Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تجارت اور حج صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں عکاظ ، مجنہ اور ذوالمجاز نامی بازار تھے اسلام کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ایام حج میں تجارت کو گناہ سمجھ کر ڈرے تو انہیں اجازت دی گئی کہ ایام حج میں تجارت کرنا گناہ نہیں ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ حج کے دنوں میں احرام سے پہلے یا احرام کے بعد حاجی کے لئے خرید وفروخت حلال ہے ، ابن عباس کی قرأت میں آیت ( من ربکم ) کے بعد فی مواسم الحج کا لفظ بھی ہے ، ابن زبیر سے بھی یہی مروی ہے دوسرے مفسرین نے بھی اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ ایک شخص حج کو نکلتا ہے اور ساتھ ہی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتا جاتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ( ابن جریر ) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ابو امامہ تیمی نے حضرت ابن عمر سے پوچھا کہ ہم حج میں جانور کرایہ پر دیتے ہیں کیا ہمارا حج ہو جاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کرتے؟ کیا تم عرفات میں نہیں ٹھہرتے ؟ کیا تم شیطانوں کو کنکریاں نہیں مارتے؟ کیا تم سر نہیں منڈواتے؟ اس نے کہا یہ سب کام تو ہم کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا سنو ایک شخص نے یہی سوال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تھا اور اس کے جواب میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آیت ( لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:198 ) لے کر اترے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلا کر فرمایا کہ تم حاجی ہو تمہارا حج ہو گیا ۔ مسند عبدالرزاق میں بھی یہ روایت ہے کہ اور تفسیر عبد بن حمید وغیرہ میں بھی ، بعض روایتوں میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی بھی ہے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کیا تم احرام نہیں باندھتے ؟ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ کیا آپ حضرات حج کے دنوں میں تجارت بھی کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا اور تجارت کا موسم ہی کونسا تھا ؟ عرفات کو منصرف ( یعنی تصرف کر کے ) پڑھا گیا ہے حالانکہ اس کے غیر منصرف ہونے کے دو سبب اس میں موجود ہیں یعنی اسم علم اور تانیث ، اس لئے کہ دراصل یہ جمع ہے جیسے مسلمات اور مومنات ایک خاص جگہ کا نام مقرر کر دیا گیا ہے اس لئے اصلیت کی رعایت کی گئی اور منصرف پڑھا گیا عرفہ وہ جگہ ہے جہاں کا ٹھہرنا حج کا بنیادی رکن ہے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حج عرفات ہے تین مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی فرمایا جو سورج نکلنے سے پہلے عرفات میں پہنچ گیا اس نے حج کو پا لیا ، منی کے تین دنوں میں جلدی یا دیر کی جا سکتی ہے ، پر کوئی گناہ نہیں ، ٹھہرنے کا وقت عرفے کے دن سورج ڈھلنے کے بعد سے لے کر عید کی صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع میں ظہر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک یہاں ٹھہرے رہے اور فرمایا تھا مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو ، حضرت امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے کہ دسویں کی فجر سے پہلے جو شخص عرفات میں پہنچ جائے ، اس نے حج پا لیا ، حضرت امام احمد ، فرماتے ہیں کہ ٹھہرنے کا وقت عرفہ کے دن کے شروع سے ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزدلفہ میں نماز کے لئے نکلے تو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں طی کی پہاڑیوں سے آرہا ہوں اپنی سواری کو میں نے تھکا دیا اور اپنے نفس پر بڑی مشقت اٹھائی واللہ ہر ہر پہاڑ پر ٹھہرتا آیا ہوں کیا میرا حج ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا جو شخص ہمارے یہاں کی اس نماز میں پہنچ جائے اور ہمارے ساتھ چلتے وقت تک ٹھہرا رہے اور اس سے پہلے وہ عرفات میں بھی ٹھہر چکا ہو خواہ رات کو خواہ دن کو اس کا حج پورا ہو گیا اور وہ فریضہ سے فارغ ہو گیا ۔ ( مسند احمد وسنن ) امام ترمذی اسے صحیح کہتے ہیں ، امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور انہوں نے آپ کو حج کرایا جب عرفات میں پہنچے تو پوچھا کہ ( عرفت ) کیا تم نے پہچان لیا ؟ حضرت خلیل اللہ نے جواب دیا ( عرفت ) میں نے جان لیا کیونکہ اس سے پہلے یہاں آچکے تھے اس لئے اس جگہ کا نام ہی عرفہ ہوگیا ، حضرت عطاء ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو مجلز سے بھی یہی مروی ہے واللہ اعلم ۔ مشعر الحرام مشعر الاقصی اور الال بھی ہے ، اور اس پہاڑ کو بھی عرفات کہتے ہیں جس کے درمیان جبل الرحمۃ ہے ، ابو طالب کے ایک مشہور قصیدے میں بھی ایک شعر ان معنوں کا ہے ، اہل جاہلیت بھی عرفات میں ٹھہرتے تھے جب پہاڑ کی دھوپ چوٹیوں پر ایسی باقی رہ جاتی جیسے آدمی کے سر پر عمامہ ہوتا ہے تو وہ وہاں سے چل پڑتے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں سے اس وقت چلے جب سورج بالکل غروب ہو گیا ، پھر مزدلفہ میں پہنچ کر یہاں پڑاؤ کیا اور سویرے اندھیرے ہی اندھیرے بالکل اول وقت میں رات کے اندھیرے اور صبح کی روشنی کے ملے جلے وقت میں آپ نے یہیں نماز صبح ادا کی اور جب روشنی واضح ہو گئی تو صبح کی نماز کے آخری وقت میں آپ نے وہاں سے کوچ کیا حضرت مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں عرفات میں خطبہ سنایا اور حسب عادت حمد و ثنا کے بعد اما بعد کہہ کر فرمایا کہ حج اکبر آج ہی کا دن ہے دیکھو مشرک اور بت پرست تو یہاں سے جب دھوپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس طرح ہوتی تھی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامہ ہوتا ہے تو سورج غروب ہونے سے پیشتر ہی لوٹ جاتے تھے لیکن ہم سورج غروب ہونے کے بعد یہاں سے واپس ہوں گے وہ مشعر الحرام سے سورج نکلنے کے بعد چلتے تھے جبکہ اتنی وہ پہاڑوں کی چوٹیون پر دھوپ اس طرح نمایاں ہو جاتی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامے ہوتے ہیں لیکن ہم سورج نکلنے سے پہلے ہی چل دیں گے ہمارا طریقہ مشرکین کے طریقے کے خلاف ہے ( ابن مردویہ ومستدرک حاکم ) امام حاکم نے اسے شرط شیخین پر اور بالکل صحیح بتلایا ہے ، اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے ان لوگوں کا قول ٹھیک نہیں جو فرماتے ہیں کہ حضرت مسور نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے لیکن آپ سے کچھ سنا نہیں ، حضرت معرور بن سوید کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عرفات سے لوٹتے ہوئے دیکھا گویا اب تک بھی وہ منظر میرے سامنے ہے ، آپ کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ تھے اپنے اونٹ پر تھے اور فرما رہے تھے ہم واضح روشنی میں لوٹے صحیح مسلم کی حضرت جابر والی ایک مطول حدیث جس میں حجۃ الوداع کا پورا بیان ہے اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورج کے غروب ہونے تک عرفات میں ٹھہرے جب سورج چھپ گیا اور قدرے زردی ظاہر ہونے لگی تو آپ نے اپنے پیچھے اپنی سواری پر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو سوار کیا اور اونٹنی کی نکیل تان لی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے قریب پہنچ گیا اور دائیں ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ فرماتے جاتے تھے کہ لوگو آہستہ آہستہ چلو نرمی اطمینان وسکون اور دلجمعی کے ساتھ چلو جب کوئی پہاڑی آئی تو نکیل قدرے ڈھیلی کرتے تاکہ جانور بہ آسانی اوپر چڑھ جائے ، مزدلفہ میں آکر آپ نے مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی اذان ایک ہی کہلوائی اور دونوں نمازوں کی تکبیریں الگ الگ کہلوائیں مغرب کے فرضوں اور عشا کے فرضوں کے درمیان سنت نوافل کچھ نہیں پڑھے پھر لیٹ گئے ، صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد نماز فجر ادا کی جس میں اذان واقامت ہوئی پھر قصوی نامی اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر الحرام میں آئے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا میں مشغول ہو گئے اور اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ اور اللہ کی توحید بیان کرنے لگے یہاں تک کہ خوب سویرا ہو گیا ، سورج نکلنے سے پہلے ہی پہلے آپ یہاں سے روانہ ہو گئے ، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب یہاں سے چلے تو کیسی چال چلتے تھے فرمایا اور درمیانہ دھیمی چال سواری چلا رہے تھے ہاں جب راستہ میں کشادگی دیکھتے تو ذرا تیز کر لیتے ( بخاری ومسلم ) پھر فرمایا عرفات سے لوٹتے ہوئے مشعرالحرام میں اللہ کا ذکر کرو یعنی یہاں دونون نمازیں جمع کر لیں ، عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مشعرالحرام کے بارے میں دریافت فرماتے ہیں تو آپ خاموش رہتے ہیں جب قافلہ مزدلفہ میں جا کر اترتا ہے تو فرماتے ہیں سائل کہا ہے یہ مشعر الحرام ، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ مزدلفہ تمام کا تمام مشعر الحرام ہے ، پہاڑ بھی اور اس کے آس پاس کی کل جگہ ، آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ قزح پر بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں تو فرمایا یہ لوگ کیوں بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں ؟ یہاں کی سب جگہ مشعر الحرام ہے ، اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کی کل جگہ مشعر الحرام ہے ، حضرت عطاء سے سوال ہوتا ہے کہ مزدلفہ کہاں ہے آپ فرماتے ہیں جب عرفات سے چلے اور میدان عرفات کے دونوں کنارے چھوڑے پھر مزدلفہ شروع ہو گیا وادی محسر تک جہاں چاہو ٹھہرو لیکن میں تو قزح سے ادھر ہی ٹھہرنا پسند کرتا ہوں تاکہ راستے سے یکسوئی ہو جائے ، مشاعر کہتے ہیں ظاہری نشانوں کو مزدلفہ کو مشعر الحرام اس لئے کہتے ہیں کہ وہ حرم میں داخل ہے ، سلف صالحین کی ایک جماعت کا اور بعض اصحاب شافعی کا مثلا قفال اور ابن خزیمہ کا خیال ہے کہ یہاں کا ٹھہرنا حج کا رکن ہے بغیر یہاں ٹھہرے حج صحیح نہیں ہوتا کیونکہ ایک حدیث حضرت عروہ بن مضرس سے اس معنی کی مروی ہے ، بعض کہتے ہیں یہ ٹھہرنا واجب ہے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے اگر کوئی یہاں نہ ٹھہرا تو قربانی دینی پڑے گی ، امام صاحب کا دوسرا قول یہ ہے کہ مستحب ہے اگر نہ بھی ٹہرا تو کچھ حرج نہیں ، پس یہ تین قول ہوئے ہم یہاں اس بحث کو زیادہ طول دینا مناسب نہیں سمجھتے واللہ اعلم ۔ ( قرآن کریم کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی زیادہ تائید کرتے ہیں واللہ اعلم ۔ مترجم ) ایک مرسل حدیث میں ہے کہ عرفات کا سارا میدان ٹھہرنے کی جگہ ہے ، عرفات سے بھی اٹھو اور مزدلفہ کی کل حد بھی ٹھہرنے کی جگہ ہے ہاں وادی محسر نہیں ، مسند احمد کی اس حدیث میں اس کے بعد ہے کہ مکہ شریف کی تمام گلیاں قربانی کی جگہ ہیں اور ایام تشریق سب کے سب قربانی کے دن ہیں ، لیکن یہ حدیث بھی منقطع ہے اس لئے کہ سلیمان بن موسیٰ رشدق نے جبیر بن مطعم کو نہیں پایا لیکن اس کی اور سندیں بھی ہیں واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے کہ احکام حج وضاحت کے ساتھ بیان فرما دئیے اور خلیل اللہ کی اس سنت کو واضح کر دیا ۔ حالانکہ اس سے پہلے تم اس سے بےخبر تھے ، یعنی اس ہدایت سے پہلے ، اس قرآن سے پہلے ، اس رسول سے پہلے ، فی الواقع ان تینوں باتوں سے پہلے دنیا گمراہی میں تھی ۔ فالحمدللہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

198۔ 1 فضل سے مراد تجارت اور کاروبار ہے یعنی سفر حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 2۔ 198 ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے (الحج عرفۃ) (عرفات میں وقوف ہی حج ہے) یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات (قصر) جمع کر کے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائے گی مزدلفہ ہی کو مشعر حرام کہا گیا ہے کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے یہاں ذکر الہی کی تاکید ہے یہاں رات گذارنی ہے فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوع آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے طلوع آفتاب کے بعد منی جایا جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦٧] جاہلیت کے غلط اعتقادات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ حج کے دوران تجارت کرنا مکروہ خیال کرتے تھے اور اسے خلوص عمل کے خلاف سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت فرما دی جبکہ اصل مقصود حج ہی ہو اور تجارت سے حج کے ارکان وغیرہ میں کچھ خلل واقع نہ ہوتا ہو۔ چناچہ عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں (منیٰ ) میں عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز بازار لگا کرتے تھے (صحابہ (رض) نے) حج کے دنوں میں تجارت کو گناہ خیال کیا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) - [٢٦٨] اس آیت سے معلوم ہوا کہ ارکان حج میں سے عرفات میں وقوف بہت ضروری بلکہ رکن اعظم ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا : حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے۔ منیٰ کے تین دن ہیں، پھر جو شخص جلدی کر کے دو دن میں ہی چلا گیا، اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرا دن ٹھہرا رہا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جس نے طلوع فجر سے پہلے پہلے عرفات کا وقوف پا لیا۔ اس نے حج پا لیا۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) - [٢٦٩] مشعر الحرام مزدلفہ کی ایک پہاڑی کا نام ہے جس پر امام وقوف کرتا ہے۔ اس پہاڑی پر وقوف کرنا افضل ہے۔ یہ نہ ہو سکے تو پھر جہاں بھی قیام کرلے جائز ہے، سوائے وادی محسر کے۔- [٢٧٠] مشرکین بھی اللہ کا ذکر تو کرتے تھے۔ مگر اس میں شرکیہ کلمات کی آمیزش ہوتی تھی۔ اسی ضلالت سے بچنے کی اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی اور وہ شرکیہ کلمات یہ تھے : الا شریکا ھولک تملک وماملک - مگر تیرا وہ شریک جس کا تو مالک ہے وہ تیرا مالک نہیں) مسلم، کتاب الحج، باب التلبیۃ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ابن عباس (رض) نے فرمایا :” عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز جاہلیت میں بازار تھے، اب مسلمانوں نے حج کے دنوں میں وہاں تجارت کرنے کو گناہ سمجھا، تو اس پر یہ آیت اتری۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( لیس علیکم جناح ۔۔ ) : ٤٥١٩ ] یعنی حج کے دوران میں خریدو فروخت ممنوع نہیں، بلکہ یہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اس لیے روزی کمانا منع نہیں ہے۔ - کعبہ سے چلیں تو پہلے منیٰ ، پھر مزدلفہ، پھر عرفات آتا ہے۔ حاجی آٹھ ذوالحجہ (یوم ترویہ ) کو منیٰ میں ظہر سے پہلے پہنچتے ہیں، ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر منیٰ میں ادا کرتے ہیں۔ احرام کے بعد حج یہاں سے شروع ہوتا ہے، نو ذوالحجہ کو عرفات جاتے ہیں۔ سورج ڈھلنے سے لے کر اس کے غروب ہونے تک عرفات میں وقوف (ٹھہرنا) حج کا سب سے بڑا رکن ہے۔ عبد الرحمن بن یعمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” حج عرفات (میں وقوف) ہی ہے، جس نے مزدلفہ والی رات میں عرفات (کا وقوف) فجر طلوع ہونے سے پہلے پا لیا تو اس نے حج کو پا لیا۔ “ [ ترمذی : ٢٩٧٥۔ أبو داوٗد : ١٩٥٠، و صححہ الألبانی ] - مشعر حرام ایک پہاڑ ہے، اس کے پاس سے مراد مزدلفہ ہے اور حرم کے اندر ہونے کی وجہ سے اسے ” الْحَرَامِ “ کہہ دیا گیا ہے، عرفات سے واپس آ کر حاجی حضرات رات یہاں بسر کرتے ہیں اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھ کر سورج طلوع ہونے کے قریب تک ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں، پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔- (وَاذْكُرُوْهُ كَمَا ھَدٰىكُمْ ۚ ) یعنی مشرکین بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے تھے، یہ بھی ” لَبَّیْکَ اَللَّھُمَّ لَبَّیْکَ ، لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ “ یعنی تیرا کوئی شریک نہیں کہتے تھے، مگر پھر ساتھ شریک ملاتے تھے، کہتے تھے : ( اِلاَّ شَرِیْکًا لَکَ تَمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ ) [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ : ١١٨٥ ] ” ہاں ایک شریک جو تیرا ہے، جس کا تو مالک ہے، وہ خود مالک نہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اس کو اس طرح یاد کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت دی ہے “ یعنی اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو، فرمایا : (فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ ) [ الشعراء : ٢١٣۔ القصص : ٨٨ ] ” اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔ “ پھر کیا حال ہے ان مسلمانوں کا جو وہاں جا کر بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سفر حج میں تجارت یا مزدوری کرنا کیسا ہے :- لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ یعنی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم سفر حج میں تجارت یا مزدوری کے ذریعے کچھ روزی کمالو اور اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق حاصل کرو، واقعہ نزول اس آیت کا یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب نے جس طرح تمام عبادات و معاملات کو مسخ کرکے طرح طرح کی بیہودہ رسمیں ان میں شامل کردی تھیں اور عبادات کو بھی کھیل تماشہ بنادیا تھا اسی طرح افعال حج میں بھی طرح طرح کی بیہودگیاں کرتے تھے منیٰ کے عظیم اجتماع میں ان کے خاص خاص بازار لگتے تھے نمائش ہوتی تھی تجارتوں کے فرورغ کے ذرائع لگائے جاتے تھے اسلام آیا اور حج مسلمانوں پر فرض کیا گیا تو ان تمام بہیودہ رسموں کا قلع قمع کیا گیا صحابہ کرام جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات پر مٹ جانے والے تھے اب ان کو یہ خیال ہوا کہ ایام حج میں تجارت کرنا یا مزدوری کرکے کچھ کما لینا یہ بھی جاہلیت کی پیداوار ہے شاید اسلام میں اس کی مطلقاً حرمت و ممانعت ہوجائے یہاں تک کہ ایک صاحب حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس آئے اور یہ سوال کیا کہ ہمارا پیشہ پہلے سے یہ ہے کہ ہم اونٹ کرایہ پر چلاتے ہیں کچھ لوگ ہمارے اونٹ حج کے لئے کرایہ پر لیجاتے ہیں ہم ان کے ساتھ جاتے ہیں اور حج کرتے ہیں کیا ہمارا حج نہیں ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور آپ سے وہی سوال کیا تھا جو تم مجھ سے کر رہے ہو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس وقت کوئی جواب نہ دیا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ اس وقت آپ نے اس شخص کو بلوایا اور فرمایا کہ ہاں تمہارا حج صحیح ہے۔- الغرض اس آیت نے یہ واضح کردیا کہ اگر کوئی شخص دوران حج میں کوئی بیع وشراء یا مزدوری کرے جس سے کچھ نفع ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہاں کفار عرب نے جو حج کو تجارت کی منڈی اور نمائش گاہ بنالیا تھا اس کی اصلاح قرآن کے دو لفظوں سے کردی گئی ایک تو یہ کہ جو کچھ کمائیں اس کو اللہ تعالیٰ کا فضل اور عطا سمجھ کر حاصل کریں شکر گذار ہوں۔- محض سرمایہ سمیٹنا مقصد نہ ہو فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ میں اسی کی طرف اشارہ ہے، دوسرے لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ کے لفظ نے یہ بتلا دیا کہ اس میں کمائی میں تم پر کوئی گناہ نہیں جس میں ایک اشارہ اس طرف ہے کہ اگر اس سے بھی اجتناب کیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اخلاص کامل میں فرق آتا ہے اور حقیقت مسٔلہ کی یہ ہے کہ اس کا مدار اصل نیت پر ہے اگر کسی شخص کی نیت اصل میں دنیوی نفع تجارت یا مزدوری ہے اور ضمنی طور پر حج کا بھی قصد کرلیا یا نفع تجارت اور قصد حج دونوں مساوی صورت میں ہیں تب تو یہ اخلاص کے خلاف ہے حج کا ثواب اس سے کم ہوجائیگا اور برکات حج جیسی حاصل ہونی چاہئے وہ حاصل نہ ہوں گی اور اگر اصل میں نیت حج کی ہے اسی کے شوق میں نکلا ہے لیکن مصارفِ حج میں یا گھر کی ضرورت میں تنگی ہے اس کو پورا کرنے کے لئے کوئی معمولی تجارت یا مزدوری کرلی یہ اخلاص کے بالکل منافی نہیں ہاں اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ خاص ان پانچ ایام میں جن میں حج کے افعال ادا ہوتے ہیں ان میں کوئی مشغلہ تجارت و مزدوری کا نہ رکھے بلکہ ان ایام کو خالص عبادت وذکر میں گذارے اسی وجہ سے بعض علماء نے خاص ان ایام میں تجارت و مزدوری کو ممنوع بھی فرمایا ہے۔- عرفات میں وقوف اور اس کے بعد مزدلفہ کا وقوف :- اس کے بعد اسی آیت میں ارشاد ہے فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۠ وَاذْكُرُوْهُ كَمَا ھَدٰىكُمْ ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَ یعنی پھر جب تم عرفات سے واپس آنے لگو گو مشعر حرام کے پاس خدا تعالیٰ کی یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس طرح تم کو بتلا رکھا ہے اور حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے پہلے تم محض ہی ناواقف تھے اس میں بتلایا گیا ہے کہ عرفات سے واپسی میں رات کو مزدلفہ میں قیام اور اس کا خاص ذکر واجب ہیں۔- عرفات لفظ جمع ہے اور ایک خاص میدان کا نام ہے جس کے حدود اربعہ معروف و مشہور ہیں یہ میدان حرم سے خارج واقع ہوا ہے حجاج کو اس میں پہنچنا اور زوال آفتاب سے مغرب تک یہاں قیام کرنا حج میں حج کا اہم ترین فرض ہے جس کے فوت ہونے کا کوئی کفارہ اور فدیہ نہیں ہوسکتا۔- عرفات کو عرفات کہنے کی بہت سی وجوہ بتلائی جاتی ہیں ان میں واضح یہ ہے کہ اس میدان میں انسان اپنے رب کی معرفت اور بذریعہ عبادت وذکر اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے نیز مشرق ومغرب کے مسلمانوں کو آپس میں تعارف کا ایک موقع ملتا ہے ارشاد قرآنی میں اس کی تاکید فرمائی ہے کہ عرفہ کے دن بعد مغرب عرفات سے واپس آتے ہوئے مشعر حرام کے پاس ٹھہرنا چاہئے مشعر حرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ میں واقع ہے مشعر کے معنی شعار اور علامت کے ہیں اور حرام بمعنی محترم ومقدس کے ہیں معنی یہ ہیں کہ یہ پہاڑ شعار اسلام کے اظہار کے لئے ایک مقدس مقام ہے اس کے آس پاس کے میدان کو مزدلفہ کہتے ہیں اس میدان میں رات گذارنا اور مغرب و عشاء دونوں نمازوں کو ایک وقت میں مزدلفہ میں پڑھنا واجب ہے مشعر حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اگرچہ ہر طرح کے ذکر اللہ کو شامل ہے مگر خصوصیت سے دونوں نمازوں کو ایک وقت یعنی مغرب کو عشاء کے ساتھ ادا کرنا اس جگہ کی مخصوص عبادت ہے آیت کے جملہ واذْكُرُوْهُ كَمَا ھَدٰىكُمْ میں اسی کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد اور ذکر کے لئے جو طریقہ بتلایا ہے اسی طرح اس کو یاد کرو اپنی رائے اور قیاس کو اس میں دخل نہ دو کیونکہ رائے اور قیاس کا مقتضی تو یہ تھا کہ مغرب کی نماز مغرب کے وقت میں پڑھی جاتی عشاء کی عشاء کے وقت میں، لیکن اس روز اس مقام پر حق تعالیٰ کی یہی پسند ہے کہ مغرب کی نماز مؤ خر کی جائے اس کو عشاء کے ساتھ پڑھا جائے ارشاد قرآنی واذْكُرُوْهُ كَمَا ھَدٰىكُمْ ایک اور بھی اصولی مسئلہ نکل آیا کہ ذکر اللہ اور عبادات میں آدمی خود مختار نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جس طرح چاہے یاد کرے اور جس طرح چاہے اس کی عبادت کرے بلکہ ذکر اللہ اور ہر عبادت کے خاص آداب ہیں ان کے موافق ادا کرنا ہی عبادت ہے اس کے خلاف کرنا جائز نہیں اور اس میں کمی بیشی یا مقدم مؤ خر کرنا خواہ اس میں ذکر اللہ کی کچھ زیادتی بھی ہو وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں نفلی عبادات اور صدقہ و خیرات وغیرہا میں جو لوگ بلا دلیل شرعی اپنی طرف سے کچھ خصوصیات اور اضافے کرلیتے ہیں اور ان کی پابندی کو ضروری سمجھ لیتے ہیں حالانکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ضروری قرار نہیں دیا اور ان افعال کے نہ کرنے والوں کو خطاوار سمجھتے ہیں اس آیت نے ان کی غلطی کو واضح کردیا کہ وہ اہل جاہلیت کی سی عبادت ہے کہ اپنی رائے و قیاس سے عبادت کی صورتیں گھڑ رکھی تھیں اور چند رسموں کا نام عبادت رکھ لیا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ۝ ٠ ۭ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۝ ٠ ۠ وَاذْكُرُوْہُ كَـمَا ھَدٰىكُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝ ١٩٨- جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- ابتغاء - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- فيض - فَاضَ الماء : إذا سال منصبّا . قال تعالی: تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] ، وأَفَاضَ إناء ه : إذا ملأه حتی أساله، وأَفَضْتُهُ. قال : أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] - ( ف ی ض ) فاض الماء کے معنی کسی جگہ سے پانی اچھل کر بہ نکلنا کے ہیں اور آنسو کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ۔ اور افاض اناہ کے معنی بر تن کو لبا لب بھر دینے کے ہیں حتٰی کہ پانی اس سے نیچے گر نے لگے اور افضتہ کے معنی اوپر سے کرالے اور بہانے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ ۔ - عَرَفاتٍ- وقوله : فَإِذا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفاتٍ [ البقرة 198] ، فاسم لبقعة مخصوصة، وقیل : سمّيت بذلک لوقوع المعرفة فيها بين آدم وحوّاء وقیل : بل لِتَعَرُّفِ العباد إلى اللہ تعالیٰ بالعبادات والأدعية- اور آیت کریمہ : فَإِذا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفاتٍ [ البقرة 198] جب تم میدان عرفات سے واپس ہونے لگو ۔ میں عرفات ، ، سے میدان عرفات مراد ہے ۔ بعض نے اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ اس میدان میں آدم (علیہ السلام) اور حوا کا باہم ( دنیا میں پہلی دفعہ ) تعارف ہوا تھا اس لئے عرفات کہاجاتا ہے اور بعض کا قول ہے کہ اس میدان میں دعا اور عبادت کے ذریعہ لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے ہیں اس لئے اسے عرفات کہاجاتا ہے ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- شَعَاۗىِٕرَ- ومَشَاعِرُ الحَجِّ : معالمه الظاهرة للحواسّ ، والواحد مشعر، ويقال : شَعَائِرُ الحجّ ، الواحد :- شَعِيرَةٌ ، قال تعالی: ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج 32] ، وقال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة 198] ، لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة 2] ، أي : ما يهدى إلى بيت الله، وسمّي بذلک لأنها تُشْعَرُ ، أي : تُعَلَّمُ بأن تُدمی بِشَعِيرَةٍ ، أي : حدیدة يُشعر بها .- اور مشاعر الحج کے معنی رسوم حج ادا کرنے کی جگہ کے ہیں اس کا واحد مشعر ہے اور انہیں شعائر الحج بھی کہا جاتا ہے اس کا واحد شعیرۃ ہے چناچہ قرآن میں ہے : ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج 32] اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة 198] مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں ۔ اور آیت کریمہ : لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة 2] خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا ۔ میں شعائر اللہ سے مراد قربانی کے وہ جانور ہیں جو بیت اللہ کی طرف بھیجے جاتے تھے ۔ اور قربانی کو شعیرۃ اس لئے کہا گیا ہے ۔ کہ شعیرۃ ( یعنی تیز لوہے ) سے اس کا خون بہا کر اس پر نشان لگادیا جاتا تھا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

