قریش سے خطاب اور معمول نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم یہاں پر خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہے تاکہ ترتیب ہو جائے ، گویا کہ عرفات میں ٹھہرنے والے کو حکم ملا کہ وہ یہاں سے مزدلفہ جائے تاکہ مشعر الحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کر سکے ، اور یہ بھی فرما دیا کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ، جیسے کہ عام لوگ یہاں ٹھہرتے تھے البتہ قریشیوں نے فخروتکبر اور نشان امتیاز کے طور پر یہ ٹھہرا لیا تھا کہ وہ حد حرم سے باہر نہیں جاتے تھے ، اور حرم کی آخری حد پر ٹھہر جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ والے ہیں اسی کے شہر کے رئیس ہیں اور اس کے گھر کے مجاور ہیں ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قریش اور ان کے ہم خیال لوگ مزدلفہ میں ہی رک جایا کرتے تھے اور اپنا نام حمس رکھتے تھے باقی کل عرب عرفات میں جا کر ٹھہرتے تھے اور وہیں سے لوٹتے تھے اسی لئے اسلام نے حکم دیا کہ جہاں سے عام لوگ لوٹتے ہیں تم وہی سے لوٹا کرو ، حضرت ابن عباس ، حضرت مجاہد ، حضرت عطاء ، حضرت قتادہ ، حضرت سدی رضی اللہ عنہم وغیرہ یہی فرماتے ہیں ، امام ابن جریر بھی اسی تفسیر کو پسند کرتے ہیں اور اسی پر اجماع بتاتے ہیں ، مسند احمد میں ہے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا اونٹ عرفات میں گم ہو گیا میں اسے ڈھونڈنے کے لئے نکلا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں ٹھہرے ہوئے دیکھا کہنے لگا یہ کیا بات ہے کہ یہ حمس ہیں اور پھر یہاں حرم کے باہر آکر ٹھہرے ہیں ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ افاضہ سے مراد یہاں مزدلفہ سے رمی جمار کے لئے منی کو جاتا ہے ، واللہ اعلم ، اور الناس سے مراد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ، بعض کہتے ہیں مراد امام ہے ، ابن جریر فرماتے ہیں اگر اس کے خلاف اجماع کی حجت نہ ہوتی تو یہی قول رائج رہتا ۔ پھر استغفار کا ارشاد ہوتا ہے جو عموما عبادات کے بعد فرمایا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرض نماز سے فارغ ہو کر تین مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے ( مسلم ) آپ لوگوں کو سبحان اللہ ، الحمد للہ ، اللہ اکبر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے ( بخاری مسلم ) یہ بھی مروی ہے کہ عرفہ کے دن شام کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے لئے استغفار کیا ( ابن جریر ) آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ تمام استغفاروں کا سردار یہ استغفار ہے دعا ( اللہم انت ربی لا الہ الا انت خلقتنی وانا عبدک وانا علی عہدک ووعدک ما ستطعت اعوذ بک من شرماصنعت ابو ء لک بنعمتک علی وابوء بذنبی فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اسے رات کے وقت پڑھ لے اگر اسی رات مر جائے گا تو قطعا جنتی ہو گا اور جو شخص اسے دن کے وقت پڑھے گا اور اسی دن مرے گا تو وہ بھی جنتی ہے ( بخاری ) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کوئی دعا سکھائے کہ میں نماز میں اسے پڑھا کرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ پڑھو دعا ( اللہم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا ولا یغفر الذنوب الا انت فاغفر لی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم ) ۔ ( بخاری ومسلم ) استغفار کے بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔
199۔ 1 مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق عرفات جانا اور وہاں پر وقوف کر کے واپس آنا ضروری ہے لیکن عرفات چونکہ حرم سے باہر ہے اس لئے قریش مکہ عرفات تک نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ سے ہی لوٹ آتے تھے چناچہ حکم دیا جا رہا ہے جہاں سے سب لوگ لوٹ کر آتے ہیں وہیں سے لوٹ کر آؤ یعنی عرفات سے۔
[٢٧١] حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ : قریش اور ان کے طریقہ پر چلنے والے لوگ (عرفات کے بجائے) مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے، ان لوگوں کو حمس کہتے تھے۔ جب کہ باقی عرب عرفات کا وقوف کرتے۔ جب اسلام کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو یہ حکم دیا کہ عرفات میں جائیں وہاں ٹھہریں اور وہیں سے لوٹ کر (مزدلفہ) آئیں۔ آیت ( ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاض النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٩٩۔ ) 2 ۔ البقرة :199) سے یہی مراد ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ باب ثم افیضوا۔۔ ) - حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ (جو تمتع کی نیت سے عمرہ کے بعد احرام کھول دے) جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا (نفل طواف کرتا رہے۔ پھر جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو (حج کے بعد) جو قربانی ہو وہ کرے خواہ اونٹ ہو یا گائے یا بکری ہو، اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو حج کے دنوں میں عرفہ کے دن سے پہلے تین روزے رکھے اور اگر تیسرا روزہ عرفہ کے دن آجائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ مکہ سے عرفات جائے، وہاں سے عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے۔ پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اور سب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اللہ کا ذکر، تکبیر اور تہلیل صبح ہونے تک بہت کرتا رہے، پھر صبح کو لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ لوٹے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت ( ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاض النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٩٩۔ ) 2 ۔ البقرة :199) اور کنکریاں مارتے وقت اسی طرح ذکر، تکبیر اور تہلیل کرتا رہے۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً )
عرفات کا میدان حرم کی حدود سے باہر ہے، دوران حج میں تمام لوگ وہاں جاتے، مگر قریش مزدلفہ سے آگے نہ جاتے کہ ہم حرم کے رہنے والے ہیں، اس آیت میں حکم ہوا کہ سب لوگوں کے ساتھ عرفات جانا اور ان کے ساتھ وہاں سے واپس لوٹنا ضروری ہے۔ ( ابن کثیر)
اس کے بعد والی آیت میں ارشاد ہے ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاض النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ یعنی پھر تم سب کو ضروری ہے کہ اس جگہ ہو کر واپس آؤ جہاں اور لوگ جاکر واپس آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو یقینا اللہ تعالیٰ معاف کردیں گے اور مہربانی فرمادیں گے۔- اس جملے کا شان نزول یہ ہے کہ قریش عرب جو بیت اللہ کے محافظ ومجاور تھے اور سارے عرب میں ان کا اقتدار مسلم تھا اور ان کی ایک ممتاز حیثیت تھی زمانہ جاہلیت میں وہ اپنی امتیازی شان بنانے کے لئے یہ حرکت کرتے تھے اور سب لوگ تو عرفات کو جاتے اور وہاں وقوف کرکے واپس آتے تھے یہ لوگ راستہ میں مزدلفہ کے اندر ہی ٹھہر جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم چونکہ بیت اللہ اور حرم کے مجاور ہیں اس لئے حدودِحرم سے باہر جانا ہمارے لئے مناسب نہیں مزدلفہ حدود حرم کے اندر ہے اور عرفات اس سے خارج یہ بہانہ کرکے مزدلفہ ہی میں قیام کرلیتے اور وہیں سے واپس آجایا کرتے تھے اور درحقیقت وجہ اس حیلہ بہانہ کی اپنا فخر و غرور اور عام لوگوں سے ممتاز ہو کر رہنا تھا حق تعالیٰ کے اس فرمان نے ان کی غلط کاری واضح فرمادی اور ان کو حکم دیا کہ تم بھی وہیں جاؤ جہاں سب لوگ جاتے ہیں یعنی عرفات میں اور پھر وہیں سے سب کے ساتھ واپس آؤ۔- اول تو عام انسانوں سے اپنے آپ کو ممتاز کرکے رکھنا خود ایک متکبرانہ فعل ہے جس سے ہمیشہ ہی پرہیز لازم ہے خصوصاً حج کے ایام میں جہاں لباس احرام اور پھر قیام ومقام کی یکسانیت کے ذریعہ اسی کا سبق دینا ہے کہ انسان سب برابر ہیں امیر و غریب یا عالم و جاہل یا بڑے چھوٹے کا یہاں کوئی امتیاز نہیں حالت احرام میں یہ امتیازی شان بنانا اور بھی زیادہ جرم ہے۔- انسانی مساوات کا زریں سبق اور اس کی بہترین عملی صورت :- اس ارشاد قرآنی سے اصول معاشرت کی ایک اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ رہن سہن قیام ومقام میں بڑوں کو چاہئے کہ چھوٹوں سے الگ ممتاز ہو کر نہ رہیں بلکہ مل جل کر رہیں کہ اس میں باہمی اخوت و ہمدردی اور محبت وتعلق پیدا ہوتا ہے اور امیر و غریب کی تفریق مٹتی ہے، مزدور وسرمایہ دار کی جنگ ختم ہوجاتی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آخری حج کے خطبہ میں اس کو خوب واضح کرکے ارشاد فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں فضیلت کا مدار تقویٰ اور اطاعت خداوندی پر ہے اسی لئے جو لوگ ان کے خلاف مزدلفہ میں قیام کرکے اپنی ممتاز حیثیت بنانا چاہتے تھے ان کے اس فعل کو گناہ قرار دے کر ان پر لازم کیا کہ اپنے اس گناہ سے توبہ استغفار کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی خطائیں معاف فرماویں اور اپنی رحمت فرماویں۔
ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللہَ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٩٩- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
(آیت 197 کی بقیہ تفسیر)- اگر یہ کہا جائے کہ ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوگا جس کا حج فوت ہوگیا ہو اس لئے اس پر عمرہ کے ذریعے احرام کھول دینا لازم ہوگا۔ اس کے جوا ب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ عمرہ نہیں ہوتا یہ تو صرف عمرہ کا فعل ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ حج کے احرام سے باہر آ جاتا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص مکہ مکرمہ میں ہو اور اس کا حج فوت ہوجائے تو اسے لازم شدہ عمرے کے عمل کے لئے مکہ مکرمہ سے نکل کر حل کی طرف جانے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ جو شخص مکہ مکرمہ میں ہوتا ہے عمرے کے لئے اس کا میقات حل ہوتا ہے۔ اگر وہ شخص عمرے کی ابتداء کا ارادہ کرتا تو اسے حل کی طرف جانے کے لئے کہا اجتا ۔- اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حج فوت ہونے کے بعد احرام کھولنے کے لئے اس نے جو کچھ کیا وہ عمرہ نہیں تھا بلکہ وہ عمرے کا عمل تھا جس کے ذریعے وہ حج کا احرام کھول رہا ہے۔ حج فوت ہنے کے بعد اس کا احرام باقی رہ گیا تھا۔- ایک اور پہلو سے دیکھیے جس شخص کا حج فوت ہوجائے اس کے حج کا احرام باقی رہتا ہے اور اس احرام سے باہر آنے کے لئے اسے عمرے کے عمل کی ضرورت ہوتی ہے تو کیا امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھنے والے پر حج لازم ہوگیا ہے اور اب وہ حج فوت ہوجانے یک صورت میں عمرے کے عمل کے ذریعے احرام کھول رہا ہے اور اس پر قضا واجب ہوگئی ہے۔- اگر امام شافعی کے نزدیک ایسا شخص حج کا احرام باندھنے والا قرار نہیں پاتا تو اس صورت میں اسے دو باتیں لازم ہوگئیں اول اسے ایسا عمرہ لازم ہوگیا جو اس نے اپنے اوپر لازم نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کی نیت تھی۔- دوم امام شافعی نے اسے بمنزلہ اس کے قرار دیا جس کا احرام باندھنے کے بعد حج فوت ہوچکا ہو۔ حالانکہ ان کے نقطہ نظر سے اس شخص نے کبھی حج کا احرام باندھا ہی نہیں۔ اس طرح انہوں نے اس پر ایسا عمرہ لازم کردیا جس کا کوئی سبب نہ تھا جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (انما الاعمال بالغیات و انما لا موی مانوی) اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔ - اگر اس نے احرام باندھ کر حج کی نیت کرلی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (وانما لا مری مانوی) کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ جس چیز کی اس نے نیت کی ہے وہ اس پر لازم ہوجائے۔- قول باری ہے (فمن فرض فیھن الحج) پس جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرلے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں سلف کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے اور حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ (فمن فرض) کے معنی ” فمن احرم “ (جس نے احرام باندھا) کے ہیں۔- شریک نے ابو اسحقٰ کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا (فمن فرض) کے معنی ہیں ” جس نے تلبیہ کہا “ اسی طرح کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابن عمر، ابراہیم نخعی، طائوس، مجاہد اور عطاء سے بھی ہے۔ عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہ سے روای ت کی ہے کہ ’ دصرف اس شخص کا احرام ہوتا ہے جو احرام باندھا کر تلبیہ کہے۔ “- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جس نے (فمن فرض فیھن الحج) کو اس شخص پر محمول کیا ہے جس نے احرام باندھا، تو اس سے یہ دلالت نہیں ہوتی کہ اس نے احرام کو تلبیہ کے بغیر جائز سمجھا وہ اس لئے کہ یہ کہنا تو جائز ہے کہ ” اس نے احرام باندھا “ یعنی اس میں تلبیہ کا ذکر نہ کیا جائے۔ اب احرام کی شرط تلبیہ کہنا ہے اس لئے جس نے تلبیہ کا ذکر نہیں کیا اس نے بھی تلبیہ کہنا مراد لیا ہے۔- اس لئے سلف میں سے کسی سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ تلبیہ کہے بغیر احرام میں داخل ہونا جائز ہو۔ تلبیہ کہنا یا تلبیہ کے قائم مقام کوئی کام کرنا مثلاً قربانی کے جانور کے گلے میں پٹہ ڈال دینا اور اسے بانک کرلے چلنا، ضروری ہے۔- ہمارے اصحاب تلبیہ کہے بغیر یا قربانی کے جانور کے گلے میں پٹہ ڈال کر اسے ہنکائے بغیر احرام میں داخل ہونے کا جائز قرار نہیں دیتے۔- اس کی دلیل فراد بن ابی نوح کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نافع نے حضرت ابن عمر سے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ۔ وہ فرماتی ہیں کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے میں ذرا غمگین بیٹھی ہوئی تھی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا ” میں نے ابھی عمرہ ادا نہیں کیا اور حیض کی حالت میں مجھ پر حج کا وقت آ پہنچا ہے۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا :” یہ تو ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے۔ کوئی حرج نہیں، تم حج کرو اور وہی کچھ کہو جو مسلمان حج کے وقت کہتے ہیں۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد تلبیہ کے وجوب پر دلالت کرتا ہے کیونکہ مسلمان احرام کے وقت تلبیہ کہتے ہیں اور حضرت عائشہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تلبیہ کہنے کا حکم وجوب پر محمول ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے (خذوا عنی مناسککم، مجھ سے اپنے مناسک سیکھو) اور تلبیہ مناسک میں داخل ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام باندھتے وقت تلبیہ کہا تھا۔- اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے (اتافی جبریل فقانی مرامتک یوفعوا اصواتھم بالتلبیۃ فانھا من شعائر الحج میرے پاس جبریل آئے اور کہا کہ اپنی امت سے کہو کہ وہ باآواز بلند تلبیہ کہیں کیونکہ یہ شعائر حج میں سے ہے) یہ قول دو باتوں کو متضمن ہے۔ تلبیہ کہنا اور بلند آواز کے ساتھ کہنا۔- اب سب کا اتفاق ہے کہ آواز بلند کرنا واجب نہیں ہے اس لئے آپ کے ارشاد کا حکم تلبیہ کہنے میں باقی رہے گا اس پر یہ بات بھی دالات کرتی ہے کہ حج اور عمرہ ایسے افعال پر مشتمل ہیں جو ایک دوسرے کے منعایر اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن یہ افعال ایک ہی احرام کے تحت ادا کئے جاتے ہیں اس لئے ان کی مشابہت نماز کے ساتھ ہوگئی جس میں ایک تحریمہ کے تحت مختف اور متغایر افعال سر انجام دیئے اجتے ہیں۔- اس میں دخول کی شرط ذکر یعنی اللہ کا نام لینا ہے اس لئے یہ ضرو ری ہے کہ حج اور عمرہ میں بھی ذکر یا ایسی چیز کے ذریعے دخول ہو جو ذک رکے قائم مقام بن سکے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب کوئی شخص احرام کے ارادے سے قربانی کے جانور کے گلے میں قلاوہ ڈال کر اسے ہانک کرلے چلے تو وہ محرم ہوجائے گا۔- حضرت جابر کے دو بیٹوں نے اپنے والد ماجد سے یہ روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے قربانی کے جانور کے گلے میں قلاوہ ڈال دیا وہ محرم ہوگیا۔ لیکن اس کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عمر کا قول ہے کہ جب کوئی شخص اپنی قربانی کے جانور کے گلے میں پٹہ ڈال دے وہ محرم ہوجاتا ہے۔- اسی طرح کی روایت حضرت علی، حضرت قیس بن سعد، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس طائوس، عطاء بن ابی رباح ، مجاہد، شعبی، محمد بن سیرین، جابر، سعید بن جبیر اور ابراہیم نخعی سے بھی ہے۔ اس روایت کو اس معنی پر محمول کیا جائے گا کہ وہ احرام کے ارادے سے پٹہ ڈال کر اسے ہانک لے چلے۔ اس لئے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر وہ احرام کا ارادہ نہ کر رہا ہو و پٹہ ڈالنے کے باوجود محرم نہیں ہوگا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (انی قلدت الھدی فلا احل الی یوم النحر) میں نے قربانی کے جانوروں کو پٹہ ڈلا دیا ہے۔ اس لئے یوم النحر تک میں احرام نہیں کھولں گا) اس حدیث میں آپ نے یہ بتادیا کہ پٹہ ڈال کر جانور کو ہانک لے جانا آپ کے لئے احرام کھولنے سے مانع تھا۔- اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پٹہ ڈال کر جانور کو ہانک لے جانا احرام کے اندر اثر رکھتا ہے اور احرام میں داخل ہونے کے لحاظ سے یہ تلبیہ کے قائم مقام ہے۔ اسی طرح احرام کھولنے کی ممانعت میں بھی اس کا م کا اثر ہے۔ صرف پٹہ ڈالنا جبکہ احرام کی نیت نہ ہو احرام کو واجب نہیں کرتا اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت عائشہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ قربانی کا جانور کسی کے ہاتھ بھیچ دیتے اور خود مقیم رہتے تو آپ پر کسی چیز کی ممانعت نہ ہوتی۔- اسی طرح حضرت عائشہ کا قول ہے کہ ” سوائے اس شخص کے کوئی محرم نہیں ہوتا جس نے احرام باندھ کر تلبیہ کہا ہو۔ “ اس قول سے حضرت عائشہ کی مراد یہ ہے کہ ایسا شخص جو اپنے جانور کو ہانک کر نہ لے جائے اور اس کے ساتھ چلا نہ جائے وہ محرم نہیں ہوتا۔- دوران حج رفث کی تفصیلات۔- قول باری ہے (فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج، حج کے دوران کوئی شہوانی فعل، کوئی بدکاری، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سر زد نہ ہو) سلف کا رفث کے معنی میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر کا قول ہے کہ یہ ہمبستری ہے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت ہے۔- ان سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس سے مراد تعریض بالنساء یعنی عورتوں کے ساتھ شہوانی گفتگو کرنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن الزبیر سے یہی روایت ہے ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ نے حالت احرام میں یہ شعر پڑھا۔- وھن یمشین بنا ھمیسا ان یصدق الطرینک لمیسا - یہ اونٹنیاں ہمیں آہستہ رفتار سے لے کر چل رہی ہیں اگر فال درست نکلی تو ہم تمہیں سے جماع کریں گی۔- کسی نے آپ پر اعتراض کیا احرام کی حالت میں یہ شعر کیسا ؟ آپ نے جواب میں کہا :” رفث صرف یہ ہے کہ عورتوں کے پاس آتے جاتے جماع کا ذکر کیا جائے۔ “ یعنی میرا یہ شعر رفث کے ضمن میں نہیں آتا) عطاء کا قول ہے کہ رفث سے مراد جماع یا اس سے کم تر شہوانی باتیں ہیں۔ عمر و بن دینار کا قول ہے کہ اس سے مراد جماع اور اس سے کم تر کوئی حرکت یا گفتگو ہے جو عورتوں سے تعلق رکھتی ہو۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ لغت میں رفث کے اصل معنی ہیں زبان سے بری باتیں کہنا، فرج میں جنسی عمل کرنا اور ہمبستری پر اکسانے کے لئے ہاتھ سے جسم کو ٹٹولنا، حج کے اندر نہی عن الرفث کے ضمن میں یہ باتیں آتی ہیں۔ اس لئے رفث کی تاویل میں جتنے اقوال منقول ہیں ان سب کا گویا اس پر اتفاق ہوگیا کہ آیت میں رفث سے مراد جماع ہے۔- رفث بمعنی فحش گوئی پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے آپ نے فرمایا (اذا کان یوم صوم احد کم فلا یوفث ولا یجھل فان جھل علیہ فلیقل انی صائم۔ ) جب تمہارے روزے کا دن ہو تو کوئی فحش گوئی نہ کرے اور نہ ہی جہالت پر اتر آئے، اگر کوئی اس کے خلاف جہالت پر اتر آئے تو وہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں) یہاں رفث سے مراد فحش گوئی ہے۔- اگر رفث سے مراد احرام کی حالت میں عورتوں کا ذکر چھیڑنا ہے تو پھر ہاتھ لگانا اور جماع کرنا بطریق اولیٰ ممنوع ہوگا جیسا کہ قول باری ہے (ولا تقل لھما اف ولا تنھوھما) نہ ماں باپ کو اف تک کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو) اس سے خود یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ گالیاں دینے اور مار پٹائی کرنے سے بطریق اولیٰ ممانعت ہ وگئی ہے۔- اللہ تعالیٰ نے روزے کے سلسلے میں رفث کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہے (احد لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نساء کم) یہاں بالاتفاق جماع مراد ہے اور اس سے خود جماع سے کم تر باتوں مثلاً بوس و کنار اور ہم آغوشی کی اباحت خود بخود معلوم ہوگئی۔- جس طرح کہ حج میں رفث بمعنی عورتوں کا ذکر چھیڑنا ممنوع ہے۔ اس ممانعت کی وجہ سے اس سے بڑھ کر بات یعنی جماع کی ممانعت خود بخود سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اس لئے کہ قلیل کی ممانعت کے اسی جنس کی کثیر مقدار کی ممانتع پر اور کثیر کی اباحت اسی کے جنس کی قلیل مقدار کی اباحت پر دلالت کرتی ہے۔- محمد بن راشد سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حج کرنے کے لئے نکلے ہمارا گذر رویثہ کے مقام سے ہوا۔ وہاں ہمیں ایک بوڑھا ملا جس کا نام ابوہرم تھا، اس نے کہا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ محرم کے لئے جماع کے سوا اپنی بیوی سے ہر بات کی اجازت ہے۔- یہ سن کر ہم میں سے ایک شخص نے اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا ۔ ہم مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ میں نے عطاء سے اس بات کا تذکرہ کیا کیا انہوں نے کہا،” اس بوڑھے کا بیڑہ غرق ہو مسلمانوں کی گذر گاہ پر بیٹھ کر انہیں گمراہ کن فتوے دیتا ہے “ پھر عطاء نے اس شخص کو جس نے اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا تھا دم دینے کے لئے کہا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ بوڑھا نامعلوم ہے اور اس نے جو بات کہی ہے امت کا اس کے خلاف عمل پر اتفاق ہے۔ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص از راہ شہوت احرام کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے گا اس پر دم واجب ہوگا۔ یہی بات حضر تعلی، حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر حسن بصری، عطاء عکرمہ، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر، سعید بن المسیب سے منقول ہے اور یہی فقہائے امصار کا قول ہے۔- جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ حالت احرام میں آتے جاتے عورتوں کے سامنے جماع کا ذکر کرنا ممنوع ہے اور اشارہ کنایہ میں جماع کی بات کرنا اور ہاتھ لگانا دواعی جماع ہیں یعنی عمل جنسی پر ابھارنے اور آمادہ کرنے والی باتیں ہیں تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حالت احرام میں جماع اور دواعی جماع سب پر پابندی ہے اس سے خوشبو لگانے کی ممانعت پر بھی دلالت ہوتی ہے کیونکہ اس سے بھی جماع کا داعیہ پیدا ہوتا ہے نیز سنت میں اس کی ممانعت وارد ہے۔- فسوق کے معنی کے متعلق حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ یہ گالی دینا ہے۔ جدال سے مراد لڑائی جھگڑے کی بات ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جدال کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے ساتھی سے لڑائی جھگڑے کی باتیں کرو یہاں تک کہ اسے غصہ دلا دو اور فسوق کے معنی ہیں معاصی یعنی بدکاری۔ مجاہد سے قول باری (ولا جدال فی الحج) کے سلسلے میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اشہر حج کے متعلق بتادیا ہے اب ان مہینوں کے بارے میں نہ کوئی شک ہے اور نہ کوئی اختلاف۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف سے جن تمام معانی کا ذکر ہوا ہے ممکن ہے کہ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے مراد ہوں۔ اس بنا پر محرم پر گالی دینے اور لڑائی جھگڑے کی باتیں کرنے پر پابندی ہوگی۔ یہ پابندی اشہر حج اور غیر اشہر حج کے دوران ہوگی۔ اسی طرح محرم پر فسوق یعنی بدکاری اور معاصی کی بھی پابندی ہوگی۔ آیت زبان اور شرمگاہ کو ہر بدکاری اور معصیت سے بچانے کے حکم پر مشتمل ہے۔- بدکاری اور معاصی اگرچہ احرام سے پہلے بھی ممنوع ہیں لکین اللہ تعالیٰ نے احرام کی حرمت کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے حالت احرام میں ان کی ممانعت کو منصوص کردیا، نیز حالت احرام میں معاصی کا ارتکاب غیر حالت احرام میں ارتکاب سے بڑھ کر سنگین اور گھنائونا ہے اور اس کی سزا بھی زیادہ سخت ہے جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ (جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ نہ فحش گوئی کرے نہ جہالت پر اترے اور اگر کوئی اس کے خلاف جہالت پر اتر آئے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ “)- روایت ہے کہ حضرت فضل بن عباس سواری پر مزدلفہ سے منیٰ تک حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بیٹھے رہے۔ فضل کن انکھیوں سے عورتوں کی طرف دیکھتے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیچھے سے ان کا چہرہ موڑ دیتے۔ آپ نے فرمایا (ان ھذا یوم من ملک سمعہ و بصرہ کا غفرلہ آج کے دن جو شخص اپنی آنکھوں کان اور اپنی عقل پر قابو رکھے گا وہ بخش اجائے گا۔ )- یہ تو معلوم ہے کہ اس دن کے علاوہ دوسرے دنوں میں بھی ان کی ممانعت ہے لیکن یہاں خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر اس لئے فرمایا تاکہ اس دن کی عظمت واضح ہوجائے۔ اسی طرح معاصی بدکاری، لڑائی جھگڑا اور شہوانی باتیں سب کی ممانعت ہے اور سب آیت میں مراد ہیں خواہ یہ ممانعت احرام کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو یا عموم لفظ کی بنا پر احرام اور غیر احرام دونوں حالتوں میں ان کی ممانعت ہو۔- حالت احرام کے ساتھ ان کی ممانعت کی تخصیص احرام کی عظمت بیان کرنے کے لئے ہے۔ اگرچہ یہ غیر حالت احرام میں بھی ممنوع ہیں۔ مسعود نے مصنور سے ، انہوں نے ابی حازم سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من حج فلویرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ جس شخص نے اس حالت میں حج ادا کیا ہو کہ نہ شہوانی باتیں کی ہوں نہ ہی بدکاری اور فحش گوئی کی ہو تو وہ حج کے بعد اس دن کی طرح گناہوں سے پاک و صاف ہو کر لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ )- حدیث کا یہ مضمون آیت کی دلالت کے عین مطابق ہے وہ اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ نے حج میں فسوق اور معاصی سے روک دیا تو یہ نہی خود اس بات کو متضمن ہوگئی کہ اسے ان معاصی اور فسوق سے توبہ کرنے کا بھی حکم دیا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ ان گناہں پر اصرار کرنا اور ڈٹے رہنا بھی تو خود فسوق اور معاصی میں داخل ہے۔- اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ حاجی فسوق اور معاصی سے نئے سرے سے توبہ کرے یہاں تک کہ حج کے بعد گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو کر واپس ہو جس طرح کہ وہ اپنی پیدائش کے دن پاک صاف تھا۔ جس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درج بالا حدیث میں مروی ہے۔ آیت (ولا جدال فی الحج) میں حج کے دروان اپنے رفیق اور ساتھی سے لڑنے جھگڑنے، اسے تائو دلانے اور اس کے ساتھ الجھنے کی ممانعت ہے۔- زمانہ جاہلیت میں حج کے دوران یہ تمام باتیں ہوتی تھیں اس لئے کہ اب حج کا معاملہ ایک مقام پر آ کر ٹھہر گیا ہے اور اس کے ذریعے نسی کا بطلان ہوگیا ہے جس پر زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ قائم تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول (الا ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم تعلق السماوات والارض ) آگا ہ رہو زمانہ چکر کھا کر اپنی اصلی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر وہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش کے دن تھا۔ )- آپ کی مراد یہ ہے کہ حج اس وقت کی طرف لوٹ آیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے اور یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجتہ الوداع میں پیش آئی۔ قول باری (فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج) اگرچہ جملہ خبر یہ ہے لیکن معنوی طور پر ان افعال کی نہی پر مشتمل ہے۔- نہی کو نفی کے الفاظ سے اس لئے بیان کیا کہ منہی عنہ (جس چیز کی نہی کی گئی ہو) کا طریقفہ یہی ہے کہ اس کی نفی ہوجائے اور سا پر عمل بھی نہ ہو۔ یہ آیت امر کے سلسلے میں اس آیت کی طرح ہے۔ (والو الدات یرضعن اولامن اور مائیں اپنی اولاد کو دودھ پلائیں گی) یا (ویتربصن بانفسھن ، وہ اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں گی اور اسی طرح کی دوسری آیات جن کے الفاظ تو خبر یعنی جملہ خبر یہ کی صورت میں ہوں لیکن معنی میں وہ امر کے ہوں۔- حج کے لئے سفر خرچ مہیا کرنا ضروری ہے - قول باری ہے (وتزودو فان خیر الزاد التقویٰ اور سفر حج کے لئے زاد راہ ساتھ لے جایا کرو اور بہترین زاد راہ پرہیز گاری ہے) مجاہد اور شعبی سے مروی ہے کہ یمن کے کچھ لوگ حج میں زاد راہ ساتھ نہیں لاتے تھے حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی ۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ زاد راہ سے مراد خشک میٹھی روٹی اور زیتون کا تیل ہے۔- اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو اپنی اپنی زاد راہ پھینک کر اپنے آپ کو متوکلین کہلاتے۔ آیت کے ذریعے انہیں یہ فرمای اگیا کہ کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لے کر آئو۔ اور اپنا بوجھ لوگوں پر نہ ڈالو کہ وہ تمہارے کھانے پینے کا انتظام کرتے پھریں۔- ایک قول یہ بھی ہے کہ اعمال صالحہ کی زد راہ حاصل کرو کیونکہ پرہیز گاری بہترین توشہ ہے ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب آی ت میں دو باتوں کا احتمال ہے توشئہ طعام اور توشئہ پرہیز گاری کا تو ضرور ی ہے کہ اسی احتمال کو باقی رکھا جائے کیونکہ کسی خاص توشے کی تخصیص پر آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔- حج میں اعمال صالحہ کا توشہ حاصل کرنے کا ذکر اس لئے ہے کہ حج میں سب سے بڑھ کر جو چیز ہے وہ زیادہ سے زیادہ نیکی کمانا ہے۔ اس لئے کہ حج میں نیک کاموں پر کئی گناہ ثواب ملتا ہے جس طرح کہ دوسری طرف حج کے دوران فسوق اور معاصی کی ممانعت منصوص ہے اگرچہ غیر حج میں بھی ان کی ممانعت ہے۔ اس کے ذریعے احرام کی حرمت کی عظمت بیان کی گی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ حج میں ان کا گناہ دوسرے دنوں کی بہ نسبت بڑھ کر ہے۔- آیت صوفیوں کے مسلک کی تردید کرتی ہے جو اپنے آپ کو متوکلین کا نام دے کر زاد راہ ساتھ لانے اور معاش کے لئے جدوجہد نہ کرنے کے قائل ہیں۔ آیت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ حج کی استطاعت کی شرط زاد راہ اور سواری ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات ان لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمائی ہے جنہیں حج کے سلسلے میں خطاب کیا ہے۔- اس معنی کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ووہ قول ہے جو آپ نے اس وقت فرمایا جب آپ سے استطاعت کے متعلق دریافت کیا گیا کہ (ھی الزادوا الراحلۃ یہ توشہ اور سواری ہے) واللہ الموفق۔- آیت 197 کی تفسیر ختم ہوئی - ۔۔۔۔۔۔۔- تفسیر آیت 198:- حج کے دوران تجارت - اللہ تعالیٰ نے حج اور اس کے لئے زاد راہ کے ذکر کے بعد یہ ارشاد فرمایا (لئیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جائو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں آیت کی ابتدا میں مخاطب بنایا گیا تھا یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حج کے لئے زاد راہ لانے کا حکم دیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے حج کے دوران تجارت کو بھی مباح کردیا۔- امام ابویوسف نے علاء بن سائب سے اور انہوں نے ابوامامہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر سے کہا کہ میں کرائے پر اونٹ مکہ مکرمہ تک لاتا ہوں کیا میرا حج درست ہوجائے گا۔ “ حضرت ابن عمر نے فرمایا :” کیا تم تلبیہ نہیں کہتے اور وقوف عرفہ نہیں کرتے۔ “ میں نے جواب دیا۔ “ میں نے جواب دیا : کیوں نہیں۔ “ اس پر حضرت ابن عمر نے فرمایا۔- ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی سوال کیا تھا، آپ نے اسے جواب نہیں دیا حتیٰ کہ یہ آیت لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم) نازل ہوگئی۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے فرمایا کہ تو حاجی ہے۔ یعنی تیرا حج ہوگیا۔- عمرو بن دینار کا کنا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا :” زمانہ جاہلیت میں ذو المجاز اور عکاظ میں تجارتی منڈیاں لگتی تھیں۔ جب اسلام آیا تو لوگوں نے تجارت کی غضر سے ان جگہوں پر جانا چھوڑ دیا یہاں تک کہ حج کے اجتماعات کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔- سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے روای ت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :” میرے پاس ایک شخص آ کر کہنے لگا کہ میں نے اپنے آپ کو مزدور کے طور پر فلاں لوگوں کے حوالے کردیا ہے میں نے یہ شرط رکھی ہے کہ میں ان کی خدمت کروں گا اور وہ اس کے عوض مجھے حج پر لے جائیں گے۔ کیا اس طرح میرا حج ہوجائے گا۔ “- حضرت ابن عباس نے یہ سن کر فرمایا کہ یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جن کے متعلق ارشاد باری ہے (لھم نصیب مما کسبوا انہیں ان کی کمائی سے حصہ ملے گا) اسی قسم کی روایت تابعین کی ایک جماعت سے ہے جس میں عطاء بن ابی رباح ، مجاہد اور قتادہ شامل ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کسی نے اس کے خلاف کوئی بھی روایت بیان کی ہے۔- البتہ سفیان ثوری نے عبدالکریم سے اور انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ ایک بدو نے اس سے پوچھا کہ میں اپنے اونٹ کرائے پر دیتا ہوں اور میرا ارادہ حج کرنے کا بھی ہے آیا میرا یہ حج درست ہوگا ؟ سعید نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی عزت کی بات نہیں ہے۔