تکمیل حج کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ فراغت حج کے بعد اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو ، اگلے جملے کے ایک معنی تو یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اس طرح اللہ کا ذکر کرو جس طرح بچہ اپنے ماں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے ، دوسرے معنی یہ ہیں کہ اہل جاہلیت حج کے موقع پر ٹھہرتے وقت کوئی کہتا تھا میرا باپ بڑا مہمان نواز تھا کوئی کہتا تھاوہ لوگوں کے کام کاج کر دیا کرتا تھا سخاوت وشجاعت میں یکتا تھا وغیرہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ فضول باتیں چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی بزرگیاں بڑائیاں عظمتیں اور عزتیں بیان کرو ، اکثر مفسرین نے یہی بیان کیا ہے ، غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرو ، اسی لئے او اشد پر زبر تمہیز کی بنا پر لائی گئی ہے ، یعنی اس طرح اللہ کی یاد کرو جس طرح اپنے بڑوں پر فخر کیا کرتے تھے ۔ او سے یہاں خبر کی مثلیت کی تحقیق ہے جیسے ( او اشد قسوۃ ) میں اور ( او اشد خشیۃ ) میں اور ( او یزیدون ) میں اور ( او ادنیٰ ) میں ، ان تمام مقامات میں لفظ او ہرگز ہرگز شک کے لئے نہیں ہے بلکہ فجر عنہ کی تحقیق کے لئے ہے ، یعنی وہ ذکر اتنا ہی ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر بکثرت کر کے دعائیں مانگو کیونکہ یہ موقعہ قبولیت کا ہے ، ساتھ ہی ان لوگوں کی برائی بھی بیان ہو رہی ہے جو اللہ سے سوال کرتے ہوئے صرف دنیا طلبی کرتے ہیں اور آخرت کی طرف نظریں نہیں اٹھاتے فرمایا ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ بعض اعراب یہاں ٹھہر کر صرف یہی دعائیں مانگتے ہیں کہ الہ اس سال بارشیں اچھی برسا تاکہ غلے اچھے پیدا ہوں اولادیں بکثرت ہوں وغیرہ ۔ لیکن مومنوں کی دعائیں دونوں جہان کی بھلائیوں کی ہوتی تھیں اس لئے ان کی تعریفیں کی گئیں ، اس دعا میں تمام بھلائیاں دین و دنیا کی جمع کر دی ہیں اور تمام برائیوں سے بچاؤ ہے ، اس لئے کہ دنیا کی بھلائی میں عافیت ، راحت ، آسانی ، تندرستی ، گھر بار ، بیوی بچے ، روزی ، علم ، عمل ، اچھی سواریاں ، نوکر چاکر ، لونڈی ، غلام ، عزت و آبرو وغیرہ تمام چیزیں آگئیں اور آخر تکی بھلائی میں حساب کا آسان ہونا گھبراہٹ سے نجات پانا نامہ اعمال کا دائیں ہاتھ میں ملنا سرخ رو ہونا بالآخر عزت کے ساتھ جنت میں داخل ہونا سب آگیا ، پھر اس کے بعد عذاب جہنم سے نجات چاہنا اس سے یہ مطلب ہے کہ ایسے اسباب اللہ تعالیٰ مہیا کر دے مثلا حرام کاریوں سے اجتناب گناہ اور بدیوں کا ترک وغیرہ ، قاسم فرماتے ہیں جسے شکر گزاروں اور ذکر کرنے والی زبان اور صبر کرنے والا جسم مل گیا اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی اور عذاب سے نجات پا گیا ، بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دعا کو بکثرت پڑھا کرتے تھے اس حدیث میں ہے ربنا سے پہلے اللہم بھی ہے ، حضرت قتادہ نے حضرت انس سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ تر کس دعا کو پڑھتے تھے تو آپ نے جواب میں یہی دعا بتائی ( احمد ) حضرت انس رضی اللہ عنہ جب خود بھی کبھی دعا مانگتے اس دعا کو نہ چھوڑتے ، چنانچہ حضرت ثابت نے ایک مرتبہ کہا کہ حضرت آپ کے یہ بھائی چاہتے ہیں کہ آپ ان کے لئے دعا کریں آپ نے یہی دعا ( اللہم اٰتنا فی الدنیا ) الخ پڑھی پھر کچھ دیر بیٹھے اور بات چیت کرنے کے بعد جب وہ جانے لگے تو پھر دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا کیا تم ٹکڑے کرانا چاہتے ہو اس دعا میں تو تمام بھلائیاں آگئیں ( ابن ابی حاتم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمان بیمار کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے دیکھا کہ وہ بالکل دبلا پتلا ہو رہا ہے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے آپ نے پوچھا کیا تم کوئی دعا بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے؟ اس نے کہا ہاں میری یہ دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ جو عذاب تو مجھے آخرت میں کرنا چاہتا ہے وہ دنیا میں ہی کر ڈال آپ نے فرمایا سبحان اللہ کسی میں ان کے برداشت کی طاقت بھی ہے ؟ تو نے یہ دعا ربنا اتنا ( آخرتک ) کیوں نہ پڑھی؟ چنانچہ بیمار نے اب سے اسی دعا کو پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شفا دے دی ( احمد ) رکن نبی حج اور رکن اسود کے درمیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ( ابن ماجہ وغیرہ ) لیکن اس کی سند میں ضعف ہے واللہ اعلم ، آپ فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی رکن کے پاس سے گزرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں فرشتہ ہے اور وہ آمین کہہ رہا ہے تم جب کبھی یہاں سے کزرو تو دعا آیت ( ربنا اتنا ) الخ پڑھا کرو ( ابن مردویہ ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے آکر پوچھا کہ میں نے ایک قافلہ کی ملازمت کر لی ہے اس اجرت پر وہ مجھے اپنے ساتھ سواری پر سوار کرلیں اور حج کے موقعہ پر مجھے وہ رخصت دے دیں کہ میں حج ادا کر لوں ویسے اور دنوں میں میں ان کی خدمت میں لگا رہوں تو فرمائیے کیا اس طرح میرا حج ادا ہو جائے گا آپ نے فرمایا ہاں بلکہ تو تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں فرمان ہے آیت ( اولئک لہم نصیب ) ( مستدرک حاکم )
