احرام کے مسائل عربی دان حضرات نے کہا ہے کہ مطلب اگلے جملہ کا یہ ہے کہ حج حج ہے ان مہینوں کا جو معلوم اور مقرر ہیں ، پس حج کے مہینوں میں احرام باندھنا دوسرے مہینوں کے احرام سے زیادہ کامل ہے ، گو اور ماہ کا احرام بھی صحیح ہے ، امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد ، امام اسحق ، امام ابراہیم نخعی ، امام ثوری ، امام لیث ، اللہ تعالیٰ ان پر سب رحمتیں نازل فرمائے فرماتے ہیں کہ سال بھر میں جس مہینہ میں چاہے حج کا احرام باندھ سکتا ہے ان بزرگوں کی دلیل آیت ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ) 2 ۔ البقرۃ:189 ) ہے ، دوسری دلیل یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کو نسک کہا گیا ہے اور عمرے کا احرام حج کے مہینوں میں ہی باندھنا صحیح ہوگا بلکہ اگر اور ماہ میں حج کا احرام باندھا تو غیر صحیح ہے لیکن اس سے عمرہ بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں امام صاحب کے دو قول ہیں حضرت ابن عباس حضرت جابر ، حضرت عطا مجاہد رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا باندھنا غیر صحیح ہے اور اس پر دلیل آیت ( اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ) 2 ۔ البقرۃ:197 ) ہے عربی دان حضرات کی ایک دوسری جماعت کہتی ہے کہ آیت کے ان الفاظ سے مطلب یہ ہے کہ حج کا وقت خاص خاص مقرر کردہ مہینے میں تو ثابت ہوا کہ ان مہینوں سے پہلے حج کا جو احرام باندھے گا وہ صحیح نہ ہوگا جس طرح نماز کے وقت سے پہلے کوئی نماز پڑھ لے ، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں مسلم بن خالد نے خبر دی انہوں نے ابن جریج سے سنا اور انہیں عمرو بن عطاء نے کہا ان سے عکرمہ نے ذکر کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ کسی شخص کو لائق نہیں کہ حج کے مہینوں کے سوا بھی حج کا احرام باندھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ) 2 ۔ البقرۃ:197 ) اس روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں ایک سند میں ہے کہ سنت یہی ہے ، صحیح ابن خزیمہ میں بھی یہ روایت منقول ہے ، اصول کی کتابوں میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ صحابی کا فرمان حکم میں مرفوع حدیث کے مساوی ہوتا ہے پس یہ حکم رسول ہوگیا اور صحابی بھی یہاں وہ صحابی ہیں جو مفسر قرآن اور ترجمان القرآن ہیں ، علاوہ ازیں ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ حج کا احرام باندھنا کسی کو سوا حج کے مہینوں کے لائق نہیں ، اس کی اسناد بھی اچھی ہیں ، لیکن شافعی اور بیہقی نے روایت کی ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا جائے تو آپ نے فرمایا نہیں ، یہ موقوف حدیث ہی زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے اور صحابی کے اس فتویٰ کی تقویت حضرت عبداللہ بن عباس کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ سنت یوں ہے واللہ اعلم ۔ اشہر معلومات سے مراد حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں شوال ذوالقعدہ اور دس دن ذوالحجہ کے ہیں ( بخاری ) یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے ، مستدرک حکم میں بھی ہے اور امام حاکم اسے صحیح بتلاتے ہیں ، حضرت عمر ، حضرت عطا ، حضرت مجاہد ، حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت شعبی ، حضرت حسن ، حضرت ابن سیرین ، حضرت مکحول ، حضرت قتادہ ، حضرت ضحاک بن مزاحم ، حضرت ربیع بن انس ، حضرت مقاتل بن حیان رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ، حضرت امام شافعی ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، ابو یوسف اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اشہر کا لفظ جمع ہے تو اس کا اطلاق دو پورے مہینوں اور تیسرے کے بعض حصے پر بھی ہوسکتا ہے ، جیسے عربی میں کہا جاتا ہے کہ میں نے اس سال یا آج کے دن اسے دیکھا ہے پس حقیقت میں سارا سال اور پورا دن تو دیکھتا نہیں رہتا بلکہ دیکھنے کا وقت تھوڑا ہی ہوتا ہے مگر اغلباً ( تقریبا ) ایسابول دیا کرتے ہیں اسی طرح یہاں بھی اغلبا تیسرے مہینہ کا ذکر ہے قرآن میں بھی ہے آیت ( فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ) 2 ۔ البقرۃ:203 ) حالانکہ وہ جلدی ڈیڑھ دن کی ہوتی ہے مگر گنتی میں دو دن کہے گئے ، امام مالک ، امام شافعی کا ایک پہلا قول یہ بھی ہے کہ شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہے ، ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے ، ابن شہاب ، عطاء ، جابر بن عبداللہ سے بھی یہی مروی ہے طاؤس ، مجاہد ، عروہ ربیع اور قتادہ سے بھی یہی مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے لیکن وہ موضوع ہے ، کیونکہ اس کا راوی حسین بن مخارق ہے جس پر احادیث کو وضع کرنے کی تہمت ہے ، بلکہ اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں واللہ اعلم ۔ امام مالک کے اس قول کو مان لینے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے مہینے میں عمرہ کرنا صحیح نہ ہوگا یہ مطلب نہیں کہ دس ذی الحجہ کے بعد بھی حج ہو سکتا ہے ، چنانچہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ درست نہیں ، امام ابن جریر بھی ان اقوال کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں کہ حج کا زمانہ تو منیٰ کے دن گزرتے ہی جاتا رہا ، محمد بن سیرین کا بیان ہے کہ میرے علم میں تو کوئی اہل علم ایسا نہیں جو حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنے کو ان مہینوں کے اندر عمرہ کرنے سے افضل ماننے شک کرتا ہو ، قاسم بن محمد سے ابن عون نے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے مسئلہ کو پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ اسے لوگ پورا عمرہ نہیں مانتے ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنا پسند فرماتے تھے بلکہ ان مہینوں میں عمرہ کرنے کو منع کرتے تھے واللہ اعلم ( اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے ) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالقعدہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ ادا فرماتے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ٹھہرا واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص ان مہینوں میں حج مقرر کرے یعن حج کا احرام باندھ لے اس سے ثابت ہوا کہ حج کا احرام باندھنا اور اسے پورا کرنا لازم ہے ، فرض سے مراد یہاں واجب و لازم کر لینا ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں حج اور عمرے کا احرام باندھنے والے سے مراد ہے ۔ عطاء فرماتے ہیں فرض سے مراد احرام ہے ، ابراہیم اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں احرام باندھ لینے اور لبیک پکار لینے کے بعد کہیں ٹھہرا رہنا ٹھیک نہیں اور بزرگوں کا بھی یہی قول ہے ، بعض بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرض سے مراد لبیک پکارنا ہے ۔ ( رفث ) سے مراد جماع ہے جیسے اور جگہ قرآن میں ہے آیت ( اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:187 ) یعنی روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے ، احرام کی حالت میں جماع اور اس کے تمام مقدمات بھی حرام ہیں جیسے مباشرت کرنا ، بوسہ لینا ، ان باتوں کا عورتوں کی موجودگی میں ذکر کرنا ۔ گویا بعض نے مردوں کی محفلوں میں بھی ایسی باتیں کرنے کو دریافت کرنے پر فرمایا کہ عورتوں کے سامنے اس قسم کی باتیں کرنا رفث ہے ۔ رفث کا ادنی درجہ یہ ہے کہ جماع وغیرہ کا ذکر کیا جائے ، فحش باتیں کرنا ، دبی زبان سے ایسے ذکر کرنا ، اشاروں کنایوں میں جماع کا ذکر ، اپنی بیوی سے کہنا کہ احرام کھل جائے تو جماع کریں گے ، چھیڑ چھاڑ کرنا ، مساس کرنا وغیرہ یہ سب رفث میں داخل ہے اور احرام کی حالت میں یہ سب باتیں حرام ہیں مختلف مفسروں کے مختلف اقوال کا مجموعہ یہ ہے ۔ فسوق کے معنی عصیان ونافرمانی شکار گالی گلوچ وغیرہ بد زبانی ہے جیسے حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے ، اللہ کے سوا دوسرے کے تقرب کے لئے جانوروں کو ذبح کرنا بھی فسق ہے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت ( اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ) 6 ۔ الانعام:145 ) بد القاب سے یاد کرنا بھی فسق ہے قرآن فرماتا ہے آیت ( ولا تنابزو بالا لقاب ) مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہرنافرمانی فسق میں داخل ہے گو یہ فسق ہر وقت حرام ہے لیکن حرمت والے مہینوں میں اس کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ) 9 ۔ التوبہ:136 ) ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اس طرح حرم میں بھی یہ حرمت بڑھ جاتی ہے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۢ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ ) 22 ۔ الحج:25 ) یعنی حرم میں جو الحاد اور بےدینی کا ارادہ کرے اور اسے ہم المناک عذاب دیں گے ، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہاں مراد فسق سے وہ کام ہیں جو احرام کی حالت میں منع ہیں جیسے شکار کھیلنا بال منڈوانا یا کتروانا یا ناخن لینا وغیرہ ، حضرت ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے لیکن بہترین تفسیر وہی ہے جو ہم نے بیان کی یعنی ہر گناہ سے روکا گیا ہے واللہ اعلم ۔ بخاری ومسلم میں ہے جو شخص بیت اللہ کا حج کرے نہ رفث کرے نہ فسق تو وہ گناہوں سے ایسا نکل جاتا ہے جیسے اپنے پیدا ہونے کا دن تھا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حج میں جھگڑا نہیں یعنی حج کے وقت اور حج کے ارکان وغیرہ میں جھگڑا نہ کرو اور اس کا پورا بیان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے ، حج کے مہینے مقرر ہو چکے ہیں ان میں کمی زیادتی نہ کرو ، موسم حج کو آگے پیچھے نہ کرو جیسا کہ مشرکین کا وطیرہ تھا جس کی مذمت قرآن کریم میں اور جگہ فرمادی گئی ہے اسی طرح قریش شعر حرام کے پاس مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور باقی عرب عرفات میں ٹھہرتے تھے پھر آپس میں جھگڑتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ ہم صحیح راہ پر اور طریق ابراہیمی پر ہیں جس سے یہاں ممانعت کی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں وقت حج ارکان حج اور ٹہرنے وغیرہ کی جگہیں بیان کر دی ہیں اب نہ کوئی ایک دوسرے پر فخر کرے نہ حج کے دن آگے پیچھے کرے بس یہ جھگڑے اب میٹا دو ۔ واللہ اعلم ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ حج کے سفر میں آپس میں نہ جھگڑو نہ ایک دوسرے کو غصہ دلاؤ نہ کسی کو گالیاں دو ، بہت سے مفسرین کا یہ قول بھی ہے اور بہت سے مفسرین کا پہلا قول بھی ہے ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ کسی کا اپنے غلام کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا یہ اس میں داخل نہیں ہاں مارے نہیں ، لیکن میں کہتا ہوں کہ غلام کو اگر مار بھی لے تو کوئی ڈر خوف نہیں ، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر حج میں تھے ور عرج میں ٹھہرے ہوئے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں حضرت ابو بکر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹوں کا سامان حضرت ابو بکر کے خادم کے پاس تھا حضرت صدیق اس کا انتظار کر رہے تھے تھوڑی دیر میں وہ آگیا اس سے پوچھا کہ اونٹ کہاں ہے؟ اس نے کہا حضرت کل رات کو گم ہو گیا آپ ناراض ہوئے اور فرمانے لگے ایک اونٹ کو بھی تو سنبھال نہ سکا یہ کہہ کر آپ نے اسے مارا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا رہے تھے اور فرماتے جا رہے تھے دیکھو احرام کی حالت میں کیا کر رہے ہیں؟ یہ حدیث ابو داود اور ابن ماجہ میں بھی ہے ، بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے کہ حج کے تمام ہونے میں یہ بھی ہے لیکن یہ خیال رہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس کام پر یہ فرمانا اس میں نہایت لطافت کے ساتھ ایک قسم کا انکار ہے پس مسئلہ یہ ہوا کہ اسے چھوڑ دینا ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم ۔ مسند عبد بن حمید میں ہے کہ جو شخص اپنا حج پورا کرے اور مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے ایذاء نہ پائیں اس کے تمام اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر فرمایا تم جو بھلائی کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ، چونکہ اوپر ہر برائی سے روکا تھا کہ نہ کوئی برا کام کرو نہ بری بات کہو تو یہاں نیکی کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ ہر نیکی کا پورا بدلہ قیامت کے دن پاؤ گے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ توشہ اور سفر خرچ لے لیا کرو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لوگ بلا خرچ سفر کو نکل کھڑے ہوتے تھے پھر لوگوں سے مانگتے پھرتے جس پر یہ حکم ہوا ، حضرت عکرمہ ، حضرت عینیہ بھی یہی فرماتے ہیں ، بخاری نسائی وغیرہ میں یہ روایتیں مروی ہیں ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عینی لوگ ایسا کرتے تھے اور اپنے تئیں متوکل کہتے تھے ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ جب احرام باندھتے تو جو کچھ توشہ بھنا ہوتا سب پھینک دیتے اور نئے سرے سے نیا سامان کرتے اس پر یہ حکم ہوا کہ ایسا نہ کرو آٹا ستو وغیرہ توشے ہیں ساتھ لے لو دیگر بہت سے معتبر مفسرین نے بھی اسی طرح کہا ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسان کی عزت اسی میں ہے کہ وہ عمدہ سامان سفر ساتھ رکھے ، آپ اپنے ساتھیوں سے دل کھول کر خرچ کرنے کی شرط کر لیا کرتے تھے چونکہ دنیوی توشہ کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی فرمایا ہے کہ آخرت کے توشہ کی تیاری بھی کر لو یعنی اپنی قبر میں اپنے ساتھ خوف اللہ لے کر جاؤ جیسے اور جگہ لباس کا ذکر کر کے ارشاد فرمایا آیت ( ۭوَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ) 7 ۔ الاعراف:26 ) پرہیز گاری کا لباس بہتر ہے ، یعنی خشوع خضوع طاعت وتقویٰ کے باطنی لباس سے بھی خالی نہ رہو ، بلکہ یہ لباس اس ظاہری لباس سے کہیں زیادہ بہتر اور نفع دینے والا ہے ، ایک حدیث میں بھی ہے کہ دنیا میں اگر کچھ کھوؤ گے تو آخرت میں پاؤ گے یہاں کا توشہ وہاں فائدہ دے گا ( طبرانی ) اس حکم کو سن کر ایک مسکین صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں آپ نے فرمایا اتنا تو ہونا چاہئے جس سے کسی سے سوال نہ کرنا پڑے اور بہترین خزانہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ عقلمندو مجھ سے ڈرتے رہا کرو ، یعنی میرے عذابوں سے ، میری پکڑ دھکڑ سے ، میری گرفت سے ، میری سزاؤں سے ڈرو ، دب کر میرے احکام کی تعمیل کرو ، میرے ارشاد کے خلاف نہ کرو تاکہ نجات پاسکو یہ ہی عقلی امتیاز ہے ۔
197۔ 1 اور یہ ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذوا لحجہ کے پہلے دس دن۔ مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے اس لئے اسکا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) 197۔ 2 صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسقْ و فجور سے بچا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔ 197۔ 3 تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زاد راہ لینے کی تاکید کی۔
