منصف ، انصاف اور مدعی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہے جس پر کسی اور کا مال چاہئے اور اس حقدار کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو یہ شخص کا انکار کر جائے اور حاکم کے پاس جاکر بری ہو جائے حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس پر اس کا حق ہے وہ اس کا مال مار رہا ہے اور حرام کھا رہا ہے اور اپنے تئیں گنہگاروں میں کر رہا ہے ، حضرت مجاہد سعید بن جبیر ، عکرمہ ، مجاہد ، حسن ، قتادہ ، سدی مقاتل بن حیان ، عبدالرحمن بن زید اسلم بھی یہی فرماتے ہیں کہ باوجود اس علم کے کہ تو ظالم ہے جھگڑا نہ کر ، بخاری ومسلم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں انسان ہوں میرے پاس لوگ جھگڑا لے کر آتے ہیں شاید ایک دوسرے سے زیادہ حجت باز ہو اور میں اس کی چکنی چپڑی تقریر سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں ( حالانکہ درحقیقت میرا فیصلہ واقعہ کے خلاف ہو ) تو سمجھ لو کہ جس کے حق میں اس طرح کے فیصلہ سے کسی مسلمان کے حق کو میں دلوا دوں وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے خواہ اٹھا لے خواہ نہ اٹھائے ، میں کہتا ہوں یہ آیت اور حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ حاکم کا حکم کسی معاملہ کی حقیقت کو شریعت کے نزدیک بدلتا نہیں ، فی الواقع بھی نفس الامر کے مطابق ہو تو خیر ورنہ حاکم کو تو اجر ملے گا ، لیکن اس فیصلہ کی بنا پر حق کو ناحق کو حق لینے والا اللہ کا مجرم ٹھہرے گا اور اس پر وبال باقی رہے گا ، جس پر آیت مندرجہ بالا گواہ ہے ، کہ تم اپنے دعوے کو باطل ہونے کا علم رکھتے ہوئے لوگوں کے مال مار کھانے کے لئے جھوٹے مقدمات بنا کر جھوٹے گواہ گزار کر ناجائز طریقوں سے حکام کو غلطی کھلا کر اپنے دعووں کو ثابت نہ کیا کرو ، حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لوگو سمجھ لو کہ قاضی کا فیصلہ تیرے لئے حرام کو حلال نہیں کر سکتا اور نہ باطل کو حق کر سکتا ہے ، قاضی تو اپنی عقل سمجھ سے گواہوں کی گواہی کے مطابق ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیتا ہے اور وہ بھی آخر انسان ممکن ہے خطا کرے اور ممکن ہے خطا سے بچ جائے تو جان لو کہ اگر فیصلہ قاضی کا واقعہ کے خلاف ہو تو تم صرف قاضی کا فیصلہ اسے جائز مال نہ سمجھ لو یہ جھگڑا باقی ہی ہے یہاں تک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دونوں جمع کرے اور باطل والوں پر حق والوں کو غلبہ دے کر ان کا حق ان سے دلوائے اور دنیا میں جو فیصلہ ہوا تھا اس کے خلاف فیصلہ صادر فرما کر اس کی نیکیوں میں اسے بدلہ دلوائے ۔
188۔ 1 ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کا حق ہو لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کروا لے اس طرح دوسرے کا حق غصب کرلے یہ ظلم ہے اور حرام ہے۔ عدالت کا فیصلہ ظلم اور حرام کو جائز اور حلال نہیں کرسکتا۔ یہ ظالم عند اللہ مجرم ہوگا (ابن کثیر)
[٢٤٧] باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کرنے کی کئی صورتیں ہیں مثلاً چوری، خیانت، دغابازی ڈاکہ، جوا، سود اور تمام ناجائز قسم کی تجارتیں اور سودے بازیاں ہیں اور اس آیت میں بالخصوص اس ناجائز طریقہ کا ذکر ہے جو حکام کی وساطت سے حاصل ہو۔ اس کی ایک عام صورت تو رشوت ہے کہ حاکم کو رشوت دے کر مقدمہ اپنے حق میں کرا لے اور اس طرح دوسرے کا مال ہضم کر جائے اور دوسری یہ کہ مثلاً تمہیں معلوم ہے کہ فلاں جائیداد یا فلاں چیز زید کی ہے۔ لیکن اس کی ملکیت کا کوئی ثبوت اس کے پاس موجود نہیں ہے اور تم مقدمہ کی صورت میں ایچ پیچ کے ذریعہ وہ چیز زید سے ہتھیا سکتے ہو تو اس طرح عدالت کے ذریعہ تم اس چیز کے مالک بن سکتے ہو۔ اس طرح بھی دوسرے کا مال ہضم کرنا حرام ہے۔ چناچہ آپ نے فرمایا میں ایک انسان ہی ہوں۔ تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایک دوسرے کی نسبت اپنی دلیل اچھی طرح پیش کرتا ہو اور میں جو کچھ سنوں اسی کے مطابق فیصلہ کر دوں اور اگر میں کسی کو اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دینے کا فیصلہ کر دوں تو اسے چاہیے کہ نہ لے۔ کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔ (بخاری، کتاب الاحکام، باب موعظۃ الامام للخصوم)
وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ ۔۔ : روزے کی حالت میں اللہ کے حکم سے آدمی تین نہایت مرغوب اور حلال چیزیں ترک کردیتا ہے، اس مناسبت سے اب حرام سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ جو مال بھی ناجائز طریقے سے حاصل کیا جائے، خواہ اس میں مالک کی رضا مندی بھی شامل ہو، وہ باطل (یعنی ناحق) طریقے سے کھانا ہے، مثلاً سود، زنا کی اجرت، نجومی کی فیس، شراب کی فروخت، لاٹری یا جوئے کے ذریعے سے کمائی یا گانے بجانے کی اجرت، الغرض تمام ناجائز وسائل باطل کے ساتھ کمانے میں آجاتے ہیں۔ - (وَتُدْلُوْا) یہ باب افعال کے مصدر ” اِدْلاَءٌ“ سے جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے، جو ” دَلْوٌ“ سے بنا ہے، جس کا معنی ڈول ہے۔ ” اِدْلاَءٌ“ کا اصل معنی ڈول ڈالنا ہے، جیسا کہ سورة یوسف میں ہے : (فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ ) [ یوسف : ١٩ ] ” تو اس نے اپنا ڈول ڈالا۔ “ پھر کوئی چیز کسی کی طرف لے جانے یا بھیجنے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ حکام کی طرف لے جانے کے دو معنی ہیں اور دونوں یہاں مراد ہیں، ایک یہ کہ آدمی کو معلوم ہے کہ فلاں زمین یا مال فلاں شخص کا ہے، مگر اس کے پاس ثبوت نہیں، اگر میں مقدمہ کر دوں تو عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ کروانے میں کامیاب ہوجاؤں گا، چناچہ وہ حاکم کے پاس مقدمہ لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ (وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) یعنی جانتے ہوئے ایسا کرنا تو نہایت برا ہے۔ ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یاد رکھو میں ایک بشر ہی ہوں اور میرے پاس جھگڑنے والے آتے ہیں، تو شاید ان میں سے ایک اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ زبان آور ہو تو میں اسے سچا سمجھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، سو میں جس کے لیے کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے، خواہ وہ اسے لے لے یا اسے چھوڑ دے۔ “ - [ بخاری، المظالم، باب إثم من خاصم وہو بعلمہ : ٢٤٥٨ ]- بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قاضی جس کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دے وہ اس کے لیے حلال ہوجاتی ہے، لیکن اس آیت اور حدیث سے ان کی بات کا باطل ہونا ظاہر ہے۔ دوسرا معنی اس آیت کا یہ ہے کہ حکام کو بطور رشوت مال دے کر دوسرے کا حق باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔ ” رِشَاءٌ“ ڈول کی رسی کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے سے پانی نکالا جاتا ہے، اسی طرح راشی رشوت کے ذریعے سے اپنا مطلب حاصل کرتا ہے۔ ” رَاشِیْ “ رشوت دینے والا اور ” مُرْتَشِیْ “ رشوت لینے والا۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی۔ [ ترمذی، الأحکام، باب ما جاء فی الراشی ۔۔ : ١٣٣٧، و صححہ الألبانی ] اگر اپنا حق لینے کے لیے تاوان دینا پڑے تو یہ رشوت نہیں، اگرچہ جہاں تک ہو سکے اس سے بھی بچنا لازم ہے، کیونکہ یہ گناہ میں اور بری عادت ڈالنے میں مدد ہے، ہاں کوئی بےبس ہوجائے تو الگ بات ہے ۔
ربط آیات و خلاصہ تفسیر :- پچھلی آیتوں میں روزے کے احکام مذکور تھے جس میں حلال چیزوں کے استعمال کو ایک معین زمانے میں اور معین وقت میں حرام کردیا گیا ہے اس کے بعد مال حرام حاصل کرنے اور اس کے استعمال کرنے کی ممانعت اسی مناسبت سے ذکر کی گئی کہ عبادت صوم کا اصل منشاء یہی ہے کہ انسان کچھ عرصے حلال چیزوں سے بھی صبر کا خوگر ہوجائے گا تو حرام چیزوں سے بچنا آسان ہوجائے گا نیز یہ مناسبت بھی ہے کہ جب روزہ ختم ہو افطار کے لئے مال حلال مہیا کرنا چاہئے جس نے دن بھر روزہ رکھا شام کو مال حرام سے افطار کیا اس کا روزہ اللہ کے نزدیک قبول نہیں، - حکم ششم، مال حرام سے بچنا :- اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق مت کھاؤ اور ان (کے جھوٹے مقدمہ) کو حکام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کرو کہ (اس کے ذریعہ سے) لوگوں کے مالوں کا ایک حصہ بطریق گناہ (یعنی ظلم) کے کھا جاؤ جبکہ تم کو (اپنے جھوٹ اور ظلم کا) علم بھی ہو،- معارف و مسائل : - اس آیت میں حرام طریقوں سے مال حاصل کرنے اور استعمال کرنے کی ممانعت ہے جس طرح اس سے پہلے اسی سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٦٨ میں حلال طریقہ پر حاصل کرنے اور استعمال کرنے کی اجازت کا بیان گذر چکا ہے جس میں ارشاد ہے :- يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ڮ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۔ یعنی اے لوگوں کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے جو چیزیں حلال اور ستھری ہیں اور شیطان کے قدم پر نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔- اور سورة نحل آیت ١١٤ میں ارشاد فرمایا۔- فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ۔ یعنی کھاؤ جو روزی دی تم کو اللہ تعالیٰ نے حلال اور پاک اور شکر کرو اللہ کے احسان کا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو،- کسب مال کے اچھے برے ذرائع اور اچھائی برائی کا معیار :- جس طرح مال کی ضرورت اور مدار زندگی ہونے پر ساری دنیا اور اس کی ہر قوم وملت کا اتفاق ہے اس طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس کی تحصیل کے کچھ ذرائع پسندیدہ اور جائز ہیں کچھ ناپسند اور ممنوع ہیں چوری، ڈاکہ، دھوکہ، فریب کو ساری ہی دنیا برا سمجھتی ہے لیکن ان ذرائع کے جائز یا ناجائز ہونے کا کوئی صحیح معیار عام طور پر لوگوں کے ہاتھ میں نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ اس کا تعلق پوری دنیا کے انسانوں کی صلاح و فلاح سے ہے اور پورا عالم انسانیت اس سے متاثر ہوتا ہے اس کا صحیح اور معقول معیار صرف وہی ہوسکتا ہے جو رب العالمین کی طرف سے بذریعہ وحی بھیجا گیا ہو ورنہ اگر خود انسان اس کا معیار بنانے کا مختار ہو تو جو لوگ اس کا قانون بنائیں گے وہ اپنی قوم یا اپنے وطن یا اپنی ملت کے بارے میں جو کچھ سوچیں گے وہ عام عادت کے مطابق اس سے مختلف ہوگا جو دوسری قومیں اور وطنوں کے متعلق سوچا جائے گا اور بین الاقوامی کانفرنسوں کی صورت میں پوری دنیا کی نمائندگی کی جائے تو تجربہ شاہد ہے کہ وہ بھی ساری مخلوق کو مطمئن کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ قانون ناانصافی انجام کار جنگ وجدل اور فساد کی صورت اختیار کرے گی، - اسلامی نظام معاش ہی دنیا میں امن عام قائم کرسکتا ہے،- شریعت اسلام نے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا جو قانون بنایا ہے وہ صراحۃ وحی الہیٰ سے ہے یا اس سے مستفاد اور وہی ایک ایسا معقول فطری اور جامع قانون ہے جو ہر قوم وملت اور ہر ملک وطن میں چل سکتا ہے اور امن عامہ کا ضامن ہوسکتا ہے کیونکہ اس قانون الہیٰ میں قابل اشتراک چیزوں کو مشترک اور وقف عام رکھا گیا ہے جسمیں تمام انسان مساوی حق رکھتے ہیں جیسے ہوا، پانی، خود رو گھاس، آگ کی حرارت اور غیر مملوک جنگلات اور غیر آباد پہاڑی جنگلات کی پیداوار وغیرہ کہ ان میں سب انسانوں کا مشترک حق ہے کسی کو ان پر مالکانہ قبضہ جائز نہیں اور جن چیزوں کے اشتراک میں انسانی معاشرت میں خلل پیدا ہوتا ہے، یا نزاع وجدال کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں ان میں انفرادی ملکیت کا قانون جاری فرمایا گیا کسی زمین یا اس کی پیداوار پر ابتدائی ملکیت کا قانون جدا ہے اور پھر انتقال ملکیت کا جدا اس قانون کی ہر دفعہ میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کوئی انسان ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے بشرطیکہ وہ اپنی جدوجہد ان کی تحصیل میں خرچ کرے اور کوئی انسان دوسروں کے حقوق غصب کرکے یا دوسروں کو نقصان پہنچا کر سرمایہ کو محدود افراد میں مقید نہ کردے اتتقال ملکیت خواہ بعدالموت وراثت کے قانون الہیٰ کے مطابق ہو یا پھر بیع وشراء وغیرہ کے ذریعہ فریقین کی رضا مندی سے ہو مزدوری ہو یا کسی مال کا معاوضہ دونوں میں اس کو ضروری قرار دیا گیا کہ معاملہ میں کوئی دھوکہ، فریب، یا تلبیس نہ ہو اور کوئی ایسا ابہام اور اجمال نہ رہے جس کی وجہ سے باہمی منازعت کی نوبت آئے،- نیز اس کی بھی رعایت رکھی گئی ہے کہ فریقین جو رضامندی دے رہے ہیں وہ حقیقی رضامندی ہو کسی انسان پر دباؤ ڈال کر کوئی رضا مندی نہ لی گئی ہو شریعت اسلام میں جتنے معاملات باطل یا فاسد اور گناہ کہلاتے ہیں ان سب کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں وجوہ مذکور میں کسی وجہ سے کہیں کسی کا حق غصب ہوتا ہے کہیں کسی کو نقصان پہنچا کر اپنا نفع کیا جاتا ہے کہیں حقوق عامہ میں ناجائز تصرف ہوتا ہے، سود قمار وغیرہ کو حرام قرار دینے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ حقوق عامہ کے لئے مضر ہیں ان کے نتیجہ میں چند افراد پلتے بڑہتے ہیں اور پوری ملت مفلس ہوتی ہے ایسے معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لئے حلال نہیں کہ وہ پوری ملت کے خلاف ایک جرم ہے آیت مذکورہ ان تمام ناجائز صورتوں پر حاوی ہے، ارشاد ہے، وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بالْبَاطِلِ یعنی نہ کھاؤ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریق پر اس میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اَمْوَالَكُمْ آیا ہے جس کے اصلی معنی ہیں اپنے اموال جس میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا کہ تم جو کسی دوسرے کے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہو تو یہ غور کرو کہ دوسرے شخص کو بھی اپنے مال سے ایسی ہی محبت اور تعلق ہوگا جیسا تمہیں اپنے مال سے ہے اگر وہ تمہارے مال میں ایسا جائز تصرف کرتا تو تمہیں جو دکھ پہنچتا اس کا اس وقت بھی ایسا ہی احساس کرو کہ گویا وہ تمہارا مال ہے،- اس کے علاوہ اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ جب ایک شخص دوسرے کے مال میں کوئی ناجائز تصرف کرتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اگر یہ رسم چل پڑی تو دوسرے اس کے مال میں ایسا ہی تصرف