200۔ 1 عرب کے لوگ فراغت کے بعد منٰی میں میلا لگاتے اور اپنے آباوجداد کے کارناموں کا ذکر کرتے مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے جب تم 10 ذوی الحجہ کو کنکریاں مارنے قربانی کرنے، سر منڈانے، طواف کعبہ اور سعی صفا مروہ سے فارغ ہوجاؤ تو اس کے بعد جو تین دن منٰی میں قیام کرنا ہے وہاں خوب اللہ کا ذکر کرو کیونکہ جاہلیت میں تم اپنے آباوجداد کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔
اسلام سے پہلے عرب حج سے فارغ ہوتے تو منیٰ میں میلہ لگاتے اور اپنے آباء و اجداد کا خوب تذکرہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسی طرح ذکر الٰہی کیا کرو، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ (فتح القدیر)- ذکر الٰہی کا حکم دینے کے بعد دعا کی کیفیت بیان فرمائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو صرف دنیا کے طالب ہوتے ہیں ایسے لوگ آخرت کی نعمتوں سے یکسر محروم رہیں گے (دیکھیے الشوریٰ : ٢٠) اور دوسرے وہ جو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی طلب کرتے ہیں، اصل کامیابی انھی لوگوں کی ہے۔ (رازی، شوکانی) دنیا کی بھلائی (حسنہ) میں نیک بیوی، دنیا میں غلبہ، خلافت اسلامی کا قیام، وسعت رزق، دین و دنیا کا علم اور اللہ کے احکام کے مطابق چلنے کی توفیق، الغرض سب نیک اعمال شامل ہیں اور آخرت کی بھلائی میں دوزخ سے نجات، جنت، رضائے الٰہی کا حصول، حساب میں آسانی اور اللہ تعالیٰ کا دیدار وغیرہ شامل ہیں۔ انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثر دعا یہ تھی : (اَللَّہُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَ قِنَا عَذَاب النَّارِ )” اے اللہ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ “ [ بخاری، الدعوات، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ربنا آتنا۔۔ : ٦٣٨٩۔ مسلم : ٢٦٩٠ ] صحیح مسلم میں ہے : ” انس (رض) جب بھی کوئی دعا کرنا چاہتے تو یہ (مذکورہ بالا) دعا کرتے اور جب کوئی اور دعا کرنا چاہتے تو اس میں یہ دعا بھی کرتے۔ “ خلاصہ یہ کہ یہ ایک نہایت جامع دعا ہے، کئی ایک احادیث میں اس کی ترغیب آئی ہے۔ طواف کے وقت رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بھی یہ دعا مسنون ہے۔ [ أبو داوٗد، المناسک، باب الدعاء فی الطواف، ١٨٩٢ و قال الألبانی حسن ]- اللہ تعالیٰ نے یہاں دو قسم کے لوگ ذکر فرمائے ہیں، صرف دنیا کی بھلائی طلب کرنے والے اور دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی طلب کرنے والے، تیسری قسم کے لوگ یعنی صرف آخرت کی بھلائی طلب کرنے والے، جو دنیا کی بھلائی نہ مانگتے ہوں، وہ ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ اسلام ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کے لیے دنیا ترک کرنا پسند نہیں کرتا، نہ دنیا کی نعمتوں سے کنارہ کشی کی اجازت دیتا ہے۔ جب سے مسلمانوں میں ہندو سادھوؤں اور نصرانی راہبوں کی تقلید میں دنیا کے ترک کا رجحان پیدا ہوا تو انھوں نے جہاد چھوڑا، دنیاوی علوم سے کنارہ کش ہوئے اور ہر چیز میں غیروں کے غلام بن گئے۔ کفار کو ان کے تصوف کے سلسلوں سے کوئی تکلیف ہے، نہ تصور شیخ سے اور نہ خانقاہی نظام سے، کیونکہ اس سے غلامی کی خو مزید پختہ ہوتی ہے، بلکہ وہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ انھیں اپنے ملکوں میں آمد و رفت کی ہر سہولت مہیا کرتے ہیں، مگر اسلام اور مسلمانوں کی عزت کے ضامن جہاد یا خلافت کا نام لینے والوں پر آخری حد تک دنیا تنگ کردینے میں کمی نہیں کرتے۔ پھر کیا حال ہوگا جب کہا جائے - دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے ؟- اگر کہا جائے شاعر کی مراد فقط رضائے الٰہی کا حصول ہے تو اللہ کی رضا تو دنیا اور آخرت دونوں کی طلب اور ان کے لیے محنت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی ان دونوں کی طلب بلکہ ان کا ہر عمل ہی رضائے الٰہی کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔ (وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ) یہ اس لیے فرمایا کہ آخرت میں بھلائی آگ کے کچھ عذاب کے بعد بھی ہوسکتی ہے، اس لیے اس سے بچنے کی الگ دعا مانگی۔ ( ابن عاشور )