[٢٦٤] یعنی یکم شوال سے دس ذی الحجہ تک کی مدت کا نام اشہر حج ہے۔ حج کا احرام اسی مدت کے اندر اندر باندھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی اس سے پہلے باندھے تو وہ ناجائز یا مکروہ ہوگا البتہ عمرہ کا احرام باندھا جاسکتا ہے۔ احرام باندھنے کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا ہو کر پوچھنے لگا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم احرام کہاں سے باندھیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مدینہ والے ذوالحلیفہ سے باندھیں، شام والے جحفہ سے اور نجد والے قرن (منازل) سے اور یمن والے یلملم سے۔ (بخاری، کتاب العلم، باب ذکر العلم و الفتیا فی المسجد) - ٢۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : محرم کیا پہنے ؟ فرمایا : وہ نہ قمیض پہنے نہ عمامہ، نہ ٹوپی اور نہ وہ کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگا ہو اور اگر چپل نہ ملے تو موزے ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ کر پہن لے۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ من اجاب السائل باکثر مماساْْئلہ ) ْ- [٢٦٥] ہر وہ حرکت یا کلام جو شہوت کو اکساتا ہو رفث کہلاتا ہے اور اس میں جماع بھی شامل ہے، فسوق اور جدال اور ایسے ہی دوسرے معصیت کے کام اگرچہ بجائے خود ناجائز ہیں تاہم احرام کی حالت میں ان کا گناہ اور بھی سخت ہوجاتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اللہ کے لیے حج کیا پھر اس دوران نہ بےحیائی کی کوئی بات کی اور نہ گناہ کا کوئی کام کیا۔ وہ ایسے واپس ہوتا ہے جیسے اس دن تھا جب وہ پیدا ہوا۔ (بخاری، کتاب المناسک، باب فضل الحج المبرور) - [٢٦٦] حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یمن کے لوگ حج کے لیے آتے لیکن زاد راہ ساتھ نہ لاتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ پھر مکہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کردیتے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب المناسک، باب قول اللہ تعالیٰ آیت و تزودوا فان خیر الزاد التقوی) - نیز ضرورت کے وقت مانگنا اگرچہ ناجائز نہیں، مگر اسلام نے سوال کرنے کو اچھا نہیں سمجھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب لا صدقہ الا عن ظہر غنی) اور بلا ضرورت مانگنا اور پیشہ کے طور پر مانگنا تو بدترین جرم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص مانگنے کو عادت بنا لے گا وہ قیامت کو اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ رہے گا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب من سال الناس تکثرا) سوال سے اجتناب کے لیے دیکھیے اسی سورة کی آیت ٢٧٣ اور سورة مائدہ کی آیت نمبر ١٠١ کے حواشی)
(اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ) عمرہ سال میں کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے، مگر حج مقررہ وقت ہی میں کیا جاسکتا ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” حج کے مہینے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائے ہیں شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں۔ “ [ بخاری، الحج، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ذلک لمن لم یکن أہلہ ۔۔ ): ١٥٧٢ ] اور ابن عمر (رض) نے فرمایا : ” اس سے مراد شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ “ [ بخاری، قبل ح : ١٥٦٠۔ طبری : ٢؍٢٦٧، ح : ٣٥٢٢۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٠٣،- ح : ٣٠٩٢ و صححہ ووافقہ الذھبی ]- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں نہ باندھا جائے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” سنت یہ ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں ہی میں باندھا جائے۔ “ [ ابن خزیمۃ، باب النہی عن الإحرام ۔۔ : ٤؍١٦٢، ح : ٢٥٩٦ ] ابن کثیر نے اسے صحیح کہا ہے اور یہ مرفوع کے حکم میں ہے۔- (فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ ) حج کو اپنے آپ پر فرض کرنا یہ ہے کہ حج کی نیت کے ساتھ احرام باندھ لے اور زبان سے ” لَبَّیْکَ بالْحَجِّ “ اور ” لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ ۔۔ “ مکمل تلبیہ کہے۔ (ابن کثیر)- (فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۭ ) یعنی حج میں یہ سب باتیں حرام ہیں۔ ” رَفَثَ “ (شہوانی فعل) سے جماع اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو جماع کی طرف مائل کرنے والی ہوں۔ ” فُسُوْقَ ۙ“ (نافرمانی) کا لفظ ہر گناہ کو شامل ہے اور ” جِدَالَ “ سے لڑائی جھگڑا مراد ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس نے اس گھر کا حج کیا اور (دوران حج میں) رفث و فسوق نہیں کیا وہ اس دن کی طرح (گناہوں سے پاک) لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ “ [ بخاری، المحصر و جزاء الصید، باب قول اللہ عزوجل : ( فلا رفث ) : ١٨١٩ ]- ڼوَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّاد التَّقْوٰى ۡ ) تقویٰ کا لغوی معنی بچنا ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” اہل یمن حج کرتے تو زاد راہ نہیں لاتے تھے اور کہتے تھے، ہم توکل والے ہیں، پھر جب مکہ میں آتے تو لوگوں سے مانگتے، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ “ [ بخاری، الحج، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و تزودوا فإن ۔۔ ) : ١٥٢٣ ] ایسا توکل اللہ پر نہیں بلکہ درحقیقت لوگوں کی جیبوں پر ہے۔ (تلبیس ابلیس) فرمایا زاد راہ لو، اس کا فائدہ یہ ہے کہ سوال سے بچ جاؤ گے۔ ظاہری زاد کے ساتھ دلی زاد بھی ضروری ہے، جس کی بہترین صورت تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ہے، آیت سے دونوں معنی لیے جاسکتے ہیں اور دونوں مراد ہیں۔
احکام حج کی آٹھ آیتوں میں سے دوسری آیت اور اس کے مسائل :- اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ اشہر اَشْهُرٌ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں مہینہ۔ پچھلی آیت میں یہ بتلایا گیا تھا کہ جو کوئی حج یا عمرہ کا احرام باندھ لے تو اس پر لازم آتا ہے کہ اس کے احکام پورے ادا کرے ان دونوں میں عمرہ کے لئے تو کوئی تاریخ اور مہینہ مقرر نہیں سال بھر میں جب چاہئیں کرسکتے ہیں لیکن حج کے لئے مہینے اور اس کے افعال و اعمال کے لئے خاص تاریخیں اور اوقات مقرر ہیں اس لئے اس آیت کے شروع میں یہ بتلا دیا کہ حج کا معاملہ عمرہ کی طرح نہیں ہے اس کے لئے کچھ مہینے مقرر ہیں جو معروف و مشہور ہیں جاہلیت عرب سے لے کر زمانہ اسلام تک یہی مہینے حج کے مقرر رہے ہیں وہ مہینے شوال ذی قعدہ اور دس روز ذی الحجہ کے ہیں جیسا کہ حدیث میں بروایت ابوامامہ وابن عمر منقول ہے (مظہری) شوال سے حج کے مہینے شروع ہونے کا حاصل یہ ہے کہ اس سے پہلے حج کا احرام باندہنا جائز نہیں بعض ائمہ کے نزدیک تو قبل شوال کے احرام سے حج کی ادائیگی ہی نہیں ہوسکتی، - امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس احرام سے حج تو ادا ہوجائے گا مگر مکروہ ہوگا (مظہری) - فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ اس میں حج کا احرام باندہنے والے کے لئے کچھ منفی آداب و احکام کا بیان ہے جن سے حالت احرام میں پرہیز کرنا لازم و واجب ہے وہ تین چیزیں ہیں رفث، فسوق، جدال۔- رفث ایک لفظ جامع ہے جس میں عورت سے مباشرت اور اس کے مقدمات یہاں تک کہ زبان سے عورت کے ساتھ اس کی کھلی گفتگو بھی داخل ہے محرم کو حالت احرام میں یہ سب چیزیں حرام ہیں تعریض وکنایہ کا مضائقہ نہیں۔- فسوق کے لفظی معنی خروج کے ہیں اصطلاح قرآن میں عدول حکمی اور نافرمانی کو فسوق کہا جاتا ہے جو اپنے عام معنی کے اعتبار سے سب گناہوں کو شامل ہے اسی لئے بعض حضرات نے اس جگہ عام معنی ہی مراد لئے ہیں مگر حضرت عبداللہ بن عمر نے اس جگہ فسوق کی تفسیر مخطورات احرام سے فرمائی ہے یعنی وہ کام جو حالت احرام میں ممنوع و ناجائز ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اس مقام کے مناسب یہی تفسیر ہے کیونکہ عام گناہوں کی ممانعت احرام کے ساتھ خاص نہیں ہر حال میں حرام ہیں۔- وہ چیزیں جو اصل سے گناہ نہیں مگر احرام کی وجہ سے ناجائز ہوجاتی ہیں چھ چیزیں ہیں اول عورت کے ساتھ مباشرت اور اس کے تمام متعلقات یہاں تک کہ کھلی گفتگو بھی، دوسرے برّی جانوروں کا شکار، خود کرنا یا شکاری کو بتلانا، تیسرے بال یا ناخن کٹوانا، چوتھے خوشبو کا استعمال یہ چار چیزیں تو مرد و عورت دونوں کے لئے حالت احرام میں ناجائز ہیں باقی دو چیزیں مردوں کے ساتھ خاص ہیں یعنی سلے ہوئے کپڑے پہننا، اور سر اور چہرے کو ڈھانپنا، امام اعظم ابوحنیفہ ومالک کے نزدیک چہرہ کو ڈھانپنا حالت احرام میں عورت کے لئے بھی ناجائز ہے اس لئے یہ بھی مشترک محظورات احرام میں شامل ہے۔- ان چھ چیزوں میں پہلی یعنی عورت سے مباشرت وغیرہ اگرچہ فسوق میں داخل ہے لیکن اس کو فسوق سے پہلے الگ کرکے لفظ رفث سے اس لئے بتلا دیا کہ احرام میں اس سے اجتناب سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ دوسرے محظورات احرام کا تو کوئی بدل اور کفارہ بھی ہوجاتا ہے اور مباشرت کی بعض صورتیں ایسی بھی ہیں کہ اگر ان میں کوئی مبتلا ہوجائے تو حج ہی فاسد ہوجاتا ہے اس کا کوئی کفارہ بھی نہیں ہوسکتا مثلاً وقوف عرفات سے پہلے بیوی سے صحبت کرلی تو حج فاسد ہوگیا اور اس کا جرمانہ بھی گائے یا اونٹ کی قربانی سے دینا پڑے گا اور اگلے سال پھر حج کرنا پڑے گا اس مزید اہمیت کی بنا پر اس کو فَلَا رَفَثَ کے لفظ سے مستقلا بیان فرمادیا۔- جدال کے معنی ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کے ہیں اس لئے سخت قسم کے جھگڑے کو جدال کہا جاتا ہے یہ لفظ بھی بہت عام ہے اور بعض حضرات مفسرین نے عام ہی معنی مراد لئے ہیں اور بعض حضرات نے مقام حج و احرام کی مناسبت سے اس جگہ جدال کے معنی یہ لئے ہیں کہ جاہلیت عرب کے لوگ مقام وقوف میں اختلاف رکھتے تھے کچھ لوگ عرفات میں وقوف کرنا ضروری سمجھتے تھے جیسا کہ حقیقت ہے اور کچھ مزدلفہ میں وقوف ضروری کہتے تھے، عرفات میں جانے کو ضروری نہیں سمجھتے تھے اور اسی کو موقف ابراہیم (علیہ السلام) قرار دیتے تھے اسی طرح اوقات حج کے معاملہ میں بھی اختلاف تھا کچھ لوگ ذی الحجہ میں حج کرتے تھے اور کچھ ذی قعدہ ہی میں کرلیتے تھے اور پھر ان معاملات میں باہمی نزاعات اور جھگڑے ہوتے تھے ایک دوسرے کو گمراہ کہتا تھا۔- قرآن کریم نے ۙوَلَا جِدَال فرما کر ان جھگڑوں کا خاتمہ فرمایا اور جو بات حق تھی کہ وقوف فرض عرفات میں اور پھر وقوف واجب مزدلفہ میں کیا جائے اور حج صرف ذی الحجہ کے ایام میں کیا جائے اس کا اعلان کرکے اس کے خلاف جھگڑا کرنے کو ممنوع کردیا،- اس تفسیر وتقریر کے لحاظ سے اس آیت میں صرف مخطورات احرام کا بیان ہوا جو اگرچہ فی نفسہ جائز ہیں مگر احرام کی وجہ سے ممنوع کردی گئی ہیں جیسے نماز، روزہ کی حالت میں کھانا پینا، کلام کرنا وغیرہ جائز چیزوں کو منع کردیا گیا ہے۔- اور بعض حضرات نے اس جگہ فسوق وجدال کو عام معنی میں لے کر مقصد یہ قرار دیا کہ اگرچہ فسق و گناہ اسی طرح باہم جدال و خلاف ہر جگہ ہر حال میں مذموم و گناہ ہے لیکن حالت احرام میں اس کا گناہ اور زیادہ شدید ہوجاتا ہے مبارک ایام اور مقدس سرزمین میں جہاں صرف اللہ کے لئے عبادت کے واسطے آتے ہیں اور لبیک لبیک پکار رہے ہیں احرام کا لباس ان کو ہر وقت اس کی یاد دہانی کرا رہا ہے کہ تم اس وقت عبادت میں ہو ایسی حالت میں فسق و فجور اور نزاع وجدال انتہائی بیباکی اور اشد ترین گناہ ہوجاتا ہے۔- اس عام معنی کے اعتبار سے اس جگہ رفث، فسوق، جدال سے روکنے اور ان کی حرمت کو بیان کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مقام حج اور زمانہ حج کے حالات ایسے ہیں کہ ان میں انسان کو ان تینوں چیزوں میں ابتلاء کے مواقع بہت پیش آتے ہیں حالت احرام میں اکثر اپنے اہل و عیال سے ایک طویل مدت تک علیحدہ رہنا پڑتا ہے اور پھر مطاف ومسعیٰ ، عرفات، مزدلفہ منیٰ کے اجتماعات میں کتنی بھی احتیاط برتی جائے عورتوں مردوں کا اختلاط ہو ہی جاتا ہے ایسی حالت میں نفس پر قابو پانا آسان نہیں اس لئے سب سے پہلے رفث کی حرمت کا بیان فرمایا اسی طرح اس عظیم الشان اجتماع میں چوری وغیرہ دوسرے گناہوں کے مواقع بھی بیشمار پیش آتے ہیں اس لئے لَا فُسُوْقَ کی ہدایت فرما دی اسی طرح سفر حج میں اول سے آخر تک بیشمار مواقع اس کے بھی پیش آتے ہیں کہ رفقاء سفر اور دوسرے لوگوں سے جگہ کی تنگی اور دوسرے اسباب کی بناء پر جھگڑا لڑائی ہوجائے اس لئے لَا جِدَالَ کا حکم دیا گیا۔- بلاغت قرآن :- اس آیت فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ کے الفاظ نفی کے الفاظ ہیں کہ یہ سب چیزیں حج میں نہیں ہیں حالانکہ مقصود ان چیزوں سے نہی اور ممانعت کرنا ہے جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ لاترفثوا ولا تفسقوا ولا تجادلوا کہا جاتا مگر یہاں نہی کی جگہ نفی کے الفاظ رکھ کر اس طرف اشارہ فرمادیا کہ ان افعال کی حج میں کوئی گنجائش اور تصور ہی نہیں۔- وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْهُ اللّٰهُ محظورات وممنوعات احرام بیان فرمانے کے بعد آخر میں اس جملے میں یہ ہدایت دی گئی کہ حج کے مبارک ایام اور مقدس مقامات میں تو صرف یہی نہیں کہ محظورات اور گناہوں سے بچو بلکہ غنیمت جان کر عبادت و ذکر اللہ اور نیک کاموں میں لگے رہو تم جو بھی نیک کام کرو گے وہ اللہ کے علم میں ہے اور تمہیں اس پر بڑے انعامات ملیں گے،- وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّاد التَّقْوٰى اس میں ان لوگوں کی اصلاح ہے جو حج وعمرہ کے لئے بےسروسامانی کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں پھر راستہ میں بھیک مانگنا پڑتی ہے یا خود بھی تکلیف اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں ان کی ہدایت کے لئے حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے اسباب وسائل کو اپنے مقدور کے مطابق حاصل اور جمع کرے پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توکل کی یہی تفسیر منقول ہے بالکل ترک اسباب کا نام توکل رکھنا جہالت ہے۔
اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ٠ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيْہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ٠ ۙ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ٠ ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْہُ اللہُ ۭ ؔ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ٠ ۡوَاتَّقُوْنِ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ ١٩٧- حج - أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعر : يحجّون بيت الزّبرقان المعصفرا خصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔.- شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، - ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ - فرض - الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] ، أي : معلوما، فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38]- ( ف ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے ۔ اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔ - رفث - الرَّفَثُ : کلام متضمّن لما يستقبح ذكره من ذکر الجماع، ودواعيه، وجعل کناية عن الجماع - في قوله تعالی: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلى نِسائِكُم[ البقرة 187] ، تنبيها علی جواز دعائهنّ إلى ذلك، ومکالمتهنّ فيه، وعدّي بإلى لتضمّنه معنی الإفضاء - ( ر ف ث ) الرفث ( ن ) وہ فحش باتیں جن کا ذکر اچھا نہیں سمجھا جاتا یعنی جماع اور اس کے دواعی کا تذکرہ آیت کریمہ : أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلى نِسائِكُمْ [ البقرة 187] مسلمانوں ماہ رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے جائز کردیا گیا ہے ۔ میں کنایۃ جماع مراد ہے اور اس سے متنبہ کیا گیا ہے کہ ماہ رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں کو جماع کے لئے بلانا اور ان سے اس کے متعلق گفتگو کرنا جائز ہے اور اسے بواسطہ الی متعدی کرکے معنی افضاء کی طرف اشارہ کیا ہے - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- زَوُّدُ ( تفعل)- والتَّزَوُّدُ : أخذ الزّاد، قال : وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوى[ البقرة 197]- اور التزود ( تفعل ) کے معنی توشہ لینا ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوى[ البقرة 197] اور زاد راہ ساتھ لے جاؤ بیشک بہترین توشہ سوال سے بچنا ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- لب - اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا .- ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269]- ( ل ب ب ) اللب - کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) - اب ان کے نزدیک دم احصار وہی قربانی ہے جو حج فوت ہونے کی وجہ سے لازم آتی ہے۔ اس لئے وہ عمرہ کے قائم مقام نہیں ہوسکتی جس طرح کہ وہ اس حج کے قائم مقام نہیں ہوسکتی جو فوت ہوچکا ہے۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ تو عمرہ کے احرام کے بعد یوم النحر سے قبل تمتع کے تین دنوں کے روزوں کے جواز کے قائل ہیں جبکہ یہ روزے قربانی کا بدل ہیں اور خود قربانی کو یوم النحر سے پہلے ذبح نہیں کیا جاسکتا ہے۔- اس سے یہ لازم آتا ہے کہ روزوں کا جواز بھی نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان روزوں کا جواز ایک سبب کی وجہ سے ہوا ہے اور وہ ہے تمتع یعنی عمرہ اس بنا پر قربانی کی ذبح کے وقت پر روزوں کو مقدم کرنا جائز ہوگیا۔- دوسری طرف محصر پر عمرہ کے لزوم کا کوئی سبب نہیں ہے جبکہ اس کا حقیقی سبب فوات حج یعنی وقوف عرفہ سے پہلے دسویں تاریخ کی صبح کا طلوع ہوجانا ہے یہی وجہ ہے کہ فوات حج پر لازم ہونے والا عمرہ ایسا ہے کہ دم اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ عمرہ کرنے والے پر دم لازم ہوتا ہے حالانکہ اسے فوات عمرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ عمرہ کے لئے کوئی مقررہ وقت تو ہوتا نہیں۔- یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دم کا فوات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کے ذریعے احرام جلد کھل جائے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ لزوم دم کے لحاظ سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا خواہ فوت ہونے کا خطرہ ہو یا نہ ہو۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث میں جس کے الفاظ یہ ہیں (من کسوا و عرج فقد حل و علیہ الحج من قابل) عمرہ کا ذکر نہیں ہے۔ اگر حج کے ساتھ عمرہ بھی واجب ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا بھی ذکر ضرور کرتے جس طرح کہ آپ نے حج کی قضاء کے وجوب کا ذکر فرمایا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دم یعنی قربانی کا ذکر نہیں فرمایا اس کے باوجود ایسا شخص قربانی کے بعد ہی اپنا احرام کھول سکتا ہے۔ دراصل یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والے احصار اور اس میں احرام کھولنے کی وجہ سے قضا کے لزوم کے متعلق امت کو بتانا چاہتے ہیں۔- حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس بروایت سعید بن جبیر اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محصر کے ذکر کے بعد جو یہ فرمایا ہے (فمن تمتع بالمعرۃ الی الحج) تو اس سے مراد وہ عمرہ ہے جو حج کا احرام کھول دینے پر لازم ہوتا ہے اگر اس عمرے کو حج کے مہینں میں اس حج کے ساتھ ادا کرنا چاہے گا جس کا احرام اس نے احصار کی وجہ سے کھول دیا ہے تو اس کا فدیہ واجب ہوگا۔- محصر کے متعلق حضرت ابن عباس سے ایک اور قول منقول ہے جس کی روایت عبدالرزاق نے انہیں سفیان ثوری نے ابن ابی نجیع سے، انہوں نے عطاء اور مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے ، آپ نے فرمایا :” حبس وہ ہوتا ہے جو دشمن کی وجہ سے ہو۔- اگر محرم محبوب ہوگیا اور اس کے پاس قربانی کا جانور نہیں ہے تو وہ حبس کی جگہ میں احرام کھول دے گا اور اگر اس کے پاس قربانی کا جانور ہو تو وہ اس کے ذریعے احرام کھول دے گا لیکن جب تک یہ جانور ذبح نہ ہوجائے اس وقت تک اس کا احرام نہیں کھلے گا۔ اس کے بعد اس پر نہ حج لازم ہوگا اور نہ ہی عمرہ۔- عطاء بن ابی رباح سے درج بالا روایت کا انکار مروی ہے کہ اس روایت کے راوی محمد بن بکر ہیں۔ انہیں ابن جریج نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” جس محرم کو دشمن نے گھیر یا ہو اس کی قربانی نہیں ہے۔ “- عمرو بن دینار کا خیال ہے کہ حضرت ابن عباس نے یہ بھی فرمایا کہ ” اس پر نہ حج ہے اور نہ ہی عمرہ۔ “ ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات عطا بن ابی رباح سے بیان کی ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آیا آپ نے حضرت ابن عباس سے یہ سنا ہے کہ محصر پر نہ تو قربانی ہے اور نہ ہی اس کے احصار کی قضاء عطاء نے نفی میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میں اس روایت کو تسلیم نہیں کرتا۔ “- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ روایت ناقابل تسلیم ہے کیونکہ یہ نص قرآنی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر روایات سے ثابت شدہ بات کے خلاف ہے۔ ارشاد خداوندی ہے (فان احصرتم فما استیسرمن الھدی ولا تحلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ۔- قول باری (فما استیسرمن الھدی) کو دو معنوں میں سے ایک پر محمول کیا گیا ہے۔ اول یہ کہ محصر کے ذمہ ہے کہ اسے جو بھی قربانی میسر آ جائے بھیج دے۔ اس لئے اس ارشاد باری کا مقتضیٰ یہ کہ محصر جب احرام کھول دینے کا ارادہ کرے گا اس پر قربانی واجب ہوگی ۔ اس کے متصل یہ ارشاد ہوا ہے (ولا تحلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) ۔- اس ارشاد کے ہوتے ہوئے کسی کے لئے یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ قربانی کے بغیر احرام کھولا جاسکتا ہے جبکہ نص صریح قربانی واجب کر رہا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیبیہ کے مقام پر حالت احصار بھی منقول ہے جس میں آپ نے صحابہ کرام کو قربانی ذبح کرنے اور احرام کھول دینے کا حکم دیا تھا۔- اس محصر کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے جو احرام نہ کھولے یہاں تک کہ حج اس سے فوت ہوجائے اور پھر وہ بیت اللہ پہنچ جائے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے۔ اسی احرام کے ساتھ اس کا حج کرنا درست نہیں ہوگا۔ امام مالک کا مسلک ہے کہ اس کے لئے اگلے حج تک احرام کی حالت میں رہنا درست ہوگا اور اگر وہ چاہے تو عمرہ ادا کر کے احوال کھول بھی سکتا ہے۔- ہمارے مسلک کی دلیل یہ ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ عمرہ ادا کر کے احرال کھول لے اگر اس کا احرام ایسا نہ ہوجاتا کہ اب اس کے ساتھ وہ کوئی حج نہیں کرسکتا تو اس کے لئے یہ احرام کھول دینا ہرگز درست نہ ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ پہلے سال میں جبکہ اس کے لئے حج کرنا ممکن تھا وہ اپنا احرام کھول نہیں سکتا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے احرام کی ایسی حیثیت ہوگئی ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی حج نہیں کرسکتا۔- نیز حج فسخ کرنا اس قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ) سے منسوخ ہوگیا ہے اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ حالت احصار میں اس کے لئے جب احرام کھولنا درست ہوگیا تو اس کا موجب عمرہ ادا کرنا ہے نہ کہ حج ادا کرنا۔ اس لئے کہ اگر اس کے لئے حج ادا کرنا ممکن ہوتا اور پھر وہ اسے احرام کھولنے کے ذریعے عمرہ بنا دیتا تو وہ حج کا امکان ہوتے ہوئے اسے فسخ کرنے والا قرار پاتا۔- یہ صورت صرف ایک سال پیش آئی تھی جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حج کے لئے تشریف لے گئے تھے پھر یہ منسوخ ہوگئی یہی وہ صورت ہے جس پر حضرت عمر کے اس قول کو محمول کیا جائے گا کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دو طرح کا متعہ جائز تھا۔- ایک عورت کے ساتھ متعہ اور دوسرا حج کا متعہ لیکن اب میں ان دونوں سے روکتا ہوں اور ان کے مرتکب کو سزا دیتا ہوں۔ “- متعہ حج سے حضرت عمر کی مراد اس طریقے سے فسخ حج ہے جس کا حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر اپنے صحابہ کرام کو دیا تھا۔- فقہاء کا اس محصر کے حکم کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے جس نے نفلی حج یا نفلی عمرے کا احرام باندھا ہو۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس پر قضاء واجب ہے خواہ یہ احصار کسی بیماری کی وجہ سے ہوا ہو یا دشمن کی وجہ سے بشرطیکہ وہ قربانی پیش کر کے اپنا احرام کھول چکا ہو۔- امام شافعی اور امام مالک بیماری کی بنا پر رکاوٹ کو احصار نہیں سمجھتے۔ ان کا قول ہے کہ اگر دشمن کی وجہ سے احصار کی حالت میں آ کر اس نے احرام کھول دیا ہو تو اس پر نہ حج کی قضاء ہوگی نہ عمرے کی۔- قضاء کے وجوب کی دلیل یہ قول باری ہے صواتموا الحج والعمرۃ للہ) اس آیت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اس شخص نے حج یا عمرے میں داخل ہو کر اسے اپنے اوپر واجب کرلیا۔ جب دخول کے ساتھ یہ واجب ہوگیا تو اس کی حیثیت فرض حج اور نذر کی سی ہوگئی۔- اب اس کے تمام سے قبل اس سے خروج کی وجہ سے اس پر قضاء لازم ہوگئی خواہ اس خروج میں وہ معذور تھا یا غیر معذور اس لئے کہ جو چیز اس پر ساقط ہوگئی تھی اسے کوئی عذر ساقط نہیں کرسکتا۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ حج فاسد کردینے کی صورت میں اس پر قضاء واجب ہے تو احصار کی وجہ سے بھی اس پر قضاء لازم ہونی چاہیے۔- سنت سے بھی ہمارے قول کی تائید ہوتی ہے۔ یہ حضرت حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من کسوائو عرج فقد حلٓ و علیہ الحج من قابل) اس حدیث میں فرض اور نفل یحج کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔- ایک اور پہلو سے نظر ڈالئے جو شخص احرام کی وجہ سے واجب ہونے والی باتوں کو ترک کرے گا خواہ وہ معذور ہو یا غیر معذور، احرام کے لزوم کا حکم دونوں صورتوں میں یکساں رہے گا۔ اس بنا پر ترک لزوم کے لحاظ سے دونوں یعنی معذور اور غیر معذور کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔- اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تکلیف کی وجہ سے سرمنڈانے والے کو معذور قرار دیا یکن فدیہ واجب کرنے سے اسے مستثنیٰ قرار نہیں دیا خواہ اس نے فرض حج کا احرام باندھ رکھا ہو یا نفلی حج کا۔ اس لئے اس محصر کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے جس نے فرض حج یا نفلی حج کا احرام باندھا ہو یعنی دونوں صورتوں میں اس پر قضا کا وجوب ہونا چاہیے۔- نیز یہ بھی ضروری ہے اس پر اسی طرح یکساں حکم عائد ہو خواہ اس نے ہمیستری کے ذریعے اپنا حج فاسد کردیا ہو یا احصار کی وجہ سے وہ اس سے نکل آیا ہو، جس طرح حالت احرام میں خلاف احرام افعال کے ارتکاب پر معذور اور غیر معذور دونوں پر یکساں طریقے سے کفارہ واجب کیا جاتا ہے۔- محصر پر وجوب قضاء کی خواہ وہ معذور ہی کیوں نہ ہو، ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مریض سے جب حج فوت ہوجائے تو اس پر اس کی قضاء لازم ہوگی خواہ عذر کی بنا پر اس کا حج فوت ہوا ہو۔ اسی طرح اگر اس نے بغیر کسی عذر کے قصداً حج فوت کردیا ہو تو اس صورت میں بھی اس پر قضا واجب ہوگی۔- اب ان دونوں صورتوں میں جو مشترک سبب یہ وہ یہ ہے کہ احرام میں دخول کی بنا پر جو باتیں لازم ہوجاتی ہیں ان کے لحاظ سے معذور اور غیر معذور دونوں کا حکم یکساں ہوتا ہے۔ یہی سبب محصر میں بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ضرو ریہو گیا کہ اس سے قضا کا حکم ساقط نہ ہو۔- ہمارے اس استدلال کی تائید حضرت عائشہ کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے۔ آپ حجتہ الوداع میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھیں، آپ نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا ہے۔ اسی دوران جب آپ کو حیض آگیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا … … اپنا سر کھول کر کنگھی بالوں میں کرلو، حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ ترک کر دو ۔ )- پھر حضرت عائشہ جب حج سے فارغ ہوگئیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو حکم دیا کہ وہ انہیں تنعیم لے جائیں۔ چناچہ حضرت عائشہ نے وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا۔ آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ ” یہ عمرہ تمہارے اس فوت شدہ عمرے کی جگہ ہے۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ کو اس عمرے کی قضاء کا حکم دیا جو انہوں نے عذر کی بنا پر ترک کردیا تھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص عذر کی بنا پر احرام سے نکل آتا ہے تو اس سے قضاء ساقط نہیں ہوتی۔- ایک اور وجہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام جب حدیبیہ کے مقام پر حالت احصار میں آ گئے تو اس وقت سب نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا۔ پھر س نے اگلے سال اس کی قضاء کی اور اس کا نام عمرۃ القضاء رکھا گیا۔- اگر دخول کی بنا پر یہ عمرہ لازم نہ ہوتا اور قضاء واجب نہ ہوتی تو اس کا نام عمرۃ القضاء نہ رکھا جاتا بلکہ اسے ایک نئے سرے سے ادا کیا جانے الا عمرہ سمجھا جاتا۔ اس میں احرام کھول دینے کی بنا پر لزوم قضاء کی تائید میں بھی دلیل موجود ہے۔ (واللہ اعلم )- ایسا محصر جسے قربانی میسر نہ ہو - قول باری ہے (فان احصرتم فما استیسو من الھدی) اہل علم کا اس محصر کے حکم کے متعلق اختلاف ہے جسے قربانی میسر نہ آئے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ وہ اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا جب تک اسے قربانی میسر نہ آ جائے اور اس کی ذبح عمل میں نہ آ جائے۔- عطاء بن ابی رباح کا قول ہے کہ ایسا محصر دس روزے رکھے گا اور احرام کھول دے گا جس طرح کہ حج تمتع کرنے والا شخص قربانی میسر نہ آنے پر دس روزے رکھتا ہے۔ اس بارے میں امام شافعی سے دو قول منقول ہیں۔- پہلا قول یہ ہے کہ اگر وہ قربانی نہیں بھیجے گا تو کبھی بھی احرام سے باہر نہیں آسکے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اگر اسے قربانی کی قدرت نہ ہو تو اس کا احرام کھل جائے گا اور جب بھی اسے قربانی کی قدرت ہوگی تو قربانی پیش کر دے گا۔- یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر اسے قربانی کی قدرت نہ ہو تو پھر بھی کام چل جائے گا البتہ اگر اسے قربانی میسر نہ ہو اور اس کی قدرت بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں اس پر کھانا کھلانا یا روزہ رکھنا لازم ہوگا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کے متعلق امام محمد کی دلیل یہ ہے کہ تمتع کی بنا پر قربانی کے لزوم پر منصو ص حکم موجود ہے، اسی طرح حج تمتع کرنے والے پر قربانی میسر نہ آنے کی صورت میں روزے کالزوم بھی منصوص ہے اور منصوص احکام کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کہا جاسکتا۔