(آیت 196 کی بقیہ تفسیر)- ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت بیان کی۔ انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں عبدالرحمٰن بن مہدی نے مالک بن انس سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آپ فرماتی ہیں کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکلے۔ ہم میں سے بعض نے توجیح کا تلبیہ کہا، بعض نے حج اور عمر دونوںں کا اور بعض نے صرف عمرے کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا تلبیہ کہا تھا جن لوگوں نے عمرے کا تلبیہ کہا تھا وہ طواف اور سعی کے بعد معرام سے باہر آ گئے اور جن لوگوں نے حج یا حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ کہا تھا انہوں نے دسویں ذوالحجہ تک احرام نہیں کھولا۔- جعفر محمد بن الیمان کہتے ہیں کہ ہمیں ابوعبید نے بیان کیا، انہیں عبدالرحمٰن نے مالک سے انہوں نے ابوالاسود سے اور انہوں نے سلیمان بن یسار اسی قسم کی روایت بیان کی۔ تاہم اس روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تلبیہ کا ذکر نہیں۔- حضرت عائشہ سے اس کے برعکس بھی روایت ہے جو ہمیں جعفر بن محمد نے بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں یزید نے یحییٰ بن سعید سے کہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے بتایا کہ انہوں نے حضرت عائشہ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ذی قعدہ کی پچیس تاریخ کو نکلے اور ہم سمجھ رہے تھے کہ حج پر ہی جا رہے ہیں۔- جب ہم مکہ کے قریب پہنچ گئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ جو لوگ اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہیں لائے ہیں وہ اس حج کو عمرہ میں تبدیل کردیں۔ یہ سن کر سائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، تمام لوگوں نے احرام کھول دیا۔- جعفر بن محمد کہتے ہیں کہ ہمیں ابو عبید نے، انہیں ابن صالح نے لیث سے، انہوں نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی ہی روایت بیان کی۔ اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہیں درست روایت پہنچی ہے۔- غرض حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو حج فسخ کرنے کا جو حکم دیا تھا اس سلسلے میں منقول تمام متواتر روایات میں یہی روایت صحیح ہے۔ حضرت عمر نے صحابہ کرام کے سامنے یہ فرمایا تھا کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں دو متعہ تھے جن سے اب میں روکتا ہوں اور ان کے مرتکب کو سزا دیتا ہوں۔ ایک متعہ حج اور دوسرا عورتوں سے متعہ “ تو اس سے حضرت عمر نے یہی متعہ یعنی متعہ حج مراد لیا تھا۔ صحابہ کرام میں سے کسی نے اس کی تردید نہیں کی تھی اور نہ ہی کسی نے اس سے اختلاف کیا تھا۔- اگر حضرت عائشہ کی روایات کو متعارض تسلیم کرلیا جائے تو اس کے حل کا یہی طریقہ ہے کہ یہ تمام روایات ساقط ہوجائیں گی اور یوں سمجھ لیا جائے گا کہ گویا کہ حضرت عائشہ سے اس کے متعلق سرے سے کوئی روایت ہی نہیں ہے۔- اس صورت میں دوسری روایات باقی رہ جائیں گی جن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو فسخ حج کا حکم دیا تھا۔ ان روایات کی معارض کوئی دوسری روایت نہیں ہے اور پھر یہ روایات قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ) سے منسوخ سمجھی جائیں گی جیسا کہ حضرت عمر سے منقول ہے۔- ارشاد باری ہے (فما استیسو من الھدی) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہاں جس ہدی یعنی قربانی کا ذکر ہے وہ اسی طرح کی قربانی ہے جو احصار کے لئے مذکور ہے اور جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں اس کا کم سے کم درجہ ایک بکری ہے۔- تاہم اگر کوئی چاہے تو گائے یا اونٹ بھی دے سکتا ہے جو افضل ہے۔ یہ قربانی دسویں ذی الحجہ کو ہی درست ہوگی۔ کیونکہ ارشاد باری ہے (فاذا وجبت جنوبھا فکلوا منھا واطعموا القانع والمعتر۔ اور جب قربانی کے بعد ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو ان سے خود بھی کھائو اور ان کو بھی کھلائو جو قناعت سے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔- نیز ارشاد باری ہے (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر۔ ثم لیقضوا ثفثھم ولیو فونذورھم ولیطو فوابالبیت العتیق۔ پھر ان سے خود بھی کھائو اور تنگدست محتاج کو بھی دو ، پھر میل کچیل دور کرو اور اپنی نذریں پوری کرو اور اس قدیم گھر کا خوب خوب طواف کر)- اب میل کچیل دور کرنا اور طواف زیارت کرنا دسویں ذی الحجہ سے پہلے نہیں ہوسکتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان تمام افعال کو قربانی کے جانوروں کی ذبح پر مرتب کیا تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہ جانور قران اور تمتع کی بن اپر قربان کئے جانے الے جانور ہیں اس پر سب کا اتفاق ہے کہ ان قربانیوں کے سوا بقیہ تمام ہدایا یعنی قربانیوں پر یہ افعال مرتب نہیں ہوتے اور بقیہ تمام قربانیوں کی ذبح جب چاہے ہوسکتی ہے۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمتع کی قربانی یوم النحر سے پہلے جائز نہیں۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے (لو استقبلت من امری فا استدبرت ما سقت الھدی ولجعل تھا عمرۃ ۔ اگر وہ صورت حال میرے سامنے پہلے آ جاتی جواب آئی ہے تو میں اپنے ساتھ قربانی کے جانور ہر گزے کہ نہ آتا اور میں اسے یعنی حج کو عمرہ بنا دیتا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قارن تھے اور اپنے ساتھ قربانی کے جانور لائے تھے ۔ آپ نے یہ بتادیا کہ اگر موجودہ صورتحال سے پہلے سے باخبر ہوتے تو قربانی کے جانور نہ لاتے۔ اگر تمتع کی قربانی کی ذبح یوم الخیر سے پہلے درست ہوتی تو آپ ضرور اسے ذبح کر کے احرام کھول دیتے جس طرح کہ آپ نے صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا تھا۔ آپ اس چیز کا بعد میں استدراک نہیں کرسکے تھے جو پہلے ہی سے آپ کا ہاتھ سے نکل گئی تھی۔- آپ نے حضرت علی سے یہ سن کر کہ میں نے بھی اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تلبیہ کی طرح تلبیہ کیا ہے۔ “ یہ فرمایا ” میں تو قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں اور میں یوم النحر سے پہلے احرام نہیں کھول سکتا۔ “ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ (خذوا عنی مناسککم تم اپنے مناسک مجھ سے سیکھو) آپ نے یوم النحر میں قربانی کی، اس بنا پر اس سلسلے میں آپ کی پیروی ضروری ہوگئی اور قربانی کو اس کے وقت سے پہلے ذبح کرنے کا جواز باقی نہ رہا۔- صوم تمتع - ارشاد باری ہے (فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام فی الحج وسبعۃ اذا رجعتم پھر جسے قربانی میسر نہ ہو وہ زمانہ حج میں تین دن روزہ رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب تم واپس ہو۔ )- ارشاد باری (فصیا مرثلثۃ ایام فی الحج) کے معنی میں اختلاف ہے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ تین دن، ساتویں ذی الحجہ، یوم الترویہ یعنی آٹھویں اور یوم عرفہ یعنی نویں ذی الجھ ہیں حضرت عائشہ اور ابن عمر سے مروی ہے کہ جب سے وہ حج کا تلبیہ شروع کرے اس وقت سے لے کر یوم عرفہ تک حضرت ابن عمر کا قول ہے کہ یہ تین روزے جب تک احرام نہ باندھ لے نہ رکھے۔- عطاء کا قول ہے کہ اگر چاہے تو احرام سے باہر رہ کر بھی ذی الحجہ کی دس تاریخ تک یہ روزے رکھ سکتا ہے۔ یہی طائوس کا قول ہے۔ ان دونوں نے یہ فرمایا ہے کہ عمرہ کرنے سے پہلے یہ روزے نہ رکھے۔ عطاء کا قول ہے کہ ان روزوں کو دس تاریخ تک مئوخر کرن کی وجہ یہ ہے کہ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ شاید کوئی قربانی ہاتھ آ جائے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا قول اس بات کی دلیل ہے کہ دس تاریخ تک انہیں موخر کرنا ان دونوں حضرات (طائوس اور مجاہد) کے نزدیک استحباب کے طور پر ہے نہ کہ ایجاب کے طور پر ، اس کی حیثیت وہی ہوگی جس طرح ہم پانی نہ ملنے کی صورت میں تمیم کو نماز کے آخری وقت تک مئوخر کردینا مستحب سمجھتے ہیں جبکہ پانی ملنے کی امید موجود ہو۔- حضرت علی، عطاء اور طائوس کا قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں ان روزوں کا جواز ہے خواہ روزہ رکھنے والا حالت احرام میں ہو یا احرام سے باہر، اس لئے کہ ان حضرات نے حالت احرام اور غیر حالت احرام میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔- ہمارے اصحاب عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعد ان روزوں کے جوا ز کے قائل ہیں۔ احرام سے پہلے ان کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لئے کہ عمرہ کا احرام ہی تمتع کا سبب ہے۔ - ارشاد باری ہے (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج) اس لئے جب سبب پایا جائے گا تو اسے وجوب کے وقت پر مقدم کرنا جائز ہوگا۔ مثلاً نصاب زکوۃ جب موجود ہو تو اس کی زکوۃ وقت سے پہلے نکالنا درست ہے۔- اسی طرح اگر کسی نے کسی شخص کو غلطی سے زخمی کردیا تو زخمی اگرچہ ابھی زندہ ہے لیکن زخمی کرنے اولا شخص کفارہ قتل دے سکتا ہے کیونکہ سبب قتل یعنی زخم کا وجود ہوگیا ہے۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ قربانی کا وجوب حج کے اتمام کے وجوب کے ساتھ متعلق ہے اور یہ بات وقوف عزمہ کے ساتھ ہوتی ہے اس لئے کہ وقوف عرفہ سے پہلے پہلے حج میں فساد پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے اس لئے اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔- جب صورت حال یہ ہے اور سب کے نزدیک تین دن کے روزے حج کا احرام باندھ لینے کے بعد جائز ہوتے ہیں اگرچہ یہ احرام ان روزوں کا موجب نہیں ہوتا کیونکہ ان کا وجوب حج اور عمرہ دونوں کے اتمام کے ساتھ متعلق وہتا ہے۔ اس لئے ان کا جواز ان کے سبب یعنی عمرہ کے وجود کے ثابت ہوجاتا ہے اور اگر وہ یہ روزے حج کے احرام کے بعد رکھ لے تو اس میں حج کے احرام اور عمرہ کے احرام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ روزے تو اس نے ان کے سبب کے وجود کی وجہ سے رکھے ہیں اور یہ سبب احرام عمرہ کے بعد موجود ہوجاتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی ذکر کردہ بات یعنی وجود عمرہ ان روزوں کے جواز کا سبب ہوتی تو پھر یہ ضروری ہوتا کہ بقیہ سات روزے بھی سبب کے وجود کی بنا پر جائز ہوجاتے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر احرام عمرہ کے بعد ان روزوں کے جواز کے ہمارے قول پر سات روزوں کے جواز کی بات لازم ہو جات تو احرام حج کے بعد آپ نے جواز کی بات لازم ہوجاتی تو احرام حج کے بعد آپ نے جو ان روزوں کی اجازت دی ہے اس پر بھی یہی بات لازم آتی کیونکہ آپ احرام حج کے بعد تین روزوں کی اجازت دیتے ہیں لیکن سات روزوں کی اجازت نہیں دیتے۔- اگر یہ کہا جائے کہ روزے قربانی کا بدل ہیں اور قربانی کی ذبح یوم النحر سے پہلے درست نہیں ہے تو روزہ کس طرح جائز ہوگیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یوم النحر سے روزے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور سنت سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یوم النحر سے قبل قربانی کی ذبح کا جواز ممتنع ہے۔ ان دونوں میں سے ایک بات بالاتفاق ثابت ہوگئی ہے۔- نیز قول باری (فصیام ثلثۃ ایام فی الحج) بھی اس کے ثبوت کی ایک دلیل ہے اور دوسری بات کا ثبوت سنت سے ہوچکا ہے اس لئے عقلی طور سے دو باتیں پر اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ایسا اعتراض ساقط الاعتبار ہے۔ نیز ان روزوں کے وقوع میں دو باتوں کے اتنظار کی رعایت کی جاتی ہے اول حج کے مہینوں میں حج اور عمرے کے اتمام کی اور دوم اس بات کی کہ اسے کوئی قربانی میسر نہ ہو جسے ذبح کر کے وہ اپنا احرام کھول دے۔- پھر جب یہ دونوں باتیں وجود میں آ جائیں تو اس صورت میں صوم تمتع درست ہوجائے گا اور اگر ان میں سے ایک بات بھی وجود میں نہ آئے تو یہ روزے تمتع کے روزے نہیں ب ن سکیں گے بلکہ نفلی روزے بن جائیں گے۔ رہی قرباین تو اس پر بہت سے افعال مثلاً حلق، میل کچیل دور کرنا اور طواف زیارت مترب ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کی ذبح یوم النحر کے ساتھ مخصوص ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام فی الحج) اس بنا پر اسے حج پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قول باری (فصیام ثلثۃ ایام فی الحج) کا درج تین معانی میں ایک معنی ضرور مراء ہوگا یا تو فی الحج سے ان افعال میں جو حج میں بنیادی ارکان ہیں کوئی فعل مراد ہے اور جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا نام دیا ہے۔- وہ فعل وقوف ہے اس لئے کہ حضو رکا ارشاد ہے (الحج عرفۃ حج وقوف عرفہ کا نام ہے) یا فی الحج سے مراد یہ ہو کہ حج کے احرام میں “ یا حج کے مہینوں میں “ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (الحج اشھر معلومات) یہ درست نہیں ہے کہ اس سے حج کا وہ فعل مراد لیا جائے جس کے بغیر حج صحیح نہیں ہوتا کیونکہ یہ فعل تو عرفات میں زوال کے بعد وقوف ہے اور اس وقوف کے دوران تین روزے رکھنا امر محال ہے جب کہ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ یوم عرفہ سے قبل ان روزوں کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔- اس لئے یہ وجہ تو باطل ہوگئی اور فی الحج کے تین میں سے یہ دو احتمال باقی رہ گئے ۔ اول فی الحج سے یہ مراد ہو کہ ” فی احرام الحج “ یعنی حج کے احرام میں یا فی اشھر الحج “ یعنی حج کے مہینوں میں اور ظاہر لفظ اس کا متقاضی ہے کہ ان دونوں میں سے جو صورت بھی پائی جائے اس کے وجود کے ساتھ ہی روزہ رکھنے کا جواز پیدا ہوجائے اس لئے کہ آیت میں موجود لفظ کے ساتھ اس کے جواز کی پوری مطابقت ہے۔- نیز قول باری (فصیام ثلثۃ ایام فی الحج) سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روزے کا جواز اس کے سبب کے وجود کے ساتھ متعلق ہے نہ کہ اس کے وجوب کے ساتھ۔ جب یہ بات اس وقت وجود میں آ جاتی ہے جب وہ عمرے کا احرام باندھتا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا روزہ رکھنا درست ہوجائے اور اس کا یہ روزہ رکھنا آیت کے خلاف نہ ہو۔- جیسا کہ یہ ارشاد باری ہے (ومن قتل مومنا خطاء ف تحریر رقبہ مومنۃ) اور جو شخص کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کر دے اس کے ذمہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے) زخم کے وجود کی بنا پر مومن غلام کی آزادی کی قتل پر تقدیم کے جواز کو مانع نہیں ہے)- اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد (لارکاۃ فی مال حتی یحول علیہ الحول ) کسی مال میں کوئی زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر سال گزر نہ جائے) سبب زکوۃ یعنی نصاب کے وجود کی بنا پر وقت سے پہلے زکوۃ کی ادائیگی کے جواز کو مانع نہیں ہے۔- اسی طرح قول باری (فصیام ثلثۃ ایام فی الحج) ان روزوں کی تعجیل کے جواز کو مانع نہیں ہے جبکہ ان کے سبب کا وجود ہوجائے جس کی بنا پر حج کے دوران ان روزوں کا رکھنا درست ہوتا ہے۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ہمیں ایسا کوئی بدل نظر نہیں آتا جس کی مبدل عنہ (جس چیز کا یہ بدل بن رہا ہے) کے وقت پر تقدیم جائز ہو اور چونکہ روزہ قربانی کا بدل ہے اس بن اپر قربانی پر اس کی تقدیر جائز نہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دراصل یہ قرآن کی آیت پر اعتراض ہے اس لئے کہ نص قرآنی نے حج میں یوم النحر سے قبل ان روزوں کی اجازت دے دی ہے۔- نیز اگرچہ یہ درست ہے کہ ہمیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جن میں پورے کا پورا بدل مبدل عنہ کے وقت پر مقدم کردیا گیا ہو، لیکن یہاں یہ صورت نہیں ہے یہاں تو بدل کا ایک حصہ مبدل عنہ کے وقت پر مقدم کیا گیا ہے یعنی یہاں صرف تین دن کے روزوں کو قربانی پر مقدم کیا گیا ہے باقی رہے سات دن کے روزے جو ان تین روزوں کے ساتھ ہیں، تو انہیں قربانی پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ ارشاد باری ہے (وسبعۃ اذا رجعتم اور سات روزے جب تم واپس ہو۔ )- اس طرح ان دس روزوں میں سے صرف وہی مقدار جائز کی گئی ہے جس کے ذریعے وہ قربانی کا جانور میسر نہ ہونے کی صورت میں دسویں تاریخ کو احرام سے باہر ا ٓ سکے نیز جب روزہ قربانی کا بدل قرار پایا اور عمرے کی قربانی کا ایجاب عمرے کا احرام باندھ لینے کے بعد درست ہوجاتا ہے اور اس حیثیت سے اس کے ساتھ تمتع کا حکم متعلق ہوجاتا ہے کہ جب تک وہ قربانی ذبح نہ کرلے اس وقت تک اسے احرام کھولنے کی ممانعت ہوتی ہے۔