رسوم جاہلیت کی اصلاح منیٰ میں فضول اجتماعات کی ممانعت :- چوتھی پانچویں اور چھٹی آیات میں چند رسوم جاہلیت کی اصلاح کی گئی ہے، ایک تو یہ کہ عرب زمانہ جاہلیت میں عرفات ومزدلفہ اور طواف و قربانی سے فارغ ہو کر جب منیٰ میں قیام کرتے تھے تو ان کی مجلسیں صرف اس کام کے لئے ہوتی تھیں کہ مشاعرے منعقد کریں اور ان میں اپنے مفاخر اور اپنے آباء و اجداد کے مفاخر اور کارناموں کا بیان کریں ان کی مجلسیں ذکر اللہ سے یکسر خالی ہوتی تھیں ان مبارک ایام کو ایسی لغو اور فضول چیزوں میں ضائع کرتے تھے اس لئے ارشاد ہوا کہ جب تم اپنے افعال احرام کو پورا کرچکو اور منیٰ میں قیام کرو تو وہاں رہ کر اللہ تعالیٰ کو یاد کرو اپنے آباء و اجداد کو یاد کرنا اور خصوصاً ان کے جھوٹے سچے مفاخر اور کارناموں کو بیان کرنا چھوڑو جتنا تم ان کو یاد کرتے ہو اس کی جگہ بلکہ اس سے زیادہ خدا تعالیٰ کو یاد کرو اور ذکر اللہ میں مشغول رہو قرآن کی اس آیت نے عرب کی ایک جاہلانہ رسم کو مٹا کر مسلمانوں کو یہ ہدایت کی کہ یہ ایام اور یہ مقام عبادت اور ذکر اللہ کے لئے مخصوص ہیں ان میں ذکر اللہ و عبادت کے جو فضائل و برکات ہیں وہ پھر ہاتھ نہ آئیں گے ان کو غنیمت جاننا چاہئے۔- علاوہ ازیں حج ایک ایسی عبادت ہے جو عموماً سفر طویل کی مشقت اہل و عیال کی مفارقت کاروبار کو ترک کرنے اور ہزاروں روپے اور بہت سا وقت خرچ کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے اس میں حوادث کا پیش آجانا کچھ بعید نہیں کہ آدمی باوجود کوشش کے اپنے مقصد حج میں کامیاب نہ ہوسکے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمام موانع ہٹا کر آپ کے مقصد میں کامیاب فرمایا اور فرائض حج پورے ہوگئے تو یہ مقام شکر ہے جس کا اقتضاء یہ ہے کہ اور زیادہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہو ان اوقات کو فضول اجتماعات اور فضول کام یا کلام میں ضائع نہ کرو اہل جاہلیت ان اوقات میں اپنے آباء و اجداد کے تذکرے کرتے تھے جن کا کوئی نفع دین و دنیا میں نہ تھا، تم اس کی جگہ اللہ کا ذکر کرو جو نور ہی نور اور نفع ہی نفع ہے دنیا کے لئے بھی آخرت کے لئے بھی، آجکل اگرچہ مسلمانوں میں وہ رسم جاہلیت تو نہیں رہی کہ مشاعرے قائم کریں اور آباء و اجداد کے تذکرے کریں لیکن آج بھی ہزاروں مسلمان ہیں جو ان ایام کو فضول اجتماعات میں فضول دعوتوں اور تفریحات میں صرف کرتے ہیں یہ آیت ان کی تنبیہ کے لئے کافی ہے۔- بعض حضرات مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو جیسے بچپن میں اپنے باپ کو یاد کرتے ہیں کہ ان کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ کلام یَا اَب یَا اَب ہوتا ہے تم اب بالغ ہو جوان ہو عاقل ہو یَا اَب یَا اَب کی جگہ یَا رَب یَارَب کو اختیار کرو اور اس پر نظر ڈالو کہ بچہ اپنے باپ کو اس لئے پکارتا ہے کہ وہ اپنے تمام کاموں میں اپنے آپ کو باپ کا محتاج سمجھتا ہے انسان اگر ذرا غور کرے تو وہ ہر وقت ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا محتاج اس سے زیادہ ہے جیسا بچہ اپنے باپ کا محتاج ہے نیز بعض اوقات کچھ لوگ اپنے باپ کا ذکر فخراً بھی کیا کرتے ہیں جیسے اہل جاہلیت کرتے تھے تو اس آیت نے یہ بھی ہدایت کردی کہ فخر وعزت کے لئے بھی ذکر اللہ سے زیادہ کوئی چیز مؤ ثر نہیں (روح البیان) - ایک اور رسم جاہلیت کی اصلاح دین و دنیا کی طلب میں اسلامی اعتدال :- جس طرح جاہلیت کی یہ رسم بیہودہ تھی کہ ان مبارک ایام کو اپنے باپ دادوں کے تذکروں اور مشاعروں میں گذاریں اسی طرح کچھ لوگوں کی یہ عادت تھی کہ اگرچہ ایام حج میں شغل تو ذکر اللہ اور دعاؤں ہی کا رکھتے تھے مگر ان کی تمام تر دعائیں صرف دنیوں حاجات اور دنیا کی راحت وعزت یا دولت کے لئے ہوتی تھیں آخرت کی طرف کوئی دھیان نہ ہوتا تھا ان کی اصلاح کے لئے اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ بعض لوگ وہ ہیں جو حج میں دعاء بھی مانگتے ہیں تو صرف دنیا کی بھلائی مانگتے ہیں آخرت کی فکر نہیں کرتے ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ ان کے اس طرز عمل سے معلوم ہوا کہ فریضہ حج بھی انہوں نے محض رسماً ادا کیا ہے یا دنیا میں فخر و وجاہت حاصل کرنے کے لئے کیا ہے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا اور آخرت میں نجات حاصل کرنا ان کے پیش نظر ہے ہی نہیں۔