- ایک اور وجہ بھی اس کی تائید میں ہے وہ یہ ہے کہ کفارات کا اثبات قیاس کے ذریعے نہیں ہوتا۔ اب جب محصر کے لئے دم یعنی قربانی کا حکم موجود ہے تو ہمارے لئے قیاس کی بن اپر اس پر کوئی اور چیز واجب کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ دم خلاف احرام فعل کا ارتکاب پر کفارہ کے طور پر واجب ہوا ہے اور قیاس کی بنا پر کسی کفارے کا اثبات ممتنع ہے۔- نیز اس صورت میں بعینہ ایک منصوص حکم کا ترک لازم آ جاتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (ولا تحلق وارئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) اب جو شخص قربانی کو اس کی ذبح کی جگہ پہنچنے سے پہلے سر منڈانے کی اجازت دے دے گا۔ وہ نص کی خلا فورزی کا مرتکب ہوگا جب کہ یہ جائز نہیں ہے کہ قیاس کی بنا پر نص کو ترک کردیا جائے۔- اہل مکہ کے احصار کا حکم - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عروہ بن الزبیر اور اور زہری سے منقول ہے کہ اہل مکہ کے لئے حالت احصار نہیں ہوتی۔ ان کا احصار تو صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کرسکیں (جوا ن کے لئے بہر صورت ممکن ہوتا ہے اس لئے ان پر حالت احصار طاری نہیں ہوتی۔ )- ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے بشرطیکہ ان کے لئے بیت اللہ تک رسائی ممکن ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مکہ کا باشندہ یا تو حج کا احرام باندھے گا یا عمرے گا۔ اگر اس نے عمرے کا احرام باندھ رکھا ہے تو عمرہ نام ہے طواف اور سعی کا جس میں اس کے لئے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوسکتی۔ اس لئے وہ محصر نہیں ہوگا۔- اگر اس نے حج کا احرام باندھ لیا ہے تو اس کے لئے گنجائش ہے کہ وہ محصر نہ ہونے کی صورت میں وہ عرفات کو روانگی آخر وقت تک مئوخر کر دے۔ اگر اس سے وقوف عرفات فوت ہوجائے تو اس کا حج فوت ہوجائے گا اور اس پر لازم ہوگا کہ وہ عمرہ ادا کر کے احرام کھول دے۔ اس صورت میں اس کی حیثیت عمرہ کرنے والے کی طرح ہوگا۔ اور اس طرح وہ محصر نہیں قرار پائے گا۔ واللہ اعلم۔- ایسا مجرم جس کے سر میں تکلیف ہو یا اسے بیماری لاحق ہوگئی ہو - قول باری ہے (ولا تحلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ فمن کان منکم مریضاً او بہ اذی من راسہ ففدیۃ من صیام اوصدقۃ اونسلک - آیت کا مفہوم یہ ہے۔ … واللہ اعلم … کہ تم احرام والوں، خواہ محصر ہو یا غیر محصر، میں سے جسے کوئی بیماری لاحق ہوجائے یا سر میں تکلیف پیدا ہوجائے تو وہ روزوں کا فدیہ دے۔- اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ جب تک قربانی اپنی ذبح کی جگہ کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک محصر کے لئے حلق کرانا جائز نہیں ہوگا اور اگر وہ مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو اور پھر وہ حلق کرا لے تو اس پر فدیہ واجب ہوگا اور اگر وہ غیر محصر ہو تو وہ اس محصر کے حکم میں ہوگا جس کی قربانی ابھی ذبح کی جگہ کو پہنچی ہو۔- اس بنا پر اس آیت میں محصر اور غیر محصر کے لئے حکم کی یکسانیت کی دلالت موجود ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کے لئے احرام کی حالت میں مذکورہ شرط کے بغیر حلق کرانا جائز نہیں ہے۔ قول باری (فمن کان منکم مریضاً ) میں وہ مرض مراد ہے جس میں کپڑے پہننے یا احرام کی وجہ سے ممنعہ اشیاء میں سے کوئی شے استعمال کرنے کی ضرورت پڑجائے۔ وہ تکلیف دور کرنے کی خاطر وہ شے استعمال کرے اور فدیہ ادا کر دے۔- اسی طرح قول باری (اوبہ اذی من راسہ) سے مراد ایسی تکلیف ہے جس میں اسے احرام کی وجہ سے ممنوعہ افعال میں کسی فعل مثلاً حلق کرانے یا سر ڈھانپنے وغیرہ کی ضرورت پیش آ جائے اگر اسے کوئی ایسی بیماری یا سر کی تکلیف لاحق ہو جس میں اسے حلق کرانے یا ممنوعہ شے استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے تو اس کی حیثیت تندرست آدمی کی طرح ہوگی یعنی اسے احرام کی وجہ سے ممنوع اشیا استعمال کرنے یا ممنوعہ فعل کے ارتکاب کی ممانعت ہوگی۔- حضرت کعب بن عجرہ سے ایسی روایات منقول ہیں جو ایک دوسری کی مئوید ہیں کہ حدیبیہ کے موقعہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزران کے پاس سے ہوا، اور ان کی حالت یہ تھی کہ سر کی جوئیں چہرے پر گر رہی تھیں۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت فرمایا کہ آیا یہ جوئیں تمہاری تکلیف کا باعث تو نہیں ہیں ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح جو ئوں کی کثرت اس تکلیف کی ایک شکل تھی جو آیت (اوبہ اذی من رأسہ) میں مراد ہے۔ اگر محرم کے سر میں زخم ہوں یا سر سے پیپ یا خون بہہ رہا ہوں اور اسے ان زخموں کی پٹی کرنے یا ان پر کپڑا وغیرہ ڈالنے کی ضرورت پیش آ جائے تو فدیہ کے جواز کے لئے اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔- اس طرح وہ تمام امراض ہیں جن کے لاحق ہونے کی صورت میں اسے کپڑے وغیرہ پہننے کی ضروتر پیش آ جائے تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہوگا اور وہ فدیہ ادا کرے گا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں کوئی تخصیص نہیں کی ہے اس بنا پر یہ حکم تمام صورتوں کو عام ہوگا۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فمن کان منکم مریضاً او بہ اذی من راسہ) کا مطلب ہے۔” اس کے سر میں تکلیف ہو پھر وہ سر کے بال منڈا دے تو روزے کا فدیہ ہے۔ “ جواب میں کہا جائے گا کہ حلق کا یہاں ذکر نہیں ہے اگرچہ وہ آیت مراد ہے۔- اسی طرح کپڑے پہن لینا اور سر ڈھانپ لینا وغیرہ، آیت میں ان کا ذکر نہیں ہے لیکن مراد ہیں۔ اس لئے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عذر کی بنا پر وہ باتیں مباح ہوجاتی ہیں جن پر احرام کی بن اپر بندش لگ گئی تھی۔- اسی طرح اگر کوئی شخص بیمار تو نہ ہو لیکن اسے ایسی جسمانی تکلیف لاحق ہوجائے جس کی وجہ سے اسے بدن کے بال اتروانے کی ضرورت پڑجائے تو فدیہ کے لحاظ سے اس کا حکم بھی حلق راس جیسا ہوگا۔ اس لئے کہ تمام صورتوں میں سمجھ میں آنے والا سبب یہ ہے کہ عذر کی حالت میں احرام کی وجہ سے ممنوعہ امور کی اجازت ہوجاتی ہے۔- قول باری ہے (ففدیۃ من صیام) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے تین دن کے روزے رکھے۔ یہ حضرت کعب بن غجرہ کی حدیث ہے۔ یہی سلف اور فقہائے امصار کا قول ہے البتہ حسن بصری اور عکرمہ سے ایک روایت ہے کہ تمتع کے روزوں کی طرح فدیہ کے بھی دس روزے ہیں۔- رہی صدقہ کی مقدار تو اس کے متعلق حضرت کعب بن عجرہ کے واسطے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف روایات منقول ہیں۔ ایک روایت وہ ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی، انہیں احمد بن سہیل نے، انہیں سہیل بن محمد نے، انہیں ابن ابی زائدہ نے اپنے والد ابوزائدہ سے، انہیں عبدالرحمٰن بن الاصبہانی نے عبداللہ بن مغفل سے کہ حضرت کعب بن عجرہ نے انہیں بتایا کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ احرام باندھ کر نکلے، ا ن کے سر اور داڑھی میں جوئیں پڑگئیں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلاق کو بلا کر ان کا سرمونڈنے کو کہا، اس کے بعد آپ نے ان سے پوچھا کہ آیا وہ قربانی دینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا اس پر آپ نے حکم دیا کہ یا تو تین دن روزے رکھیں یا چھ مسکینوں کو، فی مسکین ایک صاع کے حساب سے طعام دے دیں۔- پھر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کے لئے یہ آیت نازل فرمائی (فقدیۃ من صیام اوصدقۃ اونسلک) صالح بن ابی مریم نے مجاہد کے واسطے سے حضرت کعب بن عجرہ سے اس قسم کی روایت کی ہے۔ دائود بن ابی ہند نے عامر کے واسطے سے حضرت کعب سے جو روایت کی ہے اس میں ہے کہ تین صاع خرما یعنی خشک کھجور چھ مسکینوں کے درمیان ف ی مسکین نصف صاع کے حساب سے صدقہ کر دو ۔- ایک اور روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی نے بیان کی، انہیں عبداللہ بن الحسن بن احمد نے ، انہیں عبدالعزیز بن دائود نے ، انہیں حماد بن سلمہ نے دائود بن ابی ہند سے ، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے عبدالرحمن بی ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت کعب بن عجرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ یا تو قربانی دے دو یا تین دن روزے رکھو یا تین صاع طعام چھ مسکینوں میں تقسیم کر دو ۔- پہلی روایت تین صاع اور دوسری میں چھ صاع کا ذکر ہے۔ دوسری روایت بہتر ہے کیونکہ اس میں بیان کردہ مقدار زیادہ ہے۔ پھر تین صاع طعام کا جس روایت میں ذکر ہوا ہے اس سے مراد گندم ہونی چاہیے اس لئے کہ طعام سے ظاہراً مراد گندم ہی ہوتی ہے اور دعادۃ لوگوں کے درمیان یہی متعارف ہے۔- ان تمام روایات کو جمع کر کے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ خشک کھجور کی صورت میں چھ صاع اور گندم کی صورت میں تین صاع صدقہ میں دیئے جائیں۔ رہ گئی مساکین کی تعداد تو وہ چھ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔- جہاں تک نسک یعنی قربانی کا تعلق ہے تو اس کے متعلق حضرت کعب بن عجرہ کی حدیث میں مذکورہ ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایک قربانی دینے کا حکم دیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ بکری کی قربانی کا حکم دیا تھا۔ فقہاء کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ نسک کا کم سے کم درجہ بکری ہے اور اگر وہ چاہے تو اونٹ یا گائے بھی دے سکتا ہے۔- نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فدیہ کی یہ تینوں باتیں یعنی روزہ، صدقہ اور نسک یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے جسے بھی وہ اختیار کرے گا درست ہوگا۔- کیونکہ یہی مقتضائے آیت ہے (ففدیۃ من صیام اوصدقۃ اونسک) میں او تخییر کے لئے ہے کیونکہ تحییر یعنی کچھ چیزوں میں سے مساوی طور پر ایک کے انتخاب کا اختیار ہونا حرف اوکے معنی اور اس کی حقیقت ہے۔ ہاں اگر اس کے سوا کسی اور معنی کے لئے کوئی دلالت قائم ہوجائے تو یہ اور بات ہوگی۔ ہم نے کئی مقامات پر اس کی وضاحت کی ہے۔- روزوں کے متعلق تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ ان کے رکھنے کے لئے کوئی خاص جگہ مقرر نہیں ہے وہاں جہاں چاہے روزہ رکھ سکتا ہے البتہ صدقہ اور نسلک کے مقام کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، ابو یوسف، محمد اور زفر کا قول ہے کہ دم یعنی قربانی تو مکہ میں دی جائے گی، روزہ اور صدقہ جہاں چاہے دے دے۔- امام مالک نے تینوں چیزوں کو قید مقام سے آزاد رکھا ہے۔ اس کی مرضی ہے جہاں چاہے دے دے، امام شافعی کا قول ہے کہ قربانی اور صدقہ تو مکہ میں دیئے جائیں گے۔ روزہ جس جگہ چاہے رکھ سکتا ہے۔- ظاہر آیت (ففدیۃ من صیام او صدقۃ اونسلک) کا تقاضا ہے کہ انہیں مطلق یعنی قید مقام سے آزاد رکھا جائے اور فدیہ جس جگ دینا چاہے دے دے، لیکن دوسری آیتوں کی بنا پر ان میں حرم کی تخصیص ہوگئی۔- ارشاد باری ہے (لکم فیھا منافع الی اجل مسمی) یعنی جن چوپایوں کا پہلے ذکر گزر چکا ہے ان سے تمہارے لئے ایک معین مدت تک فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے۔ پھر ارشاد ہوا (ثم محلھا الی البیت العتیق) یہ الفاظ ان تمام قربانی کے جانوروں کے لئے عام ہیں جنہیں اس مقصد کے لئے بیت اللہ لے جایا جاتا ہے۔- اس آیت کے عموم سے یہ ضروری ہوگیا کہ ہر وہ قربانی جو تقرب الٰہی کی خاطر دی جائے وہ حرم میں دی جائے اور کسی اور جگہ درست نہ ہو۔ اس پر قول باری (ھدیاً بالغ الکعبۃ) بھی دلالت کر رہا ہے۔ یہاں جس قربانی کا ذکر ہے اس کا تعلق شکار کی جزا سے ہے۔ اس لئے کعبہ تک پہنچنا ہر قربانی کی صفت ہوگئی اور حرم کے سوا کسی اور جگہ اس کا جواز نہیں ہوگا۔- نیز اس صفت کے بغیر قربانی قربانی نہیں ہوگی۔ نیز اس ذبح کے وجوب کا تعلق احرام کے ساتھ ہے تو ضروری ہوگیا کہ یہ حرم کے ساتھ مخصوص ہو جس طرح کی شکار کی جزا اور حج تمتع میں قربانی حرم کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت کعب بن عجرہ کو یہ فرمایا تھا کہ (اوا ذبح شاۃ یا ایک بکری ذبح کرو) تو اس میں قربانی کے لئے کسی خاص جگہ کی شرط نہیں لگائی تھی۔ جس سے یہ ضرویر ہوگیا کہ وہ کسی خاص جگہ کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت کعب بن عجرہ کو جب یہ صورت پیش آئی تھی تو اس وقت وہ حدیبیہ میں تھے جس کا کچھ حصہ حرم کے اندر اور کچھ حصہ حرم سے باہر ہے۔ اس بنا پر مکان کا ذکر اس لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ حضرت کعب بن عجرہ کو اس کا علم تھا کہ احرام کی وجہ سے ان پر جو دم عائد ہو رہا ہے وہ حرم کے ساتھ مخصوص ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کو اس حکم کا علم تھا کہ ہدایا یعنی قربانی کے جانوروں کی ذبح حرم کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے کہ آپ ان جانوروں کو حرم میں ذبح کے لئے لے جاتے۔- رہ گیا صدقہ اور روزہ تو اس پر عمل درآمد کے لئے جگہ کی کوئی قید نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر قید مکان سے آزاد کی اے اس لئے اسے حرم کے ساتھ مقید کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ مطلق کو اطلاق رکھنا ضرور ی ہے جس طرح مقید کو تقلید ہو۔- اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اصولی طور پر کوئی صدقہ ایسا نہیں ہے جو کسی خاص جگہ کے ساتھ مخصوص ہو کہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ اس کی ادائیگی درست نہ ہو۔ یہ بات اصول کی مخالفت کے ضمن میں آتی ہے اور خارج عن الاصول ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ صدقہ حرم میں کیا جانا چاہیے کیونکہ حرم کے مساکین کا بھی اس پر حق ہوتا ہے جس طرح قربانیوں کے گوشت میں وہ حق دار ہوتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ذبح کے جواز کا حرم کے ساتھ تعلق مساکین کے حق کی بن اپر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اگر کوئی شخص حرم میں قربانی کرنے کے بعد اس کا گوشت حرم سے باہر لے جا کر صدقہ کر دے تو یہ اس کے لئے جائز ہوگا۔- اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ اس پر صرف حرم کے مساکین کا حق ہے، دوسروں کا نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو حرم کے مساکین کی طرف سے اس حق کا مطالبہ کیا جاتا۔ اب جبکہ ان کی طرف سے اس قسم کا کوئی مطالبہ نہیں ہوتا تو یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ ان کا حق نہیں ہے یہ صرف اللہ کا حق ہے جسے مساکین تک تقرب الٰہی کی نیت سے پہنچانا ضروری ہے۔- جس طرح کہ زکواۃ اور دوسرے صدقات کسی ایک جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے۔ نیز چونکہ ان صدقات میں خون بہا کر تقرب الٰہی کا حصول نہیں ہوتا اس لئے یہ حرم کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں جس طرح کہ روزے حرم کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے۔- تاہم اس مسئلے میں سلف کا اختلاف ہے۔ حسن بصری ، عطاء بن ابی رباح اور ابراہیم نخعی سے منقول ہے کہ دم یعنی قربانی کی جو صورت ہوگی وہ مکہ مکرمہ کے ساتھ خاص ہوگی، اور روزہ یا صدقہ تو متعلقہ شخص کی مرضی پر منحصر ہوگا جہاں چاہے روزہ رکھ لے یا صدقہ کر دے، مجاہد سے یہ منقول ہے کہ فدیہ کی ادائیگی جہاں چاہو کر دو ۔- طائوس کا قول ہے کہ قربانی اور صدقہ مکہ مکرمہ میں کرو اور روزہ جہاں چاہو رکھ لو۔ حضرت علی سے یہ مروی ہے کہ آپ نے اپنے بیٹے حضرت حسین کی طرف سے مقام سقیا میں ایک اونٹ کی قربانی دی اور اس کا گوشت اس چشمے پر آباد لوگوں میں تقسیم کردیا۔- دراصل حضرت حسین احرام کی حالت میں بیمار پڑگئے تھے۔ قربانی کرنے کے بعد آپ نے حضرت حسین کو حلق کرانے کا حکم دیا تھا۔ اس واقعہ میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حضرت علی حرم سے باہر ذبح کے جواز کے قائل تھے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ آپ نے صدقہ کے طور پر یہ گوشت تقسیم کیا ہو اور اس طرح کرنا ہمارے نزدیک بھی جائز ہے۔ (واللہ اعلم)- حج آنے تک عمرے کا فائدہ حاصل کرلینا - قول باری ہے (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی پس جو شخص حج کا زمانہ آنے سے پہلے عمرے سے فائدہ اٹھائے تو جو قربانی میسرہو وہ پیش کرے)- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس قسم کے تمتع کے دو معنی ہیں۔ اول یہ کہ احرام کھول لیا جائے اور عورتوں سے قربت وغیر ہ کا فائدہ اٹھایا جائے۔ دوم یہ کہ حج کے مہینوں میں حج کا زمانہ آنے سے پہلے عمرہ ک رلیا جائے اور اس طرح عمرہ اور حج دونوں کو اکٹھا کردیا جائے۔ یعنی دونوں کے لئے الگ الگ سفر نہ کیا جائے بلکہ ایک ہی سفر میں دونوں کا فائدہ اٹھا لیا جائے۔- اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ سختی سے اس کی تردید کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس اور طائوس سے مروی ہے کہ ان کے نزدیک ایسا کرنا انتہائی گناہ کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو حج کا احرام کھول کر اسے عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم دے کر دراصل عربوں کی اس عادت اور رواج کی تردید کردی تھی جو اس سلسلے میں ان میں مروج تھی۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی، انہیں الحسن بن المثنیٰ نے، انہیں عفان نے، انہیں وہب نے، انہیں عبداللہ بن طائوس نے اپنے والد طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ عرب کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر بدترین گناہ سمجھتے تھے۔- وہ لوگ محرم کے مہینے کو صفر کا مہینہ قرار دے کر کہتے کہ جب زخمی پیٹھ والا اونٹ تندرست ہوجائے اس کا نشان مٹ جائے اور صفر کا مہینہ گزر جائے تو عمرہ کرنے الے کے لئے عمرہ کرنا حلال ہوجاتا ہے۔ (اس قول سے ان کی مراد یہ ہوتی کہ حج کے سفر کی وجہ سے اونٹوں کی پیٹھ زخمی ہوجاتی، حج سے واپسی کے بعد جب کچھ وقت گزر جائے، تکان دور ہوجائے اور اونٹوں کی حالت بھی بہتر ہوجائے تو پھر عمرے کے لئے سفر کرنا چاہیے۔ )- جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چوتھی تاریخ کی صبح تشریف لے آئے جبکہ صحابہ کرام حج کا تلبیہ پڑھ رہے تھے تو آپ نے انہیں حج کا احرام کھول دینے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام کو یہ بات بڑی گراں گزری۔ انہوں نے عرض کیا :” کیسا احرام کھولنا ؟ آپ نے فرمایا :” ہاں پوری طرح احرام کھول دو ۔ “- متعئہ حج ان دونوں معنوں پر مشتمل ہے یا تو احرام کھول کر بیویوں وغیرہ سے قربت وغیرہ کے فائدے اٹھانے کی اباحت یا حج کے مہینوں میں ایک ہی سفر پر انحصار کرتے ہوئے حج اور عمرہ کو اکٹھا کردینے کی منفعت جبکہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ اس طریق کار کو حلال ہی نہیں سمجھتے تھے اور حج اور عمرہ دونوں کے لئے الگ الگ سفر کے قائل تھے۔- یہ بھی احتمال ہے تمتع بالعمرۃ الی الحج سے مراد یہ ہو کہ حج کے مہینوں میں حج اور عمرہ جمع کر کے دونوں عبادتوں کو سر انجام دینے کا فائدہ اٹھایا جائے اور اس طرح دونوں کے ثواب کا مستحق قرار دیا جائے۔ یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ حج اور عمرہ دونوں ادا کرنے والا زیادہ نفع اور زیادہ فضیلت حاصل کرے گا۔- آیت میں مذکور تمتع کی چار صورتیں ہیں۔ اول قارن یعنی وہ شخص جو حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھ لے۔ دوم وہ شخص جو حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ لے اور پھر اسی سفر میں اسی سال حج بھی کرے بشرطیکہ وہ ان لوگوں میں سے ہو جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔- تیسرا محصر ان لوگوں کے قول کے مطابق جو اس کے لئے احرام کھول دینے کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کے نزدیک وہ حالت احرام میں رہے گا یہاں تک کہ احصار ختم ہونے کے بعد بیت اللہ پہنچ کر حج فوت ہونے کے بعد عمرہ ادا کرنے کے ذریعے حج کا احرام کھول دے گا۔ چوتھی صورت حج کو عمرہ کے ذریعے فسخ کردینا۔- قول باری (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی) تاوی ل میں سلف سے اختلاف منقول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور علقمہ کا قول ہے کہ اس جملے کا عطف قول باری (فان احصرتم فما استیسر من الھدی) پر ہے۔- یعنی حج کا احرام باندھ کر سفر کرنے والے پر جب احصار کی حالت طاری ہوجائے اور وہ قربانی کے ذریعے اپنا احرام کھول دے تو اس پر حج اور عمرہ دونوں ک قضا لازم ہوگی۔ پھر اگر اس نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو اکٹھا کردیا تو اس پر تمتع کی بنا پر ایک اور قربانی لازم ہوگی۔- اگر اس نے حج کے مہینوں میں عمرہ کرلیا اور پھر اپنے گھر واپس آگیا اور اس کے بعد اسی سال حج بھی کرلیا تو اس پر کوئی قربانی لازم نہیں آئے گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے۔ ” دو سفر اور ایک قربانی یا دو قربانیاں اور ایک سفر “ اس قول کے پہلے حصے سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ محصر حج کا احرام کھول دینے کے بعد حج کے مہینوں میں عمرہ کرلے اور اپنے گھر واپس آ جائے پھر واپس جا کر اسی سال حج کرے تو اس پر ایک قربانی لازم ہوگی اور وہ احصار کی قربانی ہوگی۔ اس نے دو سفروں میں حج اور عمرے کی ادائیگی کی۔- حضرت ابن مسعود کے قول کے آخری حصے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنے کے بعد گھر واپس نہ آئے اور پھر حج بھی کرے تو اس پر تمتع کی بنا پر قربانی واجب ہوگی۔ اس سے پہلے اس نے جو قربانی دی تھی وہ احصار کی قربانی تھی۔ اس طرح ایک سفر اور دو قربانیاں ہوں گی۔- ابن جریج نے عطاء بن ابی رباح کے واسطے سے حضرت ابن عباس کا جو قول نق لکیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ محصر کی آیت اور قول باری (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج) کو یک جا کردیا جائے پہلی آیت محصر کے متعلق ہے جس کے راستے میں رکاوٹ کھڑی ہوگئی ہو اور دوسری آیت اس شخص کے متعلق ہے جس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔- عطاء کا قول ہے کہ اسے متعہ یا تمتع اس لئے کہا گیا ہے کہ اس نے حج کے مہینوں میں عمرہ کیا ہے اسے تمتع اس لئے نہیں کہا گیا ہے کہ اس کے لئے عورتوں یعنی بیویوں سے لطف اندوزی حلال ہوگئی ہے۔ گویا حضرت ابن عباس کے مسلک کے مطباق یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ اول محصرین کا معاملہ یعنی یہ لوگ جب اس عمر کے ساتھ حج کی قضا کا بھی ارادہ کرلیں جو حج فوت ہوجانے کی وجہ سے ان پر لازم ہوگیا تھا۔- دوم غیر محصرین کا معاملہ کہ ان میں سے کوئی اگر حج کا وقت آنے سے پہلے عمرہ ادا کرنے کا فائدہ اٹھا لے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے نزدیک آیت کے اس آخری حصے کا عطف محصرین پر ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے مراد محصرین ہی ہیں۔- اس صورت میں اس سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے گا کہ حج فوت ہونے کی صورت میں عمرہ کرنا واجب ہوگا۔ اس سے یہ حکم بھی اخذ ہوتا ہے کہ اگر محصر ایک ہی سفر میں فوت شدہ حج کی قضا کے ساتھ ساتھ حج کے مہینوں میں عمرہ بھی کرے لے گا تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور دو سفروں میں ان دونوں کو ادا کرے گا تو اس پر کوئی قربانی واجب نہیں ہوگی۔- اس سلسلے میں حضرت ابن مسعود کا مسلک حضرت ابن عباس کے قول کے مخالف نہیں ہے۔ صرف اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ آیت محصرین اور غیر محصرین دونوں کا عام ہے۔ - محصرین کے متعلق تو اس آیت سے وہ حکم مستفاد ہوتا ہے جس کا ذکر حضرت ابن مسعود نے کیا ہے اور غیر محصرین کے متعلق یہ مستفاد ہوتا ہے کہ ان کے لئے تمتع جائز ہے اور اگر وہ تمتع کرلیں تو ان کا کیا حکم ہوگا۔ جبکہ حضرت ابن مسعود کا قول یہ ہے کہ آیت اپنے سیاق و سبقا کے لحاظ سے محصرین کے ساتھ مخصوص ہے اگرچہ غیر محصرین بھی تمتع کرنے کی صورت میں محصرین کی طرح ہوں گے۔- قارن اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے والا شخص جبکہ وہ اسی سفر میں حج بھی کرلے دو وجہ سے تمتع قرار قائیں گے۔ اول ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں ادا کرنے کا فائدہ اٹھانا۔ دوم ان دونوں کو جمع کرنے کی وجہ سے فضیلت حاصل کرنا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ صورت اس صورت سے افضل ہے جس میں ان دونوں کی ادائیگی الگ الگ سفر کے ذریعے ہو یا یہ کہ عمرہ حج کے مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں کیا جائے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام سے اس تمتع کے متعلق ایسی روایات منقول ہیں جن سے ظاہری طور پر اس کی اباحت میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اگر اباحت ہوجائے تو پھر اختلاف افضل صورت کے بارے میں باقی رہے گا۔ ممانعت یا اباحت کے بارے میں نہیں رہے گا۔- جن صحابہ کرام سے تمتع کی نہی منقول ہے ان میں حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت ابوذر اور حضرت ضحاک بن قیس شامل ہیں۔ ہمیں جعفر بن قیس واسطی نے روایت کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں ابن ابی مریم نے مالک بن انس سے، انہوں نے ابن شہاب سے کہ محمد بن عبداللہ بن الحارث بن نوفل نے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ضحاک بن قیس کو، حضرت معاویہ کے حج کے سال، آپس میں تمتع بالعمرۃ الی الحج، کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سنا تھا۔- حضرت ضحاک نے فرمایا یہ کام وہی شخص کرے گا جو اللہ کے حکم سے واقف نہیں ہوگا۔ “ یہ سن کر حضرت سعد نے فرمایا :” بھتیجے تم نے بہت بری بات کہی۔ “ تم نے بہت بری بات کہی۔ “ ضحاک نے جواب میں کہا کہ حضرت عمر نے بھی تو اس سے روکا تھا، اس پر حضرت سعد نے کہا : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کیا تھا اور ہم نے بھی آپ کی معیت میں یہی کیا تھا۔ “- ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے ، انہیں حجاج نے شعبہ سے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے کہا کہ میں نے جری بن کلیب کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت عثمان تمتع سے منع کرتے تھے اور حضرت علی اس کا حکم دیتے تھے ۔ میں حضرت علی کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ دونوں حضرات کے درمیان ایک بڑا شرپیدا ہوگیا ہے۔- آپ تمتع کا حکم دیتے ہیں اور عثمان اس سے روکتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا :” نہیں ایسی بات نہیں ہے، ہمارے درمیان خیر کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور ہم نے اس دین کی خاطر خیر کی پیروی کی ہے۔ “ حضرت عثمان سے مروی ہے کہ آپ کا یہ قول نہی کے طور پر نہیں تھا بلکہ پسندیدگی کے طور پر تھا۔ اس فقرے کے کئی معافی ہیں۔ ایک یہ کہ تمتع نہ کرنے میں فضیلت تھی تاکہ حج اپنے مقررہ مہینوں میں ادا ہوجائے اور عمرہ ان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ادا کیا جائے۔- دوسری یہ کہ آپ نے یہ پسند فرمایا تھا کہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے اور حج کے مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی زائرین کی کثرت رہے۔ تیسری یہ کہ آپ چاہتے تھے کہ اہل حرم کو بھی سارا سال لوگوں کی آمد سے فائدہ ہوتا رہے۔- غرض اس کی تفسیر میں مختلف وجوہ سے روایات آئی ہیں، ایک روایت ہمیں جعفر بن محمد المودب نے سنائی، انہیں ابو ا لفصل جعفر بن محمد بن الیمان المئودب نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے کہ حضرت عمر نے فرمایا۔- ” تم حج اور عمرہ الگ الگ کرو حج کے مہینوں میں حج ادا کرو اور دوسرے مہینوں میں عمرہ، اس طریق کار سے تم حج بھی زیادہ مکمل طریقے سے ادا کرسکو گے اور عمرہ بھی۔ “- ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن صالح نے لیث سے۔ انہوں نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم سے، انہوں نے عبداللہ عمر سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت عمر فرمایا کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (واتموا الحج والعمرۃ للہ) اور یہ بھی فرمایا (الحج اشھر معلومات)- اس بنا پر حج کے مہینوں کو حج کے لئے خاص کرلو اور ان مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں عمرہ ادا کرو۔ یہ اس لئے کہ جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے گا اس کا عمرہ قربانی کے بغیر پورا نہیں ہوگا اور جو حج کے مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں عمرہ کرے گا اس کا عمرہ قربانی کے بغیر بھی پورا ہوجائے گا۔- الا یہ کہ وہ رضا کارانہ طور پر قربانی کرے جو اس پر واجب نہیں ہے۔ حضرت عمر نے اس روایت میں حج اور عمرہ الگ الگ ادا کرنے کے متعلق اپنی پسندیدگی کی خبر دی ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں ابو معاویہ ہشام نے عروہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے روای ت کی ہے کہ حضرت عمر اشہر حج میں عمرہ کرنے کو اس وجہ سے ناپسند کرتے تھے کہ دوسرے مہینوں میں بیت اللہ بےآباد نہ ہوجائے۔- اس روایت میں حج اور عمرہ الگ الگ ادا کرنے کے متعلق حضرت عمر کی پسندیدگی کی ایک اور وجہ بیان ہوئی ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں ہشیم نے انہیں ابوبشر نے یوسف بن مالک سے یہ رایت کی ہے کہ حضرت عمر نے تمتع سے مکہ والوں کی خاطر روکا تھا تاکہ ایک سال میں لوگوں کا دو دفعہ اجتماع ہو۔ ایک حج کے موقعہ پر اور دوسرا عمرہ کے موقع پر اور اس طرح اہالیان مکہ کو اس کا فائدہ پہنچے۔ اس روایت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عمر کو اہالیان شہر کی منفعت کی خاطر دوسرا طریقہ پسند تھا۔- حضرت عمر سے تمتع کو پسند کرنے کی بھی روایت موجود ہے۔ ہمیں محمد بن جعفر نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابو عبید عبدالرحمٰن بن مہدی نے سفیان سے، انہوں نے سلمہ بن کہیسل سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت عمر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کاش میں عمرہ کرتا، پھر عمرہ کرتا ، پھر عمرہ کرت ا اور پھر حج کرتا اور اس طرح میں بھی متمتع بن جاتا۔- اس روایت میں تمتع کے متعلق آپ کی پسندیدگی کی خبر دی گئی ہے۔ ان تمام روایات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ تمتع کے متعلق آپ کے اقوا نہی کے طور پر نہیں تھے بلکہ اختیار یعنی پسندیدگی کے طور پر تھے۔ اس پسندیدگی میں کبھی اہالیان مکہ کی بھلائی پیش نظر ہوتی اور کبھی بیت اللہ کی رونق اور گہما گہمی۔- فقہاء کے اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا حج قرآن افضل ہے یا حج تمتع یا حج افراد ؟ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قرآن افضل ہے پھر تمتع پھر افراد، امام شافعی کا قول ہے کہ افراد افضل ہے اور قرآن و تمتع حسن ہیں۔- عبید اللہ بن نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مجھے میرا شوال یا ذی قعدہ یا ذی الحج یا کسی ایسے مہینے میں عمرہ کرنا جس میں مجھ پر قربانی واجب ہوجائے اس مہینے میں عمرہ کرنے کی بہ نسبت زیادہ پسندیدہ ہے جس میں مجھ پر قربانی واجب نہ ہو۔- قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابن مسعود سے اس عورت کے متعلق مسئلہ پوچھا جو اپنے حج کے ساتھ ساتھ عمرہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتی تھی، حضرت ابن مسعود نے یہ سن کر فرمایا :- اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سنا دیا ہے کہ (الحج اشھود معلومات) اس لئے میرے خیال میں یہ مہینے صرف حج کے لئے ہیں۔ لیکن روایت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ حضرت ابن مسعود فاراد کو قرآن کو قرآن اور تمتع سے افضل سمجھتے تھے۔ بلکہ اس میں یہ ممکن ہے آپ کی مراد ان مہینوں ک یبارے میں بتانا ہو جن میں حج اور عمرہ کو جمع کر کے تمتع کرنا صحیح ہوتا ہے۔- حضرت علی (رض) نے فرمایا، عمرہ کے اتمام کی یہ صورت ہے کہ تم اپنے گھر سے ہی جہان تمہارے احرام کی ابتدا ہوتی ہے احرام باندھو یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی نے یہ کہہ کہ تمتع یا قرآن مراد لی ہے کہ عمرے کی ابتدا گھر سے کی جائے اور حج تک اس طرح باقی رہے کہ اس دوران اس کی گھر واپسی نہ ہو۔- ابو عبید القاسم بن سلام نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ ایک شخص اپنے گھر سے خالص عمرے کی نیت سے نکلے۔ اس میں حج کی نیت شامل نہ ہو۔ اس لئے کہ جب وہ اپنے گھر سے عمرے کا احرام باندھ لے گا۔ تو یہ بات خلاف سنت ہوگی اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام کے لئے مواقیت مقرر کردیئے ہیں لیکن یہ ایک ساقط تاویل ہے اس لئے کہ حضرت علی سے مروی ہے کہ حج اور عمرے کا اتمام یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے ہی ان دونوں کا احرام باندھو۔ اس میں حضرت علی نے واضح الفاظ میں ان دونوں کے لئے گھر سے ہی احرام باندھنے کے متعلق فرما دیا۔- ابوعبید نے سنت کی جو بات کی ہے وہ ان کے گمان کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ سنت سے تو صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا ارادہ کرے اس پر یہ پابندی ہے کہ وہ احرام کے بغیر مکہ مکرمہ کے قریب نہ جائے۔ لیکن میقات سے پہلے احرام باندھ لینے کے متعلق فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔- اسود سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم عمرہ کرنے کے لئے نکل ہمارا گزر حضرت ابوذر کے پاس سے ہوا۔ حضرت ابوذر نے فرمایا :” کیا تم نے اپنے پراگندہ بال حلق کرا لئے اور میل کچیل دور کرلیا ؟ سنو عمرہ کی ابتدا تمہارے گھر سے ہوتی ہے۔ “ ابوعبید نے حضرت ابوذر کے اس قول کی وہی تاویل کی ہے جو انہوں نے حضرت علی کے قول کی تھی۔- حالانکہ حضرت ابوذر کی مراد صرف یہ ہے کہ عمرہ میں افضل طریقہ یہ ہے کہ اس کی ابتدا اپنے گھر سے کرو۔ جس طرح کہ حضر تعلی کا قول ہے کہ حج اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ اپنے گھر سے ہی ان دونوں کے لئے احرام باندھو۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر روایات سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے حج اور عمرہ کا قران کیا ۔ ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے ابو وائل سے، انہوں نے صبی بن معبد سے کہ وہ عیسائی تھے پھر مسلمان ہوگئے اور جہاد پر جانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا کہ حج سے ابتدا کرو۔- وہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے پاس آئے، آپ نے انہیں حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھنے کے لئے کہا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ حج اور عمرہ کا تلبیہ کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس سے زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کا گزر ہوا۔ ایک نے کہا : یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ “ صبی بن معبد نے جب یہ بات سنی تو اللہ اکبر کہا۔ جب وہ حضرت عمر کے پاس آئے تو ان سے اس کا ذکر کیا، حضرت عمر نے سن کر فرمایا : ان دونوں (زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ) نے کوئی پائے کی بات نہیں کیے۔ تم بےفکر رہو تمہیں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی راہ نصیب ہوئی ہے۔ “- ابو عبید نے کہا کہ ہمیں ابن ابی زائدہ نے الحجا ج بن ) ارطاۃ سے، انہوں نے الحسن بن سعید سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ابو طلحہ نے بتایا ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج اور عمرہ کو اکٹھا کردیا تھا۔ ہمیں ابو عبید نے بیان کیا کہ انہیں حجاج نے شعبہ سے روایت کی کہ شعبہ کو حمید بن ہلال نے بیان کیا کہ میں نے مطرف بن عبداللہ بن الشخیر سے سنا کہ حضرت عمران بن حصین نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج اور عمرہ ایک ساتھ ادا کیا تھا۔ پھر آپ نے اپنی وفات تک اس سے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی قرآن میں اس کی حرمت نازل ہوئی۔- ہمیں ابوعبید نے بیان کیا، انہیں ہشیم نے ، انہیں حمید نے بکربن عبداللہ سے روایت کی کہ میں نے انس بن مالک کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ کہتے ہوئے سنا ہے ۔ بکر کہتے ہیں کہ میں نے اس کا حضرت ابن عمر سے ذکر کیا۔- حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف حج کا تلبیہ کہا تھا۔ بکر کہتے ہیں کہ میں اس کے بعد حضرت انس بن مالک سے ملا اور انہیں حضرت ابن عمر کی بات بتائی تو انہوں نے فرمایا : ہمارے بچے ہماری بات کاٹ رہے ہیں۔ میں نے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہتے ہوئے سنا ہے لبیک عمرۃ وجعتہ یعنی آپ حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ کہہ رہے تھے)- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لبیک عجۃ کہتے ہوئے سنا ہو اور حضرت انس نے کسی اور وقت آپ کو لبیک بعمرۃ حجۃ کہتے ہوئے سنا ہو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قارن تھے اور قارن کے لئے جازء ہے کہ وہ کبھی لبک بعمرۃ و حجتہ کہہ دے اور کبھی لبیک لبیک بحعتہ اور کبھی لبیک بعمرۃ کہہ دے۔- اس لئے حضرت ابن عمر کی روایت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے حضرت انس کی روایت کی نفی ہوتی ہو۔- حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار عمرے کئے۔ ان میں سے ایک عمرہ حجتہ الوداع کے ساتھ کیا تھا یحیٰی بن کثیر نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے۔- حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وادی عقیق میں یہ فرمایت ہوئے سنا کہ آج رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے اولا میرے پاس آیا اور مجھ سے کہہ گیا کہ اس مبارک وادی میں نماز ادا کرو اور حج اور عمرے کا تلبیہ کہو۔ ایک روایت میں ہے کہ ” عمرۃ فی حجۃ کہو “- حضرت جابر اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کرلیں۔ نیز آپ نے یہ فرمایا (لواستقبلت من امری مااستد برت لما سقت الھدی ولجعل تھا عمرۃ) اگر میرے سامنے وہ صورت حال پہلے آ جاتی جو اب آئی ہے تو میں قربانی کے جانور ہرگز اپنے ساتھ نہ لاتا اور میں اسے یعنی حج کو عمرہ بنا دیتا۔ )- آپ نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ تم نے کس چیز کا تلبیہ کہا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جو تلبیہ اللہ کے رسول یعنی آپ نے کہا ہے، یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں اب میں یوم النحر تک احرام نہیں کھولوں گا۔ “- اب اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے قربانی کے جانور حج تمتع یا حج قران میں ذبح کئے جانے الے جانور نہ ہوتے تو احرام کھولنے میں آپ کے لئے کوئی چیز رکاوٹ نہ بنتی۔ اس لئے کہ ان جانوروں کو یوم النحر سے پہلے ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔- یہ روایت اس بات کو لازم کردیتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قارن تھے جن لوگوں سے یہ روایت ہے کہ آپ نے حج افراد کیا تھا ان کی یہ روایت ان روایات کی معارض نہیں ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ یہ روایت کثرت روایت اور شہرت کے لحاظ سے ان روایات کے ہم پلہ نہیں ہے جن میں قران کا ذکر ہے۔- دوم یہ کہ حج افراد کا راوی زیادہ سے زیادہ یہ بیان کر رہا ہے کہ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” لبیک لحجۃ “ کہتے ہوئے سنا تھا اور یہ یہ بات اس کی نفی نہیں کرتی کہ آپ قارن نہیں تھے کیونکہ قارن کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ کبھی ” لبیک بعجۃ “ کہے اور کبھی ” لبیک بعمرۃ “ اور کبھی دونوں کا تلبیہ کہے۔- یوم یہ کہ اگر دونوں قسم کی روایتیں نقل اور احتمال کے لحاظ سے یکساں ہوں تو اس صورت میں وہ روایت اولی ہوگی جس میں زائد بات کی خبر دی گئی ہو، جب درج بالا دلائل سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قارن تھے اور آپ کا یہ فرمان بھی ہے (خذواعتی مناسککم جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء پائی جائے۔- ارشاد ربانی بھی ہے۔ فاتبعوہ رسول کی پیروی کرو) نیز یہ ارشاد بھی ہے (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ اللہ کے رسول کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے)- نیز حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ اعمال میں افضل ترین کا انتخاب فرماتے تھے۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن تمتع اور افراد سے افضل ہے۔- اس کی افضلیت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ قران کی صورت میں ایک نسک یعنی قربانی کا اضافہ ہے اس لئے کہ قران کی وجہ سے لازم ہونے والی قربانی ہمارے نزدیک دم نسک یعنی عبادت کے طور پر دی جانے والی قربانی اور قربت الٰہی کا ذریعہ ہے۔- اضحیہ کی طرح اس کا گوشت کھایا جاسکتا ہے۔- اس پر یہ قول باری (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیرہ ثم لیقضوا تفثھم ولیوفرائد ورھم ولیطوفوا بالبیت العتیق ان کا گوشت خود کھائو اور بد حال فقیر کو کھلائو پھر وہ اپنا میل کچیل اتاریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت عتیق یعنی خانہ کعبہ کا خوب خوب طواف کریں) بھی دلالت کرتا ہے کہ جتنی قربانیاں دی جاتی ہیں ان میں صرف تمتع اور قران کی قربانیوں پر یہ افعال مرتب ہوتے ہیں۔- اس کی ا فضیلت پر قول باری (واتموالحج والعمرۃ للہ) دلالت کرتا ہے ہم نے پہلے بیان کر دیاے کہ لفظ تمتع حج کے لئے اسم ہوسکتا ہے کیونکہ حج اور عمرے کو ایک ساتھ ادا کرنے والے کو نفع حاصل ہوتا ہے اور وہ فضیلت کا بھی مستحق قرار پاتا ہے۔ اسی طرح لفظ تمتع اس ارتفاق (نفع اندوز) کے لئے بھی اسم ہوسکتا ہے جس میں کوئی دوسرا سفر کئے بغیر دونوں کی ادائیگی کا نفع حاصل ہوجاتا ہے۔- یہ لفظ تمتع دونوں معنوں پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے اس میں یہ بھی درست ہے کہ آیت میں اس لفظ سے دونوں ہی معنی مراد ہوں اس صورت میں یہ لفظ قارن اور متمتع دونوں پر دو وجہوں سے مشتمل ہوگا۔ اول دونوں کو جمع کرنے کی وجہ سے حاصل ہونے والی فضیلت اور دوم دوسرا سفر کئے بغیر دونوں کی ادائیگی کی ارتفاق کی بنا پر۔- تمتع کی صورت ان لوگوں کے لئے ہے جن کا گھر بار حرم یا حرم کے اردگرد نہ ہو۔ قول باری ہے (ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام) یہ تمتع ان لوگوں کے لئے جن کا گھر بار مسجد حرام یا اس کے اردگردنہ ہو)- جن لوگوں کا گھر بار میقات پر یا میقات سے مکہ مکرمہ کے اندرونی حصے میں ہوا ان کے لئے بھی یہ تمتع نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لئے حج قران ہے۔ یہی ہمارے اصحاب کا قول ہے۔ اگر کسی ایسے شخص نے حج قران یا حج تمتع کا احرام باندھ لیا تو وہ خطار ہوگا۔- اس پر ایک قربانی لازم ہوگی جس کا گوشت اسے کھانے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ یہ دم تمتع نہیں ہوگا بلکہ دم جنا یۃ ہوگا جو اس پر خلاف ورزی کی بن اپر عائد ہوگا۔ اس لئے کہ ان علاقوں میں رہنے والوں کے لئے تمتع نہیں ہے۔ اس کی دلیل ارشاد باری ہے (ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام)- حضرت ابن عمر سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ” جو لوگ مسجد حرام یا اس کے اردگد کے رہنے والے نہ ہوں ان کے لئے تمتع ایک رخصت ہے۔ “ بعض کا قول ہے کہ اس قول کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ ان علاقوں کے رہائشی نہ ہوں اگر وہ تمتع کرلیں تو ان پر قربانی لازم نہیں ہوگی انہیں یہ اجازت ہے کہ وہ قربانی کے بغیر تمتع کریں۔- لیکن ظاہر آیت ان کے اس قول کی تردید کرتا ہے اس لئے کہ ارشاد باری ہے (ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضر المسجد الحرام) یہاں ذلک سے مراد تمتع ہے۔ اگر یہاں قربانی مراد ہوتی تو قرآن کے الفاظ یوں ہوتے۔” ذلک علی من لم یکن الخ “- اگر کوئی کہے کہ آیت سے یہی مراد ہے کیونکہ بعض دفعہ لام حرف علی کے قائم مقام ہوجاتا ہے جیسے کہ ارشاد باری ہے (ولھم اللعنۃ ولھم سواء الدار ان پر لعنت ہے اور ان کے لئے برا ٹھکانہ ہے) یہاں معنی یہ ہے کہ ” وعلیھم اللعنۃ “- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر مجازی معنی کی طرف اسی وقت لے جایا جاتا ہے جب اس کے لئے کوئی دلالت موجود ہو۔ ان حروف میں سے ہر حرف کا ایک حقیقی معنی ہے جس کے لئے یہ حرف وضع کیا گیا ہے۔- اس بناء پر علی کا حقیقی معنی لام کے حقیقی معنی سے مختلف ہے۔ اب لام کو علی کے معنی پر محمول کرنا اسی وقت جائز ہوگا جب اس کی تائید میں کوئی دلیل موجود ہو۔ نیز تمتع تمام آفاقیوں (حرم کے حدود سے باہر جن کا گھر بار ہوا نہیں آفاقی کہا جاتا ہے) کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخفیف کی ایک صورت ہے جس کے ذریعے انہیں ایک نئے سفر کی مشقت سے بچایا گیا ہے اور حج اور عمرہ دونوں کی ادائیگی کے لئے ایک ہی سفر پر انحصار کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ اگر انہیں اس کی اجازت نہ ہوتی تو اس کی وجہ سے انہیں بڑی مشقت اٹھانا پڑتی اور انہیں ضرر لاحق ہوجاتا۔ اس کے برعکس اہالیان مکہ کے لئے اشہر حج کے ماسوا دوسرے مہینوں میں عمرہ ادا کرنے میں کوئی مشقت اور ضرر نہیں ہے۔- اس حقیقت پر بات دلالت کرتی ہے کہ تمتع کا لفظ اس امر کا متقاضی ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کو جمع کر کے فائدہ اٹھایا جائے اور عمرہ کے لئے ایک نئے سفر کی مشقت کو دور کردیا جائے جیسا کہ ان لوگوں سے مروی اقوال میں اس کی یہ تاویلی کی گئی ہے جن کا ذکر ہم گزشتہ سطور میں کر آئے ہیں۔