کریں گے اس حیثیت سے کسی کے مال میں ناجائز تصرف درحقیقت اپنے مال میں ناجائز تصرف کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے غور کیجئے اشیاء ضرورت میں ملاوٹ کی رسم چل جائے کوئی گھی میں تیل یا چربی ملا کر زائد پیسے حاصل کرے تو اس کو جب دودھ خریدنے کی ضرورت پڑے گی دودھ والا اس میں پانی ملا کردے گا مسالہ کی ضرورت ہوگی تو اس میں ملاوٹ ہوگی دوا کی ضرورت ہوگی اس میں بھی یہی منظر سامنے آئے گا تو جتنے پیسے ایک شخص نے ملاوٹ کرکے زائد حاصل کرلئے دوسرا آدمی وہ پیسے اس کی جیب سے نکال لیتا ہے اسی طرح دوسرے کے پیسے تیسرا نکال لیتا ہے یہ بیوقوف اپنی جگہ پیسوں کی زیادتی شمار کرکے خوش ہوتا ہے مگر انجام دیکھتا کہ اس کے پاس کیا رہا تو جو کوئی دوسرے کے مال کو غلط طریقے سے حاصل کرتا ہے درحقیقت وہ اپنے مال کے ناجائز تصرف کا دروازہ کھولتا ہے،- دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ اس ارشاد خداوندی کے الفاظ عام ہیں کہ باطل اور ناجائز طریق سے کسی کا مال نہ کھاؤ اس میں کسی کا مال غصب کرلینا بھی داخل ہے چوری، اور ڈاکہ بھی جن میں دوسرے پر ظلم کرکے جبرا مال چھین لیا جاتا ہے اور سود، قمار، رشوت اور تمام بیوع فاسدہ اور معاملات فاسدہ بھی جو ازروئے شرع جائز نہیں اگرچہ فریقین کی رضامندی بھی متحقق ہو جھوٹ بول کر یا جھوٹی قسم کھا کر کوئی مال حاصل کرلینا یا ایسی کمائی جس کو شریعت اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے اگرچہ اپنی جان کی محنت ہی سے حاصل کی گئی ہو وہ سب حرام اور باطل ہیں اور قرآن کے الفاظ میں اگرچہ صراحۃ کھانے کی ممانعت مذکور ہے لیکن مراد اس جگہ صرف کھانا ہی نہیں بلکہ مطلقاً استعمال کرنا ہے خواہ کھا پی کر یا پہن کر یا دوسرے طریقہ کے استعمال سے مگر محاورات میں ان سب قسم کے استعمالوں کو کھا لینا ہی بولا جاتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں کا مال کھا گیا اگرچہ وہ مال کھانے پینے کے لائق نہ ہو،- شان نزول :- یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے واقعہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام میں سے دو صاحبوں کا آپس میں ایک زمین پر جھگڑا ہوا مقدمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں پیش ہوا مدعی کے پاس گواہ نہ تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرعی ضابطہ کے مطابق مدعاعلیہ کو حلف کرنے کا حکم دیا وہ حلف پر آمادہ ہوگیا اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور نصیحت ان کو یہ آیت سنائی، اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا جس میں قسم کھا کر کوئی مال حاصل کرنے پر وعید مذکور ہے صحابی نے جب یہ آیت سنی تو قسم کھانے کو ترک کردیا اور زمین مدعی کے حوالہ کردی (روح المعانی) - اس واقعہ میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں ناجائز طریق پر کسی کا مال کھانے یا حاصل کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے آخر میں خاص طور پر جھوٹا مقدمہ بنانے اور جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹی شہادت دینے اور دلوانے کی سخت ممانعت اور اس پر وعید آئی ہے ارشاد ہے اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَال النَّاس بالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یعنی نہ لے جاؤ اموال کے مقدمات حکام تک تاکہ ان کے ذریعہ تم لوگوں کے اموال کا کوئی حصہ کھا جاؤ بطریق گناہ جب کہ تم جانتے بھی ہو کہ اس میں تمہارا کوئی حق نہیں تم جھوٹا مقدمہ بنا رہے ہو۔ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی مغالطہ کی بناء پر اس چیز کو اپنا حق سمجھتا ہے وہ اگر عدالت میں دعویٰ دائر کرکے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں اسی جیسے ایک واقعہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ؛- انما انا بشر وانتم تختصمون الی ولعل بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعض فاقضی لہ علیٰ نحو ما اسمع منہ فمن قضیت لہ بشیء من حق اخیہ فلا یاخذنہ فانما اقطع لہ قطعۃً من النار (رواہ البخاری ومسلم عن ام سلمۃ) یعنی میں ایک انسان ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو اس میں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے معاملہ کو زیادہ رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کرے اور میں اسی سے مطمٔن ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کردو تو (یاد رکھو کہ حقیقت حال تو صاحب معاملہ کو خود معلوم ہوتی ہے) اگر فی الواقع وہ اس کا حق نہیں ہے تو اس کو لینا نہیں چاہئے کیونکہ اس صورت میں جو کچھ میں اس کو دوں گا وہ جہنم کا ایک قطعہ ہوگا،- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد میں واضح فرما دیا کہ اگر امام یا قاضی یا امام المسلمین کی مغالطہ کی وجہ سے کوئی فیصلہ کردے جس میں ایک کا حق دوسرے کو ناجائز طور پر مل رہا ہو تو اس عدالتی فیصلہ کی وجہ سے وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوجاتا، اور جس کے لئے حلال ہے اس کے لئے حرام نہیں ہوجاتا الغرض عدالت کا فیصلہ کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں بناتا، اگر کوئی شخص دھوکہ فریب یا جھوٹی شہادت یا جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی کا مال بذریعہ عدالت لے لے تو اس کا وبال اس کی گردن پر رہے گا اس کو چاہئے کہ آخرت کے حساب کتاب اور علیم وخبیر کی عدالت میں پیشی کا خیال کرکے اس کو چھوڑ دے،- امام ابوحنیفہ کے نزدیک جن معاملات میں کوئی عقد یا فسخ ہوتا ہو اور جن میں قاضی یا جج کو بھی شرعا اختیارات حاصل ہوتے ہیں ایسے معاملات میں اگر جھوٹی قسم یا جھوٹی شہادت کی بناء پر بھی کوئی فیصلہ قاضی نے صادر کردیا تو شرعاً وہ عقد یا فسخ صحیح ہوجائے گا اور حلال و حرام کے احکام اس پر عائد ہوجائیں گے اگرچہ جھوٹ بولنے اور شہادت دلوانے کا وبال اس کی گردن پر رہے گا۔- مال حلال کی برکات اور حرام کی نحوست :- حرام سے بچنے اور حلال کے حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم نے مختلف مقامات میں مختلف عنوانات سے تاکیدیں فرمائی ہیں ایک آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق میں بہت بڑا دخل حلال کھانے کو ہے اگر اس کا کھانا پینا حلال نہیں تو اس سے اخلاق حمیدہ اور اعمال صالحہ کا صدور مشکل ہے ارشاد ہے :- يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحً آ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ (٥١: ٢٣) یعنی اے گروہ انبیاء حلال اور پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے اعمال کی حقیقت سے واقف ہوں۔- اس آیت میں حلال کھانے کے ساتھ عمل صالح کا حکم فرما کر اشارہ کردیا ہے کہ اعمال صالحہ کا صدور جب ہی ہوسکتا ہے جبکہ انسان کا کھانا پینا حلال ہو، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں یہ بھی واضح فرما دیا کہ اس آیت میں اگرچہ خطاب انبیاء (علیہم السلام) کو ہے مگر یہ حکم کچھ انھیں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب مسلمان اس کے مامور ہیں اس حدیث کے آخر میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ حرام مال کھانے والے کی دعاء قبول نہیں ہوتی بہت سے آدمی عبادت وغیرہ میں مشقت اٹھاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ دعاء کے لئے پھیلاتے ہیں اور یا رب یا رب پکارتے ہیں مگر کھانا ان کا حرام، پینا ان کا حرام، لباس ان کا حرام ہے تو ان کی یہ دعاء کہاں قبول ہوسکتی ہے،- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کا ایک بہت بڑا حصہ اسی کام کے لئے وقف رہا ہے کہ امت کو حرام سے بچانے اور حلال کے استعمال کرنے کی ہدایتیں دی،- ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے حلال کھایا اور سنت کے مطابق عمل کیا اور لوگ اس کی ایذاؤں سے محفوظ رہے وہ جنت میں جائے گا صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ آج کل تو یہ حالات آپ کی امت میں عام ہیں بیشتر مسلمان ان کے پابند ہیں آپ نے فرمایا ہاں آئندہ بھی ہر زمانہ میں ایسے لوگ رہیں گے جو ان احکام کے پابند ہوں گے (یہ حدیث ترمذی نے روایت کی ہے اور اس کو صحیح فرمایا ہے) - ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ چار خصلتیں ایسی ہیں جب وہ تمہارے اندر موجود ہیں تو پھر دنیا میں کچھ بھی حاصل نہ ہو تو تمہارے لئے کافی ہیں وہ چار خصلتیں یہ ہیں کہ ایک امانت کی حفاظت، دوسرے سچ بولنا، تیسرے حسن خلق، چوتھے کھانے میں حلال کا اہتمام،- حضرت سعد بن ابی وقاص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ میرے لئے یہ دعا فرما دیجئے کہ میں مقبول الدعاء ہوجاؤں جو دعا کیا کروں قبول ہوا کرے آپ نے فرمایا اے سعد اپنا کھانا حلال اور پاک بنالو مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہو اس گوشت کے لئے تو جہنم کی آگ ہی لائق ہے،- حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتا جب تک اس کا قلب اور زبان مسلم نہ ہوجائے اور جب تک اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ نہ ہوجائیں اور جب کوئی بندہ مال حرام کماتا ہے پھر اس کو صدقہ کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس میں سے خرچ کرتا ہے تو برکت نہیں ہوتی اور اگر اس کو اپنے وارثوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے تو وہ جہنم کی طرف جانے کے لئے اس کا توشہ ہوتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ بری چیز سے برے عمل کو نہیں دھوتے ہاں اچھے عمل سے برے عمل کو دھو دیتے ہیں۔- محشر میں ہر انسان سے پانچ اہم سوالات :- اور حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- ما تزال قدما عبد یوم القیامۃ حق یسأل عن اربع عن عمرہ فیما افناہ وعن شبابہٖ فیما ابلاہ وعن مالہ من این اکتسبہ وفیما انفقہ وعن علمہ ماذا عمل فیہ (البیہقی، ترغیب) قیامت کے روز محشر میں کوئی بندہ اپنی جگہ سے سرک نہ سکے گا جب تک اس سے چار سوالوں کا جواب نہ لیا جائے ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں فنا کی دوسرے یہ کہ اپنی جوانی کس شغل میں برباد کی تیسرے یہ کہ اپنا مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور چوتھی یہ کہ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔- حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ اے جماعت مہاجرین پانچ خصلتیں ہیں جن کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر پیدا ہوجائیں ایک یہ ہے کہ جب کسی قوم میں بےحیائی پھیلتی ہے تو ان پر طاعون اور وبائیں اور ایسے نئے نئے امراض مسلط کردئیے جاتے ہیں جو ان کے آباء و اجداد نے سنے بھی نہ تھے اور دوسرے یہ کہ جب کسی قوم میں ناپ تول کے اندر کمی کرنے کا مرض پیدا ہوجائے تو ان پر قحط اور گرانی اور مشقت و محنت اور حکام کے مظالم مسلط کردئیے جاتے ہیں اور تیسرے یہ کہ جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا نہ کرے تو بارش بند کردی جاتی ہے اور چوتھے یہ کہ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ ڈالے تو اللہ تعالیٰ ان پر اجنبی دشمن مسلط فرما دیتے ہیں جو ان کے مال بغیر کسی حق کے چھین لیتا ہے اور پانچویں یہ کہ جب کسی قوم کے ارباب اقتدار کتاب اللہ کے قانون پر فیصلہ نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام ان کے دل کو نہ لگیں تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں منافرت اور لڑائی جھگڑے ڈال دیتے ہیں (یہ روایت ابن ماجہ اور بیہقی وغیرہ نے نقل کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح علیٰ شرط مسلم فرمایا ہے) - اللہ تعالیٰ ہم کو اور سب مسلمانوں کو ان آفات سے محفوظ رہنے کی توفیق کامل عطا فرمائیں وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ١٨٨ ۧ- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - دلو - دَلَوْتُ الدَّلْوَ : إذا أرسلتها، وأدلیتها أي : أخرجتها، وقیل : يكون بمعنی أرسلتها ( قاله أبو منصور في الشامل) قال تعالی: فَأَدْلى دَلْوَهُ [يوسف 19] واستعیر للتّوصّل إلى الشیء قال تعالی: وَتُدْلُوا بِها إِلَى الْحُكَّامِ [ البقرة 188] ، والتَّدَلِّي : الدّنوّ والاسترسال، قال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] .- ( دل و )- دلوت الدلو ۔ کے معنی کنویں میں ڈول ڈالنے کے ہیں اور ادلی تھا کے معنی ڈول بھر کر نکالنے کے ابو منصور نے لکھا ہے کہ ۔ اولیٰ کے معنی ڈول کنویں میں ڈالنے کے آجاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ - فَأَدْلى دَلْوَهُ [يوسف 19] اس نے کنویں میں ڈول لٹکایا - اسی سے بطور استعارہ ادلیٰ کے معنی کسی چیز تک پہچنے کے لئے ذریعہ بنانا بھی آجاتے ہیں۔ قرآن میں ہے ؛ وَتُدْلُوا بِها إِلَى الْحُكَّامِ [ البقرة 188] اور نہ ان اموال کے ذریعہ درشوت دیکر حکام تک رسائی حا صل کرو ۔ اتدلی ( تفعل ) قریب ہونا اور اترانا قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔- حاكمِ- حَاكِم وحُكَّام لمن يحكم بين الناس، قال اللہ تعالی: وَتُدْلُوا بِها إِلَى الْحُكَّامِ [ البقرة 188] - اور جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے اسے حاکم کہا جاتا ہے اس کی جمع حکام آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتُدْلُوا بِها إِلَى الْحُكَّامِ [ البقرة 188] اور نہ اس کو ( رشوۃ ) حاکموں کے پاس پہنچادو ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