- لیکن سعید کا یہ شاذ قول ہے اور یہ جمہور کے قول کے خلاف ہے اور ظاہر کتاب کے بھی خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم) یہ حاجیوں کے متعلق ہے اس لئے کہ اس کا ابتدائی حصہ بھی ان کے متعلق ہے۔ ان تمام آیات کے ظواہر جو اس قسم کی تجاتر کی اباحت پر دلالت کرتی ہیں اس آیت کے مضمون پر دلالت کر رہے ہیں۔- مثلاً یہ قوت باری (واخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ ) اور کچھ دوسرے ایسے لوگ ہیں جو زمین میں چل پھر کر اللہ کے فضل کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں) نیز قول باری (وازن فی الناس بالحج یا توک رجالاً علی کل ضامر اور تم لوگوں کو حج کا اذن عام دے دو لوگ تمہارے پاس پیدل اور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں گے) تا قول باری (لیشھدوا منافع لھم ) تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لئے رکھے گئے ہیں)- اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں منافع کی تخصیص نہیں کی اس لئے یہ لفظ دنیا اور آخرت دنوں کے منافع کو عام ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (واحل اللہ البیع وحرم الربوا ۔ اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال کردیا اور ربوا کو حرام کردیا ہے)- اس آی ت میں اللہ تعالیٰ نے حج کی حالت کی تخصیص نہیں کی یہ تمام آیتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حج تجارت کے لئے رکاوٹ نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک عہد سے لے کر ہمارے زمانے تک حج کے دنوں منیٰ اور مکہ مکرمہ کے اجتماعات میں لوگوں کا یہی دستور چلا آ رہا ہے۔ - وقوف عرفہ - قول باری ہے (فاذا افصتم من عرفات فاذکرو اللہ عند المشعر الحرام پھر جب تو عرفات سے چلو تو مشعر حرام یعنی مزدلفہ کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو۔ )- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ وقوف عرفہ مناسک حج میں سے ہے۔ آیت کا ظاہر وقوف عرفہ کے فرض ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ لیکن جب خطاب کے سیاق میں یہ فرما دیا گیا کہ (ثم افیضوا من حیث افاض الناس) پھر تم بھی اسی جگہ سے پلٹو جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں) تو واضح کردیا گیا کہ وقوف عرفہ فرض اور لازم ہے۔- اس لئے کہ پلٹنے یعنی افاضہ کا امرو جوب کا متقاضی ہے اور افاضہ اس وقت تک واجب نہیں ہوسکتا جب تک کہ عرفہ میں ہونا واجب نہ ہوتا کہ وہاں سے پلٹنے کا عمل شروع ہو۔ اس لئے کہ افاضہ کے عمل تک رسائی عرفہ میں اس عمل سے پہلے موجود ہنے کے بغیر نہیں ہوسکتی۔- قول باری (ثم افیضوا من حیث افاض الناس کی تفسیر میں اختلا ف ہے۔ حضرت عائشہ حضرت ابن عباس، عطاء ، مجاہد، قتادہ، حسن بصریا ور سدی سے مروی ہے کہ یہاں افاضہ سے مراد عرفات سے چل پڑنا ہے، زمانہ جاہلیت میں قریش اور ان کے ہم مشرب لوگ جنہیں الحمس (دین کے معاملے میں دلیر لوگ ) کہا جاتا تھا عرفات کی بجائے مزدلفہ میں وقوف کرتے جبکہ باقی ماندہ لوگ وقوف کے لئے عرفات تک جاتے۔- اسلام آباد کے بعد درج بالا آیت نازل ہوئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش اور ان کے ہم مشرب لوگوں کو عرفات میں جا کر لوگوں کے ساتھ وقوف کرنے کا حکم دیا نیز انہیں اسی جگہ سے پلٹنے کے لئے کہا گیا جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں۔ ضحاک سے مروی ہے کہ اس سے مراد مزدلفہ میں وقوف ہے اور یہ کہ لوگ اسی جگہ سے پلٹیں جہاں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پلٹے تھے۔- اس سلسلے میں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں (الناس) ارشاد فرمایا لکین اس سے تنا حضرت ابراہیم علیہ اسللام مراد ہیں جیسا کہ قول باری ہے (الذین قال لھم الناس وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا) حالانکہ مسلمانوں کو کفار کے اجتماع کے متعلق آ کر خبر دینے والا ایک شخص تھا۔- نیز چونکہ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام امام و مقتدیٰ تھے اور اللہ تعالیٰ نے امت کے نام سے یاد کیا تھا اس لئے آپ بمنزل اس امت کے ہوگئے جو آپ کے طریقوں کی پیروی کرتی ہے اور اس لئے آپ کی اکیلی ذات پر لفظ الناس کا اطلاق درست ہوگیا ۔ لکین پہلی تاویل ہی درست ہے اس لئے کہ اس تاویل پر سلف کا اتفاق ہے اور ضحاک کا یہ قول سلف کے اتفاق کا مزاحم نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک شاذ قول ہے۔- یہاں دراصل (الناس) کا لفظ ارشاد فرما کر اور قریش کو اسی جگہ سے پلٹنے کا حکم دے کر جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں یہ بتانا مقصود ہے کہ قریش کے لوگ اگرچہ دوسروں کے مقابلے میں عظمت کے حامل تھے لیکن تعداد میں وہ ان سے بہت کم تھے۔ لوگوں کی اکثریت قریش اور ان کے ہم مشرب قبائل سے الگ تھی۔ اسی لئے (من حیث افاض الناس) فرمایا گیا۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (فاذا افضتم عن عرفات) اور اس کے بعد یہ فرمایا (ثم افیضوا من حیث افاض الناس) اور حرف ثم ترتیب کا متقاضی ہے تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ یہ افاضہ عرفات سے افاضے سے بعد کا ہے۔ - جب کہ عرفات کے بعد مزدلفہ سے ہی افاضہ ہوتا ہے جو مشعر الحرام کہلاتا ہے۔ اس لئے اس حکم کو مزدلفہ سے افاضے پر محمول کرنا عرفات سے افاضے پر محمول کرنے سے بہتر ہے۔ نیز آیت میں چونکہ عرفات سے افاضے کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اس لئے دوبارہ اس کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔- اس کے جواب میں کہ اجائے گا کہ قول باری (ثم افیضوا من حیث افاض الناس) اول کلام کی طرف راجع ہے۔ اول کلام میں لوگوں کو حج کے ذکر، اس کے مناسک اور افعال کی تعلیم کے ساتھ مخاطب بتایا گیا ہے۔ گویا یوں فرمایا : اے قریش کے وہ لوگو جنہیں حج کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ہم نے اس سے پہلے حج کا ذکر کردیا ہے ، تم بھی اسی جگہ سے پلٹو جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں۔ “- اس بنا پر آیت کا یہ حصہ اول کلام جس میں مامورین کو خطاب کیا گیا ہے، کے تتمہ کی طرف راجع ہوگا۔ اس کی مثال اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمایا گیا (ثم اتینا موسیٰ الکتاب تماما علی الذی احسن پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل کی تھی آیت کے معنی یہ ہیں۔” گزشتہ آیات میں تمام باتیں ذکر کرنے کے بعد ہم نے تمہیں خبر دی کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی۔- یہ بھی جائز ہے کہ ” ثم حرف وائو، کے معنی میں ہو اس صورت میں عبادت کی ترتیب اس طرح ہوگی ” وافیضوا من حیث افاض الناس “ جس طرح کہ ارشاد باری میں ہے (ثم کان من الذین امنوا) اس کے معنی ہیں ” وکان من الذین امنوا (اور وہ ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لے آئے۔ )- اسی طرح قول باری ہے (ثم اللہ شھید علی ماتفعلون) اس کے معنی ہیں۔ واللہ شھید علی ماتفعلون (اور اللہ دیکھ رہا ہے جو تم کر رہے ہو) جب لغت کے لحاظ سے یہ معنی درست ہے اور سلف کی مرویات بھی اس کی تائید میں ہیں تو ہمارے لئے یہ معنی چھوڑ کر کسی اور معنی کی طرف پلٹنا درست نہیں ہے۔- رہا آپ کا یہ اعتراض کہ عرفات کا ذکر قول باری (فاذا افضتم من عرفات) میں گزر چکا ہے۔ اب اگر قول باری (ثم افیضوا) میں عرفات ہی مراد لیا جائے تو اس تکرار کی بنا پر سا قول باری کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا۔- دراصل بات یوں نہیں ہے اس لئے کہ قول باری (فاذا افضتم من عرفات ) میں وقوف کے ایجاب پر کوئی دلالت نہیں ہے اور قول باری (ثم افیضوا من حیث افاض الناس) ان لوگوں کے لئے حکم وقوف پر مشتمل ہے جو عرفات میں وقو ف نہیں کرتے یعنی قریش اور ان کے ہم شرب قبائل۔- اس طرح آیت میں وقوف کے ایجاب کا حکم سنایا گیا جو (فاذا افضتم من عرفات) میں موجود نہیں تھا۔ کیونکہ اس میں وقوف کی فرضیت کی کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اگر صرف اس آیت پر ہی اکتفا کردیا جاتا تو اس میں یہ گنجائش رہ جاتی کہ کوئی گمان کرنے والا یہ گمان کر بیٹھتا کہ یہ خطاب ان لوگوں کے لئے ہے جو عرفات میں وقوف کرتے تھے اور ان لوگوں کے لئے نہیں جو یہاں وقوف کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ - اس صورت میں مزدلفہ میں وقوف کرنے والے حسب سابق اپنی حالت پر رہتے اور وہ عرفات میں وقوف نہ کرنے کے باوجود بھی وقوف کے تارک نہ کہلاتے اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (ثم افیضوا من حیث افاض الناس) سے گمان کرنے والے کے اس گمان کو ختم کردیا، یعنی عرفات میں وقوف نہ کرنے والا وقوف کا تارک قرار پائے گا۔