- یہ صورت اس صورت کے مشابہ ہے کہ کوئی شخص بیت اللہ تک پیدل جانے کی نذر مان لے اگر وہ راستے میں کہیں بھی سوار ہوگیا اس پر قربانی لازم آ جائے گی کیونکہ اس نے سواری کا فائدہ اٹھا لیا جو اس کی نذر کے خلاف ہے ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اس قربانی کا گوشت وہ خود نہیں کھا سکے گا۔ جبکہ تمتع کی قربانی کا گوشت خود کھا سکتا ہے۔ لیکن اس نکتے پر ان دونوں صورتوں کا اختلاف ۔ اس نکتے پر ان دونوں کے اتفاق سے مانع نہیں جس کا ہم اوپر کی سطور میں ذکر کر آئے ہیں۔- طائوس سے یہ منقول ہے کہ مکہ والوں کے لئے تمتع نہیں ہے۔ اگر انہوں نے حج تمتع کرلیا تو ان کے ذمہ بھی وہی چیز عائد ہوگی جو دوسرے لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔ طائوس کے اس قول سے یہ مراد لینا جائز ہے کہ اس صورت میں ان پر بھی قربانی لازم ہوگی لیکن یہ قربانی جنایت یعنی خلاف ورزی کی قربانی ہوگی، نسک کی قربانی نہیں ہوگی۔- تمام اہل علم از سلف تاخلف اس پر متفق ہیں کہ ایک شخص اس صورت میں متمتع قرار پائے گا جب وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرے اور پھر اسی سال حج بھی کرلے۔ اگر اس نے ایک سال حج کے مہینوں میں عمرہ کرلیا اور اسی سال کی بجائے اگلے سال حج کیا تو وہ متمتع قرار نہیں پائے گا اور نہ ہی اس پر قربانی لازم آئے گی۔- اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرلے پھر گھر واپس آ جائے اور اسی سال جا کر حج کرلے، آیا وہ متمتع کہلائے گا یا نہیں۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ وہ متمتع نہیں کہلائے گا۔ ان قائلین میں سعید بن المسیب، عطاء بن ابی رباح، طائوس ، مجاہد، ابراہیم نخعی اور حسن بصری شامل ہیں۔ یہی ہمارے اصحاب اور عام فقہاء کا قول ہے۔- اشعت نے حسن بصری سے ایک روایت یہ کی ہے کہ جس شخص نے حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کیا پھر اسی سال حج بھی کرلیا تو وہ متمتع ہے خواہ اس دوران وہ اپنے گھر واپس آیا ہو یا نہ آیا ہو۔- پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے لئے تمتع کی سہولت نہیں پیدا کی اور ان کے علاوہ بقیہ تمام آفاقیوں کے لئے یہ سہولت پیدا کردی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اہل مکہ عمرہ کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ کے پاس جاسکتے تھے اس لئے کہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دینے کا جواز موجود تھا۔- یہی سبب وہاں بھی موجود ہوتا ہے جب کہ ایک شخص عمرہ کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس لئے اس شخص کی حیثیت مکہ والوں جیسی ہوجاتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے متمتع پر قربانی لازم کردی۔ یہ قربانی اس ایک سفر کے بدلے میں لازم ہوتی ہے جس سے یہ شخص بچ جاتا ہے اور ایک ہی سفر پر انحصار کر کے دونوں کام سر انجام دے دیتا ہے۔ اگر ایک شخص نے دونوں سفر کر لئے تو پھر قربانی کسی چیز کی قائم مقام نہیں بنے گی اس لئے یہ واجب ہی نہیں ہوگی۔- فقہاء کا اس شخص کے متعلق بھی اختلاف ہے جو عمرہ ادا کرنے کے بعد مکہ سے نکل کر میقات پار کر جائے لیکن اپنے گھر نہ جائے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر وہ شخص اسی سال حج کرلے تو وہ متمتع کہلائے گا اس لئے کہ جب وہ عمرہ کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ کے پاس نہیں گیا تو اس کے متعلق یہی تصور کیا جائے گا کہ وہ مکہ مکرمہ ہی میں رہا۔- امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ ایسا شخص متمتع نہیں کہلائے گا اس لئے کہ حج کے لئے اس کا میقات اب وہ ہوگا جو اس جگہ کے لوگوں کے لئے ہے جہاں وہ جا کر ٹھہرا تھا۔ اس صورت میں اس کا میقات اس کے اور اہل مکہ کے درمیان والا میقات ہوگا اس لئے اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجائے گی جو اپنے گھر لوٹ آیا ہو۔ لیکن پہلا قول اس دلیل کی بنا پر جو ہم نے بیان کی درست قول ہے۔- اہل علم کا اس شخص کے متعلق بھی اختلاف ہے جس نے رمضان میں عمرہ کا احرام باندھ لیا ہو اور پھر شوال میں یا اس سے قبل مکہ میں داخل ہوا۔ قتادہ نے ابو عیاض سے روای ت کی ہے کہ اس کا عمرہ اسی مہینے میں شمار ہوگا جس میں اس نے عمرہ کا تلبیہ کہا ۔ حسن بصری اور الحکم کا قول ہے کہ اس کا عمرہ اس مہینے میں شمار ہوگا جس میں وہ احرام کھولے گا ابراہیم نخعی سے اسی طرح کی روایت ہے۔- عطاء بن ابی رباح اور طائوس کا قول ہے کہ اس کا عمرہ اس مہینے میں شمار ہوگا جس میں وہ حرم میں داخل ہوگا۔ حسن بصری اور ابراہیم نخعی سے ایک اور روایت بھی ہے کہ اس کا عمرہ اس مہینے میں شمار ہوگا جس میں وہ بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔- ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ بیت اللہ کے طواف کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر اس نے طواف کا اکثر حصہ رمضان میں کرلیا تو وہ متمتع شمار نہیں ہوگا۔ اکثر حصہ شوال میں کیا تو متمتع شمار ہوگا۔ اس لئے کہ ان کے ہاں یہ ایک اصول ہے کہ کسی فعل کے اکثر حصے کی ادائیگی کل کی ادائیگی کے مترادف ہے۔ یعنی اگر کسی فعل کا اکثر حصہ درست طریقے سے کرلیا تو اب اس فعل پر فساد کا درود متمنع ہوجائے گا۔ وہ فعل فاسد ہونے سے بچ جائے گا۔- اس بنا پر اگر اس کا عمرہ رمضان میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو وہ شخص حج اور عمرے کو حج کے مہینوں میں جمع کرنے والا نہیں قرار پائے گا۔ رہا احرام کا باقی رہنا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ فاسد کردیا اور پھر احرام کھول لیا اور اسی سال حج بھی کرلیا تو وہ متمتع نہیں کہلائے گا کیونکہ اس کا عمرہ حج کے مہینوں میں مکمل نہیں ہوا تھا۔- باوجودیکہ حج اور عمرہ دونوں کے احرام کا حج کے مہینوں میں اجتماع ہوگیا تھا۔ اسی طرح اگر کسی نے قرآن کرنے کے لئے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا پھر عمرے کا طواف کرنے سے پہلے وقوف عرفات کرلیا تو وہ متمتع نہیں کہلائے گا۔ اس لئے حج کے مہینوں میں دونوں احراموں کے اجتماع کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ جس چیز کا اعتبار واجب ہے وہ یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں حج کے ساتھ عمرہ کے افعال بھی ادا کرے۔ اسی طرح جن اہل علم کا یہ قول ہے کہ اس کا عمرہ اس مہینے میں شمار ہوگا جس میں وہ عمرے کا تلبیہ کہے گا۔ یہ ایک بےمعنی قول ہے کیونکہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ احرام کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ افعال کا اعتبار ہوگا۔ واللہ اعلم بالصوات ۔- حاضری المسجد الحرام کے متعلق اہل علم کے اختلاف کا ذکر - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں اہل علم کے اختلاف کی چار صورتیں ہیں۔ عطاء اور مکحول کا قول ہے کہ جو لوگ مواقیت کے حدود سے لے کر مکہ مکرمہ تک کے علاقوں میں رہتے ہیں وہ حاضری المسجد الحرام یعنی مسجد حرام کے رہائشی ہیں۔- یہی ہمارے اصحاب کا قول ہے البتہ ہمارے اصحاب یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ مواقیت پر آباد ہیں وہ بھی ان کی طرح ہیں۔ ابن عباس اور مجاہد کا قول ہے کہ یہ اہل حرم ہیں۔ حسن ، طاوس، نافع اور عبدالرحمٰن اعرج کا قول ہے کہ یہ اہل مکہ میں یہی امام مالک کا قول ہے۔- امام شافعی کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے گھر بار دونوں کم مسافت پر واقع ہوں۔ اس طرح یہ فاصلہ مواقیت میں سب سے کم ہے۔ اس سے ماوراء جو لوگ ہوں گے ان پر متعہ ہے یعنی وہ آفاقی ہونے کی وجہ سے حج تمتع کرسکتے ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب میقاتوں پر آباد لوگ اور مواقیت کے حدود کے اندر مکہ مکرمہ تک کے علاقوں میں رہائشی لوگ مکہ مکرمہ میں بغیر احرام کے داخل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے انہیں اہالیان مکہ کی طرح قرار دینا ضروری ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص مکہ مکرمہ سے نکل کر میقات کے حدود کے اندر رہتا ہے تو اسے مکہ مکرمہ کی طرف لوٹنے اور وہاں احرام کے بغیر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے میقات میں یا میقات کے حدود کے اندر تمام تصرفات اور سرگرمیوں کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو مکہ مکرمہ میں کی جانے والی سرگرمیوں کی جاتی ہے۔- اس لئے ضروری ہے کہ تمتع کے حکم میں وہ بمنزلہ اہل مکہ ہوں۔ حرم اور حرم کے قرب و جوار میں رہنے والے ان لوگوں میں سے ہیں جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب ہیں اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے الا الذین عاھد تم عند المسجد الحرام بجز ان لوگوں کے جن کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا)- ان لوگوں میں اہل مکہ شامل نہیں ہیں اس لئے کہ وہ فتح مکہ کے ساتھ ہی اسلام لا چکے تھے جبکہ یہ آیت فتح مکہ کے بعد اس سال نازل ہوئی جس سال حضرت ابوبکر امیر حج بن کر مکہ مکرمہ حج کے لئے گئے تھے، ان لوگوں سے مراد بنو مدلج اور بنو الدئل ہیں۔ ان کے گھر بار مکہ سے باہر حرم اور سا کے قرب و جوار میں تھے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ ذوالحلیفہ والے ان لوگوں میں سے کس طرح ہوں گے جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب ہیں جبکہ ا ن کے اور مکہ مکرمہ کے درمیان دس دنوں کی مسافت ہے، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگرچہ یہ لوگ مسجد حرام کے قریب و جوار والے نہیں ہیں لیکن وہ اس لحاظ سے مسجد حرام کے قرب و جوا میں رہنے والے لوگوں کے حکم میں داخل ہیں کہ انہیں احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔- نیز جب وہ احرام باندھنا چاہیں تو اہل مکہ کی طرح اپنے گھروں سے احرام باندھ سکتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت کا مفہوم یہے کہ ایسے لوگ جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں اور ایسے لوگ جو ان کے حکم میں داخل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قربانی کے اونٹوں کے متعلق فرمایا (ثم محلھا الی البیت العتین پھر ان کی ذبح کی جگہ بیت عتیق یعن قدیم گھرکے پاس ہے۔ )- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (منیٰ متحرو فجاج مکۃ منحر منیٰ قربانی کی جگہ ہے مکہ کی گھاٹیاں اور کشادہ راستے قربانی کی جگہیں ہیں) بیت عتیق کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی مراد مکہ کے قرب و جوار کے علاقے ہیں اگرچہ یہ علاقے مکہ مکرمہ سے باہر ہیں۔- ارشاد باری ہے (والمسجد الحرام الذی جعلناہ للناس سواء ن العاکف قیہ والباد اور اس مسجد حرام کی زیارت سے روک رہے ہیں جسے ہم سے سب لوگوں کے لئے بنایا ہے جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں) یہ مکہ کے قرب و جوار کے علاقے ہیں۔ یہاں تک ہم نے دو متعہ یعنی قران اور تمتع کے احکام بیان کردیے۔- رہی تمتع کی تیسری صورت تو وہ حضرات عبداللہ بن الزبیر اور عرو بن الزبیر کے قول کے مطابق یہ ہے کہ حج افراد کا احرام باندھنے والا کسی بیماری یا کسی اور رکاوٹ کی وجہ سے حالت احصار میں آجائے۔ پھر وہ مکہ معظمہ پہنچ جانے اور اس حج کو عمرہ میں تبدیل کر دے اور اگلے سال حج کی ادائیگی کا فائدہ اٹھا لے۔- یہ شخص آیت (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج) کے زمرے میں آئے گا اور متمتع کہلائے گا۔ ان کا مسلک یہ تھا کہ محصر احرام نہیں کھولے گا بلکہ اپنے احرام کو باقی رکھے گا یہاں تک کہ دسویں ذی الحجہ کو اس کی طرف سے قربانی دے دی جائے گی اس دن وہ حلق کرے گا لیکن اس کا احرام بحالہ باقی رہے گا یہاں تک کہ وہ مکہ معظمہ پہنچ جائے گا اور وہاں عمرہ ادا کرنے کے ذریعے اپنے حج کا احرام کھول دے گا۔- لیکن یہ مسلک اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مخالف ہے کہ (واتموا الحج والعمرۃ للہ فان احصرت م فما استیسرمن الھدی) پھر فرمایا (ولا تحلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حلق کے ذریعے احرام کھولنے کی جو اجازت عطا کی ہے اس میں حج اور عمرے میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔- دوسری طرف اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ حلق عمرے کا احرام کھولنے کے لئے تھا۔ چناچہ حج کے احرام کا بھی یہی حکم ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام جب حدیبیہ میں حالت احصار میں آ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود حلق کر کے احرام کھول دیا اور صحابہ کرام کو بھی حلق کرنے اور احرام کھولنے کا حکم دیا۔- بایں ہمہ حج فوت ہونے کی وجہ سے لازم ہونے والا عمرہ درحققیت عمرہ نہیں ہوتا بلکہ یہ تو صرف حج کا احرام کھولنے کے لئے ادا کیا جاتا ہے۔ جبکہ اللہ سبحانہ نے یہ فرمایا (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج) اب جس شخص کا حج فوت ہوچکا ہو وہ عمرہ ادا کرنے والا نہیں کہلا سکتا۔- نیز ارشاد باری ہے (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج مما استیسر من الھدی) جبکہ اس شخص پر قربانی اس لئے واجب کی گئی کہ وہ اس کے ذریکعے دسویں ذی الحجہ کو حلق کرا سکے خواہ اس کے بعد حج کرے یا نہ کرے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایسا شخص دس سال کے بعد بھی حج کرے تو اس کے ذمہ قربانی اسی طرح لازم رہے گی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت میں جس متمتع کا ذکر ہے یہ وہ نہیں ہے جو ابن الزبیر کے ہاں مراد ہے۔ اس لئے کہ آیت میں جس تمتع کا ذکر ہے اس میں قربانی کا تعلق حج اور عمرہ کی ادائیگی سے ہے اور دم احصار کا تعلق عمرہ کے بعد حج کی ادائیگی سے نہیں ہے۔ اس تمتع سے مراد احرام کھول کر عورتوں سے قربت ہے۔- البتہ یہ قربت صرف اسی طریقے پر ہو جس کا اشہر حج میں حج اور عمرہ کو جمع کرنے کے سلسلے میں ہم ذکر کر آئے ہیں۔- تمتع کی چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یوم النحر سے پہلے حج کا طواف کرنے کے بعد حج فسخ کر دے۔ ہمارے علم میں نہیں ہے کہ حضرت ابن عباس کے سوا کوئی اور صحابی بھی اس کا قائل ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے بیان کیا، انہیں جعفر بن محمد الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں یحییٰ بن سعید نے ابن جریج سے، انہوں نے کہا کہ مجھے عطاء نے حضرت ابن عباس سے خبر دی ہے کہ آپ نے فرمایا :- ” جو شخص بھی بیت کا طواف کرے گا اس کا احرام کھل جائے گا۔ “ میں (ابن جریج) نے کہا : ” یہ تو وقوف عرفات کے بعد ہوتا ہے۔ “ یہ سن کر عطاء نے جواب دیا کہ ابن عباس وقوف عرفات سے قبل اور بعد دونوں صورتوں میں اس کے قائل تھے۔ میں نے عطا سے پھر پوچھا کہ حضرت ابن عباس نے یہ مسلک کہاں سے اختیار کیا تھا۔- انہوں نے جواب دیا۔” یہ مسلک حجتہ الوداع کے موقعہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس حکم سے اخذ کیا تھا جب آپ نے صحابہ کرام کو احرام کھول دینے کے لئے کہا تھا۔ نیز اس ارشاد باری (ثم محلھا الی البیت العتیق) سے بھی انہوں نے استدلال کیا تھا۔- ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں حجاج نے شعبہ سے، انہوں نے قتادہ سے یہ نقل کیا کہ میں نے ابوحسان اعرج کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے عرض کیا کہ آپ کے اس فتوے سے لوگوں میں تفرقہ پڑگیا ہے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کرلیا اس کا احرام کھل گیا۔ حضرت ابن عباس نے یہ سن کر جواب دیا کہ یہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے خواہ یہ تمہیں بری کیوں نہ لگے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ متواتر روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام کو حج فسخ کرنے کا حکم دیا تھا اور صحابہ کرام میں سے کوئی بھی قربانی کے لئے اپنے ساتھ جانور لے کر نہیں آیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود احرام نہیں کھولا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ میں قربانی کے لئے جانور اپنے ساتھ لایا ہوں اس لئے میں دسویں تاریخ تک احرام نہیں کھولوں گا۔- پھر آپ نے صحابہ کرام کو یوم الترویہ یعنی آٹھویں ذی الحجہ کو اس وقت حج کا احرام باندھنے کا حکم دیا جب منیٰ کی طرف جانے کا وقت آگیا۔ یہ صورت متعہ کی ان دو صورتوں میں سے ایک ہے جس کے متعلق حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دو متعہ ایسے تھے جن سے اب میں روکتا ہوں اور اگر کوئی باز نہ آئے تو اسے سزا بھی دیتا ہوں۔ ایک ہی متعہ حج اور دوسرا عورتوں سے متعہ - طارق بن شہاب نے ابو موسیٰ سے حضرت عمر کی نہی کے سلسلے میں یہ نقل کیا ہے کہ میں (ابو موسیٰ ) نے عرض کیا کہ امیر المومنین آپ نے متعہ حج کے متعلق یہ نئی بات کیا بیان کی ہے ؟ حضرت عمر نے جواب میں فرمایا : اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اس میں اللہ کا یہ حکم ہے کہ (واتموا الحج والعمرۃ للہ) اور اگر سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار کریں تو آپ نے قربانی کا جانو ذبح کرنے سے پہلے احرام نہیں کھولا تھا۔- حضرت عمر نے یہ بتادیا کہ یہ متعہ قرآن مجید کی آیت سے منسوخ ہوگیا ہے اور حضرت عمر کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کی وجہ سے سنت منسوخ ہوسکتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ فسخ حج کی یہ صورت صرف حجتہ الوداع کے موقع پر موجود صحابہ کے ساتھ خاص تھی۔- ہمیں جعفر بن محمد نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں نعیم نے عبدالعزیز بن محمد سے، انہوں نے ربیعہ بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے حرث بن بلال بن حرث سے، انہوںں نے اپنے والد بلال بن حرث مزنی سے روایت کی کہ انہوں نے کہا : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ فسخ حج صرف ہمارے لئے ہے اور ہمارے بعد آنے والے لوگوں کے لئے بھی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا :” نہیں، یہ صرف ہمارے لئے ہے۔ “- حضرت ابوذر کا قول ہے : حج کو عمرہ کے ذریعے فسخ کرنا صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص تھا۔ حضرت علی اور صحابہ کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد فسخ حج کے جواز کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔- حضرت عمر کے اس قول سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں دو متعہ تھے۔ نیز ان کے متعلق صحابہ کے علم کی بنا پر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حضرت عمر کی طرح صحابہ کرام کو بھی ان کے منسوخ ہونے کا علم تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو صحابہ کرام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس سنت پر عمل درآمد کی ممانعت کو کبھی تسلیم نہ کرتے۔ انہیں اس کے منسوخ ہونے کا علم تھا جس کی بنا پر حضرت عمر کی نہی کو انہوں نے تسلیم کرلیا۔- حضرت جابر سے صحیح روایات کے ذریعے یہ منقول ہے کہ حضرت سراقہ بن مالک نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یہ ہمارا عمرہ صرف اسی سال کے لئے یا ہمیشہ کے لئے، آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ” یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے، عمرہ قیامت کے لئے حج میں داخل ہوگیا۔ “- اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے یہ عمرہ جس کے ذریعے صحابہ کرام نے حج فسخ کردیا تھا وہ صرف اسی حالت کے ساتھ مخصوص تھا۔ اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔ رہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ (دخلت العمرۃ فی الحج الی یوم القیامۃ، قیامت تک کے لئے عمرہ حج میں داخل ہوگیا)- تو ہمیں اس کی روایت محمد بن جعفر واسطی نے کی ہے۔ انہیں محمد بن جعفر بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں یحییٰ بن سعید نے جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت جابر سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول کہ (دخلت العمرۃ فی الحج الی یوم السامۃ اس کی دو طرح سے تشریح کی گئی ہے۔ اول یہ کہ عمرہ کا حج میں داخل ہونے کا مطلب فسخ حج ہے۔ - اس کی صور تیہ ہے کہ محرم حج کا تلبیہ پڑھے پھر بیت اللہ کا طواف کر کے عمرہ ادا کرنے کے ذریعے حج کا احرام کھول دے۔ دوم یہ کہ اس سے مراد متعہ حج ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اشہر حج میں پہلے تنہا عمرہ کرے پھر احرام کھول دے اور پھر اسی سال حج کرے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان دونوں تشریحوں میں ایسا التباس ہے جو الفاظ حدیث سے مناسبت نہیں رکھتا۔ حدیث کے الفاظ کا ظاہر جس مفہوم کا تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ حج عمرہ کا قائم مقام ہے اور عمرہ حج میں داخل ہے۔ اس لئے جس شخص نے حج ادا کرلیا تو اس کی یہ ادائیگی عمرہ کے لئے بھی کافی ہوگئی۔- ٹھیک اسی طرح جیسے کہ کوئی شخص احرام باندھ لیتا ہے اور حج یا عمرے کا نام نہیں لیتا ہے تو اسے یہی کہا جائے گا کہ اگر وہ چاہے تو اسے عمرہ قرار دے۔ اگرچہ صحابہ کرام کا اسے حج کا نام دینا درست نہیں تھا کیونکہ انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے کا اتنظار کرنے کے لئے کہا گیا تھا کہ آپ کیا کرتے ہیں اس لئے ان صحابہ کرام کی خصوصیت کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے حج کا احرام باندھ لیا تھا جبکہ ان کے لئے حج کی تعیین درست نہیں تھی۔- اس بنا پر ان کی حیثیت اس شخص کی طرح تھی جو احرام باندھ لے لیکن کسی معین شے یعنی حج یا عمرے کی نیت نہ کرے۔ وجہ سا کی یہ تھی کہ صحابہ کرام کو یہ حکم ملا تھا کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے کا اتنظار کریں کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ اس بنا پر یہ کیفیت صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص ہوگئی تھی۔- اس کے برعکس بقیہ تمام لوگوں کے لئے یہ قاعدہ ہے کہ جو شخص بھی کسی معین شے یعنی حج یاعمرے کی نیت کے ساتھ احرام باندھے گا اس کا حکم اس پر لازم ہوجائے گا اور اسے اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اسے چھوڑ کر کوئی چیز اختیار کرے۔- کچھ لوگوں نے سرے سے یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی طرح بھی فسخ حج کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو زید بن ہارون نے بیان کی ہے انہیں محمد بن عمر نے یحییٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب سے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جب نکلے تو ہم تلبیہ کہنے کے لحاظ سے مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔- ہم میں سے کچھ ایسے تھے جو صرف حج کا تلبیہ کہتے تھے۔ کچھ عمرے کا تلبیہ کہتے تھے اور کچھ حج اور عمرہ دونوں کا جن لوگوں نے صرف حج کا تلبیہ کہا تھا وہ مناسک حج ادا کرنے تک احرام سے باہر نہیں آئے اور جن لوگوں نے عمرے کا تلبیہ کہا تھا وہ طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بعد احرام سے باہر آ گئے اور حج کا انتظار کرنے لگے۔- (آیت 196 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
(١٩٧) حج کے مشہور مہینے ہیں جن میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے یعنی (١) شوال (٢) ذی قعدہ (٣) دس دن ذی الحجہ کے ہیں۔- لہذا جو آدمی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھ لے تو نہ ہمبستری کرے اور نہ اس قسم کی باتیں کرے اور گالی گلوچ دینے اور اپنے ساتھی سے لڑائی جھگڑا کرنے سے پرہیز کرے، اور ایک تفسیر یہ بھی گی گئی ہے کہ حج کی فرضیت میں کوئی جھگڑا اور بحث نہیں۔- اور احرام کی حالت میں ہمبستری اور اس کے تذکرہ اور گالی گلوچ اور جھگڑے کو جو بھی تم میں سے ان باتوں کو چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا، اے عقل والوں سامان سفر بھی ساتھ رکھو اس مقام پر تقدیم وتاخیر ہے، مطلب یہ ہے کہ عقل والو دنیاوی ضرورتوں کے لیے بھی سفر میں اتنی چیز ساتھ رکھو اس مقام پر تقدیم وتاخیر ہے، مطلب یہ ہے کہ عقل والو دنیاوی ضرورتوں کے لیے بھی سفر میں اتنی چیز ساتھ رکھو اور جو وہاں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کفایت کرے ورنہ پھر اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل کرلو، اس لیے کہ توکل دنیاوی فوائد سے بدرجہا بہتر ہے اور حدود حرم میں مجھ سے ڈرتے رہو، یہ آیت کریمہ یمن کے کچھ لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو سامان سفر اور خوراک کے بغیر حج کرنے چلے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز سے روک دیا۔- شان نزول : (آیت) ” وتزودوا “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) وغیرہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اہل یمن بغیر زادراہ کے حج کا سفر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ پر توکل کرنے والے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا اور زادراہ ساتھ رکھو (یعنی اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے) کیوں کہ سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے۔
پچھلے رکوع سے مناسک حج کا تذکرہ شروع ہوچکا ہے۔ اب اس پچیسویں رکوع میں حج کا اصل فلسفہ ‘ اس کی اصل حکمت اور اس کی اصل روح کا بیان ہے۔ فرمایا : - آیت ١٩٧ (اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌج ) ۔ - یعنی عرب میں جو بھی پہلے سے رواج چلا آ رہا تھا اس کی توثیق فرما دی گئی کہ واقعی حج کے مواقیت کا تعین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ّ- (فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ ) - لازم کرنے سے مراد حج کا عزم اور نیت پختہ کرنا ہے اور اس کی علامت احرام باندھ لینا ہے۔- (فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَلاَ جِدَالَ فِی الْْحَجِّ ط) ۔ - زمانۂ حج میں جن باتوں سے روکا گیا ہے ان میں اوّلین یہ ہے کہ شہوت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ میاں بیوی بھی اگر ساتھ حج کر رہے ہوں تو احرام کی حالت میں ان کے لیے وہی قید ہے جو اعتکاف کی حالت میں ہے۔ باقی یہ کہ فسوق وجدال یعنی اللہ کی نافرمانی اور باہم لڑائی جھگڑا تو ویسے ہی ناجائز ہے ‘ دورانِ حج اس سے خاص طور پر روک دیا گیا۔ اس لیے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے ‘ سفر میں بھی لوگ ساتھ ہوتے ہیں۔ اس حالت میں لوگوں کے غصوں کے پارے جلدی چڑھ جانے کا امکان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے خاص طور پر روکا گیا تاکہ مناسک حج کی ادائیگی کے دوران امن اور سکون ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ آج بھی یہ بات معجزات میں سے ہے کہ دنیا بھر سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے کے باوجود وہاں امن و سکون رہتا ہے اور جنگ وجدال اور جھگڑا و فساد وغیرہ کہیں نظر نہیں آتا۔ مجھے الحمد للہ پانچ چھ مرتبہ حج کی سعادت حاصل ہوئی ہے ‘ لیکن وہاں پر جھگڑا اور گالم گلوچ کی کیفیت میں نے کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ - (وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ ط) ۔ - حج کے دوران مناسک حج پر مستزاد جو بھی نیکی کے کام کرسکو ‘ مثلاً نوافل پڑھو یا اضافی طواف کرو تو تمہاری یہ نیکیاں اللہ کے علم میں ہوں گی ‘ کسی اور کو دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ - (وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّاد التَّقْوٰیز) ۔ - اس کے دو معنی لیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ یعنی سفر حج میں مادی زاد راہ کے علاوہ تقویٰ کی پونجی بھی ضروری ہے۔ اگر آپ نے اخراجات سفر کے لیے روپیہ پیسہ تو وافر لے لیا ‘ لیکن تقویٰ کی پونجی سے تہی دامن رہے تو دورانِ حج اچھی سہولیات تو حاصل کرلیں گے مگر حج کی روح اور اس کی برکات سے محروم رہیں گے۔- لیکن اس کا ایک دوسرا مفہوم بھی بہت اہم ہے کہ اگر انسان خود اپنا زاد راہ ساتھ نہ لے تو پھر وہاں دوسروں سے مانگنا پڑتا ہے۔ اس طرح یہاں تقویٰ سے مراد سوال سے بچنا ہے۔ یعنی بہتر یہ ہے کہ زاد راہ لے کر چلو تاکہ تمہیں کسی کے سامنے سائل نہ بننا پڑے۔ اگر تم صاحب استطاعت نہیں ہو تو حج تم پر فرض ہی نہیں ہے۔ اور ایک شے جو تم پر فرض نہیں ہے اس کے لیے خواہ مخواہ وہاں جا کر بھیک مانگنا یا یہاں سے بھیک مانگ کر یا چندہ اکٹھا کر کے جانا قطعاً غلط حرکت ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :214 احرام کی حالت میں میاں اور بیوی کے درمیان نہ صرف تعلق زن و شو ممنوع ہے ، بلکہ ان کے درمیان کوئی ایسی گفتگو بھی نہ ہونی چاہیے ، جو رغبت شہوانی پر مبنی ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :215 تمام معصیت کے افعال اگرچہ بجائے خود ناجائز ہیں ، لیکن احرام کی حالت میں ان کا گناہ بہت سخت ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :216 حتیٰ کہ خادم کو ڈانٹنا تک جائز نہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :217 جاہلیت کے زمانے میں حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے کر نکلنے کو ایک دنیا دارانہ فعل سمجھا جاتا تھا اور ایک مذہبی آدمی سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ خدا کے گھر کی طرف دنیا کا سامان لیے بغیر جائے گا ۔ اس آیت میں ان کے اس غلط خیال کی تردید کی گئی ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ زاد راہ نہ لینا کوئی خوبی نہیں ہے ۔ اصل خوبی خدا کا خوف اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے اجتناب اور زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے ۔ جو مسافر اپنے اخلاق درست نہیں رکھتا اور خدا سے بے خوف ہو کر برے اعمال کر تا ہے ، وہ اگر زاد راہ ساتھ نہ لے کر محض ظاہر میں فقیری کی نمائش کرتا ہے ، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ ذلیل ہو گا اور اپنے اس مذہبی کام کی بھی توہین کرے گا ، جس کے لیے وہ سفر کر رہا ہے ۔ لیکن اگر اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کے اخلاق درست ہوں ، تو خدا کے ہاں بھی اس کی عزت ہوگی اور خلق بھی اس کا احترام کرے گی ، چاہے اس کا توشہ دان کھانے سے بھرا ہوا ہو ۔
130: بعض لوگ حج کو روانہ ہوتے وقت اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان ساتھ نہیں رکھتے تھے، ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہوئے حج کریں گے، لیکن جب راستے میں کھانے کی ضرورت پڑتی توبسا اوقات وہ لوگوں سے مانگنے پر مجبور ہوجاتے تھے، اس آیت کریمہ نے یہ بتلایا کہ توکل کا یہ مطلب نہیں ہوتا کے انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے، بلکہ اسباب کو اختیار کرنا شریعت کا تقاضا ہے، اور بہترین زاد راہ تقوی ہے، یعنی وہ زاد راہ جس کے ذریعے انسان دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے محفوظ رہے۔