- ٹھیک اسی طرح قربانی کے بدل کے طور پر اس کے لئے روزہ بھی رکھنا درست ہونا چاہیے جس طرح اس جانور کا ہدی تمتع بننا درست ہوگیا تھا۔ ایک اور پہلو سے بھی اس بات پر دلالت ہو رہی ہے کہ یہ روزہ جو اس نے رکھا ہے صوم تمتع ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ اگر وہ تمتع کی قربانی مکہ مکرمہ کی طرف کسی ذریعے سے بھیج دے اور اس کے بعد گھر سے احرام کی نیت سے روانہ ہوجائے تو اس صورت میں قربانی تک پہنچنے سے پہلے وہ محرم ہوجائے گا۔- یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ اگر قربانی کا جانور کسی طرح بھیج دیا جائے تو اس سوق یعنی بھیجنے کی وجہ سے اس جانور کا ہدی تمتع ہوجانا درست ہوجائے گا ٹھیک اسی طرح قربانی کا جانور میسر نہ ہونے کی صورت میں بدل کے طور پر روزہ رکھنا بھی درست ہونا چاہیے۔- اگر یہ کہ اجائے کہ درج بالا استدلال سے عمرے کا احرام باندھنے سے پہلے جانور کا ہدی تمتع بننا درست ہوگیا۔ لیکن احرام عمرہ سے پہلے روزہ رکھنا درست نہیں ہوتا اس لئے دونوں صورتوں میں فرق ہوگیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تمتع کا احرام باندھنے سے قبل اس جانور کو ہدی تمتع کا حکم لاحق نہیں ہوگا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس صورت حال کے اندر احرام کے حکم پر اس جانور کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اس کا وجود اور عدم دونوں برابر ہوتے ہیں اس لئے اس صورت حال میں احرام عمرہ سے پہلے روزہ بھی رکھنا درست نہیں ہوتا۔ جب وہ عمرے کا احرام باندھ لیتا ہے تو اب اس عمرے کی وجہ سے قربانی دینے کا حکم ثابت ہو جات ا ہے یعنی اسے قربانی دیئے بغیر احرام سے باہر ہونے کی ممانعت ہوجاتی ہے۔ اسی بنا پر اس صورت حال میں روزہ رکھنا بھی جائز ہوتا ہے۔- جس طرح کہ اس جانور کا ہدی تمتع بننا درست ہوتا ہے۔ احرام حج پر روزے کی تقدیم کے جواز پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ متمتع کے لئے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ آٹھویں ذی الحجہ کا حج کا احرام باندھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو یہی حکم دیا تھا جبکہ انہوں نے عمرے کے ذریعے اپنا احرام کھول دیا تھا۔ اس صورت میں حج کے احرام سے پہلے روزے گزر چکے ہوتے ہیں۔- متمتع اگر دسویں تاریخ سے پہلے روزہ نہ رکھے تو اس کا کیا حکم ہے ؟- قول باری ہے (فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام فی الحج ۔ جس شخص کو قربانی میسر نہ ہو تو وہ حج کے زمانے میں تین روزے رکھے ) سلف کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جسے قربانی کا جانور بھی میسر نہ ہوا اور اس نے یوم النحر سے قبل تین روزے بھی نہیں رکھے۔- حضرت عمر ، حضرت ابن عباس، حضرت سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی اور طائوس کا قول ہے کہ اب اس کے لئے قربانی دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ، ابو یوسف اور محمد کا بھی قول ہے۔ حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ کا قول ہے کہ وہ ایام منی یعنی ایام تشریق میں روزے رکھے گا ۔ یہی امام مالک کا قول ہے۔ حضرت علی کا قول ہے کہ ایام تشریق کے بعد وہ روزے رکھے گا۔ امام شافعی بھی اسی کی قائل ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بکثرت روایات کے ذریعے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے یوم الفطر، یوم النحر اور ایام تشریق کے روزوں کی ممانعت کردی تھی اور فقہاء کا بالاتفاق اس پر عمل بھی ہے۔ کسی انسان کے لئے ان دنوں میں کسی قسم کا روزہ، خواہ وہ فرض ہو یا نفلی، رکھنا جائز نہیں ہے۔- اب جبکہ ہر قسم کے روزے کی جو صوم تمتع کے علاوہ ہو ممانعت ہے تو صوم تمتع کی بھی ممانعت ہوجائے گی اس لئے کہ نہی کا عموم ان روزوں کو بھی شامل ہے۔ نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نہی کی بن اپر یوم النحر کا روزہ جائز نہیں ہے جبکہ یہ دن ایام حج میں شمار ہوتا ہے ، تو اسی طرح ایام منیٰ کے روزے بھی درست نہیں ہونے چاہئیں۔- نیز ان دنوں میں رمضان کی قضا بھی نہیں رکھی جاسکتی حالانکہ قول باری ہے (فعدۃ من ایام اخر) جس میں اطلاق ہے۔ لیکن احادیث میں وارد ممانعت نے آیت کے اطلاق کو ختم کردیا اور ان دنوں کے سوا دوسرے دنوں میں قضا رکھنے کی تخصیص کردی تو اس استدلال کی روشنی میں یہ ضروری ہوگیا کہ تمتع کے روزوں کا بھی یہی حکم ہو اور قول باری (فصیام ثلاثۃ ایام فی الحج) میں بھی حدیث کی بنا پر تخصیص ہو کر ان دنوں کے علاوہ حج کے دوسرے ایام مراد لئے جائیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ارشاد باری ہے (فصیام ثلثۃ ایام فی الحج) اب اگر کوئی شخص ان دنوں میں روزہ رکھ لیتا ہے تو وہ حج میں روزہ رکھنے والا نہیں کہلائے گا اس لئے کہ ان دنوں سے پہلے حج گزر چکا ہے اب اس کے لئے یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ وہ ان دنوں میں روزے رکھے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (فصیام ثلثۃ ایام فی الحج) اور یہ دن ایام حج میں سے ہیں اس لئے واجب ہوگا کہ ان دنوں اس کا روزہ رکھنا درست ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا کرنا واجب نہیں وہ گا۔ اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ان دنوں میں روزہ رکھنے کی ممانتع نے آیت کے اطلاق کو ختم کردیا ہے اور اس کی تخصیص کردی ہے جس طرح اس ممانعت نے قول باری (فعدۃ من ایام اخر) کی تخصیص کردی ہے۔- دوم اگر ان دنوں میں یہ روزے اس لئے جائز ہوتے کہ یہ دن ایام حج میں سے ہیں تو پھر یوم النحر کا روزہ زیادہ جائز ہوتا کیونکہ یوم النحر ان دنوں سے بڑھ کر افعال حج کے لئے مخصوص ہے۔- سوم یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم عرفہ کو حج کے لئے خاص کردیا ہے۔ آپ کا قول ہے (الحج عرفۃ) اس بنا پر قول باری (فصیام مرثلثۃ ایام فی الحج) اس بات کا مقتضی ہے کہ ان تین روزوں میں سے آخری روزہ یوم عرفہ میں رکھا جائے۔- چہار میہ کہ یہ مروی ہے کہ حج کا سب سے اہم دن یو معرفہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ یہ یوم النحر ہے۔ دوسری جانب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یوم النحر میں روزہ نہیں رکھا جاتا باوجودیکہ وہ ایام حج میں شامل ہے۔- اس بنا پر وہ ایام جن میں حدیث کی رو سے روزہ رکھنے کی ممانعت ہے اور انہیں ایام حج بھی نہیں کہا گیا ہے وہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ ان میں روزہ نہ رکھا جائے۔ نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ یوم النحر کے بعد باقی ماندہ ایام میں جو کام رہ جاتا ہے اس کا شمار حج کے توابع میں ہوتا ہے یعنی رمی جمار اور حج کے معاملے میں اس کی کوئی بڑی حیثیت نہیں ہوتی۔- اس بنا پر رمی جمار کے ایام حج کے ایام میں داخل نہیں ہوں گے اور ان دنوں کے روزے حج کے دنوں کے روزے نہیں کہلائیں گے۔- ایام منی کے بعد کے دنوں کے روزوں کو ہمارے اصحاب نے جائز قرار نہیں دیا اس لئے کہ ارشاد باری ہے (فما استیسر من الھدی فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام فی الحج)- اس آیت میں قربانی کو اصل فرض قرار دیا گیا ہے اور اس فرض کو روزوں میں منتقل کرنے کے لئے ایک صفت فی الحج کی قید ہے اور حج گزر چکا ہے اس بنا پر ضرور ی ہے کہ قربانی واجب ہوجائے۔- جس طرح یہ ارشاد باری ہے (فصیام شھرین متتابعین ) دو مسلسل مہینوں کا روزہ، نیز قول باری (فتحریر رقبۃ مومنۃ، ایک مومن غلام آزاد کرنا) اب یہاں روزوں اور غلام کی آزادی دووں کا کفارہ بننا اسی وقت درست ہوگا جب وہ مذکورہ شرطوں سے مشروط ہوں گی یعنی روزوں کا دو مہینے مسلسل ہونا اور غلام کا مومن ہونا۔- اگر یہ کہا جائے کہ (فصیام ثلثۃ ایام فی الحج) میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان روزوں کے عمل کو ایک خاص وقت میں واجب کردیا گیا ہے ۔ اس لئے اگر وقت فوت ہوجائے تو اس سے روزے کا عمل ساقط نہیں ہوگا۔- اس کی مثال اس قول باری میں ہے (اقم الصلوۃ لدلوک الشمس، غروب شمس پر نماز قائم کرو) اور (حافظوا علما الصلوۃ ولصلوۃ الوسطی تمام نمازوں) اور درمیانی نماز کی نگہداشت کرو) اور (وقران الفجر اور فجر کی تلاوت کی ) اور اسی طرح کے وہ تمام فرائض جو اپنے اوقات کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ان کی اوقات کا فوت ہوجانا ان فرائض کو ساقط نہیں کرتا ہے۔ - اس اعتراض کے دو جواب ہیں اول یہ کہ ہر وہ فرض جو سکی وقت کے ساتھ مخصوص ہے وقت نکل جانے کے ساتھ وہ فرض ساقط ہوجاتا ہے۔ اب اس کی جگہ کسی اور فرض کی قائم مقامی کے لئے ایک الگ دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اس دوسرے وقت میں فرض ہونے والی چیز اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔- اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول نہ ہوتا کہ (من نام عن صلوۃ او نسی تھا فلیصلھا اذا ذکرھا جس شخص کی نماز سو جانے یا بھول جانے کی وجہ سے رہ جائے وہ اسے اس وقت ادا کرے جب اسے یاد آ جائے) تو نمازوں کے فوت ہوجانے کی صورت میں ان کی قضا ہرگز لازم نہ آتی۔ اسی طرح اگر قول باری (فعدۃ من ایام اخر) نہ ہوتا تو رمضان میں روزے فوت ہوجانے کی صورت میں ان کی قضا ہرگز لازم نہ ہوتی۔- اب جبکہ تین دنوں کے روزے ایک خاص وقت کے ساتھ مخصوص ہیں اور ایک خاص صفت سے متصف ہیں یعنی حج میں ان کی ادائیگی پھر جب اس نے روزے کا عمل مشروط صفت کے ساتھ اور مخصوص وقت میں نہیں کیا تو اب اس کی قضا واجب کرنا اور روزے کے کسی اور علم کو اسی کے قائم مقام بنانا صرف اسی وقت درست ہوگا جبکہ شریعت کی طرف سے اس کی رہنمائی کی گئی ہوگی۔- دوم یہ کہ تین دنوں کے روزے قربانی میسر نہ ہونے کی صورت میں اس کا بدل ہیں لیکن ان کے بدل بننے کی ایک شرط ہے کہ وہ حج میں رکھے جائیں۔ اس بنا پر اس شرط کے بغیر انہیں بدل ثابت کرنا جائز نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تمیم کو پانی کا بدل قرار دیا گیا تو ہمارے لئے یہ جائز نہیں رہا کہ پانی موجود نہ ہونے کی صورت میں ہم مٹی کے سوا کسی اور چیز مثلاً آئے یا اشنان (ایک قسم کی گھاس جو ہاتھ دھونے کے کام آتی ہے) وغیرہ کو ٹمی کے قائم مقام بنادیں۔- ٹھیک اسی طرح جب روزے کی ایک خاص صفت پر ادائیگی کو قربانی کا بدل قرار دیا گیا تو ہمارے لئے یہ جائز نہیں رہا کہ ہم کوئی اور روزہ اس کے قائم مقام بنادیں جو اس خاص صفت پر نہ ہو۔ معترض نے فوت شدہ نمازوں کی مثال دی ہے لیکن یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فوت شدہ نمازوں کا حکم اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ ان نمازوں کے فوت ہونے کی صورت میں ہم نے قضا کو ان کا بدل قرار نہیں دیا بلکہ یہ وہ فروض ہیں جنہیں اصل نمازوں کے فوت ہونے کی صورت میں ہم نے قضا کو ان کا بدل قرار نہیں دیا بلکہ یہ وہ فروض ہیں جنہیں اصل نمازوں کے فوت ہونے کی صورت میں ہم نے لازم کردیا ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے صوم ظہار کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ میاں بیوی کے باہم اختلاط یعنی جماع سے پہلے رکھے جائیں۔ اگر اختلاف ہوگیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ روزے غلام آزاد کرنے کی طرف منتقل ہوجائیں گے اور ان کی بجائے غلام آزاد کرنا ضروری ہوگا ٹھیک اسی طرح تمتع کے یہ روے اگرچہ حج کے دنوں کے ساتھ مشروط ہیں لیکن اگر حج کے دنوں میں رکھے نہ جاسکیں تو اس سے ان کا سقوط لازم نہیں آتا اور نہ ہی ان کی بجائے قربانی کی طرف رجوع کرنا واجب ہوتا ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ صوم ظہار چونکہ اختلاط سے قبل کے ساتھ مشروط ہے اور اختلاط سے نہیں جس طرح اختلاط سے قبل قائم ہے اسی طرح اختلاط کے بعد بھی قائم رہتی ہے اس لئے جس صفت کے ساتھ بدل کے عمل کو مشروط کیا گیا ہے یعنی اختلاط کی نہی وہ تو موجود ہے اس لئے روزہ جائز ہوگیا۔- اس کے برعکس حج جس کے ساتھ بدل یعنی روزے کے جواز کو معلق کیا گیا ہے وہ موجود نہیں ہے کیونکہ حج نو گزر چکا ہے اس لئے اس کے گزرنے کے ساتھ روزے کا عمل بھی فوت ہوگیا۔ نیز ظاہر آیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اختلاط کے وجود کے ساتھ صوم ظہار ساقط ہوجائے۔ اگر آیت کے علاوہ روزے کے جواز کی ایک اور دلالت موجود نہ ہوتی تو ہم اسے ہرگز جائز قرار نہ دیتے۔- یہ دلالت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت شدہ اس روایت کی ہے جس میں آپ نے ظہار کرنے والے کو اختلاف کے بعد بھ اس وقت تک کے لئے ہمبستری کرنے سے روک دیا جب تک وہ کفارہ ادا نہ کر دے۔ بعض کا قول ہے کہ اختلاط کے بعد کفارئہ ظہار واجب نہیں رہتا۔ میرا جہاں تک گمان ہے یہ طائوس کا قول ہے ۔ لکین درج بالا حدیث سے اس کی تردید ہوجاتی ہے۔ واللہ اعلم۔- اس شخص کے متعلق فقہاء کا اختلاف جو صوم تمتع شروع کر دے اور اسی دوران اسے قربانی میسر آ جائے - ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص صوم تمتع شروع کرلے اور اسی دوران اسے قربانی میسر آ جائے یا صوم تمتع گذارنے کے بعد احرام کھولنے سے پہلے قربانی میسر آ جائے تو ان دونوں صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہوجائے گی اور قربانی کے سوا اور کوئی چیز جائز نہیں ہوگی۔ یہی ابراہیم نخعی کا بھول قول ہے۔- امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ جب وہ صوم تمتع شروع کر دے اور پھر اسے قربانی مل جائے تو روزہ ہی اس کے لئے کافی ہوگا اور اسے قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ حسن بصری اور شعبی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے ۔ عطاء کا قول ہے کہ اگر اس نے ایک دن روزہ رکھ لیا پھر اس کے پاس پیسے آ گئے تو وہ قربانی دے گا اور اگر تین دن روزہ رکھنے کے بعد اسے خوشحالی حاصل ہوگئی تو اب قربانی نہیں دے گا بلکہ سات دن کے روزے مکمل کرلے گا۔- پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ارشاد باری ہے (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی ، فمن کو یجد فضیام ثلثۃ ایام فی الحج) اس آیت کی روشنی میں جب تک وہ احرام سے باہر نہیں آتا اس وقت تک قربانی کا فرض اس پر قائم رہے گا یا یہ کہ ایام نحر گذر جائیں جو حلق کے لئے منسون ایام ہیں۔ اس لئے اسے جس وقت بھی قربانی ہاتھ آ جائے گی اس پر وہ واجب ہوجائے گی اور اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔- یہ بات تو معلوم ہے کہ احرام سے نکلنے کے لئے قربانی کی شراط لگائی گئی ہے کیونکہ قربانی کی ذبح سے پہلے اس کا احرام کھولنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (ولا تحلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) اس لئے اگر وہ ابھی احرام سے باہر نہیں آیا ہو اور اسے قربانی مل جائے تو اس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔- اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر قربانی واجب کرنے میں یہ فرق نہیں رکھا ہے کہ آیا اس نے روزہ شروع نہیں کیا ہے یا شروع کرلیا ہے۔ روزہ شروع کرنے سے قبل کی حالت اور شروع کرنے کے بعد کی حالت میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔- اس بات پر کہ احرام سے نکلنے کے لئے قربانی کی شرط لگا دی گئی ہے۔ قول باری (فاذا اوجبت جنوبھا فکلوا منھا واطعموا القانع والمعتتر اور جب قربانی کے بعد ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو ان سے خود بھی کھائو اور ان کو بھی کھلائو جو قناعت سے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں ) دلالت کر ہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قربانی ذبح کرنے کے بعد میل کچیل دور کرنے کا حکم دیا۔ جب یہ صورت ہے تو احرام سے نکلنے کے وقوع کا انتظار کرنا واجب ہوگا۔ اب اگر اس نے روزہ رکھ لیا پھر اسے قربانی مل گئی تو نہ اس کا روزہ ٹوٹا اور نہ ہی اس پر قربانی واجب ہوئی کیونکہ وہ سبب موجود ہے جس کی وجہ سے قربانی کی شرط لگائی گئی تھی اور پھر قربانی نہ ہونے کی صورت میں اس سبب کو بدل کی طرف منتقل کردیا گیا تھا۔- اس کی حیثیت اس تمیم کرنے والے کی طرح ہوگی جسے نماز سے فراغت کے بعد پانی مل گیا ہو یا اس برہنہ کی طرح ہوگی جیسے کپڑے مل گئے ہوں یا اس ظہار کرنے والے کی طرح ہوگی جو روزے سے فارغ ہوجائے اور پھر اسے آزاد کرنے کے لئے غلام ہاتھ آ جائے۔ اس لئے کہ ان تمام صورتوں میں اس سے فرض ساقط ہوچکا ہے جس کی بنا پر ادا کئے ہوئے افعال کا حکم منتقض نہیں ہوگا۔ لیکن مذکورہ افعال سے فرغ ہونے سے قبل بدل کے حکم کا انتظار کیا جائے گا۔ اگر یہ افعال مکمل ہوگئے اور وہ ان سے فارغ ہوگیا تو یہ افعال بدل کی جگہ واقع ہوجائیں گے اور اصل فرض کی طرف سے کفایت کر جائیں گے اور اگر اصل مل جائے قبل اس کے کہ وہ اس فعل سے فارغ ہو جو اس اصل کے لئے شرط کے طور پر تھا تو اس کا حکم منتقض ہو کر اصل فرض کی طرف لوٹ آئے گا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص کے نماز میں دخول کی نگہداشت کی جائے گی اور نماز کے آخر تک پہنچنے کا انتظار کیا جائے گا کیونکہ جو چیز نماز کے آخری حصے کو فاسد کر دے گی وہ اس کے اول حصے کو بھی فاسد کر دے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ تمیم کر کے نماز میں اخل ہونے کی صورت میں تمیم کے حکم کی نگہداشت کرتے ہوئے نماز کے آخر تک پہنچنے کا انتظار کیا جائے۔ اسی طرح ظہار کے روزے ہیں جب ظہار کرنے والا یہ روز سے شروع کرلے تو آخر تک اس کی نگہداشت کرتے ہوئے انتظار کیا جائے گا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اس نے بیچ میں ایک دن بھی روزہ نہ رکھاتو سارے روزے برباد ہوجائیں گے اور اصل فرض کی طرف واپسی ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر روزے رکھنے کے دوران اسے آزاد کرنے کے لئے غلام مل جائے تو یہ ضروری ہوگا کہ اس کے ظہار کے روزے ختم ہوجائیں اور اصل فرض کی طرف واپسی ہوجائے جیسا کہ کوئی شخص تمیم کرے لیکن ابھی نماز شروع نہ کی ہو کہ اسے پانی مل جائے تو اس کا تمیم ٹوٹ جائے گا کیونکہ تمیم کے وقوع کی اس شرط پر رعایت کی گئی تھی کہ فرض ادا کرنے تک اسے پانی نہ ملے۔- ہم سے اختلاف رائے رکھنے والے بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب کوئی شخص ظہار کے روزے رکھنے شروع کر دے تو اس سے غلام آزاد کرنے کی فرضیت ساقط ہوجائے گی کیونکہ ادا کیا ہوا حصہ درست ہوچکا ہے۔ اسی طرح تمیم کر کے نماز شروع کرنے والے سے پانی کے ذریعے اس نماز کے لئے طہارت حاصل کرنے کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔- اس طرح صوم تمتع شروع کرنے اولے سے قربانی کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں سے ادا کیا ہوا حصہ درست ہوچکا ہے اور اس کی درستی کا حکم دراصل اصل فرضیت کا اسقاط ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تمیم کرنے والے کی یہ کیفیت نہیں ہوتی ہے اگر اسے نماز شروع کرنے سے پہلے پانی مل جائے۔ اس لئے کہ تمیم فی نفسہ مفروض نہیں ہے وہ تو صرف نماز کی خاطر فرض کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کی نگہداشت کی جائے گی ۔ پھر نماز کرنے سے پہلے جس وقت وقت اسے پانی مل جائے گا تو اس کی تمیم باطل ہوجائے گا اور نماز میں داخل ہونے کے بعد تمیم کے لئے جو حکم ہے وہی حکم روزے میں داخل ہونے کے بعد روزے کا بھی ہوگا۔- ان لوگوں کا یہ استدلال بہت ہی کھوکھلا ہے اور اس کا غلط ہونا واضح ہے اس لئے کہ صوم تمتع یا صوم ظہار یا نماز میں داخل ہونے کے ساتھ فرضیت ساقط نہیں ہوئی بلکہ اس کے دخول کی نگہداشت کی جائے گی اور اس کا حکم اس کے آخر پہنچنے پر موقوف رہے گا۔- اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ایسا نمازی باقی ماند نماز فاسد کر بیٹھے گا تو ماقبل کا حصہ بھی فاسد ہوجائے گا اسی طرح اگر اظہار کا روزہ رکھنے والا باقی ماندہ روزوں کو فاسد کر دے گا تو ماقبل کے روزے بھی فاسد ہوجائیں گے۔ اسی طرح اگر اس نے صوم تمتع شروع کیا اور پہلے ہی دن اسے فاسد کردیا تو صوم تمتع فاسد ہوجائے گا۔ اگر اسے قربانی مل جائے تو بالاتفاق اسے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوگا۔- مخالفین کا یہ قول کہ ” جب ہم نے بدل کے ادا شدہ حصے کی صحت کا حکم لگا دیا تو اس سے اصل کی فرضیت ساقط ہوگئی۔ “ ایک غلط بات ہے ، اس لئے کہ ابھی اس کی صحت کا حکم واقع نہیں ہوا بلکہ اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے آخر کا انتظار کیا جائے اگر بدل مکمل ہوجائے اور اس کے ساتھ اصل کی فرضیت بھی نہ پائی جائے تو پھر اس کا حکم ثابت ہوجائے گا یعنی اس کی صحت کا حکم لگایا دیا جائے گا اور اگر بدل کے اتمام سے پہلے اصل مل جائے تو اس کا حکم باطل ہوجائے گا اور حکم اصل کی فرضیت کی طرف لوٹ آئیگا۔- اب چونکہ تمیم کرنے والے کا حکم یہ ہے کہ اس کے حکم کا انتظار کیا جائے یہاں تک کہ وہ نماز میں داخل ہوجائے اس لئے یہ ضروری ہے کہ نماز میں داخل ہونے کے بعد بھی اس کا یہی حکم ہو۔ اس لئے کہ تمیم کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز سے فراغت کا انتظار کیا جائے گا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ نماز میں داخل ہونے سے پہلے پانی مل جانے اور داخل ہونے کے بعد پانی مل جانے کے لحاظ سے اس کے حکم میں کوئی فرق نہ ہو۔- اسی طرح صوم تمتع اور صوم ظہار کا بھ یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس نابالغ لڑکی کے متعلق جس کے ساتھ ہم بستری کی جا چکی ہو سب کا یہ قول ہے کہ جب شوہر اسے طلاق دے دے تو اس کی عدت مہینوں کے حساب سے ہوگی اور یہ کہ عدم حیض کی صور ت میں اس کے حکم میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ مہینوں کے حساب کے وجوب کے بعد اس کی عدت حیض کے حساب کی طرف منتقل نہیں ہوگی خواہ طلاق سے پہلے حیض آ جائے یا طلاق کے بعد - اسی طرح موزوں پر مسح کرنے والے کے متعلق جبکہ اس کے مسح کا وقت ختم ہوجائے اور وہ اس حالت میں نماز کے اندر ہو یا نماز سے پہلے ایسا ہوجائے، سب کا یہی قول ہے۔ نماز کے درست نہ ہونے اور دونوں پائوں دھونے کے لزوم کے لحاظ سے ان دونوں حالتوں کا حکم یکساں ہے۔- امام شافعی نے مستحاضہ کے متعق بھی یہی کہا ہے جبکہ اس کا استحاضہ ایسی حالت میں ختم ہوجائے کہ وہ نماز میں ہو یا نماز سے قبل ایسا ہوجائے۔ نماز کی ممانعت اور طہارت کی تجدید کے بعد ہی اس کے جواز کے لحاظ سے دونوں حالتوں کا حکم یکساں ہے۔- امام مالک کے بعض اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کا شوہر طلاق رجعی دے دے پھر اس کی وفات ہوجائے تو وہ عورت عدت طلاق کی بجائے عدت وفات گذارے گی اس لئے کہ وہ شوہر کی وفات کے وقت طلاق رجعی کی بنا پر بیوی کے حکم میں تھی۔- ان کا یہ بھی قول ہے اگر کسی کی زوجیت میں لونڈی ہو اور وہ اسے طلاق دے دے تو اس پر لونڈی کی عدت واجب ہوگی اگر عدت کے دوران اسے آزاد کردیا جائے تو اس کی عدت آزاد عورت کی عدت کی طرف منتقل نہیں کی اگرچہ اس کا شوہر اس سے رجوع کا حق رکھتا بھی ہو۔- ان کی دلیل یہ ہے کہ اس مسئلے میں کوئی ایسی بات نہیں پیدا ہوئی جس کی وجہ سے اس پر عدت واجب ہوجائے کیونکہ آزادی کی وجہ سے عدت واجب نہیں ہوتی بخلاف پہلے مسئلے کے کہ اس میں موت کا حادثہ پیش آگیا تھا اور موت عدت کو لازم کردیتی ہے۔- اس استدلال کی بنا پر امام مالک کے اصحاب پر یہ لازم آت ا ہے کہ نابالغ کی عدت بھی جبکہ اسے حیض آ جائے ، حیض کے حساب کی طرف منتقل نہ ہو اس لئے کوئی ایسی بات پیدا نہیں ہوئی جو عدت کو واجب کرنے والی ہو، جو بات پیدا ہوئی وہ حیض کا آنا ہے اور حیض کے آنے سے کوئی عدت واجب نہیں ہوتی۔ جس طرح کہ عتق کی وجہ سے عدت واجب نہیں ہوتی۔ ان کا استدلال اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔- قول باری (واسبعۃ اذا رجعتم) اور سات روزے جب تم واپس ہو جائو) میں یہ بھی احتمال ہے کہ تم منیٰ سے واپس ہو جائو اور یہ بھی کہ گھروں کو واپسی ہوجائے ۔ لیکن یہاں منیٰ سے رجوع مراد ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایام تشریق میں روزے پر پابندی لگائی اور واپسی کے بد سات روزوں کی اجازت دے دی۔ اس لئے بہت ریہ ہے کہ اس سے مراد وہ وقت ہو جس میں پابندی کے بعد روزہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور وہ وقت ایام تشریق کے گذر جانے کے بعد کا ہے۔- قول باری ہے (تلک عشرۃ کاملۃ) یہ پورے دس روزے ہوئے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں۔ اول یہ کہ استحقاق ثواب کے لحاظ سے یہ پورے دس روزے قربانی کے جانور کے قائم مقام ہیں۔ یہ اس لئے کہ ابتدائی تین روزے سات روزوں کی تکمیل سے قبل ہی یوم النحر میں احرام کھول دینے کے جواز کے لحاظ سے قربانی کے جانور کے قائم مقام ہوگئے تھے۔ - اب کوئی گمان کرنے والا یہ گمان کرسکتا تھا کہ استکمال ثواب کے لحاظ سے یہی تین روزے قربانی کے جانور کے قائم مقام ہوچکے ہیں اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتادیا کہ استحقاق ثواب کے لحاظ سے یہ پورے دس روزے ہی قربانی کے جانور کے قائم مقام ہوں گے۔ رہے ابتدائی روزے تو ان کے حکم کا تعلق صرف احرام کھولنے کے جواز تک تھا۔- اس طرز بیان کے عظیم فوائد ہیں۔ اول یہ کہ اس میں بقیہ سات روزے رکھنے کی پوری ترغیب ہے۔ دوم یہ کہ واپسی کے بعد انہیں جلد از جلد کھ لینے کا حم ہے تاکہ قربانی کے جانور کا ثواب پوری طرح حاصل ہوجائے۔- اس فقرے کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ اس کے ذریعے تخییر کے احتمال کا ازالہ کردیا گیا ہے اور یہ بتادیا گیا ہے کہ (وسبعۃ اذا رجعتم) میں حرف وائو حرف ائو کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ حرف وائو بعض مواقع پر حرف ائو کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (تلک عشرۃ کاملۃ) فرما کر سا احتمال کا ازالہ کردیا۔- ایک قول یہ بھی ہے کہ اس فقرے کا مطلب مخاطب کے ذہن میں دس کے عدد کے تصور کو پوری طرح بٹھا دینا ہے نیز اس سے اس بات پر بھی دلالت ہوتی ہے کہ عدد میں انقطاع تفصیل ہوتا ہے یعنی عدو اپنے معدود کو متعین طور پر بتادیتا ہے اور اس میں مزید تفصیل کی گنجائش نہیں ہوتی جس طرح کہ فرزوق کا شعر ہے۔- ثلاث واثنتین فھن خمس وسادسۃ تمیل الی شمام - تین اونٹیاں اور دو انٹنیاں کل ملا کر پانچ ہوئیں۔ اور چھٹی کا میلان شمام کی طرف ہے۔- امام شافعی نے اس فقرے کو بیان کی ایک قسم قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ اول درجے کا بیان ہے حالانکہ کسی اہل علم نے اسے بیان کے اقسام میں شمار نہیں کیا ہے۔ اس لئے کہ قول باری میں ثلاثہ اور سبعہ کسی بان کے محتاج نہیں ہیں اور اس بارے میں کسی کو کوئی اشکال بھی پیش نہیں آسکتا۔ اس لئے اسے بیان کی ایک قسم قرار دینے والا اپنے قول میں غفلت کا شکار ہوگیا ہے۔- آیت 196 کی تفسیر ختم ہوئی۔- ۔۔۔۔۔- تفسیر آیت 197:- قول باری ہے (الحج اشھر معلومات حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف کا حج کے مہینوں میں اختلاف ہے کہ وہ کون کون سے مہینے ہیں۔ حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر، حسن بصری، عطاء بن ابی رباح اور مجاہد کا قول ہے کہ یہ شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔- حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ یہ شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر سے بھی ایک روایت یہی ہ ،، اسی طرح کی روایت عطاء اور مجاہد سے بھی ہے۔ کچھ لوگوں کا قول ہے کہ درج بالا دونوں اقوال میں حقیقت کے لحاظ سے کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے کہ جو لوگ ذی الحج کو اشہر حج کہتے ہیں۔- ان کے نزدیک بھی ذی الحجہ کا بعض حصہ مراد ہے اس لئے کہ حج لازمی طور پر اس کے بعض حصے میں ہوتا ہے پورے مہینے میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک متفقہ مسئلہ ہے کہ ایام منیٰ کے بعد حج کے مناسک میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک پورا مہینہ مراد ہے۔- اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ تین مہینے جب حج کے ہوجائیں گے تو ان کے نزدیک عمرہ کی ادائیگی کے لئے پسندیدہ بات یہ ہوگی کہ عمرہ ان تینوں مہینوں کے علاوہ اور مہینوں میں کیا جائے جس طرح کہ حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کرام سے یہ منقول ہے کہ ان کے نزدیک اشہر حج کے سوا اور مہینوں میں عمرہ کرنا مستحب تھا یہ بات ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔- حسن بن ابی مالک نے امام ابو یوسف سے نقل کیا ہے کہ اشہر حج شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں کیونکہ جس شخص کو وقوف عرفہ حاصل نہ ہو یہاں تک کہ یوم النحر کا سورج طلوع ہوجائے تو اس کا حج فوت ہوجائے گا۔- اہل لعنت کے درمیان اس بات کے جو از میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اشہر حج سے دو مہینے اور تیسرے مہینے کا بعض حصہ مراد لیا جائے جس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے کہ ” ایام منیٰ تین ہیں “ حالانکہ یہ دو دن اور تیسرے دن کا بعض حصہ ہے۔- اسی طرح جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ” حججت عام کذا “ (میں نے فلاں سال حج کیا ) تو اس سے مراد سال کا بعض مراد ہوتا ہے اس لئے کہ حج سال کے بعد حصے میں ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ محاورہ ” لقیت فلانا سنۃ کذا “ (میں نے فلاں شخص کو فلاں سال دیکھا تھا) یعنی فلاں سال کے بعض حصے میں دیکھا تھا۔- اسی طرح (یوم الجمعۃ) کہہ کر جمعہ کے دن کا بعض حصہ مراد ہوتا ہے۔ یہ بات خطاب کے مفہوم کا جز ہے کہ جب کوئی کام سارے وقت کا احاطہ نہ کرسکتا ہو تو عقلی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس کا بعض حصہ مراد ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جو لوگ اشہر حج کے سلسلے میں شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے قائل ہیں ان کے قول کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ یہ وجہ بہت مشہور اور درست ہے اور اس میں اشہر معلومات کے متعلق دونوں اختلافی اقوال کے آ جانے کی بھی گنجائش ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ نسی کرتے تھے یعنی سال کے مہینوں کو آگے پیچھے کرلیا کرتے تھے۔- چنانچہ وہ صفر کو محرم بنا لئے اور محرم کے مہینے کو نجگ وجدل اور لوٹ مار کے لئے حلال قرار دے دیتے جس طرح ان کے مفادات کا تقاضا ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے نسی کی اس رسم کو باطل کر کے حج کا وقت اسی طریقے پر مقرر کردیا جس پر ابتداء میں یہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا ۔- جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر فرمایا تھا (الا ان الزمان قد استداد کھیتہ یوم خلق اللہ السماوات والارض السنۃ اثنا عشر شھداً منھا اربعۃ حرم شوال وذوالقعدۃ ، ذوالحجۃ ورجب مضوالذی بین جمادی و شعبان، اے لوگو آگاہ رہو کہ زمانہ گھوم کر اپنی اصلی حات پر آگیا ہے جو اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا۔ - سال کے بارہ مہینے میں جن میں چار حرمت کے مہینے میں یعنی شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور قبیلہ مضر کے رجب کا مہینہ جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا (الحج اشھر معلومات )…اس سے مراد وہ مہینے ہیں جن میں حج کا وقت مقرر ہوگیا ہے نہ کہ وہ مہینے جن پر زمانہ جاہلیت کے لوگ قائم تھے اور مہینوں کو آگے پیچھے کر کے حج میں تقدیم و تاخیر کر یدتے تھے، ان کے نزدیک حج کا وقت اشہر حج کے ساتھ معلق ہوتا تھا لیکن یہ تین مہینے ایسے تھے کہ ان میں آنے جانے والوں کو یہ لوگ کچھ نہ کہتے اور ان کے لئے امن کی فضا قائم کرتے۔- اللہ تعالیٰ نے ان مہینوں کا ذکر کر کے یہ بتادیا کہ اب حج کا معاملہ ایک مقام پر مستقر ہوگیا ہے نیز اللہ تعالیٰ نے ان مہینوں کو دوسرے مہینوں سے بدلنے اور انہیں آگے پیچھے کرنے پر بھی پابندی لگا دی۔- اس میں ایک وجہ اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جب تمتع بالعمرۃ الی الحج، کا پہلے ذکر کیا اور تمتع کی اجازت دے دی اور عربوں کے اس اعتقاد کو باطل قرار دے دیا کہ ان مہینوں میں عمرہ کرنے پر پابندی ہے تو پھر فرمایا :- (الحج اشھر معلومات) اور اس سے یہ بتادیا کہ وہ مہینے جن میں ” تمتع بالعمۃ الی الحج “ درست ہے اور جن میں اس تمتع کا حکم ثابت ہوگیا ہے وہ یہی مہینے ہیں اور جس شخص نے ان مہینوں کے علاوہ دور سے مہینوں میں عمرہ کیا اور پھر حج کرلیا اس پر تمتع کا حکم عائد نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم - اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھ لینا - ابوبکر جصاص کہتے ہیں اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھ لینے میں سلف کا اختلاف ہے۔ مقسم نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ :” حج کی سنت یہ ہے کہ اشہر حج سے پہلے احرام نہ باندھا جائے “ اسی طرح ابوالزبیر نے حضرت جابر سے نقل کیا ہے :” کہ انسان اشہر حج سے پہلے حج کا احرام نہ باندھے۔ “- اسی قسم کی روایت طائوس، عطاء، مجاہد، عمرو بن میمن اور عکرمہ سے بھی ہے عطا بن ابی رباح کا قول ہے کہ جس شخص نے اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا اسے چاہیے کہ اسے عمرہ میں تبدیل کر دے۔ “ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ قول باری (واتمو الحج والعمرۃ للہ) کی روشنی میں حج اور عمرے کے اتمام کی صورت یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے ان دونوں کے لئے احرام باندھو۔ “- آپ نے اس میں فرق نہیں کیا کہ اس شخص کے گھر سے مکہ مکرمہ تک کی مسافت بہت زیادہ یا کم ہو۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھ لینے کے جواز کے قائل تھے۔ حضرت ابن عباس سے مقسم کی جو روای ہے اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک ایسا کرنا کوئی حتمی امر نہیں ہے۔- ابراہیم نخعی اور ابو نعیم سے اس کے جواز کی روایت نقل کی گئی ہے اور یہی ہمارے تمام اصحاب کا مسلک ہے، امام مالک، سفیان ثوری اور لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے حسن بن صالح بن حی نے کہا ہے کہ اگر شہر حج سے قبل حج کا احرام باندھ لے تو اسے عمرہ میں تبدیل کر دے۔ اگر عمرہ میں تبدیل کرنے سے پہلے حج کے مہینے شروع ہوجائیں تو پھر اسی احرام سے حج کرے۔ یہ اس کے لئے جائز ہوجائیں تو پھر اسی احرام سے حج کرلے۔ یہ اس کے لئے جائز ہوجائے گا۔- اوزاعی کا قول ہے کہ اسے عمرہ میں تبدیل کر دے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر اس نے حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا تو یہ عمرے کا احرام ہوجائے گا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم پہلے ذک کر آئے ہیں کہ قول باری یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مواقیت للناس والحج) میں اس کے جواز پر دلالت موجود ہے کیونکہ اس میں یہ عموم موجود ہے کہ تمام ” اہلہ “ حج کے لئے وقت بن جائیں اور جب یہ معلوم ہے کہ یہ اہلہ حج کے افعال کے نظام الاوقات نہیں ہیں تو اب ضروری ہوگیا کہ لفظ کا حج کے احرام کے معنوں میں استعمال کیا جائے۔ جو اس بات کا متقاضی ہے کہ تمام اہلہ میں حج کا احرام باندھنا جائز ہے اور کسی ایک چند اہلہ پر انحصار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلہ کو لوگوں کے لئے مواقیت یعنی تاریخوں کی تعیین کی علامتیں بنا کر ان کا عموم مراد لیا ہے۔ اور اس نے ان میں سے بعض کو چھوڑ کر بعض کا ارادہ نہیں کیا ہے۔- اس بنا پر جہاں لفظ میں لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعیین کی علامتیں بننے کے معنی کی گنجائش ہے وہاں یہ بھی ضروری ہ کہ حج کے سلسلے میں بھی یہی معنی لئے جائیں۔ اس لئے کہ یہ دونوں معنی ایک ہی لفظ کے تحت لئے جا رہے ہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ جب اہلہ کو حج کے لئے مواقیت ٹھہرایا گیا اور حج حقیقت میں وہ افعال ہیں جو احرام کی وجہ سے واجب ہوتے ہیں اور احرام حج نہیں ہوتا اس لئے ضروری ہے کہ حج کو اپنے حقیقی معنوں میں استعمال کیا جائے۔ اس لئے حج کے لئے مواقیت بننے والے اہلہ شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ ہوں گے۔ اس لئے کہ ان ہی مہینوں میں افعال حج درست ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر کسی نے شہر حج سے پہلے طواف اور سعی کرلی تو سب کے نزدیک یہ درست نہیں ہوگی۔ اس بنا پر لفظ حج اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوگا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ استدلال غلط ہے کیونکہ اس کی بنا پر سرے سے ہی اہلہ کے لفظ کو نظر انداز کردینا لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ قول باری (یسئلونک عن الاھلۃ، قلھی مواقیت للناس والحج) تقاضا کرتا ہے کہ اہلہ ہی حج کے میقات ہوں اور حج کے بنیادی ارکان تین ہیں، احرام، وقوف عرفہ اور طواف زیارت اور یہ بات معلوم ہے کہ اہلہ وقوف عرفہ کے لئے میقات نہیں ہیں اور نہ ہی طواف زیارت کے لئے کیونکہ یہ دونوں افعال پہلی تاریخ کے چاند یعنی ہلال کے وقت سر انجام نہیں دیئے جاتے۔ اس لئے اب یہ اہلہ صرف احرام کے لئے میثاق بن سکتے ہیں حج کے بقیہ فرضوں کے لئے نہیں بن سکتے۔- اگر ہم اس کا وہ مفہوم لیں جو معترض نے بیان کیا ہے تو اس کی وجہ سے کوئی بھی فرض اہلہ سے متعلق نہیں ہوگا اور نہ ہی اہلہ ان فرضوں کے لئے میقات بن سکیں گے جس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ اہلہ کا ذکر اور اس کا فائدہ دونوں ساقط ہوجائیں گے۔- اگر یہ کہ اجائے کہ وقوف عرفہ کے وقت کی معرفت تو ہلال کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس لئے ہلال کو حج کے لئے میقات کہنا درست ہے جو اب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح معترض نے گمان کیا ہے۔ اس لئے کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ ہلال کا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے اور وقت کے گذر جانے کے بعد وہ ہلال نہیں کہلاتا ۔- آپ نہیں دیکھتے کہ وقوف عرفہ کی رات کے چاند کو ہلال نہیں کہا جاتا اور اللہ تعالیٰ نے تو خود ہلال کو حج کے لئے میقات بنایا ہے اور معترض غیر ہلال یعنی چاند کو میقات بنا رہا ہے۔ اس صور ت میں لفظ کے حکم اور اس کی دلالت کو ساقط کردینا لازم آتا ہے۔- آپ انہیں دیکھتے کہ اگر کسی مہینے کے ہلال کو قرض کی ادائیگی کا وقت بنادیا جائے تو اس صورت میں اس مہینے کی پہلی تاریخ کا چاند مطالبہ کے حق کے ثبوت اور اس کی ادائیگی کے وجوب کے لئے وقت بن جائے گا نہ کہ اس کے بعد کے ایام اسی طرح اجارہ کے عقود جب ہلال کے حساب سے بروئے کار لائے جائیں گیتو ان میں رئویت ہلال کا اعتبار کیا جائے گا۔ یہ بات لفظ ہلال سے سمجھ میں آ جاتی ہے اور کسی ذی فہم کو اس میں اشکال پیدا نہیں ہوتا۔- رہا معترض کا یہ قول کہ حج ان افعال کا نام ہے جو احرام کی وجہ سے واجب ہوتے ہیں اور احرام کو حج نہیں کہا جاتا تو اس میں اصل بات یہ ہے کہ احرام چونکہ ان افعال کا سبب بنتا ہے اور ان کی ادائیگی احرام کے بغیر درست نہیں ہوتی اس لئے یہ درست ہے کہ احرام کو حج کا نام دیا جائے جیسا کہ ہم اس کتاب کے شروع میں بیان کر آئے ہیں کہ ایک چیز کو اس کے غیر کا نام دیا جات ا ہے جب وہ غیر اس چیز کا سبب یا قریب ہوتا ہے۔ اسی بنا پر احرام کو حج کا نام دیا گیا ہے۔- نیز ارشاد باری (قل ھی مواقیت للناس والحج) میں لفظ احرام کو پوشیدہ ماننا جائز ہے جس سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا۔” قلھی مواقیت للناس والاحرام الحج “ اسی طرح ارشاد باری (واسمل القریۃ) کے معنی ہیں ” واسمل اھل القریۃ “ یا (ولکن البر من اتفی) کے معنی ہیں ” ولکن البر من اتقی۔ “- ان مثالوں کے پیش نظر لفظ احرام کا استعمال اسٗی طریقے پر کرنا ضروری ہے تاکہ اہلہ کو حج کے مواقیت قرار دینے میں لفظ کے حکم کا اثبات درست ہوجائے۔ نیز لعنت میں چونکہ حج نام ہے قصد کا اگرچہ شریعت میں اس کے ساتھ بہت سے افعال متعلق ہیں جن پر اس کا اطلاق درست ہے ۔- اس بنا پر احرام کو حج کا نام دینے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اس لئے کہ قصد کی ابتداء میں جس حکم کا تعلق ہوتا ہے وہ احرام ہی ہوتا ہے اور احرام سے پہلے اس قصد کے ساتھ کسی حکم کا تعلق نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بالکل جائز ہے کہ اس بن اپر احرام کو حج کا نام دیا جائے۔ کیونکہ احرام ہی سے حج کی ابتداء ہوتی ہے۔- اس لئے قول باری (یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مواقیت للناس والحج) میں اگر ہم لفظ کو اس کے ظاہر پر رہنے دیں تو لفظ حج احرام اور حج کے دوسرے افعال و مناسک سب پر مشتمل ہوگا۔ پھر جب حج کے دور سے افعال اوقات محصورہ کے ساتھ خاص ہیں۔ ہم نے لفظ کے پورے مفہوم سے ان افعال کی تخصیص کردی اور حج کے لفظ کا حکم احرام میں باقی رہ گیا۔ شاعر کا یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ لغت میں حج کے معنی قصد کے ہیں۔ شعر ہے۔- ع یجج ما مومۃ فی قعدھا لجف - وہ ایسے کنوئیں کا قصد کرتا ہے جس کی گہرائی میں پانی نے اس کی تہہ کو گرا دیا ہے یعنی وہ کنوئیں کا قصہ کرتا ہے تاکہ اس کی گہرائی کا اندازہ کرسکے۔- اب چونکہ قصد کے ساتھ بہت سے ایسے افعال کا بھی تعلق ہوتا ہے جو قصد اور ارادے کے مستحق نہیں ہوتے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان افعال کی بن اپر حج کے شرعی معانی سے قصد کے مفہوم کو ساقط کردیا گیا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ لغت کے اعتبار سے صوم امساک کے لئے اسم ہے اور شریعت میں اس کا اطلاق کچھ اور معانی پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود روزے کی درستی کے لئے امساک کے معنی کا اعتبار ساقط نہیں ہوا۔ اسی طرح اعتکاف لبث یعنی ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں لیکن شریعت میں اس کا اطلاق لبث کے معانی کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے معانی پر بھی ہوتا ہے۔- اب اس اسم کا وہ معنی جس کے لئے یہ اسم وضع کیا گیا ہے اس کا ہمیشہ اعتبار کیا جائے گا۔ اگر چہ اس کے ساتھ شریعت میں کچھ دوسرے معانی بھی لاحق ہوگئے ہیں جن کے وجود کے بغیر اس اسم کا حکم ثابت نہیں ہوگا۔- اسی طرح حج ہے جو لغت میں قصد کے لئے اسم ہے۔ پھر اس قصد کے حکم کا احرام کے ساتھ تعلق ہوگیا اور احرام سے قبل کے قصد کا کسی حکم سے تعلق نہیں ہوا تو اب یہ بات درست ہوگئی کہ احرام اس اسم کا مسمی بن جائے جس طرح طواف اور وقوف عرفہ اور مناسک سے متعلقہ افعال اس کے مسمی ہیں اس لئے عموم کے پیش نظریہ ضروری ہوگیا کہ تمام اہلہ احرام کے میقات بن جائیں۔- نیز عموم کا تقاضا یہ بھی تھا کہ تمام اہلہ حج کے تمام افعال کے لئے میقات قرار دیئے جائیں لیکن اوقات محصورہ کے ساتھ ان افعال کی تخصیص پر دلالت موجود ہونے کی بنا پر ایسا نہیں ہوسکا۔- اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھنے کے جواز کی ایک اور دلیل قول باری (الحج اشہر معلومات ہے۔ سابقہ سطور میں ہم نے اشہر حج کے متعلق ذی الحجہ کے اقوال کا جائزہ لیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ بعض کے نزدیک یہ شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور بعض کے نزدیک یہ شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ گویا سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ یوم النحر اشہر حج میں داخل ہے۔- اس لئے (اشھر معلومات) کے عموم کے پیش نظر نظریہ کہنا درست ہوگا کہ حج کا احرام یوم النحر کو بھی باندھنا جائز ہے۔ جب حج کا احرام یوم النحر کو باندھنا جائز ہے تو سارے سال کے دوران باندھنا بھی جائز ہوگا کیونکہ کسی نے بھی یوم النحر کو اس کے جواز اور سارے سال کے دوران اس کے جواز کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔- اگر یہ کہا جائے کہ جن لوگوں نے ذی الحجہ کے دس دنوں کو اشہر حج میں شمار کیا ہے انہوں نے اس سے دس راتیں مراد لی ہیں اور یوم النحر کو ان میں شامل نہیں کیا ہے اس لئے کہ یوم النحر کو طلوع فجر کے ساتھ حج فوت ہوجاتا ہے۔ اس لئے یوم النحران میں شامل نہیں ہوسکتا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جن لوگوں نے ذی الحجہ کے عشرے کو اشہر حج میں شامل کیا ہے۔ اگر اس سے ان کی مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہوں تو راتوں کا ذکر ان دنوں کی شمولیت کا بھی تقاضا کرتا ہے جو ان راتوں کے مقابلے میں ہوں گے۔- جیسا کہ ایک مقام پر قول باری ہ (ثلث لیال سویاً ) ان سے مراد ایام ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بعینہ یہی واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے (ثلثۃ ایام الا رمزاً )- اسی طرح قول باری ہے (والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجاً یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھرو عشراً ، تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دنوں تک انتظار میں رکھیں گی ) یہ انتظار چار مہینے دس دنوں کا ہوگا۔- حضرت علی، حضرت عبداللہ بن شداد اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی کے علاوہ دوسرے کئی صحابہ سے یہ مروی ہے کہ یلوم الحج الاکبر، یوم النحر ہے اور یہ بات تو بالکل محال ہے کہ یوم النحر تو یوم الحج الاکبر، ہو اور وہ اشہر حج میں داخل نہ ہو۔- علاوہ ازیں آیت (الحج اشہر معلومات) کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ تینوں مہینے اس میں شامل ہوں اور کسی دلالت کے بغیر ان کا کوئی حصہ خارج نہ ہو۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یوم النحر اشہر حج میں شامل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنے اس قول (الحج اشہر معلومات) کے ذریعے احرام کی اجازت دے دی ہے۔ اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ اس میں احرام کی ابتداء درست ہوجائے اور جب اس میں درست ہوجائے تو بالاتفاق پورے سال میں بھی درست ہوجائے۔- اس آیت میں اشہر حج کے دخول سے پہلے حج کے احرام کے جواز پر ایک اور وجہ سے بھی دلالت ہو رہی ہے ۔ خطاب کے سیاق و میں قول باری ہے (فمن فرض فیھن الحج) پس جس نے ان مہینوں میں حج فرض کرلیا) ان مہینوں میں حج فرض کرنے کا مطلب ان میں حج کو واجب کرنا ہے۔ اس لئے کہ حج کے تمام افعال حج کے ذریعے واجب ہوتے ہیں۔- اللہ تعالیٰ نے فرض کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں کیا بلکہ فعل کے لئے وقت مقرر کیا۔ اس لئے کہ اس مقام پر جس فرض کا ذکر ہے وہ لامحالہ حج کے سوا کچھ اور ہے جس کے ساتھ حج کو متعلق کیا جاتا ہے جب بات یہ ہے تو یہ وقت مناسک کے انجام دینے کا وقت ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر ان مناسک کو انجام دینا ایک غیر موقت فرض کے ذریعے لازم کردیا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھنا درست ہو جس کے وجہ سے مناسک کو انجام دینا واجب ہوجائے۔- ہم نے درج بالا سطور میں جو استدلال کیا ہے۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ایک شخص اگر اشہر حج سے پہلے نذر کے حج کی ابتداء کرلے تو اس کا یہ عمل درست ہوگا۔ اور یہی بات اس کے مشروط وقت میں حج کو وجب کرنے والی بن جائے گی اگرچہ اس نے اس کا ایجاب اس کے وقت سے پہلے کیا تھا۔- اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” اللہ کے لئے میں صبح روزہ رکھنے کی نذر مانتا ہوں “ تو اس کا یہ قول اسی وقت صبح کے روزے کا صبح کے وجود سے پہلے موجب ہوجائے گا۔ اسی طرح یہ بھی کہنا جائز ہے کہ جس شخص نے اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا تو اس کا یہ احرام باندھنا اشہر حج میں حج کا موجب ہوجائے گا۔ اگرچہ اس کا فرض ہونا اور اس کے لئے احرام باندھنا غیر اشہر حج میں سر انجام پایا۔- اس لئے قول باری (فمن فرض فیھن الحج) کا ظاہر ایسے فرض کے ذریعے جو ان مہینوں سے قبل یا ان کے اندر پایا جائے حج کے فعل کے ایجا بکا تقاضا کرتا ہے۔ اس لئے کہ قول باری کا ظاہر لفظ ان تمام فروض کو شامل ہے جو ان دو وقتوں (اشہر حج سے قبل اور اشہر حج کے اندر) میں پائے جائیں۔- سنت سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھنا درست ہے۔ حضرت ابن عباس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ (من اراد الحج فلیستعجل) جو شخص حج کا ارادہ کرلے اسے جلدی کرنا چاہیے۔ ) اب یہ تعجیل احرام باندھنے اور حج کے افعال سر انجام دینے میں ہوسکتی ہے البتہ وہ افعال اس میں شامل نہیں ہیں جنہیں اپنے مخصوص اوقات سے مقدم کرنے کے عدم جواز پر دلیل قائم ہوچکی ہو۔- اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم کے میقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا (ھن لاھلھن ولمن مرعلیھن من غیر اھلھن فمن ارادالحج والعمرۃ) یہ مواقیت ان کے لئے ہیں جو یہاں کے رہنے والے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی جو یہاں نہ رہتے ہوں۔ ان لوگوں کے لئے جو حج اور عمرہ کے ارادے سے یہاں سے گذریں) حدیث کے الفاظ میں پورے سال کے دوران جس وقت بھی ان مواقیت سے گذر ہو احرام باندھنے کے جواز کا عموم ہے ۔- عقلی طور پر اس کی تائید اس طرح ہوتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یوم النحر میں طلوع فجر کے بعد بھی رمی جمار سے قبل تک احرام پوری طرح باقی رہتا ہے اگر اشہر حج سے قبل حج کا احرام باندھنا درست نہ ہوتا تو اس سے یہ بات ضروری ہ جتای کہ یہ احرام اس وقت میں پوری طرح باقی نہ رہے جس میں احرام کی ابتداء کرنا درست نہیں ہوتا۔- یوم النحر میں رمی جمار سے قبل تک احرام کا پوری باقی رہنا اس کے ابتدا کے جواز کی دلیل ہے وہ اس طرح کہ مناسک حج ایسے اوقات کے ساتھ محصور و مقید ہیں جن پر انہیں مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے اگر یوم النحر احرام باندھنے کا وقت نہ ہوتا تو اس دن اس کا باقی رہنا بھی درست نہ ہوتا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ جب جمعہ کی ادائیگی ایسے وقت کے ساتھ محصور ہوگئی جس پر اسے مقدم کرنا جائز نہیں تو اب اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز میں داخل ہوجائے اور دخول کے بعد ایسا وقت آ جائے جس میں جمعہ کی ابتداء درست نہ ہو تو ایسی صورت میں جمعہ کا جمعہ رہنا جائز نہیں ہوگا۔ مثلاً ایک شخص نے جمعہ کی نماز شروع کرلی لیکن نماز کے دوران عصر کا وقت شروع ہوگیا تو اس صورت میں اس کا جمعہ باطل ہوجائے گا اور خروج وقت کے بعد اس نماز پر اسی طرح جمعہ کا حکم درست نہیں ہوگا جس طرح کہ اس وقت اس کا شروع کرنا درست نہیں ہے۔- اسی طرح حج کا احرام اگر اشہر حج کے اندر محصور ہوتا تو حج گذر جانے کے بعد اس کا بتمام و کمال باقی رہنا درست نہ ہوتا جس طرح کہ ہمارے مخالفین کے نزدیک حج گذر جانے کے بعد اس کی ابتداء درست نہیں ہے۔ اب جب یوم النحر میں اس کا بکمالہ باقی رہنا درست ہوگیا تو یوم النحر میں اس کی ابتداء بھی درست ہونی چاہیے۔- اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ حج کا احرام ایسے وقت میں باندھنا درست ہے جس میں حج کے افعال کو سر انجام دینا صحیح نہیں ہوتا اور جس کے بہت بعد یہ افعال سر انجام پاتے ہیں۔- اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ اشہر حج پر احرام کی تقدیم اسی طرح جائز ہوجائے جس طرح اشہر حج کے اندر جائز ہے۔ اس لئے کہ احرام کی وجہ سے واجب ہونے والے افعال کی ادائیگی احرام باندھنے کے بعد ہوتی ہے نیز اگر احرام موقت ہوتا تو یہ ضروری ہوتا کہ اس کی وجہ سے واجب ہونے والے افعال اس کے متصل سر انجام دیئے جائیں جس طرح کہ نماز کا احرام موقت ہونے کی وجہ سے اس کے تحت لازم ہنے والے فرض متصلاً ادا کی اجاتا ہے اور اس کی ادائیگی میں تراخی جائز نہیں ہوتی۔- یہ بات بھی بطور دلیل بیان کی جاسکتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ متمتع وہ شخص ہوتا ہے جو ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کی ادائیگی کرتا ہے بشرطیکہ اس کا گھر بار مسجد حرام کے آس پاس نہ ہو اور عمرہ کے احرام کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا احرام اشہر حج سے پہلے باندھا جائے یا اشہر حج کے اندر جیسا کہ متمتع کے حکم کا تقاضا ہے۔- اسی طرح حج کے احرام کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ اشہر حج سے پہلے باندھا گیا ہے یا اشہر حج کے اندر ان دونوں کے اندر جو مشترک معنی ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں احراموں کی وجہ سے واجب ہنے والے افعال کے حکم کا تعلق اشہر حج میں ان افعال کو سر انجام دینے کے ساتھ ہوتا ہے۔- اس بنا پر یہ ضرو ری ہے کہ ان دونوں احراموں کا حکم اشہر حج اور غیر اشہر حج میں یکساں ہو۔ جس طرح کہ ان دونوں کے افعال کی ادائیگی کا حکم یکساں ہے کہ یہ افعال اگر اشہر حج میں ادا کئے جائیں جو لوگ اشہر حج سے قبل حج کے احرام کے جواز کے قائل نہیں ہیں انہوں نے ظاہر آیت (الحج اشھر معلومات) سے استدلال کیا ہے۔ ہم نے اشہر حج سے قبل حج کے احرام کے جواز پر اس آیت کی دلالت کی وضاحت کردی ہے۔- تاہم آیت کا معنی ایک ایسے پوشیدہ لفظ کے ساتھ متعلق ہے جس سے کسی طرح کلام کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ یہ ہے کہ حج کا اطلاق شہود یعنی مہینں پر نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ حج فعل عہد ہے جبکہ اشہر فعل باری تعالیٰ ہے اور یہ بالکل درست نہیں ہے کہ اللہ کا فعل بندے کا فعل بن جائے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ کلام میں کوئی لفظ ضرور پوشیدہ ہے۔- اب یہ بھی احتمال ہے کہ وہ پوشیدہ لفظ اشہر جج میں فعل حج ہو۔ اس سے اشہر حج سے قبل حج کے احرام کی نفی کی کوئی بات نہیں نکلتی۔ اس سے جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حج کا فعل ان مہینوں میں ہوتا ہے اور ان مہینوں میں احرام باندھنا جائز ہے۔ لیکن ان مہینوں میں احرام کو جائز قرار دینے سے دوسرے مہینں میں اس کے جواز کی نفی نہیں ہوتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ اشہر حج میں احرام حج کو جائز قرار دینا ان مہینوں میں احرام حج باندھنے یا اس کے افعال سر انجام دینے کے امر اور حکم کو متضمن ہے۔ اس لئے غیر اشہر حج میں ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ کہنا غلط ہے کیونکہ لفظ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو امر اور حکم پر دلالت کرتی ہو۔- لفظ میں تو صرف ان مہینوں میں اس کے جواز پر دلالت ہے۔ ایجاب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس صورت حال کے تحت زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ ان مہینوں میں حج کے احرام اور سا کے افعال کو جائز قرار دیا گیا ہے لیکن اس سے دوسرے مہینوں میں احرام کے جواز کی نفی نہیں ہوتی۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پورے سال کے دوران حج کے احرام کے جواز کی صور ت میں حج کو ان مہینوں کے ساتھ موقت کرنے کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ اس نظریے کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ توقیت کا فائدہ اسقط ہوجائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے بلکہ توقیت کے بہت سے فائدے ہیں۔- ایک یہ کہ اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ افعال حج ان مہینوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص اشہر حج سے پہلے طواف وسعی کرے تو ہم اس کا کوئی اعتبار نہیں کریں گے بلکہ اشہر حج میں ان کے اعادے کا حکم دیں گا ۔ دوسرا یہ کہ تمتع کے حکم کا تعلق اس وقت ہوتا ہے جب اشہر حج میں حج کے افعال کے ساتھ عمرے کا فعل سر انجام دیا جائے اس لئے اگر کسی نے اشہر حج سے پہلے عمرے کا طواف کرلیا اور پھر اسی سال حج بھی کرلیا تو یہ شخص متمتع نہیں کہلائے گا۔- اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے قران کا احرام باندھ لیا اور پھر اشہر حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں داخل ہو کر عمرے کا طواف وسعی کرنے کے بعد اپنا قرآن جاری رکھا تو وہ متمتع نہیں کہلائے گا اور نہ ہی اس پر دم قران واجب ہوگا۔- آیت سے ہی یہ بات معلوم ہوئی کہ ان مہینوں میں اگر کوئی شخص عمرہ اور حج کو اکٹھا کرے گا تو اسے متمتع کہا جائے گا۔ یعنی تمتع کے حکم کا تعلق ان مہینوں کے ساتھ ہے اس بات کے باوجود اگر قول باری (الحج اشھر معلومات) حج کی تحدید صرف انہی مہینوں میں کردیتا اور دوسرے مہینوں میں اس کا جواز نہ رہتا تو پھر بھی ہم اس تحدید کو حج کے افعال کی طرف موڑ دیتے۔ حج کے احرام کی طرف نہ موڑتے تاکہ قول باری (یسلونک عن الا ھلۃ قلھی مواقیت للناس والحج) کا عموم جس کا تعلق تمام اہلہ میں جواز احرام کے ساتھ ہے، اپنی جگہ باقی رہ جائے۔- اور اگر ہم اس تحدید کو احرام پر محمول کرتے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ قول بار ی (قل ھی مواقیت للناس والحج) کا فائدہ ساقط ہوجاتا اور اسے (الحج اشھر معلومات) کے معنی میں محدود کرنا پڑتا اور اس طرح اس آیت پر ہمارا عمل نہ ہوسکتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ اس نے اہلہ کو حج کا وقت قرار دیا ہے اور جب ہم حج کو اشہر حج میں حدود کردیتے تو اہلہ کے ساتھ حج کے حکم کا کوئی تعق نہ ہوتا بلکہ اس کا تعلق دوسرے اوقات مثلاً وقوف کے لئے، یوم عرفہ اور طواف و رمی کے لئے یوم النحر کے ساتھ ہوتا۔- نیز یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (قل ھی مواقیت للناس الحج) سے احرام اور افعال حج مراد لیا ہے۔ سا لئے کہ افعال مراد لینے کے ساتھ احرام منتقی ہوجائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک لفظ کے تحت یہ دونوں باتیں مراد لینا ممتنع ہے۔ کیونکہ ان میں سے ایک بات یعنی مناسک کے افعال تو مقصود بالذات ہے جبکہ دوسری بات یعنی احرام وہ حج کے لئے سبب ہے اور بطریق مجاز سبب کو مسبب کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس لئے یہ درست نہیں ہے کہ ایک لفظ کے تحت یہ دونوں باتیں مراد لی جائیں۔- آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص احرام باندھنے کے بعد ابھی وقوف عرفہ کرے گا تو اس پر حاجی کے لفظ کا اطلاق درست ہوجائے گا۔ اس استدلال کا ایک پہلو اور بھی ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ (الحج اشھر معلومات) اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ (الحج عوفۃ ، حج وقوف عرفہ کا نام ہے) تو ضروری ہوگیا کہ حدیث میں مذکورہ لفظ حج قول باری میں مذکورہ لفظ حج کی تعریف اور وضاحت ہو اور اس طرح اس پر داخل شدہ الف لامم تعریف معہود کے لئے ہوجائے۔- اس لئے آیت کے ساتھ حدیث کو ملا کر آیت کے الفاظ کی ترتیب اس طرح ہوگی ” الحج الذی ھوالوقوف بعرفۃ فی اشھر معلموات “ (حج جو وقوف عرفہ ہے وہ معلوم مہینوں میں ہتا ہے) اس صورت میں مہینوں کے ذکر کا جو فائدہ ہے اس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔- نیز اگر (الحج اشھر معلومات) میں احرام کا وقت مراد لینا درست ہوجائے تو اس صورت میں اشھر پر اس کا اطلاق استحباب کے طور پر ہوگا یعنی اشہر حج میں احرام حج باندھنا مستحب ہے اور قو باری (مواقیت للناس والحج) کا اطلاق جواز احرام پر ہوگا۔