- اسی لئے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص نے وقوف عرفہ نہیں کیا اس کا حج نہیں ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول اور فعل سے امت نے اس بات کی روایت کی ہے بکیر بن عطاء نے عبدالرحمٰن بن یعمر الدیلی سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حج کی کیفیت پوچھی گئی آپ نے فرمایا (الحج یوم عرفۃ من جاء عرفۃ لیلۃ جمع قبل الصبح او یوم جمع فقدتم خجہ حج یوم عرفہ میں ہوتا ہے۔ جو شخص مزدلفہ کی رات صبح سے پہلے یا یوم مزدلفہ سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے اس کا حج مکمل ہوجائے گا۔ )- شعبی نے عروہ بن مفرس طائی سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے مزدلفہ میں فرمایا (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ و وقف معنا ھذا الموقف و قدو قف بعرفۃ قبل ذلک لیلاً اونھاراً فقد تم حجہ وقضی تفشہ جس نے ہمارے ساتھ یہ نماز پڑھی اور اس جگہ وقوف کیا بشرطیکہ اس نے اس سے پہلے دن یا رات کے وقت وقوف عرفہ کرلیا ہو تو اس کا حج پورا ہوجائے گا اور وہ اپنا میل کچیل دور کرلے گا۔- حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر، حضرت ابن الزبیر اور حضرت جابر سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص طلوع فجر سے پہلے پہلے وقوف عرفہ کرے گا اس کا حج پورا ہوجائے گا۔ فقہاء کا اس پر اجماع ہے۔ البتہ اس شخص کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے جس نے رات کے وقت بھی وقوف عرفہ نہیں کیا۔- سب کا یہ قول ہے کہ دن کے وقت وقوف عرفہ کرنے سے حج پورا ہوجاتا ہے۔ اگر غروب شمس سے پہلے کوئی شخص عرفات سے چل پڑے تو ہمارے اصحاب کے نزدیک اس پر دم واجب ہوگا بشرطیکہ امام سے پہلے اس کی واپسی نہ ہوئی ہو۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر عرفات سے وہ واپس نہ ہوا یہاں تک کہ طلوع فجر ہوگیا تو اس کا حج باطل ہوجائے گا۔- اصحاب مالک کا خیال یہ ہے کہ امام مالک نے یہ بات اس لئے کہی ہے کہ ان کے مسلک کے مطابق وقوف کی فرضیت رتا کے وقت ہے نہ کہ دن کے وقت۔ دن کے وقت وقوف کی فرضیت نہیں ہے بلکہ دن کے وقت وقوف مسنون ہے۔ حضرت عبداللہ بن الزبیر سے مروی ہے کہ جو شخص غروب شمس سے پہلے عرفات سے چل پڑے اور اس کا حج فاسد ہوجائے گا۔- قول اول کی صحت کی دلیل عروہ بن مفرس کی حدیث ہے جس میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا کہ جو شخص وقوف مزدلفہ سے پہلے وقوف عرفہ کر کے دن یا رات کے وقت وہاں سے پلٹ آیا ہو اس کا حج پورا ہوجائے گا اور وہ اپنا میل کچیل دور کرے گا۔ آپ نے ایسے شخص کے حج کی صحت و اتمام کا حکم صادر کردیا تھا جس نے دن یا رتا کے وقت وقوف عرفہ کرلیا ہو۔- اس پر قول باری بھی دلالت کرتا ہے (ثم افیضوا من حیث افاض الناس) حیث کا لفظ جگہ کے لئے بطور اسم اسعتمال ہوتا ہے اور وہ جگہ عرفات ہے۔ اس طرح آیت کے معنی یہ ہوئے ” عرفات سے پلٹو “ اس میں دن یا رات کی تخصیص نہیں ہے اور وقت کا بھی اس میں ذکر نہیں ہے۔ یہ عموم اس امر کا مقتضی ہے کہ جس وقت بھی وہ وقوف کرے گا اس کا وقوف جائز ہوگا۔- اس پر عقلی طور سے بھی دلالت ہو رہی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مناسک کی ابتدا دن سے ہوتی ہے اور رات بعاً اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ ان مناسک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو رات کے وقت کے ساتھ مخصوص ہو اور رات کے سوا کسی اور وقت میں اس کا فعل درست نہ ہو۔ اس لئے جس نے وقوف کی فرضیت کو رات کے ساتھ خاص کردیا ہے اس کا یہ قول اصول کے خلاف اور اس سے خارج ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ طواف زیارت، وقوف مزدلفہ، رمی جمار، حلق اور ذبح یہ سب دن کے وقت سر انجام پاتے ہیں اور اگر رات کے وقت یہ کئے جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے وقت سے مئوخر ہو کر دن کے بالتبع رتا کو سرانجام پاتے ہیں۔ اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ وقوف عرفہ کا بھی یہی حکم ہو، نیز امت نے آج تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دن کے وقت وقوف عرفہ کی روایت نقل کی ہے۔ نیز یہ کہ آپ وہاں سے غروب شمس کے وقت واپس ہوئے تھے۔- یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ وقوف کا وقت دن کا قوت ہے اور غروب شمس کے وقت واپسی ہوگی۔ اس لئے یہ بات محال ہوگئی کہ واپسی کا وقت فرضیت کا وقت ہوجائے اور وقو فکا وقت فرضیت کا وقت نہ رہے۔ نیز وقوف عرفہ کو یوم عرفہ کا نام دیا گیا ہے اور امت نے اس نام کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان اللہ تعالیٰ یباھی ملائکتہ یوم عرفہ، اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن فرشتوں کے ساتھ اپنے بندوں پر فخر کا اظہار کرتا ہے ) یا یہ کہ (صیام یوم عرفۃ یعلل صیام سنۃ ، عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے)- اسی بن اپر اتم نے وقوف عرفہ پر یوم عرفہ کا اطلاق کیا ہے ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دن کا وقت وقوف کی فرضیت کا وقت ہے اور رات کے وقت صرف وہی شخص وقوف کرتا ہے جس سے دن کا وقوف رہ گیا ہو۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ یوم الجمعہ، یوم الاضحیٰ یوم الفطر کے تحت کئے جانے والے افعال دن کے وقت سر انجام پاتے ہیں۔- اسی بنا پر ان افعال کی نسبت یوم یعنی دن کی طرف کی گئی ہے۔ اس لئے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ وقوف کی فرضیت یوم عرفہ میں ہے اور رات کے وقت وقوف صرف رہ جانے کی صورت میں قضا کے طور پر کیا جاتا ہے جس طرح کہ اگر رمی جمار دن کے وقت نہ ہو سکے تو رات کے وقت قضا کے طور پر کی جاتی ہے۔ یہی صورت حال طواف، ذبح اور حلق کی بھی ہے۔- وقوف کی جگہ کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ حضرت جبیر بن مطعم نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (کل عرفات موقف و ارفعوا من عرفۃ و کل مزدلفۃ موقف وارفعوا عن محسر پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور وادی عرفہ سے اوپر رہو، سارا مزدلفہ جائے وقوف ہے اور وادی محسر سے پرے رہو)- حضرت جابر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :- سارا عرفہ وقوف کی جگہ ہے) ابن عباس نے فرمایا کہ وادی عرفہ سے پرے رہو اور منبر کو اس کے مسیل (برساتی پانی کی گزر گاہ) سے دور رکھو۔ اس سے اوپر کا جو حصہ ہے وہ سارے کا سارا جائے وقوف ہے۔ راویان احادیث کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غروب شمس کے بعد عرفات سے چلے تھے۔- ایک روایت یہ بھی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ عرفات سے اس وقت نلکتے تھے جب سورج پہاڑوں پر پہنچ جاتا تھا اور اس طرح ہوجاتا تھا کہ وہ لوگوں کے چہروں پر ان کے عماموں کی طرح ڈھلک گیا ہے۔ پھر یہ لوگ مزدلفہ سے طلوع شمس کے بعد نکلتے تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے عرفات سے غروب شمس کے بعد اور مزدلفہ سے طلوع شمس سے قبل روانگی کی۔- سلمہ بن کہسیل نے حسن المعرنی سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا (یا ایھا النسا لیس البرفی ایجاف الخیل ولا فی ایصاح الابل ولکن سیراً حسناً جمیلا ولا توطئوا ضعیفاً ولا توذوا مسلماً اے لوگو گھوڑے دوڑانے اور اونٹوں کو بھگا لے جانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔ - لیکن سواری کو خوش رفتاری اور عمدہ طریقے سے چلائو کسی کمزور کو اپنی سواری تلے نہ روند و اور کسی مسلمان کو ایذا نہ پہنچائو۔ )- ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت اسامہ بن زید سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عرفات سے جب واپسی ہوئی تو آپ کی معیت میں ہماری سواریوں کی رفتار تیز ہوتی اور جب گزر گاہ کشادہ ہوتی تو آپ اونٹنی کو دوڑا کرلے جاتے۔ واللہ اعلم۔- وقوف مزدلفہ - قول باری ہے (فاذا فضتم من عرفات فاذکروا اللہ عمد المشعر الحرام جب تم عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام یعنی مزدلفہ کے پاس اللہ کو یاد کرو) اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مشعر حرام سے مراد مزدلفہ ہے۔ اسے جمع کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔- بعض لوگوں کا قول ہے کہ ذکر سے مراد مزدلفہ میں مغرب اور عشا کی نمازیں مغرب میں تاخیر کر کے اکٹھی ادا کی جائیں اور قول باری (واذکروہ کما ھدا کم اور اسے یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں اس کی رہنمائی کی ہے) میں ذکر ثانی سے مراد وہ ذکر ہے جو مزدلفہ کی صبح وقوف مزدلفہ کے وقت کیا جاتا ہے۔ اس ذکر اول ذکر ثانی سے مختف ہوتا ہے۔ نماز کو ذکر کا نام دی اگیا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من نام عن صلوۃ اونسیھا فلیصلھا اذا زکرھا جو شخص کسی نماز کے وقت سوتا رہ جائے یا نماز پڑھنا بھول جائے تو جس وقت اسے یاد آ جائے نماز ادا کرے) یہ فرما کر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (واقم الصلوۃ للذکری اور میری یاد میں نماز قائم کر) اللہ تعالیٰ نے نماز کو ذکر کا نام دیا۔- اس بنا پر آیت کا اقتضاء یہ ہے کہ مزدلفہ میں مغرب کی نماز میں تاخیر کی جائے اور اسے عشاء کی نماز کے ساتھ ادا کی جائے۔ حضرت اسامہ بن زید نے جو عرفات سے مزدلفہ تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے (آپ کے ساتھ سواری پر پیچھے سوار تھے) کہا ہے کہ میں نے مزدلفہ جاتے ہوئے راستے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مغرب کی نماز کا وقت جا رہا ہے۔- آپ نے یہ سن کر فرمایا :” نماز تمہارے آگے ہے۔ “ یعنی آگے چل کر نماز پڑھیں گے۔ جب آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب کی نماز عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھی۔ مزدلفہ میں مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ پڑھنے کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات حد تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔- اس شخص کے متعقل اختلاف ہے جس نے مزدلفہ پہنچنے سے پہلے مغرب کی نماز ادا کرلی۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ نماز ادا نہیں ہوئی اور امام ابو سف کا قول ہے کہ ادا ہوگئی اگر قول باری (فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام) میں ذکر سے مراد نماز ہے تو ظاہر آیت مشعر حرام پہنچنے سے قبل نماز کے جواز کو مانع ہے۔- اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد کو (الصلوۃ امامک) بھی اس کے جواز کو مانع ہے آی ت میں مذکور ذکر کو نماز پر محمو لکرنا وقوف مزدلفہ کے وقت کئے جانے والے ذکر پر محمول کرنے سے بہت رہے۔ اس لئے کہ قو ل باری (واذاکروہ کما ھداکم) سے مراد وہ ذکر ہے جو وقوف مزدلفہ کی حالت میں کیا جاتا ہے۔- اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ذکر اول کو نماز پر محمول کریں۔ تاکہ ان دونوں میں سے ہر ذکر کو اس کا حصہ دے دیں اور آیت میں ایک ہی چیز کی تکرار نہ ہو۔- قول باری (فاذکرو اللہ عند المشعر الحرام) میں امر ایجاب کا مقتضی ہے جب کہ مزدلفہ میں کیا جانے والا ذکر کسی کے نزدیک واجب نہیں ہے ۔ جب اس ذکر کو مزدلفہ میں مغرب کی نماز پر محمول کیا جائے گا تو اس صورت میں امر اپنے مقتضی یعنی وجوب پر محمول ہوگا۔ اس لئے اس ذکر کو نماز پر ہی محمول کرنا واجب ہے۔- وقوف مزدلفہ کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے آیا یہ حج کے فرائض میں داخل ہے یا نہیں۔ کچھ لوگ تو اس بات کے قائل ہیں کہ یہ حج کے فرائض میں شامل ہے اور جس شخص سے رہ گیا اس کا حج نہیں ہوگا جس طرح کہ وقوف عرفہ کے فوت ہونے کی صورت میں حج نہیں ہوتا۔- لیکن جمہور اہل علم کا قول ہے کہ وقوف مزدلفہ رہ جانے کی صورت میں حج پورا ہو جات ا ہے اور اس سے اس کا حج فاسد نہیں ہوتا۔ جن لوگوں نے وقوف مزدلفہ کو فرض تسلیم نہیں کیا ہے ان کی دلیل حدیث عبدالرحمٰن بن یعمر الدیلی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ہے کہ ” حج وقوف عرفہ کا نام ہے جس شخص نے طلوع فجر سے پہلے پہلے وقوف کرلیا اس کا حج مکمل ہوگیا۔ “- بعض روایات میں آپ نے فرمایا : جس شخص کو وقوف عرفہ حاصل ہوگیا اسے حج حاصل ہوگیا اور جس شخص سے وقوف عرفہ رہ گیا اس سے حج رہ گیا ” آپ نے وقوف عرفہ کرنے پر حج کی صحت کا حکم صادر فرمایا اور اس کے ساتھ وقوف مزدلفہ کی شرط نہیں لگائی۔- اس پر حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر سے منقول روایت بھی دلالت کرتی ہے ، یہ روایت اور لوگوں کے ذریعے بھی منقول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خاندان کے کمزوروں کو رات کے وقت ہی مزدلفہ سے آگے بھیج دیا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے کمزور لوگوں کو رات کے وقت ہی مزدلفہ سے آگے چل جانے کو کہا تھا اور ان سے یہ فرمایا تھا کہ سورج طلوع ہونے سے قبل جمرہ عقبہ کو کنکریاں نہ مارنا اگر مزدلفہ میں وقوف فرض ہوتا تو آپ کمزوری کی بنا پر لوگوں کو ہرگز اس کے ترک کی اجازت نہ دیتے جس طرح کہ وقوف عرفہ کے ترک کی کمزوری کے سبب اجازت نہیں ہوتی۔- اگر یہ کہاجائے کہ کمزور لوگ رات کے وقت مزدلفہ کا وقوف کرلیتے تھے، یہی اس کے وقوف کا وقت وہتا ہے۔ سالم بن عمر جو کہ گزشتہ حدیث کے ایک راوی ہیں، جس میں کمزور لوگوں کو آگے بھیج دینے کا ذکر ہے، اپنے خاندان کے کمزور افراد کو مزدلفہ سے آگے بھیج دیتے ۔ یہ افراد رات کے وقت مشعر حرام کے نزدیک وقوف کر کے جو کچھ ذکر الٰہی میسر ہوتا کرتے اور پھر وہاں سے چل پڑتے۔- اس کے جو با میں کہاجائے گا کہ مزدلفہ کے وقوف کا وقت طلوع فجر کے بعد شروع ہوتا ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلوع فجر کے بعد وہاں وقوف کیا تھا لیکن آپ نے اپنے خاندان کے کمزور افرادم کو وقوف کا حکم نہیں دیا کیونکہ آپ نے انہیں رات کے وقت ہی آگے چلے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اگر رات کا وقت وقوف مزدلفہ کا وقت ہوتا تو آپ ان لوگوں کو اس کا حکم دیتے اور اس کے ترک کی رخصت نہ دیتے جبکہ بلا عذر اس کے بجا لانے کا امکان موجود تھا۔- رہی سالم بن عمر کی روایت تو یہ ان کا اپنا فعل تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی روایت نہیں تھی اور انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ رات کا وقت وقوف مزدلفہ کا وقت ہے۔ بلکہ یہ استحباب کے طور پر تھا تاکہ منیٰ کی طرف رجوع سے پہلے اللہ کا ذکر ہوجائے۔ طلوع فجر کے بعد وقوف مزدلفہ کا وقت ہوتا ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ مناسک کے افعال کا وقت دن کو ہوتا ہے اور رات کا وقت بالتبع ان میں داخل ہوتا ہے جیسا کہ ہم پہلے اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔- جو لوگ وقوف مزدلفہ کی فرضیت کے قائل ہیں انہوں نے ظاہر آیت (فاذا افضتم من عرفات فاذکرو اللہ عند المشعر الحرام) سے استدلال کیا ہے کہ یہ وقوف کے وجوب کا تقاضا کرتا ہے نیز وہ مطرف بن طریف کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو انہوں نے شعبی سے انہوں نے عروہ بن مفرس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : - (من ادرک جمعاً والامام واقف فوقف مع الامام ثمافاض مع الناس فقد ادرک الحج ومن لوید رک فلا حج لہ جس شخص نے مزدلفہ میں امام کو وقوف کی حالت میں پاکر خود بھی وقوف کرلیا، پھر لوگوں کے ساتھ اس کی واپسی ہونی اسے حج مل گیا اور جو شخص یہ نہ پاسکا اس کا حج نہیں ہوا) ۔- اسی طرح اس روایت سے بھی انہوں نے استدلال کیا ہے جس کی روایت یعلی بن عبید نے کی ہے، انہیں سفیان بن بکیر بن عطا سے، انہوں نے عبدالرحمن بن یعمر الدیلی سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عفرات میں وقوف کی حالت میں دیکھا کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور حج کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا (الحج یوم عرفۃ ومن ادرک جمعا قبل الصبح فقد ادرک الحج یوم عرفہ کا وقوف حج ہے اور جس شخص کو صبح سے پہلے وقوف مزدلفہ حاصل ہوجائے اسے حج حاصل ہوجاتا ہے)- جہاں تک قول باری (فاذکروا اللہ عند المسجد الحرام کا تعلق ہے تو اس میں اس بات کی کوئی دللات موجود نہیں ہے جو انہوں نے اپنے استدلال سے ثابت کی ہے اس لئے کہ آیت میں اللہ کو یاد کرنے کا حکم ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہاں یاد الٰہی مفروض نہیں ہے اس لئے کہ اس کے ترک سے حج میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوتی اور آیت میں وقوف کا کوئی ذکر نہیں ہے اس بنا پر ان کا استدلال ساقط ہوگیا ۔- ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ ہم نے یہ واضح کردیا ہے کہ مزدلفہ میں ذکر سے مراد وہاں مغرب کی نماز کی ادائیگی ہے۔ رہ گئی شعبی سے مطرف بن طریف کی حدیث تو اس کی مطرف کے علاوہ پانچ دوسرے راویوں نے بھی روایت کی ہے جن میں زکریا بن ابی زائدہ عبداللہ ابی السفر اور سیارہ شامل ہیں۔ ان سب نے شعبی سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ۔