہر ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کو اس مسئلے کے سلسلے میں بطور استدلال پیش کیا جاسکتا ہے۔- نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فحوائے کلام کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کی نیت کا جو مقتضی ہوگا وہی اسے فرض کے ثواب یا درجہ کی بلندی وغیرہ کی صورت میں ملے گا اور اسی کا وہ مستحق ٹھہرے گا اور اس سے وقوع فعل مراد لینا درست نہیں ہے ا س لیے کہ فعل تو موجود ہوتا ہے اور حاصل بھی ہوجاتا ہے خواہ نیت ہو یا نہ ہو ۔ نیت اس فعل کے احکام کو اپنے مقتضی اور موجب کے مطابق پھیردیتی ہے یہ مقتضی فرض کے ثواب یا فضلیت کا استحقاق ہوتا ہے یا تعریف یا مذمت کا استحقاق اگر نیت تعریف یا مذمت کا تقاضا کرتی ہو ۔ جب یہ بات اس طرح ثابت ہوگئی تو درج بالا حدیث میں نیت سے متعلق قول کے دو میں سے ایک معنی ہوں گے۔ یا تو یہ کہ روزے کے جواز یا بطلان پر لفظ کے حکم کی دلالتکا سرے سے اعتبار نہ کیا جائے اور اس صورت میں اسکے جواز یا بطلان پر کسی اور لفظ کی دلالت لانا واجب ہوجائے، یا یہ کہ لفظ کے حکم کو اس چیز میں قابل عمل سمجھا جائے جو اس کے مضمون کا مقتضی ہو اور وہ ہے اس حکم سے تعلق رکھنے والے ثواب یا تعریف یا مذمت کا افادہ جو اس لفظ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جب لفظ کا استعمال اس طریقے پر ضروری ٹھہرا اور اس کی نیت تقرب الٰہی کی کسی صورت کے حصول کی طرف متوجہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے تقرب حاصل ہوجائے ۔ پھر اس میں کم سے کم درجہ یہی ہے کہ اگر نفل روزے کی نیت کرنے والے کا ثواب فرض روزے کی نیت کرنے والے کے ثواب کے برابر نہیں تو اس سے کم ضرو ر ہو لیکن ثواب کی کمی فرض کی ادائیگی کے جواز سے مانع نہیں ہوگی ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ان الرجل لیصلی الصلاۃ فیکتب لہ نصفھاء بعھاخمسھا عشرھا ایک آدمی نماز تو پڑھ لیتا ہے لیکن اس کے نامہ اعمال میں اس کے ثواب کا نصف چوتھائی ، پانچواں یا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے بطور دلیل پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثواب کی کمی کی خبر کے ساتھ ساتھ جواز صلاۃ کی اطلاع بھی دے دی ۔- ہم نے جو یہ کہا ہے کہ لفظ کے حکم کا تعلق ثواب یا عقاب یا حمد یاذم کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی صحت پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول دلالت کرتا ہے ولکل امری مانوی ، فمن کانت جھرتہ الی اللہ ورسولہ فھجرتہ الی اللہ ورسولہ ومن کانت جھرتہ الی دنیا یصیبھا او مراۃ یتزوجھا فھجوتہ الی ما ھا جرالیہ ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی پس جس شخص کی اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہوگی تو اس کی ہجرت اس کی نیت کردہ چیز کی طرف ہوگی۔ امام شافعی کا خیال یہ ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہو پھر وہ نفل حج کی نیت سے احرام باندھ لے تو حج کرنے کی صورت میں اس کا فرض ادا ہوجائے گا ۔ امام شافعی نفل کی نیت کو ساقط کر کے اسے فرض کی نیت قرار دے دیا حالانکہ ان کا قول یہ ہے کہ حج کی فرضیت فی الفور نہیں ہوتی بلکہ اس میں مہلت ہوتی ہے اور اسے وقت معین میں بجا لانا ضروری نہیں ہوتا ۔ امام شافعی کی یہ بات جو از کے لحاظ سے رمضان کے روزے کی بات سے بھی بڑھ کر ہے اس لیے کہ رمضان کا روزہ مستحق العین ہے یعنی ایک معین وقت میں اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس وقت سے نہ اس کی تقدیم جائز ہے اور نہ ہی تاخیر ۔ اس طرح امام شافعی نے الاعمال مالنیات ولکل امرعی مانوی کو اپنے قول کے لیے بنیاد اور اصل قرار دیا تھا اس کے ظاہر کو انہوں نے ترک کردیا اور انہوں نے اس میں وقت نظر سے کام نہیں لیا جس سے ان کے قول کی تائید ہوتی ، حالانکہ اپنے اصل کے لحاظ سے ان کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے جس کا وہ دعویٰ کرتے چلے آیت ہیں ۔ جہاں تک ہمارے اصل کا تعلق ہے تو ہم نے بیان کردیا ہے کہ اس کی بنیاد پر اس حدیث سے استدلال کرنا درست نہیں بلکہ ساقط ہے ہم نے اس حدیث کے معنی اور مقتضی کی پوری وضاحت کردی ہے اور یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ حدیث رمضان میں نفل روزے کی نیت کرنے والے کو فرض کی ادائیگی کا جواز فراہم کرتی ہے ۔ اس لیے ہم نے اس سے جو استدلال کیا تھا اور اس پر جو عقلی دلائل پیش کئے تھے وہ اپنی جگہ درست رہے اور اس حدیث کی بنا پر ان دلائل پر کوئی گرفت نہ ہوسکی ۔ اگر مسافر رمضان میں اس پر عائد شدہ کسی اور روزے کی نیت کرے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی نیت کے مطابق روزہ ادا ہوجائے گا ۔ اس لیے کہ سفر کی حالت میں اس پر روزہ رکھنے کا فعل ضروری نہیں ہوتا اور اسے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے درمیان اختیار ہوتا خواہ اسے کوئی ضر ر لاحق ہونے کا امکان نہ ہو تو یہ ایام غیر رمضان کے دوسرے تمام آیام کے مشابہ ہوگئے جب دوسرے تمام ایام میں اس کا رکھا ہوا روزہ اس کے حسب نیت درست ہوگا تو رمضان کے دنوں میں بھی اسی مسافر کے لیے یہی حکم ہوگا اس بنا پر یہ چاہیے کہ جب وہ نفل روزے کی نیت کرے تو اس روایت کے مطابق جو امام ابوحنیفہ سے منقول ہے اس کا یہ روزہ نفلی روزہ قرار پائے اور یہی روایت زیادہ قرین قیاس ہے۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ کی بیان کردہ وجہ کی بنا پر یہ لازم آتا ہے کہ اگر رمضان میں مریض جسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ۔ غیر رمضان یعنی نفل یا واجب روزے کی نیت کرے تو اس کی نیت درست ہوجائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات لازم نہیں آتی اس لیے کہ یہاں وہ علت یا وجہ نہیں پائی جاتی جس کا ذکر ہم نے مسافر میں کیا ہے ۔ اس لیے کہ مسافر کی صورت حال جس کی بنا پر اس کے متعلق یہ قول واجب ہوا، اسی طرح ہے جو ہم نے بیان کیا ہے اور باوجودیکہ اسے کسی ضرر کے لا حق ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا اسے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے درمیان اختیار ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کی حالت غیر رمضان کی حالت کے مشابہ ہوگئی لیکن مریض کی حالت یہ نہیں ہے کیونکہ اسے روزہ چھوڑنا صرف اسی صورت میں جائز ہوگا جبکہ روزہ رکھنے کی وجہ سے بیماری کے بڑھ جانے اور ضرر لا حق ہوجانے کا اندیشہ ہو، اب اگر مریض کو روزہ رکھنے کی وجہ سے ضرر نہ پہنچے تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہوگا اور اگر روزہ کی وجہ سے ضرر لا حق ہو تو اس کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوگا ۔- جب یہ صورت حال ہوگی تو یا تو اس پر روزے کا فعل ضرور ی ہوگا یا ترک فعل ضروری ہوگا ، اسے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے درمیان اختیا حاصل ہوگا جیسا کہ مسافر کو حاصل ہوتا ہے اس بنا پر جب بھی وہ روزہ رکھے گا اس سے اس کے فرض کی ادائیگی ہوجائے گی کیونکہ روزہ نہ رکھنے کی اباحت کا تعلق اندیشہ ضرر سے ہے، اس لیے جب وہ روزہ رکھے گا اندیشہ ضرر زائل ہوجائے گا اور وہ تندرست کریم کے بمبزلہ قرار پائے گا ، اس لیے جس نیت سے بھی وہ روزہ رکھے گا ، وہ رمضان کا ہی روزہ شمار ہو کر اس کے فرض کی ادائیگی ہوجائے گا ۔ واللہ اعلم ۔- قضاء رمضان میں دنوں کی تعدا د کا بیان - ارشاد باری ہے فمن کان منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر بشربن الولید نے امام ابو یوسف سے اور ہشام نے امام محمد سے ہمارے اصحاب کا یہ متفقہ مسلک بیان کیا ہے کہ اگر ایک شہر کے لوگوں نے چاند دیکھ کر انتیس دن کے روزے رکھے تو اس شہر میں رہنے والا مریض جس نے روزے نہیں رکھے تھے وہ بھی انتیس دنوں کی قضاء کرے گا ۔ اگر ایک شہر کے لوگوں نے چاند دیکھ کر تیس دن کے روزے رکھے اور دوسرے شہر والوں نے انتیس دن کے اور انہیں دوسرے شہروالوں کے تیس دن کے روزوں کا علم بھی ہوگیا تو انہیں ایک دن کا روزہ قضا کرنا پڑے گا اور مریض بھی تیس دن کے روزے قضا کرے گا ۔ امام مالک سے ان کے بعض اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ مریض چاند کے حساب سے روزوں کی قضا کرے گا ۔ اشہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ آپ سے ایک مریض کے متعلق پوچھا گیا جس کے ذمے کئی سالوں کے روزے قضاء تھے ، پھر قضا کئے بغیر اس کی وفات ہوگئی تو آپ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو فی مسکین ایک مد کے حساب سے خوراک دے دی جائے گی ۔ ثوری کا قول ہے کہ رمضان میں بیمار پڑجانے والا انسان انتیس روزوں کی صورت میں اتنے ہی روزے رکھے گا جتنے اس کے ذمہ ہیں ۔ حسن بن صالح سے اس مسئلے میں ذرا تفصیل منقول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص یکم رمضان سے لے کر آخر رمضان تک بیماررہا اور روزے نہیں رکھے ، پھر کسی مہینے کی ابتدا سے قضا رکھنے شروع کردے۔ یہ مہینہ انتیس کا نکلا تو اس کے لیے انتیس دنوں کے روزے کافی ہوں گے اگرچہ قضا ہونے والا رمضان تیس دنوں کا کیوں نہ ہو اس لیے کہ اس نے ایک مہینے کے بدلے میں ایک روزہ رکھ لیا ۔ اگر مہینے کی یکم تاریخ سے اس نے قضا شروع نہیں کی تو پھر تیس دن پورے کرے گا ۔ خواہ فضا شدہ رمضان انتیس دنوں کا کیوں نہ ہو، کیونکہ مہینہ انتیس دنوں کا نہیں ہوتا صرف وہی مہینہ انتیس دنوں کا شمار ہوگا جس کا یکم تاریخ سے آخری دن تک حساب کیا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مہینہ انتیس یا تیس دنوں کا ہو ، پھر مریض قضاء روزے رکھنے کا ارادہ کرلے تو وہ اتنے ہی دن روزے رکھے گا جتنے دنوں کا وہ رمضان تھا جس کی وہ قضا کر رہا ہے۔ خواہ اس نے قمری مہینے کی یکم تاریخ سے قضا کی ابتداء کی ہو یا درمیان سے ، کیونکہ قول باری ہے فمن کان منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر اس کا مفہوم ہے دوسرے دنوں کی تعداد۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے فان غم علیکم فاکملوا العدۃ ثالثین یعنی تیس کی تعداد ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر دوسرے دنوں کی تعداد واجب کردی ہے تو اس پر نہ اضافہ جائز ہے اور نہ کمی ۔ خواہ وہ مہینہ جس کی وہ قضاکررہا ہے نا قص ہو یعنی انتیس دنوں کا ہو یا کامل تیس دنوں کا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قضا شدہ روزوں کی مدت ایک ماہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے اور تیس دنوں کا بھی تو ہو انتیس یا تیس دنوں والے مہینوں میں سے جس مہینے میں بھی قضا کرے گا ۔ اس کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی کیونکہ اس صورت میں مہینے کے بدلے مہینہ ہوجائے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائیگا کہ اللہ تعالیٰ نے فعدۃ من ایام اخر فرمایا ہے ، فشھر من ایا اخر نہیں فرمایا ہے۔ یعنی قول باری کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دنوں سے قضا شدہ دنوں کی گنتی پوری کرو نہ کہ مہینہ پورا کرو۔ اس بنا پر جتنے دن اس نے روزے نہیں رکھے اتنے دنوں کی گنتی پوری کرنا واجب ہے ۔ اس لیے آیت کے ظاہر کی پیروی واجب ہے اور ظاہر سے تجاوز کر کے ایسیے معنی مراد لینا جس کی اس میں گنجائش ہے ، درست نہیں ہے۔ اس پر یہ قول باری والتکملوا العد ۃ بھی دلالت کر رہا ہے کیونکہ اس کا مفہوم ہے کہ تم گنتی یعنی تعداد پوری کرو ، اگر قضا شدہ رمضان کے تیس دن ہوئے تو اس پر دوسرے دنوں سے تیس کی تعداد پوری کرنا لازمی ہوگا ۔ اگر اس نے انتیس دن والے مہینے پر انحصار کیا تو وہ گنتی پوری کرنے والا قرار نہیں پائے گا ۔ اس استدلال سے ان لوگوں کے قول کا بطلان واضح ہوگیا جو مہینے کے بدلے مہینے کے قائل ہیں اور گنتی کا جنہوں نے اعتبار نہیں کیا ۔ اس پر تمام لوگوں کا یہ اتفاق بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر کسی نے رمضان میں درمیان سے روزے چھوڑے ہوں تو اس پر چھوڑے ہوئے دنوں کی تعداد کے برابر قضالازم آئے گی ۔ اس لیے اگر کسی نے پورا مہینہ روزہ نہیں رکھا تو اس کے لیے بھی اسی اصول کا اعتبار ہونا چاہیے ۔ اگر کسی شہر والوں نے چاند دیکھ کر انتیس دن روزہ رکھا اور دوسرے شہر والوں نے چاند دیکھ کر تیس دن رکھا تو ایسی صورت میں ہمارے اصحاب نے انتیس دن والوں پر ایک دن کے روزے کی قضا لازم کردی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے کہ والتکملوا العدۃ اس میں اللہ تعالیٰ نے مہینے کی تکمیل کو واجب قرار دیا ہے اور ایک شہر والوں کی روایت کی بنا پر یہ ثابت ہوگیا کہ مہینہ تیس دنوں کا تھا اس بنا پر دوسرے شہر والوں پر اس کی تکمیل واجب ہو جاء گی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تکمیل کے حکم کے ساتھ کسی خاص گروہ یا قوم کو خاص نہیں کیا بلکہ یہ حکم سب کے لیے عام ہے۔- نیز قول بار ی فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ سے بھی اس کے حق میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں شہود رمضان مراد اس کا علم ہے ۔ اس لیے کہ جس شخص کو رمضان کی آمد کا علم نہیں ہوگا ۔ اس پر اس کا روزہ لازم نہیں ہوگا جب اسے صحیح طریقے سے معلوم ہوگیا کہ مہینہ تیس دنوں کا تھا اس لیے کہ دوسرے شہر والوں نے رویت کی بنا پر تیس دنوں کے روزے رکھے تھے تو اس پر بھی تیس دنوں کے روزے واجب ہوں گے۔ اگر یہ کہا جائے گا کہ تیس دنوں کے روزے اس پر واجب ہوں گے جسے ابتداء ہی سے اس کا علم ہو ۔ اس کا جواب یہ ہوگا کہ تیس دنوں کے اس پر ہوں گے جسے ابتداء ہی سے اور جسے رمضان گزر جانے کے بعد علم ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص کافروں کے علاقے دارالحرب میں ہو اور رمضان کی آمد کا اسے علم نہ ہو سکے پھر رمضان گزر جانے کے بعد اس کا علم ہو تو اس پر اس کی قضا واجب ہوجائے گی ۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ امر سب کو شامل ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ ، فال غم علیکم فعدہ واثلاثین اب جن لوگوں نے انتیس دن کے روزے رکھے تو گویا ان کے لیے تیس دن روزے رکھنے والوں کی رویت آڑے آ گئی اور یہ بات ان کے اور رویت کے درمیان بمنزلہ حائل ہوگئی اس بنا پر اب انہیں تیس کی گنتی پوری کرنا ضروری ہوگیا۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے کہ ہر شہر والوں کی اپنی رویت کا اعتبار کیا جائے ان کے لیے دوسرے شہر والوں کی رویت کا اعتبار نہ کیا جائے ۔ اب جب ہر شہر والوں نے اپنے طور پرچاند دیکھا ہے تو روزہ رکھنے اور روزہ ختم کرنے میں ان کی اپنی رویت پر عمل کرنا فرض ہوگا ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( صوموالرویتہ وافطروالرویتہ) اس پر تمام لوگوں کا یہ اتفاق بھی دلالت کرتا ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رویت کی بنا پر روزہ رکھیں اور اسی بنیاد پر روزہ ختم کردیں ان کے ذمے دوسرے علاقوں یا شہروں کی رویت کا انتظار کرنا نہیں ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان میں سے ہر شہر والے اپنے طور پر رویت ہلال کے حکم کے مخاطب ہیں جس میں دوسرے شہر والے ان کے ساتھ شامل نہیں ہیں ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات تو سب کے علم میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ تمام آفاق والوں کو عام ہے اور یہ کسی ایک شہر والوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جب یہ بات ہے تو جس طرح ایک شہر والوں کی رویت کا روزہ رکھنے اور روزہ ختم کرنے میں اعتبار کیا جاتا ہے تو اسی طرح دوسرے شہروالوں کی رویت کا بھی اعتبار کرنا واجب ہوگا ۔ جب ایک شہر والوں نے رویت کی بنا پر انتیس دن کے روزے رکھے اور دوسرے شہر والوں نے رویت کی بنا پر ہی تیس دن کے روزے رکھے تو پہلے شہر والوں پر ایک دن کی قضا واجب ہوگی اس لیے کہ انہیں بھی وہ رویت ہوگئی ہے جو تیس دن کے روزے واجب کرتی ہے۔ درج بالا اعتراض میں یہ جو استدلال کیا گیا ہے کہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ آفاق میں پھیلے ہوئے شہروں میں سے ہر شہر والوں کی اپنی رویت کا اعتبار کیا جائے گا اور دوسروں کی رویت کا انتظار نہیں کیا جائے گا تو اس کے متعلق ہمارا مسلک یہ ہے کہ یہ بات اس شرط پر واجب ہوگی اگر عدد کے لحاظ سے ان کی رویت دوسروں کی رویت کے مخالف نہ ہو ۔ اس لیے ایک شہر والے تو فی الحال اسی بات کے مکلف ہوں گے جس کا اعتبار کرنا ان کے لیے ممکن ہوگا اور اس وقت جس چیز کی معرفت کا ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہوگا اس کے وہ مکلف ہی نہیں ہوں گے۔- لیکن جس وقت اصل صورت حال ان کے سامنے آ جائے گی انہیں اس پر عمل پیرا ہونا پڑے گا ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شہر والوں کو بادل یا کہر کی وجہ سے رویت ہلال نہیں ہوسکی ۔ لیکن ان کے سوا کچھ دوسرے لوگوں نے آ کر اس بات کی گواہی دی کہ انہیں اس سے قبل رویت ہلال ہوچکی ہے۔ اس خبر کے ملتے ہی ان کے لیے اس پر عمل لازم ہوجائے گا اور ان کے پاس عدم رویت کا جو حکم ہے وہ کالعدم ہوجائے گا ۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی ہے جسے فریق مخالف اپنے دعوے کے لیے بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے ، انہیں اسماعیل بن جعفر نے ، انہیں محمد بن ابی حرملہ نے رویت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے کریب نے بتایا کہ انہیں ام الفضل بنت الحرث نے حضرت معاویہ کے پاس شام بھیجا۔ شام پہنچ کر انہوں نے ام الفضل کا کام سر انجام دے دیا ۔ ابھی وہ شام میں تھے کہ رمضان کا چاند ہوگیا ۔ جمعہ کی رات سب نے چاند دیکھا، پھر کریب رمضان کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ ان کی حضرت ابن عباس (رض) سے گفتگو ہوئی جس میں چاند دیکھنے کا بھی ذکر آیا ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے کریب سے پوچھا کہ تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا۔ کریب نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو ، اس پر حضرت ابن عباس (رض) نے پوچھا کہ آیا تم نے خود چاند دیکھا تھا ، کریب نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے بھی دیکھا تھا اور چاند دیکھ کر سب نے بشمول حضرت معاویہ روزہ رکھا تھا۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس (رض) نے کہا کہ ہم نے ہفتے کی رات کو چاند دیکھا تھا اور ہم تیس روزے پورے کریں گے یا اس سے پہلے ہمیں شوال کا چاند نظر آ جائے۔ اس پر کریب نے پوچھا کہ کیا ہمارے لیے حضرت معاویہ کی رویت اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہوگا ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ سن کر فرمایا کہ ” نہیں ، ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح حکم دیا ہے “ لیکن یہ حدیث اس بات پر دلالت نہیں کرتی جو فریق مخالف نے کہی ہے اس لیے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب نقل نہیں کیا جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعینہٖ یہی سوال کیا گیا تھا۔ اور آپ نے اس کا جواب دیا تھا حضرت ابن عباس (رض) نے تو بس اتنا ہی فرمایا کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح حکم دیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول صوموا الردیتہ وافطروالرویتہ سے وہی مفہوم اخذ کیا ہے جو فریق مخالف نے کیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس حدیث سے ہمارے دعوے کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ۔ اس لیے اس اختلاف میں اس حدیث سے استدلال کرنا درست نہیں ہوگا ۔ - حسن بصری سے ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے انہیں ابو دائود نے انہیں عبد اللہ بن معاذ نے انہیں ان کے والد معاذ اور انہیں اشعث نے حسن بصری سے کی ہے کہ ایک شخص کسی شہر میں رہتا تھا اس نے سوموار کا روزہ رکھا۔ دو شخصوں نے یہ گواہی دی کہ انہوں نے اتوار کی رات چاند دیکھا ہے ۔ حسن بصری نے فرمایا کہ اتوار کے روزے کی قضا نہ تو یہ شخص کرے گا اور نہ ہی اس کے شہر والے ، البتہ اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ کسی شہر والوں نے اتوار کا روزہ رکھا ہے تو پھر یہ لوگ اس دن کی قضاکر لیں ۔ حضرت حسن بصری کی اس روایت میں یہ دلالت نہیں ہے کہ انہوں نے رویت کی بنا پر بابغیر رویت کے روزہ رکھا تھا جبکہ ہمارے مسئلے کا تعلق دو شہروں کے مکینوں سے ہے کہ ان میں ہر شہر کے مکینوں نے اس رویت کی بنا پر روہ رکھا جو دوسرے شہر کے مکینوں کی رویت سے الگ تھی ۔ ہم سے اختلاف رکھنے والا کبھی اس حدیث سے استدلال کرتا ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ۔ انہیں ابو دائود نے انہیں محمد بن عبید نے ، انہیں حماد نے ایوب کی حدیث میں بیان کی جو ایوب نے انہیں محمد بن المنکدر سے ، اور محمد بن المنکدر نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنائی تھی۔ اس حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اراشد فرمایا وفطرکم یوم تفطرون وضحاکم یوم تضحون وکل عرفۃ موقف و کل منی منحر ، وکل فجاج مکۃ منحر، وکل جمع موقف عید الفطر تمہارے لیے وہ دن ہے جن دن تم رمضان ختم کر کے عید پڑھو ، جس دن تم قربانی کرو وہ تمہارے لیے عید الاضحی کا دن ہے اور عرفات کا سارا حصہ موقف ہے۔ یعنی عرفات میں ہر جگہ نو دذی الحجہ کو وقوف عرفہ میں ہوسکتا ہے اور منی کا سارا حصہ قربانی کی جگہ ہے ، مکہ کی تمام گھاٹیاں قربانی کی جگہیں ہیں اور عرفات کا سارا حصہ موقف ہے۔- ابو خثیمہ نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ روایت محمد بن الحسن مدنی نے نہیں ، انہیں عبد اللہ بن جعفر نے عثمان بن محمد سے بیان کی ہے ، عثمان بن محمد نے المقربی سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے آپ نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا الصوم یوم تصومون والفطریوم تفطرون والاضحی یوم تضحون جس دن تم روزہ رکھو وہ تمہارے روزے کا دن ہوگا جس دن تم روزہ ختم کرلو وہ فطر کا دن ہوگا جس دن تم قربانی کرو وہ اضحی کا دن ہوگا ۔ ہم سے اختلاف رکھنے والے کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ واجب ہوجاتا ہے کہ ہر قوم یعنی علاقے کے لوگوں کا روزہ اسی دن ہوگا جس دن وہ روزہ رکھیں گے اور ان کے فطر یعنی عید کا دن وہ ہوگا جس دن وہ روزہ ختم کرلیں گے ۔ بہرحال اس میں گنجائش ہے ۔ اس سے ہمارا مخالف وہ معنی اخذ کرے جو دوسرا کوئی اخذ نہیں کر رہا ہے۔ تا ہم اس کے باوجود اس حدیث میں کسی ایک قوم یا علاقے کے لوگوں کی تخصیص نہیں ہے۔ اگر لزوم صوم کے لحا ظ سے اس حدیث سے ان لوگوں کے روزوں کا اعتبار کرنا واجب ہے جنہوں نے کم رکھے ہیں ، یعنی انتیس دن تو اس حدیث سے یہ بھی واجب ہو رہا ہے کہ ان لوگوں کے روزوں کا اعتبار کیا جائے جنہوں نے زیادہ رکھے ہیں یعنی تیس دن ، اس بنا پر یہی تیس دن کا روزہ سب کے کے لیے لازم ہوگا ، جنہوں نے ایک دن کم رکھا ہے ان پر ایک دن کے روزے کی قضا لازم آئے گی ۔ اس حدیث کا ایک پہلو اور بھی ہے وہ یہ کہ روایت کے لحاظ سے اس کی صحت کے بارے میں محدثین میں اختلاف رائے ہے، بعض کے نزدیک یہ ثابت ہے اور بعض کے ہاں غیر ثابت ، اس کے معنی میں بھی لوگوں کو کلام ہے۔- بعض کا قول ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تمام لگو کسی دن کے روزے پر اتفاق کرلیں تو وہ ان کا روزہ ہوگا اور اگر لوگوں میں اختلاف پڑجائے تو انہیں کسی اور دلیل کی ضرورت ہوگی اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا اس دن ہوگا جس د ن تم میں سے بعض روہ رکھیں گے۔ بلکہ یہ فرمایا کہ تمہارا روہ اس دن ہوگا جس دن تم روزہ رکھو گے اور یہ الفاظ اس معنی کے مقتضی ہیں کہ تمام لوگ روزہ رکھیں ۔ اس حدیث کے معنی کے متعلق کچھ دوسروں کا قول ہے کہ یہ شخص کو اس کی ذات کے لحاظ سے خطاب ہے اور اسے یہ خبر دی گئی ہے کہ جو کچھ اس کے علم میں سے اس کے مطابق وہ عبادت کا پابند ہے ۔ وہ دوسرے کے علم کے مطابق عبادت کا پابند نہیں ، اس لیے جس شخص نے رمضان سمجھ کر ایک دن روزہ رکھ لیا اور اس نے اپنے اوپر عائد شدہ فرض کی ادائیگی کردی ، اس کے متعلق دوسرا کیا کہتا ہے اس سے اسے کوئی غرض نہیں ۔ اس لیے کہ اللہ نے اسے اس چیز کا مکلف کیا ہے جو اسی کے پاس ہے یعنی اس کے علم میں ہے ۔ جو چیز دوسرے کے پاس ہے اس کا وہ مکلف نہیں ۔ اسی طرح وہ ان مغیبات کا مکلف نہیں جن کا علم اللہ کو ہے۔ قول باری ہے یرید اللہ بکمالیسر ولا یرید بکم العسر ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) ، قتادہ ، مجاہد اور ضحاک سے مروی ہے کہ الیسر سے مراد سفر میں روزہ نہ رکھنا اور العسر سے مراد سفر اور بیماری میں روزہ رکھنا ہے ۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنے کے ذکر کا تعلق اس شخص سے ہو جو روزہ رکھ کر انتہائی نڈھال ہوجاتا ہے اور روزہ اس کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ - (بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨٧) رات کو رمضان المبارک میں تمہارے لیے عورتوں سے جماع کرنا حلال کیا گیا ہے وہ عورتیں تمہارے لیے سکون کا باعث ہیں، اور تم ان کے لیے سکون کا باعث ہوعشاء کے بعد ہمبستری کرنے میں جو خیانت پیش آجائے اللہ تعالیٰ اس کو تم سے درگزر کرنے والا ہے اور اس پر تمہاری کسی قسم کی کوئی پکڑ نہیں جس وقت تمہارے لیے صبحت کرنا حلال کیا گیا ہے تم ان سے صحبت کرو اور نیک اولاد کے بارے میں جو چیز اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اسے تلاش کرو یہ آیت کریمہ حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- اور رات سے لے کر صبح صادق کی سفیدی ظاہر ہونے تک کھاؤ پیو اور پھر رات تک روزہ کو پورا کرو یہ آیت کریمہ حرملہ مالک بن عدی کے بارے میں اتری ہے۔- دن یا رات میں اعتکاف کی حالت میں ان سے ہم بستری نہ کرو، یہ ہم بستری اس وقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، لہٰذا اعتکاف ختم ہونے تک دن یا رات میں عورتوں سے ہم بستری نہ کرو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو بیان فرمایا ہے اسی طرح وہ اپنے دیگر احکام کو بیان فرماتا رہتا ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتے رہیں۔- یہ آیت کریمہ صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت حضرت علی (رض) بن ابی طالب اور عمار بن یاسر (رض) وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کی حالت میں تھے، جب ان کو حاجت پیش آتی تو اپنی عورتوں کے پاس آتے اور ان سے صبحت کرتے اور پھر غسل کے بعد مسجد چلے جاتے اللہ تعالیٰ نے اس چیز سے ان کو منع کردیا۔- شان نزول : (آیت) ” احل لکم لیلۃ الصیام الرفث “۔ (الخ)- امام احمد (رح) ، ابوداؤد (رح) اور امام حاکم (رح) ، نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ (رح) کے واسطہ سے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام رات کو سونے سے پہلے کھاپی لیتے تھے اور بیویوں کے پاس چلے جایا کرتے تھے اور جب سو جاتے تو پھر ان تمام چیزوں سے رک جایا کرتے تھے۔- انصار میں سے قیس بن صرمہ نامیہ نامی ایک شخص نے عشاء کی نماز پڑھی اور سوگیا اور اس نے کچھ کھایا پیا نہیں مگر صبح کے وقت اس کی حالت بہت ہی خراب ہورہی تھی اور حضرت عمر (رض) سونے کے بعد عورتوں کے پاس بھی چلے جایا کرتے تھے چناچہ وہ شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث (الخ) کے نام نازل فرمائی یعنی صبح صادق تک تمام کام کرسکتے ہو پھر صبح صادق سے شام تک روزہ پورا کرو، یہ حدیث ابن ابی لیلیٰ سے مشہور ہے مگر انہوں نے معاذ بن جبل (رض) سے یہ حدیث نہیں سنی، اور اس حدیث کی تقویت کے لیے دوسرے شواہد موجود ہیں، چناچہ امام بخاری (رح) نے حضرت براء (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ صحابہ کرام (رض) میں سے جب کوئی شخص روزہ کی حالت میں افطار کے وقت سوجایا کرتا تھا تو پھر وہ رات کو اور اگلے دن شام تک کوئی چیز نہیں کھاتا تھا۔