- اس جگہ یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ صرف دنیاوی دعاء مانگنے والوں کا ذکر اس آیت میں اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ کہتے رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا اس کے ساتھ حَسَنَةً کا لفظ مذکور نہیں جس میں اشارہ اس کی طرف ہے کہ وہ دنیا کے لئے بھی حسنہ کے طلبگار نہیں بلکہ اغراض دنیویہ میں ایسے مست و سرشار ہیں کہ ان کی طلب یہ رہ گئی ہے کہ اپنی خواہش کسی طرح پوری ہو خواہ وہ اچھی ہو یا بری اور اچھے طریقہ سے حاصل ہو یا برے راستہ سے لوگ ان کو اچھا کہیں یا براُ ،- اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑی تنبیہ ہے جو موسم حج اور مقامات مقدسہ میں بھی دعاؤں میں اپنی اغراض دنیویہ ہی کو ترجیح دیتے ہیں اور بیشتر اوقات انہیں کے لئے صرف کرتے ہیں اور اگر ہمارے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوگا کہ بہت سے دولتمند لوگ یہاں بھی جو وظائف اور دعائیں کرتے ہیں یا بزرگوں سے کراتے ہیں ان میں بکثرت لوگ ایسے ہیں کہ ان کی غرض ان تمام وظائف و دعاؤں سے بھی صرف دولت کی ترقی تجارت میں برکت اغراض دنیویہ میں کامیابی ہوتی ہے وہ بہت سے وظائف اور نوافل پڑھ کر یہ بھی سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم بہت عبادت گذار ہیں لیکن وہ حقیقت میں ایک طرح کی دنیا پرستی ہوتی ہے بہت سے حضرات زندہ بزرگوں سے اور وفات یافتہ اولیاء اللہ سے بڑا تعلق رکھتے ہیں لیکن اس تعلق کا بھی بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی دعاء یا تعویذ سے ہمارے کام نکلیں گے دنیا کی آفات دور ہوں گی مال میں برکت ہوگی ایسے لوگوں کے لئے بھی اس آیت میں خاص ہدایت ہے معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے جو علیم وخبیر ہے ہر شخص کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہئے کہ وظائف ونوافل اور دعاء و درود سے اور حج وزیارت سے اس کی نیت کیا ہے اس آیت کے آخری حصہ میں کم نصیب محروم القسمۃ لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد حق تعالیٰ نے نیک اور مقبول بندوں کا ذکر اس طرح فرمایا ہے۔
فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللہَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا ٠ ۭ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ٢٠٠- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - نسك - النُّسُكُ : العبادةُ ، والنَّاسِكُ : العابدُ واختُصَّ بأَعمالِ الحجِّ ، والمَنَاسِكُ : مواقفُ النُّسُك وأعمالُها، والنَّسِيكَةُ : مُخْتَصَّةٌ بِالذَّبِيحَةِ ، قال : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] ، فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] ، مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] .- ( ن س ک ) النسک کے معنی عبادک کے ہیں اور ناسک عابد کو کہا جاتا ہے ، مگر یہ لفظ ارکان حج کے ادا کرنے کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ۔ المنا سک اعمال حج ادا کرنے کے مقامات النسیکۃ خاص کر ذبیحہ یعنی قربانی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں سے : ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صد قے دے یا قر بانی کرے ۔ فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ۔ مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- خَلَاقُ- : ما اکتسبه الإنسان من الفضیلة بخلقه، قال تعالی: ما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلاقٍ [ البقرة 102] ، وفلان خلیق بکذا، أي : كأنّه مخلوق فيه، ذلک کقولک : مجبول علی كذا، أو مدعوّ إليه من جهة الخلق . وخَلَقَ الثوبُ وأَخْلَقَ ، وثوب خَلَقٌ ومُخْلَق وأخلاق، نحو حبل أرمام وأرمات، وتصوّر من خَلُوقَة الثوب الملامسة، فقیل : جبل أَخْلَق، وصخرة خَلْقَاء، وخَلَقْتُ الثوب : ملّسته، واخلولق السحاب منه، أو من قولهم : هو خلیق بکذا، والخلوق : ضرب من الطّيب .- الخلاق ۔ وہ فضیلت جو انسان اپنے اخلاق سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلاقٍ [ البقرة 102] ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ۔ فلان خلیق بکذا ۔ فلاں اس کا اہل ہے گویا وہ خوبی اس میں پیدا کی گئی ہے جیسا کہ فلاں مجبول علیٰ کذا ومدعو الیہ من جھۃ الخلق کا محاورہ ہے ۔ خلق الثوب واخلق کپڑے کا پرانا ہوجانا اور پرانے کپڑے کو خلق ومخلق اخلاق کہاجاتا ہے جیسا کہ حبل ارمام وارمات کا محاور ہ ہے اور کپڑے کے پرانا پونے سے ملائم اور چکنا ہونے کا معنی لیا جاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے :۔ جبل اخلق و صخرۃ خلقاء ( چکنا پہاڑ یا چکنا پتھر ) خلقت الثوب ۔ میں نے کپڑے کو پرانا کیا اخلولق السحاب ( ان تمطن امید ہے کہ بارش ہوگئی ۔ یہ یا تو خلقت الثوب سے ماخوذ ہے اور یا ھوخلیق بکذا کے محاورہ سے لیا گیا ہے ۔ الخلوق ۔ ایک قسم کا خوشبو ۔