- اس روایت میں ان سب نے یہ کہا ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ و وقف معنا ھذلا الموقف وافاض قبل ذلک من عرفۃ لیلاً او نھاراً فقد تم حجہ وقضی تفشہ جس شخص نے ہمارے ساتھ یہ نماز پڑھی اور ہمارے ساتھ اس جگہ وقوف کیا اور اس سے پہلے دن یا رات کے وقت عرفات سے اس کی واپسی ہوئی اس کا حج مکمل ہوگیا اور اس نے اپنا میل کچیل دور ک رلیا۔- ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا (فلا حج لہ اس کا حج نہیں ہوا) تاہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مزدلفہ میں ترک صلوۃ سے حج فاسد نہیں ہوتا۔ حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیث میں نماز کا ذکر فرمایا ہے۔ جب ترک صلوۃ سے حج فاسد نہیں ہوتا تو ترک وقوف سے بھی حج فاسد نہیں ہوا۔- اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (فلا حج لہ ) بھی ارشاد فرمایا تو اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے فضیلت کی نفی مراد ہو، اصل یعنی حج کی نفی مراد نہ ہو۔ جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لا وضوء لمن لم یذکرا سم اللہ علیہ جس شخص نے وضو میں اللہ کا نام نہ لیا اس کا وضو نہیں ہوا) یا جس طرح حضرت عمر نے روایت کی ہے کہ (من قدم نفلہ فلاح حج لہ ، جس شخص نے نقل کو مقدم کیا اس کا حج نہیں ہوا)- رہ گئی عبدالرحمٰن بن یعمر الدیلی کی حدیث تو اس کی روایت محمد بن کثیر نے سفیان سے انہوں نے بکیر بن عطاء سے، انہوں نے عبدالرحمٰن یعمر الدیلی سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من وقف قبل ان یطلع الفجر فقدتم حجہ، جس شخص نے طلوع فجر سے پہلے وقوف کیا اس کا حج مکمل ہوگیا)- اس روایت سے ہمیں دراصل یہ بات معلوم ہوئی کہ اس سے مراد وقوف عرفہ ہے جو حج پالینے کی شرط ہے۔ جس شخص نے (من ادرک جمعا قبل الصبح) روایت کی ہے اسے الفاظ حدیث میں وہم ہوگیا ہے۔ اسے وہم کسی طرح نہیں قرار دیا جائے گا جبکہ پوری امت نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزدلفہ میں طلوع فجر کے بعد آپ کا وقوف نقل کیا ہے اور آپ سے ایسی کوئی روایت نقل نہیں ہوئی جس میں آپ نے کسی کو رات کے وقت وقوف مزدلفہ کا حکم دیا ہو۔- تاہم اس روایت کی معارض وہ تمام صحیح روایات ہیں جن سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول مروی ہے (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ ثم وقف معنا ھذا الموقف) اسی طرح عبدالرحمٰن بن یعمر سے مروی وہ تمام روایات بھی درج بالا روایت کی معارض ہیں۔ عبدالرحمٰن کی روایت کے الفاظ یہ ہیں (من ادرک کمرفۃ فقد ادرک الحج وقد تم حجہ و من فاتہ عرفۃ فقد فاتہ الحج)- یہ روایت اس شخص کی روایت کی نفی کرتی ہے جس نے اس کے ساتھ وقوف مزدلفہ کی بھی شرط لگائی ہے۔ میرا خیال ہے کہ الاصم اور ابن علیہ ہیں جو اس وقوف کی فرضیت کے قائل ہیں۔- جو لوگ وقوف مزدلفہ کے قائل ہیں انہوں نے عقلی طور پر یہ استدلال کیا ہے کہ حج میں دو وقوف ہیں ایک وقوف عرفہ اور دوسرا وقوف مزدلفہ ۔ جب ہم ایک وقوف کی فرضیت پر متفق ہوگئے ہیں یعنی وقوف عرفہ تو یہ ضروری ہے کہ دوسرا وقوف بھی فرض ہو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دونوں کا ذکر کیا ہے جس طرح کہ قرآن میں رکوع اور سجود دونوں کے ذکر سے نماز میں دونوں فرض ہیں۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ کا یہ کہنا کہ چونکہ قرآن میں ان دونوں کا ذکر ہوا ہے اس بنا پر یہ دونوں فرض ہیں، بڑی سنگین غلطی ہے۔ اس لئے کہ یہ قول پھر اس بات کا مقتضی ہوگا کہ ہر وہ بات جس کا ذکر قرآن میں ہو وہ فرض ہوجائے۔ اس بات کو تسلیم کرنا آپ کے لئے ممکن نہیں ہے جس سے آپ کے قول سے بننے والا کلیہ ٹوٹ جائے گا۔ نیز الہ تعالیٰ نے قرآن میں وقوف مزدلفہ کا ذکر نہیں کیا۔- اللہ تعالیٰ کا تو صرف یہ ارشاد ہے (فاذ کروا اللہ عند المشعر الحرام) اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مشعر حرام کے نزدیک ذکر بھی فرض نہیں ہے تو وقوف کیسے فرض ہوگا۔ اس لئے یہ استدلال بھی ساقط ہوگیا۔ اگر آپ اس وقوف کو وقوف عرفہ پر قیاس کرتے ہوئے واجب کریں گے تو آپ سے وہ دلیل طلب کی جائے گی جس کی بنا پر اس قیاس کو واجب کرنے والی علت کی صحت ثابت ہو سکے اور یہ بات معلوم ہے کہ ایسی کوئی دلالت یا عدت موجود نہیں ہے۔- آپ سے یہ بھی کہا جائے گا کہ آیا ایسا نہیں ہوا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ نے طواف وسعی کی، پھر دسویں ذی الحجہ کو بھی طواف کیا اور پھر طواف صدر بھی کیا اور اس کا حکم بھی دیا تو کیا اس سے یہ واجب ہوگیا کہ ایجاب کے لحاظ سے ان تینوں طوافوں کا ایک حکم ہوجائے۔ جب یہاں یہ بات جائز ہوگئی کہ بعض طواف مستحب ہوں اور بعض واجب تو پھر یہی بات وقوف کے سلسلے میں تسلیم کرلینے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ ایک وقوف مستحب ہوا اور دوسرا واجب ہوجائے۔۔۔۔
(١٩٩) وہیں جاکر پھر لوٹو جہاں سے یمن والے لوٹ کر آتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے بخشش طلب کرو جو شخص توبہ طلب کرے اور توبہ ہی پر اس کا انتقال ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی بخشش فرمانے والے ہیں۔- یہ آیت کریمہ اہل حمس کے بارے میں اتری ہے جو اپنے حجوں میں حرم سے میدان عرفات کے علاوہ اور کسی جگہ نہیں جاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز سے روکا اور اس بات کا حکم دیا کہ میدان عرفات جاؤ اور اسی مقام سے لوٹ کر آؤ۔
آیت ١٩٩ (ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاض النَّاسُ ) - زمانۂ جاہلیت میں قریش مکہّ عرفات تک نہ جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری خاص حیثیت ہے ‘ لہٰذا ہم منیٰ ہی میں مقیم رہیں گے ‘ باہر سے آنے والے لوگ عرفات جائیں اور وہاں سے طواف کے لیے واپس لوٹیں ‘ یہ سارے مناسک ہمارے لیے نہیں ہیں۔ یہاں فرمایا گیا کہ یہ ایک غلط بات ہے جو تم نے ایجاد کرلی ہے۔ تم بھی وہیں سے طواف کے لیے واپس لوٹو جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں ‘ یعنی عرفات سے۔- (وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ ط) ۔ - اپنی اگلی تقصیر پر نادم ہو اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہو۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :220 “حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے زمانے سے عرب کا معروف طریقہ حج یہ تھا کہ ۹ ذی الحجہ کو مِنیٰ سے عَرَفات جاتے تھے اور رات کو وہاں سے پلٹ کر مُزْدلفہ میں ٹھیرتے تھے ۔ مگر بعد کے زمانے میں جب رفتہ رفتہ قریش کی برہمنیت قائم ہو گئی ، تو انہوں نے کہا: ہم اہل حرم ہیں ، ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام اہل عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لیے یہ شان امتیاز قائم کی کہ مزدلفہ تک جا کر ہی پلٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیے چھوڑ دیتے تھے ۔ پھر یہی امتیاز بنی خزاعہ اور بنی کنانہ اور ان دوسرے قبیلوں کو بھی حاصل ہو گیا ، جن کے ساتھ قریش کے شادی بیاہ کے رشتے تھے ۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حلیف تھے ، ان کی شان بھی عام عربوں سے اونچی ہو گئی اور انہوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا ۔ اسی فخر و غرور کا بت اس آیت میں توڑا گیا ہے ۔ آیت کا خطاب خاص قریش اور ان کے رشتے دار اور حلیف قبائل کی طرف ہے اور خطاب عام ان سب کی طرف ہے ، جو آئندہ کبھی اس قسم کے امتیازات اپنے لیے مخصوص کرنا چاہیں ۔ ان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اور سب لوگ جہاں تک جاتے ہیں ، انہیں کے ساتھ جاؤ ، انہیں کے ساتھ ٹھیرو ، انہیں کے ساتھ پلٹو ، اور اب تک جاہلیت کے فخر و غرور کی بنا پر سنت ابراہیمی کی جو خلاف ورزی تم کرتے رہے ہو ، اس پر اللہ سے معافی مانگو ۔
133: جاہلیت میں اہل عرب نے یہ طریقہ مقرر کر رکھا تھا کہ اور تمام انسان نو ۹ذوالحجہ کو عرفات کے میدان میں وقوف کرتے تھے، مگر قریش اور بعض دوسرے قبائل جوحرم کے قریب رہتے تھے اور ’’حُمس‘‘ کہلاتے تھے، عرفات جانے کے بجائے مزدلفہ میں رہتے تھے، اور وہیں وقوف کرتے تھے، ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم حرم کے مجاور ہیں اور عرفات چونکہ حدود حرم سے باہر ہے اس لئے ہم وہاں نہیں جائیں گے، نتیجہ یہ کہ عام لوگوں کو نویں تاریخ کا دن عرفات میں گزارنے کے بعد رات کو مزدلفہ کے لئے روانہ ہونا پڑتا تھا، مگر قریش وغیرہ شروع ہی سے مزدلفہ میں ہوتے تھے، او ران کو عرفات سے آنا نہیں پڑتا تھا۔ اس آیت نے یہ رسم ختم کردی، اور قریش کے لوگوں کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ عام لوگوں کے ساتھ عرفات میں وقوف کریں، اور انہی کے ساتھ روانہ ہو کر مزدلفہ آئیں۔