- اور قیس بن صرمہ انصاری روزہ دار تھے، افطار کے وقت وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ کھانے کو کچھ موجود ہے، اس نے بتایا کچھ نہیں، مگر میں جاکر تلاش کرتی ہوں اور قیس بن صرمہ سارا دن محنت کرتے تھے انہیں نیند آئی وہ سو گئے ان کی بیوی کچھ تلاش کرکے لائیں جب انھیں سوتا ہوا دیکھا تو کہنے لگیں افسوس تجھ پر، اگلے دن آدھا دن ہوا تو ان پر بےہوشی طاری ہوگئی، اس کا رسول اکرم (رض) سے ذکر کیا گیا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس سے صحابہ کرام (رض) بہت خوش ہوئے، نیز یہ آیت بھی نازل ہوئی (آیت) ” وکلوا واشربوا حتی “ (الخ) یعنی صبح صادق تک کھاؤ اور پیو۔- اور امام بخاری (رح) ہی نے حضرت براء سے روایت کیا ہے کہ جب روزوں کی فرضیت ہوئی، تو صحابہ کرام (رض) مکمل رمضان میں رات کو اپنی بیویوں کے پاس نہیں جایا کرتے تھے مگر کچھ حضرات ایسا کرلیا کرتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی کہ ” اللہ تعالیٰ کو اس چیز کی خبر تھی کہ تم خیانت کے گناہ میں اپنے آپ کو مبتلا کررہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے گناہ کو صاف کردیا۔ “- اور امام احمد (رح) ، ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے عبداللہ بن کعب (رح) کے ذریعہ سے کعب بن مالک سے روایت کی ہے کہ شروع میں لوگوں میں سے جب کوئی روزہ رکھتا تھا اور پھر شام کو وہ سوجایا کرتا تھا تو اس پر کھانا پینا اور عورتیں، سب چیزیں حرام ہوجایا کرتی تھیں جب تک کہ اگلے دن روزہ افطار کرلے، چناچہ ایک دن رات کو حضرت عمر فاروق (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات چیت کرنے کے بعد اپنے گھر گئے اور اپنی بیوی سے صحبت کرنا چاہی وہ بولیں کہ وہ تو سو چکی ہیں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں تو ابھی تک نہیں سویا غرض کہ حضرت عمر (رض) نے ان سے صحبت کرلی اور حضرت کعب کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا، صبح ہوتے ہی حضرت عمر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تشریف لائے اور آپ کو پورا واقعہ عرض کیا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )- فرمان الہی (آیت) ” من الفجر “۔ یعنی صبح صادق تک، امام بخاری (رح) نے سہل بن سعد (رح) سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے نمایاں ہوجائے اور (آیت) ” من الفجر “ کا لفظ نازل نہیں ہوا تو صحابہ کرام (رض) میں سے جب کوئی روزہ رکھنے کا ارادہ کرتا تو اپنے پیر میں کالا اور سفید ڈورا باندھ لیتا، اور پھر جب تک یہ دونوں ڈورے صاف نظر نہ آنے لگتے برابر کھاتا پیتا رہتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” من الفجر “ کا لفظ نازل فرمایا، اس وقت صحابہ کرام (رض) سمجھے کہ اس سے دن، رات ہے۔- فرمان الہی (آیت) ” ولا تباشروھن “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے قتادہ (رض) سے روایت کی ہے اعتکاف کی حالت میں اگر کوئی چاہتا تو مسجد سے نکلتا تھا اور پھر اپنی بیوی سے صحبت کرکے واپس چلا جاتا تھا، اس پر یہ آیت کریمہ اتری یعنی جب مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں موجود ہو اس حالت میں اپنی عورتوں سے ہم بستری نہ کرو، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٧ ( اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَام الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآءِکُمْ ط) ۔ - احکام روزہ سے متعلق یہ آیت بڑی طویل ہے۔ یہود کے ہاں شریعت موسوی میں روزہ شام کو ہی شروع ہوجاتا تھا اور رات بھی روزے میں شامل تھی۔ چناچہ تعلق زن و شو بھی قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کے ہاں سحری وغیرہ کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ جیسے ہی رات کو سوتے روزہ شروع ہوجاتا اور اگلے دن غروب آفتاب تک روزہ رہتا۔ ہمارے ہاں روزے میں نرمی کی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ رات کو روزے سے خارج کردیا گیا۔ روزہ بس دن کا ہے اور رات کے وقت روزے کی ساری پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ چناچہ رات کو تعلق زن و شو بھی قائم کیا جاسکتا ہے اور کھانے پینے کی بھی اجازت ہے۔ لیکن بعض مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید ہمارے ہاں بھی روزے کے وہی احکام ہیں جو یہود کے ہاں ہیں۔ اس لیے ایسا بھی ہوتا تھا کہ روزوں کی راتوں میں بعض لوگ جذبات میں بیویوں سے مقاربت کرلیتے تھے ‘ لیکن دل میں سمجھتے تھے کہ شاید ہم نے غلط کام کیا ہے۔ یہاں اب ان کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ تمہارے لیے روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔ - (ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ط) ۔ - یہ بڑا لطیف کنایہ ہے کہ وہ تمہارے لیے بمنزلۂ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلۂ لباس ہو۔ جیسے لباس میں اور جسم میں کوئی پردہ نہیں ایسے ہی بیوی میں اور شوہر میں کوئی پردہ نہیں ہے۔ خود لباس ہی تو پردہ ہے۔ ویسے بھی مرد کے اخلاق کی حفاظت کرنے والی بیوی ہے اور بیوی کے اخلاق کی حفاظت کرنے والا مرد ہے۔ مجھے اقبال کا شعر یاد آگیا : ؂- نے پردہ نہ تعلیم ‘ نئی ہو کہ پرانی - نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد - بہرحال مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے ایک ضرورت بھی ہیں اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی بھی کرتے ‘ ہیں۔- (عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ ) - تم ایک کام کر رہے تھے جو گناہ نہیں ہے ‘ لیکن تم سمجھتے تھے کہ گناہ ہے ‘ پھر بھی اس کا ارتکاب کر رہے تھے۔ اس طرح تم اپنے آپ سے خیانت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ - (فَتَابَ عَلَیْکُمْ ) تو اللہ نے تم پر نظر رحمت فرمائی - (وَعَفَا عَنْکُمْ ج) ۔ - اس سلسلے میں جو بھی خطائیں ہوگئی ہیں وہ سب کی سب معاف سمجھو۔- (فَالْءٰنَ بَاشِرُوْہُنَّ ) (وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْص) - یعنی اولاد ‘ جو تعلق زن و شو کا اصل مقصد ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس تعلق زن و شو کو سکون و راحت کا ذریعہ بنایا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں (لِتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا) کے الفاظ آئے ہیں۔ اس تعلق کے بعد اعصاب کے تناؤ میں ایک سکون کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس میں یہی حکمت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہر سفر میں ایک زوجۂ محترمہ کو ضرور ساتھ رکھتے تھے۔ اس لیے کہ قائد اور سپہ سالار کو کسی وقت کسی ایسی پریشان کن صورت حال میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں کہ جذبات پر اور اعصاب پر دباؤ ہوتا ہے۔- (وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص) ۔ - یہ پو پھٹنے کے لیے استعارہ ہے۔ یعنی جب سپیدۂ سحر نمایاں ہوتا ہے ‘ صبح صادق ہوتی ہے اس وقت تک کھانے پینے کی چھوٹ ہے۔ بلکہ یہاں (وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا) اور کھاؤ اور پیو امر کے صیغے آئے ہیں۔ سحری کرنے کی حدیث میں بھی تاکید آئی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے اور یہود کے روزے کے مابین سحری کا فرق ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے : (تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَۃً ) (٢٢) سحری ضرور کیا کرو ‘ اس لیے کہ سحری میں برکت ہے۔ - (ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج) ۔ - رات تک سے اکثر فقہاء کے نزدیک غروب آفتاب مراد ہے۔ اہل تشیع اس سے ذرا آگے جاتے ہیں کہ غروب آفتاب پر چند منٹ مزید گزر جائیں۔ - (وَلاَ تُبَاشِرُوْہُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْْمَسٰجِدِ ط) ۔ - یہ رعایت جو تمہیں دی جا رہی ہے اس میں ایک استثناء ہے کہ جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو پھر اپنی بیویوں سے رات کے دوران بھی کوئی تعلق قائم نہ کرو۔ - (تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْہَا ط) ۔ - بعض مقامات پر آتا ہے : (تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ‘ پس ان سے تجاوز نہ کرو ان کو عبور نہ کرو۔ اصلاً حرام تو وہی شے ہوگی کہ حدود سے تجاوز کیا جائے۔ لیکن بہرحال احتیاط اس میں ہے کہ ان حدود سے دور رہا جائے ( ) آخری حد تک چلے جاؤ گے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اس حد کو عبورنہ کر جاؤ۔ - (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ للنَّاسِ ) (لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ )- اب اس رکوع کی آخری آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ تقویٰ کا معیار اور اس کی کسوٹی کیا ہے۔ روزہ اس لیے فرض کیا گیا ہے اور یہ سارے احکام تمہیں اسی لیے دیے جا رہے ہیں تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہوجائے اور تقویٰ کا لٹمس ٹیسٹ ہے اکل حلال۔ اگر یہ نہیں ہے تو کوئی نیکی نیکی نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :190 یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا ، بلکہ دونوں کا باہمی تعلق و اتصال بالکل غیر منفک ہوتا ہے ، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق بھی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :191 ابتدا میں اگرچہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے ، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کر ناجائز نہیں ہے ۔ پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے ۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے ۔ لہٰذا اب اسے برا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو ، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قلب و ضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :192 اس بارے میں بھی لوگ ابتداءً غلط فہمی میں تھے ۔ کسی کا خیال تھا کہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو ، کھا پی سکتا ہے ۔ جہاں سو گیا ، پھر دوبارہ اٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا ۔ یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں سمجھ رکھے تھے اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اٹھاتے تھے ۔ اس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے ۔ اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک مقرر کر دی گئی اور غروب آفتاب سے طلوع فجر تک رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کے لیے آزادی دے دی گئی ۔ اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کا قاعدہ مقرر فرما دیا تاکہ طلوع فجر سے عین پہلے آدمی اچھی طرح کھا پی لے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :193 اسلام نے اپنی عبادات کے لیے اوقات کا وہ معیار مقرر کیا ہے جس سے دنیا میں ہر وقت ہر مرتبہ تمدن کے لو گ ہر جگہ اوقات کی تعیین کر سکیں ۔ وہ گھڑیوں کے لحاظ سے وقت مقرر کرنے کے بجائے ان آثار کے لحاظ سے وقت مقرر کرتا ہے جو آفاق میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔ مگر نادان لوگ اس طریق توقیت پر عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قطبین کے قریب ، جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں ، اوقات کی یہ تعیین کیسے چل سکے گی ۔ حالانکہ یہ اعتراض دراصل علم جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے ۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن ، جس معنی میں ہم خط استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں ۔ خواہ رات کا دور ہو یا دن کا بہرحال صبح و شام کے آثار وہاں پوری باقاعدگی کے ساتھ افق پر نمایاں ہوتے ہیں اور انہی کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے جاگنے اور کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں ۔ جب گھڑیوں کا رواج عام نہ تھا ، تب بھی فن لینڈ ، ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی افق کے آثار تھے ۔ لہٰذا جس طرح دوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیین اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر و افطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :194 رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے ، وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے ۔ اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے ۔ لہٰذا غروب آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے ۔ سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصے میں افق کے مشرقی کنارے پر سفیدہ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اوپر بڑھنے لگے ، تو سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب دن کے آخری حصے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آجاتا ہے ۔ آج کل لوگ سحری اور افطار ، دونوں کے معاملے شدت احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدد برتنے لگے ہیں ۔ مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ ادھر ادھر ہو جانے سے آدمی کا روزہ خراب ہو جاتا ہو ۔ سحر میں سیاہی شب سے سپیدہ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوع فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی ہو تو وہ جلدی سے اٹھ کر کچھ کھا پی لے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آجائے تو فوراً چھوڑ نہ دے ، بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے ۔ اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروب آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈوبتے ہی بلال رضی اللہ عنہ کو آواز دیتے تھے کہ لاؤ ہمارا شربت ۔ بلال رضی اللہ عنہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ: ابھی تو دن چمک رہا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اٹھنے لگے ، تو روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :195 معتکف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کردے ۔ اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے ، مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :196 یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا ، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے ، عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے ۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دور ہی رہے تاکہ بھولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے ۔ یہی مضمون اس حدیث میں بیان ہوا ہے ، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لِکل ملکٍ حِمیٰ و ان حمی اللہ محار مہ ، فمن رتع حول الحمی ، یوشک ان یقع فیہ ۔ عربی زبان میں حِمیٰ اس چراگاہ کو کہتے ہیں ، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے ۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ”ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ کی حِمیٰ اس کی وہ حدیں ہیں ، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے ۔ جو جانور حِمیٰ کے گرد ہی چرتا رہے گا ، ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حِمیٰ کے اندر داخل ہو جائے ۔ “ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی روح سے ناواقف ہیں ، ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انہیں بتایا کرتے ہیں ، تاکہ وہ اس باریک خط امتیاز ہی پر گھومتے رہیں ، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں ، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

118: شروع شروع میں حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص روزہ افطار کرنے کے بعد ذرا سا بھی سوجائے تو اس کے لئے رات کے وقت بھی نہ کھانا جائز ہوتا تھا نہ جماع کرنا، بعض حضرات سے اس حکم کی خلاف ورزی سرزد ہوئی اور انہوں نے رات کے وقت اپنی بیویوں سے جماع کرلیا، یہ آیت اس خلاف ورزی کی طرف اشارہ کررہی ہے اور ساتھ ہی جن حضرات سے یہ غلطی ہوئی تھی ان کی معافی کا اعلان کرکے آئندہ کے لئے یہ پابندی اٹھارہی ہے۔ 119: اس کا مطلب اکثر مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ بیوی سے جماع کرنے میں وہ اولاد حاصل کرنے کی نیت رکھنی چاہئے جو اللہ نے تقدیر میں لکھ دی ہے اور بعض حضرات نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ جماع کے دوران وہی لذت طلب کرنی چاہئے جو اللہ نے جائز قرار دی ہے، ناجائز طریقوں مثلاً غیر فطری طریقوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