مناسک حج ادا کرنے کے بعد کیفیت ذکر - قول باری ہے (فاذا قضیتم مناسکم فاذاکروا اللہ کذکرکم اباء کم اواشد ذکراً پھر جب تم اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آبائو اجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر) قضا مناسک کا معنی علی وجہ التمام ان کی ادائیگی ہے۔- اس معنی میں قول باری ہے (فاذا قضیتم الصلوۃ فاذکروا اللہ قیا ما وقعوداً جب تم نماز ادا کرلو تو قیام وعقود کی حالت میں اللہ کو یاد کرو ) اسی طرح (فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروافی الارض جب نماز پڑھ لی جائے تو تم زمین میں پھیل جائو)- اس معنی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے (فما ادرکتم فصلوا وما فاتکم فاقضوا ، نماز با جماعت کی صورت میں تمہیں امام کے ساتھ جتنی نماز مل جائے وہ پڑھ لو اور جتنی نہ ملے اسے ادا کرلو) یعنی جتنی نہ ملے اسے پوری طرح ادا کرلو۔- اس قول باری (فاذکروا اللہ کذکر کم) کے دو معانی بیان کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے وہ تمام اذکار مراد ہیں جو مناسب کی ادائیگی کے دوران پڑھے جاتے ہیں جس طرح کہ قول باری ہے (اذا طلقتم النسآء فطلقوھن بعد تھن واحصوالعدۃ جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دو تو انہیں عدت پر طلاق دو اور عدت کو شمار کرلو) جب کہ اسے طلاق دینے پہلے عدت کو شمار کرنے کا حکم ہے۔- یہ طرز بیان عربی کے ان محاوروں کے مطابق ہے مثلاً آپ کہیں ” اذا حججت فطف بالبیت “ (جب حج کرو تو بیت اللہ کا طواف کرو) یا اذا احرمت فاغتسل “ (جب تم احرام باندھو تو غسل کرلو ) یا ” اذا صلیت فتوضا “ (جب تم نماز پڑھنے لگو تو وضو کرلو)- ان تمام فقروں میں جن افعال کے کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ دراصل فقروں میں بیان کردہ امور سے پہلے ادا کئے جانے چاہئیں۔ قول باری ہے (اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جائو تو اپنے چہرے دھو لو) حالانکہ چہرے کا دھونا نماز سے پہلے عمل میں آتا ہے۔- اسی طرح قول باری ہے (فاذا قضیتم مناسککم فاذکروا اللہ) اس میں یہ جائز ہے کہ اس سے مراد وہ اذکار منسونہ ہوں جو عرفات اور مزدلفہ میں وقوف کے وقت اور رمی جمار اور طواف کے وقت پڑھے جاتے ہیں۔- اس آیت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ مناسک ادا کرتے ہوئے ٹھہر اتے اور ٹھہر کر اپنی خاندانی روایات اور اپنے آبائو اجداد کے مفاخر بیان کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے ان غلط باتوں کے ذکر کی بجائے اپنے ذکر، نعمتوں پر شکر اور حمد و ثنا کا حکم دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا۔- (ان اللہ قد اذھب عنکم نخوۃ الجاھلیۃ ولعظمھا بالآ باء ۔ الناس من ادم و ادم من تواب۔ لافضل لعوبی علیٰ عجمی الا بالتقویٰ ۔ اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے فخر و غرور اور آبائو اجداد کے نام پر جھوٹے وقار اور بڑائی کو ختم کردیا ہے ۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ سکی عربی کو سکی عجمی یعنی غریب عرب پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ اگر فضیلت ہے تو صرف تقویٰ کی بنا پر ہے۔- پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (یایھا الناس انا خلقنکم من ذکروا انثی و جعلنکم شعرباً و قبائل لتعارفوا۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قومیں اور خاندان بنادیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم سے سب سے معزز شخص وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ )- اس بنا پر درج بالا آیت میں زمانہ جاہلیت کی اس صورت کو پیش نظر رکھ کر وہ اپنے آبائو اجداد کے مئوثر و مفاخر بیان کیا کرتے تھے، اللہ کے ذکر کا حکم دیا گیا، اس طرح آیت کو زمانہ جاہلیت کی صورت حال کی روشنی میں دیکھا جائے۔ واللہ اعلم۔- ایام منیٰ اور ان میں کوچ - قول باری ہے (واذکرواللہ فی ایام معدودات فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہئیں۔ پھر کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس ہوگیا تو کوئی حرج نہیں۔ )- ابوبکر جصاص کہتے ہیں سفیان اور شعبہ نے بکیر بن عطاء سے، انہوں نے حضرت عبدالرحمحٰن بن یعمر الدیلی سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (ایام منی ثلثۃ ایام التشریق فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ ومن تاخر فلا اثم علیہ ایام منی ایام تشریق کے تین دن ہیں۔ پھر جو کوئی جلدی کر کے دو دن میں واپس ہوگیا تو کوئی حرج نہیں اور جو کوئی تاخیر کر کے پلٹا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔- اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد (ایام معدودات) کے سلسلے میں دراصل آیت کی مراد کا بیان ہے۔ اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایام معدودات، ایام تشریق ہیں۔ یہ بات حضرت علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت عمر، حضرت ابن عمر اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے مروی ہے۔- البتہ ایک چیز ہے جس کی روایت ابن ابی لیلیٰ نے منہال سے، انہوں نے زر سے اور انہوں نے حضرت علی سے کی ہے کہ المعدودات، سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن ہیں۔ ان میں سے جس دن بھی تم قربانی کرنا چاہو کرسکتے ہو۔ اس روایت کے متعلق ایک قول ہے کہ یہ وہم ہے۔- حضرت علی سے جو صحیح روایت ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے یہ بات المعلومات، یعنی قول باری (فی ایام معلومات علی ما رزقھم …) کے متعلق فرمائی ہے۔ ظاہر آیت بھی اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ قول باری ہے (فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ) اب ان دونوں کا تعلق نحر یعنی قربانی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ رمی جمار کے ساتھ ہے جو ایام تشریق میں ہوتی ہے۔- رہی یہ بات کہ ” المعومات “ کو کون سے ایام ہیں تو حضرت علی اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن ہیں۔ ان میں سے جس دن بھی قربانی کا جانور ذبح کرنا چاہو کرسکتے ہو۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا المعدودات، ایام تشریق ہیں۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ” المعلومات “ ایام عشر ہیں اور ” المعدودات “ ایام تشریق ہیں۔- ابن ابی لیلیٰ نے الحکم سے، انہوں نے مقسم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ” المعومات، یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ یہ ایام تشریق بھی ہیں۔ اور ” المعدودات “ یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں، عبداللہ بن موسیٰ نے کہا، ہمیں عمارہ بن ذکو ان نے مجاہد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے یہ روایت کی ہے کہ المعدودات ایام عشر اور المعلومات، ایام نحر ہیں۔- لیکن آپ کا المعدودات کے متعلق یہ قول بلاشبہ غلط ہے۔ کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ نیز یہ کتاب اللہ کے بھی خلاف ہے۔ اللہ کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ) ایام عشر میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو دو دنوں سے متعلق ہو اور تین دنوں سے نہ ہو۔ حضرت ابن عباس سے صحیح سند کے ساتھ یہ منقول ہے کہ المعلومات ایام عشر اور المعدودات، ایام تشریق ہیں۔- یہی جمہور تابعین کا قول ہے جن میں حسن بصری، مجاہد، عطاء، ضحاک اور ابراہیم نخعی وغیرہم شامل ہیں۔ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد سے مروی ہے کہ ” المعومات ، ایام عشر اور المعدودات، ایام تشریق ہیں۔ طحاوی نے اپنے شیخ احمد بن ابی عمران سے، انہوں نے بشر بن الولید سے نقل کیا ہے کہ ابو العباس طوسی نے امام ابو یوسف کو لکھا کہ ایام معلومات کیا ہیں ؟- امام یوسف نے مجھے جواب املاء کرایا کہ صحابہ کرام کے درمیان ان کے متعلق رائے ہے۔ حضرت علی اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ یہ ایام النحر ہیں۔ میرا بھی یہی مسلک ہے اس لئے کہ قول باری ہے (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام … اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔- ہمارے شیخ ابوالحسن کرخی نے احمد القادری سے، انہوں نے محمد سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے بیان کیا ہے کہ ایام معلومات، ایام عشر ہیں، اور امام محمد سے بیان کیا کہ یہ ایام نحر کے تین دن ہیں، یوم الاضحیٰ یا یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن ہیں۔ امام ابوحنیفہ سے مروی متفقہ روایات میں یہ ہے کہ المعلومات، ایام الشعر اور المعدودات ایام تشریق ہیں۔ یہی حضرت ابن عباس کا مشہور قول بھی ہے۔- قول باری (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام) میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہاں ایام نحر مراد ہیں۔ اس لئے کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہو ’ لما رزقھم من بھیمۃ الانعام (انہیں جانور عطا کرنے کی وجہ سے) جیسا کہ قول باری ہے (ولتکبروا اللہ علی ما ھداکم اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی اس بنا پر بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی) اس میں معنی ہیں ” لما ھدا کم (تمہیں ہدایت دینے کی وجہ سے)- اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ نے اس سے ایام عشر مراد لئے ہوں اس لئے کہ ایام عشر میں یوم النحر بھی شامل ہے جس میں قربانی ہوتی ہے اور اس کے کئی دن ہوتے ہیں۔ اہل لغت نے ذکر کیا ہے کہ المعدودات، کا مفوہم المعومات کے مفوہم سے جدا ہے۔ اس لئے کہ نفطاً اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ عدد کے لحاظ سے ان دونوں کا مفہوم جدا ہے۔- وہ اسی طرح کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کی صفت المعدودات بیان کی ہے یہ صفت ان کی تقلیل پر دلالت کرتی ہے جس طرح کہ قول باری ہے (دراھم معدودۃ “ گنتی کے چند درہم اور کسی چیز کو عدد کے ساتھ اسی وقت موصوف کیا جاتا ہے جب اس کی تقلیل کا ارادہ ہو کیونکہ وہ کثرت کی ضد ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہیں ” قلیل اور کثیر “ گنتی کے چند درہم اور کسی چیز کو عدد کے ساتھ اسی وقت موصوف کیا جاتا ہے جب اس کی تقلیل کا ارادہ ہو کیونکہ وہ کثرت کی ضد ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہیں ” قلیل اور کثیر “ اس لئے المعدودات، میں قلت کے معنی پائے جاتے ہیں اور دوسرے ایام کو المعلومات کہا گیا اس لئے کہ ان کی شہرت تھی اور وہ تعداد میں دس ہیں۔- اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایام منی یو م النحر کے بعد کے تین دن ہیں۔ اور حاجی کو اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ دوسرے دن واپسی میں تعجیل کرے بشرطیکہ اس نے رمی کرلی ہو۔ اس کے لئے یہ بھی گنجائش ہے کہ تیسرے دن تک تاخیر کرے یہاں تک کہ اس دن رمی جمار کرنے کے بعد کوچ کر جائے اس شخص کے متعلق اختلاف ہے جس نے دوسرے دن سورج غروب ہونے تک کوچ نہیں کیا۔- حضرت عمر، حضرت ابن عمر، حضرت جابر، حسن بصری اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ دوسرے دن کوچ کرنے سے پہلے اگر سورج غروب ہوجائے تو اب وہ کوچ نہیں کرسکتا، تیسرے دن رمی جمار سے فارغ ہونے کے بعد وہ کوچ کرسکے گا۔ حسن بصری سے یہ بھی مروی ہے کہ اسے دوسرے دن کوچ کر جانے کی اجازت ہے، بشرطیکہ اس نے ظہر کا سارا وقت رمی جمار میں لگایا ہو۔ اگر منیٰ میں عصر کا وقت ہوجائے تو اب اسے تیسرے دن تک کوچ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تیسرے دن کی رمی اس پر اسی وقت لازم ہوگی اگر وہ منیٰ میں صبح کرے گا اور صورت میں رمی جمار کا ترک اس کے لئے جائز نہیں ہوگا۔- فقہاء کے درمیان اس بارے میں ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ جس شخص نے منیٰ میں قیام کرلیا اور تین دن وہیں رہا تو اس کے لئے رمی جمار کئے بغیر کوچ جائز نہیں ہے۔ فقہاء کا یہ کہنا کہ اگر کوئی شخص دوسرے دن شام تک منیٰ میں قیام پذیر رہے تو اس پر تیسرے دن کے رمی جمار کا لزوم نہیں ہوگا وہ صرف اس بنا پر ہے کہ دوسرے دن سے متصل رات دوسرے دن کے تابع ہے یعنی اس رات کا حکم وہی ہے جو دوسرے دن کا ہے۔ اس کا حکم وہ نہیں ہے جو اس کے بعد آنے والے دن کا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص پہلے دن رمی نہیں کرتا تو آنے والی رات میں وہ رمی کرے گا اور اس صورت میں یہ رمی اپنے وقت سے موخر ہوگی۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چرواہں کو رات کے وقت رمی جمار کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس بنا پر اس رات کا حکم وہی ہوگا جو اس سے پہلے کے دن کے کا ہے لکین اس رات کم وہ نہیں ہوگا جو اس کے بعد آنے اولے دن کا ہے۔- اسی بنا پر فقہاء نے یہ کہا ہے کہ دوسرے دن شام تک منیٰ میں اس کی اقامت، دن کے وقت اقامت کی طرح ہے۔ لیکن اگر وہ وہیں قیام پذیر رہے یہاں تک کہ تیسرے دن کی صبح ہوجائے تو اس پر رمی جمار لازم ہوجائے گی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔- یہ وہ بات ہے جس سے امام ابوحنیفہ کے اس قول کی صحت پر استدلال کیا جاتا ہے کہ آپ نے تیسرے دن زوال سے پہلے تک رمی جمار کو جائز قرار دیا ہے اس لئے کہ تیسرا دن لزوم رمی کے لئے وقت ہے اور یہ بات محال ہے کہ تیسرا دن وجوب رمی کے لئے وقت ہو لیکن پھر اس میں رمی کا فعل درست نہ ہو۔