- یعنی تمام اہلہ میں حج کا احرم باندھنا جائز ہے۔ تاکہ ان دونوں لفظوں (یعنی لفظ الحج جو دو جگہ مذکور ہوا ہے) میں سے ہر لفظ کو فائدہ اور حکم میں سے اپنا اپنا حصہ مل جائے (یعنی ہر لفظ کا فائدہ اور حکم دوسرے لفظ کے فائدے اور حکم سے جدا ہو۔- اگر یہ کہا جائے کہ لفظ حج سے جب احرام مراد لیا جائے تو اسے حج کے وقت پر مقدم کرنا جائز نہیں ہوگا اور اس کی حیثیت اس قول باری (اقم الصلوۃ لدلوک الشمس) یا (اقم الصلوۃ طوفی النھار) اور اسی طرح کی ان دوسری آیتوں کی طرح ہوگی جن میں عبادات کو موقف کردیا گیا ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ قول باری (الحج اشھر معلومات) کی وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ الفاظ امر اور حکم کے لئے نہیں ہیں اور اس میں ایک لفظ ” یعنی فی “ پوشیدہ ہے۔ کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد ” جواز الحج “ (یعنی حج کا جواز معلوم مہینوں میں ہے) یا ” فضیلۃ الحج “ ہو (یعنی حج کی فضیلت معلوم مہینوں میں ہے۔ ) - اس لئے ظاہر لفظ میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کہ اس میں مذکورہ توقیت سے مراد فلاں چیز کی توقیت ہے۔ اس لئے اشہر حج میں بطور ایجاب احرام کی توقیت پر اس سے استدلال درست نہیں ہوگا۔- رہ گیا نماز کا معاملہ جسے معترض نے اپنے استدلال میں مثال کے طور پر پیش کیا تھا، تو اس کے اوقات کے متعلق اللہ تعالیٰ کا منصوص حکم ایسے الفاظ میں بیان ہوا ہے جو ایجاب کے مقتضی ہیں اور اس ایجاب کے سوا اور کوئی معنی مراد لیا ہی نہیں جاسکتا۔ مثلاً (اقم الصلوۃ لدلوک الشمس) وغیرہ دوسری آیات جن میں توقیت کے اوامر ہیں۔- تحریمئہ نماز اور احرام حج میں فرق کی ایک اور وجہ بھی ہے چلو ہم مخالفین کی یہ بات تسلیم کرلیتے ہیں کہ اشہر حج ہی احرام کے لئے وقت ہیں لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ نماز کی تحریمہ کی صورت حال بھی یہی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریمئہ صلوۃ کو اس کے وقت پر مقدم کرنا اس لئے جائز نہیں ہے کہ نماز کے تمام فروض و ارکان اس تحریمہ کے ساتھ متصل ہوتے ہیں اور انہیں تحریمہ باندھ لینے کے بعد ٹھہر کردیا وقفہ دے کر ادا کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس لئے نماز کی تحریمہ کا جو حکم ہوتا ہے اس کے تمام افعال کا وہی حکم ہوتا ہے۔- اس کے برعکس حج کے احرام کی صور ت میں سب کا اتفاق ہے کہ حج کا احرام ایسے وقت میں باندھنا جائز ہے جس کے بعد ٹھہر کر اور وقفہ ڈال کر اس کے سارے افعال ادا کئے جائیں اور احرام کے فوراً بعد حج کا کوئی بھی رکن ادا کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس لئے تحریمئہ صلوۃ اور حج میں فرق ہوگیا۔- اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اگر کسی شخص کی حالت ایسی ہو کہ اس میں احرام باندھنے سے روک دیا گیا ہو لیکن اس حالت میں بھی اگر وہ احرام باندھ لے تو لزوم احرام کی صحت سے اس کی یہ حالت مانع نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اگر اس کی حالت ایسی ہو جس میں نماز سے اسے روک دیا گیا ہو۔ اگر اس حالت میں نماز شروع کرلے گا تو اس کا دخول ف یالصلوۃ ہی درست نہیں ہوگا۔- اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بےوضو نماز شروع کرے یا اس کا رخ عمداً قبلے کی طرف نہ ہو یا کپڑا ہوتے ہوئے برہنہ نماز پڑھنا شروع کر دے تو ان تمام صورتوں میں نماز میں اس کا داخل ہونا درست نہیں ہوگا۔- اس کے بالمقابل اگر ایک شخص ایسی حالت میں حج کا احرام باندھ لے کر اپنی بیوی کے ساتھ ہم آغوشی ہو رہی ہو یا سلے ہوئے کپڑے پہنے ہو تو اس کا احرام وقوع پذیر ہوجائے گا اور احرام کا حکم بھی اس پر لازم ہوجائے گا اگرچہ اس کے ساتھ ایسی صورت بھی پائی جا رہی ہو جو اس کے احرام کو فاسد بھی کرسکتی ہے۔ اس لئے حج کے احرام کے احکام کو نماز کے احکام پر قیاس کرنا دسرت نہیں ہے۔- ایک اور پہلو سے غور کیجیے۔ نماز کے بعض فروض اگر چھوٹ جائیں تو نماز فاسد ہوجاتی ہے مثلاً وضو ٹوٹ جانا، بات کرلینا یا چلنا پھرنا یا اسی طرح کے اور افعال جبکہ احرا م کے بعض فروض کے ترک سے احرام فاسد نہیں ہوتا، اس لئے کہ اگر اس نے خوشبو لگائی یا سلے ہوئے کپڑے پہن لئے یا شکار کرلیا تو ان باتوں سے اس کا احرام فاسد نہیں ہوگا باوجودیکہ احرام کی حالت میں ان امور کا ترک اس پر فرض ہے۔ - ایک اور پہلو بھی ہے۔ ہمیں حج کا ایک فرض ایسا بھی ملتا ہے جو اشہر حج کے گذر جانے کے بعد ادا کی اجاتا ہے اور اس کی یہ ادائیگی اس کے وقت کے اندر ہوتی ہے وہ ہے طواف زیارت لیکن ہمیں نماز کا کوئی ایسا فرض نہیں ملتا جو نماز کا وقت نکل جانے کے بعد ادا کیا جاتا ہو۔ اگر ادا کیا بھی جائے تو وہ اس کی ادا نہیں ہوگی بلکہ قضاء ہوگی۔ اس لئے نماز کو احرام کے لئے بنیاد بنانا درست نہیں۔- البتہ اس بات کو اصل مسئلے کے لئے دلیل بنانا ممکن ہے یوں کہا جائے کہ جب حج کا ایک فرض اشہر حج کے بعد ادا کیا جاتا ہے اور یہ اپنے وقت پر ادا ہوتا ہے۔ اسی طرح حج کا احرام اشہر حج سے پہلے باندھنا ہے اور یہ اس کا وقت ہوگا۔ اس لئے کہ اگر اشہر حج پر اس کی تقدیم جائز نہ ہوتی تو اس صورت میں نماز کی طرح اس کے کسی فرض کی اشہر حج سے تاخیر بھی جائز نہ ہوتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص سے حج فوت ہوجائے تو اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ اسی احرام کے ساتھ اگلے سال حج کرے بلکہ اس کے لئے ضروری ہوگیا کہ وہ عمرہ کر کے اپنے حج کا احرام کھول دے۔ یہ صورت حال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غیر اشہر حج میں حج کا احرام عمرہ تو واجب کردیتا ہے لیکن اس کے ذریعے حج ادا نہیں کیا جاسکتا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اشہر حج کے بعد بھی اس کے احرام کا مکمل صورت میں باقی رہنا جائز ہے۔ یوم النحر میں رمی جمار سے قبل ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کسی نے یوم النحر میں رمی جمار سے قبل بیوی سے ہمبستری کرلی تو اس کا حج فاسد ہوجائے گا۔ ہم نے سابقہ صفحات میں اسی بنیاد پر اشہر حج سے قبل احرام باندھ لینے کے جواز کے متعلق وجہ استدلال بیان کردی ہے کیونکہ امام شافعی کے نزدیک یوم النحر اشہر حج میں داخل نہیں ہے جبکہ اس دن احرام کا بتمام و کما باقی رہنا جائز ہے۔- یہ بات دو معنوں پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ معترض نے ہم پر جو اعتراض اٹھایا تھا وہ ختم ہوگیا۔ اس لئے کہ اشہر حج سے قبل حج کے درست احرام کے وجود کا جواز ثابت ہوگیا ہے۔- دوم یہ کہ اس پر بھی دلالت ہوگئی ہے کہ اشہر حج سے قبل حج کے احرام کی ابتداء بھی جائز ہے۔ اس لئے کہ اشہر حج سے قبل اس کی بقا کا جواز بھی ثابت ہوچکا ہے جیسا کہ ہم پچھلی سطور میں بیان کر آئے ہیں۔- رہا امام شافعی کا یہ قول کہ اشہر حج سے قبل حج کا احرام باندھنے والا عمرہ کا احرام باندھنے والا قرارپائے گا تو یہ قول ایسا ہے جس کا کھوکھلا پن اور جس کی کمزوری بالکل واضح ہے۔ اس لئے کہ جس شخص نے اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھا ہے۔ اس کی دو میں سے ایک صورت ہوگی یا تو یہ احرام اس پر لازم ہوجائے گا یا لازم نہیں ہوگا۔- اگر اس پر لازم نہیں ہوگا تو اس شخص کی وہی حیثیت ہوجائے گی جو ایک غیر محرم کی ہے یا اس شخص کی ہے جو ظہر کے وقت سے پہلے ظہر کی نماز کے لئے تحریمہ باندھ لے۔ اس لئے اس پر کوئی چیز لازم نہیں آئے گی اور وہ نہ عمرہ میں اور نہ ہی غیر عمرہ میں داخل سمجھا جائے گا۔- اگر اس پر احرام لازم ہو تو اس سے اشہر حج سے قبل احرام باندھنے کا جواز ثابت ہوجائے گا۔ اور جب اس کا احرام صحیح ہوگا اور سا احرام کا جاری رکھنا اس کے لئے ممکن بھی ہوگا تو ایسی صورت میں اس کے لئے عمرہ کے ذریعے احرام کھول دینا جائز نہیں ہوگا۔- (آیت 197 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٨) حرم میں تجارت کرکے کچھ نفع وغیرہ کمانے میں کوئی حرج نہیں، یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو حدود حرم میں خرید وفروخت اور کاروبار کو ناجائز سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد جب تم لوگ میدان عرفات سے مشعر حرام پر آؤ تو دل و زبان سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بتایا ہے اللہ تعالیٰ کا خوب اچھی طرح ذکر کرو، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے نزول قرآن اور اسلام سے پہلے تم لوگ کافر ہی تھے۔- شان نزول : (آیت) ” لیس علیکم جناح “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ عکاظ اور ذوالمجاز یہ زمانہ جاہلیت میں بازار تھے۔ لوگ حج کے زمانہ میں ان بازاروں میں کاروبار کیا کرتے تھے، صحابہ کرام (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق پوچھا، اس پر یہ آیت اتری کہ ایام حج میں کاروبار اور تجارت یعنی خرید وفروخت کرنے میں کوئی گناہ نہیں اور امام احمد (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) ابن جریر (رح) اور امام حاکم (رح) نے ابو امامہ تمیمی (رض) سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے عرض کیا کہ ہم حج کے دنوں میں خرید وفروخت کرتے ہیں تو اس سے حج میں کوئی حرج تو نہیں آتا حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ایک شخص نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کا سوال کیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ جبرائیل امین (علیہ السلام) یہ آیت مبارکہ لیس علیکم جناح “۔ (الخ) لے کر نازل ہوئے اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلایا اور فرمایا کہ تم لوگ حاجی ہو۔- فرمان خداوندی (آیت) ” ثم افیضوا “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ عرب عرفات میں وقوف کیا کرتے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٨ (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ط) - آدمی ہندوستان سے یا پاکستان سے حج کے لیے جا رہا ہے اور وہ اپنے ساتھ کچھ ایسی اجناس لے جائے جنہیں وہاں پر بیچ کر کچھ نفع حاصل کرلے تو یہ تقویٰ کے منافی نہیں ہے۔ - (فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِص) ۔ - وقوف عرفات حج کا رکن اعظم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ ) (٢٤) یعنی اصل حج تو عرفہ ہی ہے۔ اگر کسی سے حج کے باقی تمام مناسک رہ جائیں ‘ صرف قیام عرفہ میں شمولیت ہوجائے تو اس کا حج ہوگیا ‘ باقی جو چیزیں رہ گئی ہیں ان کا کفارہ ادا کیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص عرفات کے قیام میں ہی شریک نہیں ہوا تو پھر اس کا حج نہیں ہوا۔ ایّامِ حج کا ٹائم ٹیبل نوٹ کیجیے کہ ٨ ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے نکل کر رات منیٰ میں گزارنا ہوتی ہے۔ اگلا دن ٩ ذوالحجہ یوم عرفہ ہے۔ اس روز صبح کو عرفات کے لیے قافلے چلتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوپہر سے پہلے وہاں پہنچ جایا جائے۔ وہاں پر ظہر کے وقت ظہر اور عصر دونوں نمازیں ملا کر پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سے غروب آفتاب تک عرفات کا قیام ہے ‘ جس میں کوئی نماز نہیں۔ یعنی روایتی عبادت کے سب دروازے بند ہیں۔ اب تو صرف دعا ہے۔ اگر آپ کے اندر دعا کی ایک روح پیدا ہوچکی ہے ‘ آپ اپنے رب سے ہم کلام ہوسکتے ہیں اور آپ کو حلاوت مناجات حاصل ہوگئی ہے تو بس دعا مانگتے رہیے۔ قیام عرفہ کے دوران کھڑے ہو کر یا بیٹھے ہوئے ‘ جس طرح بھی ہو اللہ سے مناجات کی جائے۔ یا اس میں اگر کسی وجہ سے کمی ہوجائے تو آدمی تلاوت کرے۔ لیکن عام نماز اب کوئی نہیں۔ ٩ ذوالحجہ کو وقوف عرفات کے بعد مغرب کی نماز کا وقت ہو چکنے کے بعد عرفات سے روانگی ہے ‘ لیکن وہاں مغرب کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ اب مزدلفہ میں جا کر مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے ادا کرنی ہیں اور رات وہیں کھلے آسمان تلے بسر کرنی ہے۔ یہ مزدلفہ کا قیام ہے۔ مشعر حرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ میں واقع ہے۔- (وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰٹکُمْ ج) ۔ - یعنی اللہ کا ذکر کرو جس طرح اللہ نے تمہیں اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سکھایا ہے۔ ذکر کے جو طور طریقے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھائے ہیں انہیں اختیار کرو اور زمانۂ جاہلیت کے طریقے ترک کر دو ۔ - (وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ ) ۔ - تم حج کی حقیقت سے ناواقف تھے۔ حج کی بس شکل باقی رہ گئی تھی ‘ اس کی روح ختم ہوگئی تھی ‘ اس کے مناسک میں بھی ردّوبدل کردیا گیا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :218 یہ بھی قدیم عربوں کا ایک جاہلانہ تصور تھا کہ سفر حج کے دوران میں کسب معاش کے لیے کام کرنے کو وہ برا سمجھتے تھے ، کیونکہ ان کے نزدیک کسب معاش ایک دنیا دارانہ فعل تھا اور حج جیسے ایک مذہبی کام کے دوران میں اس کا ارتکاب مذموم تھا ۔ قرآن اس خیال کی تردید کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ ایک خدا پرست آدمی جب خدا کے قانون کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے ، تو دراصل اپنے رب کا فضل تلاش کرتا ہے اور کوئی گناہ نہیں ، اگر وہ اپنے رب کی رضا کے لیے سفر کرتے ہوئے اس کا فضل بھی تلاش کرتا جائے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :219 یعنی جاہلیت کے زمانے میں خدا کی عبادت کے ساتھ جن دوسرے مشرکانہ اور جاہلانہ افعال کی آمیزش ہوتی تھی ان سب کو چھوڑ دو اور اب جو ہدایت اللہ نے تمہیں بخشی ہے ، اس کے مطابق خالصتًہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

131: بعض حضرات حج کے سفر میں کوئی تجارت کرنے کو ناجائز سمجھتے تھے، یہ آیت ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس نے بتادیا کے سفر حج میں روزی کمانے کا کوئی مشغلہ اختیار کرناجائز ہے بشرطیکہ اس سے حج کے ضروری کام متاثر نہ ہوں۔ 132: وَاذْكُرُوْهُ کَمَا هَدَاكُمْ : حج کے دوران عرفات سے آکر مزدلفہ میں رات گزاری جاتی ہے اور اگلی صبح طلوع آفتاب سے پہلے پہلے وقوف کیا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور دعائیں مانگی جاتی ہیں، جاہلیت میں بھی اہل عرب اللہ کا ذکر تو کرتے تھے، مگر اس کے ساتھ اپنے دیوتاؤں کا ذکر بھی شامل کرلیتے تھے، بتایاجارہا ہے کہ مومن کا ذکر خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہونا چاہئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے۔