(سابقہ آیات کی بقیہ تفسیر)- جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شخص کے متعلق مروی ہے جس نے سفر میں روزہ رکھا تھا اور نڈھال ہوجانے کی بنا پر سائے کی خاطر اس کے سر پر سائبان سا تان دیا گیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے دیکھ کر فرمایا تھا لیس من البر الصیام فی السفر سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے آیت مبارکہ نے یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ تم سے ایسے روزے کا طلب گار ہے جو تمہارے لیے آسان ہو ایسے روزے کا نہیں جو تمہارے لیے مشکل اور جان جو ھوں والا ہو ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی سفر کے اندر روزہ رکھا ہے اور اس شخص کے لیے اسے مباح بھی کردیا جسے اس سے ضرر نہ پہنچے۔ یہ بات تو سب کے علم میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم کے پیرو کار اور منشائے الٰہی کے مطابق کام کرنے والے تھے۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر سفر میں جو از صوم کے منافی نہیں ہے بلکہ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ اگر روزہ ضرر رساں ہو تو اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ وہ روزہ رکھے اور اس کے لیے ایسا کرنا مکروہ ہوگا۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ جس شخص نے سفر میں روزہ رکھ لیا اس کا روزہ درست ہوگا اور اسی پر روزے کی قضا لازم نہیں آئے گی ۔ - اس لیے کہ قضا واجب کرنے کی صورت میں عسرکا اثبات ہوجائے گا نیز لفظ یسر کا اقتضا یہ ہے کہ اسے روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا اختیار ہو ۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے اور جب اسے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے درمیان اختیار ہوگا تو اس پر قضا لازم نہیں آئے گی ۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ مریض ، حاملہ ، مرضعہ اور ہر ایسا شخص جسے روزے کی وجہ سے اپنی جان کا یا بچے کی جان کا خطرہ ہو تو اس کے لیے روزہ نہ رکھنا لازمی ہے۔ اس لیے کہ روزے کی وجہ سے ضرر برداشت کرنے یا مشقت اٹھانے کی صورت میں ایک قسم کا عسر پایا جائے گا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق اس بات کی نفی کردی ہے کہ وہ ہمارے لیے کوئی عسر یا تنگی چاہتا ہے اور یہ اس حدیث کی نظیر ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کبھی دو باتوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو آپ نے ہمیشہ زیاد ہ آسان بات کو اختیار کیا ۔ یہ آیت اس کلیہ کی اصل اور بنیاد ہے کہ انسان کسی ایسے حکم کا مکلف نہیں ہوتا جو اس کے لیے ضرر رساں ہو ، جو اسے نڈھال کر دے اور اس کی بیماری کا سبب ہے یا اس کی بیماری میں اور اضافہ کر دے ، کیونکہ ایسا حکم یسر کے خلاف ہوگا ۔ مثلاً ایک شخص پیدل حج کرنے کی قدرت رکھتا ہو لیکن وہ سواری اور زاد راہ سے محروم ہو تو آیت کی دلالت اس پر ہو رہی ہے کہ ایسا شخص اسی حالت میں حج کا مکلف نہیں ہوگا کیونکہ اس سے یسر کی مخالفت ہوگی ۔ آیت اس پر بھی دلالت کر رہی ہے کہ جس شخص نے رمضان کی قضا کرنے میں کوتاہی کی یہاں تک کہ اگلا رمضان آگیا تو اس پر فدیہ واجب نہیں ہوگا ۔ کیونکہ فدیہ کے وجوب سے یسر کی نفی ہوگی اور عسر کا اثبات ہوگا ۔ نیز آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تمام فرائض اور نوافل کی ادائیگی کا حکم عسر اور شدید مشقت کی نفی کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی قضا کرنے والے کو اجازت ہے کہ وہ روزے متفرق طور پر قضا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یسر کا ذکر فعدۃ من ایام اخر کے فوراً بعد کیا ہے۔ متفرق طورپر قضا کرنے پر اس کی دو طرح سے دلالت ہو رہی ہے۔ اول یہ کہ قول باری یرید اللہ بکم الیسوولا یرید بکم العسر کا تقاضا ہے کہ بندے کو قضا میں اختیار دیا جائے ۔ دوم یہ کہ بندے کا متفرق طور پر قضا کرنا یسر سے زیادہ قریب اور عسر سے زیادہ دور ہے۔ اس سے لگا تار روزے رکھنے کے وجوب کی بھی نفی ہوتی ہے کیونکہ اس سے عسر پیدا ہوگا ، نیز اس سے اس شخص کے قول کا بھی بطلان ہوتا ہے جو قضا کو فی الفور واجب کرتا ہے اور تاخیر سے روکتا ہے اس لیے کہ اس قول سے یسر کی نفی اور عسر کا اثبات ہوتا ہے۔ - اس آیت سے جبر یہ فرقے کے اس قول کا بطلان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے امورکا مکلف بناتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ اس لیے کہ بندے کو کسی ایسے امر کی مکلف بنانا جو اس کی طاقت سے باہر ہوا اور جس پر اسے قدرت نہ ہو ، عسر کی مشکل ترین شکل ہے ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے اس بات کی بھی نفی کردی ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لیے عسر چاہتا ہے۔ ان کے قول کا ایک اور وجہ سے بطلان ہو رہا ہے وہ یہ کہ جو شخص روزہ رکھنے کی وجہ سے سخت مشقت میں مبتلا ہو رہا ہے جس سے اسے ضرر پہنچنے کا اندیشہ لا حق ہوجائے ، اس کا یہ فعل اللہ کی مرضی سے کرتا ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے اپنی ذات سے ارادہ معاصی کی نفی کردی ہے اور یہ لوگ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر رہے ہیں ۔ ایک اور وجہ سے بھی ان کا قول باطل ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے یہخبر دی ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لیے یسر اس لیے چاہتا ہے کہ وہ اس کی حمد و ثنا بجا لائیں اور اس کا شکریہ ادا کریں ۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ بندے اس کا کفر کرکے اس کے عذاب کے سزا وار ہوں ۔ اس لیے کہ اگر وہ اپنے بندوں سے کفر چاہتا تو ایسی صورت میں وہ ان کے لیے کس طرح یسر کا ارادہ کرتابل کہ بندوں سے کفر چاہتا ان کے لیے عین عسر چاہتا ہے اور پھر وہ کبھی حمد و ثنا اور شکر کا مستحق نہ ہوتا ۔ اس بنا پر یہ آیت فرقہ جبریہ کے عقائد کا ابطلال کرتی ہے ۔ ان لوگوں نے اللہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کی جن کی اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی کردی ۔ قول باری ہے ولتکملوا العدۃ ولتکبروا اللہ علی ما ھدا کم اور تا کہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت ولتکملوا العدۃ کئی معانی پر دلالت کرت ہے۔ ایک یہ کہ جب کسی رکاوٹ کی وجہ سے رمضان کی رویت ہلال نہ ہو سکے تو ہمارے لیے تیس دن کی گنتی پوری کرنا ضروری ہے، خواہ وہ کسی سا بھی مہینہ ہو ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ ہمارے درج بالا معنی کے مطابق ہے۔- آپ کا ارشاد ہے ( صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ فان غم علیکم فاکملوا العدۃ ثلاثین) آپ نے ہلال نظر نہ آنے کی صورت میں تعداد پوری کرنے کے سلسلے میں تیس کے عدد کا اعتبار کیا ۔ یہ آیت رمضان کی لگا تار یا متفرق دنوں کے ذریعے قضا کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ آیت میں تعدا د پوری کرنے کی خبر دی گئی ہے اور پوری تعداد لگا تار روزے رکھ کے حاصل ہوسکتی ہے اور متفرق بھی ۔ - آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ قضا فی الفور واجب نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ جب مقصد تعداد کا اکمال ہے تو یہ مقصد فی الفور رکھ کر بھی حاصل ہوسکتا ہے اور ٹھہر کر رکھنے کی صورت میں بھی نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص نے رمضان کی قضا کو موخر کردیا اس پر فدیہ واجب نہیں ہوتا بلکہ اس پر قضا کے سوا اور کوئی چیز عائد نہیں ہوگی اس لیے کہ آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم تعداد پوری کریں اور جس نے تاخیر کر کے قضا کی اس نے بھی تعدادپور ی کرلی۔- اب اگر اس پر فدیہ لازم کیا جائے گا تو یہ نص پر زیادتی ہوگی اور اس سے ایسی بات ثابت کی جائے گی جو آیت میں مقصود ہی نہیں ہے ۔ آیت میں اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ جس شخص نے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور وہ رمضان تیس دنوں کا ہو تو اس کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ انتیس دنوں والے قمری مہینہ میں روزہ رکھ کر اپنے آپ عہدہ برا سمجھے، اس لیے کہ قول باری ولتکملوا لعدۃ تعداد پوری کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔- اس بنا پر جو شحص تیس سے کم تعداد یعنی انتیس پر انحصار کرنے کے جواز کا قائل ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اس آیت کے حکم کی مخالفت کا مرتکب ہے۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر ایک شہر والوں نے چاند دیکھ کر انتیس دن اور دوسرے شہر والوں نے چاند دیکھ کر تیس دن کے روزے رکھے تو پہلے شہر والوں پر ایک دن کے روزے کی قضا لازم آئے گی ۔ کیونکہ ارشاد باری ہے۔ ولتکملوا العدۃ اور چونکہ دوسرے شہر والوں نے تیس دنوں کی شکل میں تعداد پوری کی ہے اس لیے پہلے شہر والوں پر بھی یہ تعداد پوری کرنا ضروری ہے جس طرح کہ انہوں نے کی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم میں کل میں سے بعض کی تخصیص نہیں کی ہے۔ قول باری ہے وتعکبروا اللہ علی ما ھدا کم اور جس ہدایت پر اس نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مسلمانوں کو جب ہلال عید نظر آجائے تو ان پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ کی کبریائی بیان کرنے کے لیے اللہ اکبر کہیں اور یہ ورد عید سے فارغ ہونے تک جاری رکھیں اس لیے کہ فرمان الٰہی ہے و لتکملوا العدۃ ولتکبروا اللہ علی ما ھدا کم - زہری نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ عید الفطر کے دن جب عید گاہ کی طرف روانہ ہوتے تو راستے میں تکبیر پڑھتے اور جب نماز عید ختم کرلیتے تو تکبر کہنا بند کردیتے ۔ حضرت علی (رض) ، حضرت ابو قتادہ ، حضرت ابن عمر (رض) ، سعید بن المسیب ، عروہ، قاسم ، خارجہ بن زید اور نافع بن جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ یہ سب حضرات جب عید الفطر کے دن عید گاہ کی طرف روانہ ہوتے تو تکبیر کہتے۔ جیش بن المعتمر نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ عید الاضحی کے موقع پر آپ خچر پر سوار ہوئے ۔ آپ مسلسل تکبیر کہتے رہے یہاں تک کہ مقام جیانہ پہنچ گئے۔ ابن ابی ذئب نے حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام شعبہ سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کو عید گاہ کی طرف لے کرجاتا ۔ آپ لوگوں کو تکبیر کہتے ہوئے سنتے ، پھر فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ۔ کیا امام نے تکبیر کہی ہے۔ میں نفی میں جواب دیتا تو آپ فرماتے کہ کیا لوگ دیوانے ہوگئے ہیں ۔ اس روایت میں حضرت ابن عباس (رض) نے راستے میں تکبیر کہنے کو برا سمجھا ۔ یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک آیت میں مذکور تکبیر سے مراد وہ تکبیر ہے جو امام خطبے کے دوران کہے اور لوگ بھی اس کے ساتھ کہیں ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے جو مروی ہے کہ لوگوں پر حق ہے کہ شوال کا چاند دیکھ کر اللہ کی کبریائی بیان کرنے کے لیے تکبیر کہیں اور عید کی نماز سے فارغ ہونے تک کہتے چلے جائیں ، تو اس میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ تکبیر اونچی آواز میں کہیں ۔ بلکہ اس سے یہ مراد لیا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنے دلوں میں تکبیر کہیں ۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ جب عید الفطر اور عید الاضحی پر عید گاہ کی طرف نکلتے تو راستے میں اونچی آواز میں تکبیر کہتے جب تک کہ عید گاہ نہ پہنچ جاتے۔ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد عید الفطر کی تکبیر ہے۔ فقہائے امصار کا اس مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ المعلی نے امام ابو یوسف کے واسطے سے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ عید الاضحی کے لیے جانے والا شخص اونچی آواز میں تکبیر کہے گا اور عید الفطر کے موقع پر تکبیر نہیں کہے گا ۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ دونوں موقعوں پر تکبیر کہے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ولتکبرواللہ میں یہ ذکر نہیں ہے کہ یہ تکبیر کسی خاص وقت میں کہی جائے۔ عمرو کا کہنا ہے کہ میں نے امام محمد سے عید ین کی تکبیر کے متعلق پوچھا تو آپ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی ہمارا قول ہے ۔ حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ عیدینی کے موقعوں پر راستوں میں تکبیر کہنا واجب نہیں ہے اور نہ عید گاہ میں واجب ہے۔ البتہ نماز عید میں تکبیر کہنا واجب ہے۔ طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ ابن ابی عمران ہمارے تمام اصحاب سے یہ قول نقل کرتے تھے کہ ان کے نزدیک عید الفطر کے موقعہ پر عید گاہ تک پہنچنے تک راستے میں تکبیر کہنا سنت ہے اور اس سلسلے میں المعلی نے جو قول ہمارے اصحاب سے نقل کیا ہے وہ ہمارے علم میں نہیں ہے۔- امام اوزاعی اور امام مالک کا قول ہے کہ عیدین میں گھر سے عید گاہ کی طرف نکلتے وقت تکبیر کہے گا ۔ امام مالک کا قول ہے کہ عید گاہ میں امام کے آنے تک تکبیر کہتا رہے گا ۔ جب امام کی آمد ہوجائے تو تکبیر کہنا بند کر دے گا اور واپسی میں تکبیر نہیں کہے گا ۔ امام شافعی نے فرمایا ۔ مجھے یہ پسند ہے کہ عید الفطر اور یوم النحر دسویں ذی الحجہ کی رات میں تکبیر کہے۔ نیز جب عید کی نماز کے لیے عید گاہ کی طرف جائے تو امام کی آمد تک تکبیر کہتا رہے۔ امام شافعی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ جب تک امام نماز شروع نہ کرے تکبیر کہتا رہے۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ کی تکبیر کے معنی اسکی عظمت کا بیان ہے اور یہ تین چیزوں پر مشتمل ہے جو یہ ہیں ۔ عقد ضمیر ، قول اور عمل ، عقد ضمیر کے معنی میں اللہ کی توحید اور اس کے عدل کا اعتقاد اور اس کی ذات کی صحیح معرفت اور اس کے متعلق تمام شکوک و شبہات کا ازالہ ۔ قول کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی بلند صفات، اس کے اسمائے حسنیٰ اور اس کی ان تمام تعریفوں کا اقرار کیا جائے جو اس نے اپنی ذات کے لیے کی ہیں ۔ عمل سے مراد یہ ہے کہ تمام بدنی عبادتوں کے ذریعے اس کی پرستش کی جائے مثلاً نماز اور دوسرے تمام فرائض ، لیکن یہ چیزیں اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوں گی جب تک کہ وہ پہلے دلی طورپر اس کے متعلق اپنا عقیدہ اس طریقے سے درست نہ کرلے جو ہم نے بیان کیا ہے اور وہ ان تمام کاموں میں اللہ کے حکم کی موافقت کا متلاشی رہے۔- جیسا کہ ارشاد باری ہے ومن اراء الاخرۃ و سعی لھا سعیھا وھو مومن فائولیک کان سعیھم مشکورا ً اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی اس میں ارادہ آخرت کے ذکر کے ذریعے شروع ہی سے اپنے امر کی موافقت کے متلاشی رہنے کی شرط لگا دی ہے اور صرف اسی پر اقتصار نہیں کیا بلکہ اللہ کے لیے عمل کرنے کا بھی ذکر کیا ۔ اللہ کے لیے عمل کرنا سعی کہلاتا ہے ، پھر ان تمام باتوں کو ایمان کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے فرمایا وھو مومن اور اس کے بعد ان اعمال کو سر انجام دینے والوں کے لیے اپنے وعدے کا ذکر کیا۔ ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنادے جو اس آیت کے اہل ہیں اور ہمیں ان کاموں کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی رضا تک پہنچانے والے ہوں ۔ آمین۔- جب اللہ تعالیٰ کی کبریائی ان معانی پر مشتمل ہے جو ہم نے بیان کیے ہیں اور جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ عقیدہ توحید اور اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان تمام عبادات کی شرط ہے اور اس کا تعلق کسی ایک عبادت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ تمام فرائض جن کا لزوم دوسرے ایسے اسباب کی بنا پر ہے جن کی بنیاد رمضان کے روزوں پر نہیں یہ تو بات ثابت ہوگئی کہ اس آیت میں مذکورہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا تعلق رمضان کی تعداد کی تکمیل کے ساتھ ہونا چاہیے اور اس کی تعظیم کے اظہار کا بہترین ذریعہ لفظ تکبیر ہے۔ یعنی زبا ن سے اللہ اکبر کے الفاظ ادا کئے جائیں ۔ پھر اس میں یہ بھی جائز ہے کہ یہ تکبیر انسان ہلال شوال نظرآنے پر اپنے دل میں کہے اور یہ بھی جائز ہے کہ اس سے مراد اکثر سلف کی تشریح کے مطابق وہ تکبیر ہو جو انسان عید گاہ کی طرف نکلتے ہوئے کہے اور اس سے یہ مراد لینا بھی درست ہے کہ یہ عید کی نماز کی تکبیرات ہیں ۔ لفظ میں ان تمام صورتوں کا احتمال موجود ہے اور اس میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہاں بعض صورتیں مراد ہیں اور بعض نہیں ہیں ۔ اس لیے اگر انسان ان صورتوں میں سے کسی پر بھی عمل کرلے گا تو وہ آیت کا تقاضاپورا کر کے اس کے عائدکردہ فرض سے عہدہ برا ہوجائے گا ۔ آیت میں تکبیر کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لیے کہ قول باری ولتکملوا العدۃ سے وجوب ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ جائز ہے کہ یہ نفل کے معنی دیتا ہو۔ آپ نہیں نہیں دیکھتے کہ ہم نفلی طور پر اللہ کہ کہہ کر اس کی کبریائی اور عظمت کا اظہار کرتے ہیں ۔ فقہاء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اظہار تکبیر واجب نہیں ہے اور جو شخص اللہ اکبر کہتا ہے وہ استحباب کے طور پر کہتا ہے تا ہم جو شخص ایسا کام کرے جو اللہ کی کبریائی کے بیان کا کم سے کم درجہ ہو تو اسے سے آیت کے مقتضی کی موافقت حاصل ہوجائے گا ۔ البتہ عید الفطر کے دن عید گاہ کے راستے میں اللہ اکبر کہتے ہوئے جانے کی جو روایت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، صدر اول کے سلف اور تابعین سے منقول ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں مذکور تکبیر سے یہی تکبیر مراد ہے جس سے یہ بات زیادہ ظاہر ہوگئی کہ اس طرح تکبی کہنا مندوب و مستحب ہے ، واجب اور لازم نہیں ہے۔ ابن ابی عمران نے اس سلسلے میں جو بات نقل کی ہے کہ ہمارے سب اصحاب کے نزدیک گھر سے عید گاہ تک عید الفطر کے موقع پر تکبیر کہتے جانا سنت ہے، یہ بات امام ابوحنیفہ اور ہمارے تمام اصحاب کے مسلک سے زیادہ قریب ہے کیونکہ یہی بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زہری کے واسطے سے نقل کی گئی ہے، اگر چہ یہ روایت مرسل ہے اس لیے کہ اس میں صحابی کا واسطہ موجود نہیں ہے۔ اسی طرح سلف سے بھی یہ بات منقول ہے۔ - عید الفطر کے موقعہ پر تکبیر کا کہنا عید الاضحی کے موقع پر کہنے سے بڑھ کر ظاہر آیت کے موافق ہے اس لیے کہ آیت کا اقتضایہ ہے کہ رمضان کی گنتی پوری کرنے اور روزہ ختم کر کے عید منانے کے موقعہ پر اللہ کی کبریائی اور عظمت کے بیان کی تجدید کی جائے اور جب امام ابوحنیفہ کے نزدیک عید الاضحی کے موقعہ پر تکبیر کہنا مسنون ہے تو عید الفطر کا بھی یہ حکم ہونا چاہیے اس لیے کہ عید ین کی نمازوں میں تکبیر کہنے کے حکم ، نماز کے بعد خطبہ اور باقی ماندہ تمام سنن کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ اس لیے چاہیے کہ ان دونوں نمازوں کے لیے خروج کے وقت تکبیر کہنا سنت ہو۔ آیت میں فرقہ جبریہ کے قول کے بطلان کی دلالت موجود ہے اس لیے کہ آیت میں یہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکلفین سے یہ چاہا ہے کہ وہ گنتی پوری کریں، اس کی کبریائی بیان کریں ، اس کی تعریفیں کریں اور اس کی نعمتوں پر اور ان طاعات کی طرف اس کی رہنمائی پر جن پر عمل پیرا ہو کر وہ ثواب جزیل کے مستحق ہوں گے اس کا شکر ادا کریں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے تمام سے ان طاعتوں کا ارادہ کیا ہے اور چاہا ہے کہ تمام لوگ اس کا شکر بجا لائیں اگرچہ ان میں ایسے بھی ہیں جو اس کی نافرمانی کرتے اور شکر نہیں بجا لاتے ہیں ۔ - اس لیے آیت کی دلالت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی سے نہیں چاہا کہ وہ اس کی نافرمانی کرے یا اس کے فرائض اور اوامر کو ترک کر دے بلکہ تمام سے یہی چاہا ہے کہ وہ اس کی اطاعت کریں اور اس کا شکر بجا لائیں ۔ اس کے ساتھ عقلی دلالت بھی موجود ہے کہ جو شخص وہ کام کرلے جس کا اس سے ارادہ کیا گیا ہو تو وہ ارادہ کرنے والے کافرمانبردار اور اس کے فرمان کا متبع کہلاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ معاصی کا ارادہ کرنے والا ہوتا تو تمام نافرمان اس کے فرمانبردار بن جاتے۔ اس بنا پر عقلی دلالت بھی اس معاملے میں آیت کی دلالت کے موافق ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ الموافق للصواب ۔- ۔۔۔۔۔- روزوں میں رات کے وقت کھانا ، پینا اور ہمبستری کرنا - فرمان الٰہی ہے احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نساء کم ھن لباس لکم وانتم لباس لھن علم اللہ انکم کنتم تختالون انفسکم فتاب علیکم وعفا عنکم فالان باشروھن وابتغوا ما کتب اللہ لکم وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ، تم اتموا الصیام الی اللیل ۔ تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لیے لباس میں اور تم ان کے لیے ، اللہ کو معلوم ہوگیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے ، مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے در گزر فرمایا ۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کردیا ہے اسے حاصل کرو۔ نیز راتوں کو کھائو پیو یہاں تک کہ تم کو سیاسی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے ، تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔- حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ صورت اس وقت تھی جب روزہ پہلے پہل فرض ہوا تھا قول باری ہے کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم اس وقت ہر مہینہ کے تین دنوں کے روزے فرض تھے اور روزہ عشا کی نماز پڑھنے کے ساتھ شروع ہوتا اور پھر اگلی رات تک کھانا پینا اور ہمبستری کرنا حرام ہوجاتا ہے ۔ عطیہ سے ابن عباس سے یہ روایت کی ہے۔ عکرمہ نے بھی حضرت ابن عباس سے اس قسم کی روایت کی ہے البتہ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ یہ صورت اس وقت تھی جبروزہ پہلے پہل فرض ہوا تھا۔ عطاء نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب کوئی شخص عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتا تو اس پر کھانا پینا اور ہم بستری کرنا حرام ہوجاتا ۔ ضحاک نے یہ روایت کی ہے کہ جب ایک شخص عشاء کی نماز پڑھ لیتا تو اس کے ساتھ ہی اس پر یہ تمام چیزیں حرام ہوجاتیں ۔ حضرت معاذ سے مروی ہے کہ یہ تمام چیزیں ان پر سونے کے بعد حرام ہوجائیں ۔- ابن ابی لیلیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ سے اسی طرح کی روایت کرتے ہوئے کہا کہ ان حضرات نے فرمایا کہ پھر ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ایک انصاری کچھ کھائے پئے بغیر سو گیا اور روزے کی حالت میں صبح اٹھا جس کی وجہ سے وہ نڈھال ہوگیا، پھر ایک مرتبہ حضرت عمر آئے ، آپ نے سونے کے بعد بیوی سے ہم بستر ی کرلی تھی ۔ یہ تمام واقعات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گوش گزار کیے گئے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نساء کم اس کے ساتھ ہی سو جانے کے بعد کھانے پینے اور ہم بستری کی حرمت منسوخ ہوگئی ۔ آیت میں لفظ الرفث ذکر ہوا ہے اس سے مراد ہم بستری ہے ۔ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ رفث کا اطلاق ہم بستری اور جنسی گفتگو پر ہوتا ہے اور کنایہ کے طور پر اس سے جماع مراد لیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے قول فلا رفث ولا فسوق کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد عورتوں کے پاس جا کر جنسی اور ہم بستری کی گفتگو ہے۔ عجاج کا شع رہے :- ؎ عن اللغ اور فث التکلم۔ ( لغو اور جنسی گفتگو سے)- اس لیے جماع یعنی ہم بستری آیت کے معنی سے قریب ترین ہے ۔ اس لیے کہ جماع وغیرہ کی باتیں جائز نہیں ہیں۔ جہاں تک عورتوں کے پاس جا کر جماع وغیرہ کی باتیں کرنے کا تعلق ہے تو اس کے لیے کوئی حکم ایسا نہیں ہے جس کا روزے کے ساتھ تعلق ہو ۔ نہ تو سلف کے نزدیک نہ بعد میں آنے والوں کے ہاں اس لیے یہ معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد وہ چیز ہے جو ان پر حرام تھی یعنی ہم بستری ، پھر یہ ہم بستری اس آیت کے ذریعے ان کے لئے مباح کردی گئی اور سابقہ پابندی منسوخ کردی گئی۔ قول باری ھن لباس لکم وانتم لباس لھن کے معنی یہ ہیں کہ وہ یعنی تمہاری بیویاں مباشرت کی اباحت اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آغوشی کے لحاظ سے تمہارے لیے لباس کی طرح ہیں ۔ نابغہ جعدی کا شعر ہے۔- ؎ اذا ما الضجیع ثنی عطفہ تثنت علیہ فکاتت لباسا - (جب معشوقہ کے ساتھ لیٹا ہوا شخص اپنا پہلو بدلتا تو وہ بھی پہلو بدل کر اس کے لیے لباس بن جاتی یعنی ہم آغوش ہوجاتی )- اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ لباس سے مراد ستر ہو اس لیے کہ لباس وہ ہوتا ہے جو ستر کا کام دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو لباس قرار دیا اس لیے کہ رات اپنی تاریکی کے ذریعے ہر چیز پر جو اس تاریکی کے تحت آ جائے پردہ ڈال دیتی ہے۔ اگر یہ معنی لیے جائیں تو مراد یہ ہوگی کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک نے دوسرے پر اس کی پر وہ دری کرنے والے فواحش کی طرف قدم بڑھانے سے پردہ کردیا ہے یعنی روک دیا ہے اور اس طرح ہر ایک کے لیے دوسرے کے ذریعے عفت یعنی پاک دامنی کا سامان مہیا ہوگیا ہے اور وہ فواحش سے پردے میں ہوگیا ہے۔ قول باری ہے ( علم اللہ انکم کنتم تختالون انفسکم) اس میں اس پس منظر کا ذکر ہے جس میں لوگوں کو مخاطب بنایا جا رہا ہے۔ نیز اپنی اس نعمت کی طرف توجہ دلانا ہے جو اس نے ہمیں رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور ہم بستری کی اجازت دے کر ہمارے لیے روزے کے بوجھ میں تخفیف کردی ۔ ساتھ ہی ساتھ ان نعمتوں پر بندوں کو شکر گزاری کی ترغیب بھی دی جا رہی ہے۔- قول باری تختانو انفسکم کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے بعض ، بعض کو رمضان کی راتوں میں سو کر اٹھنے کے بعد کھانے پینے اور ہم بستری کی ممنوعات کے لیے مخصوص کرلیتے تھے ، جیسا کہ قول باری ہے ( تقتلون انفسکم) تم اپنی جانوں کو قتل کرتے تھے یعنی تم میں سے بعض بعض کو قتل کردیتا تھا۔ آیت سے یہ بھی مراد لی جاسکتی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کے اعتبار سے یہ سمجھتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ خیانت کر رہا ہے۔ ایسے شخص کو اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرنے والا اس لیے کہا گیا کہ خیانت کا نقصان اس کی ذات کو ہی پہنچتا۔ آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ایسا شخص ممنوعات کا ارتکاب کر کے اس شخص کی طرح عمل کر رہا ہے جو بعض چیزوں کو دوسروں کی نظر سے بچا کر اپنے لیے مخصوص کرلے ، اس طرح وہ اپنی ذات کے ساتھ ایک خائن کی طرح پیش آ رہا ہے اور خیانت نام ہے نظریں بچا کر کسی کے حق میں کمی کردینے کا ۔ قول باری ہے فتاب علیکم اس میں دو معنوں کا احتمال ہے ۔ اول یہ کہ اپنی ذات کے ساتھ انہوں نے جو خیانت کی تھی اس گناہ کے سلسلے میں ان کی توبہ قبول کی جاتی ہے۔ دوم یہ کہ ممنوع اشیاء کی اجازت دے کر اور مباح کر کے تمہارے لیے تخفیف کا سامان پیدا کردیا گیا ہے۔- جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد باری ہے علم ان لن تحصوہ فتاب علیکم اللہ نے جان لیا کہ تم ہرگز اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ پھر تمہاری توبہ قبول کرلی یعنی اللہ تعالیٰ کو زیادہ علم تھا اس لیے اس نے تمہارے حق میں تخفیف کردی ۔ یا جس طرح ایک جگہ قتل خطا کے حکم کے ذکر کے بعد فرمایا ( فمن لم یجد فصیام شھر ین متتا بعین توبۃ من اللہ ) پھر جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو دو مہینوں کے مسلسل روزے رکھے یہ اللہ کی طرف سے توبہ ہے یعنی اللہ کی طرف سے یہ حکم دے کر تمہارے حق میں تخفیف کردی گئی ہے۔ یہاں لفظ سے اصل معنی مراد نہیں ہیں اس لیے کہ غلطی سے قتل کردینے والے نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ توبہ کرے۔ ارشاد باری ہے وعفا عنکم اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد اس گناہ کی معافی ہے جس کے یہ لوگ اپنی ذات کے ساتھ خیانت کر کے مرتکب ہوئے تھے پھر جب انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی خیانتکا گناہ معاف کردیا ۔ ایک اور معنی کا بھی احتمال ہے اس سے مراد تسہیل اور توسع ہے یعنی آسانی اور وسعت یا گنجائش پیدا کردینا ، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ممنوع اشیاء کی اباحت کا حکم سنا دیا گیا تو بندوں کے لیے آسانی اور وسعت پیدا ہوگئی ، اس لیے کہ لغت میں عفو بمعنی تسہیل مستعمل ہے جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اول الوقت رضوان اللہ واخرہ عفو اللہ نماز کا اول وقت رضائے الٰہی ہے اور آخری وقت عفو الٰہی ہے یعنی اس کی طرف سے آسانی اور وسعت کا سامان ہے۔- قول باری ہے فالان باشروھن اس میں ہم بستری کی اباحت کا اعلان ہے جو اس سے قبل رمضان کی راتوں میں ممنوع تھا ۔ عربی میں مباشرت کے معنی بشرہ یعنی چہ رہے کو چہرے کے ساتھ چپکا یا لگا دینا ۔ اس جگہ پر لفظ ہم بستری سے کنایہ ہے ۔ زید بن اسلم نے کہا کہ مباشرتکا مفہوم ہم بستری اور عمل جنسی ہے ۔ انہوں نے ایک دفعہ مباشرت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد جلد کو جلد کے ساتھ چپکا دیتا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ مباشرت نکاح عمل جنسی کو کہتے ہیں ۔ مجاہد کا قول ہے کہ یہ جماع ہے۔ اسکی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ولا تبا شرومن وانتم عا کفون فی المساجد اور تم اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کے اندر ہو قول باری ہے وابتعوا ما کتب اللہ لکم عبد الوہاب نے اپنے والد کے واسطے سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد اولاد ہے۔ مجاہد ، حسن ، ضحاک اور حکم سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ معاذ بن ہشام نے اپنے والد سے انہوں نے عمرو بن مالک سے انہوں نے ابو الجوزاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد ممنوع اشیاء کی اجازت ہے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی یعنی تمہیں عطا کردی ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر فالان باشروھن سے مراد جماع ہے تو پھر قول باری وابتغوا ما کتب اللہ لکم کو جماع پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس سے ایک ہی خطاب میں ایک معنی کا دو دفعہ تکرار لازم آتا ہے اور اگر ہمارے لیے ہر لفظ کو ایک نئے معنی میں استعمال کرنا ممکن ہو تو پھر ایک ہی معنی پر اقتصاد درست نہیں ہے اور چونکہ قول باری فالان باشروھن ہم بستری کی اباحت پر دلالت کرتا ہے اس لیے کہ قول باری وابتغوا ما کتب اللہ لکم کی دلالت ہم بستری کے سوا کسی اور معنی پر ہونی چاہیے۔- پھر اس سے مراد یا تو لیلۃ القدر ہے جیسا کہ ابو الجوزاء نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے یا اولاد جیسا کہ آپ سے ایک اور روایت ہے اور آپ کے سوا ان لوگوں سے بھی جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے یا اس سے مراد ممنوعہ امور کی اجازت اور رخصت ہے جیسا کہ قتادہ سے مروی ہے۔ جب لفظ میں ان تمام معانی کا احتمال موجود ہے اور اگر احتمال موجود نہ ہوتا تو سلف سے ہرگز یہ معانی منقول نہ ہوتے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسے ان تمام معافی پر محمول کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ یہ سب اللہ کی مراد ہیں۔ اس بناپر یہ لفظ رمضان میں لیلۃ القدر کی تلاش ، اولاد کی طلب اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت کی پیروی سب کے لیے درست ہوگا ۔ اور بندہ ان میں سے جس کا بھی قصد کرے گا اجر کا مستحق ٹھہرے گا ۔ اولاد کی طلب کے حکم کا مفہوم وہی ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث میں ہے۔ آپ نے فرمایا تزوجوا الودود الولود فانی مکاثربکم الامم یوم القیامۃ ۔ بہت محبت کرنے والی اور زیادہ اولاد پیدا کرنے والی خاتون سے نکاح کرو کیونکہ قیامت کے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں میں تمہاری کثرت تعداد پر فخر کروں گا اور جس طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے یہ دعا مانگی تھی کہ انہیں ایک بیٹا عطا ہو۔- چنانچہ قرآن کے الفاظ ہیں فھب لی من لدنک ولیا یرثنی ویرث من آل یعقوب تو مجھے اپنے فضل خاص سے ایک وارث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث بھی پائے۔ قول باری ہے وکلوا واشربوا میں کھانے پینے پر پابندی کے خاتمے کا ذکر ہے جیسا کہ قول باری ہے فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض وابتغوافی فضل اللہ جب نماز جمعہ ادا ہوجائے تو زمین میں بکھر جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو ۔ یہ قول باری ہے واذا حلتم فاصطادوا اور جب تم احرام کھول دوتو پھر شکار کرلو اور اسی قسم کی دوسری مثالیں جن میں پابندی کے بعد اباحت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر ان الفاظ میں امر کا اقتصار اباحت یعنی پابندی کے خاتمے پر ہوگا نہ کہ وجوب پر اور نہ ہی استحباب پر ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری حتیٰ یتبین لکم الخیط ابیض من الخیط الاسود من الفجر کا اقتضا یہ ہے کہ کھانے پینے اور ہم بستری کے عمل کی اباحت اس وقت تک جاری رہے جب تک سیاہی شب کی دھاری سپیدہ ٔ صبح کی دھاری سے نمایاں نظر نہ آئے۔ تا ہم یہ بھی روایت ہے کہ صحابہ کرام میں سے بعض نے سفید دھاری ، سیاہ دھاری اور ان کا ایک دوسرے سے نمایاں نظر آنا ، سب کو حقیقی معنوں پر محمول کیا ہے ۔ ان میں سے ایک صحابی عدی بن حاتم ہیں ۔ ہمیں محمد بن بکر نے انہیں ابو دائود نے انہیں مسددنے ، انہیں حصین بن نمیر نے یہ روایت بیان کی ۔ نیز ابو دائود نے کہا کہ انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے ، انہیں ابن ادریس المعنی نے حصین سے ، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے حضرت عدی بن حاتم سے یہ روایت کی کہ حضرت عدی نے فرمایا ۔ جب آیت حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ، نازل ہوئی تو میں نے اونٹ کے پیروں کو باندھنے والے ایک سفید اور ایک سیاہ رسی لے کر اپنے تکیے کے نیچے رکھ لی، لیکن مجھے ان دونوں کے درمیان نمایاں فرق نظر نہیں آیا۔ میں نے یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی ۔ آپس ہنس پڑے اور فرمایا تمہارے تکیہ تو پھر بڑا ہی طویل و عریض ہوگا کہ اس میں افق پر ظاہر ہونے والی سفیدی اور سیاہی دونوں سما گئیں ۔ یہ دن اور رات ہے۔- عثمان کا قول ہے کہ اس سے مراد رات کی تاریکی اور دن کی روشنی ہے ۔ ہمیں ابوبکر محمد جعفر محمد الوسطی نے انہیں ابو الفضل جعفر بن محمد الیمانی نے ، انہیں ابو عبید نے ، انہیں ابن ابی مریم نے ابو غسان محمد بن مطرف سے یہ روایت بیان کی ۔ ابو غسان نے کہا کہ انہیں ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد (رض) سے یہ بات بتائی کہ جب قول باری وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود نازل ہوا اور من الفجر نازل نہ ہوا تو صحابہ کرام میں بہت سے لوگ ایسے تھے کہ جب سونے لگتے تو ایک پائوں میں سفید دھاگہ اور دوسرے پیر میں سیاہ دھاگہ باندھ لیتے ۔ پھر سحری کے وقت کھانے پینے کا عمل جاری رکھتے حتیٰ کہ دونوں دھاگے ایک دوسرے سے نمایاں نظر آتے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے من الفجر کا لفظ نازل فرمایا پھر سبکو پتہ چلا کہ اس سے مراد رات اور دن ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر من الفجر کو خیط اسود اور خیط ابیض کا بیان قرار دیا جائے تو اس کے بعد کسی کو یہ التباس نہیں ہونا چاہیے تھا کہ لفظ خیط سے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں ۔ اس لیے کہ لفظ من الفجر میں اس کا بیان موجود ہے۔- ایسا معلوم ہوا ہے کہ حضرت عدی (رض) اور آپ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام کو جنہوں نے اس لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا تھا۔ اشتباہ اسوقت پیش آیا تھا جب ابھی من الفجر نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے کہ لفظ خیط نام ہے اس دھاگے کا جو اپنے حقیقی معنوں میں معروف ہے لیکن یہ سیاہی شب اور سپیدۂ صبح کے معنوں میں بطور مجازا ور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کا بھی امکان ہے یہ لفظ اپنے ان معنوں میں قریش اور ان لوگوں کی لغت میں مستعمل ہو جو اس کلام کے مخاطب تھے یعنی اس کے نزول کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں موجود تھے۔ لیکن عدی بن حاتم (رض) اور ان جیسے اور لوگوں کو جنہیں اس لفظ کا مفہوم سمجھنے میں اشکال پیش آیا تھا، یہ لغت معلوم نہ ہو۔ اس لیے کہ تمام عربوں کو سر زمین عرب میں بولی جانے والی عربی کی تمام زبانوں سے واقفیت نہیں تھی۔ اس کا بھی امکان ہے کہ انہیں اس کا علم ہو کہ یہ لفظ حقیقت میں دھاگے کے لیے اسم ہے اور اس سیاسی شب اور سپیدہ صبح کے لیے مجاز ہے لیکن انہوں نے اس لفظ کو حقیقی معنی پر محمول کیا ہو ۔ پھر جب ان حضرات نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا تو آپ نے انہیں وہ معنی بتا دیے جو اللہ تعالیٰ کی مراد ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے من الفجر کا لفظ نازل فرمایا ۔ اس سے حقیقی معنی کا احتمال ختم ہوگیا اور اس لفظ سے سیاہی شب اور سپیدۂ صبح کا ہی مفہوم سمجھا جانے لگا ۔ اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ سیاہی شب اور سپیدۂ صبح کے معنوں کے لیے اسم کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور یہ استعمال لوگوں کے ہاں معروف تھا ۔ ابودائود ایادی کا شعر ہے یہ ایک جاہلی شاعر ہے۔- ؎ ولما اضاعت لنسا ظلمۃ ولا ح من الصبح خیط انارا - جب ہمارے سامنے تاریکی چھپ گئی اور صبح کا دھاگہ ظاہرہوا جس نے روشنی پھیلادی ۔ سیاہ دھاگے کے متعلق ایک اور شاعر نے کہا ہے۔- ؎ قد کا دیبدوا او بدت تباہ شرہ وسدف الخیط لیھر سائرہ - قریب تھا کہ صبح ظاہرہو جائے یا صبح کی روشنی اس کے ہم آغوش ہوجائے جب کہ شب کے سیاہ دھاگے پر ظاہرہونے والی روشنی ان لوگوں کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ ان اشعار سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ نزول قرآن سے پہلے لفظ خیط ان معنوں میں عربی زبان میں معروف تھا۔ ابو عبیدہ معمر بن المثنی کا قول ہے ۔ حبط ابیض ، صبح کو کہتے ہیں اور خیط اسود رات کو اور خیط کے معنی رنگ کے ہیں ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ رات کو سیاہ دھاگے کے ساتھ کس طرح تشبیہ دی جاسکتی ہے جبکہ رات کا سیاہ پورے عالم پر ہوتا ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ صبح کو سفید دھاگے کے ساتھ اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ صبح کی روشنی یا تو افق میں مستطیل ہوتی ہے یا اس کا ظہور زمین میں عرضا ہوتا ہے لیکن رات کی دھاگے کے ساتھ نہ کوئی مشابہت ہے اور نہ ہی مشاکلت ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سیاہ دھاگے سے مراد وہ سیاہی ہے جو سفید دھاگے کے ظہور سے پہلے اس جگہ ہوتی ہے ۔ اس طرح وہ اس جگہ پر سفید دھاگے کے مساوی ہوتی ہے جو اس کے بعد ظاہرہوتا ہے ۔ اس بنا پر اس سیاہی کا نام سیاہ دھاگہ رکھا گیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت کے متعلق روایت منقول ہے جس وقت میں روزہ دار پر کھانا پینا ممنوع ہوجاتا ہے۔ یہ روایت ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں حماد بن زید نے عبد اللہ بن سوا وہ قشیری سے ، انہوں نے اپنے والد سے بیان کیا ۔ والد نے کہا کہ میں نے حضرت سمرہ بن جندب (رض) کو خطبہ دیتے ہوئے سنا تھا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد تھا۔ لا یمنعکم من سحورکم اذا ن بلال ولا بیاض الافق الذیھکذا حتی یسطیر تمہیں سحری کھانے سے بلال کی اذان اور رافق کی سفیدی جو اس طرح ظاہر ہو، ہرگز نہ روکے ، جب تک کہ یہ سفیدی پھیل نہ جائے۔ ایک اور روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن عیسیٰ نے ، انہیں ملازم بن عمرو نے عبد اللہ بن النعمان سے ، جنہوں نے فرمایا کہ انہیں قیس بن طلق نے اپنے والد طلق سے رویت سنائی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( کلوا وشربوا ولا یسید نکم الساطمع المصعد فکلوا واشربوا حتی یعترض لکم الا حمر سحری کھائو پیو ، اور تمہیں آسمان میں افق سے بلند ہونے والی روشنی چمک کھانے پینے سے باز نہ رکھے ، اسی لیے کھانا پینا جاری رکھو حتیٰ کہ تمہارے سامنے افق پر عرضاً سرخی ظاہر نہ ہوجائے۔- اس روایت میں افق میں ظاہر ہونے والی سرخی کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ فجر یعنی ، افق میں ظاہرہونے والی سفیدی کا سرخی کے ظہور سے پہلے افق میں عرضا نمودار ہوتی ہے، کے ساتھ ہی روزہ دار پرکھانا پینا بند ہوجاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عدی بن حاتم کو سفید اور سیاہ دھاگے کا مفہوم سمجھاتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی ہے ۔ اس میں آپ نے سرخی کا ذکر نہیں فرمایا ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت حذیفہ سے یہ مروی ہے کہ ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سحری کھائی جبکہ دن تھا بس سورج نہیں نکلا تھا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ حدیث حضرت حذیفہ (رض) سے ثابت نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر واحد ہے جس کی وجہ سے قرآن کسی آیت کا مفہوم بدلا نہیں جاسکتا ۔ ارشاد باری ہے حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر اللہ تعالیٰ نے روہ دار پرکھانے پینے کی بندش اس دھاگے کے ظہور کے ساتھ واجب کردی جو سپیدۂ فجر کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے ۔ اب اگر حضرت حذیفہ (رض) کی حدیث کو اس کے حقیقی معنوں پر معمول کیا جائے تو اس سے اس بات کی اباحت ہوتی ہے جس پر آیت نے بندش لگائی ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عدی بن حاتم کی حدیث میں فرمایا کہ دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے ، اب روزے کی صورت میں دن نکلنے کے وقت کھانا کیسے درست ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن میں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنت میں اس نے منع کردیا ہے۔ اگر حضرت حذیفہ کی حدیث روایت کے معیار پر پوری اتر بھی جائے تو یہ دن نکلنے کے وقت کھاتے رہنا واجب نہیں کو تا کیونکہ حضرت حذیفہ نے اس وقت کھانے سے متعلق اپنے بارے میں خبر دی ہے نہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ۔ اب ان کا کھانے کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ ہونا ایسی بات نہیں ہے جس میں یہ دلالت ہو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کی اطلاع تھی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی توثیق کی تھی اور اگر یہ بات ثابت بھی ہوجائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم تھا اور آپ نے اس کی توفیق بھی فرما دی تھی تو اس میں احتمال ہے کہ یہ بات آخر شب طلوع فجر سے قبل ہوگئی ہو گی جسے حضرت حذیفہ نے دن سے اس کے قرب کی بنا پر اسے نہار یعنی دن کا نام دیا ۔ اس طرح کی ایک اور حدیث ہے ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عمرو بن محمد الناقد نے ، انہیں حماد بن خالد الخیاط نے، انہیں معاویہ بن صالح نے یونس بن سیف سے روایت کی، یونس نے الحرث بن زیاد سے ، الحرث نے ابو رہم سے ، اور انہوں نے حضرت عرباض بن ساریہ سے جو فرماتے ہیں کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان میں سحری کھانے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا ھلم الی الغداء المبارک آئو صبح کا مبارک کھانا کھالو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سحری کے کھانے کو صبح کے کھانے کا نام دیا اس لیے کہ طعام سحری کا زمانہ طعام صبح کے زمانے سے قریب ہوتا ہے اس لیے اس میں کوئی امتناع نہیں ۔ اگر حضرت حذیفہ نے قرب وقت کی وجہ سے سحری کے وقت کو نہار کا نام دیا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے سامنے جن قرآنی آیات کی تلاوت کی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اطلاع دی اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ روزے کا وقت فجر ثانی یعنی صبح صادق کے طلوع کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے جس کی روشنی عرضا ًافق میں پھیل جاتی ہے اور صبح کاذب جس کی روشنی آسمان کے وسط تک مستطیل شکل میں پھیلتی ہے وہ دراصل رات کا حصہ ہے۔ عرب کے لوگ اسے ذنب السر حان بھیڑیے کی دم کا نام دیتے ہیں۔ فجر کے متعلق شک میں مبتلا شخص کے حکم کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام ابو یوسف نے الاملاء املاء کرائے ہوئے اقوال کا مجموعہ جسے عام طور پر الامالی کا نام دیا جاتا ہے میں ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ جو شخص طلوع فجر کے متعلق شک میں پڑجائے وہ سحری نہ کھائے لیکن اگر اس نے سحری کھالی تو اس کا روزہ مکمل ہوجائے گا ۔ یہی تمام احناف کا قول ہے جو اصل میں منقول ہے اس سے مراد فقہ حنفی کی بنیادی کتابیں ہیں آپ نے مزید کہا کہ اگر اس نے کھا لیتا تو اس پر قضا لازم نہیں آئے گی ۔- ابن سماعہ نے امام ابو یوسف کے واسطے سے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ اگر اس نے طلوع فجر کے متعلق شک کرتے ہوئے کھالیا تو وہ ایک دن کی قضاکرے گا ۔ لیکن خود امام ابویوسف کا یہ قول کہ شک کی صورت میں اس پر قضا واجب نہیں ہوگی۔ حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ نے نقل کیا ہے کہ اگر وہ شخص ایسی جگہ ہو جہاں طلوع فجر واضح نظر آتا ہو اور وہ مطلع فجر کو بھی دیکھ سکتا ہو درمیان میں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو جب تک طلوع فجر کا ظہور نہ ہوجائے اس وقت تک وہ کھا پی سکتا ہے۔ یہی قول باری ہے وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر حسن بن زیاد نے کہا کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا اگر وہ ایسی جگہ ہو جہاں سے اسے طلوع فجر نظر نہ آتا ہو یا چاندنی رات ہو اور اسے فجر کے متعلق شک ہو تو کھانے سے باز رہے اور اگر کھالیا تو برا کیا ۔ اگر اس کی رائے کا رجحان زیادہ تر اس امر کی طرف ہو کہ اس نے طلوع فجر کی حالت میں کھایا ہے تو وہ روزہ قضا کرے گا ورنہ قضا نہیں کرے گا ۔ خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں ۔ حسن بن زیاد نے کہا کہ امام ابو یوسف اور امام زفر کا بھی یہی قول ہے اور یہی ہمارا بھی مسلک ہے احناف سے سورج کے غائب ہوجانے کے متعلق شک میں پڑجانے والے شخص کے بارے میں بھی اسی طرح کی اختلافی روایات ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ طلوع فجر کے متعلق شک کی صورت میں کھانے پینے کے بارے میں احناف کی کراہیت کی اصل اور املاء والی روایتوں کو حسن بن زیاد والی روایت پر محمول کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس میں سابقہ دونوں روایتوں کے اجمال کی تفسیر و تفصیل ہے نیز یہ روایت ظاہر کتاب اللہ کے بھی موافق ہے۔ حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ آپ نے دو آدمیوں کو روزوں کے ایام میں طلوع فجر دیکھنے کے لیے بھیجا تھا۔ ایک نے آ کر بتایا کہ صبح طلوع ہوگئی ہے اور دوسرے نے بتایا کہ ابھی طلوع نہیں ہوئی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارا اختلاف ہوگیا ہے اور پھر آپ نے روزہ رکھنے کے لیے سحری کھالی۔- اسی طرح حضرت ابن عمر (رض) سے بھی مروی ہے یہ بات اس صورت میں ہوگی جب بطریق مشاہدہ طلوع فجر کی معرفت حاصل ہوسکتی ہو ۔ قول بار ہے حتی یتبین لکم الخیط الایبض من الخیط الاسود من الفجر اللہ تعالیٰ نے طلوع فجر کے تبین تک کھاناپنیا مباح کردیا اور تبین کا مطلب علم یقینی کا حصول ہے اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ بندوں کو تبین کا حکم اسی صورت میں دیا گیا ہے جس میں ان کے لیے طلوع فجر کے متعلق یقینی علم تک پہنچنا ممکن ہو۔ اس لیے اگر چاندنی رات ہو یا بادل چھائے ہوں یا جگہ ایسی ہو جہاں سے طلوع فجرکا مشاہدہ نہ ہوسکتا ہو تو ان تمام صورتوں میں بندوں کو روزہ رکھنے کے متعلق احتیاط کرنے کا حکم ہے کیونکہ ان حالتوں میں طلوع فجر کے متعلق علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے اپنے دین کو شوائب سے پاک رکھنے کی خاطر اس پر کھانے پینے سے باز رہنا واجب ہوگا ۔- اس سلسلے میں ایک حدیث ہے جو ہمیں شعبہ نے بیان کی ، انہیں یزیل بن ابی مریم سلولی نے بتایا کہ میں نے ابو الجوزاء سعدی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے حسن بن علی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سنانے کی فرمائش کی ، اس پر حضرت حسن بن علی نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے دع ما یریبک الی مالا یریبک فان الصدیق طمانینۃ والکذب ریبۃ شک میں مبتلا کرنے والی باتوں کو چھوڑ کر شک میں نہ ڈالتے والی باتوں کی طرف آئو ، اس لیے کہ سچائی میں طمانیت ہوتی ہے اور جھوٹ میں خلش ۔ - ایک اور حدیث ہے جس کی روایت ہمیں محمد بن بکر نے کی ، انہیں ابو دائود نے انہیں احمد بن یونس نے ، انہیں ابو شہاب نے اور انہیں ابن عون نے شعبی سے روایت کی ، شعبی نے کہا کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ اور میں ان کے بعد کسی اور سے نہیں سنوں گا ۔ وہ فرماتے تھے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ان الحلال بین وان الحرام بین وبینھما امور متشابھات وسا ضرب فی ذلک مثلاً ان اللہ حمی وان حمی اللہ ما حرم وانہ من یرح حول الحمی یوشک ان یخالطہ وانہ من یخالط الریبۃ یوشک ان یجسر ۔ بیشک حلال واضح ہے اور بے شک حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان ایسے امور ہیں جن میں اشتباہ ہے یعنی ان کی حلت و حرمت واضح نہیں ہے۔ میں اس بارے میں ایک مثال دیتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ کی حفاظت اسے چاروں طرف سے گھیر کر کی ہے بیشک اللہ کی چراگاہ اسکی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں ، جو شخص چراگاہ کے ارد گرد اپنے مویشی چرائے گا عین ممکن ہے کہ وہ ممنوعہ چراگاہ میں داخل ہوجائے۔ جو شخص شک و شبہ کی باتوں میں پڑے گا ۔ عین ممکن ہے کہ وہ جسارت کا مرتکب ہوجائے ۔ ایک اور روایت ہے جو ہمیں محمد بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں ابراہیم بن موسیٰ رازی نے ، انہیں عیسیٰ نے ، انہیں زکریا نے عامر سے روایت کی ، عامر نے کہا کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ حدیث سنی ، آپ نے فرمایا و بینھما امور متشابھات لا یعلمھا کثیر من الناس ، فمن اتقی الشبھات استبرا عرضہ ودینہ ، ومن وقع فی الشبھات وقع فی الحرام ۔ حلال و حرام کے درمیان ایسے امور ہیں جن میں اشتباہ ہے۔ جس کا علم بہت سے لوگوں کو نہیں ہے جو شخص شبہ کی باتوں سے بچے گا وہ اپنی آبرو اور اپنا دین محفوظ کرلے گا اور جو شخص ان میں مبتلا ہوجائے گا وہ حرام میں گرجائے گا ۔ یہ روایات ایسی بات کے لیے قدم بڑھانے سے روک رہی ہیں جس کے متعلق شک ہو کہ آیا یہ مباح ہے یا ممنوع ، اس لیے ان احادیث پر عمل کرنا واجب ہے ۔ اس لیے طلوع فجر کے متعلق جسے شک ہوجائے اس کے لیے طلوع فجر کے متعلق یقینی علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہ جاتا کہ اس کا طلوع کب ہوگا تا کہ وہ اپنے دین اور اپنی آبرو کی حفاظت کرسکے۔ شبہ میں پڑھنے سے گریز کرسکے اور اللہ کی محفوظ چراگاہ میں در آنے سے اپنا دامن بچا سکے۔ اس لیے ہم نے اس شخص کے متعلق اللہ کے اس قول حتی یتبین لکم الخیط الا بیض من الخیط الاسود من الفجر پر عمل کیا جس کے لیے طلوع فجر کی معرفت ممکن ہو کہ کب طلوع ہوگا ۔ یہ ہے ہمارے اصحاب کا مسلک اور یہ ہے ان کا استدلال جس کا ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے ۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر اسے طلوع فجر کے متعلق شک ہوجائے تو میں اس کے کھا پی لینے کو ناپسند کروں گا اور اگر اس نے کھا پی لیا تو اس پر قضا لازم آئے گی۔ ثوری کا قول ہے کہ جب تک اسے شک ہو وہ سحری کرے یہاں تک کہ اسے فجر نظر آ جائے۔ عبیدہ بن الحسن اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر فجر کے بارے میں شک رکھتے ہوئے وہ کھالے گا تو اس پر کوئی چیز عائد نہیں ہوگی ۔ - جس شخص کا یہ قول ہے کہ طلوع کے متعلق شک کی صورت میں وہ سحری کھا سکتا ہے اور اس بات کا کوئی لحاظ نہ کرے کہ طلوع فجر کی ابتداء میں اس کے لیے اس کای قین علم حاصل کرنا ممکن ہے یا معتذر ، تو یہ قول غفلت پر مبنی ہے ۔ اس لیے کہ اگر کوئی نابینا کسی ایسی جگہ ہو جہاں اسے طلوع فجر کے متعلق بتانے والا کوئی نہ ہو تو اس کے لیے شک کے ساتھ کھانے پینے کا اقدام جائز نہیں ہوگا جب کہ عین ممکن ہے کہ صبح ہوگئی ہو ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی تاریک مکان میں ہوا ور اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ ابھی طلوع فجر نہیں ہوا ہے تو ایسی صورت میں شک کے ساتھ اس کے کھانے پینے کا اقدام جائز نہیں ہوگا ۔ اگر ان صورتوں میں سحریر کھانے کی اجازت دے دی جائے اور شک کو نظر انداز کردیا جائے تو اس قول کے قائل پر یہ لازم ہوگا کہ وہ ہر جگہ شک کو نظر انداز کرے اور ہر جگہ ایسے کام کے لیے قدم اٹھا لے جس کے متعلق اسے اطمینان نہ ہو کہ یہ ممنوع نہیں ہے مثلاً ایسی ہم بستری جس کی حلت میں شک ہو اور اسی طرح کے اور کام اس طرز عمل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث کی مخالفت پوشیدہ ہے جس میں آپ نے شبہات سے اجتناب کرتے اور شک سے گریز کر کے یقین کی طرف آنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اسی طرح اس طرز عمل سے مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت لازم آتی ہے ۔ اس لیے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلا ف رائے نہیں ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایسی عورت سے ہم بستری کا اقدام کرے جسے وہ جانتا نہ ہو اور اسے شک ہو کہ آیا یہ اس کی بیوی بھی ہے یا نہیں ۔ اسی طرح جس شخص نے اپنی بیویوں میں کسی ایک متعین بیوی کو تین طلاق دے دی اور پھر اسے نسیان ہوگیا تو ایسی صورت میں فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اب اس کے لیے اپنی کسی بیوی سے ہم بستری کا اقدام ناجائز ہوگا جب تک کہ اسے یہ علم نہ ہوجائے کہ یہ مطلقہ نہیں ہے۔ جس شخص کو طلوع فجر کے متعلق شک ہوا اور پھر وہ سحری کھالے ، اس پر قضا واجب کرنے کا قول بھی درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ جس طرح مشکوک چیز کی طرف قدم بڑھانامباح نہیں ہے اسی طرح شک کی بنا پر اقدام کی صورت میں اس پر قضا بھی واجب نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر بنیاد یہ ہو کہ فرض سے ایک انسان عہدہ برا ہوجائے تو پھر شک کی وجہ سے اس پر یہی فرض عائد کردینا جائز نہیں ہے۔ قول باری از احل لکم لیلۃ الصیام الوقت الی نساء کم تا من الخیط الا سود من الفجر جن احکام پر مشتمل ہے وہ یہ ہیں ۔ رمضان کی راتوں میں نمازعشاء کے بعد یا سو جانے کے بعد کھانے پینے اور ہم بستری کی حرمت کی منسوخی۔- اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ سنت قرآن کی وجہ سے منسوخ ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ ان باتوں کی ممانعت کا ثبوت جو سنت کے ذریعہ ہوئی تھی نہ کہ قرآن کے ذریعے پھر یہ قرآن میں مذکورہ اباحت کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ۔ اس میں یہ بھی دلالت ہے کہ جنابت روزے کی درستی کے منافی نہیں ہے کیونکہ اس میں رات کی ابتداء سے لے کر انتہا تک جماع کی اباحت ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جو شخص عین طلوع فجر کے وقت جماع سے فارغ ہوگا اس کی صبح حالت جنابت میں ہوگی ۔ لیکن ایسے شخص کے روزے کی درستی کا حکم اس قول باری ثم اتموا الصیام الی اللیل میں موجود ہے۔ آیت میں اولاد کی طلب کی بھی ترغیب موجود ہے جو قول باری وابتغوا ما کتب اللہ لکم سے ان حضرات کے قول کے مطابق واضح ہے جنہوں نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے نیز آیت میں اس معنی کا احتمال بھی موجود ہے۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں آتی ہے اس لیے کہ حضرت ابن عباس سے یہی تفسیر منقول ہے۔ اگر آیت میں اس کا احتمال نہ ہوتا تو حضرت ابن عباس (رض) کبھی یہ تفسیر نہ کرتے۔ ان لوگوں کی تاویل کی بنا پر جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ رخصت و اجازت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب بھی ہے۔ آیت میں یہ دلالت بھی ہے کہ فخر ثانی یعنی صبح صادق کے طلوع تک رات کا آخری حصہ باقی رہتا ہے۔ یہ دلالت قول باری احل لکم لیلۃ الصیام الدفث سے لے کرتا قول باری حتی یتبین ککم تک میں موجود ہے ۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ رات طلوع فجر تک ہوتی ہے اور اس کے بعد کا حصہ وہ دن کا حصہ ہوتا ہے۔ آیت میں یہ بھی دلالت ہے کہ کھانا پینا اور ہم بستری کرنا اس وقت تک جاری رہتا ہے ۔ جب تک کہ اسے طلوع فجر کا یقین نہ ہوجائے اور فجر کی روشنی نمودار نہ ہوجائے اور شک کی وجہ سے ان باتوں پر ممانعت وارد نہیں ہوگی اس لیے کہ استبانت یعنی روشنی نمودار ہوجانے کے ساتھ شک کا وجود باقی نہیں رہتا ۔ یہ حکم اس کے لیے ہے جسے طلوع فجر کے وقت اس کے متعلق یقینی علم کا حصول ہوسکتا ہو لیکن اگر کسی کو کسی پردے یا ضعف بصر پر یقینی علم حاصل نہ ہو سکے تو وہ اس خطاب یا حکم کا مخاطب نہیں ہے جیسا کہ ہم نے ابھی اس فضل سے پہلے بیان کردیا ہے۔- ممانعت کے بعد اباحت یا اجازت کا ورود اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے ایجاب یعنی واجب کردینا مراد نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایسی صورت میں لفظ سے مطلق حکم مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ ہم نے اس کے نظائر میں بیان کردیا ہے وہ یہ ہیں واذا حللتم فاصطادوام اور فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا تاہم اس کے باوجود اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ کھا پی لینا مستحب ہو ، یعنی وہ کھانا پینا جو سحری کے طور پر رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں عبد الباقی ابن قانع نے حدیث بیان کی ۔ انہیں ابراہیم الحربی نے ، انہیں مسدو نے ، انہیں ابوعوانہ نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تسحروا فان فی السحوربرکۃ ، سحری کرلیا کرو کیونکہ سحری کرنے میں برکت ہوتی ہے۔ ایک اور حدیث ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں عبد اللہ بن المبارک نے موسیٰ بن علی بن رباح سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے ابو قیس سے جو حضرت عمرو بن العاص کے آزاد کردہ غلام تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان فصلا ً بین صیامکم و صیام اھل کتاب اکلۃ السحور تمہارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان سحری کھانے اور نہ کھانے کا فرق ہے۔ ایک اور حدیث ہے جو ہمیں عبد الباقی نے بیان کی ، انہیں احمد بن عمرو الزئبقی نے ، انہیں عبد اللہ شبیب نے ، انہیں عبد اللہ بن سعید نے عبد الرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے والد سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عمر سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نعم غداء المومن السحور ، وان اللہ وملائکتہ یصلون علی المستحرین ، سحری مومن کے لیے بہت عمدہ کھانا ہے۔ اللہ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سحری کھانے کی ترغیب دی اور عین ممکن ہے کہ قول باری وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم المخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر میں کھانے پینے کی بعض صورتوں کے اندر سحری کی شمولیت مراد ہو ۔ اس بنا پر آیت کے ذریعے بھی سحری کھانے کی ترغیب ہوجائے گا ۔- اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں جو بنیادی بات ہے وہ یہ کہ کھانے پینے کی اباحت کی رخصت دی گئی ہے اب یہ کھانا پینا وہ ہے جو شب کے ابتدائی حصے میں ہوتا ہے نہ کہ سحری کے وقت ، اس بنا پر یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ ایک ہی لفظ اباحت و اجازت پر بھی دلالت کرے اور ترغیب پر بھی ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ درست ہے کہ ظاہر آیت سے ترغیب ثابت نہیں ہوتی لیکن اس سے ہمارے دعوے پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ہم نے ترغیب کی بات سنت سے ثابت کی ہے۔ رہ گئی ظاہر آیت جو جس طرح ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اس سے مطلقاً اباحت ثابت ہوتی ہے۔ آیت میں اس پر بھی دلالت ہے کہ غایت یعنی انتہاء اس حکم میں داخل نہیں ہوتی جس کے حدود اس غایت کے ذریعے مقرر کیے جاتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں غایت مغیا کے حکم میں داخل نہیں ہوتی ۔ قول باری ہے حتی یتبین لکم الخیط الابیض تبین کی حالت کھانے پینے کی اباحت کے حکم میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی یہ مراد ہے پھر قول باری ہے ثم اتموا الصیام الی اللیل یہاں اللہ تعالیٰ نے رات کو روزے کی غایت یا انتہا قرار دی لیکن رات کو روزے میں داخل نہیں کی ۔ تا ہم بعض مواقع پر غایت مغیا میں داخل ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے ولا جنبا الا عابری سبیل حتی تغتسلو اور نہ جنابت کی حالت ہو یہاں تک کہ تم غسل نہ کرلو مگر یہ کہ تم حالت سفر میں ہو یہاں غایت یعنی غسل نماز کی اباحت کے لیے مراد و مقصود ہے اور وہ معیا ً میں داخل ہے۔ اسی طرح قول باری ہے وایدیکم الیالموافق اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوئو اور وارجلکم الی الکعبین اور پیرئوں کو ٹخنوں سمیت غایت حکم کے مراد میں داخل ہے۔ یہ مثالیں اس اصول کی بنیاد ہیں کہ بعض حالتوں میں غایت ما قبل کے حکم میں داخل ہوتی ہے اور بعض حالتوں میں داخل نہیں ہوتی ۔ نیز غایت کے حکم کو ساقط یا ثابت کرنے کے لیے کسی اور دلالت کی ضرورت ہوتی ہے۔- قول باری ہے ثم اتموا الصیام الی اللیل ثم حرف عطف ہے اور یہ ما قبل کے بیان یعنی اکل و شرب اور جماع کی اباحت پر معطوف ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ روزہ نام ہے ان چیزوں سے باز رہنے کا جن کی رات کے وقت اباحت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے یعنی کھانا پینا اور ہم بستری کرنا ۔ اس کے متعلق تفصیل کے ساتھ بیان گزشتہ سطور میں ہوچکا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ شرعی روزہ جن امور کا تقاضا کرتا ہے ان میں سے بعض تو امساک کے زمرے میں آتے ہیں اور بعض شرائط کے زمرے میں پھر جا کر کہیں روزہ شرعی روزہ بنتا ہے۔ قول باری ثم اتموا الصیام الی اللیل میں اس پر دلالت موجود ہے کہ جو شخص کسی عذر کے بغیر روزہ نہ رکھ سکا تو اس کے بعد اس کے لیے کھانا پینا نہیں ہوگا اور اس پر یہ لازم ہوگا کہ جن باتوں سے روزہ دار باز رہتا ہے ان سے یہ بھی باز رہے۔ اس لیے کہ اس قسم کا امساک بھی روزے کی صورت ہے اگرچہ ادھوری ہی سہی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ آپ نے عاشورہ کے دن مدینہ کے بالائی حصہ کے باشندوں کو پیغام بھیجا کہ جس نے صبح سے کچھ کھالیا ہو وہ باقی ماندہ دن روزہ رکھے اور جس نے کچھ نہیں کھایا وہ عاشورہ کا روزہ رکھے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانے کے بعد باقی ماندہ دن کھانے پینے سے باز رہنے کو صوم فرمایا۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ باقی ماندہ دن امساک شرعی روزہ نہیں ہوسکتا تو آیت میں صیام کا لفظ اسے شامل نہیں ہوگا کیونکہ آیت ثم اتم الصیام الی اللیل میں صوم میں سے مراد شرعی روزہ ہے۔ لغوی روزہ نہیں ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ہمارے نزدیک شرعی روزہ ہے اس کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا اور اس کے بدلے قضا بھی واجب کردی تھی۔- قضا کے وجوب سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اس کی استحبابی حیثیت ختم ہوجائے جس پر روزہ دارثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ اس میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ جس شخص نے رمضان میں روزے کی نیت کے بغیر صبح کی تو اس پر روزہ پورا کرنا لازم ہے اور جب تک روزے کے منافی کوئی کام یعنی اکل و شرب اور جماع نہ کرے اس کا روزہ درست ہوجائے گا اور رمضان کا پورا ہوجائے گا ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ظاہر آیت جس بات کا تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ روزہ دار کو اتمام صوم کا حکم ملا ہے اور اتمام کا اطلاق اس صورت پر ہی ہوسکتا ہے جہاں دخول یعنی ابتدائے صوم درست ہو ، اور نیت کے بغیر صبح کرنے والا شخص روزے میں داخل ہی نہیں ہوا کہ اسے اتمام کا حکم لاحق ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب ایسا شخص ان تمام کاموں سے باز رہا جن سے روزہ دار باز رہتا ہے یعنی اکل و شرب اور جماع تو اس کا روزے میں دخول درست ہوگیا یعنی اس کی ابتدا درست ہوگئی اس لیے ہم نے دلائل کے ساتھ پہلے بیان کردیا ہے کہ امساک سے شرعی روزہ ہوجاتا ہے اگرچہ اس امساک سے فرض یا نفل روزے کی قضا پوری نہیں ہوتی ۔ - اس بات کی دلیل کہ نیت نہ ہونے کے باوجود یہ روز ہ ہے یہ ہے کہ تمام فقہاء امصار کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص غیر رمضان میں صبح ہونے تک روزے تک نیت نہ کرے لیکن ان تمام کاموں سے باز رہے جن سے روزہ دار باز رہتا ہے اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ نفلی روزے کی نیت کرے، اس طرح اس کا نفلی روزہ مکمل ہوجائے گا ۔ اگر دن کا وہ حصہ جو نیت کے بغیر گزرا ایساروزہ نہ ہوتا جس پر شرعی روزے کا حکم لگ سکے تو یہ بات ہرگز جائز نہ ہوتی کہ صبح کے بعد نیت کرنے کی وجہ سے اس ایسے روزے کے لیے شرعی روزے کا حکم ثابت ہوجائے ۔ آپ دیکھتے نہیں کہ اگر صبح کے بعد اس نے کھا پی لیا ہوا ور پھر نفلی روزے کی نیت کرلے تو روزہ درست نہیں ہوگا ۔ ہمارے اس بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری ثم اتموا الصیام الی اللیل میں رمضان کے روزے کے لیے دن کے آغاز کے بعد نیت کے جواز پر دلالت درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔- نفلی روزے میں دخول سے روزہ لازم ہوجاتا ہے - قول باری ثم اتموا الصیام الی اللیل اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص نفلی روزہ شروع کرلے۔ اس پر اسے پورا کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔ امس لیے کہ قول باری احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نساء کم ان تمام راتوں کے لیے عام ہے جن کی صبح لوگ روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں ۔ یہاں یہ درست نہیں ہے کہ انہیں صرف رمضان کی راتوں کے سات خاص کردیا جائے اور دوسری راتیں مراد نہ لی جائیں کیونکہ اس سے بغیر کسی دلالت کے عموم کی تخصیص لازم آتی ہے۔ جب نفلی روزوں کی راتوں میں کھانے پینے اور ہم بستری کی اباحت کے سلسلے میں اس لفظ کے حکم پر عمل ہوا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لفظ سے یہی اباحت مراد ہے۔ پھر اس پر قول باری ثم اتموا الصیام الی اللیل کو معطوف کیا گیا ، جس سے یہ اقتضا پیداہو گیا کہ اس روزے کا اتمام لازم ہوگیا جس میں دخول صحیح ہوگیا ہو یعنی جس کی ابتدا درست ہوگئی ہو۔ خواہ وہ نفلی روزہ ہو یا فرض اور اللہ کے اوامر وجوب کے مقتضی ہوتے ہیں۔ اس لیے جو شخص فرض یا نفلی روزہ شروع کرلے اس کے لیے بغیر کسی عذر کے اس روزے سے نکل آنا درست نہ ہوگا اور جب ظاہر آیت سے ایسے روزے کو جاری رکھنا اور اسے پورا کرنا لازم ہوگیا تو اس پر اتمام کے وجوب کا حکم لگانا درست ہوگا اور جب وہ اسے فاسد کر دے گا تو اس پر اس کی قضا لازم آئے گی جس طرح کہ تمام واجبات کی صورت حال ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ روایت میں ہے کہ درج بالا آیت کا نزول فرض روزے کے سلسلے میں ہوا تھا اس لیے ضروری ہے کہ اس میں مندرج حکم صرف فرض روزے تک محدود رہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کسی سبب کی بنا پر آیت کا نزول ہمارے نزدیک اس بات سے مانع نہیں ہوتا کہ اس کے عموم لفظ کا اعتبار نہ کیا جائے ۔ اس لیے کہ ہمارے نزدیک لفظ کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ سبب کا اگر یہاں حکم صرف سبب تک محدود ہوتا تو پھر یہ ضروری ہوتا کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جنہوں نے اپنے آپ سے رمضان کی راتوں میں فریب کیا تھا یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ ہم بستری کی تھی۔- اب جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ حکم ان لوگوں کو اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو جن کی یہ حالت نہ تھی ، سب کو عام ہے تو یہ اس بات کی دلیل بن گئی کہ یہ حکم صرف سبب تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تمام روزوں کے لیے عام ہے جس طرح یہ رمضان کے روزوں میں تمام لوگوں کے لیے عام ہے ۔ اس بیان سے ہمارے اس استدلال کی صحت ثابت ہوگئی کہ قول باری ( ثم اتموا الصیام الی اللیل) روزے کے لزوم پر دلالت کرتا ہے جب اسکی ابتداء کرلی جائے۔ فقہاء کا اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ جو شخص نفلی روزہ یا نفلی نماز شروع کرلے پھر اسے فاسد کر دے یا اسے فاسد کردینے والی کوئی بات پیش آ جائے تو اس پر اس کی قضا لازم ہوگی ۔ امام اوزاعی کا بھی یہی قول ہے جبکہ وہ اسے خود فاسد کردے ، حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز شروع کرلے تو اسے جو کم سے کم نماز لازم ہوگی وہ دو رکعت ہوگی۔- امام مالک کا قول ہے کہ اگر اس نے خود اسے فاسدکر دیا تو اس پر اس کی قضا لازم آئے گی اور اگر کوئی سبب ایسا پیدا ہوگیا جو اسے نماز سے باہر کر دے تو پھر قضا لازم نہیں ہوگی ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر بطور نفل ایک چیز کو شروع کر کے اسے فاسد کر دے تو اس پر کوئی قضا لازم نہیں آئے گی ۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے ہمارے قول کے مطابق روایتیں ہیں۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے انہیں بشر ین موسیٰ نے ، انہیں سعید بن منصور نے ، انہیں ہشیم نے ، انہیں عثمان البتی نے انس بن سیرین سے روایت بیان کی ، انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن روزہ رکھ لیا لیکن روزے کی وجہ سے نڈھال ہوگیا اور پھر میں نے روزہ تو ڑدیا ۔ بعد میں میں نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر (رض) سے مسئلہ پوچھا تو ان دونوں حضرات نے مجھے اس روزے کے بدلے ایک دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ طلحہ بن یحییٰ نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اس نفلی روزے کی حیثیت صدقے کی طرح ہے جو کوئی شخص اپنے مال میں سے نکالتا ہے۔ اس کی مرضی ہو تو صدقہ نکال دے اور مرضی ہو تو روک لے ۔ حج اور عمرہ کے متعلق اختلاف رائے نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص نفلی حج اور عمرے کا احرام باندھ لے اور پھر فاسد کر ڈالے تو اس پر ان دونوں کی قضا لازم ہوگی ۔ لیکن اگر حالت احصار میں گرفتار ہوجائے تو پھر ایسے شخص کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب اور ان کے ہم خیال فقہاء کا قول ہے کہ اس پر قضا ہے اور امام مالک اور اما شافعی کا قول ہے کہ ایسے شخص پر قضا نہیں ہے۔ ہم نے قول باری ثم اتموا الصیام الی اللیل میں اس بات پر دلالت ثابت کردی ہے کہ اللہ کا یہ قول قضا واجب کرتا ہے خواہ وہ اس سے کسی عذر کی بنا پر یا بلا عذر نکل آیا ہو اس لیے کہ آیت کا اقتضایہ ہے کہ ابتدا کرنے کے ساتھ ایجاب ہوجاتا ہے۔ پھر جب یہ واجب ہوگیا تو قضا واجب کرنے کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ اس سے اس کا خروج کسی عذر کی بنا پر ہوا تھا یا بلا کسی عذر کے۔ جس طرح کہ ان تمام واجبات کا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازم کیے گئے ہیں ۔ مثلاً نماز روزہ یا ان کے علاوہ اور چیزیں مثلاً نذر وغیرہ ۔ بندہ اگر کوئی قربت یعنی عبادت کی ابتداء کرلے تو اس آیت کی رو سے اس پر یہ عبادت لازما ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں اس آیت کی نظریہ قول باری ہے وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبا نیۃ ابتدا عوھا ما کتبنا ھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعا یتھا اور جن لوگوں نے ان کی یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی کی ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور نرمی رکھ دی تھی اور رہبانیت کو انہوں نے خود ایجاد ک لیا ، ہم نے ان پر یہ واجب نہیں کیا تھا انہوں نے اللہ کی رضا مندی کی خاطر اسے اختیار کرلیا تھا ، مگر انہوں نے اس کی پوری پوری رعایت نہیں کی۔- ابتداء یعنی ایجاد کبھی فعل کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی قول کے ذریعے پھر اللہ نے ان لوگوں کی مذمت کی جنہوں نے رہبانیت کو ایجاد کرلینے کے بعد اس کی رعایت نہیں کی ۔ اس لیے اس آیت کی اس پر دلالت ہوگئی کہ جو شخص کوئی قربت یعنی عبادت کی ابتدا اس میں دخول کے ساتھ کرلے یا قول کے ذریعے اسے اپنے اوپر واجب کرلے تو اس پر اس کا اتمام لازم ہوگا ۔ اس لیے کہ جو شخص اسے پورا کرنے سے پہلے اسے ختم کر دے گا وہ گویا اس کی پوری پوری رعایت نہیں کرے گا ۔ اور مذمت کا پہلو اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب واجبات ترک کی جائیں ۔ اس لیے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ واجبات کی ابتدا کرنے پر ان کے لزوم کی صورت وہی ہے جو نذر یا قول کے ذریعے اپنے اوپر کوئی چیز واجب کرنے کی ہے۔ اس سلسلے میں قول باری ولا تکونوا گا لتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا ً تمہاری حالت اس عورت کی سنی نہ ہوجائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اللہ تعالیٰ نے اسے شخص کے لیے بطور مثال بیان کیا ہے جس نے اللہ کے نام پر کوئی عہد کیا یا حلف اٹھایا لیکن پھر اسے پورا نہیں کیا اور اس کی پاسداری نہیں کی۔- آیت میں ہر اس شخص کے لیے عموم ہے جو کسی قربت یعنی عبادت میں داخل ہوجائے اور اسے شروع کر بیٹھے تو اس کے اتمام سے پہلے اسے توڑ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب وہ اسے توڑے گا تو اس کا جتنا حصہ کرچکا ہے اسے فاسد اور برباد کر بیٹھے گا جبکہ اس عبادت میں دخول کے ذریعے اس نے اس عبادت کو درست رکھنے کی ایک قسم کی ذمہ داری اٹھائی تھی ۔ اس طرح اس کی حیثیت اس عورت کی طرح ہوجائے گی جس نے اپنی قوت لگا کر سوت کا تا اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ یہ استدلال اس بات کو واجب کرتا ہے کہ جو شخص کسی حق اللہ عبادت کی ابتدا کرے خواہ وہ بنیادی طور پر نفل ہی کیوں نہ ہو اس کے ذمہ اس کا پورا کرنا اور اسے آخر تک پہنچانا لازم آئے گا ۔ تا کہ اس کی حیثیت اس عورت کی طرح نہ ہوجائے جو اپنے کا تے ہوئے سوت کو خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ آیت تو اس شخص کے متعلق ہے جو عہد و پیمان کو پختہ کرنے کے بعد اسے توڑڈالے۔ اس لیے کہ قول باری ہے واو فوا بعھد اللہ اذا عاھد تم جب تم عہد کرو تو اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرو پھر اس پر یہ ارشاد باری ولا تکرنو گا لتی نقضت عزلھا من بعد قوۃ انکاثا ً معطوف ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کا کسی خاص سبب کے تحت نزول اس بات سے مانع نہیں ہوتا ہے کہ اس کے عموم لفظ کا اعتبار نہ کیا جائے ۔ اس پر ہم تفصیلا ً کئی مقامات پر روشنی ڈال آئے ہیں ۔ کسی عبادت شروع کرنے کے بعد اس کو اختتام تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کر رہا ہے ولا تبطلوا اعمالکم اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو ہم جانتے تھے کہ نماز میں کم سے کم دو رکعتیں ہوتی ہیں اور روزہ میں کم سے کم دو رکعتیں ہوتی ہیں اور وہ روزہ میں کم سے کم ایک دن ہوتا ہے ۔ نوافل کی صحت اور ان کی قربت الٰہی ہونے کا دارومدار اس امر پر ہے کہ فرائض کی نسبت سے ان کا مقام کیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نوافل کی صحت کے لیے بھی وہی شرائط درکار ہیں جو فرائض کے لیے ہیں ۔ آپ دیکھتے نہیں کہ نفلی روزہ کھانے پینے اور ہم بستری سے باز رہنے کے لحاظ سے فرض روزے کی طرح ہے۔ اسی طرح نفل نماز میں طہارت ، قرأت ، ستر پوشی اور دیگر شرائط کی اسی صرح ضرورت ہوتی ہے جس طرح فرض نمازوں میں ۔ اب چونکہ اصل فرض میں ایک رکعت کا وجود نہیں ، اسی طرح دن کے بعض حصے کے روزے کا بھی وجود نہیں اس بنا پر یہ واجب ہے کہ نفل کا بھی یہی حکم ہو۔- اس بنا پر اگر کوئی شخص نفل شروع کرلے اور پھر اتمام سے پہلے اسے فاسد اور برباد کرڈالے تو گویا اس نے اس عبادت کو ہی باطل کردیا اور اس کی وجہ سے ملنے والے ثواب کو بھی ضائع کردیا ۔ ادھر قول باری ولا تبطلوا اعمالکم ایسے شخص کو اس عبادت کے اتمام سے پہلے اس سے خروج کو روکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے باطل کرنے سے منع کردیا ہے ۔ اب جبکہ اس پر اس کا اتمام لازم ہوگیا تو اگر وہ اتمام سے پہلے اس سے نکل آئے تو اس پر اس کی قضا لازم آئے گی خواہ اس کا نکلنا کسی عذر کی بنا پر تھا یا بلا کسی عذر کے۔- سنت میں بھی اس کی دلیل موجود ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث مروی ہے کہ آپ نے البتیراء سے منع فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان صرف ایک رکعت نماز ادا کرے۔ اس لیے یہ لفظ اس کے تمام ایجاب کا تقاضا کرتا ہے ۔ جب اتمام واجب ہوگیا تو یہ عبادت اس کے لیے لازم ہوگئی ۔ اس لیے جب وہ اسے فاسد کر دے گا یا فاسد کرنے والا کوئی سبب پیدا ہوجائے گا جو اس کے اختیار سے باہر ہو تو اس صورت میں اس پر اس کی قضا لازم آئے گی جیسا کہ تمام واجبات کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس پر حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من کسوا و عرج فقد حل وعلیہ الحج من قابل جو شخص حالت احرام میں حج سے پہلے لنگڑا ہوگیا یا اس کی ہڈی ٹوٹ گئی تو اس کا احرام کھل گیا ، اس پر اگلے سال حج لازم ہوگا ۔- عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے بیان کی ، تو دونوں نے فرمایا کہ حجاج بن عمرو انصاری نے سچ کہا ہے۔ اس طرح اس کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین راوی ہوگئے۔ یہ حدیث دو باتوں پر دلالت کرتی ہے اول یہ ہے کہ حج میں دخول کے ساتھ حج لازم ہوگیا اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرض اور نفل حج میں فرق نہیں کیا ۔ دوم یہ کہ اگر وہ اس سے اپنے اختیار کے بغیر بھی نکل آئے تب بھی اس پر قضا واجب ہوگی ۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے انہیں احمد بن صالح نے ، انہیں عبد اللہ بن وہب نے ، انہیں حیوہ بن شریح نے ابن الہاد سے ، انہوں نے عروہ کے آزاد غلام زمیل سے ، انہوں نے عروہ بن الزبیر سے ، انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے جنہوں نے فرمایا کہ میرے اور حفصہ کے لیے ہدیہ کے طور پر کہیں سے کوئی کھانے کی چیز آئی ، ہم دونوں روزے سے تھیں ، ہم نے روزہ توڑ دیا ۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم روزے سے تھے کہیں سے کھانا آگیا ہمیں اس کی اشتہا ہوئی چناچہ ہم نے روزہ توڑ دیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” نہیں ، تم دونوں کے ذمہ اسے روزے کے بدلے ایک دن کا روزہ ہوگیا “۔- یہ حدیث نفلی روزے کی قضا کے وجوب پر دلالت کر رہی ہے اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں سے ان کے روزوں کی جہت یا صفت کے متعلق کچھ نہیں پوچھا تھا۔ اسی حدیث کی روایت ہمیں عبد الباقی بن قانع نے کی ہے ، انہیں ابراہیم بن عبد اللہ نے ، انہیں القعنبی نے ، انہیں عبد اللہ بن عمر نے ابن شہاب سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میں اور حفصہ ایک صبح نفلی روزے سے تھیں ۔ ہمیں بطور ہدیہ کھانا بھیجا گیا ۔ ہم نے روزہ توڑ دیا ۔ حفصہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم دونوں کو روزہ قضا کرنے کا حکم دیا۔- اس حدیث کی روایت اس طرح بھی ہوئی ہے کہ عبد الباقی نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن اسید الاصفہائی الاکبر نے انہیں از ہر بن جمیل نے ، انہیں ابو ہمام محمد بن الزیر قان نے عبد اللہ بن عمر سے ، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے درج بالا حدیث سے ملتے جلتے الفاظ میں روایت کی ہے۔ ایک اور سلسلہ سند سے یہ حدیث مروی ہے ۔ عبد الباقی نے کہا کہ انہیں اسحاق نے ، انہیں القعبنی نے امام مالک سے اور انہوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ (رض) نے نفلی روزہ رکھا۔۔۔۔ پھر درج بالا حدیث بیان کی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کو ایک دن قضا روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ انہیں حدیث کی سند پر اصحاب حدیث نے کلام کرتے ہوئے طعن کے کئی وجوہات بیان کیے ہیں ۔ ایک وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث جو ہمیں عبد الباقی بن قانع نے ، انہیں بشر بن موسیٰ نے انہیں حمیدی نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سفیان کو یہ حدیث زہری سے بیان کرتے ہوئے سنا تھا ، زہری سے پوچھا گیا تھا کہ آیایہ عروہ کی روایت کردہ حدیث ہے، زہری نے فرمایا کہ یہ عروہ کی روایت کردہ حدیث نہیں ہے۔- حمیدی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک سے زائد افراد نے معمر سے روایت کی ہے جس میں معمر نے کہا ہے کہ اگر یہ زہری کی روایت کردہ حدیث ہوتی تو میں ہرگز نہ بھولتا اصحاب حدیث کی یہ جرح ہمارے نزدیک اس حدیث کو باطل نہیں ٹھہراتی اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ زہری نے اپنے قول سے یہ مراد لی ہو کہ انہوں نے یہ حدیث عروہ سے نہیں سنی ہے بلکہ عروہ کے علاوہ کسی اور سے سنی ہے۔ زہری کی اکثر روایتیں عروہ سے مرسل ہوتی ہیں جس میں سند کی آخری کڑی یعنی صحابی کا ذکر نہیں ہوتا اور ہمارا مسلک یہ ہے کہ زہری کا کسی روایت کا مرسل بیان کرنا اس روایت کے فساد کا سبب نہیں بنتا ۔ رہا معمر کا یہ قول کہ اگر یہ زہری کی روایت کردہ حدیث ہوتی تو میں اسے ہرگز نہ بھولتا تو اسکی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا امکان موجود ہے کہ معمر کو زہری کی حدیث میں نسیان ہوگیا ہو جیسا اور کی حدیث میں ہوتا ہے ، جبکہ اکثر حالات میں معمر کا زہری سے سماع نہیں ہوتا اور معمر کے سوا دوسروں کا سماع ان سے ہوتا ہے اور ان سے وہ لوگ روایت بھی کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ حدیث اس بنا پر فاسد قرار نہیں دی جاسکتی کہ معمر نے زہری سے اسکا سماع نہیں کیا ہے ، حالانکہ اسے عروہ کے آزاد کردہ غلام زمیل نے عروہ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ اس حدیث میں طعن کی ایک اور وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ابن جریج نے زہری سے یہ پوچھا تھا کہ آپ نے عروہ سے یہ حدیث سنی ہے ؟ زہری نے جواب میں کہا کہ مجھے تو اس حدیث کی ایک شخص نے خبر دی تھی جو خلفیہ عبد الملک کے دروازے پر کھڑا تھا ، اس شخص کے متعلق ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ یہ سلیمان بن ارقم تھا۔ - (بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
(١٨٨) یہ آیت کریمہ عبدان بن اشرع (رح) اور امری القیس (رح) کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ ظلم، چوری، غصب اور جھوٹی قسم وغیرہ سے کسی کا مال نہ کھاؤ اور حاکموں کے پاس بھی اس چیز کو نہ لے جاؤ تاکہ ایک جماعت جھوٹی قسموں سے دوسرے کا مال کھالے تو اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد امرا القیس اپنے مال پر قائم رہا۔- شان نزول : ولا تاکلوا “ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کی ہے کہ امراء القیس (رح) بن حابس (رح) اور عبدان بن اشرع حضری (رح) ان دونوں میں ایک زمین کے بارے میں جھگڑا ہو اتو امرا القیس (رح) نے قسم اٹھانے کا ارادہ کیا، اس پر یہ آیت کریمہ اتری کہ ناحق طریقہ پر ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
فرمایا :- آیت ١٨٨ (وَلاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ ) (وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَی الْحُکَّامِ ) (لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَال النَّاس بالْاِثْمِ ) - (وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) - یہ تقویٰ کے لیے معیار اور کسوٹی ہے۔ جو شخص اکل حلال پر قانع ہوگیا اور حرام خوری سے بچ گیا وہ متقی ہے۔ ورنہ نمازوں اور روزوں کے انبار کے ساتھ ساتھ جو شخص حرام خوری کی روش اختیار کیے ہوئے ہے وہ متقی نہیں ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ احکام کی آیات کے درمیان یہ آیت کیونکر آئی ہے۔ اس سے پہلے روزے کے احکام آئے ہیں ‘ آگے حج کے احکام آ رہے ہیں ‘ پھر قتال کے احکام آئیں گے۔ ان کے درمیان میں اس آیت کی کیا حکمت ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ جیسے روزے کی حکمت کا نقطۂعروج یہ ہے کہ روح انسانی میں تقرّب الی اللہ کی طلب پیدا ہوجائے اسی طرح احکام صوم کا نقطۂعروج اکل حلال ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :197 اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حا کموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدے اٹھانے کی کوشش نہ کرو ۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دوسرے شخص کا ہے ، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو ، اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جاؤ ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکم عدالت روداد مقدمہ کے لحاظ سے وہ مال تم کو دلوا دے ۔ مگر حاکم کا ایسا فیصلہ دراصل غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکا کھا جانے کا نتیجہ ہو گا ۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کر لینے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہ بن جاؤ گے ۔ عنداللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما انا بشر و انتم تختصمون الی و لعل بعضکم یکون الحنَ بحجتہ من بعض ، فا قضی لہ علی نحو ما اسمع منہ ۔ فمن قضیت لہ بشیء من حق اخیہ ، فانما ا قضی لہ قطعۃ من النار ۔ یعنی میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم سے ایک فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں ۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی ، تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کر و گے ۔