(٢٠١۔ ٢٠٠) اور جب تم اپنے اعمال حج سے فارغ ہوجاؤ، تو اللہ تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جیسا کہ اپنے آباؤ اجداد کو یاد کرتے ہو اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تم پر احسانات کیے ہیں ان احسانات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو اس طرح سے یاد کرو جیسا زمانہ جاہلیت میں اپنے آباؤاجداد کے احسانات کو یاد کیا کرتے تھے بلکہ اپنے آباء کے تذکرہ سے بھی کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ کرو، وقوف کی جگہ میں بعض لوگ دعا مانگتے ہیں کہ پروردگار ہمیں اونٹ، گائے، بکریاں، غلام اور باندیاں اور بہت سامال دے مگر بہشت میں ایسے لوگوں کے حج کا کوئی حصہ نہیں۔- شان نزول : فاذا قضیتم ”۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت والے ایام حج میں کھڑے ہوتے تھے، ان میں سے ہر ایک شخص کہتا تھا کہ میرے باپ کھانا کھلاتا تھا، لوگوں کو سوار کراتا تھا اور دوسروں کے خون بہا کو ادا کرتا تھا یعنی اپنے آباؤ اجداد کے ذکر کے علاوہ ان کے پاس کوئی ذکر نہیں تھا، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری کہ جب تم اپنے اعمال حج پورے کرچکو تو اللہ تعالیٰ کا اچھی طرح ذکر کیا کرو۔- اور ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ عرب جب ارکان حج سے فارغ ہوجاتے تھے تو حجر اسود کے پاس کھڑے ہوجاتے اور زمانہ جاہلیت میں کیے گئے اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کو بیان کیا کرتے تھے، اس پر یہ آیت اتری۔- اور ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ عربوں کی ایک جماعت وقوف کی جگہ آتی اور کہتی، اے اللہ، سال بارش اور سبز وشادابی اور خوبصورتیوں والا کردے لیکن امور آخرت میں سے کسی بھی چیز کا تذکرہ نہیں کرتی تھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت اتاری کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار بس ہمیں دنیا ہی میں دے دے، ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اس جماعت کے بعد دوسری جماعت مومنوں کی آتی ہے اور یہ دعا مانگتی، (آیت) ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ (الخ) کہ اے اللہ ہماری دنیا کے ساتھ آخرت بھی اچھی کردے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢٠٠ (فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ ) (فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ ‘ کُمْ ) ( اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ط) - یعنی دسویں ذوالحجہ کو جب افعالِ حج سے فراغت پا چکو تو قیام منیٰ کے دوران اللہ کا خوب ذکر کرو جیس ئزمانہ جاہلیت میں اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کیا کرتے تھے ‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔ ان کا قدیم دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر تین دن منیٰ میں قیام کرتے اور بازار لگاتے۔ وہاں میلے کا سا سماں ہوتا جہاں مختلف قبائل کے شعراء اپنے قبیلوں کی مدح سرائی کرتے تھے اور اپنے اسلاف کی عظمت بیان کرتے تھے۔ اللہ کا ذکر ختم ہوچکا تھا۔ فرمایا کہ جس شدو مدّ کے ساتھ تم اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کرتے رہے ہو اب اسی انداز سے ‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ شدومدّ کے ساتھ ‘ اللہ کا ذکر کرو۔- (فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ ) - یعنی ارض حرم میں پہنچ کر دورانِ حج بھی ان کی ساری دعائیں دنیوی چیزوں ہی کے لیے ہیں۔ چناچہ وہ مال کے لیے ‘ اولاد کے لیے ‘ ترقی کے لیے ‘ دنیوی ضروریات کے لیے اور اپنی مشکلات کے حل کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں دنیا رچی بسی ہوئی ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کا تقدس اور اس کی محبت جاگزیں کردی گئی تھی اسی طرح ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت گھر کرچکی ہے ‘ لہٰذا وہاں جا کر بھی دنیا ہی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہاں واضح فرما دیا گیا کہ ایسے لوگوں کے لیے پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :221 اہل عرب حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں جلسے کرتے تھے ، جن میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے باپ دادا کے کارنامے فخر کے ساتھ بیان کرتے اور اپنی بڑائی کی ڈینگیں مارتے تھے ۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ ان جاہلانہ باتوں کو چھوڑو ، پہلے جو وقت فضولیات میں صرف کرتے تھے اب اسے اللہ کی یاد اور اس کے ذکر میں صرف کرو ۔ اس ذکر سے مراد زمانہ قیام منیٰ کا ذکر ہے ۔
134: جاہلیت میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ حج کے بنیادی ارکان سے فارغ ہو کر جب منی میں جمع ہوتے تو بعض لوگ ایک پورا دن اپنے آبا واجداد کی تعریفیں کرنے اور ان کے کارنامے بیان کرنے میں گزارا کرتے تھے، یہ اشارہ اس رسم کی طرف ہے اور بعض لوگ دعائیں تو مانگتے مگر چونکہ وہ آخرت کے قائل نہیں تھے اس لئے ان کی دعا صرف دنیا کی بہتری تک محدود ہوتی تھی اگلے جملے میں بتایا گیا ہے کہ ایک مومن کو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی مانگنی چاہئے۔