201۔ 1 یعنی اعمال خیر کی توفیق، اہل ایمان دنیا میں بھی دنیا طلب نہیں کرتے بلکہ نیکی کی ہی توفیق طلب کرتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے یہ پڑھتے تھے۔ طواف کے دوران ہر چکر کی الگ الگ دعا پڑھتے ہیں جو خود ساختہ ہیں ان کے بجائے طواف کے وقت یہی دعا پڑھی جائے۔ (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ) 002:201 رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان پڑھنا مسنون عمل ہے۔
[٢٧٢] چونکہ دنیا پہلے ہے اور آخرت بعد میں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے دنیا کا پہلے ذکر فرمایا۔ گویا مومن کو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے بھلائی مطلوب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی۔ پھر بھلائی کے لفظ میں جو وسعت ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں یہ دعا بہت جامع قسم کی دعا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حج کے دوران طواف کرتے وقت اور دوسرے اکثر اوقات میں بھی یہی دعا فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) - ان دو آیات میں ایک دنیا دار اور ایک مومن کے مقاصد زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے جو شخص آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتا۔ اس کی زندگی کا تمام تر مقصد مفادات دنیا کا حصول ہوتا ہے۔ اس کی تمام کوششیں اسی مقصد میں صرف ہوجاتی ہیں لیکن اسے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اللہ نے اس کے مقدر کر رکھا ہے اور یہی کچھ اس کا حصہ ہے۔ آخرت میں اگر اس کے کچھ نیک اعمال تھے بھی۔ تو اس کا اسے کچھ اجر وثواب نہیں ملے گا۔ اس کے مقابلہ میں مومن کا مقصد اگرچہ مفادات اخروی کا حصول ہوتا ہے اور وہ اسے مل بھی جائے گی۔ لیکن دنیا کی زندگی کے مفادات بھی اس کے لیے ممنوع نہیں، بلکہ اس میں سے بھی اتنا حصہ اسے ضرور ملے گا جتنا اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں کر رکھا ہے۔ لہذا اس کی دعا کا انداز ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے پروردگار سے دنیا بھی طلب کرتا ہے اور آخرت کے مفادات بھی۔ لہذا ایسے ہی لوگ بہرحال فائدہ میں رہتے ہیں۔
وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَاب النَّار یعنی ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی دعاؤں میں اللہ تعالیٰ سے دنیا کی بھلائی اور بہتری بھی مانگتے ہیں اور آخرت کی بہتری بھی اور عذاب جہنم سے پناہ مانگتے ہیں۔- اس میں لفظ حسنۃ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں اور بھلائیوں کو شامل ہے مثلاً دنیا کی حسنہ میں بدن کی صحت اہل و عیال کی صحت، رزق حلال میں وسعت و برکت دنیوی سب ضروریات کا پورا ہونا اعمال صالحہ، اخلاق محمودہ علم نافع، عزت و وجاہت، عقائد کی درستی صراط مستقیم کی ہدایت، عبادات میں اخلاص کامل سب داخل ہیں اور آخرت کی حسنہ میں جنت اور اس کی بیشمار اور لازوال نعمتیں اور حق تعالیٰ کی رضا اور اس کا دیدار یہ سب چیزیں شامل ہیں۔- الغرض یہ دعاء ایک ایسی جامع ہے کہ اس میں انسان کے تمام دنیوی اور دینی مقاصد آجاتے ہیں دنیا وآخرت دونوں جہان میں راحت و سکون میسر آتا ہے آخر میں خاص طور پر جہنم کی آگ سے پناہ کا بھی ذکر ہے یہی وجہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بکثرت یہ دعاء مانگا کرتے تھے، رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَاب النَّار اور حالت طواف میں خصوصیت کے ساتھ یہ دعاء مسنون ہے اس آیت میں ان جاہل درویشوں کی بھی اصلاح کی گئی ہے جو صرف آخرت ہی کی دعاء مانگنے کو عبادت جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ہے کیونکہ درحقیقت یہ ان کا دعوی غلط اور خیال خام ہے، انسان اپنے وجود اور بقاء اور عبادت وطاعت سب میں ضرورت دنیوی کا محتاج ہے وہ نہ ہوں تو دین کا بھی کوئی کام کرنا مشکل ہے اسی لئے انبیاء (علیہم السلام) کی سنت یہ ہے کہ جس طرح وہ آخرت کی بھلائی اور بہتری اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں اسی طرح دنیا کی بھلائی اور آسائش بھی طلب کرتے ہیں، جو شخص دنیوی حاجات کے لئے دعاء مانگنے کو زہد و بزرگی کے خلاف سمجھے وہ مقام انبیاء (علیہم السلام) سے بیخبر اور جاہل ہے ہاں صرف دنیوی حاجات ہی کو مقصد زندگی نہ بنائے اس سے زیادہ آخرت کی فکر کرے اور اس کے لئے دعاء مانگے۔- آیت کے آخر میں اسی دوسرے طبقہ کا جو کہ اپنی دعاؤں میں دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی مانگتا ہے انجام ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے اس صحیح اور نیک عمل اور دعاؤں کا نتیجہ ان کو دنیا وآخرت میں ملے گا اس کے بعد ارشاد ہے واللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَاب یعنی اللہ جلد حساب لینے والا ہے کیونکہ اس کا علم محیط اور قدرت کاملہ کے لئے ساری مخلوقات کے ایک ایک فرد اور پھر اس کی عمر بھر کے اعمال کا حساب لینے میں ان آلات و ذرائع کی ضرورت نہیں جن کا انسان محتاج ہے اس لئے وہ بہت جلد ساری مخلوقات کا حساب لے لیں گے اور ان پر جزاء وسزا مرتب فرمائیں گے۔
وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ٢٠١- حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] - ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔
آیت ٢٠١ (وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ) (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ) - یہی وہ دعا ہے جو طواف کے ہر چکر میں رکن یمانی سے حجرِ اسود کے درمیان چلتے ہوئے مانگی جاتی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا خیر ایمان اور ہدایت ہے۔ دنیا کا کوئی خیر خیر نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ ہدایت اور ایمان نہ ہو۔ چناچہ سب سے پہلے انسان ہدایت ‘ ایمان اور استقامت طلب کرے ‘ پھر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دنیا میں کشادگی اور رزق میں کشائش کی دعا بھی کرے تو یہ بات پسندیدہ ہے۔